Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 119

سورة آل عمران

ہٰۤاَنۡتُمۡ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمۡ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمۡ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۱۱۹﴾

Here you are loving them but they are not loving you, while you believe in the Scripture - all of it. And when they meet you, they say, "We believe." But when they are alone, they bite their fingertips at you in rage. Say, "Die in your rage. Indeed, Allah is Knowing of that within the breasts."

اگر عقلمند ہو ( تو غور کرو ) ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے ، تم پوری کتاب کو مانتے ہو ، ( وہ نہیں مانتے پھر محبت کیسی؟ ) یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصّہ کے اُنگلیاں چباتے ہیں کہہ دو کہ اپنے غصّہ ہی میں مر جاؤ ، اللہ تعالیٰ دلوں کے راز کو بخوبی جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَاأَنتُمْ أُوْلاء تُحِبُّونَهُمْ وَلاَ يُحِبُّونَكُمْ ... O! You are the ones who love them but they love you not, meaning, O believers! You like the hypocrites because you think they are believers, for they pretend to be so, but they do not like you publicly or secretly. ... وَتُوْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ ... And you believe in all the Scriptures, meaning, you have no dou... bt in any part of Allah's Book, while the hypocrites have deep doubts, confusion and reservations about it. Muhammad bin Ishaq reported that Ibn Abbas said that, وَتُوْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ (and you believe in all the Scriptures), means, you believe in your Book, their Book, and the previous Books, while the hypocrites disbelieve in your Book, and this is why they deserve that you dislike them instead of them disliking you. Ibn Jarir collected this statement. ... وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُواْ امَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ... And when they meet you, they say, "We believe." But when they are alone, they bite their Anamil at you in rage. Qatadah stated that, Anamil, means the tips of the fingers. This is the behavior of the hypocrites who pretend to be believers and kind when they are with the believers, all the while concealing the opposite in their hearts in every respect. This is the exact situation that Allah describes, وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ (But when they are alone, they bite their Anamil at you in rage) and rage is extreme anger and fury. Allah said to them, ... قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ Say: "Perish in your rage. Certainly, Allah knows what is in the breasts (all the secrets)." for no matter how much you envy the believers and feel rage towards them, know that Allah shall perfect His favor on His believing servants, complete His religion, raise high His Word and give dominance to His religion. Therefore, O hypocrites, die in rage. إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (Allah knows what is in the breasts), Allah has perfect knowledge of what you conceal in your hearts and chests and in the rage, envy and hatred you have against the believers. Allah will punish you for all this in this life, and they will have the good that you dislike for them. In the Hereafter, you will suffer severe torment in the Fire where you will remain for eternity. Thereafter, Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

119۔ 1 تم ان منافقین کی نماز اور ایمان کیوجہ سے ان کی بابت دھوکے کا شکار ہوجاتے ہو اور ان سے محبت رکھتے ہو۔ 119۔ 2 یہ ان کے غیظ و غضب کی شدت کا بیان ہے جیسا کہ اگلی آیت میں بھی ان کی اسی کیفیت کا اظہار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تم تو تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو جن میں تورات بھی شامل ہے۔ لیکن اہل کتاب تمہارے قرآن پر ایمان نہیں رکھتے، اس بات کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ تم سے محبت رکھتے اور تم ان سے دشمنی رکھتے، مگر یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ تم یہ کیسی الٹی گنگا بہا رہے ہو ؟ [١٠٨]...  یہاں آمنا سے مراد یا تو یہود کا تورات پر ایمان لانا ہے یا مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے منافقانہ طور پر یہ کہہ دینا کہ ہم بھی قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔ حالانکہ جب وہ تمہارا اتحاد و اتفاق اور آپس میں پیار و محبت یا پے در پے کامیابیاں اور کامرانیاں دیکھتے ہیں تو غصہ کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں میں چبانے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان کو روکنے میں ان کا کچھ بس نہیں چلتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم خواہ غصہ سے جل بھن جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے مشن کو کامیاب کرکے رہے گا اور دین اسلام ایک غالب دین کی حیثیت سے بلند ہو کے رہے گا اور تمہارے دلوں میں بغض وعناد کی جو لہریں اٹھتی ہیں۔ اللہ ان سے بھی پوری طرح واقف ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الْاَنَامِلَ : یہ ” اَنْمِلَۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے انگلیوں کے پورے۔ ” عَضَّ یَعَضُّ “ (ف) کا معنی ہے دانتوں سے کانٹا۔ ” الکتاب “ سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں، یعنی تم تو سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور وہ کسی کتاب پر بھی ایمان نہیں رکھتے، پھر بھی بجائے اس کے کہ تم ان سے نفرت کرو، الٹا ان سے ... دوستی کرتے ہو اور وہ بجائے دوستی کے تم سے دشمنی رکھتے ہیں اور دشمنی بھی اتنی سخت کہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصے کی وجہ سے دانتوں سے انگلیوں کے پورے کاٹتے ہیں، مگر جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ منافقین کی مسلم دشمنی کو واضح فرمایا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, in verse هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ; Muslims have been told that it is certainly strange that you go about loving them as friends, yet they are no friends of yours. Indeed, they are your worst enemies. Still more unusual is the situation because you believe in all Scriptures without any reservations as to the people they address, the time when they were sent down and the prop... het they were revealed to. Contrary to this, they do not accept your Book and your Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Their belief in their own Books is not correct either. Given this state of affairs it would have been expected that they should have been affectionate towards you and you should have been the ones to give them a cold shoulder. But, what is happening here is just the reverse of what it should have been.&  Show more

اس کے بعد فرمایا گیا ھانتم اولاء تحبونھم۔ یعنی تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو اور یہ تم سے ذرا محبت نہیں رکھتے، اور تم سب کتابوں کو مانتے ہو اور وہ جب تم سے ملتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو کاٹ کاٹ کھاتے ہیں تم پر انگلیاں غصہ سے، کہہ دیجیے کہ تم غیظ میں مر رہو، بیش... ک اللہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے، یعنی یہ کیسی بےموقع بات ہے کہ تم ان کی دوستی کا دم بھرتے رہو اور وہ تمہارے دوست نہیں بلکہ جڑ کاٹنے والے دشمن ہیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ تم تمام آسمانی کتابوں کو مانتے ہو خواہ وہ کسی قوم کی ہوں، اور کسی زمانہ میں کسی پیغمبر پر نازل ہوئی ہوں، اس کے برخلاف یہ لوگ تمہاری کتاب اور پیغمبر کو نہیں مانتے، بلکہ اپنی کتابوں پر بھی خود ان کا ایمان صحیح نہیں، اس لحاظ سے چاہئے تھا کہ وہ تم سے قدرے محبت کرتے اور تم ان سے سخت نفور اور بیزار رہتے، مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہورہا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّہٖ۝ ٠ ۚ وَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓااٰمَنَّا۝ ٠ ۚۤۖ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظ۝ ٠ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ١١٩ ها هَا...  للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ عض العَضُّ : أَزْمٌ بالأسنان . قال تعالی: عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ [ آل عمران/ 119] ، وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ [ الفرقان/ 27] ، وذلک عبارة عن النّدم لما جری به عادة الناس أن يفعلوه عند ذلك، والعُضُّ للنّوى «1» ، والذي يَعَضُّ عليه الإبلُ ، والعِضَاضُ : مُعَاضَّةُ الدّوابِّ بعضها بعضا، ورجلٌ مُعِضٌّ: مبالغٌ في أمره كأنّه يَعَضُّ عليه، ويقال ذلک في المدح تارة، وفي الذّمّ تارة بحسب ما يبالغ فيه، يقال : هو عِضُّ سفرٍ ، وعِضٌّ في الخصومة «2» ، وزمنٌ عَضُوضٌ: فيه جدب، والتَّعْضُوضُ : ضربٌ من التّمر يصعُبُ مَضْغُهُ. ( ع ض ض ) العض ۔ کسی چیز کو دانت سے پکڑ لینا یا کاٹنا قرآن میں ہے ۔ عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ [ آل عمران/ 119] تم پر غصے سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ، وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ [ الفرقان/ 27] اور جس دن ناعاقبت اندلیش ظالم اپنے ہی ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھا ئیگا ۔ میں ندامت سے کنایہ ہے کیونکہ عام طور پر دیکھا جا تا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام پر اتنباہ درجہ پشمان ہوتا ہے تو دانت سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ العض کھجور کی گٹھلی ۔ خاردار جھاڑی جسیے اونٹ کھاتے ہیں ۔ العضاض جانوروں کا ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹنا ۔ رجل معص اپنے کا م نہایت کوشش کرنے والا ادمی ۔ گویا وہ اسے دانتوں سے پکڑے ہوئے ہے اور کام کی نوعیت کے عتبار سے کبھی یہ لفظ بطور تعریف استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مذمت ۔ ھو عص سفر وہ سفر پر بہت قدرت رکھتا ہے ۔ ھو عض فی الخصومتہ وہ جھگڑنے میں نہایت فصیح اور سخنور ہے ۔ زمن عضوض خشک سال ۔ التعضوض ایک قسم کی کجھور جو دشواری کے ساتھ چبا کر کھائی جاتی ہے ۔ انمل قال اللہ تعالی: عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] الأنامل جمع الأنملة، وهي المفصل الأعلی من الأصابع التي فيها الظفر، وفلان مؤنمل الأصابع أي : غلیظ أطرافها في قصر . والهمزة فيها زائدة بدلیل قولهم : هو نمل الأصابع، وذكّرها هاهنا للفظه . ( ان م ل ) آیت کریمہ :۔ { عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ } ( سورة آل عمران 119) ( تو) تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کھاتے ہیں میں انامل انملۃ کی جمع ہے جس کے معنی انگلی کے اوپر کے پور کے ہیں جس میں ناخن ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان مونمل الاصابع فلاں کی انگلیوں کے پور فلیظ اور چھوٹے ہیں ۔ اس میں ہمزہ زائدہ ہے کیونکہ نمل الاصابع کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے اور اسے صرف لفظی مناسبت کی وجہ سے ہم نے یہاں کردیا ہے ۔ غيظ الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] . قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] . ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] تو اس کے جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٩) مسلمانو ! اگرچہ تم حرمت اور رشتہ داری کی وجہ سے یہود سے محبت رکھتے ہو لیکن وہ دین کی وجہ سے تم سے محبت نہیں رکھتے اور تم تمام کتابوں اور رسولوں کا اقرار کرتے ہو اور وہ ایسا نہیں کرتے اور منافقین یہود جب تم سے ملتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ا... یمان لائے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت ہماری کتابوں میں موجود ہیں لیکن جب یہ آپنے ساتھیوں میں جاتے ہیں تو غیظ وغضب میں انگلیاں چباتے ہیں (اے منافقین ویہود) تمہارے دلوں میں جو بغض اور کینہ ہے اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی واقف ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٩ (ہٰٓاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَہُمْ ) یہ تمہاری شرافت اور سادہ لوحی ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور پرانے تعلقات اور دوستیوں کو نبھانا چاہتے ہو۔ (وَلاَ یُحِبُّوْنَکُمْ ) وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے۔ (وَتُؤْمِنُوْنَ بالْکِتٰبِ کُلِّہٖج ) ۔ تم تورات کو بھی مانتے ہو ‘ انجیل کو بھی مانتے ہو۔...  سورة النساء میں الفاظ آئے ہیں : (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ۔۔ ) (آیت ٤٤) کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا۔۔ چناچہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ کی اس قدیم کتاب اُمُّ الکِتابہی کے حصے ہیں۔ اسی اُمُّ الکتاب میں سے پہلے تورات آئی ‘ پھر انجیل آئی اور پھر یہ قرآن مجید آیا ہے ‘ جو ہدایت کاملہ پر مشتمل ہے۔ تو تم تو پوری کی پوری کتاب کو مانتے ہو۔ (وَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْآ اٰمَنَّاق) (وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ط) جب وہ دیکھتے ہیں کہ اب ان کی کچھ پیش نہیں جارہی اور اسلام کا معاملہ اور آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے تو غصے میں پیچ و تاب کھاتے ہیں اور اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

93. It is strange that although the Muslims had reason to feel aggrieved by the Jews it was the latter who felt aggrieved by the Muslims. Since the Muslims believed in the Torah along with the Qur'an the Jews had no justifiable ground for complaint. If anyone had cause to complain it was the Muslims for the Jews did not believe in the Qur'an.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :93 یعنی یہ عجیب ماجرا ہے کہ شکایت بجائے اس کے کہ تمہیں ان سے ہوتی ، ان کو تم سے ہے ۔ تم تو قرآن کے ساتھ توراة کو بھی مانتے ہو اس لیے ان کو تم سے شکایت ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی ۔ البتہ شکایت اگر ہو سکتی تھی تو تمہیں ان سے ہو سکتی تھی کیونکہ وہ قرآن کو نہی... ں مانتے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:119) ھانتم۔ ھا تنبیہ کے لئے ہے انتم۔ مبتداء اور اولاء خبر ہے۔ لقوکم۔ تہ تم سے ملتے ہیں۔ ماضی جمع مزکر غائب کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ لقوا اصل میں لقیوا تھا۔ لقی سے۔ خلوا۔ وہ تنہا ہوئے۔ وہ اکیلے ہوئے۔ خلاء سے ۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ عضوا۔ انہوں نے کاٹ کاٹ کھایا۔ انہوں نے دانتوں میں دبایا۔ عض...  سے (باب سمع) ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ الانامل۔ انملۃ کی جمع ۔ جس کے معنی پہلے پورے کے ہیں جس میں ناخن ہوتا ہے۔ انگلیاں۔ عضوا علیکم الانامل من الغیظ۔ تمہارے خلاف غصہ و غضب کی وجہ سے انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 الکتاب سے تمام آسمانی کتابیں مراد ہیں یعنی تم تو سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو وہ کسی کتاب پھر بھی ایمان نہیں کر کھتے ہیں پھر بجائے اس کے کہ تم ان سے نفرت کرو الٹی ان سے دوستی کرتے ہو اور وہ بجائے دوستی کے تم سے دشمنی رکھتے ہیں اور منانفقت سے تمہیں بےخوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کذافی ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ کنایہ ہے شدت غضب سے جو مجبوری کے وقت ہو۔ 3۔ مراد یہ ہے کہ اگر تم مر بھی جاو گے تب بھی تمہاری مراد پوری نہ ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اسلام کے دشمنوں سے دوستی نہ رکھنے کی مزید وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے اور غیرت دلانے کے لیے اب نیا انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کیسے لوگ ہو کہ تم ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو اور وہ تمہارے ساتھ کوئی الفت نہیں رکھتے۔ تم خلوص نیت کے ساتھ قرآن مجید...  پر ایمان لائے ہو ان کی حالت یہ ہے کہ تمہارے ساتھ ملتے ہیں تو زبانی جمع خرچ کے طور پر ایمان کا دعو ٰی کرتے ہیں اور جب تم سے الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب کی وجہ سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ ان سے کہو کہ تم اپنے غصے کی آگ میں جل مرو۔ اللہ تعالیٰ سب کے دلوں کے حال کو جاننے والا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علیم کے ذریعے مسلمانوں کو یہ باور کروایا ہے کہ کفار کے غیظ و غضب اور ان کے سینے کی حالت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ تو تمہارے اعمال اور دلوں کی کیفیّات کو بھی جانتا ہے کہ تم کس حد تک کفار کی دوستی سے اجتناب کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے والے ہو۔ اگر تمہیں کوئی فائدہ اور اچھائی پہنچتی ہے تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر تمہیں نقصان اور مصیبت پہنچے تو اس پر شاداں وفرحاں ہوتے ہیں۔ ہاں اگر تم صبر کرو، اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرو اور کفار سے بچتے رہو تو ان کی سازشیں اور شرارتیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دسترس سے کسی کا عمل اور سازش بڑھ نہیں سکتی۔ یہاں مسلمانوں کو اہل کتاب کے چار اخلاقی جرائم بتلا کر ان کے ساتھ قلبی محبت سے روکا گیا ہے۔ تم ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ تم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر مکمل ایمان رکھتے ہو جبکہ وہ صرف تمہارے سامنے ایمان کے دعوے دار ہیں۔ تمہارا فائدہ انہیں برا لگتا ہے اور تمہارے نقصان پر وہ خوش ہوتے ہیں۔ وہ تمہارے ساتھ حسد و بغض رکھتے اور ہر وقت تمہارے نقصان کے درپے رہتے ہیں۔ یہود کا غیظ وغضب : بنوکلاب کے دو مقتولوں جنہیں عمرو بن امیہ ضمری نے غلطی سے قتل کردیا تھا۔ ان کی دیت میں اعانت پر بات چیت کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت علی اور صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت کے ساتھ یہود کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے کہا : ابوالقاسم ! آپ تشریف رکھیں ہم آپ کا مطالبہ پورا کیے دیتے ہیں۔ آپ صحابہ کے ہمراہ ان کے وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ان کے گھروں میں سے ایک گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہودیوں نے تنہائی میں یہ مشورہ کیا کیوں نا ہم نبی کو ختم کردیں۔ انہوں نے آپس میں کہا : کون اس چکی کے پاٹ کو لے کر اوپر جائے وہاں سے اسے آپ کے سر پر گراکر آپ کو کچل دے ؟ عمرو بن جحاش بدبخت یہودی نے اس کام کو اپنے ذمے لیا۔ ان میں سے سلام بن مشکم نے یہ کہہ کر روکا بھی کہ ایسا نہ کرو کیونکہ اللہ اسے اس بات کی خبر دے دے گا اور ہمارے آپس کے عہدوپیمان ختم ہوجائیں گے لیکن وہ نہ مانے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے یہودیوں کے ارادے سے آگاہ کردیا۔ آپ فورًا اٹھے اور تیزی کے ساتھ مدینے کی طرف چل پڑے۔ صحابہ کرام (رض) بھی آپ کے پیچھے پیچھے اٹھ آئے۔ پھر آپ نے صحابہ کرام کو سارا واقعہ بیان کیا۔ اس کے بعد محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کی طرف روانہ کیا۔[ ملخص ازالرحیق المختوم، غزوہ بنی نضیر ] مسائل ١۔ یہود ونصارٰی اور منافق علیحدگی میں مسلمانوں کے خلاف اپنے غیظ و غضب کے باعث اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب مسلمانوں کی ترقی پر ناخوش اور نقصان پر خوش ہوتے ہیں۔ ٣۔ یہود و نصارٰی اور کفار کے ساتھ قلبی تعلق منقطع کرنے سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہوسکتا۔ ٤۔ مسلمانوں کو لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ کفار کو راضی کرنے کے بجائے قرآن وسنت پر ثابت رہنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں : هَا أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الأنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ” اور تم ان سے محبت رکھتے ہو ؟ مگر وہ تو تم سے محبت نہیں رکھتے ‘ حالانکہ تم تم... ام کتب سماوی کو مانتے ہو ‘ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی مان لیا ہے ‘ مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ وغضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مسلمانوں کی غفلت پر سرزنش : مزید فرمایا کہ اے مسلمانو ! تم ایسے ہو کہ دشمنوں سے محبت کا برتاؤ کرتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، حالانکہ تم اللہ کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، تم ان کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہو، جو انبیائے سابقین ( علیہ السلام) پر نازل ہوئیں اور وہ تمہاری کتاب یعنی قرآن مجید پ... ر ایمان نہیں رکھتے تم جو ان کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو انہیں اس کی کچھ پاسداری نہیں، ان میں منافقت ہے، جب تم سے الگ ہوتے ہیں تو غصہ کی جلن کے مارے اپنی انگلیاں کاٹے لیتے ہیں کہ مسلمان کیسے آگے بڑھ رہے ہیں اور کیسے قوت پار ہے ہیں ان کے اس حال کے بارے میں ارشاد فرمایا (قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ ) کہ تم اپنے غصہ کی جلن میں مرجاؤ، دین اسلام کو قوت ہو کررہے گی۔ اسلام کی قوت اور شان و شوکت بڑھنے پر انگلیاں کاٹنے سے کیا ہوتا ہے اس غصہ میں مر بھی جاؤ گے تب بھی اسلام کا کلمہ بلند ہوگا۔ سب دینوں پر اسلام غالب ہوگا۔ پھر فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) (بےشک اللہ سینوں کی باتوں کو جانتا ہے) تمہارے دلوں میں جو کفر ہے اسے اس کا پتہ ہے اس نے مسلمانوں کو بھی تمہارا حال بتادیا تاکہ وہ چوکنے ہو کر رہیں اور آخرت میں تمہیں کفر کی سزا دے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

181 الکتاب میں لام جنس کا ہے اور مراد اس سے تمام آسمانی کتابیں ہیں اور ضمیر غائب سے منافقین یہود مراد ہیں یہ مسلمانوں کی نیک دلی اور یہودیوں کے روایتی بغض وعداوت کا بیان ہے مطلب یہ کہ تم تو ان سے دوستی بھی رکھتے ہو اور تمام آسمانی کتابوں کو حتی کہ تورات اور انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کا حال...  یہ ہے کہ تم سے دوستی اور محبت تو درکنار وہ تمہاری کتاب یعنی قرآن پر بھی ایمان نہیں رکھتے حاصل یہ کہ وہ تمہارے ساتھ کسی درجہ میں انس اور محبت نہیں رکھتے۔ 182 عَضِّ اَنَامِل یعنی انگلیاں کاٹنا یہ ایک محاورہ ہے اور اس وقت بولا جاتا ہے جب آدمی شدت غیظ سے دیوانہ ہورہا ہو اور غصے کو عملی جامہ نہ پہنا سکتا ہو۔ والعض عبارۃ عن شدۃ الغیظ مع عدم القدرۃ علی انفاذہ (قرطبی ص 182 ج 4) یہاں ان کے نفاق کا بیان ہے مطلب یہ کہ ان سے دوستی اور خیر خواہی کی امید بالکل بیکار ہے کیونکہ ان کے دلوں میں کفر وعناد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور ان کا دعویٰ ایمان سراسر منافقانہ ہے تمہارے سامنے تو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کچھ کر بھی نہیں سکتے اس لیے شدت غیظ سے جھنجھلا اٹھتے ہیں والمعنی اذا خلا بعضھم ببعض اظھر وشدة الغیظ علی المؤمنین حتی تبلغ تلک الشدة الی عض الانامل الخ (کبیر ص 56 ج 3) ۔ 183 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ملا ہے کہ آپ منافقین سے کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے اور اس نے تمہارے اندرونی کینہ اور بغض کی ہم کو اطلاع دے دی ہے باقی تمہاری یہ خواہش کہ اسلام مغلوب ہوجائے اور مسلمان ناکام ہوجائیں۔ یہ کبھی پوری نہیں ہوگی تم بیشک شدت غضب میں مرتے رہو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi