Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 113

سورة آل عمران

لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَ ہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾

They are not [all] the same; among the People of the Scripture is a community standing [in obedience], reciting the verses of Allah during periods of the night and prostrating [in prayer].

یہ سارے کے سارے یکساں نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت ( حق پر ) قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Virtues of the People of the Scriptures Who Embrace Islam Muhammad bin Ishaq and others, including Al-Awfi who reported it from Ibn Abbas, said; "These Ayat were revealed about the clergy of the People of the Scriptures who embraced the faith. For instance, there is Abdullah bin Salam, Asad bin Ubayd, Tha`labah bin Sa`yah, Usayd bin Sa`yah, and so forth. This Ayah means that those among the People of the Book whom Allah rebuked earlier are not at all the same as those among them who embraced Islam. Hence Allah's statement, لَيْسُواْ سَوَاء ... Not all of them are alike." Therefore, these two types of people are not equal, and indeed, there are believers and also criminals among the People of the Book, just as Allah said, ... مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَأيِمَةٌ ... a party of the People of the Scripture stand for the right, for they implement the Book of Allah, adhere to His Law and follow His Prophet Muhammad. Therefore, this type is on the straight path, ... يَتْلُونَ ايَاتِ اللّهِ انَاء اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ they recite the verses of Allah during the hours of the night, prostrating themselves in prayer. They often stand in prayer at night for Tahajjud, and recite the Qur'an in their prayer. يُوْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُوْلَـيِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ

ظلم نہیں سزا حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اہل کتاب اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم برابر نہیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں ایک مرتبہ دیر لگا دی پھر جب آئے تو جو اصحاب منتظر تھے ان سے فرمایا کسی دین والا اس وقت تک اللہ کا ذکر نہیں کر رہا مگر صرف تم ہی اللہ کے ذکر میں ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن اکثر مفسرین کا قول ہے کہ اہل کتاب کے علماء مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام حضرت اسد بن عبید ، حضرت ثعلبہ بن شعبہ وغیرہ کے بارے میں یہ آیت آئی کہ یہ لوگ ان اہل کتاب میں شامل نہیں جن کی مذمت پہلے گزاری ، بلکہ یہ باایمان جماعت امر اللہ پر قائم شریعت محمدیہ کی تابع ہے استقامت و یقین اس میں ہے یہ پاکباز لوگ راتوں کے وقت تہجد کی نماز میں بھی اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور لوگوں کو بھی انہی باتوں کا حکم کرتے ہیں ان کے خلاف سے روکتے ہیں نیک کاموں میں پیش پیش رہا کرتے ہیں اب اللہ تعالیٰ انہیں خطاب عطا فرماتا ہے کہ یہ صالح لوگ ہیں اور سورت کے آخر میں بھی فرمایا آیت ( وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:199 ) بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر اس قرآن پر اور توراۃ و انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں یہاں بھی فرمایا کہ ان کے یہ نیک اعمال ضائع نہ ہوں بلکہ پورا بدلہ ملے گا ، تمام پرہیزگار لوگ اللہ کی نظروں میں ہیں وہ کسی کے اچھے عمل کو برباد نہیں کرتا ۔ وہاں ان بےدین لوگوں کو اللہ کے ہاں نہ مال نفع دے گا نہ اولاد یہ تو جہنمی ہیں ۔ صر کے معنی سخت سردی کے ہیں جو کھیتوں کو جلا دیتی ہے ، غرض جس طرح کسی کی تیار کھیتی پر برف پڑے اور وہ جل کر خاکستر ہو جائے نفع چھوڑ اصل بھی غارت ہو جائے اور امیدوں پر پانی پھر جائے اسی طرح یہ کفار ہیں جو کچھ یہ خرچ کرتے ہیں اس کا نیک بدلہ تو کہاں اور عذاب ہوگا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلم نہیں بلکہ یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ۔۔ : یعنی گو اہل کتاب کی اکثریت فاسق ہے مگر سب ایک جیسے نہیں، ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان لے آتے ہیں۔ طبری اور ابن ابی حاتم نے حسن سندوں کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن سلام، ثعلبہ بن سعید، اسید بن سعید، اسد بن عبید (رض) اور ان کے دوسرے ساتھی مسلمان ہوئے اور اسلام میں رغبت رکھ کر پکے ہوگئے تو یہودی مولوی اور ان کے بےایمان لوگ کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صرف ہمارے برے لوگ ہی لگے ہیں، اگر وہ ہمارے اچھے لوگ ہوتے تو اپنے آباء کا دین چھوڑ کر غیر کی طرف نہ جاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات (١١٣، ١١٤) نازل فرمائیں۔ یہ الفاظ طبری کے ہیں۔ اہل کتاب کے ان اچھے لوگوں کا ذکر سورة آل عمران (١٩٩) ، بنی اسرائیل (١٠٧ تا ١٠٩) اور سورة بقرہ (١٢١) میں بھی ہے۔ 2 اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ ۔۔ : یعنی رات کو قیام کرتے ہیں اور تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ” قَاءِمَۃ “ کا ایک معنی ” مُسْتَقِیْمَۃٌ“ ہے، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرماں بردار ہیں اور ان کی شریعت پر قائم ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 110, it was said that among the people of the Book there are those who believe, yet most of them are disbelievers. Details appear in the present verse which gives a complementary profile of those who believed from among the people of the Book, and by becoming Muslims, they adopted the distinguishing hallmarks of the Faith that go to make believers the best of communities. Soon after praising those who had embraced Islam from among the people of the Book, the text censures those of them who did not embrace Islam and insisted on retaining their stance of disbelief, not realizing that their wealth and their children will be unable to save them from the punishment of Allah and Hell shall be their eternal abode. Verse 117 declares through a similitude that disbelievers simply waste what they spend in this worldly life, for belief in Islam is a pre-condition in order that such spendings be acceptable with Allah, of whatever sort they may be. The similitude stresses the fact that disbe¬lievers inflict this injustice upon themselves when their spendings go to waste in this world and remain rewardless in the Hereafter. If they were not to wrong themselves, if they were to embrace Islam, they would have been like other Muslims who, on suffering a worldly loss, are compensated by Allah through reward and forgiveness of sins, as reported in ahadith.

ربط آیات : اوپر اہل کتاب کے متعلق بیان ہوا تھا کہ ان میں کچھ لوگ مسلمان بھی ہیں اور زیادہ کافر ہیں، اسی مضمون کی مزید تفصیل ان آیات میں ہے۔ خلاصہ تفسیر : یہ (اہل کتاب) سب برابر نہیں (بلکہ) ان (ہی) اہل کتاب میں ایک جماعت وہ بھی ہے جو (دین حق پر) قائم ہیں (اور) اللہ کی آیتیں (یعنی قرآن) اوقات شب میں پڑھتے تھے اور وہ نماز بھی پڑھتے ہیں (اور) اللہ پر اور قیامت والے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں اور (دوسروں کو) نیک کام بتلاتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں دوڑاتے ہیں اور یہ لوگ (اللہ کے نزدیک) شائستہ لوگوں میں (شمار کئے جاتے ہیں) اور یہ لوگ جو نیک کام کریں گے اس (کے ثواب) سے محروم نہ کئے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ اہل تقوی کو خوب جانتے ہیں (اور یہ لوگ چونکہ اہل تقوی ہیں تو حسب وعدہ جزاء کے مستحق ہیں) بیشک جو لوگ کر رہے ہرگز ان کے کام نہ آویں گے ان کے مال اور نہ اولاد اللہ کے (عذاب کے) مقابلہ میں ذرا بھی اور وہ لوگ دوزخ والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے (اور کبھی نجات نہ ہوگی) وہ (کفار) جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس دنیوی زندگانی میں اس کی حالت (بردباد و ضائع ہونے میں) اس حالت کے مثل ہے کہ ایک ہوا ہو جس میں تیز سردی (یعنی پالا) ہو (اور) وہ لگ جاوے ایسے لوگوں کی کھیتی جنہوں نے (بددینی سے) اپنا نقصان کر رکھا ہو پس وہ (ہوا) اس (کھیتی) کو برباد کر ڈالے (اسی طرح ان لوگوں کو خرچ کرنا آخرت میں سب ضائع ہے) اور (اس ضائع کرنے میں) اللہ تعالیٰ نے ان پر (کوئی) ظلم نہیں کیا، لیکن وہ خود (کفر کے ارتکاب سے جو کہ مانع قبول ہے) اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے (نہ وہ کفر کرتے نہ ان کے سب نقصانات ضائع ہوتے) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَيْسُوْا سَوَاۗءً۝ ٠ ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّۃٌ قَاۗىِٕمَۃٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللہِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ۝ ١١٣ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قيام أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ تلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس/ 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ا ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں آنا ( ساعت) وآناء اللیل : ساعاته، الواحد : إِنْيٌ وإنىً وأَناً «1» ، قال عزّ وجلّ : يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ [ آل عمران/ 113] وقال تعالی: وَمِنْ آناءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ [ طه/ 130] ، وقوله تعالی: غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : وقته، والإنا إذا کسر أوّله قصر، وإذا فتح مدّ ، نحو قول الحطيئةوآنیت العشاء إلى سهيل ... أو الشّعری فطال بي الأناء «2» أَنَى وآن الشیء : قرب إناه، وحَمِيمٍ آنٍ [ الرحمن/ 44] بلغ إناه من شدة الحر، ومنه قوله تعالی: مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ [ الغاشية/ 5] وقوله تعالی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا[ الحدید/ 16] أي : ألم يقرب إناه . ويقال : آنَيْتُ الشیء أُنِيّاً ، أي : أخّرته عن أوانه، وتَأَنَّيْتُ : تأخّرت، والأَنَاة : التؤدة . وتَأَنَّى فلان تَأَنِّياً ، وأَنَى يَأْنِي فهو آنٍ ، أي : وقور . واستأنيته : انتظرت أوانه، ويجوز في معنی استبطأته، واستأنيت الطعام کذلک، والإِنَاء : ما يوضع فيه الشیء، وجمعه آنِيَة، نحو : کساء وأكسية، والأَوَانِي جمع الجمع . ( ا ن ی ) انی ( ض) الشئ اس کا وقت قریب آگیا ۔ وہ اپنی انہتا اور پختگی کے وقت کو پہنچ گئی ۔ قرآن میں ہے :۔ { أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا } ( سورة الحدید 16) کیا ابھی تک مومنوں کے لئے وقت نہیں آیا (57 ۔ 16) { غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ } ( سورة الأحزاب 53) تم کھانے وقت کا انتظار کر رہے ہو ( انی الحمیم ۔ پانی حرارت میں انتہا کو پہنچ گیا ) قرآن میں ہے { حَمِيمٍ آنٍ } ( سورة الرحمن 44) مین عین انیۃ انی ( بتثلیث الہمزہ ) وقت کا کچھ حصہ اس کی جمع اناء ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { يَتْلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ } ( سورة آل عمران 113) جور ات کے وقت خدا کی ائتیں پڑھتے ہیں { وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ } ( سورة طه 130) اور رات کے اوقات میں ( بھی ) اس کی تسبیح کیا کرو۔ انی ۔ ہمزہ مکسور رہونے کی صورت میں اسم مقصور ہوگا اور ہمزہ مفتوح ہونے کی صورت میں اسم ممدود حطیہ نے کہا ہے ( الوافر ) (31) آنیت العشاء الی سھیل اوشعریٰ فطال بی الاناء میں نے سہیل یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک کھانے کو مؤخر کردیا اور میرا انتظار طویل ہوگیا ۔ آنیت الشئی ایناء ۔ کسی کام کوا کے مقررہ وقت سے موخر کرنا ۔ تانیث ۔ میں نے دیر کی لاناۃ ۔ علم ۔ وقار ۔ طمانیست تانٰی فلان تانیا ۔ وانی یاتیٰ ان یا ( س) تحمل اور حلم سے کام لینا ۔ استانیت الشئ میں نے اس کے وقت کا انتظار کیا نیز اس کے معنی دیر کرنا بھی آتے ہیں جیسے استانیت الطعام ۔ میں نے کھانے کو اس کے وقت سے موخر کردیا ۔ الاناء ۔ برتن ۔ آنیۃ ۔ جیسے کساء واکسیۃ اس کی جمع الجمع الاثانی ہے ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سب اہل کتاب یکساں نہیں ہیں قول باری ہے (کیسواسواء من اھل الکتب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ آناء للیل وھم یسجدون، مگر سب اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں۔ راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریزہوتے ہیں) ابن عباس (رض) قتادہ اور ابن جریج کا قول ہے کہ جب عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھ ایک گروہ مسلمان ہوگیا تو یہود کہنے لگے کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) پر ہمارے بدترین لوگ ایمان لائے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی حسن کا قول ہے کہ (قائمۃ) سے مراد عادلہ ہے۔ ابن عباس (رض) ، قتادہ اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ اس سے مراد اللہ کے حکم پر ثابت قدم رہنے والے گول ہیں سدی کا قول ہے کہ اس سے اللہ کی طاعت پر ثابت قدم رہنے والے لوگ مراد ہیں۔ قول باری (وھم یسجدون) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ سجدہ ہے جو نماز میں معروف ہے۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اس لیے کہ سجدے میں قرأت نہیں ہوتی اور نہ ہی رکوع میں انہوں نے حرف واؤ کو حال کے معنی میں لیا ہے۔ یہی فرآء کا بھی قول ہے۔ پہلے گروہ کا کہنا ہے کہ یہاں واؤ عطف کے لیے ہے ۔ گویا کہ یوں ارشاد ہوا، وہ راتوں کوا للہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے ساتھ سجدے بھی کرتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٣۔ ١١٤) ہاں اہل کتاب میں سے جو حضرات اسلام قبول کرچکے، وہ ان کی طرح نہیں ہیں جو ایمان نہیں لائے ان میں انصاف والی ایک جماعت وہ بھی ہے جو ہدایت اور توحید خداوندی پر قائم ہے جیسا کہ یہ عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی یہ حضرات راتوں کو نماز میں قرآن کریم پڑھتے ہیں اور پابندی سے نمازوں کا اہتمام رکھتے ہیں اور تمام کتب سماویہ اور تمام رسولوں اور مرنے کے بعد زندہ ہونے اور جنت کی نعمتوں رکھتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا حکم اور کفر وشرک اور شیطان کی پیروی سے روکتے اور نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں یہی لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں نیکو کار ہیں یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں جو حضرات سب سے بڑھ کر نیکو کار ہیں، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھی یہ لوگ جنت میں ان حضرات کے ساتھ ہوں گے۔ شان نزول : (آیت) ” لیسوا سوآء من اھل الکتب “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) ، طبرانی (رح) اور ابن مندہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جس وقت حضرت عبداللہ بن سلام (رض) ثعلبہ بن سعید (رض) اسید بن عبد (رض) اور ان کے ساتھ یہودیوں میں سے اور حضرات مشرف بااسلام ہوگئے اور انہوں نے سچائی کے ساتھ ایمان قبول کیا اور اسلام میں جوش اور رغبت پید ا کی تو یہود علماء اور کافر بولے کہ ہم میں جو برے ہیں وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم میں پسندیدہ ہیں انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے دین کو نہیں چھوڑا اور نہ دوسرے دین کو اختیار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اہل کتاب میں سے یہ سب برابر انہین۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح ) اور امام احمد وغیرہ نے ابن مسعود (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عشاء میں کچھ دیر تشریف لائے تو صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگوں کے علاوہ کوئی دین والا بھی ایسا نہیں جو اس وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرے، اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٣ (لَیْسُوْا سَوَآءً ط) ۔ ان میں اچھے بھی ہیں ‘ برے بھی ہیں۔ (مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ ) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں خاص طور پر عیسائی راہبوں کی ایک کثیر تعداد اس کردار کی حامل تھی۔ ان ہی میں سے ایک بحیرہ راہب تھا جس نے بچپن میں آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچان لیا تھا۔ یہود میں بھی اکا دکا لوگ اس طرح کے باقی ہوں گے ‘ لیکن اکثر و بیشتر یہود میں سے یہ کردار ختم ہوچکا تھا ‘ البتہ عیسائیوں میں ایسے لوگ بکثرت موجود تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، مثلاً یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(113 ۔ 117) ۔ طبرانی اور ابن ابی حاتم اور ابن مندہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہود میں سے عبد اللہ بن سلام و ثعلبہ بن شعبہ اور اسد بن عبد اور یہودی لوگ مسلمان ہوئے تو یہودی علماء نے ان مسلمانوں کی طرح طرح کی مذمت اپنی قوم کے لوگوں میں کرنی شروع کردی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان مسلمان اہل کتاب کی تعریف میں ان مسلمانوں کا دل بڑہانے کی غرض سے یہ آیتیں نازل فرمائی ٢۔ اور بعض مفسرین نے یہ شان نزول ان آیات کی جو بیان کی ہے کہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ اور اہل کتاب کے برابر نہ ہونے اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کی تعریف میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی یہ روایت کہ ایک روز آنحضرت نے عشاء کی نماز بہت دیر کر کے پڑھی۔ اور پھر فرمایا کہ سوا اس امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کے کسی امت کے لوگ اس وقت اللہ کی عبادت میں نہ ہوں گے ٣۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس معاملہ پر بھی ان آیات کا مطلب صادق آتا ہے۔ کیونکہ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور وہی شان نزول ہے جو پہلے بیان کی گئی حاصل ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ شریعت رائج الوقت کے موافق عمل کر رہے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک کسان نے کھیتی کی اور وقت پر اناج کاٹ کر اپنے گھر لے لیا۔ اور جو لوگ ضد سے شریعت منسوخ پر عمل کر رہے ہیں اجر کے حساب سے ان کے عمل اللہ کے نزدیک ایسے ہیں جس طرح ایک شخص کھیتی کرے اور عین کاٹنے کے وقت سخت آندھی چل کر یا اولے پڑ کر وہ کھیتی ستیاناس ہوجائے پھر یہ دونوں گروہ کیونکر برابر ہوسکتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جو عمل شریعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کے موافق نہ وہ بالکل رائیگاں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:113) اناء ۔ اوقات۔ گھڑیاں ۔ انی۔ واحد ۔ وقت کا کچھ حصہ۔ ان ی۔ حروف مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 بلکہ بعض مومن اور بعض مجرم ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن سلام اسد بن عبید۔ تعلبہ بن شعبہ اور ان کے رفقا مسلمان ہوگئے تو یہودی علما کہنے لگے ہم میں سے وہی لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے جو ہم میں سے بد ترین لوگ شمار ہوتے ہیں اگر یہ بھلے لوگ ہوتے تو اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار نہ کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ( تابا لمتقین) نازل فرمائیں۔ ، (ابن جریر)4 یہاں قائمہ بمعنی ستقیمہ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرماں بردار اور شریعت کے متبع ہیں۔ (ابن کثیر) او یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قائمہ بمعنی ظابت ہو یعنی دین حق پر مظبوطی سے قائم رہنے والیے اور اس کے ساتھ تمسک کرنے والے۔ ( کبیر)5 یعنی رات کو قیام کرتے ہیں اور صلوٰۃ تہجد میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 113 تا 117 لیسوا (نہیں ہیں (لیس واحد) امة قائمة (سیدھی راہ پر قائم) اناء اللیل (رات کے اوقات) یسارعون (وہ دوڑتے ہیں) الخیرات (نیک اور بھلے کام) لن یکفروہ (ہرگزوہ محروم نہ کیئے جائیں گے) صر (پالا، سخت ٹھنڈی یا تیز آواز) تشریح : آیت نمبر 113 تا 117 اہل کتاب میں بیشک وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے احکامات کی نافرمانیوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی یہی وجہ ہے کہ ان پر ہمیشہ اللہ کا غضب ہی نازل ہوتا رہا لیکن ان میں کچھ لوگ جیسے عبداللہ ابن سلام، ان کے بھائی ، عیسائیوں میں حبشہ کا بادشاہ بجاشی ، اس کے ارکان دولت ، نجران کے بعض عیسائی اور حبش وروم کے بعض عیسائی اب بھی ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ورسولت کی تصدیق کی۔ آپ کے لائے احکامات کو دل کی گہرائیوں سے قبول کیا۔ یقیناً اللہ کے ہاں ان کا ایک بڑا عظیم اجر وثواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بیشک میں اہل کتاب میں اکثریت برے لوگوں کی ہے مگر ان ہی میں وہ سعادت مند لوگ بھی ہیں جو حق وصداقت کو قبول کرکے راہ مستقیم پر قائم ہوگئے۔ وہ دین اسلام کے ذوق وشوق میں اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے میٹھی نیند اور آرام دہ بستر چھوڑ کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ۔ عاجزی سے سجدے کرتے اور جبین نیاز کو اپنے مالک حقیقی کے سامنے جھکاتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ ، یوم آخرت اور اللہ کی ذات پر بھرپور یقین رکھتے ہی۔ وہ دوسروں کو بھلائی سکھانے اور برائیوں کو روکنے میں اپنی طاقتیں خرچ کرتے ہیں۔ ان کو جب کسی نیک کام کی طرف بلایا جاتا ہے تو دوڑ کر دوسروں سے آگے نکل جانا چاہتے ہیں یہ کامیاب وبامراد ہیں۔ اس کے برخلاف کفر کا راستہ اختیار کرنے والے اپنے لئے جہنم کی آگ جمع کررہے ہیں۔ فرمایا گیا کہ ایسے لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اللہ ان پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب سارے ایک جیسے نہیں اور نہ ہی تمام پر ذلت اور پھٹکار ہوگی۔ ان میں وہ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور نیکی کا حکم دینے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ ان سے مراد وہ بھی اہل کتاب ہوسکتے ہیں جو نبی اکرم سے پہلے تورات، انجیل پر عمل کرتے تھے اور آپ کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے۔ یہاں ان لوگوں کو اللہ کی پھٹکار اور ذلت و رسوائی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جو اہل کتاب میں سے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور امّتِ خیر کے وصف سے متّصف ہوئے۔ انہیں مسلمانوں میں شامل کرتے ہوئے امت کے لفظ سے یاد فرمایا ہے کہ یہ لوگ رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی آیات کی تلاوت کرتے اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھنے کے ساتھ ان کے دل فکر آخرت سے لرزاں رہتے ہیں ‘ نیکی کا حکم دینے ‘ برائی سے منع کرنے ‘ ہر کار خیر میں آگے بڑھنے والے اور صالحین میں شامل ہیں اور جو کوئی بھی نیکی کا طلب گار اور ان اوصاف کا حامل ہوگا وہ امیر ہو یا غریب ‘ چھوٹا ہو یا بڑا ‘ اس کے صالح اعمال کی ہرگز ناقدری نہیں ہونے پائے گی۔ نجاشی شاہ حبشہ جس کا نام اصحمہ جو اہل کتاب میں سے تھا۔ اس نے مسلمانوں کی اس وقت بھرپور حمایت کی جب مسلمان ہجرت کر کے حبشہ پہنچے اور قریش مکہ کا ایک وفد انہیں واپس لانے کے لیے شاہ حبشہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاہ نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو واپس نہیں کیا اور انہیں پناہ دی بلکہ برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم [ کے معاملہ میں مسلمانوں کے عقائد بالکل درست اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا۔ اور مسلمان ہوگیا جب وہ فوت ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس کی وفات پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ چناچہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الصفوف علی الجنازۃ۔۔] عبداللہ بن سلام یہود کے ممتاز علماء میں سے تھے لیکن مفاد پرست اور جاہ طلب ہونے کی بجائے حق پرست تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام نے آپ میں وہ نشانیاں دیکھیں جو تورات میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی گئی تھیں تو چند سوالات پوچھنے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہود کی سرشت سے آگاہ کیا ‘ چناچہ یہود ان کے دشمن بن گئے۔ بعد ازاں زنا کے ایک مقدمہ میں یہود نے تورات سے رجم کی آیت کو چھپانا چاہا تو عبداللہ بن سلام (رض) نے ہی اس آیت کی نشاندہی کر کے یہود کو نادم اور رسوا کیا تھا۔ [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الحدود، باب فی رجم الیہودیین ] عبداللہ بن سلام (رض) کو ایک خواب آیا تھا جس کی تعبیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتلائی کہ عبداللہ بن سلام آخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہیں گے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب ‘ باب مناقب عبداللہ بن سلام ] مسائل ١۔ اہل کتاب سب ایک جیسے نہیں۔ ٢۔ اہل کتاب میں سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہوئے اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں۔ ٣۔ اللہ و آخرت پر ایمان ‘ امر بالمعروف ‘ نہی عن المنکر اور نیکیوں میں جلدی کرنے والے صالح ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کی ناقدری نہیں کرتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ متقی کون ہے۔ تفسیر بالقرآن اہل کتاب میں اچھے لوگوں کے اوصاف : ١۔ اللہ تعالیٰ ‘ آخرت اور اللہ کی نازل کردہ کتب اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں۔ (آل عمران : ١٩٩) ٢۔ اللہ کی آیات کے بدلے دنیا کا مال نہیں بٹورتے۔ (آل عمران : ١٩٩) ٣۔ رات کو اٹھ اٹھ کر کتاب اللہ یعنی قران مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٣) ٤۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٤) ٥۔ امانتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ (آل عمران : ٧٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ اہل کتاب مومنین کی ایک روشن تصویر ہے ۔ ان میں سے بعض لوگوں نے سچائی کے ساتھ ایمان قبول کیا اور یہ ایمان ان کے دلوں میں گہرائی تک اتر گیا ۔ پھر یہ ایمان پوری طرح کامل اور شامل تھا ۔ یہ لوگ اسلامی صفوں میں شامل ہوگئے اور دین اسلام کے محافظ بن گئے ۔ اللہ اور روز قیامت پر ایمان لے آئے ۔ انہوں نے ایمان کے تقاضے پورے کئے ‘ اور جس امت کا وہ جزء بن گئے تھے ‘ اس کی اساسی خصوصیت کے مطابق کام شروع کردیا ‘ یعنی یہ خصوصیت کہ وہ خیر امت ہے ۔ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے پر کاربند ہوگئے ‘ اس سے پہلے بھھی ان کے نفوس خیر طلب تھے ‘ انہوں نے بھلائی کے میدان میں ایک دوسرے کی مسابقت کی ۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھے ۔ اس لئے عالم بالا سے ان کے حق میں یہ شہادت نازل ہوئی کہ یہ لوگ یقیناً صالحین میں ہیں ۔ اور ان کے ساتھ یہ سچا وعدہ کیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی حق نہ مارا جائے گا ۔ نہ ہی ان کا کوئی حق روکا جائے گا۔ اور یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اللہ کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ متقین میں سے ہیں ۔ یہ ایک تصویر ہے جو یہاں اس لئے دکھائی جارہی ہے کہ جن لوگوں کی یہ خواہش ہو کہ وہ اپنے حق میں یہ شہادت قلمبند کرالیں وہ اسے اس روشن افق پر دیکھیں اور اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کریں ۔ یہ تو ایک محاذ ہے ‘ دوسری جانب کافر ہیں ‘ وہ کافر جنہیں ان کی دولت کچھ فائدہ نہیں دے رہی ہے ۔ جن کے لئے ان کی اولاد بھی مفید نہیں ہے ۔ پھر دنیا میں انہوں نے جو کچھ بھی خرچ کیا وہ ان کے لئے مفید نہیں ہے ۔ قیامت کے دن اس انفاق کا انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ انفاق بھلائی کے اس خط مستقیم کے ساتھ جڑا ہو انہیں ہے ‘ جو اللہ نے کھینچا ہے ۔ یعنی وہ بھلائی جو ایمان اور اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ہو ‘ جس کا تصور واضح ہو ‘ جس کا ہدف مستقل ہو اور جن کی راہ اللہ تک جاری ہو ‘ ورنہ پھر بھلائی کا ایک عارضی جذبہ کبھی کبھار پیدا ہوجائے گا مگر وہ مستقل نہ ہوگا ‘ اور وہ ایک ایسا جھکاؤ ہوگا جس کے رخ کو معمولی آندھی پھیرسکے گی ۔ وہ کسی واضح ‘ قابل فہم اور ٹھوس بنیاد پر نہ ہوگا نہ اس کا کسی مکمل اور جامع اور سیدھے نظام حیات سے ربط ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

171 یہ استیناف لَیْسُوْا سَوَاءً کا بیان ہے۔ اُمَّةٌ قَائِمَةٌ سے مراد یہ ہے کہ وہ توحید اور دین اسلام پر ثابت قدم ہیں۔ ان کا ایمان نہایت مضبوط ہے۔ ان کے دل شک و اضطراب سے خالی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی پر قائم ہیں۔ انھا ثابتۃ علی التمسک بالدین الحق ملازمۃ لہ غیر مضطربۃ فی التمسک بہ (کبیر ص 45 ج 3) ای امۃ مستقیمۃ علی طاعۃ اللہ تعالیٰ ثابتۃ علی امرہ الخ (روح ص 33 ج 4) اور یَتْلُوْنَ آیَاتِ اللہِ الخ قال الشیخ ای یبینون التوحید ویسجدون للہ خاصۃ یعنی وہ توحید بیان کرتے اور صرف اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں یا اس سے کثرت نماز کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اور کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ ، یَتْلُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے اور یَسْجُدُوْنَ کے معنی یُصَلُّوْنَ کے ہیں کیونکہ تلاوت سجدے میں نہیں ہوتی۔ اور نماز سے تہجد کی نماز یا نماز عشاء مراد ہے۔ وعبر بالتلاوۃ فی ساعات اللیلین التھجد بالقرآن (بحر ص 34 ج 3) عبر بالسجود عن الصلاۃ لان التلاوۃ لا تکون فی السجود وقیلھی صلاۃ التھجد وقیلھی صلاۃ العشاء الخ (خازن ص 341 ج 1) ای یقیمون اللیل ویکثرون التھجد ویتلون القران فی صلواتھم (ابن کثیر ص 397 ج 1) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 یہ سب اہل کتاب یکساں نہیں ہیں بلکہ ان ہی اہل کتاب میں سے ایک جماعت اور کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو دین حق اور سیدھی راہ پر قائم ہیں اور اپنی بات پر جمے ہوئے ہیں یہ لوگ رات کی گھڑیوں اور اوقات شب میں اللہ تعالیٰ کی آیتیں یعنی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں سجدہ ریز ہوتے ہیں یعنی تہجد کی نماز پڑھتے ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب سب برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بالکل سیدھی راہ پر قائم ہیں افراط وتفریط سے پاک ہیں اور اسلام پر جمے ہوئے ہیں جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے چند ساتھی جو اسلام لے آئے تھے ان ہی کو امۃ قائمۃ فرمایا ہے ان لوگوں کی عبادت کی حالت یہ ہے کہ فرائض تو فرائض نوافل تک بڑی پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ ساعات شب اور رات کے اوقات میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور نمازیں پڑھتے۔ یسجدون سے مراد نماز سے چونکہ سجدہ نماز میں خاص اہمیت رکھتا ہے اور نماز کا بہت بڑا اور اہم جز ہے اس لئے نماز کی بجائے سجدہ استعمال کیا ہے اور جز بول کر کل مراد لیا ہے نماز سے مراد تہجد کی نماز ہے آگے پھر انہی مخلصین کی مدح اور تعریف مذکور ہے۔ (تسہیل)