Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 86

سورة الشعراء

وَ اغۡفِرۡ لِاَبِیۡۤ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾

And forgive my father. Indeed, he has been of those astray.

اور میرے باپ کو بخش دے یقیناً وہ گمراہوں میں سے تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاغْفِرْ لاِاَبِي ... And forgive my father, This is like the Ayah, رَبَّنَا اغْفِرْ لِى وَلِوَالِدَىَّ My Lord! Forgive me, and my parents. (71:28) ... إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ verily, he is of the erring. But this is something which Ibrahim, peace be upon him, later stopped doing, as Allah says: وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لاَِبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لاوَّاهٌ حَلِيمٌ And Ibrahim's invoking (of Allah) for his father's forgiveness was only because of a promise he ﴿Ibrahim﴾ had made to him (his father). But when it became clear to him ﴿Ibrahim﴾ that he (his father) is an enemy of Allah, he dissociated himself from him. Verily, Ibrahim was Awwah and forbearing. (9:114) Allah stopped Ibrahim from asking for forgiveness for his father, as He says: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُوْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلاَّ قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لاَِبِيهِ لاََسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ Indeed there has been an excellent example for you in Ibrahim and those with him, when they said to their people: "Verily, we are free from you and whatever you worship besides Allah, we have rejected you, and there has started between us and you, hostility and hatred forever until you believe in Allah alone," -- except the saying of Ibrahim to his father: "Verily, I will ask forgiveness for you, but I have no power to do anything for you before Allah." (60:4) وَلاَ تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

861یہ دعا اس وقت کی تھی، جب ان پر واضح نہیں تھا کہ مشرک (اللہ کے دشمن) کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے واضح کردیا، تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کردیا (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ) 9 ۔ التوبہ :114)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] جب باپ نے حضرت ابراہیم کو مشرک کے خلاف جہاد کی سزا کے طور پر گھر سے نکلا تھا۔ اس وقت حضرت ابراہیم نے اپنے باپ سے دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔ (١٩: ٤٧ ( اس کے بعد آپ نے دعائے مغفرت بھی فرمائی جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔ اور ایک دفعہ اپنے والد اور والدہ دونوں کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی تھی۔ (١٤: ٤١) پھر جب آپ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ مشرک کی کسی حال میں مغفرت نہیں ہوگی تو آپ نے ایسی دعا کرنا چھوڑ دی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ : ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے رخصت ہوتے وقت استغفار کی دعا کا وعدہ کیا تھا (مریم : ٤٧) چناچہ انھوں نے یہ دعا فرمائی۔ زندگی میں دعا کا حاصل یہ ہے کہ اسے توبہ کی توفیق بخش، تاکہ اس کے گناہ معاف ہوجائیں اور وفات کے بعد ہو تو اس کے شرک اور دوسرے گناہ معاف کرنے کی دعا ہے، لیکن بعد میں جب انھیں معلوم ہوا کہ ایک مشرک اور دشمن حق کے لیے دعائے مغفرت کرنا صحیح نہیں ہے تو انھوں نے اس دعا سے رجوع کرلیا، جیسا کہ سورة توبہ میں ہے : (ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ) [ التوبۃ : ١١٤ ] ” پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ بیشک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بےتعلق ہوگیا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Supplication for the absolution of disbelievers is not allowed وَاغْفِرْ‌ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ ﴿٨٦﴾ And forgive my father. Indeed he was among those who went astray. (26:86) This prayer of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ill seems to be against the following verse: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُ‌وا لِلْمُشْرِ‌كِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْ‌بَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ |"It is not for the Prophet and the believers to seek forgiveness for the Mushriks, even if they are kinsmen, after it became clear to them that they are the people of hell. (9:113) This verse clearly lays down the rule that it is not allowed for a Muslim to pray for the forgiveness of the one about whom it is certainly known that he died in the state of kufr. Now the question arises here as to why did Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) supplicate for the forgiveness of his father, who was a disbeliever? Allah Ta’ ala himself has given answer to this question in the Holy Qur’ an: وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ‌ إِبْرَ‌اهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّ‌أَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَ‌اهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ And the prayer of Ibrahim for the forgiveness of his father was not but due to a promise he had made to him. Later when it became clear to him that he was an enemy of Allah, he withdrew himself from him. Surely, Ibrahim is oft-sighing (before Allah), forbearing. (9:114) The gist of the answer is that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had supplicated for the pardon of his father within his lifetime with the intent and desire that Allah Ta’ ala would give him Divine help to turn to faith, after which the forgiveness was sure. Alternatively, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was of the opinion that his father had accepted the faith, but had not made it public. But once he learnt that his father had died as an infidel, he pronounced his complete disgust against his attitude and disowned it. Note The point whether Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had become aware of the infidelity of his father within his lifetime or came to know about it after his death, or he would know this on the Dooms Day, is fully discussed in Surah Taubah.

مشرکین کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں : وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ، قرآن مجید کے اس فرمان کے بعد مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ) اب کسی ایسے شخص کے لئے جس کا کفر پر مرنا یقینی ہو استغفار اور دعائے مغفرت طلب کرنا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ آیت مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے کہ کسی نبی اور ایمانداروں کے لئے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت طلب کریں خواہ وہ اس کے رشتہ دار اور قریبی ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان کا جہنمی ہونا بالکل واضح ہوچکا ہو۔ ایک سوال و جواب : اب یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اس نہی اور ممانعت کے بعد پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مشرک باپ کے لئے کیوں دعائے مغفرت مانگی۔ اس کا جواب خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دے دیا کہ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ (توبہ) جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لئے ان کی زندگی میں استغفار اس نیت اور خیال سے کی تھی کہ اللہ رب العزت ان کو ایمان لانے کی توفیق دے جس کے بعد مغفرت یقینی ہے یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ خیال تھا کہ میرا باپ خفیہ طور پر ایمان لے آیا ہے اگرچہ اس کا اظہار اور اعلان نہیں کیا لیکن جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ میرا باپ تو کفر پر مرا ہے تو انہوں نے اپنی پوری بیزاری اور براة کا اظہار فرمایا۔ (فائدہ) اس بات کی تحقیق کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو باپ کا کفر اور شرک اپنے باپ کی زندگی میں معلوم ہوگیا تھا یا مرنے کے بعد یا قیامت کے روز ہوگا، اس کی پوری تفصیل سورة توبہ میں مذکور ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝ ٨٦ۙ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 Some commentators have interpreted this prayer of Prophet Abraham for his father's forgiveness to imply that he had prayed to God to grant his father the favour to accept Islam because forgiveness in any case is inter-linked with and dependent upon Faith. But this interpretation is not borne out by the other verses of the Qur'an. The Qur'an says that when Prophet Abraham left his home at the tyrannical treatment of his father, he said, "I bid farewell to you; I shall pray to my Lord to forgive you for He is very kind to me." (Maryam: 47) To fulfill this promise, he not only prayed for the forgiveness of his father, but for both his parents: "Lord, forgive me and my parents..." (Ibrahim: 41). But afterwards he himself realized that an enemy of the Truth, even if he be the father of a believer, does not deserve a prayer of forgiveness. Thus according to verse 114 of AtTaubah: "The prayer of Abraham for his father was only to fulfil a promise he had made to him, but when he realized that he was an enemy of Allah, he disowned him."

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :63 بعض مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعائے مغفرت کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ مغفرت بہرحال اسلام کے ساتھ مشروط ہے اس لیے آنجناب کا اپنے والد کی مغفرت کے لیے دعا کرنا گویا اس بات کی دعا کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ لیکن قرآن مجید میں اس کے متعلق مختلف مقامات پر جو تصریحات ملتی ہیں وہ اس توجیہ سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے ظلم سے تنگ آ کر جب گھر سے نکلنے لگے تو انہوں نے رخصت ہوتے وقت فرمایا : سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیٓ اِنَّہ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ( مریم ، آیت 47 ) آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا ، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے ۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے یہ دعائے مغفرت نہ صرف اپنے باپ کے لیے کی بلکہ ایک دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ ماں اور باپ دونوں کے لیے کی : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ ( ابرہیم ۔ آیت 41 ) ۔ لیکن بعد میں انہیں خود یہ احساس ہو گیا کہ ایک دشمن حق ، چاہے وہ ایک مومن کا باپ ہی کیوں نہ ہو ، دعائے مغفرت کا مستحق نہیں ہے ۔ وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اَنَّہ عَدُوٌّ لِلہِ تَبَرَّأ مِنْہُ ( التوبہ ۔ آیت 114 ) ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا ۔ مگر جب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس نے اس سے اظہار بیزاری کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: سورۂ مریم (١٩: ٤٧) میں گزرچکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں گے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممانعت آگئی اور معلوم ہوگیا کہ وہ کبھی ایمان نہیں لائے گا تو انہوں نے بھی اس سے براءت کا اظہار فرمادیا، جیسا کہ سورۂ توبہ (٩: ١١٤) میں گزرچکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٦ تا ٨٩:۔ سورة توبہ اور سورة مریم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کی تفسیر گزر چکی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے باپ آزر کی بت پرستی سے بےزار ہو کر باپ سے جدا ہونے لگے تو باپ کے حق میں دعائے خیر کرنے کا وعدہ انہوں نے باپ سے کیا تھا اس وعدہ کو پورا کرنے کے لیے اس وقت تک باپ کے لیے مغفرت کی دعا مانگا کرتے تھے جب تک باپ کے کفر کی حالت پر مرنے کا یقین ان کو نہیں ہوا تھا جب یہ معلوم ہوگیا کہ باپ کا خاتمہ کفر پر ہوا تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کے لیے دعا مانگنی چھوڑ دی تھی اب یہی حکم شریعت محمدی میں سورة توبہ اور سورة ممتحنہ کے نازل ہونے کے بعد سے قائم ہے کیونکہ سورة توبہ اور سورة ممتحنہ میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے رشتہ داروں کے لیے دعائے مغفرت کرنے کو منع فرمایا ہے جب کہ کفر کی حالت پر مرنا معلوم ہوجائے ہاں سورة توبہ کے نازل ہونے سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب اور اپنے ماں باپ کے لیے مغفرت کی دعا مانگنے کا ارادہ کیا تھا اور بعضے صحابہ (رض) بھی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت کی دعا مانگا کرتے تھے اسی پر اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ کی آیت ما کان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین نازل فرمائی صحیح بخاری کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث ١ ؎ کا حاصل یہ ہے کہ آزر کو ایک جانور کی صورت بنا کر جب دوزخ میں ڈالا جائے گا تو اللہ سے اپنے باپ آزر کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جھگڑیں گے اور اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گا کہ آزر کفر کی حالت میں مرے ہیں اور جنت کافروں پر حرام ہے اس حدیث کو بعضے مفسروں نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کر کے یہ اعتراض کیا ہے کہ آزر کی حالت کفر پر مرنے کا یقین ہوجانے کے بعد جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دنیا میں ہی اپنے باپ آزر کے لیے دعائے مغفرت چھوڑ دی تھی تو پھر قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا آزر کی مغفرت کے باب میں اللہ تعالیٰ سے جھگڑنے کا کیا سبب ہے اس کا جواب حافظ ابن حجر نے فتح الباری ٢ ؎ شرح صحیح بخاری میں دیدیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح روایت جو تفسیر ابن جریر میں ہے اس سے تو یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دنیا میں ہی اپنے باپ آزر کے لیے دعائے مغفرت چھوڑ دی تھی لیکن قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آزر کو دیکھیں گے تو بشریت کے تقاضے اور ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ آزر کی صورت کے دیکھنے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو محبت فرزندی کا جوش جو تھا وہ بھی باقی نہ رہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ٣ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک اولاد کی دعا سے مرجانے کے بعد آدمی کو فائدہ پہنچتا ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری ٤ ؎ حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی نے اپنی زندگی میں جو کھا پہن لیا وہ تو گیا ہاں جو کچھ اللہ کے نام پر دیا اس کا اجر ملے گا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک عملوں کے قبول کرنے میں اللہ تعالیٰ کی نظر ہمیشہ آدمی کے دل پر لگی رہتی ہے کہ اس کا اعتقاد شرک ونفاق اور ریا کاری سے کہاں تک پاک صاف ہے ان حدیثوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی باقی کی دعا کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ قیامت کے دن کی رسوائی سے بچائیو کیونکہ وہ دن ایسا ہے کہ اس میں شرک وریا کاری سے جب تک دل صاف وپاک نہ ہوگا تو مال واولاد جیسے کام آنے والی چیز بھی کسی کے کچھ کام نہ آوے گی۔ شاہ صاحب ٥ ؎ نے قلب سلیم کا ترجمہ دل چنگا جو کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ اس دن شرک ریا کاری اور نفاق کے مرض سے دل کو صاف اور بھلا چنگا ہونا چاہیے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ض ٣٣٩ ج ٣۔ ) (٢ ؎ فتح الباری ص ٢٨٨ ج ٤ طبع دہلی ) (٣ ؎ مشکوٰۃ کتاب العلم ) (٤ ؎ مشکوٰۃ کتاب الرقاق فصل اول ) (٥ ؎ شاہ عبد القادر ہلوی (رح) صاحب موضح القرآن۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے باپ سے رخصت ہوتے وقت دعائے استغفار کا وعدہ کیا تھا۔ (دیکھئے سورة مریم :74) چناچہ انہوں نے یہ دعا فرمائی لیکن بعد میں جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایک مشرک اور دشمن حق کے لئے دعائے مغفرت کرنا صحیح نہیں ہے تو انہوں نے اس دعا سے رجوع فرما لیا۔ جیسا کہ سورة توبہ میں ہے : فلما تبین لہٗ انہ عدو للہ تبرء منہ (آیت :4…) پھر جب اسے معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86۔ اور میرے باپ کو ایمان و ہدایت کی توفیق دے کر اس کی مغفرت کردے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے چونکہ وہ گمر کردہ راہ اور مشرک ہے اس لئے اس کو ایمان کی توفیق عنایت کر کہ وہ ایمان لے آئے تو پھر اس کے تمام قصور اور گناہ بخشدے۔