Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 111

سورة آل عمران

لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمۡ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾

They will not harm you except for [some] annoyance. And if they fight you, they will show you their backs; then they will not be aided.

یہ تمہیں ستانے کے سوا اور زیادہ کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے ، اگر لڑائی کا موقعہ آجائے تو پیٹھ موڑ لیں گے ، پھر مدد نہ کئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They will do you no harm, barring a trifling annoyance; and if they fight against you, they will show you their backs, and they will not be helped. This is what occurred, for at the battle of Khyber, Allah brought humiliation and disgrace to the Jews. Before that, the Jews in Al-Madinah, the tribes of Qaynuqa, Nadir and Qurayzah, were also humiliated by Allah. Such was the case wi... th the Christians in the area of Ash-Sham later on, when the Companions defeated them in many battles and took over the leadership of Ash-Sham forever. There shall always be a group of Muslims in Ash-Sham area until `Isa, son of Maryam, descends while they are like this (on the truth, apparent and victorious). `Isa will at that time rule according to the Law of Muhammad, break the cross, kill the swine, banish the Jizyah and only accept Islam from the people. Allah said next,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 اس سے مراد زبانی بہتان تراشی ہے جس سے دل کو وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے تاہم میدان حرب و ضرب میں یہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا، مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا پھر خیبر فتح ہوگیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے شکست سے...  دو چار ہونا پڑا تاآنکہ حروب صلیبیہ میں عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر بھی قابض ہوگئے مگر اسے صلاح الدین ایوبی نے 90 سال کے بعد واگزار کرا لیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کے نتیجہ میں یہود و نصاریٰ کی مشترکہ سازشوں اور کوششوں سے بیت المقدس پھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ تاہم ایک وقت آئے گا کہ یہ صورت حال تبدیل ہوجائے گی بالخصوص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد عیسائیت کا خاتمہ اور اسلام کا غلبہ یقینی ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (ابن کثیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] یعنی گالی دینا، برا بھلا کہنا، تمہارے خلاف سازشیں اور غلط پراپیگنڈا اور ستانے کے دوسرے کام ہی کرسکتے ہیں، اور ایسے کام عموماً ذہنی طور پر ہزیمت خوردہ فریق ہی کرتا ہے۔ رہا جوان مردوں کی طرح مقابلے میں آنا تو اس بات کی ان میں سکت ہی نہیں اور اگر کریں گے تو بری طرح پٹ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ اور اس...  وقت منافق بھی ان کی کچھ مدد نہ کرسکیں گے، جو ان سے ساز باز کرتے اور مدد کو پہنچنے کے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ اہل کتاب کے حق میں یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ سب سے پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو جلاوطن کیا گیا۔ پھر بنو نضیر کو، پھر بنو قریظہ کی باری آئی تو وہ قتل کیے گئے اور لونڈی غلام بنائے گئے، پھر خیبر میں زک اٹھائی تو مزارعہ کی حیثیت سے رہے اور بالآخر حضرت عمر (رض) نے انہیں وہاں سے نکال دیا اور نجران کے عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے لگے۔ غرض ہر میدان میں ان لوگوں نے زک اٹھائی اور ذلیل و خوار ہوئے۔ پھر کیا ان کے حق میں یہ بات بہتر نہ تھی کہ اسلام قبول کرکے باعزت زندگی گزارتے اور مسلمانوں کے جملہ حقوق میں برابر کے حصہ دار بن جاتے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّآ اَذًى ۭ : ” أَذًی “ میں تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” معمولی تکلیف “ کیا ہے، مراد زبانی بہتان تراشی اور سازشیں ہیں، مگر میدان میں تمہارے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکیں گے، چناچہ ایسا ہی ہوا۔ یہود کو مسلمانوں کے مقابلے میں ہر جگہ شکست ہوئی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا، بالآخر نبی کر... یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے انھیں جزیرۂ عرب سے جلاوطن کردیا۔ یہ آیت اخبار بالغیب اور پیشین گوئی پر مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں فتح و کامیابی اور نصرت کی بشارت دی ہے۔ اب اگرچہ یہود نصرانیوں کے بل بوتے پر فلسطین کے کچھ حصے اور بیت المقدس پر قابض ہیں، مگر وہ وقت قریب آ رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے ساتھ یہود کی جنگ میں پتھر اور درخت بھی مسلمان کو بلا کر کہیں گے : ” اے مسلم ! یہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے، اسے قتل کر دے۔ “ [ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ۔۔ : ٢٩٢١، ٢٩٢٢ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In previous verses (98-101), it was shown how hostile to Muslims the people of the Book were and how they planned to bring religious harm to them. Mentioned in the present verse are their plans to harm Muslims materially. The last sentence carries the prophecy that they shall not succeed. This prophecy of the Holy Qur&an was proved true when, during the entire period of prophethood... , the people of the Book were unable to overcome the noble Companions (رض) who are the primary addressees here. This applies particularly to the Jewish tribes who had tried to sow seeds of discord among the Companions (رض) . The outcome was that these people were disgraced; some paid jizya, some were killed while others were exiled. The next verse (112) makes the description complete.  Show more

ربط آیات : پچھلی آیتوں میں اہل کتاب کی مسلمانوں سے دشمنی اور ان کو دینی ضرر پہنچانے کی تدبیریں کرنا مذکور تھا، اس آیت میں مسلمانوں کے لئے دنیوی ضرر کی تدبیریں کرنے کا ذکر ہے۔ خلاصہ تفسیر : وہ (اہل کتاب) تم کو ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے مگر ذرا ہلکی سی اذیت (یعنی زبانی برا بھلا کہہ کر دلا دکھا... نا) اور اگر وہ (اس سے زیادہ کی ہمت کریں اور) تم سے مقاتلہ کریں تو تم کو پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے پھر (اس سے بڑھ کر یہ ہوگا کہ) کسی طرف سے ان کی امداد بھی نہ ہوگی۔ معارف و مسائل : یہ قرآن کی پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ اہل کتاب زمانہ نبوت میں کسی موقع پر بھی صحابہ کرام پر جو کہ بقرینہ مقام اس مضمون کے خاص مخاطب ہیں غالب نہ آسکے، خصوصا یہود جن کے قبائل خصوصیت سے اس جگہ مذکور ہیں جس میں وہ حصہ صحابہ کرام کے آپس میں تفرقہ ڈالنے کی کارروائی کا بھی ہے، انجام یہ ہوا کہ یہ لوگ ذلیل و خوار ہوئے، بعض پر جزیہ لگایا گیا، بعض مقتول ہوئے، بعض جلا وطن کئے گئے، آیت آئندہ میں اسی مضمون کا تکملہ ہے   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَنْ يَّضُرُّوْكُمْ اِلَّآ اَذًى۝ ٠ ۭ وَاِنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ يُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ۝ ٠ ۣ ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ۝ ١١١ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ ا... لأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) یہود تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکیں گے مگر زبانی گالی گلوچ دیں گے اور اگر وہ دین کے اندر لڑائی کی جرأت کریں گے تو بھی انہیں شکست ہوگی اور وہ، نہ تمہاری تلواروں کے واروں کو روک سکیں گے اور نہ وہ قید سے بچ سکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ الاَّ اَذًی ط) یہ تمہارے لیے تھوڑی سی زبان درازی اور کو فت کا سبب تو بنتے رہیں گے ‘ لیکن یہ بالفعل تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ ( وَاِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَقف) ۔ ان میں جرأت نہیں ہے ‘ یہ بزدل ہیں ‘ تمہارا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ (ثُمَّ لاَ ... یُنْصَرُوْنَ ) یہ ایسے بےبس ہوں گے کہ ان کو کہیں سے مدد بھی نہیں مل سکے گی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:111) لن یضروکم۔ مضارع معروف نفی تاکید بلن۔ صیغہ جمع مذکر غائب کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ ہرگز تمہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے اذی۔ تکلیف۔ اذیت۔ کوفت۔ یوتوکم الادبار۔ ولی یولی (باب تفعیل) پیٹھ دینا۔ پشت پھیر کر بھاگنا۔ ادبار جمع دبر کی۔ بمعنی پیٹھ۔ وہ تمہاری طرف پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 چناچہ ایسا ہی ہوا یہود کو مسلما نوں کے مقابلہ ہر جگہ شکست ہوئی اور رسوائی منہ توڑ دیکھنا پڑا اور بآ لا خر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ انہیں جزیرہ عرب سے جلا وطن کردیا۔ یہ بہت اخبار بالغیب اور پیشین گوئی پر مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں فتح کامیابی اور نصرت کی بشارت دی ہے ... کہ کذافی آیات (کبیر۔ ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی زبانی برا بھلا کہہ کر دل دکھانا 3۔ یہ ایک پیشن گوئی ہے جو اسی طرح واقع ہوئی چناچہ اہل کتاب زمانہ نبوت میں کسی موقعہ میں بھی صحابہ پر جو کہ بقرینہ مقام اس مضمون کے مخاطب ہیں غالب نہ آئے خصوص یہود جن کے قبائح خصوصیت سے اس جگہ مذکور ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان آیات میں اللہ مومنین کو فتح ونصرت کی ضمانت دیتے ہیں ‘ اور آخرکار ان کی سلامتی کی بھی صریح ضمانت دیتے ہیں ‘ جب بھی وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ میدان جنگ میں آمنا سامنا کریں گے یہ ضمانت ان کے لئے موجود ہوگی بشرطیکہ وہ اپنے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور اپنے رب پر یقین کریں۔ لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلا أ... َذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الأدْبَارَ ثُمَّ لا يُنْصَرُونَ……………” یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے زیادہ سے زیادہ بس ستاسکتے ہیں ‘ اگر یہ تم سے لڑیں تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے ‘ پھر ایسے بےبس ہوں گے کہ کہیں سے ان کو مدد نہ ملے گی ۔ “ اس لئے وہ دعوت اسلامی کو کوئی حقیقی ضرر نہیں پہنچاسکتے ‘ نہ وہ جماعت مسلمہ کی تشکیل میں کوئی اثر اندازی کرسکتے ہیں اور نہ وہ دعوت اسلامی کو اس کرہ ارض سے ختم کرسکتے ہیں ۔ ہاں جماعت مسلمہ کے ساتھ جب ان کا تصادم ہوتا ہے تو وہ اذیت دے سکتے ہیں ‘ وہ اس قسم کے عارضی دکھ دے سکتے ہیں جو مرور زمانہ کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں ۔ لیکن جب وہ مسلمانوں کے ساتھ میدان جنگ میں مقابل ہوں گے تو ان کے لئے شکست لکھی ہوئی ہے اور آخر کار وہ شکست کھائیں گے ‘ ان کی قسمت میں مسلمانوں کے برخلاف کوئی نصرت نہیں ہے ۔ ان کو مسلمانوں کے مقابلے میں کوئی مددگار ملے گا اور نہ وہ مسلمانوں کی زد سے بچ سکیں گے ۔ اور یہ اس لئے ہے کہ ان پر ذلت کی زد پڑگئی ہے اور اس کا یہ انجام بد لکھ دیا گیا ہے ‘ اس لئے وہ جس سرزمین میں بھی ہوں گے وہ ذلیل ہوکر رہیں گے ‘ وہ یا تو اللہ کی ذمہ داری میں رہیں گے اور یا مسلمانوں کی ذمہ داری میں رہیں گے ۔ جب وہ مسلمانوں کی ذمہ داری میں داخل ہوں گے تو ان کا مال اور ان کی جان محفوظ ہوگی ماسوائے اس کے کہ ان کے خلاف کوئی حق ثابت ہوچکا ہو ‘ یوں انہیں امن اور اطمینان نصیب ہوگا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہودیوں کو صحیح امن مسلمانوں کی ذمہ داری کے اندر نصیب ہوا ہے۔ لیکن یہود اس قدر نمک حرام ہیں کہ وہ اس کرہ ارض پر مسلمانوں سے زیادہ اور کسی کے ساتھ دشمنی نہیں رکھتے ۔” وہ اللہ کا غضب لے کر لوئے ہیں ۔ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ یعنی گویا وہ دربدر ہوئے ‘ مارے مارے پھرتے رہے اور آخر کار اللہ کے غضب کا سامان سروں پر اٹھائے ہوئے لوٹے۔ “ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ……………” ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ۔ “ ان کے ضمیر اور شعور میں محتاجی کا احساس رچ بس گیا ہے ۔ ان آیات کے نزول کے بعد یہ تمام واقعات یہودیوں کی تاریخ میں انہیں پیش آئے ‘ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان جو معرکے پیش ہوئے ان میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح ونصرت سے سرفراز کیا ‘ جب تک مسلمانوں نے اپنے دین اور اپنے نظام حیات اور اپنے نظریہ حیات کو اپنے سینے سے لگائے رکھا ‘ اور اپنی زندگیوں میں اسلامی نظام حیات قائم رکھا ‘ تو ان کے اعداء کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے ذلت اور خواری کو لکھ دیا۔ الا یہ کہ مسلمانوں کے عہد وذمہ داری کی وجہ سے انہیں چین نصیب ہوا یا یہ کہ خود مسلمانوں نے اسلامی نظام حیات کو ترک کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود کی ذلت اور مسکنت زمانہ نبوت میں یہودیوں کی دشمنی ظاہراً بھی تھی اور پوشیدہ بھی تھی مسلمانوں کو ان سے تکلیف پہنچتی رہتی تھی، خطرہ تھا کہ کوئی ایسی کاروائی نہ کر بیٹھیں جس سے زیادہ تکلیف پہنچ جائے۔ بلکہ رؤسا یہود نے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان عوام کو جو یہودیت چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔ ... زبانی طور پر ایذا دینے کا سلسلہ شروع بھی کردیا تھا۔ اللہ جل شانہٗ نے مسلمانوں کے اس خطرہ کو دور فرما دیا۔ اور فرمایا کہ یہ لوگ تمہیں بس ذرا سی تکلیف پہنچا سکیں گے اور اگر انہوں نے جنگ چھیڑی تو پشت پھیر کر بھاگ جائیں گے، پھر یہودیوں کی حالت مغضوبیت بیان فرمائی کہ ان پر ذلت کی چھاپ مار دی گئی جہاں کہیں بھی ہوں گے ذلیل ہوں گے۔ یہود کی موجودہ حکومت : ہاں اگر اللہ کے کسی عہد میں آجائیں یا انسانوں کے عہد میں آجائیں تو (دنیاوی) ذلت سے بچاؤ ہوسکتا ہے۔ اللہ کے عہد میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً مسلمانوں سے ان کا کوئی معاہدہ ہوجائے اور معاہدہ کے موافق مسلمان ان سے تعرض نہ کریں یا یہ لوگ جزیہ قبول کریں اور مسلمانوں کی عملداری میں رہنا قبول کریں تو اس صورت میں ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے گا جو ذمیوں کے ساتھ ہوتا ہے یا کہیں لڑائی ہو تو مسلمان ان کے بچے اور عورتوں کو حسب قانون شرعی قتل کرنے سے باز رہیں گے اور انسانوں کے عہد میں آنے کا یہ مطلب ہے کہ کسی حکومت سے ان کا کوئی معاہدہ ہوجائے وہ حکومت ان کو امان دیدے۔ جب سے یہودیوں کی حکومت قائم ہوئی ہے لوگوں کو اشکال ہو رہا ہے کہ قرآن نے تو ان کے بارے میں ذلت کا اعلان کیا تھا پھر ان کی حکومت کیسے قائم ہوئی ؟ درحقیقت قرآن کے اعلان میں کوئی بات قابل شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ اول تو قرآن نے یہ نہیں فرمایا کہ ہمیشہ ہمیش تا قیامت ان لوگوں کا یہی حال رہے گا۔ دوام ذلت تو کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں، پھر یہودیوں کی جو حکومت قائم ہے وہ (حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ) کی وجہ سے ہے۔ یہودیوں سے کچھ معاہدے کرکے بعض نصرانی حکومتوں نے ان کی حکومت قائم کی ہے اور نصاریٰ ہی کے بل بوتے اور سہارے پر ان کی حکومت قائم ہے قرآن کریم نے جو حبل من الناس فرمایا ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ان کے بعض حالات انسانوں سے جوڑ توڑ رکھنے کی وجہ سے ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن میں ان کو کچھ عزت مل جائے اور (ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ ) کا اطلاق عام مستثنیٰ ہوجائے۔ پھر فرمایا کہ یہودی اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور ان پر مسکنت کی چھاپ مار دی گئی اور اس کا سبب یہ بتایا کہ وہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے نافرمانی کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ یہ مضمون سورة بقرہ کے رکوع سات کے اخیر میں بھی گزر چکا ہے۔ بعض اہل کتاب کی تعریف جنہوں نے اسلام قبول کیا : پھر ان اہل کتاب کی تعریف فرمائی جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا کہ وہ راتوں رات اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یوم آخرت پر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انجام دیتے ہیں۔ نیکیوں میں آگے بڑھتے ہیں اور یہ لوگ صالحین میں سے ہیں اور یہ لوگ جو بھی خیر کا کام کریں گے اس کی ناقدری نہ کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ کو متقیوں کا علم ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

166 یہ ماقبل کا تتمہ ہے۔ مسلمان مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے اطمینان دلا دیا کہ اہل کتاب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اول تو وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں گے ہی نہیں اور اگر کبھی جرات کر کے مقابلہ میں آبھی گئے تو شکست کھا کر پیٹھ پھیرتے ہوئے بھاگ نکلیں گے اور مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ثُمَّ لَا یُنْصَ... رُوْنَ مغلوب اور شکست خوردہ ہونے کے بعد پھر انہیں کبھی نصرت و غلبہ اور شوکت وقوت حاصل نہیں ہوگی۔ ای انھم بعد صیرورتھم منھرمین لا یحصل لھم شوکۃ ولا قوۃ البتۃ (کبیر ص 41 ج 3) یا مطلب یہ ہے کہ جن مشرکین عرب کی مدد پر ان کو اعتماد ہے شکست کی صورت میں کوئی ان کی مدد نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی منافقین ان کی مدد کو پہنچیں گے۔ یہ پیش گوئی حرف بحرف صحیح نکلی اہل کتاب نے ہر معرکہ میں شکست کھائی۔ اور ہر میدان میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ وکل ھذہ الاخبار وقعت کما اخبر اللہ عنھا فان الیھود ولم یقاتلوا الا انھزموا او ما اقدموا علی محاربۃ وطلب ریاسۃ الا خذلوا الخ (کبیر) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi