Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 98

سورة الشعراء

اِذۡ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۸﴾

When we equated you with the Lord of the worlds.

جبکہ تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They will say while contending therein, "By Allah, we were truly in a manifest error, when we held you as equals with the Lord of all that exists." The weak ones among them will say to their arrogant leaders: `Verily, we were following you; can you avail us anything from the Fire!' Then they will realize that themselves are to blame and will say: تَاللَّهِ إِن كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ By Allah, we were truly in a manifest error, when we held you as equals with the Lord of all that exists. meaning, `we obeyed your commands as we should have obeyed the commands of the Lord of the all that exits, and we worshipped you along with the Lord of all that exits.' وَمَا أَضَلَّنَا إِلاَّ الْمُجْرِمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

981دنیا میں تو ہر تراشا ہوا پتھر اور، مشرکوں کو خدائی اختیارات کا حامل نظر آتا ہے۔ لیکن قیامت کو پتہ چلے گا کہ یہ کھلی گمراہی تھی کہ وہ انھیں رب کے برابر سمجھتے رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] معبود صرف وہ دوزخ میں پھینکے جائیں گے جو بےجان ہیں مثلاً شجر و حجر اور پتھر یا لکڑی کے بت وغیرہ۔ ان کو پھینکنے کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ مشرکوں کی ندامت اور حسرت میں اضافہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ جہنم کی آگ کو مزید بھڑکائیں۔ اور جاندار اشیاء میں سے صرف وہ بزرگ اور اولیاء حضرات دوزخ میں ڈالے جائیں گے جنہوں نے اپنے مریدوں سے شفاعت کے اور ان کو بخشوانے کے وعدے کر رکھے ہوں گے یا وہ ایسی آرزو رکھتے ہوں کہ جو صفات اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں۔ وہ ان میں بھی تسلیم کی جائیں۔ یا اگر کوئی شخص ایسی بات کرے تو اسے ناگوار سمجھنے کے بجائے انھیں خوشی محسوس ہو۔ رہے فرشتے یا انبیاء یا توحید پرست بزرگ جنہیں اس بات کی خبر تک نہیں کہ ان کی عبادت کی جاتی رہی ہے تو ایسے معبود ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔ جہنم میں پھینکے جانے کے بعد مشرک اپنے معبودوں سے الجھ پڑیں گے اور انھیں مخاطب کرکے کہیں گے کہ ہم نے دنیا میں تمہیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ رکھا تھا۔ اسی خیال سے ہم تمہیں پکارتے رہے، تمہاری نذریں نیازیں دیتے رہے، تمہارے آگے جھکتے رہے اور سر تسلیم کرتے رہے اور ہر وہ کام کیا جو صرف اللہ رب العالمین کے لئے سزا وار تھا۔ تو یہ ہماری سخت بھول تھی، گمراہی تھی اور اس گمراہی میں ہمیں ابلیس کے ان ساتھیوں نے مبتلا کر رکھا تھا۔ اور آج جب حقیقت حال سامنے آئی ہے تو معلوم ہوا کہ تم بھی ایسے ہی بےبس ہو۔ جیسے ہم ہیں۔ تم خود عذاب میں پڑے ہو۔ تو تم سے سفارش کی کیا توقع کی جاسکتی ہے اور تمہیں ہی ہم نے اپنا سفارشی سمجھ رکھا تھا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ آج ہمیں کوئی ایسا دوست بھی نظر نہیں آتا جسے کم از کم ہمارے دکھ درد کا احساس تو ہو۔ دکھ بانٹنا یا سفارش کرنا تو دور کی بات ہے۔ کم از کم ہمیں تسلی دینے کے لئے کوئی دو جملے ہی کہہ دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٩٨ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٨۔ ٩٩) جب کہ تمہیں کو عبادت میں رب العالمین کے برابر کرتے تھے اور ہمیں تو بس ایمان اور اطاعت سے ان سے بڑے مشرکین نے ہٹایا ہے جو ہم سے پہلے ہوئے ہیں اور ہم نے ان کی پیروی کی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ (اِذْ نُسَوِّیْکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْن ) ” جہنم میں تمام گمراہ لوگوں کو ‘ ان کے معبودان باطل کو اور شیاطینِ جن کو اوپر تلے اوندھے منہ جھونک دیا جائے گا۔ یہاں وہ ایک دوسرے سے جھگڑیں گے۔ گمراہ لوگ اپنے معبودوں کو مخاطب کرکے اپنی گمراہی کا اعتراف کریں گے۔ وہ تسلیم کریں گے کہ انہیں اللہ ہی کو رب العالمین ماننا چاہیے تھا جو سب اختیارات کا مالک ہے اور وہی مغفرت بھی کرسکتا ہے۔ اور یہ کہ انہوں نے اللہ کے مقابلے میں جھوٹے معبود گھڑ لیے ‘ انہیں اللہ کے برابر ٹھہرا لیا اور یوں انہوں نے کھلی گمراہی میں پڑ کر خود کو برباد کرلیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:98) اذ۔ جب ۔ جس وقت۔ ظرف زمان ہے۔ نسویکم۔ مضارع جمع متکلم۔ تسویۃ (تفعیل) مصدر۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہم تم کو (عبادت میں رب العالمین کے) برابر گردانتے تھے۔ کم ضمیر جمع مذکر اصنام کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یا تمہارے لئے وہ اختیارات اور صفات تسلیم کرتے تھے جو دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں جیسے اشیا کی حلت و حرمت کا اختیار اور بیمار کو شفایاب کرنا وغیرہ حدیث میں ہے :” یہ مت کہو کہ جو اللہ چاہے اور جو فلاں شخص چاہے بلکہ یوں کہو جو اللہ چاہے اور پھر فلاں شخص چاہے۔ (ابو دائود)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(98) جس وقت ہم تم کو رب العالمین کے ساتھ برابری کا درجہ دیا کرتے تھے اور تم کو رب العالمین کے مساوی سمجھتے تھے۔