Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 70

سورة الشعراء

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿۷۰﴾

When he said to his father and his people, "What do you worship?"

جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When he said to his father and his people: "What do you worship!" meaning: what are these statues to which you are so devoted! قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ : یہ سوال کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو، پوچھنے کے لیے نہیں تھا، کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) جانتے تھے کہ وہ بت پوجتے ہیں، بلکہ بت پرستی پر غور و فکر کی دعوت دینے کے لیے تھا، کیونکہ اپنا موقف خود بیان کرتے وقت اس کی کمزوریاں انسان کے سامنے اس سے کہیں زیادہ آتی ہیں کہ کوئی دوسرا اسے بیان کرے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُوْنَ۝ ٧٠ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠) جب کہ انہوں نے اپنے باپ آزر اور اپنی قوم سے جو کہ بت پرست تھے فرمایا کہ تم کس بیہودہ چیز کی عبادت کیا کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 Obviously the object of this question was to remind the people that the deities which they worshipped were false and absolutely powerless. In Surah AIAnbiya' the same question has been posed thus: "What are these images to which you are so devoted '?" (V. 52).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :51 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کا مدعا یہ معلوم کرنا نہ تھا کہ وہ کن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں ، کیونکہ ان بتوں کو تو وہ خود بھی دیکھ رہے تھے جن کی پرستش وہاں ہوتی تھی ۔ ان کا مدعا دراصل ان لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ ان معبودوں کی حقیقت کیا ہے جن کے آگے وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اسی سوال کو سورہ انبیاء میں بایں الفاظ نقل کیا گیا ہے ۔ یہ کیسی مورتیں ہیں جن کے تم گرویدہ ہو رہے ہو ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی دیکھو تو سہی کہ تمہارے ان معبودوں کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ پوچھنا اتمام حجت کی غرض سے تھا۔ (دیکھئے انبیاء آیت 52)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینا اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت بیان کرنا اور بارگاہ خداوندی میں دعائیں پیش کرنا یہاں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت توحید اور قوم کی تبلیغ کا بیان شروع ہو رہا ہے آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء نقل فرائی ہے جو انہوں نے اللہ جل شانہٗ سے اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے کی تھی۔ انہوں نے اپنے باپ کو اور اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے روکا ان لوگوں نے جو بےت کے جواب دیئے اس کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مواقع میں کیا گیا یہاں جو مکالمہ مذکور ہے قریب قریب اسی طرح کی گفتگو سورة الانبیاء (ع ٥) میں بھی گزر چکی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کن چیزوں کی عبادت کرتے ہو ؟ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہ لوگ بتوں کے پجاری ہیں بظاہر اس سوال کی حاجت نہ تھی لیکن انہوں نے سوال اس لیے فرمایا کہ جواب دیتے وقت ان کے منہ سے ان کی پرستش کا اقرار ہوجائے اور پھر وہ ان کے اقرار کو بنیاد بنا کر اگلا سوال کرسکیں) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب میں وہ لوگ کہنے لگے ہم تو بتوں کو پوجتے ہیں اور انہی پر دھرنا دیئے بیٹھے رہتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا یہ جو تم ان کی عبادت کرتے ہو اس میں تمہیں کیا فائدہ نظر آتا ہے ؟ تم جب ان کو پکارتے ہو اور ان سے کسی حاجت کے پورا ہونے کا سوال کرتے ہو تو کیا وہ تمہاری بات سنتے ہیں اور کیا تمہاری عبادت کرنے کی وجہ سے تمہیں کوئی نفع پہنچاتے ہیں اور کیا ان کی عبادت ترک کردینے سے کوئی ضرر پہنچا دیتے ہیں ؟ وہ لوگ یہ جواب تو دے نہ سکے کہ وہ بات سنتے ہیں یا کوئی ضرر پہنچا سکتے ہیں اور اس طرح کا کوئی جواب ان کے پاس تھا بھی نہیں، لا محالہ مجبور ہو کر وہی بات کہہ دی جو مشرکوں کا طریقہ ہوتا ہے کہ ہم تو اپنے باپ دادوں کی تقلید کرتے ہیں یعنی دلیل اور سند تو کوئی ہمارے پاس نہیں باپ دادوں کو جو کچھ کرتے دیکھا ہم بھی وہ کرنے لگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم اور تمہارے پرانے باپ دادے جن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں ان کے بارے میں کچھ تو غور کیا ہوتا یہ کیسی ناسمجھی کی بات ہے کہ جو چیز نہ سنے اور نہ دیکھے نہ نفع دے سکے نہ ضرر پہنچا سکے اس کو معبود بنا بیٹھے وہ کیسے معبود ہوسکتا ہے جو اپنی عبادت کرنے والے سے بھی کمتر ہو یہ تو رہی تمہاری بات، رہا میں، تو میرے نزدیک یہ بات ہے کہ یہ میرے دشمن ہیں اگر میں ان کی عبادت کرنے لگوں تو ان کی عبادت کی وجہ سے مجھے سخت نقصان پہنچے گا اور آخرت کے عذاب میں مبتلا ہونا پڑے گا لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا جو بھی رب بنا رکھے ہیں وہ انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتے وہ سب ان کے دشمن ہیں ہاں جو لوگ صرف رب العالمین جل مجدہ کی عبادت میں مشغول ہیں وہی نفع میں ہیں رب العالمین جل مجدہ ان کا ولی ہے اور وہ اپنے رب کے اولیاء ہیں (یہ جو فرمایا (فَاِِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّیْ ) یہ انہوں نے اپنے اوپر رکھ کر کہا اور مقصود یہ تھا کہ یہ باطل معبود تمہارے دشمن ہیں دعوت تبلیغ کا کام کرنے والے مختلف اسالیب بیان اختیار کرتے رہتے ہیں) اس کے بعد رب العالمین جل مجدہ کی صفات جلیلہ بیان فرمائیں اور مشرکین کو بتادیا کہ دیکھو میں جس کی عبادت کرتا ہوں تم بھی اسی کی عبادت کرو۔ اولاً یوں فرمایا (الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَ یَہْدِیْنِ ) (جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی صحیح راہ بتاتا ہے) ثانیاً (وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ ) (اور جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے) ثالثاً (وَاِِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ ) (اور جب میں مریض ہوجاتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے) رابعاً (وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ ) (اور جو مجھے موت دے گا پھر زندہ فرمائے گا) خامساً (وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ ) (اور جس سے میں اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ وہ انصاف کے دن میں قصور کو معاف فرما دے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے رب العالمین جل مجدہ کی صفات جلیلہ بیان فرما کر بتادیا کہ دیکھو میں ایسی عظیم ذات کی عبادت کرتا ہوں تمہارے معبودوں میں ان میں سے ایک صفت بھی نہیں ہے پھر تم انہیں کیسے پوجتے ہو ؟ نیز یہ بھی بتادیا کہ یہی دنیا سب کچھ نہیں ہے اس کے بعد موت بھی ہے اور موت کے بعد زندہ ہونا بھی ہے اور انصاف کے دن کی پیشی بھی ہے ہاں رب العالمین کے منکروں اور باغیوں کو عذاب ہوگا اگر اسی دنیا میں توبہ کرلی جائے تو رب العالمین جل مجدہ خطاؤں کو معاف فرما دے گا۔ سب سے بڑا گناہ کفر و شرک ہے اس سے باز آجاؤ تاکہ انصاف کے دن گرفت نہ ہو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات اپنے اوپر رکھ کر ان لوگوں کو بتادی اور سمجھا دی اس سے اہل ایمان کو بھی سبق لینا چاہئے کہ جب جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے کو خطاء وار سمجھ رہے ہیں اور رب العالمین جل مجدہ سے بخشش کی لو لگائے ہوئے ہیں تو عام مومنین کو تو اور زیادہ اپنے کو قصور وار سمجھنا لازم ہے۔ اپنے کو خطا کار بھی سمجھیں اور مغفرت کی دعائیں بھی کرتے رہیں اور بخشش کی امید بھی رکھیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

70۔ جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا چیز ہے جس کی تم پرستش کرتے ہو۔