Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 83

سورة الشعراء

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۳﴾

[And he said], "My Lord, grant me authority and join me with the righteous.

اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prayer of Ibrahim for Himself and for His Father Allah tells about the prayer of Ibrahim: رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا ... My Lord! Bestow Hukm on me, Here Ibrahim, upon him be peace, asks his Lord to give him Hukm. Ibn Abbas said, "This is knowledge." ... وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ and join me with the righteous. means, `make me o... ne of the righteous in this world and the Hereafter.' This is like the words the Prophet said three times when he was dying: اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الاَْعْلَى O Allah, with the Exalted Companion (of Paradise). وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الاْاخِرِينَ   Show more

حکم سے کیا مراد ہے؟ حکم سے مراد علم عقل الوہیت کتاب اور نبوت ہے ۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے یہ چیزیں عطا فرما کر دنیا اور آخرت میں نیک لوگوں میں شامل رکھ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری وقت میں دعا مانگی تھی کہ اے اللہ اعلیٰ رفیقوں میں ملادے تین ب... ار یہی دعا کی ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی مروی ہے ۔ ( اللہم احینا مسلمین وامتنا مسلمین والحقنابالصالحین غیر خزایا ولامبدلین ) ۔ یعنی اے اللہ! ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور مسلمانی کی حالت میں ہی موت دے اور نیکوں میں ملادے ۔ در آنحالیکہ نہ رسوائی ہو نہ تبدیلی ۔ پھر اور دعا کرتے ہیں کہ میرے بعد بھی میرا ذکر خیر لوگوں میں جاری رہے ۔ لوگ نیک باتوں میں میری اقتدا کرتے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا ذکر پچھلی نسلوں میں باقی رکھا ۔ ہر ایک آپ پر سلام بھیجتا ہے اللہ کسی نیک بندے کی نیکی اکارت نہیں کرتا ۔ ایک جہان ہے جن کی زبانیں آپ کی تعریف وتوصیف سے تر ہیں ۔ دنیا میں بھی اللہ نے انہیں اونچائی اور بھلائی دی ۔ عموما ہر مذہب وملت کے لوگوں خلیل اللہ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں ۔ اور دعا کرتے ہیں کہ میرا ذکر جمیل جہاں میں باقی رہے وہاں آخرت میں بھی جنتی بنایا جاؤں ۔ اور اے اللہ میرے گمراہ باپ کو معاف فرما ۔ لیکن اپنے کافر باپ کے لئے یہ استغفار کرنا ایک وعدے پر تھا جب آپ پر اس کا دشمن اللہ ہونا کھل گیا کہ وہ کفر پر ہی مرا تو آپ کے دل سے اس کی عزت ومحبت جاتی رہی اور استغفار کرنا بھی ترک کردیا ۔ ابرہیم علیہ السلام بڑے صاف دل اور بردبار تھے ۔ ہمیں بھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روش پر چلنے کا حکم ملا ہے وہیں یہ بھی فرمادیا گیا ہے کہ اس بات میں انکی پیروی نہ کرنا پھر دعا کرتے ہیں کہ مجھے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچالینا ۔ جب کہ تمام اگلی پچھلی مخلوق زندہ ہو کر ایک میدان میں کھڑی ہوگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد سے ملاقات ہوگی ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کا منہ ذلت سے اور گرد وغبار سے آلودہ ہو رہا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ اس وقت آپ جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ پروردگار تیرا مجھ سے قول ہے کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرے گا ۔ اللہ فرمائے گا سن لے جنت تو کافر پر قطعاحرام ہے اور روایت میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر فرمائیں گے کہ دیکھ میں تجھے نہیں کہہ رہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کر باپ جواب دے گا کہ اچھا اب نہ کرونگا آپ اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے کہ پروردگار تو نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ اس دن مجھے رسوا نہ فرمائے گا ۔ اب اس سے بڑھ کر اور رسوائی کیا ہوگی کہ میرا باپ اس طرح رحمت سے دور ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے خلیل علیہ السلام میں نے جنت کو کافروں پر حرام کردیا ہے پھر فرمائے گا ابراہیم دیکھ تیرے پیروں تلے کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ ایک بد صورت بچھو کیچڑ و پانی میں لتھڑا کھڑا ہے جس کے پاؤں پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا حقیقتا یہ ان کے والد ہونگے جو اس صورت میں کردئیے گئے اور اپنی مقررہ جگہ پہنچادئے گئے اس دن انسان اگر اپنا فدیہ مال سے ادا کرنا چاہے گو دنیابھر کے خزانے دے دے لیکن بےسود ہے ، نہ اس دن اولاد فائدہ دے گی ۔ تمام اہل زمین کو اپنے بدلے میں دینا چاہے پھر بھی لاحاصل ۔ اس دن نفع دینے والی چیز ایمان اخلاص اور شرک اور اہل شرک سے بیزاری ہے ۔ جس کا دل صالح ہو یعنی شرک وکفر کے میل کچیل سے صاف ہو ، اللہ کو سچا جانتا ہو قیامت کو یقینی مانتا ہو دوبارہ کے جی اٹھنے پر ایمان رکھتا ہو اللہ کی توحید کا قائل اور عامل ہو ۔ نفاق وغیرہ سے دل مریض نہ ہو ۔ بلکہ ایمان واخلاص اور نیک عقیدے سے دل صحیح اور تندرست ہو ۔ بدعتوں سے نفرت رکھتا ہو اور سنت سے اطمینان اور الفت رکھتا ہو ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

831حکم یا حکمت سے مراد علم و فہم، قوت فیصلہ، یا نبوت و رسالت یا اللہ کے حدود و احکام کی معرفت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] اللہ تعالیٰ کی مندرجہ بالا صفات بیان کرنے کے بعد حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوجاتے ہیں۔ پہلی دعا یہ ہے کہ یا اللہ مجھے صحیح قوت فیصلہ اور دینی بصیرت عطا فرما اور میرے علم میں اضافہ کر اور مجھے نیک لوگوں کی سوسائٹی عطا فرما۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ایک نیک بخت ... اور نیک سیرت انسان اگر کسی بری سوسائٹی میں پھنس جائے تو اسے جتنی تکلیف اور ذہنی کوفت ہے، اسے سب جانتے ہیں۔ لہذا ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اسے نیک لوگوں کی صحبت حاصل ہو۔ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ یقیناً نیک لوگوں کو نیک لوگوں سے ہی ملا دے گا۔ تاہم اس نعمت کے لئے بدست بدعا رہنا چاہئے۔ حضرت ابراہیم نے بھی ایسی دعا کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی وفات کے ساتھ یہ دعا فرمائی تھی۔ اللہم فی الرفیق الاعلی   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا : اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفات بیان کرنے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں چند دعائیں کی ہیں۔ اس میں دعا کا ادب ملحوظ رکھا گیا ہے اور اس کا سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف جس قدر ہو سکے کرو، پھر اپنی عرض داشت پیش کرو۔ سورة فاتحہ...  میں بھی یہی سبق سکھایا گیا ہے۔ 3 حُکْم کا معنی فیصلہ ہے، یعنی پروردگار ! فیصلے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں وہ سب مجھے عطا کر، یعنی اپنے دین کا پورا علم جس سے صحیح فیصلہ ہوتا ہے، پھر ہر معاملے کا صحیح فہم، پھر وہ اقتدار جس کے ساتھ فیصلہ نافذ ہوتا ہے۔ وَّاَلْـحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ : یعنی دنیا میں بھی صالح دوستوں اور ساتھیوں کی رفاقت عطا فرما اور آخرت میں بھی انھی کے ساتھ ملا دے۔ یوسف (علیہ السلام) نے بھی یہ دعا کی : (تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ ) [ یوسف : ١٠١ ] ” مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ “ اور ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی آخری وقت دعا کی تھی : ( اَللّٰھُمَّ فِي الرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی ) ”(اے اللہ ! ) مجھے سب سے بلند رفیقوں میں شامل فرما دے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا تین دفعہ کی۔ [ بخاري، فضائل أصحاب النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب : ٣٦٦٩، ٤٤٣٧ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبِّ ہَبْ لِيْ حُكْمًا وَّاَلْـحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۝ ٨٣ۙ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ... ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ لحق لَحِقْتُهُ ولَحِقْتُ به : أدركته . قال تعالی: بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة/ 3] ( ل ح ق ) لحقتہ ولحقت بہ کے معنی کیس کو پالینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ۔ ( اور شہید ہو کر ) ان میں شامل نہ ہو سکے ۔ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة/ 3] اور ان میں سے دوسرے لوگوں کی طرف بھی ( ان کو بھیجا ہے جو ابھی ان مسلمان سے نہیں ملے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) اے میرے پروردگار مجھے جامعیت بین العلم والعمل میں زیادہ کمال عطا فرما اور مجھے جنت میں میرے بڑوں میں سے جو رسول گزرے ہیں ان کے ساتھ شامل فرما۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60 Hukm here dces not mean "Prophethood", because at the time this prayer was made, Prophet Abraham had already been appointed a Prophet. Even if this prayer was made before that, Prophethood is not bestowed on request, but it is something which Allah Himself bestows on those He wills. That is why, hukm has been translated wisdom, knowledge, right understanding and power of judgment. The Holy Prop... het is also reported to have made a similar prayer : Arinal-ashyaa' Kama hiya: "O Allah, give us the power to see and understand a thing as it really is and to form an opinion about it according to its reality." 61 "Join me with the righteous": "Give me a righteous society to live in in this world and raise me along with the righteous in the Hereafter." To be raised back to life with the righteous and to attain one's salvation have one and the same meaning. Therefore, this should be the prayer of every person who believes in the life-after-death and in reward and punishment. Even in this world a pious man cherishesthe desire that God should save him from living a life in an immoral and wicked society and should join him with the righteous people. A pious and righteous person will remain iII at ease and restless until either his own society should become clean and pure morally, or heleaves it to join another society which is practising and following the principles of truth and honesty.  Show more

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :60 حکم سے مراد نبوت یہاں درست نہیں ہے ، کیونکہ جس وقت کی یہ دعا ہے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت عطا ہو چکی تھی ۔ اور اگر بالفرض یہ دعا اس سے پہلے کی بھی ہو تو نبوت کسی کی طلب پر اسے عطا نہیں کی جاتی بلکہ وہ ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہ... ی جسے چاہتا ہے دیتا ہے ۔ اس لیے یہاں حکم سے مراد علم ، حکمت ، فہم صحیح اور قوت فیصلہ ہی لینا درست ہے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قریب قریب اسی معنی میں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دعا منقول ہے کہ :اَرِنَا الْاَ شْیَآءَ کَمَاھِیَ یعنی ہم کو اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھیں جیسی کہ وہ فی الواقع ہے اور ہر معاملہ میں وہی رائے قائم کریں جیسی کہ اس کی حقیقت کے لحاظ سے قائم کی جانی چاہیے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :61 یعنی دنیا میں مجھے صالح سوسائٹی دے اور آخرت میں میرا حشر صالحوں کے ساتھ کر ۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے ، صالح لوگوں کے ساتھ کسی کا حشر ہونا اور اس کا نجات پانا گویا ہم معنی ہیں ، اس لیے یہ تو ہر اس انسان کی دعا ہونی ہی چاہیے جو حیات بعد الموت اور جزا و سزا پر یقین رکھتا ہو ۔ لیکن دنیا میں بھی ایک پاکیزہ روح کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک بد اخلاق فاسق و فاجر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کی مصیبت سے نجات دے اور اس کو نیک لوگوں کے ساتھ ملائے ۔ معاشرے کا بگاڑ جہاں چاروں طرف محیط ہو وہاں ایک آدمی کے لیے صرف یہی چیز ہمہ وقت اذیت کی موجب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گردو پیش گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی دیکھتا ہے ، بلکہ اس کے لیے خود پاکیزہ رہنا اور اپنے آپ کو گندگی کی چھینٹوں سے بچا کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ اس لیے ایک صالح آدمی اس وقت تک بے چین ہی رہتا ہے جب تک یا تو اس کا اپنا معاشرہ پاکیزہ نہ ہو جائے ، یا پھر اس سے نکل کر وہ کوئی دوسری ایسی سوسائیٹی نہ پا لے جو حق و صداقت کے اصولوں پر چلنے والی ہو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:83) رب یا ربی کا مخفف ہے اے میرے رب۔ ھب۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ وھب وھبۃ مصدر (باب فتح) تو بخشش کر۔ تو عطا کر۔ حکما۔ حکم ۔ حکم کرنا حکم یحکم کا مصدر ہے کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے لیکن یہاں مراد علم و عمل کا کمال ہے ای کمالا فی العلم والعمل (مظہری) الحقنی۔ الحق الحاق (افعال) س... ے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے نون وقایہ ی ضمیر مفعول واحد متکلم ۔ تو مجھے ملا دے ۔ تو مجھے شامل کر دے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنے کے بعد اب دعا شروع کی تاکہ دوسرے بھی اقتدا کریں۔ ” حکما سے مراد یہ ہے کہ اپنے دین کا علم اس کے احکام کا صحیح فہم اور قوت فیصلہ عنایت فرما۔ (شوکانی) 12 ۔ جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات کے وقت دعا فرمائی تھی : اللھم فی الرفیق الا... طی۔ اے اللہ مجھے بلند مرتبہ ساتھیوں میں پہنچا دے۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جامعیت بین العلم والعمل میں زیادہ کمال عطا فرما، کیونکہ نفسی حکمت تو وقت دعا کے بھی حاصل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور فریادیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں بہت سی دعائیں کی ہیں۔ جن میں انسان کی بڑی بڑی حاجات کا ذکر ہے انہیں درج ذیل آیات میں ملاحظہ فرمائیں (البقرۃ : ١٢٦، ١٢٧، ١٢٨، ١٢٩) (سورۃ ابراہیم : ٣٧ تا ٤١) (الصافات : ١٠١) ۔ ی... ہاں ان کی چھ دعاؤں کا تذکرہ ہے جن میں ایک دعا کے سوا باقی تمام دعائیں شرف قبولیت سے ہمکنار ہوئیں۔ ١۔ میرے رب مجھے حکمت اور قوت فیصلہ عنایت فرما۔ ٢۔ میرے رب مجھے آخرت میں نیک لوگوں کی رفاقت نصیب فرما۔ ٣۔ میرے رب میرے بعد میرا ذکر خیر جاری رکھنا۔ ٤۔ میرے رب مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث بنانا۔ ٥۔ میرے رب میرا باپ گمراہ ہوچکا ہے اسے معاف فرما۔ ٦۔ میرے رب مجھے قیامت کے دن رسوائی سے بچانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا انجام : اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کو نہ صرف معاف نہیں کیا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آئندہ دعا کرنے سے روک دیا اور ان کے بعد ہمیشہ کے لیے اصول جاری فرمایا۔ (مَا کَان للنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ۔ وَمَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ) [ التوبہ : ١١٣۔ ١١٤] ” نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں جائز نہیں اس کے بعد کہ ان پر واضح ہوگیا کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ رشتہ دار ہوں، بلاشبہ وہ جہنمی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش طلب کرنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو وہ اپنے باپ سے کرچکے تھے پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ بیشک ابراہیم بہت آہ زاری کرنے والے اور حوصلہ مند تھے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآأَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآءِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو ان کا باپ کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فریاد کریں گے اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ فرمایا۔ میرے باپ کے معاملہ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجھو بن چکا ہوگا۔ جسے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منفرد اعزاز : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری دعا یہ تھی کہ میرے رب میرے بعد بھی میرا ذکر خیر ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور انہیں پوری دنیا کا امام بنایا۔ ( البقرۃ : ١٢٤) اور لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام پیدا کیا جس وجہ سے دنیا میں ہر مذہب کے لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور انہیں اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کی جو دعائیں قبول نہ ہوئیں : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے کے بارے میں دعاقبول نہیں ہوئی۔ ( ہود : ٤٦) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے باپ کے بارے میں دعامستجاب نہ ہوئی۔ ( التوبہ : ١١٤) ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں دعاشرف قبولیت نہ پاس کی۔ ( القصص : ٢٦) ٤۔ عبداللہ بن ابی منافق کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ ( التوبہ : ٨٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رب ھب ……سلیم (٨٩) حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی اس دعا پر ذرا غور فرمائیں کہ اس میں اس دنیا کے اغراض میں سے کو یء غرض نہیں ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی نہیں کہا کہ اے اللہ ، مجھے صحت عطا کیجیے۔ یہ پوری دعا بلند مقاصد اور اعلیٰ اور پاکیزہ شعور کی تحریک ہے۔ یہ اس خدا رسیدہ دل کی دعا ہے جس کے پیش نظر...  اللہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کے ہاں اللہ کے سوا ہر چیز کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور معرفت کے جس مقام تک یہ دل پہنچا ہے اس کے آگے مزید کا طلبگار ہے اور ایک ایسے قلب سے نکلی ہوئی دعا بیم و رجا کی حالت میں ہے کیونکہ اس نے اللہ کے کرم دیکھے ہوئے ہیں اور مزید کا امیدوار ہے۔ رب ھب لی حکما (٢٦ : ٨٣) ” اے میرے رب ، مجھے حکم عطا کر “۔ اے اللہ مجھے ایسی حکمت عطا کر جس کی روشنی میں کھری اور کھوٹی قدروں کے درمیان تمیز کرسکوں تاکہ میں ایسے طرز عمل پر قائم رہوں جو مجھے باقی رہنے والی قدروں تک پہنچائے۔ والحقنی بالصلحین (٢٦ : ٨٣) ” اور مجھے صالحوں کے ساتھ ملا دے۔ “ یہ حضرت ابراہیم کی دعا ہے جو نبی اور رسول ہیں اور گڑگڑانے والے اور نہایت ہی حلیم الطبع ہیں۔ اس عظیم المرتبہ ابوالانبیاء کی تواضح قابل دید ہے۔ ان کی احتیاط قابل ملاحظہ ہے۔ کس قدر خدا خوفی ان کی باتوں میں اور سک قدر اعتراف تصور ہے۔ وہ ہر وقت ڈرتے ہیں کہ انسان کا دل کسی بھی وقت برائی کی طرف مائل ہو سکتا ہے اس لئے وہ صالحین کی محفل اور ماحول کے طلبگار ہیں وہ اللہ کی توفیق سے عمل صالح کیل ئے یا عمل صالح پر قائم رہنے کے آرزو مند ہیں۔ واجعل لی لسان صدق فی الاخرین (٢٦ : ٨٣) ” اور بعد میں آنے والوں میں مجھ کو سچی نامویر عطا کر۔ “ آپ کی دعا یہ ہے کہ میری شروع کی ہوئی دعوت توحید قیامت تک رہے۔ وہ کثرت اولاد کے لئے دعا نہیں کرتے بلکہ آپ کی دعا آنے والی نسلوں میں آپ کے نقش قدم پر چلنے والے مداحوں کیل ئے ہے کہ وہ آپ کی دعوت توحید کو قبول کریں۔ اور ” دین حنیف “ کو اپنائیں اور یہی دعا آپ نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی کی ہے۔ اس وقت جب آپ اور آپ کے بیٹے اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔ ربنا واجعلنا ……الحیم (١٢٩) (٢ : ١٢٨-١٢٩) ” اے رب ، ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا ، مہاری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تو بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے اور اے ہمارے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو ، جو انہیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔ “ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا قبول فرمائی۔ آپ کی دعوت کو پھیلایا اور آنے والے زمانوں میں ان کے لئے تمام لوگ کلمہ خیر کہنے والے ہوئے اور پھر آپ کی دعا کے مطابق نبی آخر الزمان پیدا ہوئے اور ہزارہا سال کے بعد یہ دعا پوری ہوئی۔ لوگوں کے حساب میں تو دنیا کے ہزارہا سال بہت طویل ہیں لیکن اللہ کے نزدیک ان کی کوئی نہیں ہے اور اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ دعائے ابراہیمی اس قدر عرصہ کے بعد قبول ہو۔ واجعلنی من ورثۃ جنۃ النعیم (٢٦ : ٨٥) ” اور مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ “ اس سے قبل آپ نے دعا فرمائی تھی کہ مجھے صالحین کے گروہ میں شامل فرما اور عمل صالح کی توفیق دے کہ میں صالحین کی صفوں میں چلوں اور پھر اس جنت میں داخل ہو جائوں جس کی وراثت عباد صالحین کا حق ہے۔ واغفر لابی انہ کان من الضآلین (٢٦ : ٨٦) ” اور میرے باپ کو معاف کر دے۔ بیشک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے۔ “ باوجود اس کے کہ حضرت ابراہیم کو ان کے والد نے سختی سے ڈانٹا اور تہدید آمیز گفتگو کی لیکن انہوں نے اس گفتگو کے وقت بھی وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے لئے دعا ہی کرتا رہوں گا۔ یہ اس وعدے کی وجہ سے والد کے حق میں دعا فرما رہے ہیں۔ بعد میں یہ بات قرآن نے بیان کردی کہ مشرکین کے لئے دعائے مغفرت کر ناجائز نہیں ہے۔ اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہوں اور قرآن کریم نے اس بات کی بھی صراحت کردی کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت اس لئے کی تھی کہ انہوں نے باپ کے ساتھ اس کا وعدہ کیا تھا۔ فلما تبین لہ انہ عدوللہ تبراء منہ ” جب اسے معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس نے باپ سے برأت کا اظہار کردیا۔ “ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جان لیا کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست یہاں تو اخوت نظریاتی اخوتیں ہیں۔ اسلامی تربیت کے بنیادی عناصر میں سے ایک عنصر یہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں پہلا آمیزہ اور رابطہ اور تعلق نظریاتی تعلق ہے اور سکی انسان اور انسان کے درمیان مضبوط تعلق صرف نظریات کا ہو سکتا ہے جب یہ تعلق کٹ جائے تو تمام تعلقات کٹ جاتے ہیں اور پھر انسان انسان سے دور ہوجاتا ہے۔ کوئی رابطہ اور تعلق نہیں رہتا۔ ولا تخزنی یوم یبعثون (٢٦ : ٨٨) یوم لاینفع مال ولابنون (٢٦ : ٨٨) الامن اتی اللہ بقلب سلیم (٢٦ : ٨٩) ” اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائیج ائیں گے جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد ، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) کی اس بات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ قیامت کا دن کس قدر ہولناک ہوگا اور یہ کہ حضرت ابراہیم اللہ سے کس قدر حیا فرماتے ہیں اور اللہ کے سامنے شرمندہ ہونے سے کس قدر خائف ہیں اور یہ خوف اپنی تقصیر کی وجہ سے ہے کہ وہ ایک معزز نبی ہیں۔ نیز حضرت کی اس دعا سے ” جبکہ نہ مال کوئی فادئہ دے نہ اولاد ، بجز اس کے کہ کوئی قلب سلیم لے کر اللہ کے حضور حاضر ہو۔ “ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یوم قیامت کی ذمہ داریوں کو کس قدر تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا تھا۔ نیز آپ نے دنیاوی اقدار اور اسلامی اقدار کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ کیونکہ یوم القیامہ میں وہی کامیاب ہوگا جو اخلاص کے ساتھ آئے اور اس کا دل اللہ کے لئے ہوجائے اور اس کے اندر دنیا کا کوئی بت یا مقصد نہ ہو۔ ہر بیماری سے پاک ہو ، ہر مفاد سے پاک ہو ، ہر قسم کی خواہشات اور انحرافات سے پاک ہو۔ اللہ کے سوا کسی اور الہ و معبود سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ ہے قلب کی سلامتی جس کا اسلام اور قیامت میں کوئی وزن ہوگا۔ یوم لاینفع مال ولابنون (٢٦ : ٨٨) ” جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد۔ “ دنیا کی کوئی قدر اور کوئی ترجیح اس دن مفید مطلب نہ ہوگی حالانکہ اس دنیا میں ان مطالب اور ترجیحات کے پیچھے انسان کتوں کی طرح دوڑتے ہیں لیکن آخرت کے ترازو میں یہ ترجیحات بےوزن ہیں۔ اب یہاں قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر آتا ہے۔ وہ دن جس سے حضرت ابراہیم اس قدر خائف ہیں تو وہ دیکھو وہ دن نمودار ہوا۔ حضرت ابراہیم ابھی ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں اور سدت بدعا ہیں کہ منظر پر اس دن کا نقشہ نمودار ہوتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چند دعاؤں کا تذکرہ فرمایا (رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا) (اے میرے رب مجھے حکم عطا فرما) لفظ حکم کی تفصیل میں کئی قول ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے حکمت مراد ہے یعنی قوت علمیہ کا کمال مراد ہے اور مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی خیر کا علم عطا فرمائے اور ب... عض حضرات نے فرمایا ہے کہ حکم سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا اور اس کے تمام احکام کا علم مراد ہے تاکہ ان پر عمل کیا جائے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حکم سے نبوت مراد ہے لیکن یہ بات اس صورت میں تسلیم کی جاسکتی ہے جبکہ دعائے مذکور کے بعد نبوت سے سرفراز ہوئے ہوں (راجع روح المعانی ج ١٩ ص ٩٨) (وَّاَلْحِقْنِیْ بالصَّالِحِیْنَ ) (اور مجھے صالحین میں شامل فرما) یعنی مجھے ان حضرات میں شامل فرمادے جن کے علوم اور اعمال آپ کے نزدیک مقبول ہوں کیونکہ کتنا ہی علم ہو اور کیسا ہی عمل ہو مقبولیت عند اللہ کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ (وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِیْنَ ) (اور بعد میں آنے والے لوگوں میں اچھائی کے ساتھ میرا ذکر باقی رکھئے) یعنی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) جو میرے بعد آئیں گے اور ان کی جو امتیں ہوں گی ان میں میرا ذکر اچھائی سے ہوتا رہے یہ شرف مجھے ہمیشہ عطا فرمائیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا بھی قبول فرمائی ان کے بعد جتنے بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے سب انہیں کی ذریت میں سے تھے ساری امتوں نے انہیں خیر کے ساتھ یاد کیا اور امت محمدیہ صلی اللہ علی صاحبھا و سلم کا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خصوصی تعلق ہے اسے تو سب ہی جانتے ہیں اللہ جل شانہٗ نے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (ثُمَّ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعِ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا) (پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم حنیف کا اتباع کیجیے) اور شریعت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و التحیہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کے بہت سے احکام ہیں اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ ہر نماز میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر درود بھیجنے کا ذکر ہوتا ہے اور بار الہٰی میں درخواست پیش کی جاتی ہے کہ اے اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ کی آل پر صلاۃ اور برکت بھیجئے جیسا کہ آپ نے ابراہیم اور ان کی آل پر صلاۃ اور برکت بھیجی (وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ ) (اور مجھے جنت النعیم کے وارثوں میں سے بنا دیجیے) اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص کیسا ہی نیک ہو اسے بہرحال جنت نصیب ہونے کی دعا کرتے رہنا چاہئے اپنے اعمال پر گھمنڈ نہ رکھے۔ (وَاغْفِرْ لِاَبِیْ اِِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ ) (اور میرے باپ کی مغفرت فرمائیے بلاشبہ وہ گمراہوں میں سے ہے) یعنی میرے باپ کو ایمان کی توفیق دیجیے اور اس طرح مغفرت کے قابل بنا کر اس کی مغفرت فرما دیجیے اس بارے میں مزید کلام سورة توبہ کی آیت (وَّمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ ) اور سورة ابراہیم کی آیت (رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) کے ذیل میں گزر چکا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ ” حکما “ سے کمال علمی ” والحقنی بالصلحین “ سے کمال عملی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی مجھے حکمت اور کمال علم عطا فرما اور کمال عمل کی توفیق عطا فرما کر اپنے برگزیدہ بندوں کی معیت سے سرفراز فرما۔ ” واجعل لی لسان صدق الخ “ ” لسان صدق “ یعنی ذکر خیر، آئندہ نسلوں میں میرا ذکر خیر باقی رکھنا تاکہ وہ نیک کام... وں میں میری اقتداء کرتی رہیں اور مجھے اجر ملتا رہے۔ حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں ” لسان صدق “ سے کلمہ صادقہ یعنی دعوی توحید مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے ” وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ لعلھم یرجعون “ (زخرف رکوع 3) ۔ ممکن ہے آخرین سے امت محمدیہ مراد ہو اور مطلب یہ ہو کہ آخر زمانہ میں ایک پیغمبر معبوث فرما جو میرے اصول دین کی تجدید کرے اور میری طرح لوگوں کو توحید کی دعوت دے۔ التاویل الثانی انہ سال ربہ ان یجعل من ذریتہ فی اخر الزمان من یکون داعیا الی اللہ تعالیٰ وذلک ھو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کبیر ج 6 ص 530) ویحتمل ان یراد بالاخرین اخر امۃ یبعث فیھا نبی وانہ (علیہ السلام) طلب ؟ ؟ الحسن والذکر الجمیل فیھم ببعثۃ نبی یجدد اصل دینہ و یدعو الناس الی ما کان یدعوھم الیہ من التوحید معلما لھم ان ذلک ملۃ ابراہیم (علیہ السلام) (روح ج 19 ص 98) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83۔ اے میرے پروردگار مجھ کو صحیح فہم عطا فرما اور مجھ کو نیک لوگوں کیساتھ شامل کردے حکم کا ترجمہ ہم نے صحیح فہم سے کیا ہے ہوسکتا ہے کہ کمال علم و عمل مراد ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراتب علیا کی طلب مراد ہو شائستہ اور نیک لوگوں کے ساتھ اور اعلیٰ درجے کے لوگوں کے ساتھ مجھے محلق کردے۔