Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 74

سورة الشعراء

قَالُوۡا بَلۡ وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۷۴﴾

They said, "But we found our fathers doing thus."

انہوں نے کہا یہ ( ہم کچھ نہیں جانتے ) ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He said: "Do they hear you when you call Or do they benefit you or do they cause harm!" They said: "(Nay) but we found our fathers doing so." They knew that their idols could not do anything, but they had seen their fathers doing this, so they made haste to follow in their footsteps. So Ibrahim said to them: قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

741جب وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے تو یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل کرلیا۔ کہ ہمارے آبا و اجداد سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کے مشرکوں سے جو سوال کئے وہ ایسی صفات ہیں جن کا ایک معبود حقیقی میں پایا جانا لازمی ہے۔ یعنی وہ پکارنے والے کی پکار یا فریاد کو سنتا ہو پھر اس کا جواب بھی دیتا ہو۔ اس کی حاجت براری کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اسے نقصان اور تکلیف سے بچا بھی سکتا ہو۔ اگر کسی معبود میں یہ صفات نہ پائی جائیں تو وہ معبود باطل ہی ہوسکتا ہے حقیقی نہیں ہوسکتا۔۔ اور یہ سوالات دراصل && گفتہ آید از حدیث دیگراں && کے مصداق قریش مکہ سے ہی ان کے معبودوں کے متعلق سوال ہیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم آپ کے سوالوں کا تو کوئی جواب دے نہیں سکتی تھی۔ لے کے ان کے پاس جو جواب ہوسکتا تھا یہ تھا کہ چونکہ ہمارے آباء و اجداد ایسا کرتے آئے ہیں اور مدتوں سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے لہذا ہم بھی یہ کام چھوڑ نہیں سکتے۔ ہمارے آباء و اجداد ہم سے زیادہ سمجھدار زیادہ بزرگ اور زیادہ نیک تھے۔ آخر انہوں نے ان بتوں کی پرستش میں کچھ فائدہ دیکھا ہوگا۔ تبھی تو انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا آخر ان کے پاس بھی کوئی دلیل تو ہوگی ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ : یعنی لکڑی، پتھر اور دھات کے یہ بت سنتے تو نہیں، نہ ہی کوئی نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں، مگر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو قدیم زمانے سے ایسے ہی کرتے ہوئے پایا ہے، تو کیا وہ سب بیوقوف تھے جو ان کی پوجا کرتے رہے، آخر ان کے پاس ان کی عبادت کی کوئی دلیل تو ہوگی۔ گویا جب کوئی معقول جواب نہ بن پڑا تو باپ دادا کی تقلید کا سہارا لیا، جو ہر اندھے کی لاٹھی اور ڈوبنے والے کے لیے آخری تنکا ہے۔ یہی حال ان مقلد حضرات کا ہے جو اس لیے اپنے امام کی تقلید کرتے جا رہے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگ بھی تو ان کی تقلید کرتے رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۝ ٧٤ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) ان لوگوں نے کہا نہیں یہ بات تو نہیں بلکہ ہم نے اپنے بڑوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے تو ہم بھی ان کی پیروی میں ان کی عبادت کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ) ” ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے ہوئے پایا ہے ‘ چناچہ ہم نے بھی ان کی پیروی میں وہی طریقہ اختیار کرلیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53 That is, "We do not worship and serve them because they hear our prayers and supplications, or that they can harm and benefit us, but because we have seen our elders worshipping and serving them." Thus, they themselves admitted that the only reason of their worshipping the idols was the blind imitation of their forefathers. In other words, they meant this: "There is nothing new in what you are telling us, We know that these are idols of stone and wood, which do not hear anything, nor can haran or do good; but we cannot believe that our elders who have been worshipping them since centuries, generation after generation, were foolish people. They must have had some good reason for worshipping these lifeless images, so we are doing the same as we have full faith in them."

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :53 یعنی ہماری اس عبادت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ ہماری مناجاتیں اور دعائیں اور فریادیں سنتے ہیں یا ہمیں نفع اور نقصان پہنچاتے ہیں اس لیے ہم نے ان کو پوجنا شروع کر دیا ہے ، بلکہ اصل وجہ اس عبادت کی یہ ہے کہ باپ دادا کے وقتوں سے یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ اس طرح انہوں نے خود یہ اعتراف کر لیا کہ ان کے مذہب کے لیے باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کوئی سند نہیں ہے ۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آخر تم نئی بات ہمیں کیا بتانے چلے ہو؟ کیا ہم خود نہیں دیکھتے کہ یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیں ہیں ؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ لکڑیاں سنا نہیں کرتیں اور پتھر کسی کا کام بنانے یا بگاڑنے کے لیے نہیں اٹھا کرتے ؟ مگر یہ ہمارے بزرگ جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل ان کی پوجا کرتے چلے آ رہے ہیں تو کیا وہ سب تمہارے نزدیک بے وقوف تھے ؟ ضرور کوئی وجہ ہو گی کہ وہ ان بے جان مورتیوں کی پوجا کرتے رہے ۔ لہٰذا ہم بھی ان کے اعتماد پر یہ کام کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:74) قالوا بل وجدنا ۔۔ الخ ای قالوا لایسمعون ولا ینفعوننا ولا یضرون وانما وجدنا باء نا یفعلوں کذلک انہوں نے کہا کہ یہ بت نہ سنتے ہیں نہ ہمیں کوئی نفع و نقصان پہنچاتے ہیں ہم نے تو اپنے آباء و اجداد کو ایسا کرتے پایا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی یہ تو صحیح ہے کہ لکڑی اور مٹی کے یہ بت نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر… الخ 7 ۔ اس لئے ہم انہیں بےسوچے سمجھے پوجے جا رہے ہیں۔ گویا جب کوئی معقول جواب نہ بن پڑا تو باپ دادا کی تقلید کا سہارا لیا جو ہر لنگڑے کی لاٹھی اور ڈوبنے والے کا آخری تنکا ہے۔ یہی حال ان مقلد حضرات کا ہے جو اس لئے اپنے امام کی تقلید کر رہے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگ بھی تو امام صاحب کی تقلید کرتے رہے ہیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا بل وجدنآ ابآء نا کذلک یفعلون (٧٤) بیشک یہ بات تو نہ نفع دیتے ہیں ، نہ نقصان اور نہ سنتے ہیں لیکن ہمارے آباء و اجداد سے یہ عمل یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے کہ ہم ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ تو نہایت ہی شرمسار کرنے والا جواب ہے لیکن مشرکین بڑی ڈھٹائی سے یہ جواب دیتے ہیں اور اسی طرح مکہ کے مشرکین بھی یہی کہتے تھے اور کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے بلکہ ان کے لئے ان کے آباء و اجداد کا فعل ہی کافی دلیل تھا۔ مزید بحث کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان لوگوں کی یہ آباء پرستی ہی اسلام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی کہ وہ آباء کے دین کو چھوڑ دیں ، یوں وہ آباء و اجداد کی پیروی ترک کردیں اور بالواسطہ یہ اقرار کرلیں کہ ہمارے آباء گمرایہ پر تھے۔ لہٰذا گزرے ہوئے اجداد کے حق میں یہ بات درست نہیں ہے۔ یوں آباء و اجداد کا یہ احترام ، بےحقیقت احترام ، سچائی کو قبول کرنے کی راہ میں ہمیشہ ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ خصوصاً جب لوگ عقلی لحاظ سے جامد اور کورے ہوجاتے ہیں اور ایسے جمود اور دہم پرستی اور آباء پرستی سے لوگوں کو نکالنے کے لئے ان کو بڑا ذہنی جھٹکا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ لوگ آزادانہ غور و فکر سے کام لیں۔ اس جموں اور غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے ضروری تھا کہ حضرت ابراہیم ان کو ایک سخت جھٹکا دیں حالانکہ حضرت ابراہیم اپنے مزاج کے اعتبار سے نہایت ہی نرم اور سنجیدہ تھے۔ چناچہ آپ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اچھا میں تو ان کا دشمن ہوں اور ان تمام نظریات کا دشمن ہوں جو اس بات پرستی کی اساس پر اٹھائے گئے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74۔ ان لوگوں نے جواب دیا نہیں بلکہ ہم نے بڑوں اور باپ دادوں کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا ہے یعنی بڑوں سے ان کی پوجا ہوتی چلی آئی ہے بھی اپنے بڑوں کی رسم پر ان کی پوجا کرتے ہیں اور ہم نے کسی اور بات پر غور نہیں کیا۔