Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 141

سورة آل عمران

وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾

And that Allah may purify the believers [through trials] and destroy the disbelievers.

۔ ( یہ بھی وجہ تھی ) کہ اللہ تعالٰی ایمان والوں کو بالکل الگ کردے اور کافروں کو مٹا دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ امَنُواْ ... And Allah likes not the wrongdoers. And that Allah may test those who believe, by forgiving them their sins if they have any. Otherwise, Allah will raise their grades according to the losses they suffered. Allah's statement, ... وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ and destroy the disbelievers. for it is their conduct that if they gain the upper hand, they transgress and commit aggression. However, this conduct only leads to ultimate destruction, extermination, perishing and dying out. Allah then said, أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141۔ 1 احد میں مسلمانوں کو جو عارضی شکست ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوئی اس میں بھی مستقبل کے لئے کئی حکمتیں پنہاں ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ آگے بیان فرما رہا ہے۔ ایک یہ کہ ایمان والوں کو ظاہر کر دے (کیونکہ صبر اور استقامت ایمان کا تقاضا ہے) جنگ کی شدتوں اور مصیبتوں میں جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، یقینا وہ سب مومن ہیں۔ دوسری یہ کہ کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کر دے۔ آخری دونوں کا مطلب گناہوں سے پاکی اور خلاصی ہے (فتح الْقدیر) مرحوم مترجم نے پہلے معنی کو اختیار کیا ہے چوتھی، یہ کہ کافروں کو ہٹا دے۔ وہ اس طرح کہ وقتی فتح یابی سے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگا اور یہی چیز ان کی تباہی و ہلاکت کا سبب بنے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٨] تیسری حکمت یہ ہے کہ حقیقی مسلمان ممتاز ہو کر سب کے سامنے آجائیں اور کافر اس عارضی فتح سے دلیر ہو کر پھر سے مسلمانوں پر حملہ کرنے آجائیں تو ان کے ان کرتوتوں کا انہیں بدلہ مل سکے۔ چناچہ بعد میں غزوہ خندق میں کفار شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ان میں یہ سکت ہی نہ رہی کہ جارحانہ طور پر مسلمانوں پر حملہ آور ہوسکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِيُمَحِّصَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ١٤١ محص أصل المَحْصِ : تخلیص الشیء مما فيه من عيب کالفحص، لکن الفحص يقال في إبراز شيء من أثناء ما يختلط به، وهو منفصل عنه، والمَحْصُ يقال في إبرازه عمّا هو متّصل به، يقال : مَحَصْتُ الذّهب ومَحَّصْتُهُ : إذا أزلت عنه ما يشوبه من خبث . قال تعالی: وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا[ آل عمران/ 141] ، وَلِيُمَحِّصَ ما فِي قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 154] ، فَالتَّمْحِيصُ هاهنا کالتّزكية والتّطهير ونحو ذلک من الألفاظ . ويقال في الدّعاء : ( اللهمّ مَحِّصْ عنّا ذنوبنا) «5» أي : أزل ما علق بنا من الذّنوب . ومَحَصَ الثّوبُ «6» : إذا ذهب زِئبِرُهُ «7» ، ومَحَصَ الحبل يَمْحَصُ : أخلق حتی يذهب عنه وبره، ومَحَصَ الصّبيُّ : إذا عدا . ( م ح ص ) المحص کے اصل معنی کسی چیز کو کھوٹ اور عیب سے پاک کرنے کے ہیں یہ فحص کے ہم معنی ہے مگر فحص کا لفظ ایک چیز کو دوسری ایسی چیزوں سے الگ کرنے پر بولا جاتا ہے جو اس میں مل جائیں لیکن درحقیقت اس سے منفصل ہوں مگر محص کا لفظ ان ملی ہوئی چیزوں کو کسی چیز سے الگ کرنے کے لئے آتا ہے جو اس سے متصل اور گھل مل گئی ہوں ۔۔۔۔۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ محصت الذھب ومخصتہ سونے کو آگ میں گلا کر اس کے کھوٹ کو الگ کردیا چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا[ آل عمران/ 141] اور یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو خالص مومن بنادے وَلِيُمَحِّصَ ما فِي قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 154] اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو خالص اور صاف کردے ۔ میں دلوں کے پاک کرنے پر تمحیص کا استعمال ایسے ہی ہے جیسا کہ تزکیۃ اور اس قسم کے دوسرے الفاظ استعمال ہوتے ہیں چناچہ دعا کرتے وقت کہا جاتا ہے ۔ اللھم محص عنا ذنوبنا اے اللہ ہمارے گناہوں کو جو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں دور کر دے ۔ محص الثوب کپڑے کا رواں استعمال سے گھس گیا اور اس کی تاذگی چلی گئی ۔ محص الحبل یمحص رسی پرانی ہوگئی ۔ اور اس کا روآں صاف ہوگیا ۔ محص النبی بچہ ( طاقت ور ہوکر ) دوڑ نے لگا ۔ ( م ح ق ) المحق کے معنی گھٹنے اور کم ہونے کے ہیں اور اسی سے المحاق قمری مہینہ کی ان آخری راتوں کو کہتے ہیں جن میں چاند نمودار نہیں ہوتا ۔ انمحق وامتحق کے معنی کم ہونا اور مٹ جانا ہیں اور محقہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے اور اس سے برکت کو ختم کردینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] خدا سود کرنا بود ( یعنی بےبرکت کرتا ) اور خیرات ( کی برکت ) کو بڑھاتا ہے ۔ وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران/ 141] اور کافروں کو نابود کردے ۔ محق المَحْقُ : النّقصان، ومنه : المِحَاقُ ، لآخر الشهر إذا انْمَحَقَ الهلال، وامْتَحَقَ ، وانْمَحَقَ ، يقال : مَحَقَهُ : إذا نقصه وأذهب بركته . قال اللہ تعالی: يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، وقال : وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران/ 141] . ( م ح ق ) المحق کے معنی گھٹنے اور کم ہونے کے ہیں اور اسی سے المحاق قمری مہینہ کی ان آخری راتوں کو کہتے ہیں جن میں چاند نمودار نہیں ہوتا ۔ انمحق وامتحق کے معنی کم ہونا اور مٹ جانا ہیں اور محقہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے اور اس سے برکت کو ختم کردینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] خدا سود کرنا بود ( یعنی بےبرکت کرتا ) اور خیرات ( کی برکت ) کو بڑھاتا ہے ۔ وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران/ 141] اور کافروں کو نابود کردے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤١ (وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ ) مسلمانوں میں سے خاص طور پر انصار مدینہ کی آزمائش مطلوب ہے جو ابھی ایمان لائے ہیں ‘ ان میں کچھ پختہ ایمان والے ہیں ‘ کچھ کمزور ایمان والے ہیں اور کچھ منافق بھی ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ وہ پورے طریقے سے پختہ ہوجائیں ‘ اور اگر کوئی کچا ہی رہتا ہے تو وہ اہل ایمان سے کٹ جائے ‘ تاکہ بحیثیت مجموعی جماعتی قوت کو کوئی ضعف نہ پہنچے۔ تو یہ جو تمہارے اندر ہر طرح کے لوگ گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ کچھ مؤمن صادق ہیں ‘ پختہ ایمان والے ہیں ‘ کچھ کمزور ایمان والے ہیں اور کچھ منافق بھی ہیں ‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ تمحیص کی ہے کہ سب کو چھانٹ کر الگ کردیا ہے۔ چناچہ عبداللہ بن ابی اور اس کے تین سو ساتھیوں کے نفاق کا پردہ چاک ہوگیا ‘ ورنہ ان کی اصلیت تم پر کیسے ظاہر ہوتی ؟ بحث و تمحیص ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ بحث کا معنی ہے کریدنا اور تمحیص الگ الگ کرنا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:141) یمحص۔ تمحیص (تفعیل) تاکہ خالص اور صاف کر دے۔ المحص۔ کسی چیز کو کھوٹ اور عیب سے پاک کرنا۔ محصت الذھب میں نے سونے کو آگ میں گلا کر اس کے کھوٹ کو الگ کردیا۔ دلوں کے پاک کرنے پر تمحیص کا استعمال بمثل تزکیہ و تطہیر ہوتا ہے۔ دعا میں ہم کہتے ہیں اللہم محص عنا ذنوبنا۔ اے اللہ ! ہمارے گناہوں کو جو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں دور کردے۔ یمحق۔ محق مصدر (فتح) وہ گھٹاتا ہے۔ تاکہ وہ مٹا دے۔ تاکہ وہ ہلاک کر دے۔ یمحق اللہ الربو ویربی الصدقت (2:276) خدا سود کر نابود اور خیرات کو بڑھاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 جنگ احد میں امسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا اور یہود ومنا فقین کے مطا عن مزید دل آزاری کا با عث بنے۔ منافق کہتے تھے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے نبی ہوتے تو مسلمان یہ نقصان اور بزمیت کی ذلت کیوں اٹھاتے وغیرہ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ فتح وشکست تو ادلتی بدلتی چیز ہے یہ حق ونا حق کا معیار نہیں ہے۔ آج اگر تم نے زخم کھا یا ہے تو کل وہ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں اسی قسم کا زخم کھاچکے ہیں اور خود اس جنگ میں اتبدا ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے ہیں جیسا کہ اذتخسو نھم باذنہ سے معلوم ہوتا ہے۔ تمہارے شکست کھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایمان واخلاص اور کفر ونفاق میں تمیز ہوگئی مومن اور منافق الگ الگ ہو گے مومنوں کو شہادت نصیب ہوئی جو عند اللہ بہت بڑا شرف ہے ورنہ اس عارضی فتح کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں اور مشرکوں کو پسند کرتا ہے بلکہ فتح وشکست کے اس چکر سے مومنوں کو تمحیص اور کفار کی طاقت کو ختم کرنا مقصو ہے اس طرح کہ وہ اپنی عارضی فتح پر مغرورر ہو کر پھر لڑنے آئیں گے اور اس وقت ان کی وہ سرکوبی ہوگی کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لے گے چناچہ غزوہ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا کہ اس کے بعد کفا رن دفاعی جنگیں تو لڑی ہیں مگر خود حملہ کی جرات نہ کرسکے۔ (ماخوذ از کبیر وشوکانی وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد اب مضمون اس طرف جاتا ہے کہاں حادثات فاجعہ کے پس پشت کیا حکمت پوشیدہ ہے ؟ بتایا جاتا ہے کہ ان کے ذریعہ امت کی تربیت مقصود تھی ‘ اسے پاک کرکے اس کے اعلیٰ کردار کے لئے تیار کرنا مقصود تھا ‘ تاکہ وہ اللہ کی تقدیر اور ہتھیار بن کر کافروں کو نیست ونابود کرے اور مکذبین کو سزا دینے کے لئے دست قدرت کے لئے پردہ بن جائے ۔ وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ……………” اور وہ آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتا تھا۔ “ تمحیص علیحدہ اور ممتاز کرنے کے بعد کا درجہ ہے ۔ اور یہ وہ کاروائی ہے جو انسان کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے ۔ ضمیر کے اندر اس کی تکمیل ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہوتا ہے جس سے شخصیت کے خفیہ گوشے کھل کر سامنے آجائیں ۔ ان خفیہ گوشوں پر لائٹ فوکس ہوجاتی ہے تاکہ ان گوشوں سے میل ‘ کھوٹ اور ملاوٹ دور ہوجائے ۔ وہ واضح اور صاف نظر آجائیں اور یہ شخصیت سچائی پر خوبی کے ساتھ جم جائے ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنی شخصیت کے بارے میں صحیح جائزہ نہیں لے سکتا۔ وہ اپنی خفی کمزوریوں اور اپنے نفس کے نشیب و فراز سے واقف نہیں ہوتا ۔ اور یوں اسے نہ اپنی قوت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے اور نہ اپنی کمزوریوں کا صحیح پتہ ہوتا ہے۔ اس کی بعض ایسی خفیہ کمزوریاں ہوتی ہیں جن کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب ان کو ابھارا جائے۔ چھانٹی کے اس عمل کا انتظام اللہ جل شانہ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا تھا ۔ اور یہ چھانٹی اسی طرح کی جارہی تھی کہ مسلمانوں کو زندگی کے نشیب و فراز سے دوچار کیا جائے ‘ انہیں فتح بھی ہو اور شکست بھی ہو ‘ سختی بھی آئے اور اچھے حالات بھی درپیش ہوں۔ انہیں خوب رگڑا دیا جائے ۔ اور اس تلخ رگڑ کے بعد اہل ایمان اپنے بارے میں وہ کچھ جان لیں جو اس سے قبل وہ جانتے تھے ۔ حادثات ‘ تجربے اور مختلف عملی مواقف سے دوچار کرکے ان کی یہ چھانٹی ہوئی۔ بعض اوقات انسان اس غرے میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ قوی وشجاع ہے اور حرص وآزار کے پنجے سے آزاد ہے اور جب وہ عملی تجربات کی کسوٹی پر چڑھتا ہے اور جب وہ واقعی حالات سے دوچار ہوتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی شخصیت میں تو ابھی بڑی بڑی کمزوریاں ہیں ‘ جو ابھی تک دور نہیں ہوسکیں ۔ اور یہ کہ وہ ابھی تک مشکلات کے اس قدر دباؤ کے برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتا اس لئے یہ بات خود اس کے مفاد میں ہوتی ہے کہ اسے قبل از وقت اپنی کمزوریوں کا علم ہوجائے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو ازسرنو ڈھالنے کی کوشش کرے ۔ اور وہ ان مشکلات کے برداشت کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلے جو اس کی دعوت کی راہ میں لازماً درپیش آنے والی ہیں۔ اور اس نظریہ حیات کی وجہ سے وہ لابدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ تھی کہ وہ اس پہلی جماعت اسلامی کی اچھی طرح تربیت کردے ۔ جسے اس نے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے تیار کرنا تھا ۔ اس اسکیم کے مطابق اس جماعت نے اس کرہ ارض پر ایک عظیم کا سر انجام دینا تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی طرح چھاٹا اور احد میں اسے ایسے حالات سے دوچار کیا جو غیر متوقع تھے تاکہ یہ جماعت اپنی سطح ذرابلند کرے اور اپنے آپ کو اس رول کے لئے تیار کرے جو اللہ نے طے کردیا تھا کہ اس نے ادا کرنا ہے اور وہ یہ تھا کہوَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ……………” اور تاکہ وہ کافروں کی سرکوبی کرے ۔ “ اور یہ اس لئے کہ حق کے ذریعہ ‘ باطل کی سرکوبی کرنا سنت الٰہیہ میں سے ایک سنت ہے ۔ لیکن یہ سرکوبی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب حق ظاہر ہوجائے اور سخت تربیت اور چھانٹی کے ذریعہ اس کی کمزوریاں دور کردی جائیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

210 یہ بھی لِیَعْلَمَ پر معطوف ہے۔ تمحیص کے معنی ہیں خالص کرنا اور یہاں مراد ہے گناہوں سے پاک وصاف کرنا اور محق سے مراد مٹانا اور غنا کرنا ہے یعنی فتح وشکست کے الٹ پھیر کرنے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ تاکہ ایمان والوں کو گناہوں کی میل سے پاک وصاف کیا جائے اور کافروں کا ستیصال کر کے ان کا نام ونشان مٹا دیا جائے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر فتح کافروں کی ہو تو اس سے مومن اور منافق میں امتیاز ہوتا ہے۔ اور مسلمان مقتولین شہادت کا درجہ پاتے ہیں اور اس سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو گناہوں سے پاک کرتا ہے اور اگر فتح مسلمانوں کی ہو تو اس سے کافروں کا استیصال ہوتا ہے۔ یعنی ان کانت الدولۃ علی المومنین فلیتمیزوا الستشہاد والتمحیص وان کانت علی الکافرین فلتمحصھم ومحوا اٰثارھم (مدارک ص 143 ج 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے مسلمانو ! اگر تم کو اس غزوئہ احد میں کچھ زخم اور صدمہ و پریشانی لاحق ہوئی تو گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ گزشتہ سال کا فر قوم کو بھی اسی قسم کا زخم اور صدمہ پہونچ چکا ہے اور ہم ان ایام کو یعنی زمانہ کے حوادثات اور غالب و مغلوب ہونے کو ان لوگوں کے درمیان باری باری ادلتے بدلتے رہا کرتے ہیں تمہارے ساتھ یہ معاملہ اس سال اس لئے کیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہری طور پر بھی جان لیں اور ان کو دوسروں سے متمیز کردیں اور نیز تم میں سے بعض کو شہید بنانا اور شہادت کا مرتبہ عطا فرمانا تھا اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ظالموں یعنی کافروں اور مشرکوں کو پسند نہیں کرتا اور کسی حال میں بھی ان سے محبت نہیں کرتا اور تمہارے ساتھیہ معاملہ اس لئے بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر قسم کے میل کچیل سے صاف کر دے اور ان کو نکھار دے اور اس لئے بھی ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے زور اور ان کی طاقت کو بتدریج ختم کر دے۔ (تیسیر) قرح اور قزح کے معنی ہیں جراحت اور زخم چونکہ غزوئہ احد میں مسلمان زخمی بھی ہوئے، شہید بھی ہوئے اور پیغمبر کے گزند سے صدمہ بھی ہوا اور ہزیمت بھی ہوئی چونکہ بعض مفسرین نے یہاں ہزیمت کے ساتھ تفسیر کی تھی اس لئے ہم نے تیسیر میں سب الفاظ نقل کردیئے ہیں۔ یہ زخم ظاہری ہوں یا باطنی قرح سب کو شامل ہے۔ تداولت کے معنی ہیں ہر تے پھرتے رہنا اردو میں بولا کرتے ہیں زمانہ سب کے ساتھ یکساں نہیں رہتا اصل میں تداول کا استعمال کھانے کے موقعہ پر بولا جاتا ہے جب ایک دور سے کو کھانے کے جوڑ دیکر دستر خوان تک پہنچاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے دیگ سے کھانا نکال کر اپنے سے قریب والے کو دیا اس نے دوسرے کو دیا اس نے تیسرے کو تیسرے نے چوتھے کو اسی طرح ادلتے بدلتے دستر خوان تک پہنچ گیا اور اسی کو ہم نے زمانے کے ہیر پھیر سے تعبیر کیا یہ۔ یہ بھی حضرت حق تعالیٰ کی بڑی عمیق مصلحت و حکمت ہے کہ کبھی کسی کو فاتح اور کسی کو مفتوح فرماتے رہتے یں تاکہ کافر ایمان لانے پر مجبور نہ ہوجائیں بلکہ سوچ کر اور سمجھ کر آزادی رائے کے ساتھ اسلام قبول کریں ۔ اس لئے اس عالم تکوین میں کسی قوم کے ساتھ نمایاں اور آشکارا خصوصی برتائو نہیں کیا جاتا اور حضرت حق تعالیٰ کی یہ وہ حکمت بالغہ ہے جو ہر شخص نہیں سمجھتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائے اور اس کو صحیح سمجھ دے۔ کلا نمد ھولاء وھولاء من عطاء ربک وما کان عطاء ربک محذورا سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا ہے ہم اس فریق کی بھی اور اس فریق کی بھی آپ کے رب کی عطا سے مدد کرتے رہتے ہیں اور آپ کے رب کی عطا اور اس کے فیض پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی مضمون کو یہاں وتلک الایام نداولھا بین الناس سے ظاہر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ گزشتہ سال تم کو غلبہ ہوا تھا اب کے سال تمہارے مخالف کو ہوگیا یہ تو ہمارا عام طریقہ ہے جو لوگوں کے مابین رائج کر رکھا ہے یہ دستور نہ صرف قوموں میں رائج ہے بلکہ افراد میں بھی پایا جاتا ہے کبھی کوئی سر بلند ہے کبھی کوئی کبھی کوئی خاندان آبرو میں زیادہ ہے کبھی کوئی خاندان کبھی کوئی قوم برسر اقتدار ہے کبھی کوئی قوم اس دنیوی شکست سے متاثر نہ ہو اس شکست میں بھی نہ معلوم کس قدر حکمتیں پوشیدہ ہیں پھر چند اور حکمتیں بیان فرمائیں ان حکمتوں میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کا امتحان ہوجائے کیونکہ یہی مواقع ہیں جن میں مخلص اور منافق نظر آجاتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ تو ہر ایک کو پہلے ہی سے جانتا ہے اللہ کے علم کی بحث دوسرے پارے میں گزر چکی ہے اگر علم کے معنی جاننے کے کئے جائیں تو یوں ترجمہ کیا جائے کہ وہ جانتا تو ہے ہی مگر اس طرح ظاہری طور پر بھی جان لیتا ہے اور اگر وہ معنی کئیجائیں جو ہم نے حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ رفیع الدین رحمتہ اللہ علیہما کے ترجموں سے اخذ کئے ہیں تو پھر کسیقید کی ضرورت نہیں یعنی یہاں علم سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کو معلوم ہوجائے کہ کون مخلص ہے اور کون منافق ہے برے اور بھلے میں امتیاز ہوجائے اگر یہ مصیبت اور پریشانی نہ آتی تو لوگوں میں امتیاز نہ ہوتا اور وہ ایک دوسرے سے متمیز نہ ہوتے۔ ان حکمتوں میں سے دو سری یہ کہ تم میں سے بعض کو شہادت کا مرتبہعطا کرنا مقصود تھا اور یہ مرتبہ اس پر موقوف تھا کہ مسلمان کافروں کے ہاتھوں مارے جائیں اور شہدائے احد کا لقب حاصل کریں اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض کو قیامت میں بطور گواہ پیشک ریں اورت م کو شدائد و مصائب کو برداشت کرنیوالوں کی فہرست میں پیش کیا جائے اور تم بطور شہادت پیش ہو۔ (واللہ اعلم) بیچ میں ایک شبہ کا ازالہ بطور جملہ معترضہ کے فرما دیا کہ کہیں یہ نہ سمجھو بیٹھنا کہ ظالموں کے ساتھ ہماری کوئی ہمدردی ہے یا ہم کافروں اور مشرکوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہماری پسندیدہ چیز تو ایمان و اطاعت اور صبر و استقلال ہے یہ باتیں جسمیں ہونگی وہ ہمارا محبوب ہے کافر اور مشرک میں یہ باتیں کہاں رکھی ہیں جو وہ ہمارے محبوب اور پسندیدہ ہوں گے اور نہ یہ شکست و فتح پر موقوف ہے کہ کوئی یہ سمجھ لے کہ جس کی فتح ہوئی وہی خدا کا دوست ہے اور جس کی شکست ہوئی وہ خدا کا مبغوض ہے ۔ فتح و شکست تو جنگ کے لازمی نتائج ہیں ان سے ہماری محبت و عدم محبت کو نہ جانچا کرو بلکہ محبت کا تعلق ایک اور چیز سے ہے اور فتح و شکست کا تعلق اور چیز سے ہے۔ جملہ معترضہ کے بعد پھر فرمایا کہ ہماری حکمتوں میں سے تیسری حکمت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے اخلاق و اعمال کا تصفیہ کردیں اور مسلمانوں سے میل کچیل کو دور کردیں تمحیص کے معنی ہیں نکھارنا جس طرح سونے چاندی کو گلا کر ان کا میل کچیل صاف کرتے ہیں اسی طرح ہمارا مقصد یہ تھا کہ تم کو مصائب و شدائد میں مبتلا کر کے ہر قسم کے میل کچیل سے تم کو صاف کردیں اور تمہارے اعمال و اخلاق کو نکھار دیں اور آخری حکمت یہ فرمائی کہ اس طرح ہم کافروں کو آہستہ آہستہ مٹا دیں۔ محق کے معنی ہم تیسیر پارے میں بتا چکے ہیں محق کے معنی تھوڑا تھوڑا کسی چیز کو کم کردینا جس طرح چاند کا نور آہستہ آہستہ روز بروز کم ہوتا رہتا ہے اور آخر ایک دن سب نور ختم ہوجاتا ہے اسی طرح ہماری حکمت یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا کر کے کافروں کی قوت کو ختم کردیں اگر ہر سال تم ہی غالب ہوتے رہو تو کافر لڑنے کو آمادہ نہ ہوں گے اور اگر کبھی تم بھی مغلوب ہو جائو گے خواہ مغلوب ہونے میں تمہاری بھی کوتاہی کو دخل ہو تو پھر ان کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ تم سے لڑنے کو آئیں گے اور اس طرح ہم ان کے زور کو توڑ دیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم پر ظلم کرنے سے وہ خدا کے قہر میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجائیں گے اور کثرت مظالم سے ان کی تباہی کا پروا نہ لبریز ہوجائے گا اور جلد تباہ ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی فتح اور شکست بدلتی چیز ہے اور مسلمانوں کو شہادت کا درجہ ملنا تھا اور مومن اور منافق کا پرکھنا منظور تھا اور مسلمانوں کو سدھارنا اس واسطے اتنی شکست ہوئی نہیں تو اللہ کافروں سے راضی نہیں۔ (موضح القرآن) سبحان اللہ ! حضرت شاہ صاحب نے کس قدر مختصر اور جامع خلاصہ بیان کیا ہے جو حضرت شاہ صاحب ہی کا حصہ ہے اور یعلم کا ترجمہ پرکھنا اور تمحیص کا ترجمہ سدھارنا بھلا اس اردو کا جواب کیا ہوسکتا ہے۔ مس القوم قرح مثلہ سے بعض حضرات نے انبیاء سابقین اور ان کے ساتھی مراد لئے ہیں اور مطلب یوں بیان کیا ہے کہ اگر تم کو زخم اور مصائب پہنچے تو یہ کوئی نئی بات نہیں تم سے پہلے پیغمبروں اور مسلمانوں کو بھی اس قسم کی تکالیف پہنچ چکی ہیں مگر ہم نے اس کو غیر مشہور ہونے کی وجہ سے اختیار نہیں کیا۔ اس آیت میں مثل کا لفظ ہر اعتبار سے مماثل نہیں جیسا کہ تسہیل میں معلوم ہوچکا۔ اب آگے مسلمانوں کی مزید تقویت اور اطمینان کی غرض سے ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)