Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 94

سورة الشعراء

فَکُبۡکِبُوۡا فِیۡہَا ہُمۡ وَ الۡغَاوٗنَ ﴿ۙ۹۴﴾

So they will be overturned into Hellfire, they and the deviators

پس وہ سب اور کل گمراہ لوگ جہنم میں اوندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then they will be thrown on their faces into it (the Fire), they and the astray. Mujahid said, "This means, they will be hurled into it." Others said: "They will be thrown on top of one another, the disbelievers and their leaders who called them to Shirk." وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

941یعنی معبودین اور عابدین سب کو مال ڈنگر کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا هُمْ وَالْغَاوٗنَ ۔۔ : ” کَبَّ یَکُبُّ “ منہ کے بل گرانا۔ ” کَبْکَبَ “ میں لفظ کے تکرار سے معنی میں تکرار پیدا ہو رہا ہے، بار بار گرانا۔ یعنی ان کے باطل معبود اوندھے منہ جہنم میں ایک دوسرے کے اوپر بار بار گرائے جائیں گے، یعنی جب انھیں اوندھے منہ ڈالا جائے گا تو بار بار ٹھوکریں کھاتے ہوئے، الٹ پلٹ ہوتے ہوئے نیچے گرتے جائیں گے، حتیٰ کہ اس کی گہرائی تک پہنچ جائیں گے۔ ان کے ساتھ ان کی عبادت کرنے والے گمراہ لوگ اور ابلیس کے تمام لشکر بھی اسی طرح گرائے جائیں گے۔ بتوں کا ذکر پہلے فرمایا، تاکہ پوجنے والوں کو انھیں پہلے گرتے ہوئے دیکھ کر مزید عبرت ہو۔ ابلیس کے لشکروں سے مراد اس کے تمام پیروکار ہیں جو دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہے۔ طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ ” فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا “ کا معنی ہے اس میں جمع کیے جائیں گے، گویا الٹے منہ گراتے ہوئے سب کو وہاں جمع کردیا جائے گا۔ [ طبري : ٢٦٨٨٨ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكُبْكِبُوْا فِيْہَا ہُمْ وَالْغَاوٗنَ۝ ٩٤ۙ كب الْكَبُّ : إسقاط الشیء علی وجهه . قال عزّ وجل : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ النمل/ 90] . والإِكْبَابُ : جعل وجهه مَكْبُوباً علی العمل . قال تعالی: أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک/ 22] والکَبْكَبَةُ : تدهور الشیء في هوّة . قال : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء/ 94] . يقال كَبَّ وكَبْكَبَ ، نحو : كفّ وكفكف، وصرّ الرّيح وصرصر . والکَوَاكِبُ : النّجوم البادية، ولا يقال لها كواکب إلّا إذا بدت . قال تعالی: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام/ 76] ، وقال : كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور/ 35] ، إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات/ 6] ، وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار/ 2] ويقال : ذهبوا تحت کلّ كوكب : إذا تفرّقوا، وكَوْكَبُ العسکرِ : ما يلمع فيها من الحدید . ( ک ب ب ) الکب ( ن ) کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ النمل/ 90] تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ الاکباب ۔ کسی چیز پر منہ کے بل گرجانا ۔ ( اور کنایہ ازہمہ تن مشغول شدن درکا ر ے ) اسی سے قرآن میں ہے : أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک/ 22] بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گرگر پڑتا ہو ۔ وہ سیدھے رستے پر ہے ۔ یعنی جو غلط روش پر چلتا ہے ۔ الکبکبۃ کسی چیز کو اوپر سے لڑھا کر گڑھے میں پھینک دینا۔ قرآن میں ہے : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء/ 94] تو وہ اور گمراہ ( یعنی بت اور بت پرست ) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ کب وکبکب ( ثلاثی درباعی ، دونوں طرح آتا ہے مثل ۔ کف وکفکف وصرالریح وصر صر الکواکب ظاہر ہونے والے ستارے ، ستاروں کو کواکب اسی وقت کہاجاتا ۔۔۔ جب نمودار اور ظاہر ہوں ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام/ 76]( یعنی ) جب رات نے ان کو ( پردہ تاریکی سے ) ڈھانپ لیا ( تو آسمان میں ) ایک ستارہ نظر پڑا ۔ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور/ 35] گویا وہ موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ۔ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات/ 6] بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت س مزین کیا ۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار/ 2] اور جب ( آسمان کے ) ستارے جھڑ پڑیں گے ۔ محاورہ ہے : ذھبوا تحت کل کوکب وہ منتشر ہوگئے ۔ کوکب العسکر لشکر میں اسلہ کی چمک غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٤۔ ٩٥) پھر یہ کہہ کر کفار مکہ اور تمام کافر خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنات میں سے اور ابلیس کا لشکر سب کے سب دوزخ میں اوندھے منہ ڈال دیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :68 اصل میں لفظ : کُبْکِبُوْا فرمایا گیا ہے جس میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ ایک کے اوپر ایک دھکیل دیا جائے گا ، دوسرے یہ کہ وہ قعر جہنم تک لڑھکتے چلے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: یعنی ان گمراہوں کے ساتھ ان کے جھوٹے معبودوں کو بھی دوزخ میں ڈالا جائے گا، ان میں سے بعض تو وہ ہیں جنہوں نے خود اپنی خدائی کا دعوی کیا تھا، اور بعض پتھر کے بت ہیں، ان کو یہ دکھانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا کہ جن کو یہ گمراہ لوگ معبود سمجھتے تھے، ان کا حشر بھی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:94) فکبکبوا : ف تعقیب کا ہے کبکبوا ماضی مجہول جمع مذکر غائب الکب کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں جیسے کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے فکبت وجوہہم فی النار (27:90) تو ان کو منہ کے بل اوندھا آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ الکبکبۃ کسی چیز کو اوپر سے لڑھکاکر گڑھے میں پھینک دینا۔ کب ثلاثی مجرد۔ کبکب رباعی مجرد۔ دونوں ایک ہی معنی میں مستعمل ہیں لیکن رباعی مجرد میں آکر معانی میں مبالغہ کا عنصر پایا جاتا ہے ۔ کبکبوا فیہا۔ ای القوافی الجحیم علی وجوہہم مرۃ بعد اخری الی ان یستقروا فیہا کے معنی ہوئے کہ ان کو بار بار منہ کے بل دوزخ میں گرایا جائے گا۔ تاآنکہ اس کی گہرائی میں جا ٹکیں گے۔ فیہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الجحیم (آیت 91) کی طرف راجع ہے۔ ھم : ای الاصنام۔ بت۔ جھوٹے معبود (ماکنتم تعبدون من دون اللہ۔ جنہیں تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پوجتے تھے) ۔ الغاو ون۔ گمراہ۔ کج رو۔ ( ملاحظہ ہو آیت 91)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ ان مشرکوں اور ان کو گمراہ کرنے والوں کو اور ابلیس کے سارے لشکر کو جو انسانوں کو گمراہ کرتا رہا جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ” قالوا وھم فیھا یختصمون “ مشرکین جہنم میں داخل ہونے کے بعد معبودان باطلہ سے جھگڑیں گے اور حسرت و ندامت سے اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے اور معبودان باطلہ سے کہیں گے کہ ہم تو بہت بری گمراہی میں تھے جب استحقاق عبادت میں تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے ” وما اضلانا الا المجرمون “ اور ہماری گمراہی کا سبب مشرک پیشوا بنے انہوں ہی ہمیں گمراہ کیا المجرمون من دعاھم الی عبادۃ الاصنام من الجن والانس (بحر ج 7 ص 27)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(94) پھر وہ خود ساختہ معبود اور ان کے پجاری اور پوجنے والے گمراہ لوگ۔