Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 69
سورة الشعراء
وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۶۹﴾
And recite to them the news of Abraham,
انہیں ابراہیم ( علیہ السلام ) کا واقعہ بھی سنا دو ۔
وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۶۹﴾
And recite to them the news of Abraham,
انہیں ابراہیم ( علیہ السلام ) کا واقعہ بھی سنا دو ۔
How the Close Friend of Allah, Ibrahim spoke out against Shirk Allah commanded His Messenger to: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ And recite to them the story of Ibrahim. Here Allah tells us about His servant, Messenger and Close Friend, Ibrahim, upon him be peace, the leader of the pure monotheists. Allah commanded His Messenger Muhammad to recite this story to his Ummah so that they could follow this example of sincerity towards Allah, putting one's trust in Him, worshipping Him Alone with no partner or associate, and renouncing Shirk and its people. Allah granted guidance to Ibrahim before, i.e., from a very early age he had denounced his people's practice of worshipping idols with Allah, may He be exalted. Allah tells: إِذْ قَالَ لاَِبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ
ابراہیم علیہ السلام علامت توحیدی پرستی تمام موحدوں کے باپ اللہ کے بندے اور رسول اور خلیل حضرت ابراہیم علیہ افضل التحیۃ والتسلیم کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو یہ واقعہ سنادیں ۔ تاکہ وہ اخلاص توکل اور اللہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ کی اقتدا کریں ۔ آپ اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے ۔ اپنی قوم سے اور اپنے باپ سے فرمایا کہ یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی مجاوری اور عبادت کرتے چلے آتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انکی اس غلطی کو ان پر وضح کرکے ان کی غلط روش بےنقاب کرنے کے لئے ایک بات اور بھی بیان فرمائی کہ تم جو ان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں؟ یا جس نفع کے حاصل کرنے کے لئے تم انہیں بلاتے ہو وہ نفع تمہیں وہ پہنچاسکتے ہیں؟ یا اگر تم انکی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ اس کا جواب جو قوم کی جانب سے ملا وہ صاف ظاہر ہے کہ انکے معبود ان کاموں میں سے کسی کام کو نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم تو اپنے بڑوں کی وجہ سے بت پرستی پر جمے ہوئے ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے ان سے اور ان کے معبودان باطلہ سے اپنی برات اور بیزاری کا اعلان کردیا ۔ صاف فرمادیا کہ تم اور تمہارے معبود سے میں بیزار ہوں ، جن کی تم اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ۔ ان سب سے میں بیزار ہوں وہ سب میرے دشمن ہیں میں صرف سچے رب العلمین کا پرستار ہوں ۔ میں موحد مخلص ہوں ۔ جاؤ تم سے اور تمہارے معبودوں سے جو ہوسکے کر لو ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا تم اور تمہارے سارے معبود مل کر اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہوں تو کمی نہ کرو ۔ حضرت ہود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا میں تم سے اور تمہارے اللہ کے سوا باقی معبودوں سے بیزار ہوں تم سب اگر مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو تو جاؤ پہنچالو ۔ میرا بھروسہ اپنے رب کی ذات پر ہے تمام جاندار اسکے ماتحت ہیں وہ سیدھی راہ والا ہے اسی طرح خلیل الرحمن علیہ صلوات الرحمن نے فرمایا کہ میں تمہارے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا ۔ ڈر تو تمہیں میرے رب سے رکھنا چاہئے ۔ جو سچا ہے آپ نے اعلان کردیا تھا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مجھ میں تم میں عداوت ہے ۔ میں اے باپ تجھ سے اور تیری قوم سے اور تیرے معبودوں سے بری ہوں ۔ صرف اپنے رب سے میری آرزو ہے کہ وہ مجھے راہ راست دکھلائے اسی کو یعنی لا الہ الا اللہ کو انہوں نے کلمہ بنالیا ۔
[٤٨] حضرت ابراہیم کا قصہ قریش مکہ سے گہری مناسب رکھتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کا پیروکار ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ حضرت ابراہیم وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی شرک کے خلاف جہاد میں گزاری اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ جبکہ قریش مکہ اپنے اس اتباع ابراہیمی کے دعویٰ کے باوجود سر سے پاؤں تک شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھیں یہ اعتراف بھی تھا کہ حضرت ابراہیم خالصتؤہ توحید پرست اور شرک سے سخت بیزار تھے اور یہ بھی اعتراف تھا کہ عرب میں شرکیہ رسوم حضرت ابراہیم کی وفات کے صدیوں بعد رائج ہوئیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم بھی سر تا پا شرک میں مبتلا تھی۔ دوسروں کا کیا ذکر آپکا باپ آزر نمرود کے دربار میں شاہی مہنت تھا۔ وہ خو بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ اس کا ذریعہ معاشی بھی بت گری اور بت فروشی تھا۔ اور جاہ و منصب بھی اسے اسی وجہ سے حاصل ہوا۔ ایسے باپ کے گھر اور ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم پیدا ہو وے۔ نبوت عطا ہوئی تو سب سے پہلے اپنے باپ کو ہی سمجھانا شروع کیا اور پھر اس کے بعد دوسرے لوگوں کو اپنے آپ اور اپنی قوم سے ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ ان پتھر کے بتوں اور مورتیوں میں کیا خصوصیت ہے تو جو تم ان کی پوجا کرتے ہو۔ آخر تم ان کو کیا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے ہو اور ان کی نذریں نیازیں دیتے ہو ؟
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ : سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدت غم کا ذکر فرمایا، جو آپ کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر لاحق ہوئی تھی۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کا بیان فرمایا، تاکہ آپ کو تسلی ہو اور آپ کو یاد رہے کہ نہ آپ پہلے رسول ہیں اور نہ ہی آپ کی قوم جھٹلانے میں پہلی ہے، بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے عظیم الشان معجزے لے کر آنے کے باوجود قبطیوں کے بہت ہی کم لوگ ان پر ایمان لائے۔ اس کے بعد ابو الانبیاء ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا جو خلیل اللہ کے بلند منصب پر فائز تھے، تاکہ آپ کے سامنے وہ شخصیت بھی رہے جس کا غم بھی بےانتہا تھا، کیونکہ وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کو آگ میں جاتے ہوئے دیکھتا تھا، مگر انھیں اس سے بچا نہ سکتا تھا۔ اس نے انھیں ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ دلیل کے ساتھ انھیں بالکل لاجواب کردیا، مگر انھوں نے نہیں مانا، بلکہ آباء کی تقلید ہی پر جمے رہے۔ فرمایا : ” اور ان (مشرکین مکہ) کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) کی عظیم خبر بھی پڑھ۔ “
خلاصہ تفسیر اور آپ ان لوگوں کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجئے (تاکہ ان کو شرک کی مذمت کے دلائل معلوم ہوں، خصوص ابراہیم (علیہ السلام) سے منقول ہو کر، کیونکہ یہ مشرکین عرب اپنے کو ملت ابراہیمیہ پر بتلاتے ہیں اور وہ قصہ اس وقت ہوا تھا، جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے (جو کہ بت پرست تھی) فرمایا کہ تم کس (واہیات) چیز کی عبادت کیا کرتے ہو، انہوں نے کہا ہم بتوں کی عبادت کیا کرتے ہیں اور ہم انہی (کی عبادت) پر جمے بیٹھے رہتے ہیں، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم ان کو (اپنی عرض حاجت کے وقت) پکارا کرتے ہو یا (تم جو ان کی عبادت کرتے ہو تو کیا) یہ تم کو کچھ نفع پہنچاتے ہیں یا (اگر تم ان کی عبادت ترک کردو تو کیا) یہ تم کو کچھ ضرر پہنچا سکتے ہیں (یعنی استحقاق الوہیت کے لئے علم اور قدرت کاملہ تو ضروری ہے ان لوگوں نے کہا نہیں (یہ بات تو نہیں ہے کہ یہ کچھ سنتے ہوں یا نفع و ضرر پہنچا سکتے ہوں اور ان کی عبادت کرنے کی یہ وجہ نہیں، بلکہ ہم نے اپنے بڑوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے (اس لئے ہم بھی وہی کرتے ہیں) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بھلا تم نے ان (کی حالت) کو (غور سے) دیکھا بھی جن کی تم عبادت کیا کرتے ہو تم بھی اور تمہارے پرانے بڑے بھی کہ یہ (معبودین) میرے (یعنی تمہارے لئے) باعث ضرر ہیں (یعنی اگر ان کی عبادت کی جاوے خواہ نعوذ باللہ میں کروں یا تم کرو تو بجز ضرر کے اور کوئی نتیجہ نہیں) مگر ہاں رب العالمین (ایسا ہے کہ وہ اپنے عابدین کا دوست ہے اور اس کی عبادت سرتا سر نافع ہے) جس نے مجھ کو (اور اسی طرح سب کو) پیدا کیا، پھر وہی مجھ کو (میری مصلحتوں تک) رہنمائی کرتا ہے (یعنی عقل و فہم دیتا ہے جس سے نفع و ضرر کو سمجھتا ہوں) اور جو مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں (جس کے بعد شفاء ہوجاتی ہے) تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے اور جو مجھ کو (وقت پر) موت دے گا پھر (قیامت کے روز) مجھ کو زندہ کرے گا اور جس سے مجھ کو یہ امید ہے کہ میری غلط کاری کو قیامت کے روز معاف کر دے گا ( یہ تمام تر صفات اس لئے سنائیں کہ قوم کو خدا تعالیٰ کی عبادت کی رغبت ہو پھر صفات کمال بیان فرماتے فرماتے غلبہ حضور سے حق تعالیٰ سے مناجات کرنے لگے کہ) اے میرے پروردگار مجھ کو حکمت (یعنی جامعیت بین العلم والعمل میں زیادہ کمال) عطا فرما (کیونکہ نفس حکمت تو وقت دعا کے بھی حاصل ہے اور (مراتب قرب میں) مجھ کو (اعلی درجہ کے) نیک لوگوں کے ساتھ شامل فرما (مراد انبیاء عالیشان ہیں) اور میرا ذکر آئندہ آنے والوں میں جاری رکھ (تاکہ میرے طریقہ پر چلیں جس میں مجھ کو زیادہ ثواب ملے) اور مجھ کو جنت النعیم کے مستحقین میں سے کر اور میرے باپ (کو توفیق ایمان کی دے کر اس) کی مغفرت فرما کہ وہ گمراہ لوگوں میں ہے اور جس روز سب زندہ ہو کر اٹھیں گے اس روز مجھ کو رسوا نہ کرنا۔ آگے اس دن کے بعض واقعات ہائلہ کا بھی ذکر فرما دیا تاکہ قوم سنے اور ڈرے یعنی وہ ایسا دن ہوگا) جس دن میں کہ (نجات کے لئے) نہ مال کام آوے گا نہ اولاد مگر ہاں (اس کو نجات ہوگی) جو اللہ کے پاس (کفر و شرک سے) پاک دل لے کر آوے گا اور (اس روز) خدا ترسوں (یعنی ایمان والوں) کے لئے جنت نزدیک کردی جاوے گی (کہ اس کو دیکھیں اور یہ معلوم کر کے کہ ہم اس میں جاویں گے خوش ہوں) اور ان گمراہوں (یعنی کافروں) کے لئے دوزخ سامنے ظاہر کی جاوے گی (کہ اس کو دیکھ کر غمزدہ ہوں کہ ہم اس میں جاویں گے) اور (اس روز) ان (گمراہوں) سے کہا جاوے گا کہ وہ معبود کہاں گئے جن کی تم خدا کے سوا عبادت کیا کرتے تھے کیا (اس وقت) وہ تمہارا ساتھ دے سکتے ہیں یا اپنا ہی بچاؤ کرسکتے ہیں پھر (یہ کہہ کر) وہ (عابدین) اور گمراہ لوگ اور ابلیس کا لشکر سب کے سب دوزخ میں اوندھے منہ ڈال دیئے جاویں گے (بس وہ بت اور شیاطین نہ اپنے کو بچا سکے نہ اپنے عابدین کو) وہ کافر اس دوزخ میں گفتگو کرتے ہوئے (ان معبودین سے) کہیں گے کہ بخدا بیشک ہم صریح گمراہی میں تھے جبکہ تم کو (عبادت میں) رب العالمین کے برابر کرتے تھے اور ہم کو تو بس ان بڑے مجرموں نے (جو کہ بانی ضلالت تھے) گمراہ کیا سو (اب) نہ کوئی ہمارا سفارشی ہے (کہ چھڑا لے) اور نہ کوئی مخلص دوست (کہ خالی دلسوزی ہی کرلے) سو کیا اچھا ہوتا کہ ہم کو (دنیا میں) پھر واپس جانا ملتا کہ ہم مسلمان ہوجاتے (یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر ہوگئی آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) بیشک اس واقعہ (مناظرہ ابراہیمیہ و نیز واقعہ قیامت) میں (بھی طالبان حق اور انجام اندیشوں کے لئے) ایک عبرت ہے (کہ مضامین مناظرہ میں غور کر کے توحید کا اعتقاد کریں اور واقعات قیامت سے ڈریں اور ایمان لاویں) اور (باوجود اس کے) ان (مشرکین مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے بیشک آپ کا رب بڑا زبردست رحمت والا ہے (کہ عذاب دے سکتا ہے مگر مہلت دے رکھی ہے۔ )
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ اِبْرٰہِيْمَ ٦٩ۘ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
(٦٩) اور آپ اپنی قوم یعنی قریش کے سامنے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجیے۔
50 This part of the life-history of Prophet Abraham relates to the time when after his appointment to Prophethood, a conflict had started between him and his people on the questions of shirk and Tauhid. In this connection, the reader should also see Al-Baqarah: 258-260, Al-An`am: 75-83, Maryam: 41-50, Al-Anbiya': 51-70, As- Saffat: 83-113, and Al-Mumtahanah: 4-5. The Qur'an has specially repeated this part of Prophet Abraham's lifestory over and over again because the Arabs in general and the Quraish in particular regarded themselves as his followers and professed his way and creed. Besides them, the Christians and the Jews also claimed that Abraham was their religious leader and guide. That is why the Qur'an admonishes them over and over again that the creed brought by Abraham was Islam itself, which is now being presented by the Holy Prophet Muhammad (Allah's peace be upon him), and which they are opposing tooth and nail. Prophet Abraham was not a mushrik, but an antagonist against shirk, and for the same reason he had to leave his home and country and live as a migrant in Syria, Palestine and Hejaz. Thus he was neither a Jew nor a Christian, because Judaism and Christianity appeared centuries after him. This historical argument could neither be refuted by the mushriks, nor by the Jews or the Christians, because the mushriks themselves admitted that idol-worship in Arabia had started several centuries after Prophet Abraham, and the Jews and the Christians also could not deny that Prophet Abraham had lived long before the beginning of Judaism and Christianity. This obviously meant that the special beliefs and customs which those people thought formed the basis of their religion, were not part of the original religion taught by Prophet Abraham. True religion was the one which had no tinge of those impurities, but was based on those worship and obedience of One Allah alone. That is why the Qur`an says: "Abraham was neither a Jew nor a Christian, but he was a Muslim, sound in the Faith, and he was not of those who set up partners with Allah. Surely only those people who follow Abraham are entitled to claim a relationship with him. Now this Prophet and the believers are better entitled to this relationship." (AIAn'am: 67, 68).
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :50 یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کے اس دور کا قصہ بیان ہوا ہے جبکہ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد شرک و توحید کے مسئلے پر آپ کی اپنے خاندان اور اپنی قوم سے کشمکش شروع ہوئی تھی ۔ اس دور کی تاریخ کے مختلف گوشے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر بیان ہوئے ہیں : البقرہ رکوع 35 ۔ الانعام رکوع 9 ۔ مریم رکوع 3 ۔ الانبیاء رکوع 5 ۔ الصّٰفّٰت رکوع 3 ۔ الممتحنہ رکوع 1 ) ۔ سیرت ابراہیمی کے اس دور کی تاریخ خاص طور پر جس وجہ سے قرآن مجید بار بار سامنے لاتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ بالعموم اور قریش بالخصوص اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیرو سمجھتے اور کہتے تھے اور یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ ملت ابراہیمی ہی ان کا مذہب ہے ۔ مشرکین عرب کے علاوہ نصاریٰ اور یہود کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے دین کے پیشوا ہیں ۔ اس پر قرآن مجید جگہ جگہ ان لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جو دین لے کر آئے تھے وہ یہی خالص اسلام تھا جسے نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جس سے آج تم لوگ برسر پیکار ہو ۔ وہ مشرک نہ تھے بلکہ ان کی ساری لڑائی شرک ہی کے خلاف تھی اور اسی لڑائی کی بدولت انہیں اپنے باپ ، خاندان ، قوم ، وطن سب کو چھوڑ کر شام و فلسطین اور حجاز میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی تھی ۔ اسی طرح وہ یہودی و نصرانی بھی نہ تھے بلکہ یہودیت و نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد وجود میں آئیں ۔ اس تاریخی استدلال کا کوئی جواب نہ مشرکین کے پاس تھا نہ یہود و نصاریٰ کے پاس ، کیونکہ مشرکین کو بھی یہ تسلیم تھا کہ عرب میں بتوں کی پرستش حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کئی صدی بعد شروع ہوئی تھی ، اور یہود و نصاریٰ بھی اس سے انکار نہ کر سکتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے تھا ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ جن مخصوص عقائد اور اعمال پر یہ لوگ اپنے دین کا مدار رکھتے ہیں وہ اس دین قدیم کے اجزاء نہیں ہیں جو ابتدا سے چلا آ رہا تھا ، اور صحیح دین وہی ہے جو ان آمیزشوں سے پاک ہو کر خالص خدا پرستی پر مبنی ہو ۔ اسی بنیاد پر قرآن کہتا ہے : مَا کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیاً وَّ لَا نَصْرَانِیاً وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمِنُوْا مَعَہٗ ۔ ( آل عمران ۔ آیات 67 ۔ 68 ) ۔ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا ۔ اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھا ۔ درحقیقت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کے طریقے کی پیروی کی ( اور اب یہ حق ) اس نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو ( پہنچتا ہے ) ۔
٦٩ تا ٨٥:۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی نیک راہ کی ہدایت دی اور بڑے ہونے تک وہ اپنی قوم کو بتوں کی عبادت سے منع کرتے رہے یہی ذکر ان آیتوں میں ہے کہ انہوں نے اپنے باپ اور قوم سے کہا کہ تم ان بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو کیا سنتے ہیں جب پکارتے ہو تم ان کو یا بھلا کرتے ہیں تمہارا یا کچھ برا کرتے ہیں ان بت پرستوں نے جواب دیا کہ یہ بت نہ تو ہماری التجا کو سنتے ہیں نہ ہمارے بھلے برے کے کچھ مختار ہیں لیکن ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کہ ان کو ایسا ہی کرتے دیکھا اس واسطے ہم ان کے ہی قدموں پر چل رہے ہیں لفظ ھل عربی زبان میں ایسے ہی موقع پر آتا ہے کہ جس سے اس لفظ سے پہلی بات کا انکار اور بعد کی بات کا اقرار نکلتا ہے اس لیے ان لوگوں نے گویا یہ اقرار کیا کہ ان بتوں کے پوجنے پر ہمارے پاس کوئی دلیل سوائے باپ دادا کی پیروی کے نہیں ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اب دیکھو تم جن کو تم اور تمہارے باپ دادا اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ میرے دشمن ہیں اور میں ان کا دشمن ہوں یہ آیت مثل اس کے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے قول کی خبر دی ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ‘ (یا قوم ان کان کبر علیکم مقامی وتذکیری بایت اللہ فعلی اللہ توکلت فاجمعوا امرکم وشرکاء کم ثم لا یکن امرکم علیکم غمۃ ثم اقضوا الی ولا تنظرون) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے سمجھانے سے اے قوم کے لوگو تم برا مانتے ہو تو جو کچھ تم کرسکو میرا کرو اسی طرح اپراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ میں تمہارے بتوں کا دشمن ہوں تم سے اور تمہارے بتوں سے میرے ساتھ جو بدسلوکی ہو سکے وہ کرو۔ فرعون کے قصہ سے قریش کو ڈرا کر اب ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ سے ان میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو تمہارے پیشوا ہیں باپ دادا کی راہ کو غلط دیکھ کر ترک کردیا اسی طرح تم کو باپ دادا کی راہ غلط کو چھوڑنا چاہیے پھر آگے کی آیتوں میں حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان فرمائے کہ اس نے مجھ کو پیدا کیا وہی مجھے ہدایت کرتا ہے اور کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے ‘ اور وہی مجھ کو مارے گا اور جلاوے گا اور اسی سے مجھ کو امید ہے کہ بخشے گا قیامت کے دن میرے قصور غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان اوصاف کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ میں نہیں پوجتا مگر اس ذات پاک کو کہ جو یہ تمام باتیں کرنے والا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا مانگی کہ اے میرے رب دے مجھ کو نبوت اور ملا نیکوں میں اور کر میرا بول سچا پچھلوں میں مطلب یہ ہے کہ میرے خاندان میں آخری زمانہ میں نبی پیدا ہوں اور میرا دین قائم رکھیں اور میری پیروی کریں جیسا کہ فرمایا (وترکنا علیہ فی الاخرین سلام علی ابراھیم کذالک نجزی المحسنین) مجاہد وقتادہ بھی یہ کہتے ہیں کہ لسان صدق سے مراد اچھی تعریف ہے اور یہ آیت مثل اس قول کے ہے نجزی المحسنین مجاہد وقتادہ بھی یہ کہتے ہیں کہ لسان صدق سے مراد اچھی تعریف ہے اور یہ آیت مثل اس قول کے ہے وآتیناہ فی الدنیا حسنہ سدی نے کہا کہ مراد حکم سے نبوت ہے اور یہ جو فرمایا کہ ملا مجھ کو نیکوں میں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ دنیا اور آخرت میں نیکوں کے ساتھ رکھ جس طرح پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخر وقت یہ دعا تین بار پڑھی اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ صحیح بخاری کی حضرت عائشہ (رض) کی بعض روایتوں میں فیِ الرَّفِیْقِ الْاَ عْلٰی کے بعد مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین بھی آیا ١ ؎ ہے جس سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعا کا یہ مطلب ہے کہ یا اللہ مجھ کو وفات کے بعد انبیاء کے گروہ میں ملا کر جنت کے وارثوں میں کر اور دنیا میں ذکر خیر باقی رکھ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ٢ ؎ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر باوجود اس کے جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مجرم نہیں اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف اور بتوں کی مذمت کا ذکر کر کے اپنے باپ اور اپنی قوم کو یہ جتلایا ہے کہ جب ان بتوں میں کوئی صفت اللہ تعالیٰ کی نہیں پائی جاتی اور اس پر بھی تم لوگ اپنے بڑوں کو رسم کے پابند ہو کر ان مورتوں کی پوجا کرتے ہو تو دنیا میں تم سے بڑھ کر کوئی مجرم نہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے موقع پاکر ان بت پرستوں کے بتوں کو جو توڑ ڈالا تھا اس کا قصہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے ان آیتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ جو کہا کہ بت میرے دشمن ہیں اور میں ان کا دشمن ہوں سورة انبیاء کا وہ قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کی گویا تفسیر ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ بابٌ بعد باب الکرامات ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب الکبائر الخ )
(26:69) واتل میں واؤ عاطفہ ہے ای واذکر ذلک لقومک واتل علیہم نبأ ابراہیم یہ مثال یاد کرائیے اپنی قوم کو اور بیان کیجئے ان کے سامنے (حضرت) ابراہیم کا قصہ ۔ اتل تلاوۃ سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر (باب نصر) تو پڑھ۔ تو پڑھ کر سنا۔ تلو مادہ۔ نبأ۔ خبر۔ قصہ۔
آیات 69 تا 104 اسرارومعارف اہل مکہ اور اہل عرب مشرکین خود کو دین ابراہیمی کا پیروکار جانتے تھے تو ارشاد ہوا کہ انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنا دیجیے کہ وہ کیا تھے ان کی تعلیمات کیا تھیں اور یہ لوگ کیا کر رہے ہیں انہیں وہ واقعہ بتائیے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے سوال کیا تھا اور قوم سے بھی کہ آپ لوگ کس کی عبادت کرتے ہیں انہیں بت پرستی میں گرفتار دیکھ کر جاننا چاہا کہ آخر یہ بتوں میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور اسی میں عمریں تمام کردیتے ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ تمہارے حال سے واقف ہیں اور تمہاری پکار کو سنتے ہیں اور تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا اگر عبادت ترک کردو تو کیا ان کی ناراضگی سے کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس پر وہ لاجواب ہوگئے کہ ان میں سے تو کوئی بات بھی نہیں ہاں ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسا ہی کرتے دیکھا لہذا ہم بھی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ذرا غور کرو کہ جو کچھ تمہارے اجداد کرتے رہے اور اب تم کر رہے ہو یہ تباہی کا راستہ ہے اگر میں بھی ایسا کروں تو سخت نقصان اٹھاؤں گا کہ عبادت کا مستحق صرف وہ پروردگار ہے جو سارے جہانوں کا پیدا کرنے والا اور ان کی سب ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ وہی ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور زندگی کے اسلوب سکھائے یعنی انسانی پیدائش اور پھر ایک بچے کا بڑا ہونا مفکر سائنسدان یا سیاستدان بننا امور دنیا کا چلانا اور کاروبار حیات میں سرگرم عمل ہونا ایسے ہی انبیاء و رسل کا انقلاب آفریں ہستی بننا یہ سب اس کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہیں اور پھر انسان مسلسل غذا کا محتاج ہے اس کی روزی کا اہتمام فرماتا ہے صحت و بیماری زندگی کا حصہ ہیں جب بیماری آتی ہے اور پروردگار صحت بخشتا ہے وہ ہی مجھے موت سے ہمکنار کرے گا اور وہی پھر سے زندگی دے گا اور پھر اس کے سامنے سب کا حساب کتاب ہوگا جس میں مجھے اس سے امید کامل ہے کہ میری خطاؤں سے درگزر فرما کر مجھے بخش دے گا۔ انبیاء معصوم ہوتے ہیں ان سے خطا سرزد نہیں ہوتی مگر یہاں عظمت الہی کا اور اپنی طرف سے کمال ادب کا اظہار بھی ہے جبھی تو امید کا لفظ استعمال فرمایا نیز عموم بھی مقصود ہے کہ اللہ کا یہ معاملہ سب کے ساتھ ہے یعنی تمہیں بھی اسی کی عبادت کرنا چاہیے کہ اسی نے پیدا کیا علم و عمل کی توفیق دی موت اور زندگی صت و بیماری اسی کی طرف سے ہے اور آخرت میں اسی کی بخشش کی امید بھی۔ غیبت سے حضوری کی طرف : اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں حضوری کی کیفیت پیدا ہوگئی تو براہ راست دعا نکلی کہ اے اللہ مجھے حکم عطا کر۔ حکم سے مراد مفسرین کرام نے علم و حکمت فرمایا ہے ۔ احقاق حق کے لیے قوت نافذہ کی طلب : مگر تفسیر بحر محیط نے امام رازی کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ علم و حکمت تو نبوت کا خاصہ ہے جو انہیں پہلے نصیب تھی یہاں مراد قوت نافذہ ہے جس کے ذریعہ سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکیں اور باطل کو مٹا کر حق نافذ کرسکیں چونکہ اقتدار میں لوگوں کے بھٹکنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اگرچہ انبیاء اس سے بالا تر ہوتے ہیں مگر تعلیم کی غرض سے دعا فرمائی کہ ایسا نہ ہو بلکہ مجھے حکومت و اقتدار عطا فرما کر نیکوں اور صالحین کے ساتھ شامل فرما یعنی میں اس قوت سے نیکی اور بھلائی نافذ کرسکوں اور ایسی کمال صداقت اور نیکی کے نفاذ کی قوت بخش کہ میری روایت بعد والوں میں بھی جاری ہو اور ہمیشہ حصول اقتدار تیری عظمت کے اظہار کا ذریعہ بنے نہ یہ کہ لوگ اس سے گمراہ ہوتے رہیں چناچہ آپ کی دعا کی اجابت نبی اکریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور مسلمانوں کی خصوصاً خلافت راشدہ کی حکومت کی صورت میں ظاہر ہوئی نیز آئندہ قیامت تک نیکی غالب اور نافذ کرنے والوں کو آپ کی دعا میط ہے اور میرے ان اعمال کو قبول فرما کر مجھے جنت اور اس کی نعمتوں کا وارث بنا دے۔ کافر کے لیے زندگی میں ہدایت کی دعا جائز ہے : نیز میرے والد کو ہدایت نصیب فرما کر اس کی بخشش کا سامان کردے کہ روز محشر میرے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہو۔ آپ نے دعا تو فرمائی مگر ہدایت کے لیے بندے کا ذاتی فیصلہ اور دلی طلب ضروری ہے جو وہاں نہ تھی لہذا محروم رہے۔ اور پھر قیامت کے دن کا نقشہ کھینچا کہ اس روز مال و دولت جاہ و حشمت یا اولاد وغیرہ کام نہ آئیں گے کہ یہ سب اگر محض دنیا کے حصول کا ذریعہ بنے اور انسان کے دل کو اپنی محبت میں اسیر کرکے اللہ سے غافل کردیا تو تباہی کا باعث بن گئے قلب سلیم : ہاں مگر وہ لوگ جن کو قلب سلیم نصیب ہوا یا جو اپنے قلب کو سلامت لائے یعنی یعنی وہ اللہ کی محبت سے آباد اور اللہ کے نور سے روشن رہا اور جاہ و حشمت مال و دولت اور اولاد تک کو اللہ کے احکام کے نفاذ کا ذریعہ بنایا تو اس کا مال بھی اس کے کام آ گیا اور اولاد بھی اور قلب سلیم کا ذریعہ صرف اور صرف اللہ کا ذکر ہے جیسا کہ ارشاد ہے کہ اللہ کے ذکر سے قلب کو اطمینان نصیب ہوتا ہے اور ذکر کے سوتے قلب اطہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھوٹتے ہیں اور شیخ انہیں کا امین ہوتا ہے جس کی نظر اور توجہ قلوب کو ذاکر اور روشن کردیتی ہے۔ اس روز جنت کو قریب ہی سجا دیا جائے گا جو اللہ سے ڈرنے اور اس کی اطاعت کرنے والوں کے لیے ہوگی اور دوزخ بھی کھینچ کر سامنے کردی جائے گی کہ اللہ سے بغاوت کرنے والے بھی اپنے ٹھکانے کو دیکھتے ہیں پھر کفار سے سوال ہوگا کہ اللہ کو چھوڑ کر جن کو تم نے معبود بنا لیا تھا انہیں تلاش کرو کہ آج تمہاری مدد کرسکیں یا کیا وہ اپنا بچاؤ بھی کرسکتے ہیں ؟ پھر بتوں اور کفار کو اکٹا ہی الٹے منہ دوزخ میں پھینک دیا جائے گا اور ابلیس کا سارا لاؤ لشکر بھی جہنم میں جھونک دیا جائے گا تب کفار و شیاطین آپس میں لڑیں گے اور کفار کہہ اٹھیں گے اللہ کی قسم ہم گمراہ تھے کہ تم جیسے ذلیل پتھروں کو اور شیاطین کو اللہ کے برابر درجہ دیتے تھے حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گمراہ سرداروں اور بےدین لیڈروں نے ہمیں تباہ کردیا خود بھی مجرم تھے ہمیں بھی بنا دیا آج کوئی ہماری سفارش کرنے والا بھی نہیں اور نہ کوئی خیر خواہ دوست ہے ۔ کاش ایک بار پھر دنیا میں جانا نصیب ہوجائے تو ہم یقیناً مسلمان اور ایماندار بن جائیں گے ان سب باتوں میں کس قدر عبرت ہے مگر دنیا میں لوگوں کی اکثریت ایمان سے محروم رہتی ہے یہی حال اس زمانے میں اہل مکہ کا تھا اور آپ کا پروردگار غالب ہے چاہے تو سب کو تباہ کردے مگر وہ رحم کرنے والا ہے اور درگذر فرماتا ہے کہ انہیں مہلت نصیب ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 69 تا 104 : اتل (تلاوت کر۔ سنادے) اصنام (صنم) بت ‘ نظل (ہم رہتے ہیں) ‘ عکفین (عاکف) جم کر بیٹھنے والے ‘ یسمعون ( وہ سنتے ہیں) ‘ وجدنا ( ہم نے پایا) ‘ الا قدمون (پہلے) ‘ یطعمنی (وہ مجھے کھلاتا ہے) ‘ یسقین (یسقینی) وہ مجھے پلاتا ہے ‘ یشفین (یشفینی) وہ مجھے شفا (صحت) دیتا ہے ‘ یمیتنی (وہ مجھے موت دے گا) ‘ یحیین (یحیینی) وہ مجھے زندگی دے گا ‘ اطمع (مید امید کرتا ہوں۔ میں توقع رکھتا ہوں) ‘ حکما (علم و حکمت (فیصلہ) ‘ الحقنی (مجھے ملادے) ‘ لسان صدق (ذکر خیر۔ اچھا ذکر۔ سچی زبان) ‘ لاتخزنی (مجھے رسوانہ کیجئے گا) ‘ یبعثون (وہ اٹھائے جائیں گے) ‘ من اتی ( جو آیا۔ (جو لایا) ‘ قلب سلیم (پاک ‘ صاف ‘ سچا دل) ‘ ازلفت (قریب کردی گئی) ‘ برزت (ظاہر کردی گئی) غوین (گمراہ ہونے والے) ‘ ینتصرون (بدلہ لیں گے۔ بدلہ لے سکتے ہیں) ‘ کبکبوا (اوندھے پھینکے گئے) ‘ جنود (جند) لشکر ‘ یختصمون ( وہ جھگڑتے ہیں ‘ تاللہ (اللہ کی قسم) ‘ نسوی (ہم نے برابر کردیا۔ برابر کا درجہ دیا) ‘ اضلنا (ہمیں گمراہ کیا) ‘ حمیم (غم خوار ‘ مخلص دوست) ‘ کرۃ (دوبارہ) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 69 تا 104 : سورۃ الشعراء میں سات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات کا ذکر خیر فرمایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد اب ابو الا نبی اء حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی ان قربانیوں کا ذکر کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے کفر و شرک ‘ بدعات اور فضول رسموں کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ حق و صداقت کی سربلندی کے لئے اپنی قوم ‘ گھر اور خاندان کی راحتوں اور سکھ چین کو چھوڑ کر فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔ اور ساری زندگی کفر وشرک کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ قرآن کریم میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات کو بھلا کر کفر ‘ شرک رسم و رواج اور غیر اللہ کی عبادت و بندگی کو زندگی سمجھ بیٹھے ہوں ان کو یاد دلادیا جائے کہ اگر انہوں نے اپنی روش زندگی کو نہ بدلا تو ان کو جہنم کی آگ اور دنیاوی ذلتوں سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ جنت کی ابدی راحتوں کی خشبو سے بھی محروم رہیں گے۔ اسی توحید خالص کی تعلیم کے لئے وہ اپنی دعوت کا آغاز ” لا الہ الا اللہ “ سے کرتے ہیں یعنی اس بات کا یقین کامل پیدا کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ اس کائنات ” الہ “ اگر کوئی ہے تو وہ صرف ایک اللہ ہی ہے جس کا کوئی کسی طرح شریک نہیں ہے وہی ہر طرح کی حمد وثناء اور تعریفوں کا مستحق ہے اور بیشمار صفات کا مالک ہے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء کرام خود اللہ کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو اس بات کا درس دیتے ہیں کہ وہ اپنے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی رسموں کے بجائے صرف اس ایک اللہ کو اپنا خالق ومالک سمجھیں جس نے اس کائنات کو پیدا کرکے اس کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ وہ اس نظام کے چلانے میں کسی محتاج نہیں ہے۔ جب اس نظریئے پر ایک جماعت تیار ہوجاتی ہے تو ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کا یقین دلایا جاتا ہے لیکن جو لوگ انبیاء کرام کا بتایا ہوا راستہ چھوڑ کر رسم و رواج کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور وہ نبیوں کا نام تو لیتے ہیں اور ان کی عظمت کے ترانے بھی گاتے ہیں مگر عملاً وہ ہر ایسا کام کرتے ہیں جس سے انبیاء کرام نے زندگی بھر منع کیا ہو۔ چنانچہ جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت پوری قوم اللہ اور اس کے احکامات کو بھول کر غیر اللہ کی عبادت و بندگی کفر ‘ شرک اور بری رسموں کی اس طرح عادی ہوچکی تھی کہ اس کے خلاف بولنے والوں کو دیوانہ کہا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس بسنے والے بیشمار خاندان اور قبلیے تھے جن کو یہ ناز تھا کہ ہم ابراہمی ہیں مگر عملاً ہر وہ کام کرتے تھے جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نینہ صرف منع کیا تھا بلکہ توحید خالص کے نظام کو قائم کرنے کے لئے پوری زندگی وہ قربانیاں پیش کیں جن کی عظمت کا اعتراف خود اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ” اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو طرح طرح سے آزمایا جس میں وہ پورے اترے۔ جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیشوائی و امامت کا وہ مقام عطا کیا جو کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوسکا “۔ (بقرہ) حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی کے ان ہی پہلوؤں کا ان آیات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں کو جو کفر و شرک اور رسم و رواج میں مبتلا ہیں بتا دیجئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت کیا ہے ؟ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر اور اپنی بت پرست قوم سے پوچھا کہ تم کن فضول چیزوں کی عبادت کرتے ہو ؟ کہنے لگے کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے اور ان ہی کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ اچھا بتائو جب تم انہیں پکارتے ہو تو یہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ یا تمہیں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے لوگوں کا جواب یہ تھا کہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح کرتے تھے لہٰذا ہم بھی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تم نے اور تمہارے گزرے ہوئے باپ دادا نے آنکھیں کھول کر کبھی دیکھا ہے کہ تم کن چیزوں کی عبادت و بندگی کررہے ہو ؟ حق و صداقت کی اس آواز کو سنتے ہی اپنے پرائے سب دشمن ہوگئے اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ سوائے رب العالمین کے ہر شخص میری دشمنی پر آمادہ نظر آتا ہے۔ رب العالمین جس نے مجھے پیدا کرکے میری صحیح رہنمائی کی ہے۔ جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ اگر میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا اور صحت عطا فرماتا ہے۔ وہی مجھے موت دے گا اور وہی مجھے دوبارہ زندگی دے گا۔ مجھے صرف اسی رب العالمین سے امید ہے کہ قیامت کے دن میری بھول چوک کو معاف فرمادے گا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پروردگار سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا۔ الہٰی ! مجھے علم و حکمت عطا فرما۔ اور مجھے صالحین میں شامل فرمائیے گا۔ اور بعد میں آنے والوں میں مجھے نام وری عطا فرمایئے گا۔ اور مجھے راحت بھری جنتوں کا وارث بنایئے گا۔ الہی میرے باپ کو معاف فرمادیجئے کیونکہ وہ گمراہی کے راستے پر چل رہا ہے۔ اور مجھے اس دن رسوانہ کیجئے گا جب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے اور جس دن مال واولاد کسی کے کام نہ آسکے گی۔ البتہ وہ جو ” قلب سلیم “ (یعنی ایسا دل لے کر حاضر ہوگا۔ جو کفر و شرک ‘ حسد ‘ بغض اور انبیاء کی دشمنی سے پاک ہوگا) ۔ یہ وہ دن ہوگا۔ جب تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے والوں کے قریب جنت کو لایاجائے گا اور گمراہوں کے سامنے جہنم ظاہر کردی جائے گی۔ اس وقت ان سے پوچھا جائے گا کہ اللہ کو چھوڑ کر تم جن لوگوں اور چیزوں کی عبادت و بندگی کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟ کیا آج وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا وہ اپنا ہی بچائو کرسکتے ہیں ؟ اس کے بعد وہ گمراہ لوگ اور شیطانوں کا لشکر سب کے سب اوندھے منہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ وہاں وہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ گمراہ لوگ اپنے جھوٹے معبودں سے کہیں گے کہ اللہ کی قسم ‘ ہم تو کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے جب ہم نے تمہیں اللہ کے برابر کا درجہ دے رکھا تھا۔ ہمیں تو مجرمین نے راستے سے بھٹکادیا تھا۔ آج نہ تو کوئی ہماری طرف سے سفارش کرنے والا ہے نہ کوئی مخلص دوست ہے۔ اب حقیقت ہم پر کھل گئی ہے کاش ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں جا کر اپنی اصلاح کرنے کا موقع مل جاتا تو ہم اپنی اصلاح کرکے ایمان والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کو جس آیت پر ختم کیا ہے اسی آیت پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کو بھی ختم فرمایا ہے کہ بیشک اس میں سمجھ اختیار کرنے والوں کے لئے ایک زبردست نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو یہ سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہیں گے اور وہ ایمان نہ لائیں گے۔ فرمایا کہ اللہ ہر طرح کی طاقت و قوت اور قدرت رکھنے کے باوجود نہایت مہربان اور کرم کرنے والا ہے اس کی یہ زبردست مہربانی ہے کہ وہ کسی گناہ گار اور کفر و شرک اختیار کرنے والے فوراً ہی نہیں پکڑتا بلکہ ان کو سنبھلنے ‘ سمجھنے اور غور وفکر کرنے کی مہلت پر مہلت دیئے جاتا ہے۔ ان آیات میں ایک مرتبہ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثار صحابہ کام کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لوگ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام تو لیتے ہیں اور اپنے ابراہیمی ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر ہر وہ کام کرتے ہیں جو انکی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ یہی ان کی گمراہی کا سبب ہے۔ لہٰذا اہل ایمان اپنی زندگی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے اصولوں پر ڈھال لیں اور اس راستے سے بچیں جس پر چل کر کفار و مشرکین اپنے لئے جہنم کما رہے ہیں۔ نجات اور کامیابی صرف اللہ و رسول کی اطاعت میں ہے۔ جس طرح اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں پر مہربانی فرمائی اور وہ کامیاب ہوئے اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے جاں نثاروں کو بھی دنیا اور آخرت کی کامیابیاں عطا کی جائیں گی۔
فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والی کشمکش کا مختصربیان۔ اہل مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں جابجا ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت اور ان کی بےمثال اور لازوال جدوجہد کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو مشترکہ خطاب کرتے ہوئے استفسار فرمایا کہ آخر تم ان چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہو ؟ انھوں نے کہا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کے سامنے اعتکاف اور ان کی تعظیم کرتے رہیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پے درپے ان سے تین سوال کیے۔ جب تم ان کے سامنے فریاد کرتے ہو کیا یہ تمہاری فریادیں سنتے ہیں ؟ کیا تمہیں فائدہ پہنچاتے ہیں ؟ کیا کسی کو نقصان پہنچاسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے بت پتھر کے ہوں یا کسی اور چیز کے۔ وہ سن نہیں سکتے اور نہ ہی آج تک کسی بت نے اپنی پوجا پاٹ کرنے والے کو کبھی جواب دیا ہے۔ وہ تو ایک جگہ سے دوسریجگہ جا نہیں سکتے اور نہ ان میں جان اور حرکت پائی جاتی ہے وہ دوسرے کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جہاں تک ان کا کسی کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہے جن کو تراش اور توڑ، جوڑ کر بنایا جائے جو اپنادفاع نہیں کرسکتے وہ کسی کو کیا نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ان کے سامنے تھی جس بناء پر ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس لیے انھوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ہم بھی اس طرح ہی ان کی عبادت اور اعتکاف کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یاد رہے کوئی قوم بنیادی طور پر یہ عقیدہ نہیں رکھتی کہ بت سنتے ہیں اور نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بتوں کی عبادت کے پیچھے یہ عقیدہ ہوتا ہے یہ کہ ہمارے بزرگوں کی شبیہات ہیں اور بزرگوں کی ارواح ان میں حلول کرچکی ہیں۔ لہٰذا ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان کے توسط سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اس بنا پر اکثر لوگ بتوں کی عبادت سے انکار کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ اور ان کی قوم اس حد تک شرک میں آگے بڑھ چکی تھی کہ انھوں نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا کہ ہم ان کی عبادت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کے سامنے اعتکاف اور ان کی تعظیم کرتے رہیں گے۔ کوئی اقرار کرے یا انکار کرے۔ قرآن مجید نے اس طریقہ عبادت کو غیر اللہ کی عبادت قرار دیا ہے۔ بیشک وہ بتوں، مزارات یا کسی اور چیز کو سامنے رکھ کر کی جائے۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق یہ غیر اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اسی سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور تمام انبیاء (علیہ السلام) لوگوں کو روکتے رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں ایک دفعہ پھر توجہ دلائی۔ سوچو اور غور کرو۔ جب یہ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کے مالک ہیں تو پھر تم ان کی کیوں عبادت کرتے ہو ؟ یقین جانو رب العالمین کے سوا یہ سب میرے دشمن ہیں۔ دشمن سے مراد یہ نہیں کہ بت کسی کی دشمنی کرسکتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ میں غیر اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سب سے بیزار اور ان سے نفرت کرتا ہوں۔ اسی بات کو امت مسلمہ کے لیے نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ ” تمہارے لیے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء کے کردار میں نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان بتوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور تمہارے معبودوں کے کبھی قائل نہیں ہوسکتے اور جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ ہمارے اور تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی (الممتحنۃ : ٤ ) یہی بات سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارہ سال کی عمر میں ایک پادری کو کہی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبل از نبوت شرک سے شدید نفرت تھی : آپ کی عمر مبارک بارہ سال دو مہینے دس دن ہوگئی۔ جناب ابو طالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصریٰ پہنچے بصریٰ شام کا مرکزی شہر تھا۔ اس شہر میں جرجیس نامی ایک راہب رہتا تھا، جو بُحَیرا کے لقب سے معروف تھا۔ جب قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تو راہب اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے پاس آیا اور اس کی میزبانی کی۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ گرجے سے نہیں نکلتا تھا۔ اس نے آپ کے اوصاف کی بنا پر پہنچان لیا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سید العالمین ہیں۔ اللہ نے اسے رحمۃ العالمین بنا کر بھیجا ہے۔ ابو طالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا ” تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لیے جھک نہ گیا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔ پھر میں اسے مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو کندھے کے نیچے نرم ہڈی کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم اسے اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔ اس کے بعد بحیرا نے ابو طالب سے کہا کہ انہیں واپس کر دو ملک شام نہ لے جاؤ۔ کیونکہ یہود سے خطرہ ہے اس پر ابو طالب نے بعض غلاموں کے ساتھ آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔ (الرحیق المختوم) سیرت ابن ہشام میں ہے کہ بحیرا نے آپ سے کہا کہ میں تجھ سے لات اور عزیٰ کا واسطہ دے کر کچھ سوال کروں گا جو نہی اس نے لات اور عزیٰ کے واسطے کی بات کی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے لات اور عزیٰ کا واسطہ دے کر سوال نہ کرنا۔ (قَامَ إلَیْہِ بَحِیرَی، فَقَالَ لَہُ یَا غُلَامُ أَسْأَلُک بِحَقّ اللّاتِی وَالْعُزّی إلّا مَا أَخْبَرْتَنِی عَمّا أَسْأَلُکَ عَنْہُ وَإِنّمَا قَالَ لَہُ بَحِیرَی ذَلِکَ لِأَنّہُ سَمِعَ قَوْمَہُ یَحْلِفُونَ بِہِمَا فَزَعَمُوا أَنّ رَسُول اللّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ (لَہُ ) لَا تَسْأَلْنِی بِاَللّاتِی وَالْعُزّی، فَوَاَللّہِ مَا أَبْغَضْتُ شَیْءًا قَطّ بُغْضَہُمَا) [ سیرۃ ابن ہشام ] ” جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانے سے فارغ ہوئے تو بحیرہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے بچے میں تجھ سے لات وعزیٰ کا واسطہ دے کر کچھ سوال کروں گا۔ تو مجھے ان کے صحیح صحیح جواب دینا۔ بحیرا نے لات و عزیٰ کا واسطہ اس لیے دیا تھا کہ اس نے قافلے کے لوگوں کو لات وعزیٰ کی قسمیں اٹھاتے ہوئے سنا تھا اور اس سے اس نے تصور کیا کہ شاید آپ بھی ان کی قسمیں اٹھاتے ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا مجھ سے لات وعزیٰ کے نام نہ سوال کرنا۔ اللہ کی قسم میرے نزدیک ان دونوں سے زیادہ کوئی چیز قابل نفرت نہیں۔ “ ” اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نشانی کے طور اور نبوت عطا کرنے کے بعد معجزہ کے طور پر کچھ چیزوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جھکا یا تھا۔ ورنہ مشرکوں کے سوا ہر چیز صرف اپنے رب کو سجدہ کرتی ہے۔ “ ( الحج : ١٨) مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور اس کی قوم بتوں کے سامنے اعتکاف، رکوع، سجدے اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ ٢۔ بت نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے تقلید آباء کو اپنی تائید کے طور پر پیش کیا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے غیر اللہ کے ساتھ دشمنی کا اعلان فرمایا۔
درس نمبر ١٦٣ تشریح آیات ٦٩……تا……١٠٤ واتل علیھم نبا ……ماتعبدون (٧٠) ان کے سامنے حضرت ابراہیم کا قصہ پیش کرو۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ابراہیم کے وارث ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں۔ ان کو بتائو کہ ابراہیم کے والد بھی توبت پرست تھے اور انہوں نے تو والد کے فعل بت پرستی پر سخت مواخذہ کیا تھا۔ پھر تم بت پرست کس طرح بن گئے۔ وہ تو بت پرستی اور شرک کے مسئلے پر ہی اپنے والد اور قوم سے ٹکرا گئے۔ انہوں نے والد اور قوم کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ بت پرستی کھلی گمراہی ہے کس قدر سخت لہجے میں ماتعبدون (٢٦ : ٨٠) ” یہ کیا چیزیں ہیں جنہیں تم پوجتے ہو۔ “
33:۔ یہ دوسری نقلی دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کوئی برکات دہندہ نہیں۔ اس سے تخویف دنیوی مطلوب نہیں۔ کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم پر انکار دعوی کی وجہ سے اس وقت عذاب نہیں آیا۔ ” اذ قال لابیہ وقومہ الخ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے سوال کیا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم تو تھا وہ کس چیز کی عبادت کرتے ہیں لیکن وہ اس مکالمے سے ان پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جن معبودوں کی وہ عبادت و دعاء میں مصروف ہیں وہ معبود ہونے کے مستحق نہیں ہیں۔ و ابراہیم (علیہ السلام) یعلم انہم عبدۃ الاصنام ولکنہ سالھم لیریھم ان ما یعبدونہ لیس بمستحق للعبادۃ (مدارک ج 3 ص 143) ۔
69۔ اور اے پیغمبر آپ ان منکرین دین حق کو ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ پڑھ کر سنائیے۔ یعنی یہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہوتے ہوئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ لوگ بت پرسی کرتے ہیں تو آپ ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خبر سے اس قرآن کریم کے ذریعہ آگاہ کیجئے۔