Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 7

سورة الشعراء

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلَی الۡاَرۡضِ کَمۡ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍ ﴿۷﴾

Did they not look at the earth - how much We have produced therein from every noble kind?

کیا انہوں نے زمین پر نظریں نہیں ڈالیں؟ کہ ہم نے اس میں ہر طرح کے نفیس جوڑے کس قدر اگائے ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do they not observe the earth -- how much of every good kind We cause to grow therein! Sufyan Ath-Thawri narrated from a man from Ash-Sha`bi that people are a product of the earth. So whoever enters Paradise is good and noble, and whoever enters Hell is base and vile.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71زَوْجٍ کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کئیے گئے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کے لئے بہتر اور فائدے مند ہیں۔ جیسے غلہ جات ہیں پھل میوے ہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ ۔۔ : اصل میں واؤ عطف پہلے ہے اور ہمزہ بعد میں ہے، چونکہ ہمزہ استفہام کلام کے شروع میں ہوتا ہے، اس لیے واؤ عطف کو بعد میں کردیا۔ واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جملہ محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے، یعنی ” أَلَمْ یَرَوْا إِلَی السَّمَاءِ وَ أَلَمْ یَرَوْ... ا إِلَی الْأَرْضِ “ ” کیا انھوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا اور کیا انھوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا۔ “ یہ اختصار کلام اللہ کا اعجاز ہے۔ (بقاعی) یعنی اگر وہ رسول پر اترنے والی آیات کو جھٹلائیں اور ان کا مذاق اڑائیں تو اس میں کون سا تعجب ہے، کیا انھوں نے اس سے پہلے آسمان، زمین اور اس میں پائی جانے والی ہر قسم کی بیشمار عمدہ ترین چیزیں نہیں دیکھیں ؟ اگر انھوں نے اپنے خالق ومالک پر اور اس کی توحید پر ایمان لانا ہوتا تو یہ سب کچھ بطور دلیل کیا کم تھا، جب انھیں اس سے عبرت نہیں ہوئی تو آپ پر نازل ہونے والی آیات سے انھیں کیا عبرت ہوگی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

زَوْجٍ كَرِ‌يمٍ (noble pair - 26:7). The word زَوْجٍ (zawj) literally means a pair. That is why man and woman, and male and female are called Zawj. Many species of trees have male and female among them. On this basis they can also be called Zawj (زَوْجٍ ). Sometimes the word Zawj is also used for a special kind. On the basis of this meaning all species of trees can be called Zawj. The meaning of ... Karim is a nice and favourite thing.  Show more

زَوْجٍ كَرِيْمٍ ، زوج کے لفظی معنے جوڑے کے ہیں اسی لئے مرد و عورت، نر و مادہ کو زوج کہا جاتا ہے بہت سے درختوں میں بھی نر و مادہ ہوتے ہیں ان کو اس مناسبت سے بھی زوج کہا جاسکتا ہے اور کبھی لفظ زوج ایک خاص نوع اور صنف کے معنی میں بھی آتا ہے اس معنے کے لحاظ سے درختوں کی ہر نوع کو زوج کہا جاسکتا ہے اور ... کریم کے معنی ہیں عمدہ اور پسندیدہ چیز۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَـتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ۝ ٧ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم وال... تّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ كم كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن/ 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة . کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) کیا کفار مکہ نے زمین کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں ہر ایک رنگ کی عمدہ عمدہ قسم کی بوٹیاں اگائی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:7) اولم یروا الی الارض۔ آیات تنزیلیہ کے بعد مشرکین کی آیات تکونییہ سے اعراض و روگردانی کا ذکر ہو رہا ہے ہمزہ استفہام انکاری کا ہے واؤ عبارت مقدرہ پر عطف کے لئے ہے۔ ای اصروا علی الکفر باللہ و تکذیب ما یدعوھم الی الایمان و لم ینظروا الیٰ عجائب الارض کیا وہ اللہ (اور اس کی وحدانیت) سے انکار پر اور...  اس کی دعوت الی الایمان کی تکذیب پر اڑے ہوئے ہیں (تو کیا وہ) عجائبات ارض کی طرف اس کی دعوت سے عاری ہیں۔ لم یروا مضارع نفی جحد بلم ضمیر فاعل مشرکین کی طرف ہے کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا ؟ کم اسم مبنی ہے اور صدر کلام میں آتا ہے مبہم ہونے کی وجہ سے تمیز کا محتاج ہے، یہ استفہام کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسے کم لبثت (2:259) تو کتنی مدت (اس حالت میں) رہا۔ ای کم زمانا لبثت۔ اس صورت میں اس کی تمیز مفرد منصوب ہوتی ہے کم خبر یہ بھی آتا ہے اور اس صورت میں مقدار کی کمی بیشی اور تعداد کی کثرت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور اس صورت میں تمیز مجرور ہوتی ہے۔ مثلاً کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ (2:249) اکثر چھوٹی جماعتیں بڑی جمارتوں پر غالب آگئیں۔ آیت ہذا میں عبارت یوں ہوگی کم من کل زوج کریم انبتنا فیہا اس میں ہم نے عمدہ عمدہ قسم کی بوٹیاں کس کثرت سے اگائیں انبتنا ماضی جمع متکلم انبات (افعال) سے ہم نے اگایا۔ روج کریم۔ موصوف و صفت۔ زوج خاوند۔ بیوی۔ جوڑا۔ بھانت بھانت ، قسم قسم۔ کریم۔ عدمہ ، عزت والا۔ صفت مشبہ کا صیغہ واحد۔ زوج کریم۔ عمدہ قسم کی ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ یہاں ” انبار “ سے مراد وہ دنیوی یا اخروی عذاب ہیں جن کے وہ مستحق تھے اور قرآن نے چونکہ اس عذاب کی خبر دی ہے اس لئے اسے ” انبا “ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی یہ لوگ چونکہ اعراض و تکذیب سے تجاوز کر کے استہزا پر اتر آئے ہیں سو عنقریب دنیا یا آخرت میں ہمارے عذاب دیکھیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ پیغم... بر جو دعوت پیش کرتے ہیں اور جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے، واقعی حق تھی۔ اس میں سخت وعید ہے۔ راجع، الانعام آیت 5 و ایضا، ص :88 ۔ کذافی الشوکانی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم ……مئومنین (٨) 1033 اس مردہ زمین سے ایک گونہ زندہ نباتات کا نکالنا کیا کم معجزہ ہے۔ پھر ان نباتات سے نر اور مادہ بنانا۔ بعض انواع میں نر اور مادہ علیحدہ علیحدہ پودوں میں ہوتے ہیں اور یا پھر ایک ہی پودے میں نر اور مادہ پھول ہوتے ہیں جیسا کہ اکثر نباتات میں ہوتا ہے یعنی ایک ہی شاخ میں نر اور ماد... ہ اجزا ہوتے ہیں اور یہ معجزہ ان کے ماحول میں رات دن رونما ہوتا رہتا ہے۔ اولم یروا (٢٦ : ٨) ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہے۔ یہ ایسے معجزات ہیں کہ جن کے صرف ایک ہی مشاہدے کی ضرورت ہے۔ قرآن کے نظام تربیت کا یہ خاص انداز ہے کہ قرآن انسانی دل و دماغ کو اس کائنات کے مشاہد پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن بجھے ہوئے احساس کو جگاتا ہے کند ذہن کو تیز کرتا ہے اور بند قوائے مدرکہ کو آزاد کرتا ہے اور ان کو اس کائنات میں پائے جانے والے ان معجزات کی متوجہ کرتا ہے جو قدم قدم پر بکھرے ہوئے ہیں تاکہ انسان ایک زندہ دل دماغ کے ساتھ اس کائنات کو دیکھے۔ اللہ کی عجیب و غریب مصنوعات کو دیکھے اور اسے اللہ کا شعور حاصل ہو اور وہ اللہ کی معرفت اللہ کے عجائب مخلوقات کے ذریعے حاصل کرے اور وہ اللہ سے ہر وقت ڈرا رہے اور اسے یہ شعور ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ پھر ہر انسان کو یہ شعور ہو کہ اللہ کی مخلوقات میں سے صرف وہی ہے جو یہ شعور رکھتا ہے ۔ اور اللہ کی مخلوقات سے بھی وابستہ ہے اور اللہ کے اس ناموس فطرت کیساتھ بھی پیوستہ ہے۔ جس کو اللہ نے اس کائنات کے اندر جاری وساری کر رکھا ہے۔ پھر اسے یہ بھی شعور ہو کہ اس کائنات میں اس نے ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ خصوصاً کے اندر جاری وساری کر رکھا ہے ۔ پھر اسے یہ بھی شعور ہو کہ اس کائنات میں اس نے ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ خصوصاً اس کرہ ارض کے حوالے سے تو اس کے کاندھوں پر ایک خاص ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ اولم یروا الی الارض کم انبتنا فیھا من کل زوج کریم (٦٢ : ٨) ” کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں۔ “ یہ نہایت ہی عمدہ ہیں ، اس لئے کہ ان کے اندر زندگی ہے اور یہ زندگی رب کریم نے ان کے اندر پیدا کی ہے۔ لفظ کریم سے اللہ یہ تاثر دیتا ہے کہ اللہ کی صنعت کاریوں کو نہایت ہی توجہ ، اہمیت اور تکریم کی نگاہوں سے دیکھنا چاہئے۔ یہ کوئی معمولی حقائق نہیں ہیں کہ ان پر سے محض ایک نادان اور غافل کی طرح گزرا جائے۔ ان فی ذلک لایۃ (٢٦ : ٨) ” ان میں تو یقینا ایک نشانی ہے۔ “ ان کے علاوہ مزید نشانیاں طلب کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ ان پیش پا افتادہ نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے۔ وما کان اکثرھم مئومنین (٢٦ : ٨) ” مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ “ سورت کا یہ دیباچہ ایک ایسے سبق آموز فقرے پر ختم ہوتا ہے۔ جو اس سورت میں بار بار دہرایا گیا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ توحید پر عقلی دلیل ہے۔ وہ زمین کو نہیں دیکھتے کہ ہم اس میں انواع و اقسام کی پیداوار اگاتے ہیں جس میں ان کے لیے گوناگوں فوائد ہیں۔ ” ان فی ذلک لایۃ “ یہ اس بات کی واضح اور کافی دلیل ہے کہ سارے جہاں کا کارساز اور برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ دلائل تو اور بھی بہت ہیں لیکن اگر وہ ... غور و تدبر سے کام لیں تو حق سمجھنے کے لیے یہی ایک دلیل ہی کافی ہے۔ لیکن ان کی اکثریت کے دلوں پر ضد وعناد کی وجہ سے مہر جباریت لگ چکی، اس لیے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ آگے ہر نقلی دلیل کے بعد اس آیت کا اعادہ کیا گیا ہے جس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ ان میں سے ہر دلیل فی نفسہ مستقل اور عبرت و نصیحت کے لیے کافی ہے مگر اس کے باوجود معاندین نہیں مانتے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) کیا ان منکروں نے زمین کی طرف نظر نہیں کی اور زمین کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اس سے ہر قسم کی کتنی اچھی اچھی چیزیں اگائی ہیں یعنی اگر ان پر غور کرتے تو صانع کے وجود اس کے کمال اور اس کی وحدت پر ایمان لاسکتے تھے لیکن انہوں نے توحید الٰہی کے لئے اتنی تکلیف بھی گوارہ نہ کی کہ عالم سفلی ہی کے عجائبات کو ... دیکھ لیتے۔  Show more