Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 159

سورة آل عمران

فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾

So by mercy from Allah , [O Muhammad], you were lenient with them. And if you had been rude [in speech] and harsh in heart, they would have disbanded from about you. So pardon them and ask forgiveness for them and consult them in the matter. And when you have decided, then rely upon Allah . Indeed, Allah loves those who rely [upon Him].

اللہ تعالٰی کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ، سُو آپ ان سے درگُزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالٰی پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالٰی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Among the Qualities of Our Prophet Muhammad are Mercy and Kindness Allah addresses His Messenger and reminds him and the believers of the favor that He has made his heart and words soft for his Ummah, those who follow his command and refrain from what he prohibits. فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ ... And by the mercy of Allah, you dealt with them gently, meaning, who would have made you this kind, if it was not Allah's mercy for you and them. Qatadah said that, فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ (And by the mercy of Allah, you dealt with them gently) means, "With Allah's mercy you became this kind." Al-Hasan Al-Basri said that; this, indeed, is the description of the behavior that Allah sent Muhammad with. This Ayah is similar to Allah's statement, لَقَدْ جَأءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُوْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ Verily, there has come unto you a Messenger from among yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty. He is anxious over you (to be rightly guided, to repent to Allah); for the believers (he is) full of pity, kind, and merciful. (9:128) Allah said next, ... وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ ... And had you been severe and harsh-hearted, they would have broken away from about you; The severe person is he who utters harsh words, and, غَلِيظَ الْقَلْبِ (harsh-hearted) is the person whose heart is hard. Had this been the Prophet's behavior, "They would have scattered from around you. However, Allah gathered them and made you kind and soft with them, so that their hearts congregate around you." Abdullah bin Amr said that he read the description of the Messenger of Allah in previous Books, "He is not severe, harsh, obscene in the marketplace or dealing evil for evil. Rather, he forgives and pardons." The Order for Consultation and to Abide by it Allah said, ... فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الاَمْرِ ... So pardon them, and ask (Allah's) forgiveness for them; and consult them in the affairs. The Messenger of Allah used to ask his Companions for advice about various matters, to comfort their hearts, and so they actively implement the decision they reach. For instance, before the battle of Badr, the Prophet asked his Companions for if Muslims should intercept the caravan (led by Abu Sufyan). They said, "O Messenger of Allah! If you wish to cross the sea, we would follow you in it, and if you march forth to Barkul-Ghimad we would march with you. We would never say what the Children of Israel said to Musa, `So go, you and your Lord, and fight you two, we are sitting right here.' Rather, we say march forth and we shall march forth with you; and before you, and to your right and left shall we fight." The Prophet also asked them for their opinion about where they should set up camp at Badr. Al-Mundhir bin `Amr suggested to camp close to the enemy, for he wished to acquire martyrdom. Concerning the battle of Uhud, the Messenger asked the Companions if they should fortify themselves in Al-Madinah or go out to meet the enemy, and the majority of them requested that they go out to meet the enemy, and he did. He also took their advice on the day of Khandaq (the Trench) about conducting a peace treaty with some of the tribes of Al-Ahzab (the Confederates), in return for giving them one-third of the fruits of Al-Madinah. However, Sa`d bin Ubadah and Sa`d bin Mu`adh rejected this offer and the Prophet went ahead with their advice. The Prophet also asked them if they should attack the idolators on the Day of Hudaybiyyah, and Abu Bakr disagreed, saying, "We did not come here to fight anyone. Rather, we came to perform Umrah." The Prophet agreed. On the day of Ifk, (i.e. the false accusation), the Messenger of Allah said to them, "O Muslims! Give me your advice about some men who falsely accused my wife (Aishah). By Allah! I never knew of any evil to come from my wife. And they accused whom They accused he from whom I only knew righteous conduct, by Allah!" The Prophet asked Ali and Usamah about divorcing Aishah. In summary, the Prophet used to take his Companions' advice for battles and other important events. Ibn Majah recorded that Abu Hurayrah said that the Prophet said; الْمُسْتَشَارُ مُوْتَمَن The one whom advice is sought from is to be entrusted. This was recorded by Abu Dawud, At-Tirmidhi, and An-Nasa'i who graded it Hasan. Trust in Allah After Taking the Decision Allah's statement, ... فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ ... Then when you have taken a decision, put your trust in Allah, means, if you conduct the required consultation and you then make a decision, trust in Allah over your decision. ... إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ certainly, Allah loves those who put their trust (in Him). Allah's statement,

اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لئے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کر دیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ما صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ ) 4 ۔ النسآء:155 ) میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے آیت ( عما قلیل ) میں اسی طرح یہاں ہے ، یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم دل ہوا ہے ، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے آیت ( لقد جاء کم ) الخ ، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ باہلی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابو امامہ بعض مومن وہ ہیں جن کے لئے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے ، ( فظاً ) سے مراد یہاں سخت کلام ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد ( غلیظ القلب ) کا لفظ ہے ، یعنی سخت دل ، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنا دیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لئے محبت اور نرمی عطا فرمائی ، اور تا کہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام سخت دل بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ درگذر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں ، ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا ، چنانچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگذر کر ، ان کے لئے استغفار کر ، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر ، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرو ، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے ، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لئے مشورہ لیا اور صحابہ نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک انعماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی طرح کہدیں٠ کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے ، اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو؟ اور منذر بن عمرو نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو ، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہئے چنانچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کر لی جائے؟ تو حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کر لیا اور مصالحت چھوڑ دی ، اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں؟ تو حضرت صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چنانچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا ، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانو مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں ۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے اور آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی جدائی کے لئے حضرت علی اور حضرت اسامہ سے مشورہ لیا ، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھی ، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت میں حضرت ابو بکر و عمر سے مشورہ کرنے کا حکم ہے ( حاکم ) یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں ( کلبی ) مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہو جائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا ( ابن مردویہ ) ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہے ، ابو داؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے ، امام ترمذی علیہ الرحمہ اسے حسن کہتے ہیں ، اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہئے بھلی بات کا مشورہ دے ( ابن ماجہ ) پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گذرا ہے کہ آیت ( ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ) 3 ۔ آل عمران:26 ) یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے ، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہئے ۔ پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے ، ابن عباس فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں کے کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری ( ترمذی ) اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت ( وما کان ) اتری ، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو ، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کر سکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے ، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپا لے اور امت تک نہ پہنچائے ۔ یغل کے معنی اور خائن یغل کو یے کے پیش سے بھی پڑھا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ نبی کی ذات ایسی نہیں کہ ان کے پاس والے ان کی خیانت کریں ، چنانچہ حضرت قتادہ اور حضرت ربیع سے مروی ہے کہ بدر کے دن آپ کے اصحاب نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لیے لیا تھا اس پر یہ آیت اتری ( ابن جریر ) پھر خائن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور سخت عذاب کی خبر دی جاتی ہے ۔ احادیث میں بھی اس کی بابت کچھ سخت وعید ہے چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ شخص ہے جو پڑوسی کے کھیت کی زمین یا اس کے گھر کی زمیں دبا لے اگر ایک ہاتھ زمین بھی ناحق اپنی طرف کر لے گا تو ساتوں زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا مسند کی ایک اور حدیث میں ہے جسے ہم حاکم بنائے اگر اس کا گھر نہ ہو تو وہ گھر بنا سکتا ہے ، بیوی نہ ہو تو کر سکتا ہے ، اس کے سوا اگر کچھ اور لے گا تو خائن ہو گا ، یہ حدیث ابو داؤد میں بھی دیگر الفاظ سے منقول ہے ، ابن جریر کی حدیث میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تم میں سے اس شخص کو پہچانتا ہوں جو چلاتی ہوئی بکری کو اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اور میرا نام لے لے کر مجھے پکارے گا میں کہدوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس تجھے کام نہیں آسکتا میں تو پہنچا چکا تھا اسے بھی میں پہچانتا ہوں جو اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا جو بول رہا ہو گا یہ بھی کہے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں تیرے لئے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تو تبلیغ کر چکا تھا اور میں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کو لادے ہوئے آئے گا جو ہنہنا رہا ہو گا وہ بھی مجھے پکارے گا اور میں کہدوں گا کہ میں تو پہنچا چکا تھا آج کچھ کام نہیں آسکتا اور اس شخص کو بھی میں پہچانتا ہوں جو کھالیں لئے ہوئے حاضر ہو گا اور کہہ رہا ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں اللہ کے پاس کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا میں تجھے حق و باطل بتا چکا تھا ، یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا جسے ابن البتیہہ کہتے تھے یہ جب زکوٰۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ ہمارے تحفے کا یہ اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم میں سے جو کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے لے گا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اونٹ ہے تو چلا رہا ہو گا ۔ گائے ہے تو بول رہی ہو گی بکری ہے تو چیخ رہی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور تین مرتبہ فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ مسند احمد کی ایک ضعیف حدیث میں ہے ایسے تحصیلداروں اور حاکموں کو جو تحفے ملیں وہ خیانت ہیں یہ روایت صرف مسند احمد میں ضعیف ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اگلی مطول روایت کا ماحاصل ہے ، ترمذی میں ہے حضرت معاذ بن جبل میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن میں بھیجا جب میں چل دیا تو آپ نے مجھے بلوایا جب میں واپس آیا تو فرمایا میں نے تمہیں صرف ایک بات کہنے کے لئے بلوایا ہے کہ میری اجازت کے بغیر تم جو کچھ لو گے وہ خیانت ہے اور ہر خائن اپنی خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے گا بس یہی کہنا تھا جاؤ اپنے کام میں لگو ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز کھڑے ہو کر خیانت کا ذکر کیا اور اس کے بڑے بڑے گناہ اور وبال بیان فرما کر ہمیں ڈرایا پھر جانوروں کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد رسی کی عرض کرنے اور آپ کے انکار کر دینے کا ذکر کیا جو پہلے بیان ہو چکا ہے اس میں سونے چاندی کا ذکر بھی ہے ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ، مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگ جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا ، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری حضرت سعید بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں ، فرمایا کیوں؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا ، آپ نے فرمایا ہاں اب بھی سنو ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہئے کہ تھوڑا بہت سب کچھ لائے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے ، یہ حدیث مسلم اور ابو داؤد میں بھی ہے حضرت رافع فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریباً مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے تف ہے تجھے میں سمجھا آپ مجھے فرما رہے ہیں چنانچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے اسے میں نے قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا اس نے ایک چادر لے لی وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے ۔ ( مسند احمد ) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لیتے پھر فرماتے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جو تم میں سے کسی ایک کا ، خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیامت کے دن ہو گی سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو ، وطن میں بھی اور سفر میں بھی جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مشکلات سے اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے ، اللہ کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے کی ملامت تمہیں نہ روکے ( مسند احمد ) اس حدیث کا بعض حصہ ابن ماجہ میں بھی مروی ہے ، حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا اے ابو مسعود جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہو ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو میں نہیں جاتا آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں ( ابو داؤد ) ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی پتھر جہنم میں ڈالا جائے تو ستر سال تک چلتا رہے لیکن تہہ کو نہیں پہنچتا خیانت کی چیز کو اسی طرح جہنم میں پھینک دیا جائے گا ، پھر خیانت والے سے کہا جائے گا جا اسے لے آ ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے آیت ( ومن یغلل یات بما غل یوم القیامتہ ) مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام آنے لگے اور کہنے لگے فاں شہید ہے فلاں شہید ہے جب ایک شخص کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے غنیمت کے مال کی ایک چادر خیانت کر لی تھی پھر آپ نے فرمایا اے عمر بن خطاب تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے چنانچہ میں چلا اور سب میں یہ ندا کر دی ، یہ حدیث مسلم اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ، ابن جریر میں ہے کہ ایک دن حضرت عمر نے حضرت عبداللہ بن انیس سے صدقات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ کہ آپ نے صدقات میں خیانت کرنے والے کی نسبت فرمایا اس میں جو شخص اونٹ یا بکری لے لے وہ قیامت والے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا ہاں یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے ، ابن جریر میں حضرت سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ انہیں صدقات وصول کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجنا چاہا اور فرمایا اے سعد ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تو بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لائے تو حضرت سعد کہنے لگے کہ نہ میں اس عہدہ کو لوں اور نہ ایسا ہونے کا احتمال رہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کام سے انہیں معاف رکھا ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت مسلم بن عبدالملک کے ساتھ روم کی جنگ میں حضرت سالم بن عبداللہ بھی تھے ایک شخص کے اسباب میں کچھ خیانت کا مال بھی نکلا سردار لشکر نے حضرت سالم سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھ سے میرے باپ عبداللہ نے اور ان سے ان کی باپ عمر بن خطاب نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے اسباب میں تم چوری کا مال پاؤ اسے جلا دو ، راوی کہتا ہے میرا خیال ہے یہ بھی فرمایا اور اسے سزا دو ، چنانچہ جب اس کا مال بازار میں نکالا تو اس میں ایک قرآن شریف بھی تھا حضرت سالم سے پھر اس کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو ، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ، امام علی بن مدینی اور امام بخاری وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے ، امام دارقطنی فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت سالم کا اپنا فتویٰ ہے ، حضرت امام احمد اور ان کے ساتھیوں کا قول بھی یہی ہے ، حضرت حسن بھی یہی کہتے ہیں حضرت علی فرماتے ہیں اس کا اسباب جلا دیا جائے اور اسے مملوک کی حد سے کم مارا جائے اور اس کا حصہ نہ دیا جائے ، ابو حنیفہ مالک شافعی اور جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے یہ کہتے ہیں اس کا اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کے مثل اسے تعزیر یعنی سزا دی جائے ، امام بخاری فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خائن کے جنازے کی نماز سے انکار کر دیا اور اس کا اسباب نہیں جلایا ، واللہ اعلم ، مسند احمد میں ہے کہ قرآن شریفوں کے جب تغیر کا حکم کیا گیا تو حضرت ابن مسعود فرمانے لگے تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اسے چھپا کر رکھ لے کیونکہ جو شخص جس چپز کو چھپا کر رکھ لے گا اسی کو لے کر قیامت کے روز آئے گا ، پھر فرمانے لگے میں نے ستر دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی پڑھا ہے پس کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑھائی ہوئی قرأت کو چھوڑ دوں؟ امام وکیع بھی اپنی تفسیر میں اسے لائے ہیں ، ابو داؤد میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب مال غنیمت آتا تو آپ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیتے ایک مرتبہ ایک شخص اس کے بعد بالوں کا ایک گچھا لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس یہ رہ گیا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے حضرت بلال کی منادی سنی تھی؟ جو تین مرتبہ ہوئی تھی اس نے کہا ہاں فرمایا پھر تو اس وقت کیوں نہ لایا ؟ اس نے عذر بیان کیا آپ نے فرمایا اب میں ہرگز نہ لوں گا تو ہی اسے لے کر قیامت کے دن آنا ۔ اللہ دو عالم پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شرع پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے مستحق ہونے والے اس کے ثوابوں کو حاصل کرنے والے اس کے عذابوں سے بچنے والے اور وہ لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور جو مر کر جہنم میں ٹھکانا پائیں گے کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ اللہ کی باتوں کو حق ماننے والا اور اس سے اندھا رہنے والا برابر نہیں ، اسی طرح فرمان ہے کہ جن سے اللہ کا اچھا وعدہ ہو چکا ہے اور جو اسے پانے والا ہے وہ اور دنیا کا نفع حاصل کرنے والا برابر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بھلائی اور برائی والے مختلف درجوں پر ہیں ، وہ جنت کے درجوں میں ہیں اور یہ جہنم کے طبقوں میں جیسا کہ دوسری جگہ ہے آیت ( وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ) 6 ۔ الانعام:32 ) ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے مطابق درجات ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے اور عنقریب ان سب کو پورا بدلہ دے گا نہ نیکی ماری جائے گی اور نہ بدی بڑھائی جائے گی بلکہ عمل کے مطابق ہی جزا سزا ہو گی ۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہی کی جنس سے ان میں اپنا پیغمبر بھیجا تاکہ یہ اس سے بات چیت کر سکیں پوچھ گچھ کر سکیں ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں اور پوری طرح نفع حاصل کر سکیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ) 30 ۔ الروم:21 ) یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے اس نے پیدا کئے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۭ وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ) 41 ۔ فصلت:6 ) کہدے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے ، اور فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ) 25 ۔ الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو وحی کی تھی جو بستیوں کے رہنے والے تھے اور ارشاد ہے آیت ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ) 6 ۔ الانعام:130 ) یعنی اے جنو اور انسانو کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے؟ الغرض یہ پورا احسان ہے کہ مخلوق کی طرف انہی میں سے رسول بھیجے گئے تاکہ وہ پاس بیٹھ اٹھ کر بار بار سوال جواب کر کے پوری طرح دین سیکھ لیں ، پس اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں یعنی قرآن کریم انہیں پڑھاتا ہے اور اچھی باتوں کا حکم دے کر اور برائیوں سے روک کر ان کی جانوں کی پاکیزگی کرتا ہے اور شرک و جاہلیت کی ناپاکی کے اثرات سے زائل کرتا ہے اور انہیں کتاب اور سنت سکھاتا ہے ۔ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے تو یہ صاف بھٹکے ہوئے تھے ظاہر برائی اور پوری جہالت میں تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

159۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالیٰ اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی دعوت و تبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر یہ نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور بھاگتے۔ اس لئے آپ درگزر سے ہی کام لیتے رہئیے۔ 159۔ 2 یعنی مسلمانوں کی طیب خاطر کے لئے مشورہ کرلیا کریں۔ اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت و مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ مشاورت کا یہ حکم بعض کے نزدیک وجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے (ابن کثیر) امام شوکانی لکھتے ہیں ' حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علماء سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ یا ان کے بارے میں انہیں اشکال ہیں۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربرآوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام و والیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات و ترجیحات کے سلسلے میں مشورہ کریں "۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ایسے حکمران کے وجوب عزل پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو اہل علم و اہل دین سے مشورہ نہیں کرتا "۔ یہ مشورہ صرف ان معاملات تک محدود ہوگا جن کی بابت شریعت خاموش ہے یا جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ (فتح القدیر) 159۔ 3 یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہوجائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزریئے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران کا ہی ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد و توکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل و فہم پر۔ اگلی آیت میں بھی توکل علی اللہ کی مذید تاکید ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٣] مسلمانوں کو یہ ہدایات دینے کے بعد پھر سے غزوہ احد کے حالات اور نتائج کا ذکر شروع ہوا ہے۔ اللہ کے رسول کی نافرمانی کے نتیجہ میں مسلمانوں کو جو سزا ملی وہ عبرت ناک تھی اور اس واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نافرمانی کرنے والوں پر شدید گرفت فرماتے یا کم از کم ان سے خفا ہی ہوجاتے۔ لیکن یہ بھی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ مومنوں کے حق میں بہت نرم دل تھے۔ ورنہ اگر آپ سخت دل ہوتے یا کم از کم اسی نافرمانی پر شدید گرفت فرماتے تو پھر مسلمان آپ کے قریب آنے سے ہی گریز کرنے لگتے۔ اللہ تعالیٰ نے خود ان نافرمانی کرنے والوں کو اور راہ فرار اختیار کرنے والوں کو معاف کر ہی دیا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کو ہدایت فرما دی کہ آپ بھی ان سے درگزر کیجئے اور نہ صرف درگزر فرمائیے بلکہ ان کے لیے مجھ سے بخشش بھی طلب کیجئے اور جیسے غزوہ احد سے پیشتر ان سے مشورہ کرتے اور مجلس مشاورت میں شریک کیا کرتے تھے۔ اسی طرح آئندہ بھی کیا کیجئے۔ یعنی اپنے دل میں ان کے لیے کسی قسم کا رنج نہ رہنے دیجئے۔ [١٥٤] مشورہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملہ کے سارے پہلو کھل کر سامنے آجائیں اور ہر شریک مشورہ شخص کو کھل کر اپنی رائے دینے کا موقع مل سکے۔ مشورہ صرف ان امور میں کیا جاسکتا ہے جن میں کتاب و سنت میں صریح حکم موجود نہ ہو اور جہاں صریح حکم موجود ہو وہاں مشورہ کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ عموماً تدبیری امور میں کیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً جنگ کہاں لڑی جائے ؟۔ اس کا طریقہ کار کیا ہو ؟۔ قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے ؟ لوگوں کی معاشی اور اخلاقی بہبود کے لیے کیا طریقے استعمال کئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ مشورہ میں صرف یہ دیکھا جائے کہ کون سی رائے اقرب الی الحق ہے۔ یعنی کتاب و سنت کی منشا کے مطابق ہو۔ یہ رائے خواہ تھوڑے آدمیوں کی ہو یا زیادہ آدمیوں کی۔ گویا مشورہ کا اصل مقصد دلیل کی تلاش ہے۔ رائے دینے والوں کی کثرت یا قلت تعداد اس پر اثر انداز نہیں ہوتی اور کسی رائے کو اقرب الی الحق قرار دینے کا اختیار میر مجلس مشاورت کو ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے اور اسی فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے ارادہ کا نام عزم ہے یعنی عزم کے بعد اللہ کا نام لے کر اور اس پر بھروسہ کرکے وہ کام شروع کردینا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ : یہاں جار مجرور ” بِرَحْمَۃٍ “ پہلے آنے سے ہی تاکید پیدا ہوگئی تھی، پھر ” مَا “ لا کر ” فَبِمَا رَحْمَةٍ “ میں تاکید مزید ہوگئی۔ ’ رَحْمَةٍ “ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی رحمت “ کیا ہے۔ 2 وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ ) احد کے دن مسلمانوں نے خوف ناک غلطی کی اور میدان چھوڑ کر فرار اختیار کیا، پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے دوبارہ جمع ہوئے تو آپ نے ان کو کسی قسم کی سرزنش نہیں کی، بلکہ حسن اخلاق سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” آپ کا یہ حسن خلق اور طبیعت کی نرمی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و احسان اور رحمت کا نتیجہ ہے، ورنہ مسلمانوں کا جمع ہونا ممکن نہ تھا۔ (قرطبی) معلوم ہوا دعوت دین کے لیے نرمی اور حسن اخلاق نہایت ضروری چیزیں ہیں، بدخلقی، درشتی اور سخت دلی سے لوگ کبھی قریب نہیں آسکتے۔ 3 فَاعْفُ عَنْھُمْ ۔۔ : یعنی جنگ میں ان سے جو غلطیاں ہوئیں وہ انھیں معاف کردیں، اللہ سے بھی ان کے لیے استغفار کریں اور مشورے سے محروم نہ کریں بلکہ برابر مشورہ کرتے رہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل مسلمانوں سے خفا ہوا ہوگا اور چاہا ہوگا کہ اب ان سے مشورہ نہ پوچھیے، سو حق تعالیٰ نے تلقین فرمائی کہ اول مشورہ کرلینا بہتر ہے، جب ایک بات طے ہوجائے پھر پس و پیش نہ کرے۔ “ (موضح) اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب کبھی جنگ یا انتظامی قسم کا کوئی ایسا معاملہ در پیش ہو، جس میں ہماری طرف سے بذریعہ وحی کوئی متعین حکم نہ دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کرو، تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور انھیں بعد میں باہمی مشورہ سے مل کر کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہو۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکثر اہم امور میں صحابہ کرام (رض) سے مشورے فرمائے اور ان پر عمل بھی ہوا۔ (دیکھیے ابن کثیر زیر بحث آیت) اس کے بعد خلفائے راشدین بھی اس سنت پر پوری طرح کار بند رہے۔ پھر اگر مشورے کے بعد کسی چیز کا فیصلہ کرلیا جائے تو اسے پوری دل جمعی سے کر گزرنے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ چناچہ مذکور ہے کہ جنگ احد کے موقع پر کھلے میدان میں لڑائی کرنے کے فیصلے کے بعد جب آپ مسلح ہو کر تشریف لے آئے اور صحابہ کرام (رض) نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آپ کی رائے کے مطابق شہر ہی میں رہ کر مقابلہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَنْبَغِیْ لِنَبِیٍّ إِذَا لَبِسَ سَلاَحَہٗ اَنْ یَضَعَہَا حَتّٰی یُقَاتِلَ ) ” کسی نبی کے لائق نہیں کہ جب اپنا اسلحہ نہیں لے کر لڑنے سے پہلے اسے اتار دے۔ “ (قرطبی، تفسیر ثعالبی) یہ آیت اور آیت : ( وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ۠ ) [ الشوریٰ : ٣٨ ] اسلامی طرز حکومت کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں صحابہ کرام (رض) سے بہت سے معاملات میں مشورہ کرتے تھے۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں : ”(جنگ بدر کے موقع پر) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ابو سفیان کے آنے کی خبر ملی تو آپ نے مشورہ کیا۔ ابوبکر و عمر (رض) نے بات کی تو آپ نے ان سے اعراض کیا۔ سعد بن عبادہ (رض) نے کھڑے ہو کر کہا : ” شاید آپ ہم ( انصار) سے پوچھنا چاہتے ہیں، اے اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپ حکم دیں کہ گھوڑوں کو برک الغماد (مدینہ سے بہت دور ایک جگہ) تک لے جائیں تو ہم ضرور لے جائیں گے۔ “ [ مسلم، الجہاد والسیر، باب غزوۃ بدر : ١٧٧٩ ] امام بخاری (رض) فرماتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفاء برابر دیانت دار اہل علم سے مشورہ لیتے رہے۔ “ ( قرطبی) آج کل بہت سے لوگ مشورے اور ووٹ کو ایک چیز سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو اسلامی شوریٰ قرار دیتے ہیں حالانکہ موجودہ جمہوریت اور اسلامی شوریٰ الگ الگ چیزیں ہیں، بلکہ جمہوریت ایک مستقل دین ہے۔ اس میں : 1 ہر اہل اور نااہل کا ووٹ برابر ہے۔ 2 اس میں عوام کی اکثریت فیصلہ کن ہے، فیصلوں میں انہی کو اللہ اور رسول کا مقام حاصل ہے، خواہ وہ سود کو حلال کردیں، یا زنا اور قوم لوط کے عمل کو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی کوئی شرط نہیں، اگر کہیں ہے بھی تو دھوکا دینے کے لیے۔ 3 اس میں فیصلہ اکثریت کے نمائندوں کی اکثریت کا ہوتا ہے، صدر اس فیصلے کا پابند ہے، خواہ اسے غلط سمجھتا ہو یا صحیح۔ 4 ان کے ہاں مشورے کا معنی اکثریت ہے۔ جب کہ اسلام میں 1 امیر مشورہ لینے کا پابند ہے، مگر صرف ان امور میں جو قرآن و سنت میں مذکور نہ ہوں، بلکہ تدبیری اور انتظامی قسم کے ہوں۔ 2 امیر مشورہ ان لوگوں سے لے گا جو اس معاملے میں رائے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ امام شوکانی (رض) لکھتے ہیں : ” حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انھیں علم نہیں ہے، یا ان کے بارے میں انھیں اشکال ہے، فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربرآوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام و والیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات و ترجیحات کے متعلق مشورہ کریں۔ “ 3 مشورے کے بعد آخری فیصلہ امیر کا ہوگا، فرمایا : ( فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ) [ آل عمران : ١٥٩ ] اگر وہ مناسب سمجھے تو اکثریت کے فیصلے پر عمل کرے اور اگر کم لوگوں میں زیادہ اہلیت والے لوگ ہونے کی وجہ سے ان کی رائے کو بہتر سمجھے تو اس پر فیصلہ کرے، کیونکہ فیصلوں کے نتائج کا آخری ذمہ دار امیر ہوگا، اکثریت نہیں اور وہ بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے فیصلے پر عمل کرے گا، نہ کہ مشورہ دینے والوں کی یا اپنی عقل و فہم پر۔ اگلی آیت میں پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تاکید ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Even though, the mistake made by Muslims and the abandonment of the battle front by them had caused grief to the Holy Prophet, he did not reproach them for this because of his high morals and his natural way of forgiving and forgetting. He did not even deal with them sternly as may have been in order. But, Allah Almighty willed to see that the Companions (رض) of His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are comforted and the sense of shock and shame they had for their mistake is washed away. So, in this verse, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is being asked to deal with them more gently and affectionately and consult with them in matters of concern. Commentary: The traits of a patron The Companions (رض) of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) loved him far beyond the concerns of their own lives and belongings. When they made a mistake acting against his express instructions, there were two dangers. Firstly, it could further increase their sense of shock and affect their normal emotional-rational response. They could even lose hope of mercy, especially when they realized what mistake they had made and how disobedient they had been to the command of their leader. This danger was already eliminated in the previous verse where &We awarded you sorrow for sorrow& means that the return of this mistake has already been given right here in this mortal world and the account in the Hereafter lies clean. Secondly, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was hurt as a result of this mistake, physically. The spiritual discomfort was already there. It was likely that these two factors may contribute to making the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) unhappy with his Companions which, in turn, may become a hindrance in his mission to teach and train them. In order to counter this likelihood, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked to forgo their mistake, forgive their shortcoming from the depth of his heart and deal with them gently and affectionately in the future as well. The subject has been taken up with unusual delicacy of style in the Holy Qur&an which, as a corollary, covers some important points of guidance. 1. The diction used to convey the related command to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is eloquently suggestive of his personal praise, as well as that of his unique human majesty, that is, he has these attrib¬utes in him already built in. 2. The addition of فَبِمَا رَ‌حْمَة (So, it was through mercy from Allah) before the statement is there to affirm that the presence of such attrib¬utes of perfection in his person is but through Divine mercy. This is no personal perfection in its own right. Then, by placing the word, رَ‌حْمَة &rahmah& (mercy) in an indefinite form, hint has been made towards the great and extensive spread of Allah&s mercy which, in turn, makes it very obvious that this mercy is not restricted to the noble Compan-ions only, but extends in full to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself for Allah has made him identified with such perfect attributes. 3. The third point made here establishes that the presence of the qualities of gentle manners, good morals, forgiveness and generosity in him serve a purpose. Had these been not there in him, the mission of educating human beings with which he is charged would have never been accomplished as desired. Rather than seek to correct and raise the level of their morals in his company, people would have run away from him. The Etiquette of دعوہ Da&wah: By combining elements cited above, there emerges a set of distinct qualities necessary for preaching, no matter what form it takes. Anyone who embarks on the mission of inviting people to Allah, explaining His guidance and calling people towards the right conduct in their best interest, must first inculcate these qualities in him. The reason is obvious. When a possible &rough& or &hard-hearted& approach, even if it happens to come from the very dear Messenger of Allah Almighty, has not been considered fit, who else can dare to gather people created by Allah around him with hostility and negative morals and still hope to seek a change in their behaviour. In this verse, Allah Almighty has said: &Had you been rough and hard-hearted, they would have dispersed from around you.& This indicates that harshness, in conduct or language, is sheer poison for a da&wah worker or a leader conveying Allah&s message to people. This is a sure way to undo what one intends to achieve. Then, the verse says: &So, pardon them&. This indicates that a da&wah worker or reformer of people should never punish them for their mistakes. Instead, he should forgive and forgo. It is important that he does not get excited or angry when his listeners speak ill of him. The truth is that he should rise higher and treat his tormentors with compassion and leniency. Soon, after that, the verse says: &And seek forgiveness for them&. This seeking of forgiveness for them from Allah Almighty points out to an unusual rule of behaviour. Not only that he should remain patient in what is painful, the Messenger is being asked not to forget seeking their good with utmost sincerity. The best that can be wished for them is their salvation in the life-to-come, the good that waits for them in Akhirah. So, the Messenger is being asked to pray for their forgiveness in order that Allah spares them from His punishment. Finally, it has been said: وَشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ :&And consult them in the matter& which means that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is to seek their advice in matters of concern so that they are fully satisfied and emotionally at peace, as the Messenger of Allah, by following this instruction, will be giving an external form to his intention of doing what is good for them. Thus, the act of his asking them to sit in consul¬tations with him will become an act of mollifying grace. After having asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to consult with his Companions (رض) ، the verse concludes with the instruction on final decision-making. As regards consultation, the Holy Qur&an has given clear injunctions at two places. The first one appears right here in the verse under commentation while the second one appears in a verse of Surah al-Shura (42:38) where one of the qualities of true Muslims has been identified وَأَمْرُ‌هُمْ شُورَ‌ىٰ بَيْنَهُمْ , & (Every matter of theirs is settled by mutual consultation). There are places where the instruction to consult appears secondarily, for instance, under injunctions relating to suck-ling in Sarah al-Baqarah (2:233) where it is said: عَن تَرَ‌اضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ‌ (Now, if they want to wean, by mutual consent, and consultation, there is no sin on them). The matter of consultation involves some important problems and rulings, therefore, it needs to be explained in some detail which follows. 1. The Meaning of أَمْر : Matter and شُورَ‌ى: Consultation. The word اَمَر amr is applied for several shades of meaning in the Arabic language. In common usage, it refers to any saying or doing which is of great importance. It is also used to mean an injunction, order, command, rule or authority, the last one being what is meant in the Qur&anic expression اُولی المر & (uli l&amr). Then, the word is also applied to mean a particular attribute of Allah Almighty which finds mention in several verses of the Holy Qur&an, such as: أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ (Beware, for Him alone is the creation and the command - 7:54); إِلَيْهِ يُرْ‌جَعُ الْأَمْرُ‌ كُلُّهُ (To Him the whole matter shall be returned - 11:123), إِنَّ الْأَمْرَ‌ كُلَّهُ لِلَّـهِ (The whole thing belongs to Allah - 3:154); أَمْرُ‌هُ إِلَى اللَّـهِ (His matter is upto Allah - 2:275) and according to authentic scholars, the use of the word, amr, in قُلِ الرُّ‌وحُ مِنْ أَمْرِ‌ رَ‌بِّي (Say: The spirit is by a command of my Lord& ) (17:85) carries the same meaning as identified in the verses appearing immediately above. As far as the meaning of the word امر amr, in the Qur&anic verses: وشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ (And consult them in the matter -3:159) and وَأَمْرُ‌هُمْ شُورَ‌ىٰ بَيْنَهُمْ (And a matter of theirs is (settled) by a consultation between themselves -42:38) is concerned, it can be said that there is the possibility to assign both the first as well as the second. If it is said that the word has been used here in the first sense while the second meaning is inclusive therein, that would not be something far-fetched since affairs relating to command and authority are all very important. Therefore, the word, امر amr as used in the verses quoted immediately above means every matter or affair which is particularly important irrespective of whether it belongs to the area of authority or mutual dealings. The Arabic words, شُورَ‌ىٰ shura (counsel), مشورہ mashwarah (consultation) and مشاورت Mushawarat (mutual consultation) mean the soliciting of advice and counsel in something that needs deliberation. Therefore, the expres¬sion وشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ in the present verse means that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been commanded here to consult with or seek the advice of his noble Companions in matters that need deliberation, which include those of authority and government. Similarly, the verse from Surah a1-Shura cited above - - means that in every important matter (which) needs deliberation, whether it belongs to the field of authority and government or to some-thing important other than these, the customary practice of true Muslims is that they work through mutual consultation. 2. The Status of Consultation in Islamic Law From the statements of the Holy Qur&an cited above and from related ahadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it becomes clear that mutual consultation in a matter likely to have more than one opinion, whether it be related to the concerns of authority or to an issue other than that, is a sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the noble Companions (رض) and is a source of blessings in the mortal world and in the eternal life of the Hereafter. This view has the support of the Holy Qur&an and the Hadith. As far as matters which relate to people, such as the affairs of authority and government, are concerned seeking consultation in them is obligatory. (Ibn Kathir) In his Shu` bul-&Iman, al-Baihaqi (رح) has reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: &A person who intends to do something, then goes in consultation and comes up with a decision to do or not to do that, he gets from Allah Almighty guidance towards an option which is correct and beneficial.& It appears in ahadith: &When your rulers are from the best among you and your rich people are generous and your affairs are decided through mutual consultation, then, to live on the surface of the earth is better for you. And should your rulers be the worst among you and your rich people be close-fisted and your affairs be entrusted to women, then, to be buried under the earth shall be better than your continuing to live.& It means that, when the worship of desires overpowers you, so much so that you, ignoring all concerns of the good and the bad, the harmful and the beneficial, simply to seek the goodwill of a woman, entrust your affairs in her hands, then, for you, death is better than living through those times. Otherwise, seeking the opinion of a woman as well while making consultations is no taboo, and certainly not prohibited. This is proved by the consistent practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his blessed Companions (رض) . In the verse from Sarah al-Baqarah (2:233) cited a little earlier, the Holy Qur&an has said: &Now, if they want to wean, by mutual consent, and consultation, there is no sin on them.& Since this matter here concerns the woman, there-fore, consultation with the woman has been specially made binding on the man. In a hadith, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has been reported to have said: المستشار مؤتمن اذا استشیرفلیشرہ بما ھو صانع لنفسہ :&The person whose counsel is sought is a trustee. When he counsels, then, he must counsel with what he would propose to his ownself (to do otherwise is a breach of trust) &. This hadith has been reported with good authority from Sayy¬idna ` Ali (رض) by al-Tabarani in al-Mu&jam al-Awsat (see a1-Mazhari). At this point, it is necessary to bear in mind that consultation is an act of Sunnah only in situations where some clear and categorical injunction from the Qur&an or Hadith does not exist. Otherwise, in the presence of a clear and categorical injunction of the Shari&ah, no consultation with anybody is needed. This is not permissible either. For example, if somebody went about consulting in - &should I make my salah or should I not?& &Should I pay my zakah or should I not?& or &Should I perform my Hajj or should I not?& - then, this would be absurd. These are not things you consult about. They are absolutely mandatory under the Shari&ah of Islam. However, the option of making consultation about how to go for Hajj is open and one can seek advice on questions like - should he go this year, or next; should he go by sea, or by air; should he go by land, or by some other method. The same holds true about zakah. One can consult about where and on whom it has to be spent, for the Shari’ ah has left these on the choice of the payer. In a hadith, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has been reported to have explained this himself. Sayyidna ` Ali رضی اللہ تعالیٰ عنہ says that he asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : &If, after you, we are confronted by a situation the injunction for which has not been explicitly revealed in the Qur&an, and about which we have heard nothing from you as well, what are we supposed to do?& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &For a matter like this, get together from among you pious men who are consistently devoted to the worship of their Lord and who have deep and extensive understanding of the Faith (fuqaha& ) and decide the matter following their mutual counsel. Do not decide on the basis of someone&s solitary opinion.& The first, out of the two things that we learn from this hadith is that consultation is not restricted to worldly affairs. Instead, the fact is that mutual consultation in situations where clear نصوص nu’ sus (plural of نص nass meaning textual authority) from the Qur&an and Hadith in matters governed by the injunctions of Shari’ ah do not exist is an act of Sunnah. We can say that mutual consultation will be an act of Sunnah if made in situations where textual authority from the Qur&an and Sunnah is not available. The second rule we learn is that advice should be taken from people who are known for their understanding of the& Faith and devotion to their obligations to Allah (Ruh al-Ma` ani) Al Khatib al-Baghdadi, to whom the deduction given above is credited, has reported another hadith from Sayyidna Abu Hurairah (رض) which says: استرشدوا العاقل ولا تعصوہ فتندموا (Seek counsel from the wise person and do not act against it, otherwise you will regret.). By putting the above two ahadith together, we learn that two quali¬ties are necessary for the members of the consultative council. Firstly, they should be wise, perceptive and advice-worthy, and secondly, they should be pious and devoted to ` ibadah. In other words, they should be deserving of giving advice and should be God-fearing in their conduct. If the matter to be discussed involves problems relating to Islamic Law, it is incumbent that they be faqih (juriconsult: expert in Islamic Law and Jurisprudence) as well. Consultation of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with his Companions The verse under discussion here orders the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to consult his Companions (رض) . This raises a certain difficulty here. Isn’ t it that he is the Messenger of Allah and the blessed recipient of revelation? Why, then, should he need to consult anyone? Since, every-thing can come to his knowledge through the medium of revelation from Allah Almighty, some scholars interpret this command to consult by saying that the Messenger of Allah was neither in need to be coun¬selled, nor anything he did depended on such counsel. The command to consult given to him is simply to honour the blessed Companions and mollify their broken hearts. But, Imam Abu Bakr al-Jassas (رح) does not agree with this view. According to him this is not correct, for being involved in consultation - while knowing that one&s counsel will not be acted upon, nor would it affect any proceedings of the agenda - will make the whole thing ineffectual. If so, no heart will be mollified and no honour will be sustained. Instead, the truth of the matter is that a course of action to be taken by the Messenger of Allah is identified through revelation directly by Allah Almighty. This holds good in all general matters. But, there are certain matters which, under the dictates of the wisdom and mercy of Allah Almighty, are left to the opinion and discretion of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It is in such matters alone where consultation is needed, and these are the kind of matters in which he has been commanded to seek consultation. The history of the consultative sittings of the Messenger of Allah confirms this view. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) consulted with the Compan¬ions (رض) about the battle of Badr, they said that should he ask them to jump into a river, they would do just that; and if he commanded them to march to a far out place such as Bark al-Ghamad, they will be with him; and they would never act like the companions of Musa (علیہ السلام) who said: فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَ‌بُّكَ فَقَاتِلَا &Go, you and your Lord, and fight the disbelievers& - 5:24; on the contrary, we shall fondly submit: &You lead the way, we shall fight the enemy with you, in front of you and in the rear and the right and the left.& Similarly, he consulted them about the battle of Uhud asking them if they should defend Madinah by staying inside the city limits or should they go out of the city limits and confront the enemy in the open. The general opinion of the Companions was that they should do the latter and this was what he accepted to do. In the battle of خندق Khandaq, the question of accepting peace under the terms of a partic¬ular treaty came up for discussion. Sayyidna Sa&d ibn Mu’ adh and Sa&d ibn ` Ubadah (رض) opposed the proposed treaty on the grounds that it was inappropriate. It was the opinion of these two Companions that he finally accepted. When he went into consultations on a matter pertaining to Hudaybiyah, the opinion of Sayyidna Abu Bakr (رض) was the basis of his final decision. The Companions were also consulted following the incident of Ifk (false imputation against Sayyidah ` A&ishah (رض) but this and all other matters pointed out were those in which no particular position to be taken by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was determined through revelation. To sum up, being a prophet, a messenger and a recipient of revela¬tion is not a bar against consultation. Moreover, in the case of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) it cannot be said that his seeking of counsel from the Companions was ever designed to please them artificially, or that it was virtually ineffectual in the conduct of affairs. On the contrary, the truth is that there were many occasions when he accepted the opinion of those present during consultation even if it happened to be against his own. In fact, in some situations where a particular line of action had not been determined for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through reve¬lation, and in its absence he had worked through consultation, there is great divine wisdom. The objective is that the practice of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم comes to be established for all future generations of Muslims. Thus, the seeking of consultation as a Sunnah shall become binding on the whole ummah of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Imagine when he himself has not been left free of the need of consulta¬tion who else can claim to be free of such need? For this reason, the method of mutual consultation always continued to be operative during the blessed times of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Companions (رض) particularly in matters where there was no clear injunction in the Qur&an and Sunnah. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) passed away from this mortal world, the noble Companions continued following his practice. Still later, mutual consultation was resorted to as the modality to deduce rulings of Islamic Law in matters where clear injunction was not found in the Qur&an and Sunnah. This was actually the method taught by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in answer to a question put by Sayyidna Ali (رض) . 4. The Status of Consultation in an Islamic State: As stated earlier, the Holy Qur&an has given clear instructions about مشورہ mashwarah or consultation at two places. One appears right here in the verse under study; the other one comes up in verse 42:38 of Sarah al-Shura where one of the many qualities of true Muslims has been mentioned وَأَمْرُ‌هُمْ شُورَ‌ىٰ which means that their affairs are settled by mutual consultation. At both these places the word, امر amr (matter) has been mentioned along with مشورہ mashwarah (consultation). Discussed in detail earlier, the word, امر amr, signifies any important saying or doing, while at the same time, it is applied to injunction, rule or authority or government. No matter which of the two meanings is taken, consultation in the affairs of the government emerges as invari¬ably necessary, based on these verses. If one elects to take this to mean the affairs of the government, then, the necessity is all the more obvious. In case, the word is taken in its general sense, the affairs of a government being important and far-reaching in effect, would still be considered as affairs in which consultation will be inevitable. There-fore, it is one of the duties of the Muslim امر Amir, the chief executive of the community, that he should seek the counsel of those responsible for the affairs of the government in matters that are important. The verses of the Qur&an quoted above and the consistent practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and of the rightly-guided Caliphs is a clear proof of this requirement. These two verses not only highlight the need for consultation very clearly, they also point out to some basic principles of Islam&s system of government, and its constitution. The Islamic government is a govern¬ment by consultation in which the امر amir or chief executive is chosen , by consultation and definitely not as a matter of family inheritance. It is a بر کہ barakah of Islamic teachings that this principle is recognized all over the world, in one or the other form, so much so that hereditary monar¬chies too are moving towards this arrangement, willingly or unwill¬ingly. But, let us go back 1400 years in history when the super-powers were Cyrus and Ceaser. The common factor between them was that they both headed hereditary empires and the authority of government was vested in their own persons. Thus, one man ruled millions, not on the basis of ability or capacity, but on the strength of the cruel prin¬ciple of hereditary possession of sovereignty. This form of government, an insult to all human beings, was the way all over the world except Greece where the early teachings of a democratic order of life had yet to translate into principles that would go on to establish a stable government. Instead of that, these ideas relegated into a branch of Aristotelian philosophy. As opposed to this, Islam demolished the unnatural principle of government through heredity and gave the choice of appointing and dismissing the chief executive to the people - a power they could use through their representatives shouldering the responsibilities of the affairs of the state. The world, once stuck in the quagmire of traditional monarchy, came to know about this natural and just system through Islamic teachings and this happens to be the spirit of a system of government we now know as democracy. But, modern democracies, since they appeared as a reaction to cruel monarchies, came out with an equal lack of moderation. They went on to give the masses the sense of being the absolute, the ulti¬mate entity, an unbridled sovereign of the system of government and the law of state, to the extent that their minds and hearts became alienated from the very concept of God, the Creator of the earth and the heavens and of all human beings, not to say much about the concept of His real Sovereignty and Rule, which comes as a result of that cardinal belief. Now the situation has reached a stage where their &democracy& has started taking the restrictions imposed by Allah Almighty on public choice - which in itself was conferred on human beings by Him - as something of a burden, contrary to justice and equity (of their brand). The way Islamic Law liberated the whole world from Cyruses, Ceasers and other despotic monarchies, it has also shown the way of God to western democracies trying to hide from Him behind secular curtains. Islam&s way is no more a secret. Its teachings clearly say that the rulers and the ruled, the governments and their peoples are all subject to the Law given by Allah Almighty. The masses, their repre¬sentative assemblies, law-making, appointment and removal of office-holders must operate within the parameters set by Allah Almighty. It is their duty to see that full consideration is given to ability and merit, in the choice of the chief executive, holders of offices and responsible positions. In addition to that, their honesty and trustworthiness should be weighed and tested. When it comes to selecting the chief executive of their government, they must select the one who is the best of all in knowledge, fear of Allah, honesty, trustworthiness, ability and political experience. Even this chief executive, elected though he may be, is not totally free, unchecked and despotic. He has to seek counsel from those who are capable of giving such counsel. The Holy Qur&an bears witness to this and so does the constant practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and of the great rightly-guided Caliphs, may Allah be pleased with them all. Who, else can claim to be more just than them? Sayyidna ` Umar (رض) has said: لا خلافہ الا عن مشورہ There is no Khilafah (Caliphate) unless it be with consulta tion. (Kanzul-&ummal vide Ibn Abi Shaybah) Government by consultation is a basic Islamic requirement so much so that a chief executive .or head of the state, if he ever unfetters himself from the need for consultation or takes counsel from those who are not fit to give counsel from the point of view of the Shari&ah of Islam, has to be removed of necessity. ذکر ابن عطیۃ ان الشوری من قواعد الشریعۃ و عزامٔ الاحکام ومن لا یستشیر الاھل العلم والذین فعزلہ واجب، ھذا مالا خلاف لہ (البر المحیط لابی حیان) It appears in al-Bahr al-Muhit of Abi Hayyan: Ibn ` Atiyyah (رح) said that Consultation is one of the basic principles of Islamic Law and Faith. He who does not consult with those who know must be removed as a matter of obligation. This is what nobody differs about. By making consultation mandatory, the blessings that would benefit the Islamic state and its citizens could be measured by what the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said about consultation. Ibn &Adi and al Baihaqi have reported from Sayyidna ibn ` Abbas (رض) that when this verse was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Allah and His Messenger do not need this consultation, but Allah Almighty has certainly made it a source of mercy for my community& (Bayan al-Qur&an). The purport is, if Allah Almighty had so willed, He would have conveyed everything to His Messenger through revelation. It was within His power not to leave any need for consultation in anything. But, it was in the best interest of the Muslim community that Allah Almighty helped establish the practice of consultation through His Messenger. This is why many matters were left without any mention and about which no particular revelation was sent down. About these, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم was instructed to seek consultation. 5. Consultation: Decision-Making after a difference of opinion: What happens when opinions differ on a certain matter? Would it be decided on the contemporary parliamentary principle? Would the chief executive be compelled to enforce the decision of the majority? Or, would he have the right to take a course of action on the basis of powerful arguments and obvious welfare of the state, coming from any side, no matter whether in a majority or a minority? From the Holy Qur&an and Hadith and from the constant practice of the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Companions, it cannot be proved that the امیر amir of Muslims, their head of the state is helplessly bound-by the decision of the majority. On the contrary, some hints from the Qur&an and clarifica¬tions from the Hadith and the practice of the Companions make it very evident that the امیر Amir can, in the event of a difference of opinion, use his discretion and go by any of the several courses of action, irrespec¬tive of the fact that it comes from the majority or the minority. There is no doubt that the امیر Amir will do his best to look into other opinions as well to satisfy himself fully, but should the majority come to agree, on one opinion, this could, at times, become a source of satisfaction to him. A close look at this verse would show that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، after he has been commanded to seek counsel, is being told: فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـه ...and once you have taken a decision, place your trust in Allah&. Here, the word عظم ، ` azm in عظمتَ |"azamta& meaning a firm decision, one way or the other, has been ascribed to the Holy Prophet . The text does not say عظمتم ، ` azamtum, a second person plural, which would have suggested the participation of the Companions in the final making and enforcing of the decision. This hint proves that, once the process of consultation has been completed, the decision and its enforcement is the valid prerogative of the chief executive. There were times when Sayyidna ` Umar ibn al-Khattab (رض) would give his decision based on the opinion of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) ، if his opinion was weightier argument-wise, something done even when present there would be Companions more senior than Sayyidna ibn ` Abbas (رض) in age, learning and seniority. There were many occasions when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has preferred the opinions of the revered شیخین Shaykhayn Abu-Bakr and ` Umar رضی اللہ تعالیٰ عنہما ، against the majority of other Companions to the limit that people thought this verse was revealed for consultation with these two only. Hakim reports from Sayyidna ibn ` Abbas in his Mustadrak: عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ (وشاورھم فی الامر) قال ابوبکر و عمر (رض) Ibn ` Abbas says, that the pronoun in وشاورھم &shawirhum& (consult them) refers to Abu Bakr and ` Umar (رض) (Ibn Kathir) The narration of Kalbi is clearer than this: عن ابن عباس قال نزلت فی ابی بکر و عمر و کانا حواریی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و وزیریہ و ابوی المسلمین Ibn ` Abbas says that this verse has been revealed for consulting with Abu Bakr and ` Umar. These two were special Companions of the Messenger of Allah and his Ministers and the patrons of Muslims. (Ibn Kathir) The Messenger of Allah, may Allah&s blessings and peace be upon him, had once addressed Sayyidna Abu Bakr and ` Umar (رض) in the following words: لو اجتمعتما فی مشورۃ ما خلفتکما When you agree on an opinion, I do not decide against you. (Ibn Kathir with reference to the Musnad of Ahmad) A doubt and its answer: It is not likely that someone objects to this procedure of decision-making saying that all this is against democracy, a model of one-man rule and that this system might hurt the rights of the masses. The answer is that the Islamic system of government has already taken care of this problem, for it has not given the masses the absolute right to make anyone they wish the امیر amir of an Islamic state. On the contrary, the mandate given to them requires that they must select a person they think is the best of all in knowledge, conduct, functional ability, Godliness and honesty, and then elect him to be the امیر amir. Now a person who has been elected in view of such elegant qualities and attributes should certainly not be subjected to restrictions usually placed on the dishonest, the sinful and the debauch. Doing this would be against reason and justice, an act of discouragement to the genuine servant of people and a hindrance in the promotion of community-oriented action. 6. Do what you can, then place your trust in Allah: At this point, especially at the conclusion of the verse, it is very important to bear in mind that this instruction has been given after having prescribed consultation in all important affairs including those of government. The crucial guideline given here is: Even after having made all preparations, when you finally decide to go ahead and do what has to be done, then that is the time when you do not simply (place your) trust in your reason, opinion, plans or preparedness but, instead of that, you should place your trust in Allah alone, for all these considered plans are in the direct control of the supreme Planner of all affairs and matters. With this in view, the less is said about human beings and their plans is better. Man himself is witness to the futility of his plans in the thousands of events in his life-time. The statement, &And once you have taken a decision, place your trust in Allah& also clarifies that placing one&s trust in Allah does not mean that the efforts to provide means and make plans should be abandoned. The fact is that placing one&s trust in Allah while leaving off means near at hand is contrary to the blessed practice of prophets, and against the teachings of the Holy Qur&an. However, if one sits idle dreaming about distant means and irrelevant concerns, or if one relies solely on means and plans as effective agents and ignores the Prime Causer of means and the Planner-par-Excellence of all affairs and plans, then this would certainly be against توکل tawakkul, the placing of trust in Allah.

ربط آیات : غزوہ احد میں بعض مسلمانوں کی لغزش اور میدان چھوڑنے سے جو صدمہ اور غم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچا تھا، اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے طبعی اخلاق اور عادات عفو و کرم کی بنا پر ان کو اس پر کوئی ملامت نہیں کی اور کوئی معاملہ سختی کا بھی نہیں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول کے ساتھیوں کی دلجوئی اور ان کے دلوں میں اس غلطی پر جو صدمہ اور اپنے قصور پر جو ندامت تھی ان سب کو دھو دینا منظور ہوا تو اس آیت میں آپ کو مزید لطف و کرم کی ہدایت اور صحابہ کرام سے معاملات میں مشورہ لینے کا حکم دیا۔ خلاصہ تفسیر بعد اس کے (کہ صحابہ کرام سے ایسی لغزش ہوئی جس پر آپ کو ملامت اور مواخذہ کرنے کا حق تھا) خدا ہی کی رحمت کے سبب (جو کہ آپ پر ہے) آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ (خدانخواستہ) تند خو سخت مزاج ہوتے تو یہ (بیچارے) آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے (پھر ان کو یہ فیوض برکات کہاں نصیب ہوتے) سو (جب آپ نے برتاؤ میں ایسی نرمی فرمائی تو ان سے جو غلطی آپ کی تعمیل حکم میں ہوگئی ہے اس کو دل سے بھی ان کو معاف کر دیجئے (اور ان سے جو غلطی اللہ تعالیٰ کے حکم میں کوتاہی سے ہوئی اس کے لئے) آپ ان کے لئے استغفار کیجئے (اگرچہ اللہ تعالیٰ نے خود انکی معافی اور مغفرت کا اعلان پہلے ہی فرما دیا تھا مگر آپ کا ان کے لئے دعا مغفرت کرنا مزید ان کے لئے مفید اور موجب تسلی ہوگا) اور ان سے خاص خاص باتوں میں (بدستور) مشورہ لیتے رہا کیجئے (تاکہ اس خصوصی لطف سے ان کے دلوں سے غم دھل جائے) پھر (مشورہ لینے کے بعد) جب آپ (کسی ایک جانب) رائے پختہ کرلیں (خواہ وہ ان کے مشورہ کے موافق ہو یا مخالف) تو اللہ تعالیٰ پر اعتماد (کر کے اس کام کو کر ڈالا) کریں بیشک اللہ تعالیٰ ایسے اعتماد کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ معارف و مسائل مرشد و مربی کی خاص صفات :۔ صحابہ کرام جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عشاق اور اپنی جان و مال سے زیادہ آپ کو عزیز رکھنے والے تھے، ان سے جب آپ کے حکم کے خلاف ایک لغزش صادر ہوگئی تو یہاں اسی کی طرف تو یہ خطرہ تھا کہ ان حضرات کو جب اپنی لغزش اور خلاف ورزی حکم پر تنبیہ ہو تو ان کا صدمہ حد سے بڑھ جائے، جو ان کے قلب و دماغ کو معطل کر دے۔ یا رحمت سے مایوس بنا دے، اس کا علاج تو پچھلی آیت میں بتلا دیا گیا کہ فاثا بکم غما علم اس لغزش کی سزا دنیا میں دی جا چکی ہے آخرت کا کھاتہ بیباق ہوگیا۔ دوسری طرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غلطی اور لغزش کے نتیجہ میں زخمی ہوئے، جس سے جسمانی تکلیف بھی پہونچی، اور روحانی تکلیف تو پہلے ہی سے تھی، تو اس جسمانی و روحانی تکلیف سے یہ احتمال تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک میں صحابہ کرام کی طرف سے تکدر پیدا ہوجائے جو ان کی ہدایت و تلقین میں مخل ہوجائے، اس کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ یہ تعلیم دینا تھی کہ آپ ان کی خطا سے درگذر فرمائیں، ان کی لغزش دل سے معاف کردیں، اور آئندہ کے لئے بھی لطف و مہربانی کا معاملہ جاری رکھیں۔ اس مضمون کو حق تعالیٰ نے ایک عجیب و غریب اسلوب بیان کے ساتھ ارشاد فرمایا، جس میں ضمنی طور پر چند اہم فوائد بھی آگئے۔ ایک یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان چیزوں کا حکم ایسے انداز سے دیا گیا ہے جس میں آپ کی ثناء و تعریف اور عظمت شان کا اظہار بھی ہے کہ یہ صفات آپ کے اندر پہلے سے موجود ہیں اور دوسرے اس سے پہلے فبما رحمة کا لفظ بڑھا کر یہ بھی بتلا دیا کہ ان صفات کمال کا آپ کے اندر ہونا یہ ہماری رحمت سے ہے، کسی کا ذاتی کمال نہیں پھر لفظ رحمت کو بصورت نکرہ لا کر رحمت کے عظیم اور وسیع ہونے کی طرف اشارہ کر کے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ رحمت صرف صحابہ کرام پر ہی نہیں، بلکہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ہے کہ آپ کو ان صفات کمال کے ساتھ متصف فرما دیا۔ اس کے بعد ایک تیسرا اہم فائدہ بعد کے جملوں سے ظاہر فرما دیا کہ یہ نرم خوئی، خوش اخلاقی، عفو و درگزر اور لطف و مہربانی کی صفات اگر آپ کے اندر نہ ہوتیں تو اصلاح خلائق کا جو کام آپ کے سپرد ہے وہ حسب منشاء انجام نہ پاتا، لوگوں کے ذریعہ اپنی اصلاح اور تزکیہ اخلاق کا فائدہ حاصل کرنے کے بجائے آپ سے بھاگ جاتے۔ اور اس سب مجموعہ سے ایک اور اہم فائدہ یہ حاصل ہوا کہ ارشاد اصلاح اور تبلیغ کے آداب اس سے معلوم ہوگئے کہ جو شخص رشد و ہدایت اور دعوت الی اللہ اور اصلاح خلق کے کام کا ارادہ کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ صفات اپنے اندر پیدا کر ے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول کی سختی برداشت نہیں ہو سکتی تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ تشدد اور کج خلقی کے ساتھ خلق اللہ کو اپنے گرد جمع کرسکے اور ان کی اصلاح کا فرض انجام دے سکے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آپ تند خو، سخت طبیعت ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے، اس سے معلوم ہوا کہ مرشد و مبلغ کے لئے تند خوئی سخت کلامی، زہر اور اس کے کام کو ضائع کرنے والی چیز ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا فاعف عنھم یعنی ان سے جو خطا ہوگئی ہے اس کو آپ معاف فرما دیں، اس سے معلوم ہوا کہ مصلح کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کی خطاؤں کا انتقام نہ لے۔ بلکہ عفو و درگزر سے کام لے، برا کہنے والوں پر مشتعل نہ ہو، ایذا دینے والوں سے نرمی کا معاملہ کرے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا واستغفرلھم، یعنی آپ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی مغفرت طلب کریں، جس میں یہ ہدایات ہے کہ صرف یہی نہیں کہ خود ان کی ایذاؤں پر صبر کریں۔ بلکہ دل سے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑیں اور چونکہ سب سے بڑی خیر خواہی ان کی آخرت کی درستی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے عذب اسے بچانے کے لئے بخشش کی دعا مانگیں۔ اس کے بعد ارشاد ہے وشاورھم فی الامر یعنی حسب سابق اپنے فیصلوں اور کاموں میں ان حضرات سے مشوہ بھی لیا کریں تاکہ ان کی پوری تسلی ہوجائے، اس میں اس کی طرف ہدایت فرمائی کہ جو خیر خواہی کا داعیہ ان کے لئے قلب میں ہے عمل سے بھی اس کا اظہار کریں کہ اپنی مشاورت سے ان کو مشرف فرماویں۔ اس پوری آیت میں مصلح و مبلغ کے لئے چند صفات کا ہونا ضروری قرار دیا گیا، اول سخت کلامی اور کج خلقی سے بچنا، دوسرے ان لوگوں سے کوئی غلطی یا ان کے متعلق ایذاء کی کوئی چیز صادر ہوجائے تو انتقام کے در پے نہ ہونا بلکہ عفو و در گزر کا معاملہ کرنا، تیسرے یہ کہ ان کی خطاؤں اور لغزشوں کی وجہ سے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑنا، ان کے لئے دعا، و استغفار بھی کرتے رہنا اور ظاہری معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ چھوڑا، مذکورہ آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا حکم اور پھر مشورہ کے بعد طریق عمل کی ہدایت کی گئی ہے، مشورہ کے بارے میں قرآن کریم نے دو جگہ صریح حکم دیا ہے، ایک یہی آیت مذکورہ دوسرے سورة شوری کی آیت جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وامرھم شوری بینھم ص (٢٤: ٨٣) ” یعنی اور ان کا ہر کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔ “ اور بعض جگہ ضمنی طور پر مشورہ کی ہدایت فرمائی ہے جیسے رضاعت کے احکام میں ارشاد فرمایا : عن تراض منھما وتشاور (٢: ٣٣٢) یعنی بچے کا دودھ چھڑانا ماں اور باپ دونوں کی رضامندی اور مشورہ سے ہونا چاہئے، مشورہ سے متعلق چند اہم مسائل قابل غور ہیں۔ پہلا مسئلہ، لفظ امر اور مشورہ کے معنی، دوسرا مسئلہ، مشورہ کی شرعی حیثیت، تیسرا مسئلہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا درجہ، چوتھا مسئلہ، حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ، پانچواں مسئلہ، مشورہ میں اختلاف رائے ہو تو فیصلہ کی صورت، چھٹا مسئلہ، ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعال یر توکل۔ پہلا مسئلہ لفظ امر اور شوری کی تحقیق :۔ لفظ امر کا اطلاق عربی زبان میں کئی معنی کے لئے ہوتا ہے، ایک عام معنی میں آتا ہے، جو ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو شامل ہے، دوسرا اطلاق بمعنی حکم اور حکومت ہے، جس پر قرآن کریم میں لفظ اولی الامر محمول ہے، تیسرا اطلاق حق تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کے لئے ہے، جس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے مثلاً الا لہ الخلق والامر (٧: ٤٥) الیہ یرجع الامرکلة (١١: ٣٢١) ان الامرکلہ للہ (٣: ٤٥١) امرہ الی اللہ (٢: ٥٧٢) اور محققین کے نزدیک قل الروح میں امر ربی (٧١: ٥٨) میں بھی یہی امر مراد ہے، اب قرآن کے ارشاد وشاورھم فی الامر (٣: ٩٥١) اور وامرھم شوری بینھم (٢٤: ٨٣) میں دونوں معنی کا احتمال ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پہلے ہی معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی بھی اس میں شامل ہیں تو یہ بھی کچھ بعید نہیں، کیونکہ حکم اور حکومت کے معاملات سبھی خاص اہمیت رکھتے ہیں، اس لئے امر کے معنے ان آیات میں ہر اس کام کے ہیں جو خاص اہمیت رکھتا ہو، خواہ حکومت سے متعلق ہو خواہ معاملات سے، اور لفظ شوریٰ ، مشورہ، مشاورت کے معنی ہیں کسی قابل غور معاملہ میں لوگوں کی رائے حاصل کرنا، اس لئے وشاورھم فی الامر کے معنی یہ ہوئے کہ : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ قابل غور معاملات میں جن میں حکومت کے متعلقہ معاملات بھی شامل ہیں، صحابہ کرام سے مشورہ لیا کریں، یعنی ان حضرات کی رائے معلوم کیا کریں۔ اسی طرح سورة شوری کی آیت ٨٣ وامرھم شوری بینھم کے معنی یہ ہوئے کہ ہر قابل غور معاملہ میں جس میں کوئی اہیمت ہو، خواہ حکم و حکومت سے متعلق ہو یا دوسرے معاملات سے، ان میں سچے مسلمانوں کی عادت مستمرہ یہ ہے کہ باہم مشوہ سے کام کیا کرتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ مشورہ کی شرعی حیثیت :۔ اس بارے میں قرآن کریم کے ارشادات مذکورہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں رائیں مختلف ہو سکتی ہیں خواہ وہ حکم و حکومت سے متعلق ہو یا کسی دوسرے معاملہ سے باہمی مشورہ لینا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعث برکات ہے، قرآن و حدیث میں اس کی تائید آتی ہے اور جن معاملات کا تعلق عوام سے ہے جیسے معاملات حکومت ان میں مشورہ لینا واجب ہے (ابن کثیر) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عبداللہ عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی کام کا ارداہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو صحیح اور مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہوا کریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لئے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں، اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم پر خواہش پرستی غالب آجائے کہ بھلے برے اور نافع و مضر سے قطع نظر کر کے محض عورت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے معاملات اس کے سپرد کردو تو اس وقت کی زندگی سے تمہارے لئے موت بہتر ہے، ورنہ مشورہ میں کسی عورت کی بھی رائے لینا کوئی ممنوع نہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے تعامل سے ثابت ہے اور قرآن کریم میں سورة بقرہ کی آیت ٣٣٢ جو ابھی بیان کی گئی ہے اس میں ارشاد ہے عن تراض منھما وتشاور یعنی بچہ کا دودھ چھڑانا باپ اور ماں کے باہمی مشورہ سے ہونا چاہئے، اس میں چونکہ معاملہ عورت سے متعلق ہے، اس لئے خاص طور سے عورت کے مشورہ کا پابند کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ :” یعنی جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے اس پر لازم ہے کہ اس معاملہ میں جو کام وہ خود اپنے لئے تجویز کرتا ہے وہی رائے دوسرے کو دے اس کے خلاف کرنا خیانت ہے۔ “ یہ حدیث طبرانی نے معجم اوسط میں بسند حسن حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے (مظہری) البتہ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مشورہ صرف انہی چیزوں میں مسنون ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث کا کوئی واضح قطعی حکم موجود نہ ہو، ورنہ جہاں کوئی قطعی اور واضح حکم شرعی موجود ہو اس میں کسی سے مشورہ کی ضرورت نہیں بلکہ جائز بھی نہیں، مثلاً کوئی شخص اس میں مشورہ کرے کہ نما پڑھے یا نہیں، زکوة دے یا نہیں حج کرے یا نہیں، یہ مشورہ کی چیزیں نہیں، شرعی طور پر فرض قطعی ہیں، البتہ اس میں مشورہ کیا جاسکتا ہے کہ حج کو اس سال جائے یا آئندہ اور پانی کے جہاز سے جائے یا ہوائی جہاز سے اور خشکی کے راستہ سے جائے یا دوسرے طریق سے۔ اسی طرح زکوة کے معاملہ میں یہ مشورہ لیا جاسکتا ہے کہ اس کو کہاں اور کن لوگوں پر خرچ کیا جائے کیونکہ یہ سب امور شرعاً اختیاری ہیں۔ ایک حدیث میں خود اس کی تشریح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم صراحتا قرآن میں نازل نہیں ہوا اور آپ سے بھی اس کے متعلق کوئی ارشاد ہم نے نہ سنا ہو تو ہم کیا کریں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ایسے کام کے لئے اپنے لوگوں میں سے عبادت گذار فقہاء کو جمع کرو اور ان کے مشورہ سے اس کا فیصلہ کرو، کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔ اس حدیث شریف سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ مشورہ صرف دنیوی معاملات میں نہیں بلکہ جن احکام شرعیہ میں قرآن و حدیث کی صریح نصوص نہ ہوں ان احکام میں بھی باہمی مشورہ مسنون ہے اور دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشورہ ایسے لوگوں سے لینا چاہئے جو موجودہ لوگوں میں تفقہ اور عبادت گذاری میں معروف ہوں (اخرجہ الخطیب کذا فی الروح) نیز خطیب بغدادی نے حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے۔ ” یعنی عقلمند آدمی سے مشورہ لو اور اس کے خلاف نہ کرو ورنہ ندامت اٹھانی ہوگی۔ “ ان دنوں حدیثوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ مجلس شوریٰ کے ارکان میں دو وصف ضروری ہیں ایک صاحب عقل و رائے ہونا، دوسرے عبادت گذار ہونا، جس کا حاصل ہے ذی رائے اور متقی ہونا اور اگر مسئلہ شرعی ہے تو فقیہ ہونا بھی لازم ہے۔ تیسرا مسئلہ : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا درجہ :۔ آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ صحابہ کرام سے مشورہ لیں، اس میں یہ اشکال ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول اور صاحب وحی ہیں، آپ کو کسی سے مشورہ کی کیا حاجت ہے آپ کو ہر چیز حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی معلوم ہو سکتی ہے اس نے بعض علماء نے اس حکم مشورہ کو اس پر محمول کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ مشورہ کی ضرورت تھی نہ اس مشورہ پر آپ کے کسی کام کا مدار تھا، صرف صحابہ کرام کے اعزاز اور دل جوئی کے لئے مشورہ کا حکم آپ کو دیا گیا ہے لیکن امام ابوبکر حصاص نے فرمایا کہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ معلوم ہو کہ ہمارے مشورہ پر کوئی عمل نہیں ہوگا اور نہ مشورہ کا کسی کام پر کوئی اثر ہے تو پھر اس مشورہ پر کوئی دل جوئی اور اعزاز بھی نہیں رہتا، بلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام امور میں تو براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ایک طریق کار متعین کردیا جاتا ہے، مگر بمقضائے حکمت و رحمت بعض امور کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے اور صوابدید پر چھوڑدیا جاتا ہے، ایسے ہی امور میں مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی قسم کے امور میں مشورہ لینے کا آپ کو حکم دیا گیا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجالس مشاورت کی تاریخ بھی یہی بتلاتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے لئے صحابہ کرام سے مشورہ لیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگر آپ ہمیں دریا میں کود پڑنے کا حکم دیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر آپ ہمیں برک الغماد جیسے دور دراز مقام کی طرف چلنے کا ارشاد فرمائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب کفار سے مقابلہ کریں، بلکہ ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ آپ سے آگے اور پیچھے اور دائیں بائیں دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اسی طرح غزوہ احد میں اس بارے میں مشورہ کیا کہ کیا مدینہ شہر کے اندر رہ کر مدافعت کریں یا شہر سے باہر نکل کر، عام طور سے صحابہ کرام کی رائے باہر نکلنے کی ہوئی، تو آپ نے اسی کو قبول فرمایا، غزوہ خندق میں ایک خاص معاہدہ پر صلح کرنے کا معاملہ پیش آیا، تو سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے اس معاہدہ کو مناسب نہ سمجھ کر اختلاف کیا، آپ نے انہی دونوں کی رائے قبول فرمائیں، حدیبیہ کے ایک معاملہ میں مشورہ لیا تو صدیق اکبر کی رائے پر فیصلہ فرما دیا۔ قصہ افک میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا، یہ سب معاملات وہ تھے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بذریعہ وحی کوئی خاص جانب متعین نہیں کی گئی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبوت و رسالت اور صاحب وحی ہونا کچھ مشورہ کے منافی نہیں اور یہ بھی نہیں کہ یہ مشوہ محض نمائشی دل جوئی کے لئے ہو، اس کا اثر معاملات پر نہ ہو بلکہ بہت مرتبہ مشورہ دینے والوں کی رائے کو آپ نے اپنی رائے کے خلاف بھی قبول فرما لیا، بلکہ بعض امور میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بذریعہ وحی کوئی خاص صورت متعین نہ فرمانے اور مشورہ لے کر کام کرنے میں حکمت و مصلحت یہ بھی ہے کہ آئندہ امت کے لئے ایک سنت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے جاری ہوجائے کہ جب آپ کو بھی مشورہ سے استثناء نہیں تو پھر ایسا کون ہے جو استغناء کا دعویٰ کرسکے، اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام میں ایسے مسائل میں مشاورت کا طریق ہمیشہ جاری رہا، جن میں کوئی نص شرعی نہ تھی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام کا بھی یہی معمول رہا، بلکہ بعد میں تو ایسے احکام شرعیہ کی دریافت کے لئے بھی مشورہ کا معمول رہا جن میں قرآن و حدیث کا کوئی صریح فیصلہ نہ تھا، کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوال کو جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی طریق کار بتلایا تھا۔ چوتھا مسئلہ :۔ حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ کیا ہے : جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نے دو جگہ مشورے کا صریح حکم دیا ہے، ایک یہی آیت مذکورہ اور دوسرے سورة شوری کی آیت جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے وامرھم شوری بینھم (٢٤: ٨٣) یعنی اور ان کا کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے ان دونوں جگہ پر مشورہ کے ساتھ لفظ امر مذکور ہے، اور لفظ امر کی مفصل تحقیق اوپر بیان ہوچکی ہے کہ ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو بھی کہا جاتا ہے اور حکم اور حکومت کے لئے بھی بولا جاتا ہے، امر کے خواہ معنی اول مراد لیں یا دوسرے معنی، حکمت کے معاملات میں مشورہ لینا بہرصورت ان آیات سے ضروری معلوم ہوتا ہے حکم یا حکومت مراد لینے کی صورت میں تو ظاہر ہی ہے اور اگر معنی عام لئے جائیں جب بھی حکم اور حکومت کے معاملات مہتمم بالشان ہونے کی حیثیت سے قابل مشورہ ٹھہریں گے، اس لئے امیر اسلام کے فرائض میں سے ہے کہ حکومت کے اہم معاملات میں اہل حل و عقد سے مشورہ لیا کرے، قرآن کی آیات مذکورہ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کا مسلسل تعامل اس کی روشن سند ہے۔ ان دونوں آیتوں میں جس طرح معاملات حکومت میں مشورہ کی ضرورت واضح ہوئی اسی طرح ان سے اسلام کے طرز حکومت اور آئین کے کچھ بنیادی اصول بھی سامنے آگئے کہ اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت ہے، جس میں امیر کا انتخاب مشورہ سے ہوتا ہے، خاندانی وراثت سے نہیں، آج تو اسلامی تعلیمات کی برکت سے پوری دنیا میں اس اصول کا لوہا مانا جا چکا ہے۔ شخصی بادشاہتیں بھی طوعاً و کرباً اسی طرف آ رہی ہیں، لیکن اب سے چودہ سو برس پہلے زمانہ کی طرف مڑ کر دیکھئے جبکہ پوری دنیا پر آج کے تین بڑوں کی جگہ دو بڑوں کی حکومت تھی، ایک کسری دوسرا قیصر اور ان دونوں کے آئین حکومت شخصی اور وراثتی بادشاہت ہونے میں مشترک تھے، جس میں ایک شخص واحد لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی قابلیت و صلاحیت سے نہیں، بلکہ وراثت کے ظالمانہ اصولوں کی بناء پر حکومت کرتا تھا اور انسانوں کو پالتو جانوروں کا درجہ دینا بھی بادشاہی انعام سمجھا جاتا تھا، یہی نظریہ حکومت دنیا کے بیشتر حصہ پر مسلط تھا، صرف یونان میں جمہوریت کے چند دھندلے اور ناتمام نقوش پائے جاتے تھے، لیکن وہ بھی اتنے ناقص اور مدھم تھے کہ ان پر کسی مملکت کی بنیاد رکھنا مشکل تھا، اسی وجہ سے جمہوریت کے ان یونانی اصولوں پر کبھی کوئی مستحکم حکومت نہیں بن سکی، بلکہ وہ اصول ارسطو کے فلسفہ کی ایک شاخ بن کر رہ گئے۔ اس کے برخلاف اسلام نے حکومت میں وراثت کا غیر فطری اصول باطل کر کے امیر مملکت کا عزل و نصب جمہور کے اختیار میں دیدیا، جس کو وہ اپنے نمائندوں اہل حل و عقد کے ذریعہ استعمال کرسکیں، بادشاہ پرستی کی دلدل میں پھنسی ہوئی دنیا اسلامی تعلیمات ہی کے ذریعہ اس عادلانہ اور فطری نظام سے آشنا ہوئی اور یہی روح ہے اسی طرز حکومت کی جس کو آج جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ طرز کی جمہوریتیں چونکہ بادشاہی ظلم و ستم کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئیں تو وہ بھی اس بداعتدالی کے ساتھ آئیں کہ عوام کو مطلقا العنان بنا کر پورے آئین حکومت اور قانون مملکت کا ایسا آزاد مالک بنایا کہ ان کے قلب و دماغ زمین و آسمان اور تمام انسانوں کے پیدا کرنے والے خدا اور اس کی اصل ملکیت و حکومت کے تصور سے بھی بیگانہ ہوگئے، اب ان کی جمہوریت اللہ تعالیٰ ہی کے بخشے ہوئے عوامی اختیار پر اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ پابندیوں کو بھی بار خاطر خلاف انصاف تصور کرنے لگیں۔ اسلامی آئین نے جس طرح خلق خدا کو کسری و قیصر اور دوسری شخصی بادشاہتوں کے جبر و استبداد کے پنجہ سے نجات دلائی، اسی طرح ناخدا آشنا مغربی جمہوریتوں کو بھی خدا شناسی، اور خدا پرستی کا راستہ دکھلایا اور بتلایا کہ ملک کے حکام ہوں یا عوام اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے قانون کے سب پابند ہیں، ان کے عوام اور عوامی اسمبلی کے اختیارات، قانون سازی، عزل و نصب اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہیں، ان پر لازم ہے کہ امیر کے انتخاب میں اور پھر عہدوں اور منصوبوں کی تقسیم میں ایک طرف قابلیت اور صلاحیت کی پوری رعایت کریں تو دوسری طرف ان کی دیانت و امانت کو پرکھیں، اپنا امیر ایسے شخص کو منتخب کریں جو علم، تقوی، دیانت، امانت، صلاحیت اور سیاسی تجربہ میں سب سے بہتر ہو، پھر یہ امیر منتخب بھی آزاد اور مطلق العنان نہیں، بلکہ اہل الرائے سے مشورہ لینے کا پابند رہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کا تعامل اس پر شاہد عدل ہیں، حضرت عمر کا ارشاد ہے۔ ” یعنی شورائیت کے بغیر خلافت نہیں ہے۔ “ (کنزالعمال بحوالہ ابن ابی شیبة) شورائیت اور مشورہ کو اسلامی حکومت کے لئے اساسی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے حتیٰ کہ اگر امیر مملکت مشورہ سے آزاد ہوجائے یا ایسے لوگوں سے مشورہ لے جو شرعی نقطہ نظر سے مشورہ کے اہل نہ ہوں تو اس کا عزل کرنا ضروری ہے۔ ” ابن عطیہ نے فرمایا کہ شورائیت شریعت کے قواعد اور بنیادی اصولوں میں سے ہے جو امیر اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہ لے، اس کا عزل کرنا واجب ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ “ مشورہ کے ضروری ہونے سے اسلامی حکومت اور اس کے باشندوں پر جو ثمرات اور برکات حاصل ہوں گے، اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشورہ کو رحمت سے تعبیر فرمایا، ابن عدی اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس مشورہ کی حاجت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو امیری امت کے لئے ایک رحمت بنایا ہے (بیان القرآن) مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنے رسول کو ہر کام بذریعہ وحی بتلا دیتا، کسی کام میں بھی مشورہ کی ضرورت نہ چھوڑتا، لیکن امت کی مصلحت اس میں تھی کہ آپ کے ذریعے مشورہ کی سنت جاری کرائی جائے، اس لئے بہت سے امور ایسے چھوڑ دیئے جن میں صراحتا کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، ان میں آپ کو مشورہ لینے کی ہدایت فرمائی گئی۔ پانچواں مسئلہ : مشورہ میں اختلاف رائے ہوجائے، تو فیصلہ کی کیا صورت ہوگی ؟:۔ مشورہ میں اگر اختلاف رائے ہوجائے تو کیا آج کل کے پارلیمانی اصول پر اکثریت کا فیصلہ نافذ کرنے پر امیر مجبور ہوگا، یا اس کو اختیار ہوگا کہ اکثریت ہو یا اقلیت جس طرف دلائل کی قوت اور مملکت کی مصلحت زیادہ نظر آئے اس کو اختیار کرے ؟ قرآن و حدیث اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے تعامل سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اکثریت رائے کے فیصلہ کا پابند و مجبور ہے، بلکہ قرآن کریم کے بعض اشارات اور حدیث اور تعامل صحابہ کی تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اپنی صوابدید کے مطابق کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتا ہے، خواہ اکثریت کے مطابق ہو یا اقلیت کے، البتہ امیر اپنا اطمینان حاصل کرنے کے لئے جس طرح دوسرے دلائل پر نظر کرے گا اسی طرح اکثریت کا ایک چیز پر متفق ہونا بھی بعض اوقات اس کے لئے سبب اطمینان بن سکتا ہے۔ آیت مذکورہ میں غور فرمایئے، اس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا ہے فاذا عزمت فتوکل علے اللہ، یعنی مشورہ کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے کر کے عزم کرلیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کیجئے، اس میں عزمت کے لفظ میں عزم یعنی نفاذ حکم کا پختہ ارادہ صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کیا گیا۔ عزمتم نہیں فرمایا جس سے عزم و تنفیذ میں صحابہ کی شرکت معلوم ہوتی، اس کے اشارہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ لینے کے بعد نفاذ اور عزم صرف امیر کا معتبرہ ے، حضرت عمر بن الخطاب بعض وقت دلائل کے لحاظ سے اگر عبداللہ بن عباس کی رائے زیادہ مضبوط ہوتی تھی تو ان کی رائے پر فیصلہ نافذ فرماتے تھے، حالانکہ مجلس میں اکثر ایسے صحابہ موجود ہوتے تھے، جو ابن عباس سے عمر اور علم اور تعداد میں زیادہ ہوتے تھے، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت مرتبہ حضرات شیخین صدق اکبر اور فاروق اعظم کی رائے کو جمہور صحابہ کے مقابلہ میں ترجیح دی ہے، حتی کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ آیت مذکورہ صرف ان دونوں حضرات سے مشورہ لینے کے لئے نازل ہوئی۔ حاکم نے مستدرک میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت کیا ہے : ” ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شاورھم کی ضمیر سے مراد حضرات شیخین ہیں۔ “” ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر و عمر سے مشورہ لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ دونوں حضرات جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاص صحابی اور وزیر تھے، اور مسلمانوں کے مربی تھے۔ “ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ حضرات شیخین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ” جب تم دونوں کسی رائے پر متفق ہوجاؤ تو میں تم دونوں کے خلاف نہیں کرتا۔ ایک اشکال اور اس کا جواب :۔ یہاں یہ اشکال کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو جمہوریت کے منافی ہے، اور شخصی حکومت کا طرز ہے اور اس سے جمہور کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جواب یہ ہے کہ اسلامی آئین نے اس کی رعایت پہلے کرلی ہے، کیونکہ عوام کو یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ جس کو چاہیں امیر بنادیں بلکہ ان پر لازمی قرار دیا ہے کہ علم و عمل اور صلاحیت کار اور خدا ترسی اور دیانت کی رو سے جس شخص کو سب سے بہتر سمجھیں صرف اس کو امیر منتخب کریں تو جس شخص کو ان اعلی اوصاف اور اعلی صفات کے تحت منتخب کیا گیا ہو، اس پر ایسی پابندیاں عائد کرنا جو بد دیانت اور فساق، فجار پر عائد کی جاتی ہیں، عقول انصاف کا خون کرنا اور کام کرنے والوں کی ہمت شکنی اور ملک و ملت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ چھٹا مسئلہ :۔ ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا : اس جگہ یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ نظام حکومت اور دوسرے اہم امور میں تدبیر اور مشورہ کے احکام کے بعد یہ ہدایت دی گئی ہے کہ سب تدبیریں کرنے کے بعد بھی جب کام کرنے کا عزم کرو تو اپنی عقل و رائے اور تدبیروں پر بھروسہ نہ کرو بلکہ بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر کرو، کیونکہ یہ سب تدبیر مدبر الامور کے قبضہ قدرت میں ہیں، انسان کیا اور اس کی رائے و تدبیر کیا، ہر انسان اپنی عمر کو ہزاروں واقعات میں ان چیزوں کی رسوائی کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے۔ خویش رادیدیم و رسوائی خویش امتحان مامکن اے شاہ بیش اس جملہ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ توکل ترک اسباب اور ترک تدبیر کا نام نہیں بلکہ اسباب قریبہ کو چھوڑ کر توکل کرنا سنت انبیاء اور تعلیم قرآن کے خلاف ہے، ہاں اسباب بعیدہ اور دور دراز کار فکروں میں پڑے رہنا یا صرف اسباب اور تدابیر ہی کو مؤ ثر سمجھ کر مسبب الاسباب اور مدبر الامور سے غافل ہوجانا بیشک خلاف توکل ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝ ٠ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝ ٠۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝ ٠ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۝ ١٥٩ لين اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر/ 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع . ( ل ی ن ) اللین کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران/ 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر/ 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔ فظ الفَظُّ : الكريه الخلق، مستعار من الفَظِّ ، أي : ماء الکرش، وذلک مکروه شربه لا يتناول إلّا في أشدّ ضرورة . قال تعالی: وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران/ 159] . ( ف ظ ظ ) الفظ کے معنی بد مزاج کے ہیں اور یہ اس فظ سے مستعار ہے جس کے معنی اونٹ کے اوجھر میں جمع رہنے والا پانی کے ہیں جو سخت ضرورت کے وقت بادل نخواستہ پا یا جاتا ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران/ 159] اور اگر تم بد خو اور سخت دل ہوتے ۔ غلظ الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی: وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] . ( ع ل ظ ) الغلظۃ ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ فض الفَضُّ : کسر الشیء والتّفریق بين بعضه وبعضه، كفَضِّ ختم الکتاب، وعنه استعیر : انْفَضَّ القومُ. قال اللہ تعالی: وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها [ الجمعة/ 11] ، لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران/ 159] ، والفِضَّةُ اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة . ( ف ض ض ) الفض کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں جیسے فض ختم الکتاب : خط کی مہر کو توڑ نا اسی سے انقض القوم کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی متفرق اور منتشر ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں : ۔ وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها[ الجمعة/ 11] اور جب یہ لوگ سودابکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں ۔ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران/ 159] تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھٹرے ہوتے ۔ والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ مَشُورَةُ : والتَّشَاوُرُ والْمُشَاوَرَةُ والْمَشُورَةُ : استخراج الرّأي بمراجعة البعض إلى البعض، من قولهم : شِرْتُ العسل : إذا اتّخذته من موضعه، واستخرجته منه . قال اللہ تعالی: وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [ آل عمران/ 159] ، والشُّورَى: الأمر الذي يُتَشَاوَرُ فيه . قال : وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری/ 38] . اور التشاور والمشاورہ والمشورۃ کے معنی ہیں ایک دوسرے کی طرف بات لوٹا کر رائے معلوم کرنا ۔ یہ بھی شرت العسل سے مشتق ہے جس کے معنی چھتہ سے شہد نکالنا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [ آل عمران/ 159] اور اپنے کا موں میں ان سے مشورہ لیا کرو۔ الشوری ہر وہ امر جس میں مشورہ کیا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری/ 38] اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں ۔ عزم العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام ( ع ز م ) العزم والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا / قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم۔ اے پیغمبر ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو) یہاں یہ کہا گیا ہے کہ حرف، ما، صلہ کے معنی دے رہا ہے یعنی فبرحمۃ من اللہ قتادہ سے اس قول کی روایت کی گئی ہے جیسا کہ یہ ارشاد باری ہے (عما قلیل لیصبحن ناد مین جلد ہی یہ لوگ نادم ہوجائیں گے) نیز قول باری ہے (فبما نقضھم میثاقھم، ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے میثاق کو توڑدینے کی بناپر) اس پر اہل لغت کا اتفاق ہے ان کا قول ہے کہ یہ حرف تاکید کے معنی دیتا ہے اور اس سے الفاظ کی نشست میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اعشیٰ کا شع رہے۔ ؎ اذھبی ماالیک ادرکنی الحلم عدانی عن ھیجم اشفاقی اپنے کام سے کام رکھو، میرے اندرتحمل اور بردباری کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور تمھارے بھڑک اٹھنے کے بارے میں میراخوف مجھ سے آگے چلا گیا ہے۔ یعنی ختم ہوچکا ہے۔ یہاں حرف ما، زائد ہے۔ جولوگ قرآن میں مجاز کی نفی کے قائل ہیں ان کے قول کی یہاں تردید ہورہی ہے اس لیے کہ یہاں حرف، ما، کا ذکرمجانراکہوا ہے اور کلام سے اسے ساقط کردینے کی وجہ سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ۔ داعی الی اللہ کو نرم دل اور خوش اخلاق ہونا چاہے قول باری ہے (ولوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوامن جولک، ورنہ اگر کہیں تم تندخو اورسنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے) یہ آیت دعوالی اللہ کے سلسلے میں نرمی اور نرم خوئی اختیار کرنے اور تندخوئی اور سنگ دلی ترک کرنے کے وجوب پر دلالت کررہی ہے، جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے (ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن۔ آپ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے بلائیے اور ان کے ساتھ پسند یدہ طریقے سے بحث کیجئے) اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (فقولالہ قولا لینا لعلہ یتذکراؤیخشیٰ تم دونوں فرعون سے نرم انداز میں بات کروشایدا سے نصیحت ہوجائے یاڈرپیدا ہوجائے) مجلس شوری کے فوائد قول باری ہے (وشاورھم فی الامر اوردین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو) یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی تھی۔ اس بناپر آپ کو اس چیز کی مطلقا ضرورت نہیں تھی کہ کسی مسئلے میں درست رائے معلوم کرنے کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کریں یا ان کے مشوروں پرچلیں۔ پھر آپ کہ اس آیت میں ان سے مشورہ کرنے کا کیوں حکم دیا گیا ؟ اس سوال کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں۔ قتادہ، ربیع بن انس اور محمد بن اسحاق کا قول ہے، کہ یہ حکم صرف صحابہ کرام کے دلوں کو خوش کرنے اور ان کی حیثیت بلند کرنے کی خاطردیا گیا تھا، اس لیے کہ ان کی رائے پر اعتماد کیا جاسکتا تھا اور مشورے کے لیے ان کی طرف رجوع بھی کیا جاسکتا تھا۔ سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ اس حکم کا مقصدیہ ہے کہ اس معاملے میں امت آپ کی پیروی کرے اور اس میں اپنی کسرشان نہ سمجھے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس پہلو سے تعریف فرمائی ہے کہ ان کے امور باہمی مشوروں ہے طے ہوتے ہیں۔ حسن اور ضحاک کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعے تمام صحابہ کرام کو مشاورت میں اس لیے شامل کردیا کہ ان کی جلالت قدرظاہرہوجائے اور امت اس مسئلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پرچلے۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ آپ کو صرف ان ہی مقامات میں مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے، جو منصوص نہیں ہیں۔ اس قول کی مزید وضاحت میں ایک گروہ نے کہا ہے کہ صرف دنیاوی امور میں مشاورت کا حکم دیاگیا ہے۔ اس گروہ کے خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین کے کسی معاملے میں اپنے اجتہاد سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ البتہ دنیاوی امور میں یہ صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لیے یہ جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان امور میں ان کی آراء سے مددلے لیں اور آپ کو تدبیر کی حد میں ایسی وجوہ کا علم ہوجائے کہ اگر صحابہ کرام کا مشورہ اور ان کی رائے نہ ہوتی تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ معرکہ بدر کے ون حباب بن المنزرنے آپ کو پانی یعنی چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا مشورہ دیا تھا جسے آپ نے قبول کرلیا۔ اسی طرح حضرت سعدبن عبادہ (رض) اور سعدبن معا (رض) ذنے خندق کی جنگ میں بنوغطفان کو قریش سے توڑنے کے لیے مدینہ کے پھلوں کے ایک حصے پر مصالحت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، اپ نے ان کا یہ مشورہ قبول کرلیا تھا اور تحریرپھاڑدی تھی۔ اسی طرح کی بہت سی اشیاء ہیں کا تعلق دنیاوی امور سے ہے۔ بعض دوسروں کا یہ قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اموردین، نیز ایسے نئے واقعات جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت نہ آئی ہو، اور ایسے دنیاوی امورجن میں اپنی رائے اور گمان غالب سے کام چلایاجاتا ہے صحابہ کرام سے مشورہ کرنے پر مامور اور اس کے پابند تھے۔ آپ نے غزدہ بدر کے موقعہ پر جنگی قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا تھا۔ جبکہ اس معاملے کا تعلق دینی امور سے تھا۔ آپ کا طریق کاریہ تھا کہ جب آپ صحابہ کرام سے کسی معاملے میں مشورہ کرتے تو سب سے پہلے حضرات صحابہ کرام اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے، آپ بھی رائے کے اظہار میں ان کے ساتھ شریک رہتے، اور پھر آپ کا اجتہادجس نتیجے پر پہنچتا اس پر آپ عمل کرلیتے۔ اس طریق کا ر میں بہت سے فوائد پوشدہ تھے۔ اول یہ کہ لوگوں کو یہ بتادیاجائے کہ جو امورمنصوص نہیں ہیں ان کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ اجتہاد اور ظن غالب ہے۔ دوم لوگوں کو صحابہ کرام کے مرتبے سے آگاہ کرکے یہ بتایاجائے کہ یہ حضرات اجتہاد کے اہل ہیں، اور ان کی آراء کی پیروی جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا درجہ اتنابلند کردیا ہے کہ اس کے نبی ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ان سے مشورے کرتے، ان کی اجتہادی آراء کو پسند کرتے اور منصوص احکام الٰہی کی موافقت کے لیے ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں سوم۔ اس کے ذریعے یہ بتادیا گیا کہ صحابہ کرام کا باطن اللہ تعالیٰ کے ہاں پسند یدہ ہے، اس لیے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے مشورہ کرنے کا حکم نہ دیاجاتا۔ یہ چیز حضرات صحابہ کرام کے ایمان یقین کی صحت اور معاملات کی سوجھ بوجھ میں ان کی اونچی حیثیت، نیز نئے پیش آمدہ غیرمنصوص امور کے احکام میں اجتہاد کی گنجائش اور جواز پر دلالت کرتی ہے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امت اس معاملے میں آپ کے نقش قدم پرچلتی رہے۔ آیت سے یہ مراد لینا درست نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محض صحابہ کرام کے دلوں کو خوش کرنے اور ان کی حیثیت بڑھا نے کی خاطرمش اور ت کا حکم دیا گیا تھا تاکہ بعد میں صحابہ کرام کے تعلق امت کا بھی یہی رویہ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام کو یہ معلوم ہوتا کہ جن امور میں ان سے مشورہ لیاجارہا ہے ان کے احکام معلوم کرنے میں، نیز جن باتوں کے متعلق ان سے استفسارکیاجاریا ہے ان کے بارے میں صحیح رائے تک پہنچنے میں اپنی تمام کا دشیں صرف کرنے کے بعد بھی نہ وہ قابل قبول ہوں گی اور نہ ہی ان پر عمل کیا جائے ، تو اس کے بعد آخران کے دلوں کو خوش کرنے والی اور ان کے درجے کو بلند کرنے والی کون سی بات باقی رہ جاتی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اپنے آراء کے متعلق ایک خش پیدا ہوجاتی اور انھیں یہ احساس ہوجاتا کہ ان کی یہ آراء ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہیں۔ اس بناپردرج بالا تاویل ساقط اور بے معنی ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس شخص کی تاویل کی کہاں سے گنجائش نکل سکتی ہے، جس کا قول ہے کہ مشاورت کا حکم محض اس واسطے دیا گیا ہے کہ امت بھی اس رویے کو اپنالے جبکہ اس قائل کے نزدیک امت کو اس بات کا علم ہے کہ صحابہ کرام کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشاورت کانہ کوئی نتیجہ نکلا اور نہ ہی ان حضرات کے دیے ہوئے کسی مشورے پر عمل ہوا۔ اب اگر امت کو بھی اس کی اقتداء کرنی چاہیے تو پھر یہ واجب ہوگا کہ مسلمانوں کا آپس میں مشورہ اسی ڈھنگ اور اسی نہج کا ہو۔ اور مشورہ کے نتیجے میں نہ تو کسی درست رائے کا پتہ چل سکے اور نہ ہی کسی رائے پر عمل ہوسکے۔ اس لیے کہ تاویل بالا کے قائلین کے ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے درمیان مشاورت کی یہی نوعیت تھی۔ اب اگر امت اپنے باہمی مشورے سے کسی صحیح رائے پرنہچ جاتی ہے یا کسی رائے پر عمل کرلیتی ہے تو اس کا یہ طرزعمل صحابہ کرام کے اس طرزعمل اور نقش قدم پر نہیں ہوگا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے مشاورت کے سلسلے میں اپنایا تھا۔ جب اس وضاحت کی روشنی میں اس قول کا بطلان ثابت ہوگیا تو اب اس کے سوا اور کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحابہ کرام سے مشورہ کسی درست رائے تک پہنچنے اور اسے نتیجہ خیزنبانے کی خاطر ہوتا تھا جس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اپنی رائے سے کام لینے اور ان کی رائے قبول کرنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ پھر اس صورت میں یہ جائز ہوتا کہ حضرات صحابہ کرام کی رائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کے موافق ہوجائے یا ان میں بعض کی رائے آپ کی رائے کے موافق ہوجانے اور یہ بھی جائز ہوتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کی رائے کے خلاف رائے دیننے اور اپنی رائے پر عمل کرلیتے ۔ مشاورکایہ پوراڈھا نچہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام اپنی رائے کا اظہارکرکے تنقیدو ملامت کا بدف نہ بنتے، بلکہ اللہ کی طرف سے دیے ہوئے حکم پر عمل پیرا ہونے کی بناپراجر کے مستحق ٹھہرتے۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رائے پر عمل پیرا ہوجاتے تو اس صورت میں اپنی اپنی رائے ترک کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کی اتباع واجب ہوجاتی۔ اس بحث کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحابہ کرام سے مشاورت امور میں ہوتی جو منصوص نہ ہوتے۔ اس لیے کہ منصوص امور میں مشاورت کی سرے سے گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ آپ کے لیے یہ ہرگز درست نہ ہوتا کہ آپ صحابہ کرام سے مثلا نماز ظہریاعصہ یا نظام زکوۃ یاصیام رمضان کے متعلق ان کی رائے معلوم کرتے۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے اموردین کو امو دنیا سے علیحدہ نہیں کیا بل کہ نظام شریعت میں دونوں کو شامل رکھا ہے اور پھر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشاورت کا حکم دیا تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ مشاورت کا حکم اموردین اور دنیا دونوں سے متعلق ہو۔ نیز امور دنیا میں آپ کی مشاورت کا تعلق بھی اموردین سے ہوتا تھا۔ وہ اس طرح کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ جب آپ امور دنیا کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کرتے تو یہ مشورہ کفار کے خلاف جنگی کارروائیوں اور دشمنوں کی سازشوں اور جنگی چالوں کو ناکام بنانے کے متعلق ہوتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ کفاف کی زنا گی گزارتے تھے جس میں بس قوت لایموت بی کی گنجائش ہوتی تھی اس لیے آپ کو اپنی معاش اور امر دنیا کی تدبیروانتظام کے سلسلے میں سرے سے کسی مشورے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرام سے امور دنیا کے متعلق آپ کا مشورہ دراصل اموردین سے بی تعلق رکھتا تھا۔ ایسے معاملات میں اجتہاد رانے سے کام لینے اور غیہ منصوص امور کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد رائے کو استعمال کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے، اس طریق کا ر میں ان حضرات کے قول کی صحت کی دلیل موجود ہے جو نئے پیداشدہ امور کے احکام کے لیے اجتہادرائے سے کام لینے کے قائل ہیں، نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے، کہ اجتہادرائے سے کام لینے والے ہر مجہدکاعمل مبنی برصواب ہے، نیز یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی غیر منصوص امور میں اجتہاد رائے سے کام لیتے تھے۔ قول باری (فاذاعزمت فتوکل علی اللہ) کا مشاورت کے ذکر کی ترتیب میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیر منصوص امور میں صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اجتہاد رانے سے کام لیتے اور اپنی غالب رائے پر عمل کرتے تھے۔ اس لیے کہ اگر آپ کسی منصوص ام میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی راہنمائی ہوجاتی۔ صحابہ کرام سے مشورہ کرتے تو یقینا آپ کی عزیمت مشاورت پر مقدم ہوتی۔ اس لیے کہ نص ک اورود، مشاورت سے پہلے ہی عزیمت کی صحت کا موجب ہوجاتا۔ اب جبکہ ترتیب آیت میں عزیمت کا ذکرمش اور ت کے بعد آیا ہے تو یہ اس پر دلالت کردیا ہے کہ عزیمت مشاورت کے نتیجے میں پیداہوئی ہے اور یہ کہ اس سے پہلے اس معاملے میں کوئی نص دارد نہیں ہوئی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٩) اللہ ہی کی رحمت کی بنا پر آپ ان پر نرم دل رہے اور اگر آپ تند خویا سخت مزاج ہوتے تو یہ سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ لہذا آپ کے اصحاب سے حسن نیت کے باوجود ظاہر اجو لغزش ہوگئی آپ اس سے درگزر فرمائیے اور ان کے لیے استغفار کیجیے اور لڑائی میں ان سے مشورہ لیجیے جب آپ ایک جانب اپنی رائے پختہ کرلیں تو دولت ونصرت میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٩ (فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ ج) ۔ اس سورة مبارکہ کی یہ آیت بھی بڑی اہم ہے۔ جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو ‘ صاحب امر ہو ‘ جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں ‘ جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں ‘ اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں ‘ ان کے بھی کوئی جذبات اور احساسات ہیں ‘ ان کی عزت نفس بھی ہے ‘ لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے ‘ سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں ‘ بلکہ رضاکار (volunteers) ہیں۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حق میں بہت نرم ہیں۔ (وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ) ؂ کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی ! (فَاعْفُ عَنْہُمْ ) چونکہ بعض صحابہ (رض) سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت بڑا چرکا لگ گیا تھا ‘ لہٰذا آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے اپنے دل میں میل مت آنے دیجیے۔ ان کی غلطی اور کوتاہی کو اللہ نے معاف کردیا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ بھی انہیں معاف کردیں۔ عام حالات میں بھی آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں۔ (وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ ) ان سے جو بھی خطا ہوجائے اس پر ان کے لیے استغفار کیا کریں۔ (وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج) ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں کہ آئندہ ان کی کوئی بات نہیں سننی ‘ بلکہ ان کو بھی مشورے میں شامل رکھیے۔ اس سے بھی باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امیر ہم سے مشورہ کرتا ہے ‘ ہماری بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اجتماعی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری بات ہے۔ (فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط) ۔ مشورے کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا دل کسی رائے پر مطمئن ہوجائے اور آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اب کسی شخص کی بات کی پرواہ نہ کریں ‘ اب سارا توکل اللہ کی ذات پر ہو۔ غزوۂ احد سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشورہ کیا تھا ‘ اس وقت کچھ لوگوں کی رائے وہی تھی جو آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے تھی ‘ یعنی مدینہ میں محصور ہو کر جنگ کی جائے۔ لیکن کچھ حضرات نے کہا ہم تو کھلے میدان میں جنگ کرنا چاہتے ہیں ‘ ہمیں تو شہادت کی موت چاہیے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی رعایت کی اور باہر نکلنے کا فیصلہ فرما دیا۔ اس کے فوراً بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے حجرے سے برآمد ہوئے تو خلاف معمول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زرہ پہنی ہوئی تھی اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے۔ اس سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ سخت معاملہ پیش آنے والا ہے۔ چناچہ ان لوگوں نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں ‘ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے ہے آپ اس کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں ‘ یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد جنگ کیے بغیر انہیں اتار دے۔ یہ آیت گویا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کی توثیق میں نازل ہوئی ہے کہ جب آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اللہ پر توکل کیجیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(159 ۔ 160) ۔ یہ اوپر گذر چکا ہے کہ احد کی تیاری کے وقت پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صلاح تھی کہ اس لڑائی کے لئے مدینہ کے باہر جانا چاہیے پھر بعض صحابہ کے صلاح و مشورہ کے سبب سے آپ باہر نکلے اور لڑائی شروع شروع میں تو اچھی رہی اور پھر آخر کو اس میں کچھ لغزش آئی اب ان آیتوں میں یہ ارشاد ہے کہ اے نبی اللہ کے باوجود اس کے کہ لڑائی میں ایک طرح کی لغزش مسلمانوں سے ہوئی اس پر بھی تم مسلمانوں سے نرمی سے پیش آئے اور کسی پر کچھ خفگی ظاہر نہیں کی کہ یہ اللہ کی ایک رحمت تھی ورنہ ایسی حالت میں سختی سے پیش آتے تو لوگ اور بےدل ہوجاتے اور لڑائی کی تیاری کے وقت صلاح و مشورہ میں جو اختلاف پڑا اس کا بھی دل میں کچھ خیال نہ لانا چاہیے۔ آئندہ حسب عادت، صحابہ (رض) سے مشورہ طلب امور میں مشورہ لیا کرو تاکہ ان کا جی خوش ہو اور امت کے لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ مشورہ لینامشروع ہے ہاں بعد مشورہ کے ہر طرح کا بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہیے کہ بغیر مدد اللہ کے کسی کام میں آدمی کو سر سبزی نہیں ہوسکتی۔ شعب الایمان بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو مشورہ لینے کی ترغیب دی ہے۔ سیوطی نے اس حدیث کی سند کو معتبر بتلایا ہے ١ فیما رحمتہ لفظ ما تاکید کے لئے بڑھایا گیا ہے اصل برحمۃ من اللہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:159) فبما۔ ما۔ زائدہ ہے اور تاکید کے لئے آیا ہے۔ یعنی یہ صرف اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہے کہ باوجود مخالفین کے قصور کے آپ کا رویہ ان کی طرف لطف و محبت کا ہے۔ لنت۔ ماضی واحد مذکر حاضر لین مصدر ۔ تو نے نرمی کی۔ تو نے نرم مزاجی سے کام لیا لان یلین (ضرب) فظا۔ بدکلام۔ بدخو۔ بداخلاق۔ لفظ کی اصل وضع اس گندے پانی کے لئے ہے جو غلاظت سے بھری ہوئی آنتوں کے اندر ہوتا ہے غلیظ القلب۔ مضاف مضاف الیہ ۔ سخت دل والا۔ بد اخلاق۔ بدخو۔ لانفضوا۔ میں لام تاکید کے لئے ہے۔ انفضوا (باب انفعال) انفضاص سے ہے۔ متفرق ہونا۔ تتربتر ہونا۔ وہ ضرور منتشر ہوگئے ہوتے۔ لو۔ یہ چھ طریق پر مستعمل ہے۔ (1) زمانہ ماضی میں شرط کے لئے جیسے لو جاءنی لاکرمتہ۔ اگر وہ میرے پاس آتا تو میں اس کی عزت کرتا۔ (2) زمانہ مستقبل میں تمنا کے معنی میں۔ لو تلتقی اصداء بعد موتنا۔ کاش ہمارے اصداء موت کے بعد ملتے۔ لو ان لنا کرۃ۔ کاش ایک بار اور ہم کو دنیا میں جانا مل جاتا بعض نے کہا ہے کہ یہ لو شرطیہ ہی ہے جس کو تمنی کا معنی دیا گیا ہے۔ (3) مصدریہ بمعنی ان۔ لیکن یہ نصب نہیں دیتا عموماً ودیود کے بعد آتا ہے جیسے ودوا لو تاتیہم وہ چاہتے ہیں کہ تو ان کے پاس آئے (4) تمنا کے لئے۔ اس وقت اس کا جواب منصوب اور فاء کے ساتھ آتا ہے جیسے لو تنزل عندنا فتصیب خیرا۔ اگر تو ہمارے پاس آتا تو بہتری پاتا۔ (6) تقلیل کے لئے جیسے تصوقوا ولو بظلف محرق۔ صدقہ دو اگرچہ جلا ہوا کھر ہی ہو ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 احد کے دن مسلما نوں نے خوفناک غلطی کی اور میدان چھوڑ کر فرار اختیار کیا۔ پھر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے دوبارہ ج جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کسی قسم کی سرزنش نہیں کی بلکہ حسن سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حسن خلق اللہ تعالیٰ ج کے خاص فضل و احسان اور رحمت کا نتیجہ ہے ورنہ مسلمانوں کی شیراز ہ بندی ناممکن تھی۔ (قرطبی۔ رازی ) 1 حضرت شاصاحب (رح) فرماتے ہیں : شاید حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل مسلما نوں سے خفا ہوگا اور چاہا ہوگا کہ اب سے ان سے مشورہ نہ پو چھئے۔ سو حق تعالیٰ نے سفارش کی کہ اول مشو رہ لینا بہتر ہے جیسے ایک بات ٹھہر چکے پھر پس وپیش نہ کرے۔ ( اس آیت میں آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا رہا ہے کہ جب کبھی جنگ یا انتظامی قسم کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس میں ہما ری طرف سے بذریعہ وحی کوئی متعین کم نہ دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کرو تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور انہیں بعد میں باہمی مشورہ سے مل کر کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہو۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکثر اہم امور میں صحابہ کرام (رض) سے مشورے فرمائے اور اب پر عمل بھی ہوا۔ (دیکھئے ابن کثیر ج 1 ص 420) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفا راشدین سے بھی اس سنت پر پوری طرح کار بند رہے۔ پھر اگر مشورہ کے بعد کسی چیز کا فیصلہ کرلیا جائے تو اسے پوری دلجمعی سے کر گزر نے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ چناچہ مذکور ہے کہ جنگ احد کے موقع پر کھلے میدان میں لڑائی کرنے کے فیصلے کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلح ہر کر تشریف لے آئے اور صحابہ (رض) نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کے مطابق شہر میں رہ کر مقابلہ ج کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ن نے فرمایا۔ لاینبغی لنبی اذا لبس سلا حہ ان یضعھا حتیٰ یقاتل۔ (قر طبی) یہ آیت اور آیت وامر ھم سوری ٰ بینھم (الشوریٰ آیت) اسلامی طرز حکومت کے کے لیے اساسی حیثیت کی حامل ہیں مگر شارع ( علیہ السلام) اور خلفا راشدین نے اس شورائی نظام کی کوئی ہیئت متعین نہیں کی اور اسے ہر دور کے تقا ضوں پر چھوڑ دیا ہے۔ احادیث میں مشورہ سے کام کرنے کی ترغیب آئی ہے۔ چناچہ فرمایا ما ندم من استشار ولا خاب من استغار کہ مشورہ ہے بعد انسان کی مذامت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ابن عطیہ فرماتے ہیں۔ شوریٰ قواعد شریعت اور احکام عزیمت میں داخل ہے جوا میر علمائے دین سے مشورہ نہ لیتا ہو اسے معزول کرنا واجب ہے ولا خلاف فیہ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفا (رض) برابر دیانت داراہل علم سے مشورہ لیتے رہے۔ (قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر 159 تا 160 غزوۂ احد میں مسلمانوں کی اجتہادی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تکلیف پہنچی تھی اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رنجیدہ ہونا لازمی بات تھی اور آپ کو اس لغرش پر اپنے صحابہ کو تنبیہہ کرنا چاہئے تھی اور آئندہ ان سے مشورہ کبھی نہ لینا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس واقعہ سے رنجیدہ نہ ہوں اور اب کی خطا کو معاف فرمادیں اور اپنے مزاج کے مطابق ان سے نرمی کا معاملہ فرمائیں اور پہلے کی طرح آپ ان سے مختلف امور میں مشورہ بھی لیتے رہا کریں۔ چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ احد سے واپس لوٹ کر اپنے کے ساتھ انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا۔ اور ان کی کوتاہیوں کو نظر انداز کردیا۔ آپ سے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ اللہ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ آپ اپنے صحابہ کے بارے میں انتہائی نرم مزاج ہیں اگر کہیں آپ سخت مزاج اور پتھر دل ہوتے تو یہ دل شکستہ ہوکر آپ کے اردگرد سے منتشر ہوجاتے اور آپ کے فیض صحبت سے محروم ہوجاتے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو دل کی گہرائیوں سے معاف کردیں اور ان کی کو تا ہیوں کے لئے اللہ سے دعائے استغفار کیجئے۔ مشورہ میں ان کو نظر انداز نہ کیجئے۔ مشورہ کے بعد آپ کی جس طرف پختہ رائے ہو اس پر عمل کیجئے اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھیے کیونکہ اہل ایمان کو تو اسی پر بھروسہ اور اعتماد رکھنا چاہئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ نرم خوئی کو رحمت کا سبب اس لیے فرمایا کہ خوش اخلاقی عبادت ہو اور عبادت کی توفیق خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہوتی ہے۔ 2۔ یہ جو کہا گیا کہ خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے تو مراد ان سے وہ امور ہیں جن میں آپ پر وحی نازل نہ ہوئی ورنہ بعد وحی کے پھر مشوروں کی کوئی گنجائش نہیں۔ 3۔ لفظ عزم میں کوئی قید نہیں لگائی اس سے معلوم ہوا کہ امور انتظامیہ متعلقہ بالرائے میں کثرت رائے کا ضابطہ محض بےاصل ہے ورنہ یہاں عز میں یہ قید ہوتی کہ بشرطیکہ آپ کا عزم کثرت رائے کے خلاف نہ ہو۔ اور مشورہ وعزم کے بعد جو توکل کا حکم فرمایا تو اس سے ثابت ہوا کہ تدبیر منافی نہیں توکل کے کیونکہ مشورہ وعزم کا داخل تدبیر ہونا ظاہر ہے اور جاننا چاہیے کہ مرتبہ توکل کا کہ باوجود تدبیر کے اعتقادا اعتماد رکھے اللہ پر یہ ہر مسلمان کے ذمہ فرض ہے اور توکل بمعنی ترک تدبیر کے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ تدبیر دینی ہے تو اس کا ترک مذموم۔ اور اگر دنیوی یقینی عادة ہے تو اس کا ترک بھی ناجائز اور اگر ظنی ہے توقوی القلب کو جائز اور اگر وہمی ہے تو اس کا ترک مامور بہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احد میں درّہ والوں کی کوتاہی اور صحابہ کے منتشر ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا۔ جس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبر و حوصلہ کا مظاہرہ فرمایا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق عالیہ کی تعریف کی گئی اور خطا کرنے والوں کو معاف کردینے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی بخشش کی دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اُحد میں تین سو منافقوں کا واپس لوٹنا، درّے والوں کا درّہ خالی کرنا ‘ گھمسان کے رن میں صحابہ کی اکثریت کا آپ کو تنہا چھوڑ جانا ‘ اس قدر ذاتی اور جماعتی نقصان کا اٹھانا۔ ان میں کوئی ایک معاملہ بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھا۔ ایسے موقعہ پر بڑے سے بڑا بہادر اور حوصلہ مند انسان کا پِتّہ پانی ہوجایا کرتا ہے۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی اشتعال ‘ خفگی اور ترش کلامی کا مظاہرہ نہیں فرمایا۔ بلکہ نہایت حوصلہ اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ حالات پر کنٹرول کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ میرے محبوب ! یہ صرف تیرے رب کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ آپ بردبار ‘ رحمدل ‘ نرم خو اور اعلیٰ اخلاق کے پیکر ہیں۔ اگر آپ سخت خو ‘ جذباتی اور ترش کلام ہوتے تو یہ لوگ نفرت کھا کر آپ سے دور بھاگ جاتے۔ لہٰذا انہیں دل سے معاف فرما دیجیے اور اپنے رب کے حضور ان کی معافی کی درخواست کیجیے۔ یہ نہیں کہ پہلے مشورہ کرنے سے نقصان ہوا ہے اور آئندہ مشورہ کرنے سے آپ احتراز کریں بلکہ مشاورت جاری رہنی چاہیے۔ مشاورت کے بعد آپ کو فرمایا گیا ہے کہ مکمل تیاری اور باہمی مشورہ کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے وہی عزت وذلت اور فتح وشکست کا مالک ہے۔ کام کرنے کے لیے جو وسائل اور مشاورت درکار ہوں اس کے لیے بھرپور کوشش کریں اس کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے عزم بالجزم کے ساتھ کام کا آغاز کردینا چاہیے۔ مشاورت کی اہمیت اور غرض وغایت قرآن پاک نے قائد کو مشاورت کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمان اجتماعی مسائل کو جماعتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرز عمل کے بیک وقت کئی فوائد ہیں ایک طرف اراکین جماعت کی دلجوئی ہے اور دوسری جانب ان کی صلاحیتوں سے اجتماعی فائدہ اٹھانا اور ان کی انفرادی فکر کو اجتماعی نظم میں لانا ہے۔ یہ خیرو برکت سے بھرپور عمل ہے جس سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ حالانکہ آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور ہدایات میں زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی فرما رہے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان احکامات کے نزول سے قبل بھی صحابہ (رض) سے مشورہ کرتے تھے لیکن نزول حکم کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ آپ ہر کام میں صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ آپ کی ذات گرامی کو مزید حکم ہوا : ( وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِےْنَ ) [ آل عمران : ١٥٩] ” اور معاملات میں ان کو شریک مشورہ رکھا کرو، پھر جب آپ کا عزم کسی رائے پر پختہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں “۔ اس کار خیر کی اہمیت و افادیت کو اجاگر اور ممتاز رکھنے کے لیے پانچ رکوع پر مشتمل ایک سورة کا نام ہی الشورٰی رکھ دیا گیا تاکہ رہتی دنیا تک مسلمان مشاورت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرتے رہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشورہ کن امور میں کرنا چاہیے ؟ مشاورت کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ جہاد کے سلسلے میں بدر، احد، خندق غرضیکہ ہر اہم معاملہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) سے مشورہ فرماتے۔ جنگ سے پہلے شورٰی کے اجلاس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جہاد کرنا چاہیے یا نہیں۔ واضح احکامات کے بعد ان پر عمل کرنے کے بارے میں مشورہ کرنا تو درکنار ان کے بارے میں سوچنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ مشاورت تو اس بات پر کرنا ہے کہ دشمن پر حملہ کرنے کا وقت اور طریقہ کار اور میدان جنگ کا انتخاب وغیرہ۔ ان امور کو اللہ تعالیٰ نے امت کے ذمہ داران پر چھوڑ دیا ہے۔ بعض لوگوں نے لفظی موشگافیوں میں پڑ کر مشاورت کے حکم کو بازیچۂ اطفال بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت کا امیر اربابِ حل و عقد سے ان کی دلجوئی کی خاطر مشورہ کرے گا لیکن اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ امیر جس سے چاہے مشورہ کرے وہ باضابطہ شور یٰ کو تشکیل دینے اور اس کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحابہ کرام (رض) سے مشاورت بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تجویز پیش کی کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے جبکہ حضرت عمر (رض) کا خیال تھا کہ انہیں قتل کردینا چاہیے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کی رائے کو ترجیح دی اور بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا۔ حنین کے قیدیوں کے بارے میں رائے طلب کرنا : غزوۂ حنین کے موقعہ پر بیشمار قیدی اور مال غنیمت ہاتھ آیا۔ حنین کے نمائندہ لوگوں نے جب آپ سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس بارے میں صحابہ سے رائے طلب کی آراء میں اختلاف دیکھا تو حکم دیا کہ اپنے خیموں میں جا کر باہمی مشاورت کے بعد اپنے نمائندوں کو میرے ہاں بھیجو تاکہ مجھے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجائے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] اُحد میں دفاع کے متعلق مشاورت : احد سے پہلے مشاورت کی کہ شہر میں رہ کر دفاع کرنا چاہیے یا مدینہ سے باہر نکل کر ؟ لوگوں کی اکثریت نے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے احد کے دامن کا انتخاب فرمایا حالانکہ آپ کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کے بارے میں تھی۔ (ابن کثیر) گورنر کی تقرری کے لیے مشاورت حضرت معاذبن جبل (رض) کو یمن کا گورنر بناتے وقت شورٰی بلائی گئی۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غوروخوض کے بعد معاذبن جبل (رض) کی تقرری کا اعلان ہوا۔ [ کنزالعمال ] حضرت ابوبکر (رض) کی مشاورت اور فیصلوں کی بنیاد جمہوریت کی مخالفت میں بعض لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے فیصلوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے صحابہ سے مشورہ کیا لیکن اکثریت کی رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ لہٰذا خلیفہ اکثریت کی رائے کا پابند نہیں۔ حالانکہ ان واقعات سے ایسے استدلال کی گنجائش نہیں نکلتی کیونکہ حضرت ابوبکر (رض) نے صحابہ کی رائے کے مقابلے میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور فرمان پیش کیے تھے جو آپ کی وفات کے صدمہ اور پے درپے مشکلات کی وجہ سے صحابہ کے ذہن سے اوجھل ہوچکے تھے۔ جوں ہی خلیفۃ المسلمین نے ان کا حوالہ دیا تو صحابہ کرام (رض) اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے۔ خلیفۂ اول کا پہلا اقدام : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد عرب قبائل مرتد ہونے لگے اور کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ ادھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حیات مبارکہ میں روانہ کیا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر حضرت ابوبکر (رض) نے پہلے جیش اسامہ کی روانگی کے متعلق مشورہ کیا تو نازک حالات میں شوریٰ فوری طور پر لشکر کی روانگی کے خلاف تھی لیکن حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسُ اَبِیْ بَکْرٍ بِےَدِہٖ لَوْ ظَنَنْتُ اَنَّ السِّبَاعَ تَخْطَفِیْ لَاَنْفَذْتُ بَعْثَ اُسَامَۃَ کَمَا اَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلَوْ لَا ےَبْقَ فِی الْقُرٰی غَےْرُہُ لَاَنْفَذْتُہُ ) [ طبری : ج ٢، ص ٥٢٢] ” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ وحشی جانور مجھے نوچ لیں گے اور ان آبادیوں میں میرے سوا کوئی بھی شخص باقی نہ رہے۔ تو بھی میں لشکر اسامہ روانہ کروں گا کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو روانگی کا حکم دیا ہے۔ “ مانعین زکوٰۃ اور حضرت ابوبکر (رض) کا فیصلہ مانعین زکوٰۃ کے متعلق حضرت ابوبکر (رض) نے مہاجرین وانصار کو جمع کر کے فرمایا آپ کو معلوم ہے کہ بعض عربوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے مشورہ دیں کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ کیونکہ میں بھی تم میں سے ایک انسان ہوں البتہ تمہاری نسبت مجھ پر بوجھ زیادہ ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا اے خلیفۂ رسول ! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت لوگوں کی نماز ادائیگی کو ہی غنیمت سمجھیں اور زکوٰۃ چھوڑنے پر گرفت نہ فرمائیں۔ یہ لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں آہستہ آہستہ یہ تمام اسلامی فرائض و احکام کو تسلیم کرنے کے بعد سچے مسلمان بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو مزید قوت دے گا تو ہم منکرین زکوٰۃ کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اس وقت ہم میں عرب وعجم کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ حضرت عمر (رض) کی رائے سننے کے بعد حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عثمان (رض) کی طرف متوجہ ہوئے انہوں نے بھی حضرت عمر (رض) کی تائید کی۔ پھر حضرت علی (رض) نے بھی اس کی تائید کی۔ ان کے بعد تمام انصار و مہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) منبر پر چڑھے اور فرمایا : اسی موقع پر انہوں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم کفر میں بڑے تندو تیز اور بہادر تھے، کیا اسلام میں آکر بزدل ہوگئے ہو ؟ میں ضرور ان لوگوں کے خلاف جہاد کروں گا جو نماز ادا کرتے ہیں مگر زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں۔ (وَاللّٰہِ لَا اَبْرَحُ اَقُومُ بِاَمْرِاللّٰہِ وَاُجَاھِدُ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ حَتّٰی ےَنْجِزَاللّٰہُ تَعَالٰی وَےَفِیَ لَنَا عَھْدَہُ ) ” اللہ کی قسم ! میں اس موقف پر ڈٹ جاؤں گا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا رہوں گا۔ جب تک اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا نہ فرمادے۔ “ دور فاروقی میں کمانڈر ‘ مفتوحہ علاقوں اور طاعون کے بارے میں مشاورت عراق میں پیش قدمی کے سلسلہ میں اسلامی فوج کی کمان کا مسئلہ پیش آیا۔ یاد رہے اس وقت عراق، فارس (ایران) کے ماتحت تھا خلیفہ ثانی فاروق اعظم (رض) کا خیال تھا کہ اس فوج کی کمان مجھے خود کرنا چاہیے لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور دوسرے جلیل القدر صحابہ (رض) کی رائے یہ تھی کہ آپ مدینہ طیبہ میں رہ کر ہدایات جاری فرماتے رہیں۔ خدانخواستہ اگر فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑی یا آپ کو کچھ ہوگیا تو اس نقصان کی تلافی مشکل ہوجائے گی۔ اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے امیر المؤمنین نے فرمایا کہ میں تو عراق جانے کے لیے ہی مدینہ سے نکلا تھا مگر اصحاب رسول کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اب بتائیں کہ اس فوج کی کمان کس کے سپرد کی جائے ؟ لوگوں کی اکثریت نے حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) کا نام پیش کیا کیونکہ ابو عبیدہ (رض) اور حضرت خالد (رض) شام کے محاذ پر بر سر پیکار تھے۔ (سیرت الفاروق) مفتوحہ علاقے حضرت عمر فاروق (رض) خلیفۂ اول اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت مبارکہ کی اتباع کرتے ہوئے ہر معاملہ میں اہل الرائے سے مشورہ لیتے یہاں تک کہ مفتوحہ علاقوں کی زمین کے لیے بھی انہوں نے کئی دن تک مجلس مشاورت کے اجلاس منعقد کئے۔ حضرت بلال (رض) ، عبدالرحمن بن عوف (رض) اور کئی صحابہ کی رائے یہ تھی کہ یہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم ہونا چاہییں۔ حضرت عمر (رض) اور ان کے ہم خیال حضرات کی رائے یہ تھی کہ زمینیں حکومت کی ملکیت ہونا چاہییں تاکہ آنے والے حضرات بھی اس سے مستفید ہوتے رہیں۔ اس ضمن میں دونوں طرف سے کوئی واضح شرعی دلیل نہ تھی۔ بالآخر حضرت عمر فاروق (رض) نے قرآن پاک کی آیت تلاوت کی : (وَالَّذِیْنَ جَاءُ وْا مِنْم بَعْدِھِمْ ۔۔ ) پڑھ کر فرمایا : (فَکَانَتْ ھٰذِہٖ عَامَۃُ ٗ مَنْ جَآءَ مِنْ بَعْدِھِمْ فَقَدْصَادَ ھٰذَا اَلْفَیْ بَیْنَ ھٰؤُلآءِ جَمِیْعاً فَکَیْفَ تَقْسِمُہٗ لِھٰؤُلَآءِ وَنَدَعُ مَنْ تَخَلَّفَ بَعْدَھُمْ ) [ الفاروق ] ” یہ آئندہ آنے والے تمام لوگوں کے لیے ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں موجودہ لوگوں کو تقسیم کردوں۔ ان لوگوں کو محروم کردوں جو ان کے بعد آنے والے ہیں۔ “ طاعون اور مجلس شوریٰ ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ملک شام کے دورے کے لیے نکلے جب آپ سرغ کے مقام پر پہنچے تو وہاں شام کے کمانڈر ابو عبیدہ بن جراح (رض) اور دوسرے اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا اور وہاں کے حالات بیان کرتے ہوئے عرض کرنے لگے کہ شام میں طاعون کا مرض پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے مسئلہ پیدا ہوا کہ آگے جانا چاہیے یا واپس پلٹ جائیں۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے امیر المؤمنین نے حکم دیا کہ مہاجرین کو بلاؤ۔ جب وہ آئے تو ان سے اس صورت حال پر مشورہ طلب کیا گیا۔ ان کی آراء میں اختلاف تھا۔ کچھ نے کہا کہ آپ دینی کام کے لیے نکلے ہیں آپ کو واپس نہیں جانا چاہیے جبکہ دوسرے اصحاب کہتے تھے آپ کے ساتھ بہت سے اصحاب رسول ہیں خواہ مخواہ موت کو دعوت نہیں دینا چاہیے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا انصار کو بلایا جائے انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح مختلف تجاویز پیش کیں۔ فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ پھر حکم دیا قریش کے ان سرداروں کو بلایا جائے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کی تھی۔ یہ سب بالاتفاق کہنے لگے کہ آپ کو آگے جانے کی بجائے واپس پلٹ جانا چاہیے۔۔ تب امیر المؤمنین (رض) نے اعلان فرمایا کہ ہم صبح مدینہ واپس جارہے ہیں، یہ سنتے ہی ابو عبیدہ بن جراح (رض) آگے بڑھ کر کہنے لگے کہ آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرمانے لگے کاش یہ بات ابو عبیدہ کے سوا کوئی اور کہتا ! کیونکہ یہ بات ابو عبیدہ (رض) کی دانشمندی کے خلاف تھی۔ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جار ہا ہوں۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) جو کسی مصروفیت کی وجہ سے غیر حاضر تھے تشریف لائے اور کہنے لگے ایسی صورت حال کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کن ارشاد موجود ہے۔ (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ إِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِھَا فَلَاتَخْرُجُوْا فِرَارًا مِّنْہُ قَالَ فَحَمِدَ اللّٰہَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثُمَّ انْصَرَفَ ) [ رواہ مسلم : کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوھا ] ” میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جب کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں داخل نہیں ہونا چاہیے اور جس زمین میں طاعون واقع ہوجائے وہاں سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ یہ سن کر امیر المومنین (رض) نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مدینہ واپس تشریف لے گئے۔ “ فیصلہ کا طریقہ کار اور ” فَاِذَا عَزَمْتَ “ کا مفہوم آدمی جب اپنے ذہن میں ایک بات بٹھا اور جما لیتا ہے تو پھر ہر بات کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ یہی حالت ان دوستوں کی ہے جو علمی دنیا میں تنہا پرواز کے قائل اور انتہا پسندی کی روش کو اختیار کیے رکھتے ہیں۔ پہلے ان کی سر توڑ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ثابت کیا جائے کہ اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہیں لفظ اکثریت سے اس حد تک چڑ ہوتی ہے کہ وہ اہل حق کی اکثریت کو بدنام زمانہ جمہوریت سے مماثل قرار دے کر حقائق کو رد کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں اور جذباتی لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ہم کسی کے مقلد ہیں ؟ حالانکہ قرآن وسنت کے بعد خاص کر تنظیمی اور اجتماعی معاملات میں اجتماعیت کو قابل قدر حیثیت دینا ضروری ہے۔ کیونکہ اجتماعی زندگی کا نظام چلانے کے لیے یہ آخری اصول ہے۔ اس کے بغیر امت کو متحد رکھنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس کے باوجود کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ امیر صرف لوگوں کی دلجوئی کی خاطر پیش آمدہ مسئلہ میں شوریٰ کی تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کی ذرہ نوازی ہے ورنہ کوئی اصول امیر کو پابند نہیں کرسکتا۔ پھر ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ اس طرح تو امیر مامور اور ربڑ کی مہر بن جاتا ہے۔ بقول ان کے قرآن پاک نے ” فَاِذَا عَزَمْتَ “ کے الفاظ استعمال کر کے امیر کو اجتماعی معاملات میں مختار کل بنا دیا ہے۔ کاش یہ حضرات طبیعت کے بےلگام گھوڑے کو قابو رکھتے ہوئے اس بات پر غور کرتے کہ ارکان شوریٰ مشورہ دینے کے لیے تشریف لائے ہیں نہ کہ مشورہ لینے کے لیے۔ صاحب امر کو تو مشورہ لینے کا حکم ہو رہا ہے لہٰذا یہاں صیغہ بھی واحد حاضر کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر اراکین شوریٰ کو ایک دوسرے سے مشورہ لینے کے لیے اکٹھا کیا جاتا تو پھر ” شَاوِرْ ھُمْ فیْ الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ “ کے بجائے یہ ہونا چاہیے تھا ” تَشَاوَرُوْا فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتُمْ فَتَوَکَّلُوْا عَلَی اللّٰہِ ےَتَشَاوَرُوْنَ فِی الْاَمْرِ فَاِذَاعَزَمُوْا “ اس لیے صحیح نقطہ نگاہ یہ ہے کہ عزم کا معنٰی وہ نہیں جو کچھ علماء نے سمجھا ہے۔ ایسے ہی آزاد استدلال کی وجہ سے مسلمانوں کے حکمران آمر، ڈکٹیٹر، ظالم اور سفاک ثابت ہوئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے علاوہ ہم سے پوچھنے کا کسی کو اختیار نہیں اور نہ ہی ہم کسی کے پابند ہیں۔ مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں قابل عمل نقطۂ نگاہ یہی ہے کہ امیر قرآن وسنت، واضح شواہد وقرائن اور شوریٰ کی اکثریت کا پابند ہونا چاہیے۔ اس طرز عمل میں نہ صرف ملک وملت کی بہتری ہے بلکہ امیر کے لیے بھی عافیت کا راستہ ہے کیونکہ وہ اکیلا ذمہ دار ہونے کی بجائے پوری جماعت ذمہ دار ہوگی اور قرآن وسنت اور صحابہ کا عمل بھی اس بات کی مکمل رہنمائی کر رہا ہے۔ اب ” فَاِذَا عَزَمْتَ “ کا معنٰی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی اور صحابہ کرام (رض) کے طرز حیات سے سمجھنے کی کوشش فرمائیں۔ (عَنْ عَلِیٍّ قَالَ سُءِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْعَزْمِ فَقَالَ مُشَاوَرَۃُ اَھْلِ الرَّاْیِ ثُمَّ اتِّبَاعُھُمْ ) [ ابن کثیر ] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عزم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے عزم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عزم کے معنٰی ہیں اہل رائے سے مشورہ لینا اور پھر اس کا اتباع کرنا۔ “ اس آیت کی روشنی میں امام ابوبکر جصاص (رح) لکھتے ہیں : (وَغَےْرُ جَاءِزٍ اَنْ یَّکُوْنَ الْاَمْرُ بالْمُشَاوَرَۃِ عَلٰی جِھَۃٍ تَطِےْبُ نَفُوْسُھُمْ وَرَفْعِ اَقْدَارِھِمْ وَلِتَقْتَدِی الْاُمَّۃُ بِہٖ فِی مِثْلِہٖ لِاَنَّہُ لَوْ کَانَ مَعْلُوْمًا عِنْدَھُمْ إِنَّھُمْ إِذَا اسْتَغْرَغُوْا مَجْھُوْدُھُمْ فِی اِسْتِنْبَاطِ مَاشُوْرٍ وَافِےْۃٌ وَصَوَابُ الَّذِیْ فِےْمَا سَلُوْا عَنْہُ ثُمَّ لَمْ ےَکُنْ ذَالِکَ مَعْمُوْلًا عَلَےْہِ وَلَا مُلْتَقِیْ مِنْہُ بالْقَبُوْلِ بِوَجْہٍ لَمْ ےَکُنْ فِی ذٰلِکَ تَطِےْبُ نَفُوْسُھُمْ وَلَا رَفْعُ لِاَقْدَارِ ھِمْ بَلْ فِےْہِ اِےْحَاشُھُمْ وَاَعْلَامُھُمْ بِاَنَّ آرَاءَ ھُمْ غَےْرَ مَقْبُوْلَۃٍ وَلَا مَعْمُوْلَ عَلَےْھَا فَھَذَا تَاوِےْلٌ سَاقِطٌ مَعْنًی لَہُ ) [ احکام القرآن ] ” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ لینے کا جو حکم دیا گیا وہ صرف صحابہ کی دلجوئی اور عزت افزائی کے لیے نہیں تھا۔ اگر صحابہ کرام (رض) کو یہ معلوم ہوتا کہ کسی خاص معاملے میں مشورہ طلب کیا جارہا ہے اور وہ مکمل غوروخوض کے ساتھ پیش آمدہ مسئلے میں ٹھیک ٹھیک مشورہ اور رائے کا اظہار کریں گے تو بھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا اس طرح تو ان کی دلجوئی اور عزت افزائی کی صورت نہیں نکلتی بلکہ اس میں ان کی حوصلہ شکنی کا پہلو نکلتا ہے۔ “ اگر تعصب کی عینک اتار کر اور جذبات کے پردے ہٹا کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رض) کے مبارک دور میں ہونے والی مجالس شوریٰ کے فیصلوں پر غور کیا جائے تو روز روشن کی طرح یہ حقیقت چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لشکر اسامہ (رض) کی روانگی کا فیصلہ کرتے ہوئے اگر اکثریت کی رائے کو مسترد کیا تو اس کے پیچھے نص قطعی یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم موجود تھا۔ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں بھی قرآن پاک کی نص قطعی موجود تھی جو حالات کی بحرانی کیفیت کی وجہ سے صحابہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن سے اوجھل ہوچکی تھی۔ جب خلیفۂ وقت نے توجہ دلائی تو صحابہ کے دل و دماغ روشن ہوگئے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح فیصلہ : ١۔ قرآن وسنت کی موجودگی میں کثرت وقلت اور عقل وفکر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٢۔ ٹھوس فکری، نظری، دلائل اور واضح قرائن کے بعد جمہوریت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ ٣۔ دونوں طرف دلائل برابر ہوں تو اجتماعی زندگی میں اہل حق کی اکثریت کی اتباع امیر اور سب کے لیے لازم ہے۔ مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بڑے نرم خو اور خلیق تھے۔ ٢۔ سر براہ بد اخلاق ہو تو لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔ ٣۔ سربراہ کو قومی کاموں میں لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ٤۔ مشورہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا لازم ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن داعی اور قائد کے اوصاف : ١۔ داعی اور قائد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ (التوبۃ : ١٢٨) ٢۔ داعی کو لوگوں سے مشورہ کا خواہش مند ہونا چاہیے۔ (یوسف : ١٠٣) ٣۔ لوگوں کی خیر خواہی کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (الکہف : ٦) ٤۔ قائد کو مشورہ لینا چاہیے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ قائد میں عفو و درگزر کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (المائدۃ : ١٣) ٦۔ قائد اور مومنین کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ (الزمر : ٣٨‘ التوبۃ : ٥١) نوٹ : مزید ’ ’ البقرہ 247“ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس پیراگراف کا موضوع اور محور حقیقت نبوت اور ذات نبوی ہے ۔ اور اس محور کے متعلقہ حقائق کو اس میں لیا گیا ہے ۔ اس میں نظر آتا ہے کہ بڑے بڑے اصول چھوٹی چھوٹی عبارتوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اللہ کی رحمت کو مجسم کرکے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق اور طرز عمل کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ آپ کی ذات کریمہ نہایت ہی مہربان ‘ نہایت ہی رحم دل ‘ نہایت ہی نرم اور نہایت ہی سہل شکل میں پیش کی گئی ہے ۔ نظر آتا ہے کہ لوگ پروانوں کی طرح ان کے اردگرد جمع ہوتے ہیں ۔ آپ کے اردگرد ہر وقت ایک بڑی تعداد جمع رہتی ہے ۔ پھر اس محفل میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ اس جماعت کا قیام جس کے نظام کے تحت ہے وہ اصول شوریٰ پر قائم ہے ۔ حکم دیا جاتا ہے کہ یہ جماعت باہم مشورہ کرکے فیصلے کرے ‘ اگرچہ اس مشورے کے تحت ہونے والے فیصلوں کے نتائج تلخ ہوں۔ پھر شوریٰ کے اصول کے ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ دانشمندی اور شوریٰ کے ذریعے فیصلے کئے جائیں اور پھر ان پر عمل کیا جائے ۔ اور یہ عمل فیصلہ کن ہو ۔ اور شوریٰ اور عزم کے بعد پھر توکل کرکے کام کیا جائے ۔ جب منصوبہ تیارہوجائے ‘ اس پر شوریٰ ہوجائے اور پھر اس فیصلہ کن عمل اور اس کا اجراء (Execution) شروع ہوجائے اور اس کے لئے ہر قسم کا انتظام ہوجائے ‘ تو پھر توکل علی اللہ کا مرحلہ آتا ہے اور پھر قدرت الٰہیہ اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔ پھر مسلمان اپنا کام اللہ کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اس لئے کہ تمام امور میں حقیقی فاعل اور حقیقی متصرف تو صرف اللہ کی ذات ہے ۔ حقیقی تصرف اس کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا ۔ تمام نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ ان امور کے ساتھ ساتھ پھر یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت بہت ہی بڑا جرم ہے ۔ اس سے طمع اور لالچ کا اظہار ہوتا ہے۔ جماعت کے اندر افراتفری پیدا ہوتی ہے ۔ اس پیراگراف میں بتایا جاتا ہے جو شخص اللہ کی رضامندی کے لئے کام کرتا ہے اور جو اللہ کی نافرمانی اور غضب کی راہ پر ہے ان دونوں میں بڑا فرق و امتیاز ہے ۔ دونوں کی اقدار اور ترجیحات میں فرق ہوتا ہے ۔ دونوں کے پیمانہ نفع ونقصان میں فرق ہوتا ہے ۔ آخر میں اہل اسلام اور اہل دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تمہارے لئے بڑی نعمت ہے اور تم پر ایک عظیم احسان ہے اور معمولی اموال غنیمت جس کے لئے تم دوڑتے ہو اس قیمتی اثاثہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ نیز اس عظیم خزانے کے حصول کے لئے وہ مصائب کچھ نہیں جو تم پر آئے ہیں ۔ یہ عظیم دولت تو عظیم قربانی کا تقاضا کرتی ہے ۔ ہدایات ومعانی کی یہ فوج ہے جو چند فقروں اور آیات میں دریا کو کوزے میں بند کرکے پیش کردی گئی ہے ۔ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بڑے نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ اور اہم امور میں ان سے مشورہ کیا کرو ۔ پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “ یہاں روئے سخن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے ۔ لیکن یہ بات رسول کی قوم کی کچھ کمزوریوں کو سامنے رکھ کر کی جارہی ہے کہ پہلے وہ مدینہ سے باہر نکلنے میں بڑے پرجوش تھے ۔ اس کے بعد ان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا ۔ پورے لشکر کا ایک تہائی حصہ تو جنگ سے پہلے ہی واپس ہوگیا۔ اس کے بعد تیراندازوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کی ۔ انہوں نے مال غنیمت دیکھ کر کمزوری کا مظاہرہ کیا ۔ پھر جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی جھوٹی خبر عام ہوگئی تو یہ لوگ کمزور پڑگئے اور الٹے پاؤں پھرگئے ۔ اور ہزیمت قبول کرلی ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قلیل تعداد کے ساتھ جم گئے ‘ زخم پر زخم آتے رہے اور ساتھی چھوڑگئے ۔ پھر آپ نیچے سے پکارتے ہیں لیکن وہ بھاگے چلے جارہے تھے اور کسی کی طرف ان کی توجہ ہی نہ ہورہی تھی ۔ اس صورت حال میں روئے سخن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتا ہے اور مسلمانوں کو یہ شعور واحساس دیا جاتا ہے کہ ان پر اللہ کا کس قدر عظیم انعام ہے ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں دونوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ یہ مجسم خلق کریم اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے کہ وہ اس کے محور کے اردگرد جمع ہورہے ہیں ۔ اس طرح رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں پوشیدہ جذبات رحمت کو جوش میں لایا جاتا ہے اور آپ صبر کرکے ان کی وہ تمام لغزشیں معاف فرماتے ہیں اور دوسری طرف ان کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اس رؤف رحیم نبی کی صورت میں ان پر کس قدر انعام ہوا ہے ۔ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ان کے لئے عفو و درگزر کا سوال کریں ۔ اور یہ کہ حسب سابق ان کے ساتھ مشورہ کرتے رہیں اور یہ نہ ہو کہ احد میں مشورے کے نتیجے میں جو معرکہ ہوا اور اس میں جو نامطلوب نتائج نکلے ‘ اس کی وجہ سے باہم شوریٰ جیسے اہم کام کو بند کردیں۔ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ……………” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تنگ خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ “ یہ اللہ کی رحمت تھی جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی شامل حال تھی اور آپ کو ان کے لئے رحیم وشفیق اور نرم خو بنادیا اور خود ان کے لئے بھی رحمت تھی کہ آپ نے بوجہ نرمی مزاج ان سے باز پرس نہ کی ۔ اگر آپ سنگ دل ہوتے ‘ تنگ مزاج ہوتے تو یہ جمعیت منتشر ہوجاتی ‘ لوگوں کے خیالات آپ کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوتے ۔ عوام الناس کو تو ایک پر شفقت بارگاہ درکار ہوتی ہے ‘ جہاں ان کے ساتھ نہایت رعایتی برتاؤ کیا جاتا ہو ‘ جہاں خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا جاتا ہو ‘ جہاں سے انہیں محبت ملتی ہو ‘ جہاں ان کی غلطیوں ‘ کمزوریوں اور نقائص سے درگزر کیا جاتا ہو ۔ جہاں قائد اتنے بڑے دل کا مالک ہو کہ وہ انہیں سب کچھ دے رہا ہو ‘ لیکن ان سے کچھ نہ لے رہا ہو ‘ جہاں قائد اپنے پیروکاروں کی مشکلات اپنے سر لیتا ہو لیکن ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالتاہو ‘ اور جہاں پیروکاروں کو ہمیشہ رعایت ‘ اہمیت ‘ خندہ پیشانی ‘ نرمی اور محبت اور رضامندی ملتی ہو اور رسول اکرم کا دل ایسا ہی دل تھا اور آپ کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ بعینہ ایسا تھا۔ کبھی وہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی پہ غصہ نہیں ہوئے ‘ کبھی بھی انسانی کمزوری کی وجہ سے آپ نے تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ کبھی آپ نے اس دنیا کے مفادات میں سے کسی مفاد کو ‘ اپنی ذات کے لئے مخصوص نہیں کیا ۔ بلکہ آپ کو جو کچھ بھی ملا آپ نے کھلے ہاتھوں سب کچھ ان پر تقسیم کردیا ۔ غرض آپ کے صبر ‘ حلم ‘ ہمدردی ‘ محبت اور شرافت نے ہمیشہ انہیں ڈھانپے رکھا ۔ اور ان میں سے جس نے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یکجا زندگی کے کچھ ایام بسرکئے یا آپ کو محض ایک نظر ہی دیکھ لیا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گرویدہ ہوگیا۔ اس لئے ذات باری نے آپ کو ایک عظیم اور رحیم وکریم شخصیت عطافرمائی تھی ۔ اور یہ سب کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی اللہ کی رحمت تھی اور دوسرے پہلو سے آپ کی امت پر بھی کرم تھا۔ اس کرم کو یاد دلاکر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ اصولی بات بتاتے ہیں جس پر آئندہ جماعت مسلمہ کی تنظیم ہونا مطلوب تھی وہ یہ کہفَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” اور ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ یہ ایک قطعی نص ہے اور تاکیدی ہے ۔” ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ اسلام یہ اصول نظام حکومت میں لازم قرار دیتا ہے ۔ اگرچہ اس نظام حکومت میں ہیڈآف اسٹیٹ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ یہ قطعی نص اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی کہ اسلامی نظام مملکت میں شوریٰ ایک اساسی اصول (Principle) ہے۔ اس کے سوا اسلام کا نظام مملکت قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ رہی یہ کہ شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہو ‘ شوریٰ کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے ‘ تو یہ ایسے امور ہیں جن کی صورت اور شکل مختلف ہوسکتی ہے۔ ہر علاقے کے حالات کے مطابق مختلف شکل و صورت میں شوریٰ قائم کی جاسکتی ہے ۔ ہر وہ شکل و صورت جس کے ذریعہ شوریٰ کے مقاصد پورے ہوسکیں ۔ یہ نہ ہو کہ محض ایک دکھاوا ہو ۔ جس صورت اور جس شکل میں صحیح اغراض پورے ہوں وہی اسلامی ہوگی۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ جب یہ آیت اتری تھی تو اس سے پہلے مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوگیا تھا اور شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے احد کی جنگ لڑی گئی اور جس کے تلخ نتائج برآمد ہوئے ۔ اس شوریٰ کے انعقاد کی وجہ سے پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ اسلامی صفوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ‘ آراء مختلف ہوئیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمان مدینہ میں پناہ لیتے ہوئے لڑیں ۔ جب دشمن حملہ کرے تو تنگ گلیوں کے اندر اسے آلیاجائے لیکن اس کے مقابلے میں ایک پرجوش گروہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر میدان میں معرکہ آرائی کی جائے ۔ ان اختلافی آراء ہی کی وجہ سے لشکر اسلام میں تفرقہ ہوگیا اور عبداللہ بن ابی بن السلول کو موقع مل گیا کہ وہ ایک تہائی لشکر کو لے کر واپس ہوجائے ۔ یہ اس وقت ہوا جب دشمن دروازے پر کھڑا تھا۔ یہ ایک بڑا حادثہ تھا ‘ اور اسلامی صفوں میں بظاہر بڑی دراڑ تھی ۔ پھر اس شوریٰ کے نتیجے میں جو فوجی منصوبہ تیار ہوا ‘ وہ عملاً ظاہر ہوگیا کہ وہ کوئی محفوظ جنگی اسکیم نہ تھی ۔ خود جنگی نقطہ نظر سے ۔ اس لئے کہ مدینہ کی دفاعی تاریخ سے یہ منصوبہ مختلف تھا جیسا کہ عبداللہ ابن ابی ابن السلول نے اس مجلس میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت بتائی تھی کہ وہ جب بھی مدینہ کے اندر لڑے ہیں کامیاب رہے ہیں اور غزوہ احزاب میں خود مسلمانوں نے بھی جنگ احد کی اسکیم کی تصحیح کرتے ہوئے مدینہ کے اندر لڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ کامیاب بھی رہے ۔ انہوں نے خندق کھودی ۔ دشمن کے مقابلے میں باہر نہ نکلے ۔ اس لئے کہ جنگ احد میں انہوں نے جو تجربہ حاصل کیا تھا اس کا یہی تقاضا تھا۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے نتائج خطرناک ہوں گے ۔ آپ کے پاس رویائے صادقہ کے ذریعے بھی کچھ اشارات آچکے تھے ۔ آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ کے خواب بالکل سچے ہوتے ہیں ۔ آپ نے اس کی یہ تاویل پہلے سے کردی تھی کہ آپ کے خاندان میں سے کوئی شہید ہونے والا ہے اور آپ کے ساتھی بھی شہادت پانے والے ہیں ۔ نیز آپ کے خوابوں کی تعبیر کرتے ہوئے مدینہ کو محفوظ ڈھال قرار دیا تھا۔ ان حالات میں آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ آپ مجلس شوریٰ کے فیصلے کو ویٹو کردیتے لیکن آپ نے بادل ناخواستہ اس فیصلے کو نافذ (Execute) کیا۔ حالانکہ اس کے پیچھے جو مشکلات جو قربانیاں اور جو نقصانات پوشیدہ تھے ‘ انہیں آپ کی پیغمبرانہ بصیرت دیکھ رہی تھی ۔ اس لئے کہ اصول شوریٰ کی بنیاد رکھی جارہی تھی ‘ جماعت کو تعلیم دی جارہی تھی ‘ اور یہ امور ان وقتی خساروں سے زیادہ اہم تھے ۔ حق تو یہ تھا کہ کم ازکم معرکہ احد کے بعد اصول شوریٰ کو ترک کردیا جاتا ۔ کیونکہ اس شوریٰ کی وجہ سے اختلاف ہوئے ‘ اسلامی صفوں میں انتشارپیدا ہوا۔ اور یہ انتشار مشکل حالات میں ہوا۔ اور معرکے کے بعد خوفناک نتائج سامنے آگئے ۔ لیکن اسلام نے ایک امت کو برپا کرنا تھا ‘ اس کی تربیت کرنی تھی ‘ اسے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے تیار کرنا تھا ‘ اور اللہ تعالیٰ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی قوم کی بہترین تربیت اور اس کو ایک ہدایت یافتہ بنانے کے لئے صرف اصول شوریٰ پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ اسے شوریٰ کے نتائج برداشت کرنے کے لئے بھی تیار کرنا تھا۔ اس سے غلطیاں سرزد کرانی تھیں ‘ چاہے وہ جس قدر عظیم ہوں تاکہ آئندہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں آگے بڑھے ‘ چاہے یہ نتائج کتنے ہی تلخ ہوں ‘ وہ اپنی تصحیح کرسکے ۔ اور اپنی آراء کے نتائج ‘ اچھے یابرے بھگت سکے ۔ اس لئے کہ جب تک اس سے غلطی سرزد نہ ہوگی ‘ وہ درستی کر ہی نہیں سکتی ۔ اگر کسی نقصان کے نتیجے میں ایک ایسی امت وجود میں آتی ہے ‘ جو تجربہ کار ‘ فہیم اور نتائج کو برداشت کرنے والی ہو تو ان نقصانات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ اور اگر کسی قوم کے نقصانات غلطیوں اور لغزشوں کو محدود کردیا جائے لیکن اسے تجربات سے بھی محروم کردیاجائے تو یہ امت اسی طرح ناتجربہ کار رہے گی جس طرح بچہ ناتجربہ کار رہتا ہے۔ وہ ایک ایک قدم پر نگران کے تحت ہوتا ہے ۔ اس حالت میں بچے کی طرح اس قوم کو مادی نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے لیکن اور مادی مفادات بھی اسے دستیاب نہیں ہوسکتے ‘ نفسیاتی لحاظ سے اس قوم کو خسارہ ہوتا ہے ‘ اس کے باوجود کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ اس کی تربیت ناقص ہوتی ہے اور عملی زندگی کا اسے کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ اور اس کی مثال اس بچے کی سی ہوتی ہے جسے کوئی چیز ہاتھ میں نہیں دی جاتی۔ اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی قوم تیار کرے جو ایک تجربہ کار قوم ہو۔ اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اسے بشریت کی ہدایت یافتہ قیادت کے لئے تیار کیا جائے ۔ اس لئے یہ ضروری تھا کہ یہ امت ایک بالغ امت ہو اور اس کی عملی زندگی میں اسے گرنے پڑنے سے بچانے کے لئے کوئی مددگار نہ دیا جائے تاکہ وہ تجربہ کار ہو۔ اور یہ تجربہ اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں حاصل ہو۔ اور آپ کی نگرانی میں ہو۔ اگر ایک بالغ النظر قیادت کی وجہ سے یہ مناسب ہوتاق کہ اب شوریٰ کی ضرورت نہیں ہے ‘ اور امت کی تربیت ضروری نہ ہوتی اور خطرناک واقعات میں اس کے ساتھ مشورے اور اس کی آراء پر چلنے کی ضرورت نہ ہوتی مثلاً معرکہ احد جیسے مراحل میں ‘ کیونکہ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا ‘ اس وقت امت مسلمہ ایک نوخیز امت تھی ‘ ہر طرف سے خطرات میں گھری ہوئی تھی ‘ دشمن چار سوگھات میں تھے ۔ اس لئے ایسے حالات میں اگر مناسب ہوتا کہ بالغ نظر قیادت سب فیصلے خود کرتی اور اسے حق بھی تھا اور ایسے حالات میں شوریٰ کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ حالات خطرناک تھے ‘ اور پھر اس وقت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موجود تھے اور وحی بھی آرہی تھی تو ایسے حالات میں امت کو حق شوریٰ سے محروم کیا جاسکتا تھا ۔ اور خصوصاً ان حالات میں جبکہ احد میں تمام ترتلخ واقعات شوریٰ ہی کی وجہ سے ظاہر ہوئے ‘ حالانکہ اس وقت یہ امت نہایت ہی خطرناک اور ہنگامی حالات سے گزررہی تھی لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود مبارک کے باوجود ‘ وحی الٰہی کے آنے اور آتے رہنے کے باوجود ‘ اور اس قسم کے تلخ نتائج شوریٰ ظہور پذیر ہونے کے باوجود اور خطرناک اور ہنگامی حالات موجودہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حق شوریٰ کو ختم نہ فرمایا۔ چاہے جس قدر نقصان ہوجائے ‘ چاہے اسلامی افواج میں جس قدر اختلاف وافتراق پیدا ہوجائے ‘ چاہے اس کے جس قدر تلخ نتائج ظہور پذیر کیوں نہ ہوں ‘ چاہے مدینہ کے اردگرد کے حالات اس نوخیز امت کے لئے بہت خطرناک اور ہنگامی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے کہ یہ تمام امور ایک بالغ اور تجربہ کار امت کے بروئے کار لانے کے مقصد عظیم کے مقابلے میں ضروری واقعات ہیں ۔ مقصد یہ تھا کہ عملاً امت تجربہ کار ہو ‘ اچھی یا غلط رائے کے نتائج ہضم کرنے کے اہل ہو ۔ کسی رائے اور عمل کے نتائج کا ادراک کرسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ ایسے حالات میں یہ آیت نازل ہوئی : فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو ‘ ان کو شریک مشورہ رکھو۔ “ فیصلہ یہ کیا گیا کہ خطرناک ترین حالات میں بھی اس اصول ‘ اصول مشورہ کا بحال رکھنا ضروری ہے ۔ اور احد جیسے حالات میں اور ان کے بعد جیسے حالات میں بھی اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اور مقصود یہ تھا کہ آئندہ کے لئے کوئی بہانہ نہ بنائے کہ چونکہ مشورہ کے بعد بعض برے نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں اس لئے ہم اس اصول کو ساقط کرتے ہیں ۔ مثلاً احد کے حالات اس کی بہترین مثال ہیں ۔ کہ دشمن دروازے پر دستک دے رہا تھا لیکن مشورہ بھی جاری تھا۔ اس لئے ایک بالغ النظر امت تب ہی پیدا ہوسکتی ہے جب اصول مشورہ لازمی ہو ‘ اور پوری قوم کی بالغ النظری وہ قیمتی مقصد ہے جس کے لئے چھوٹے بڑے خسارے برداشت کئے جاسکتے ہیں ۔ لیکن اسلامی نظام کی سیاسی تصویر اور تشکیل اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم اس آیت کے اگلے حصے پر غور نہ کریں۔ یہ بات عیاں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ مجلس شوریٰ کے نتیجے ہمیشہ قابل ترجیح اور دانشمندانہ فیصلہ ہوجائے ۔ آخرکارفیصلہ یہی ہوگا کہ کسی ایک بات پر توکل علی اللہ کرکے عمل شروع کردیاجائے۔ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ……………” اور جب کوئی آخری فیصلہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “ شوریٰ کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف آراء سامنے آجائیں اور مجلس میں جو آراء پیش ہوں ان سے ایک کو قبول کرلیا جائے ۔ جب کوئی فیصلہ ہوجائے تو اس وقت شوریٰ کا کام ختم ہوجاتا ہے اور اب فیصلے کے نفاذ (Execution) کا دور شروع ہوجاتا ہے ۔ اور اس تنقیدی مرحلے کے لئے بڑے پختہ عزم اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے ۔ اس مرحلے پر اللہ پر بھروسے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور معاملہ اب اللہ کے ہاں چلا جاتا ہے ۔ اللہ کی تقدیر کے سپرد ہوجاتا ہے ۔ اب یہ اللہ کی مشیئت کا کام ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ اور نتائج ظاہر کرتی ہے ۔ جس طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ربانی انداز میں شوریٰ کا سبق پڑھایا۔ امت کو دکھایا کہ اظہار رائے کا انداز کیا ہوتا ہے اور فیصلے کے بعد اس کے نتائج کو کس طرح برداشت کیا جاتا ہے خصوصاً خطرناک حالات میں ۔ اسی طرح رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کے فیصلے ‘ کسی شورائی فیصلے کی تنفیذ کے سلسلے میں بھی سبق دیا۔ اور توکل علی اللہ کا انداز بھی سکھایا۔ اور اپنے آپ کو تن بتقدیر اللہ کے حوالے کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ۔ حالانکہ واقعات کے رونما ہونے کا آپ کو اچھی طرح اندازہ تھا۔ واقعات کا رخ آپ کے علم میں تھا لیکن آپ نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے فیصلے کی تنفیذ فرمادی ۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور زرہ اور خود زیب تن فرمائی ۔ اور آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں ؟ آپ اور آپ کے صحابہ کو کن مصائب اور مشکلات سے دوچار ہونا ہے ۔ یہاں تک کہ جب باہر لڑنے والے پرجوش لوگوں نے دوبارہ مشورہ دیا اور موقعہ فراہم کردیا کہ فیصلے کو بدل دیاجائے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک کو پڑھ کر انہوں نے محسوس کرلیا کہ ان کے جوش و خروش نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باہر لڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ حالانکہ آپ ایسا نہ چاہتے تھے اور انہوں نے دوبارہ اختیار آپ کو دے دیا کہ آپ مدینہ کے اندر لڑیں یا باہرلڑیں تو آپ نے اس پر دوبارہ غور کرنے کے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ آپ انہیں ایک سبق دینا چاہتے تھے ۔ آپ شوریٰ (Parliament) کے فیصلوں کی مثال قائم کرنا چاہتے تھے ۔ یہ چاہتے تھے کہ جب فیصلہ پختہ اور آخری ہوجائے تو پھر دوبارہ غور کے بجائے اس کا نفاذ چاہئے ۔ اللہ پر توکل کرنا چاہئے جو ہو ‘ سو ہو۔ آپ یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ شوریٰ کا ایک ہی وقت ہوتا ہے ۔ فیصلے کے بعد تردد اور ڈانواں ڈول نہیں ہونا چاہئے ۔ دوبارہ غور کرکے از سر نوفیصلہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ اس طرح کوئی بات آخری نہ رہے گی ‘ فیصلے بار بار بدلیں گے اور دوبارہ غور کی اگر مثال قائم ہوجائے تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہوگا ۔ بس شوریٰ (Parliament) کا فیصلہ ہو اور پھر نفاذ ہو اور توکل علی اللہ ہو اس لئے کہ اسے اللہ پسند کرتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ……………” بیشک اللہ تعالیٰ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔ “ اور وہ صفت جسے اللہ پسند کرتے ہیں اور اس صفت سے متصف لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں تو اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ صفت ان کے اندر بدرجہ کمال پائی جائے اور وہ اس کے لئے بےحد حریص ہوں بلکہ وہ مومنین کی صفت ممتاز ہونی چاہئے ۔ توکل علی اللہ اور سپردم بتومایہ خویش را ‘ اسلامی تصور حیات اور اسلامی زندگی کا خط توازن ہے ۔ اب معاملہ اس کائنات کی عظیم حقیقت کے سپرد ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ آخری فیصلہ اللہ کے ہاں ہوگا ‘ اب وہ ہوگا جو وہ چاہے ۔ احد کے عظیم تجربات میں سے ایک عظیم تجربہ اور یہ ایک عظیم سبق تھا۔ یہ سبق امت مسلمہ کے لئے ہر اس دور اور ہر زمانے میں ایک قیمتی سرمایہ ہے ۔ یہ صرف ایک دور ہی کی بات نہیں ہے بلکہ ہر دور کے لئے ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کریمانہ غزوہ احد کے موقعہ پر مسلمانوں سے جو لغزش ہوگئی تھی اور میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے جس سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غم پہنچا اور تکلیف ہوئی اس پر آپ نے ان سے سختی کا معاملہ نہیں کیا۔ ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی اللہ تعالیٰ شانہ نے آپ کے ان کریمانہ اخلاق اور آپ کی نرم مزاجی کی اس آیت میں تعریف فرمائی۔ نیز مسلمانوں کی بھی دلداری اور دل جوئی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اول تو دو مرتبہ اپنی طرف سے معافی کا اعلان فرمایا۔ جس کا ذکر پچھلے رکوع میں آچکا ہے پھر اس آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ آپ بھی معاف فرما دیں اور نہ صرف یہ کہ خود معاف فرما دیں بلکہ ان کے لیے اللہ جل شانہ سے بھی استغفار کریں۔ اور مزید دلداری یوں فرمائی کہ آپ کو ان سے مشورہ لینے کا حکم دیا پھر فرمایا کہ مشورہ کے بعد جس طرف آپ کی رائے پختہ ہوجائے اللہ کے بھروسہ پر اس پر عمل کر لیجیے جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اعتماد رکھتے ہیں وہ اللہ کو محبوب ہیں۔ خوش خلقی کا بلند مرتبہ : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش اخلاق و خوش مزاج ہمیشہ ہی سے تھے اس موقعہ پر خاص طور پر اس کا مظاہرہ ہوا۔ مؤطا میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کی تکمیل کروں۔ حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ سب سے زیادہ بھاری چیز قیامت کے دن جو مومن کی ترازو میں رکھی جائے گی وہ اچھے اخلاق ہوں گے اور بیشک اللہ کو فحش گو اور بد زبان مبغوض ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بیشک مومن اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے راتوں رات نماز پڑھنے والے اور دن بھر روزہ رکھنے والے کا درجہ پا لیتا ہے۔ نرمی خوش خلقی کا بہت بڑا جزو ہے صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نرمی سے محروم ہوگیا وہ خیر سے محروم ہوگیا۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ نرمی جس کسی چیز میں بھی ہوگی اسے زینت دے دے گی اور جس چیز سے نرمی نکال جائے گی وہ عیب دار ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں بتادوں جو آتش دوزخ پر حرام ہے اور جس پر آتش دوزخ حرام ہے پھر فرمایا کہ یہ صفت اس شخص کی ہے جس سے ملنا جلنا آسان ہو نرم مزاج ہو قریب ہو سہل ہو، سنن ابو داؤد میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سخت مزاج بد اخلاق داخل نہیں ہوگا۔ (یہ روایات مشکوٰۃ المصابیح باب الرفق والحیار و حسن الخلق) میں مذکور ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو تمام خلق حسن والوں کے سردار تھے۔ آپ کیوں نرم نہ ہوتے آپ کو بڑی بڑی تکلیفیں پہنچیں سب کو سہہ گئے اور نرمی کے ساتھ نباہ گئے۔ یہ جو فرمایا (وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ) (اور اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے) اس میں جہاں آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوش خلقی اور نرم مزاجی اور رأفت اور شفقت کا ذکر ہے وہاں اس امر کی بھی تصریح ہے کہ یہ صحابہ جو آپ کے پاس جمع ہیں اور آپ سے بےپناہ محبت کرتے ہیں اور دل و جان سے آپ پر نثار ہیں اس میں اس کا بہت دخل ہے کہ آپ سخت مزاج اور سخت دل نہیں ہیں اگر خدا نخواستہ آپ ایسے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے اور منتشر ہوجاتے۔ معلمین اور مرشدین خوش خلقی اختیار کریں : انسان کا مزاج ہے کہ بردبار و خوش اخلاق متواضع اور منکر المزاج کے پاس جانا اور اٹھنا بیٹھنا اور اس سے فیض لینا اور علم و معرفت حاصل کرنا پسند کرتا ہے جو حضرات حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب ہیں معلم ہیں محدث ہیں، مفتی ہیں، مرشد ہیں، مبلغ ہیں داعی اور ہادی ہیں، ان لوگوں کے لیے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے، اگر امت کو علم سکھانا اور فیض پہنچانا ہے تو نرم مزاج، نرم خو، شفیق اور مہربان بردبار بنیں ورنہ صاحب بڑے عالم اور اونچے درجہ کے مرشد ہیں اور ہمیں ان سے فیض مل سکتا ہے پھر بھی فیض لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، یوں تو ہر مسلمان ہی کو خوش خلق اور نرم مزاج ہونا چاہیے لیکن خاص کر مسلمین مصلحین، مبلغین مرشدین کو تو بہت ہی زیادہ اس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے۔ حضرت سعدی (رح) نے کیا اچھا فرمایا : کس نہ بیند کہ تشنگان حجاز برلب آب شور گرد آیند ہر کجا چشمہ بود شیریں مردم و مرغ و مور گرد آیند کمال یہی ہے کہ عامۃ المسلمین میں گھل مل کر رہے۔ خیر کے کام کرے خیر کی تعلیم دے اور ان سے جو تکلیف پہنچے اس کو برداشت کرے۔ اپنی ذاتی نیکیوں کو لے کر تنہائی میں بیٹھ جانا تاکہ لوگ تکلیف نہ دیں اس میں وہ بات نہیں جو خیر پہنچانے اور تکلیف اٹھانے میں ہے۔ سنن مذتری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان لوگوں میں گھل مل کر رہتا ہے اور ان سے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو گھل مل کر نہیں رہتا اور لوگوں کی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٣٢) مشورہ کرنے کا حکم : پھر فرمایا (وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ) اللہ جل شانہ نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ فرمانے کا حکم دیا۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی اپنے صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اور اس کے بعد بھی آپ نے مشورے فرمائے۔ آیت شریفہ میں مشورے کا حکم دے کر حضرات صحابہ کی اللہ تعالیٰ نے دلجوئی فرمائی اور ان کا اعزازو اکرام فرمایا یہ مشورہ ان امور میں نہیں تھا جہاں کوئی نص قطعی اور واضح حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے موجود ہو، جن امور کو آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد فرما دیا گیا ان میں مشورہ کرنے کا حکم فرمایا۔ مشورہ کی ضرورت اور اہمیت : اس سے مشورے کی اہمیت اور ضرورت ظاہر ہوئی اور یہ بھی پتہ چلا کہ جب سید الاولین والآخرین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشورہ سے مستغنی نہیں تو آپ کے بعد ایسا کون ہوسکتا ہے جو مشورہ سے بےنیاز ہو، آئندہ آنے والے امراء اور اصحاب اقتدار اور امت کے کاموں کے ذمہ دار جو بھی آئیں سب کے لیے مشورہ کرنے کی ضرورت واضح ہوگئی۔ مشورہ میں بہت خیر ہے جو اصحاب رائے ہوں خواہ عمر یا مرتبہ میں چھوٹے ہی ہوں ان کو مشورہ میں شریک کرنا چاہیے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مشورہ کرنے کی صورت میں مختلف رائیں سامنے آجاتی ہیں۔ ان رایوں کے درمیان سے کسی مناسب ترین رائے کو اختیار کرلینا آسان ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ بڑے کی نظر سے وہ گوشے اوجھل رہ جاتے ہیں جو چھوٹوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ تمام گوشے سامنے آنے سے کسی پہلو کو اختیار کرنے میں بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلاَ نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ (یعنی جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہ ہوگا۔ اور جس نے مشورہ کیا اسے ندامت نہ ہوگی) ۔ (ذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد) خانگی امور میں اور اداروں کے معاملات میں مشورے کرتے رہنا چاہیے جن لوگوں سے مشورہ کیا جائے ان کی ذمہ لازم ہے کہ وہ وہی رائے دیں جسے اپنی دیانت سے فیما بینھم و بین اللّٰہ صحیح سمجھتے ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ان المستشار مؤتمن (یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے) (اخرجہ الترمذی فی ابواب الزہدو ابن ماجہ فی کتاب الادب) اگر کوئی شخص اپنے ذاتی معاملہ میں مشورہ کرے تب بھی اسے وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ سنن ابو دواؤد میں ہے کہ آنحضرت سرورعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ من اشار علی اخیہ بامر یعلم ان الرشد فی غیرہ فقد خانہ (جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جس کو وہ سمجھتا ہے کہ مشورہ لینے والے کی بہتری دوسری رائے میں تھی جو پیش نہیں کی گئی تو اس نے خیانت کی) (رواہ ابو داؤد فی کتاب العلم) اور حضرت علی (رض) سے اس کا قاعدہ کلیہ مروی ہے جسے علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ صفحہ ٣٨٣ میں نقل کیا ہے اور وہ یہ کہ فاذا استشیر احد کم فلیشر بما ھو صانع لنفسہ (کہ جب کسی سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ مشورہ دے جسے وہ اپنے لیے اختیار کرتا اگر وہ خود اس حال میں مبتلا ہوتا جس میں مشورہ لینے والا مبتلا ہے) اور یہ مضمون اس حدیث کے مطابق ہے جس میں افضل الایمان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک (یعنی یہ کہ تو لوگوں کے لیے اسی کو پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے لوگوں کے لیے اس چیز کو ناپسند جانے جس کو اپنے لیے ناپسند جانتا ہے) (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٦) مشورہ کی شرعی حیثیت : مشورے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ( فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو اللہ پر تو کل کیجیے بیشک تو کل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں) مطلب یہ ہے کہ مشورے کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے فرما کر عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجیے اور اپنے عزم کے مطابق عمل کیجیے۔ اس میں یہ بات ظاہر ہے کہ مشورہ کرنے کے بعد آپ کو سب کے یا کسی ایک کے مشورے کا پابند ہونا ضروری نہیں۔ جس طرف آپ کا رحجان ہو اس پر عمل کرلیں اس میں مشورہ دینے والوں کو بھی دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں مشورہ دینا اور لینا ضائع نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر شخص کو غور و خوض کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کا ثواب مل چکا ہے اب آپ جس رائے کو مناسب جانیں (اور رایوں میں اپنی ذاتی رائے بھی ہے) اس پر عمل فرمائیں۔ اپنا عزم فرمانے کے بعد اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم فرمایا اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مشوروں اور تدبیروں کے بعد بھروسہ صرف اللہ ہی پر رہے بندوں کی رائیں اور تدبیریں صرف اسباب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسباب پر بھروسہ کرنا مومن کا کام نہیں، مومن کا بھروسہ صرف اللہ پر ہوتا ہے۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی مشورہ کی سنت جاری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مشورہ لینے والے کے لیے خواہ امیر المؤمنین ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا مشورہ مانے۔ باوجود مشورہ لینے کے اسے اپنی رائے پر عمل کرنے کا پورا پورا اختیار ہے۔ حق بات یہ ہے کہ جب مشورہ لینے والا بھی مخلص ہو اور مشورہ دینے والے بھی مخلص ہوں اور ہر ایک کو اللہ کی رضا مقصود ہو تو کسی وقت بھی بدمزگی پیدا ہونے کا موقعہ نہیں رہتا۔ آپس میں ضدا ضدی اور یہ اعتراض کہ میری رائے پر عمل کیوں نہ کیا اور امیر کی شکایت کہ وہ آمر مطلق ہے مشورہ کرکے بھی اپنی رائے پر عمل کرتا ہے۔ یہ سب باتیں جبھی ہوتی ہیں جب امیر اور مامور میں اخلاص نہ ہو اور آپس میں اعتماد نہ ہو اور امارت کے اصول پر امیر و مامور کو چلنے کا ارادہ نہ ہو، نفسانی اور دنیاوی چیزوں نے جگہ پکڑ رکھی ہو۔ اگر امیر کے انتخاب میں اللہ کی رضامندی کا دھیان رکھا ہو ار متقی آدمی کو امیر بنایا ہو جس کے علم و عمل اور اخلاص پر اعتماد ہو جو دنیا دار نہ ہو عہدہ کا طالب نہ ہو تو اس صورت میں امیر کا اپنی رائے پر عمل کرنا ناگوار نہ ہوگا۔ انتخاب تو غلط کریں اور پھر امیر کے خلاف احتجاج کرنے جلوس نکالنے کے جاہلانہ طریقوں سے امیر کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ ان دونوں باتوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ موجودہ جمہوریت اور اس کا تعارف زمانہ قدیم میں بادشاہتیں جاری تھیں ولی عہدی کے اصول پر بادشاہت ملتی تھی عرب و عجم میں بادشاہ تھے ان میں ظالم بھی تھے، رحم دل بھی تھے اور انصاف پسند بھی۔ لیکن بادشاہت کی تاریخ میں زیادہ تر مظالم ہی ملتے ہیں۔ ان مظالم سے تنگ آکر یورپ والوں نے جمہوریت کا طرز حکومت جاری کیا۔ اور اس کا نام عوامی حکومت رکھا۔ اس کے جو طریق کار ہیں انہیں عام طور سے سبھی جانتے ہیں۔ اس جمہوریت کا خلاصہ عوام کو دھوکہ دینا اور کسی ایک پارٹی کے چند افراد کے ملک پر مسلط ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عنوان یہ ہے کہ اکثریت کی رائے انتخاب میں معتبر ہوگی۔ اور انتخاب بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوگا اس میں امید وار کے لیے عالم ہونا، دیندار ہونا بلکہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں پڑھے لکھے اور بالکل جاہل، جپٹ مرد عورت امید وار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں اور بعض آزاد ہوتے ہیں ان میں بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اسلام کے نظام حدود و قصاص کو ظالمانہ کہتے ہیں جس کی وجہ سے حدودکفر میں داخل ہوجاتے ہیں اور انتخاب میں پارٹیوں کے زور پر اور سرداروں کے زور پر اور پیسوں کے زور پر ووٹ دینے والے بھی عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو دین اسلام کے تقاضوں کو نہیں جانتے لہٰذا بےپڑھے اور ملحد اور زندیق بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آجاتے ہیں۔ جس شخص کو زیادہ ووٹ مل گئے وہی ممبر منتخب ہوجاتا ہے اگر کسی سیٹ پر گیارہ آدمی کھڑے ہوں تو ان میں سے اگر دس آدمیوں کو ١٥۔ ١٥ ووٹ ملیں اور ایک شخص کو سولہ ووٹ مل جائیں تو یہ شخص سب کے مقابلہ میں کامیاب مانا جائے گا اور کہا یہ جائے گا کہ اکثریت سے منتخب ہوا حالانکہ اکثریت اس شخص کے مخالف ہے ڈیڑھ سو افراد نے اسے ووٹ نہیں دیئے۔ سولہ آدمیوں نے ووٹ دیئے ہیں ڈیڑھ سو کی رائے کی حیثیت نہیں یہ جمہوریت ہے جس میں ١٥٠ آدمیوں کی رائے کا خون کیا گیا اور سولہ افراد کی رائے کو مانا گیا۔ پھر پارلیمنٹ میں جس کسی پارٹی کے افراد زیادہ ہوجائیں اسی کی حکومت بن جاتی ہے اور وہ افراد اسی طریقہ پر پارلیمنٹ میں آئے ہیں جو ابھی ذکر ہوا اس طرح سے تھوڑے سے افراد کی پورے ملک پر حکومت ہوجاتی ہے اور پارٹی کے چند افراد اختیار سنبھال لیتے ہیں اور سیاہ وسفید کے مالک ہوجاتے ہیں خود پارٹی کے جو افراد کسی بات سے متفق نہ ہوں انہیں پارلیمنٹ میں پارٹی ہی کے موافق بولنا پڑتا ہے اپنی ذاتی رائے کا خون کردیتے ہیں۔ یہ جمہوریت اور اکثریت کی حقیقت ہے۔ پھر خدا کی پناہ مرکزی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم اور دوسرے وزراء کے بےت کے اخراجات بنگلے اور ان کی سجاوٹیں گاڑیاں ڈرائیور، پٹرول کا خرچ، باورچی، مالی اور دوسرے خادموں کی تنخواہیں اور وزیروں کی بےجا کھپت پارٹی کے آدمی ہونے کی بنیاد پر خواہ مخواہ عہدے نکالنا اور حدیہ ہے کہ وزیر بےقلمدان بنانا اور کثیر تعداد میں مشیروں کو کھپانا ان سب کا بوجھ قوم کی گردن پر ہوتا ہے۔ پھر ہر صوبہ کا گورنر، وزیر اعلیٰ دوسرے وزراء اور نائب وزراء ان سب اخراجات سے ملک کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک چلانے کے لیے سودی قرضے لیتے ہیں۔ اور قوم پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ انکم ٹیکس، برآمد ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی۔ یہ سب مصیبت قوم پر سوار ہوتی ہے اور عوام کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ تمہاری حکومت ہے عوام ان پارٹی بازوں اور سیاسی بازی گروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور سیدھا سادھا اسلامی نظام جس میں ایک امیر مرکزی حکومت میں ہو جس کا معمولی سا وظیفہ ہو۔ اور علاقوں میں چند امیر ہوں اور یہ سب لوگ سادگی کے ساتھ رہیں بقدر ضرورت واجبہ ان کو وظیفہ مل جائے معمولی سے گھر میں رہیں۔ اگر کسی کا اپنا گھر ہے تو اسی میں قیام پذیر ہو۔ اس نظام کو ماننے کے لیے لوگ تیار نہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جمہوریت ہے اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام میں شوریٰ کی بھی کوئی حیثیت ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ مگر اس کی حیثیت وہی ہے جو اوپر ذکر کردی گئی ایسی حیثیت جس میں پورے ملک میں انتخاب ہو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر کس وناکس ووٹر ہو اور کثرت رائے پر فیصلہ رکھا جائے اسلام میں ایسی جمہوریت نہیں ہے۔ بعض اہل علم بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اسلام کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بڑی محنتوں سے جمہوریت کو لائے ہیں اب اس کے خلاف کیسے بولیں۔ اور ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انتخاب میں کوئی بھی کیسا ہی بےدین منتخب ہوجائے جمہوریت جاہلیہ کی وجہ سے اس کے عہدہ کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں اب تو منتخب ہو ہی گیا عوام کی رائے کو کیسے ٹھکرائیں۔ قانون کے تابع ہیں اس کے خلاف چلنے بولنے کی کوشش کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔ حضرات خلفائے اربعہ کا انتخاب : یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان و علی (رض) خلفاء راشدین تھے ان حضرات کو منتخب کرتے وقت کوئی بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہوا۔ نہ پورے ملک سے ووٹ لیے گئے تاریخ اور سیرت کے جاننے والے اس امر سے واقف ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرات مہاجرین اور انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ وہاں اس بات کا مشورہ ہو رہا تھا کہ امیر کون ہو۔ انصار میں سے بعض حضرات یہ رائے دے رہے تھے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے ہو۔ حضرت ابوبکر و عمر (رض) بھی وہاں پہنچ گئے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ لائیے میں بیعت کرتا ہوں انہوں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ حضرت عمر (رض) نے بیعت کرلی اس کے بعد مہاجرین نے بیعت کرلی ان کے بعد انصار نے بیعت کی۔ یہ تو حضرت ابوبکر (رض) کا انتخاب تھا جو سب سے پہلے خلیفہ تھے۔ اس کی تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٤٦: ج ٥ میں مذکور ہے، اس کے بعد جب ابوبکر (رض) کی وفات ہونے لگی تو انہوں نے بغیر کسی مشورہ کے حضرت عمر (رض) کو خلیفہ بنا دیا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کو دشمن نے خنجر مار دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں جانبر ہونے والا نہیں ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ خلافت کا مستحق ان حضرات کے علاوہ کوئی نہیں جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی تھے اور اسی حالت رضا مندی میں آپ کی وفات ہوئی۔ پھر انہیں حضرات میں سے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے نام لیے اور فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیا جائے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میرا بیٹا عبداللہ بن عمر (رض) مشورے میں شریک ہوگا لیکن اسے خلافت سپرد نہ کی جائے اور فرمایا کہ اگر سعد کو منتخب کرلیا جائے تو وہ اس کے اہل ہیں۔ اور اگر ان کے علاوہ کسی دوسرے کو امیر بنا لیا جائے تو وہ ان سے مدد لیتا رہے جب حضرت عمر (رض) کی وفات ہوگئی اور ان کو دفن کردیا گیا تو وہ حضرات جمع ہوئے جن کو خلافت کے لیے نامزد فرمایا تھا کہ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا کہ تم سب اپنا معاملہ تین آدمیوں کے سپرد کرو حضرت زبیر (رض) نے فرمایا میں نے اپنا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد کیا اور حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عثمان (رض) کے سپرد کیا۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمن بن عوف (رض) کے سپرد کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) سے کہا کہ تم دونوں میرے سپرد کرتے ہو تو میں تم میں جو افضل ترین ہوگا اس کے انتخاب میں کوتاہی نہیں کروں گا ان دونوں نے کہا کہ ہاں ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دونوں سے علیحدہ علیحدہ تنہائی میں بات کی اور دونوں نے اقرار کیا کہ اگر میرے علاوہ دوسرے کو تم نے امیر بنا دیا تو میں فرمانبر داری کروں گا اس کے بعد انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے کہا لاؤ ہاتھ بڑھاؤ یہ کہہ کر ان سے خود بیعت کرلی اور حضرت علی (رض) نے بھی ان سے بیعت کرلی۔ دوسرے حضرات جو باہر منتظر تھے وہ بھی اندر آئے اور انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے بیعت کرلی۔ مفصل واقعہ صحیح بخاری صفحہ ٥٢٤: ج ١ میں مذکور ہے۔ یہ انتخاب خلیفہ ثالث کا تھا (اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) نے برضاء ورغبت حضرت عثمان (رض) سے بیعت کی تھی اور پہلے سے اقرار کرلیا تھا کہ اگر ان کو امیر بنا دیا گیا تو میں فرمانبر دار ہوں گا) ۔ جب حضرت عثمان (رض) کی شہادت ہوئی تو ان کی جگہ کسی امیر کے انتخاب کی ضرورت محسوس کی گئی اہل مصر جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کیا تھا وہ حضرت علی (رض) کو اصرار کرتے رہے کہ آپ خلافت کا بوجھ سنبھالیں لیکن وہ راضی نہ ہوئے اور باغوں کی طرف تشریف لے گئے۔ کوفہ والوں نے حضرت زبیر (رض) کو تلاش کیا وہ بھی نہ ملے۔ بصرہ والوں نے حضرت طلحہ (رض) سے عرض کیا انہوں نے انکار کردیا۔ پھر حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معروض پیش کی انہوں نے بھی قبول نہ کیا۔ حضرت ابن عمر (رض) کے پاس گئے انہوں نے بھی نہ مانا ساری کوششیں کرکے پھر حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خلافت قبول کرنے پر اصرار کرتے رہے آخر میں انہوں نے ذمہ داری قبول فرمائی۔ یہ تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٢٦: ج ٧ میں لکھی ہے۔ یہ چاروں خلفاء کا انتخاب تھا ان میں کبھی بھی پورے ملک میں الیکشن نہیں ہوا۔ بلکہ پورے صحابہ (رض) بھی شریک نہیں ہوئے نہ پورا مدینہ شریک ہوا چند افراد نے منتخب کرلیا سب نے مان لیا۔ ممکن ہے یورپ کی جمہوریت جاہلیہ سے مرعوب ہو کر بعض ناواقف یہ کہنے لگیں کہ صحیح طریقہ وہی ہے جو آج کل رواج پائے ہوئے ہے۔ ان حضرات نے انتخاب صحیح نہیں کیا۔ (العیاذ باللہ) اس جاہلانہ اپچ کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم عرض کردیتے ہیں کہ یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہنچتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے سورة توبہ کی آیت نمبر ١٠٠ میں مہاجرین اور انصار اور جو خوبی کے ساتھ ان کا اتباع کریں ان کی تعریف فرمائی اور ان کے بارے میں رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ فرمایا اگر انہیں حضرات نے اسلام کو نہیں سمجھا اور امیر کا انتخاب جس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں کیا تو ان کے بعد اسلام کو اور اسلام کے تقاضوں کو جاننے والا کون ہے ؟ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (رواہ ابو داؤد الترمذی) (کہ میرے طریقے کو اور خلفاء راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا) اگر ان حضرات کا اپنا انتخاب صحیح نہیں اور انہوں نے دوسروں کا انتخاب صحیح نہیں کیا تو وہ خلفاء راشدین ہو ہی نہیں سکتے اگر آج کے جاہلوں کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حضرات صحابہ (رض) میں سے کوئی بھی خلیفہ راشد نہیں ہوا (العیاذ باللہ) دشمنوں کے طریقہ کار سے مرعوب ہو کر اسلام کی تحریف اور تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاناایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

243 یہاں سے وَعَلیَ اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نہایت ہی مشفقانہ سلوک فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے نیک سلوک کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کا یہ سلوک محض اللہ کی مہربانی اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کے دل میں القا فرمایا کہ آپ ان سے رفق اور مہربانی کا سلوک کریں اگر اس موقعہ پر آپ ان صحابہ کا سختی سے نوٹس لیتے اور درشتی سے پیش آتے تو ان کے دل ٹوٹ جاتے اور ان کے دلوں میں نفرت کے جذبات انگڑائیاں لینے لگتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ آپ سے علیحدہ ہوجاتے۔ انہ (علیہ السلام) لما رفق بمن تولی یوم احد ولم یغنھم بین الرب تعالیٰ انہ انما فعل ذالک بتوفیق اللہ تعالیٰ ایاہ (قرطبی ج 4 ص 348) فَظٌّ بد زبان غَلِیْظَ الْقَلْبُ سخت دل۔ 244 صحابہ کرام سے مزید رحمت و شفقت سے پیش آنے کی تلقین فرمائی کہ ان سے جو غلطی ہوئی اس سے آپ بھی درگذر فرمائیں اور اللہ سے بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اور ان میں جو اصحاب رائے ہیں ان سے تو آپ جنگی معاملات اور دیگر امور جن کے بارے وحی سے کوئی حکم نازل نہ ہوا ہو ان سے مشورہ بھی فرمایا کریں اس سے ان کے دلوں میں مزید خوشی اور راحت پیدا ہوگی نیز ان کی قدر دانی ہوگی۔ وَشَاوِرْھُمْ ای فی امرالحرب ونحوہ ممالمینزل علیک فیہ وحی تطییبا لنفوسہم وترویحا لقلوبھم ورفعا لاقدارھم (مدارک ص 148 ج 1) ۔ 245 جب مشورہ وغیر ہولے اور آپ کسی کام کا عزم اور پختہ ارادہ کرلیں تو اس میں کامیابی کے لیے آپ کا اعتماد اور بھروسہ محض اللہ پر ہونا چاہئے نہ کہ اسباب وذرائع پر اور مشوروں پر المعنی اذا حصل الرای التاکد بالمشورۃ فلا یجب ان یقع الاعتماد علیہ بل یجب ان یکون الاعتماد علی اعانۃ اللہ وتسدیدہ وعصمتہ الخ (کبیر ج 3 ص 122) کیونکہ اسباب میں تاثیر پیدا کرنا اور باہمی صلاح ومشورہ سے سوچی ہوئی تدبیروں اور سکیموں کو کامیاب کرنا اور مقاصد وحاجات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لانہ سبحانہ السند الاقوم والمجا الاعظم الذی لا تؤثر الاسباب الا بہ ولا تنقضی الحاج الا عندہ بابہ (روح ص 108 ج 4) ۔ اس لیے جنگ و قتال سے پہلے تمام ممکنہ اسباب مہیا کرنے اور باہمی مشورہ کرنے کے بعد کامیابی کے لیے محض اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کر کے میدان جنگ میں کود پڑو اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھ دے گا۔ کیونکہ جو لوگ ظاہری اسباب مہیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ کرتے اور تمام نتائج کو اس کے سپرد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتا اور ان کی مدد فرماتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 باوجود اس کے کہ ان لوگوں سے کچھ کوتاہیاں ہوئیں پھر بھی اللہ تعالیٰ کی آپ پر اور مسلمانوں پر یہ مہربانی ہے کہ آپ ان کے حق میں نرم دل واقع ہوئے اور ان پر نرم دل رہے اور ان کو کوئی ملامت نہیں کی اور اگر آپ کہیں تند خو اور سخت دل ہوتے تو بات بات پر سخت گیری فرماتے تو یہ کبھی کے آپ کے پاس منتشر ہوچکے ہوتے پھر جب آپ کا برتائو ان سے مہربانی آمیز رہا اور آپ نے ان کی لغزش پر ان کو کچھ نہیں فرمایا تو اپنا حق ان کو دل سے بھی معاف کردیجیے اور زبان سے بھی ان کے لئے استغفار کردیجیے تاکہ ان کے لئے زیادہ موجب شفقت اور تسلی خاطر کا سبب ہو اور آئندہ بھی بدستور ان سے اہم اور مخصوص باتوں میں مشورہ کرتے رہا کیجیے یعنی ان باتوں میں جن میں وحی نازل نہ ہوئی ہو پھر جب مشورہ کرنے کے بعد کسی جانب پختہ رائے قائم کرلیں تو خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد کر کے اس کام کو کرلیا کیجیے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے توکل کرنیوالوں کو پسند فرماتا ہے جو مشورے کی برکت بھی حاصل کرلیں اور اللہ تعالیٰ پر تو کل بھی رکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت حق کی آپ پر اور آپ کی امت پر یہ مہربانی ہے کہ ان کے حق میں آپ قدرتی طور پر نرم واقع ہوئے ہیں۔ چناچہ باوجود اس کے کہ ان کی غلطی اور کوتاہی سے آپ کو تکلیف پہنچی اور آپ اگر چاہتے تو ان کو ملامت کرسکتے تھے لیکن آپ نے ضبط سے کام لیا اور ان کو ایک لفظ نہیں کہا اگر آپ خدانخواستہ کہیں تند خو اور سخت قلب ہوتے تو یہ لوگ بکھر جاتے اور آپ کے فیوض و برکات سے محروم ہوجاتے اور پھر خدا جانے کس ہلاکت کے گڑھے میں ج اگر تے۔ (تیسیر) یہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سیاسی اور بین الاقوامی غلطی پر ناراض ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو سمجھانے کا ایک عجیب و غریب عنوان مقرر کیا آپ کے اخلاق کی تعریف فرمائی اور تند خوئی کے نقصانات ظاہر فرمائے اور یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو آپ کی امت اس طرح آپ سے مستفیض نہ ہوتی اس کے بعد سفارش فرمائی کہ ہم نے تو ان کو معاف فرما دیا اب تم اپنا حق ان کو معاف کردو اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے استغفار بھی کردو تاکہ ان کے ساتھ آپ کی شفقت و مہربانی کی تکمیل ہوجائے اور ان کو اطمینان اور تسلی ہوجائے پھر آئندہ کے لئے ایک ضابطہ بھی تعلیم کردیا کہ جن امور میں اللہ تعالیٰ کی وحی آجائے اس میں تو کسی سے پوچھنے گچھ کرنے کی ضرورت نہیں البتہ دیگر امور میں ان سے دبستور مشورے کرتے رہا کیجیے کیونکہ ان کا دل بھی خوش ہوگا اور ہر ایک کی رائے بھی معلوم ہوجائے گی اور امت کے لئے یہ موجب رحمت ہوگا۔ جیسا کہ قتادہ سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت اتری تو فرمایا اللہ اور اس کے رسول کو تو مشورے کی ضرورت نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس باہمی مشاورت کو میری امت کے لئے ایک رحمت بنایا ہے۔ عبدالرحمان ابن غنم سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے فرمایا اگر تم دونوں کسی مشورے پر متفق ہو جائو تو میں اس کے خلاف نہ کروں یعنی میری یہ خواہش ہے کہ تم دونوں کے متفقہ مشورے کی مخالفت نہ کروں اور چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت عادت مشورے کی تھی اس لئے ہم نے بدستور عرض کیا ہے۔ جیسا کہ آپ نے احد جنگ میں مدینہ سے نکلنے نہ نکلنے کا مشورہ کیا پھر یہ مشورہ کیا کہ فوجوں کا پڑائو کہاں ہو غزوئہ احزاب میں مشورہ کیا غزوئہ حدیبیہ میں مشورہ کیا حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں اور تہمت لگانے والوں کے بارے میں مشورہ کیا چونکہ آپ ہمیشہ مشورہ فرماتے تھے اس لئے حضرت حق نے فرمایا کہ ان کی غلطی سے متاثر ہو کر مشورہ بند نہ کردینا بلکہ بدستور مشورہ کرتے رہنا۔ پھر آگے ایک اور ضابطہ فرمایا کہ جب آپ ایک رائے قائم کرلیں اور پختہ ارادہ کرلیں تو خدا پر بھروسہ کر کے اس کام کو کر ڈالئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورہ اور آپ کی مشاورت کے بارے میں علمآء کے چند قول ہیں ۔ (1) مشورہ کرنے کا حکم آپ کو وجوبی تھا (2) مشورہ کرنے کا حکم محض ندبی تھا (3) مشورہ محض خوشنوید مسلمین کی غرض سے تھا اور نہ اصل میں آپ کسی کی رائے کے پابند نہ تھے آپ کی آخری رائے اور آپ کا عزم کسی کی رائے کے مخالف ہو یا موافق آپ ہی کا عزم ہر اعتبار سے واجب الاتباع تھا جیسا کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو کسی کے مشورے کی حاجت نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس باہمی مشاورت کو میری امت کے لئے رحمت بنایا ہے۔ (4) حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے کہ وشاورھم سے مراد ابوبکر اور عمر ہیں۔ روایت کے دور سے الفاظ یہ ہیں کہ یہ آیت ابوبکر اور عمر کے بارے میں اتری یہ دونوں آپ کے وزیر تھے اور سب مسلمانوں کے باپ تھے۔ (5) حضرت علی ابن ابی طالب سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضرت سے کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزم کیا ہے۔ آپ نے فرمایا اہل رائے سے مشورہ لینا اور ان کی رائے اور ان کے کہنے پر چلنا (ابن مردویہ) خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کی یورپین جمہوریت کا اس آیت میں کوئی سامان نہیں ہے اور چونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود واجب الاتباع تھے۔ اس واسطے آپ پر کسی کی رائے کا اتباع لازم نہ ہو اور ابوبکر اور عمر سے مشورہ کرنا بھی آپ کے لئے استحبابی ہوا اور آپ کسی اقلیت اور اکثریت کی رائے کے تابع نہ تھے۔ بہرحال آپ مشورہ تو کیا ہی کرتے تھے اب اور زیادہ تاکید فرمائی تاکہ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ آپ کا دل رنیجد ہے جو ہم سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشورہ ترک کردیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبارک عادت تو یہ تھی کہ اپنے دئے ہوئے مشورے پر بھی کسی کو عمل کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ بریرہ اور مغیث کے قصہ میں مشہور ہے اور یہی وہ آزادی رائے ہے جس کو اسلام کا طغرائے امتیاز کہا جاتا ہے ہم نے جو کہا کہ اس آیت میں موجودہ جمہوریت کا سامان نہیں ہے۔ یہ اس لئے کہ یہ محض کافروں کی وضع کی ہوئی جمہوریت ہے کہ مسئلہ کی اہمیت پر بحث نہ ہو اور احمقوں کی رائے سے ایک چیز پاس کردی جائے اس لعنتی جمہوریت کے کرشمے ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بعض دفعہ بہترین مفاد کی چیز گر جاتی ہے اور مخصوص طبقہ کے مفاد کی چیز پاس ہوجاتی ہے اسلام کی جمہوریت اس سے بدرجہا بلند ہے اس میں رائے کی آزادی ہے سوچنے سمجھنے کا موقعہ ہے۔ اہم معاملات میں اگرچہ رائے کی تعمیم نہیں ہے لیکن اہل الرائے سے رائے لیا جانا ضروری ہے۔ پھر آخری فیصلہ امام کے ہاتھ میں ہے ات کہ جماعتی نظم قائم رہے۔ یہ نہ سمجھا جائے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس صورت میں مشاورت بیکار ہوجائے گی یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ مشورے سے بہت تقویت اور بڑی مدد ملتی ہے اور یہ تو اختلاف کی شکل میں ہے ورنہ حضرت علی کی مرفوع روایت سے معلوم ہوچکا ہے کہ اہل الرائے حضرات کی رائے کا اتباع کیا جائے اور رہا یہ امر کہ حضرت عمر نے انتخاب خلافت کے لئے جو سب کمیٹی بنائی تھی اس میں غالباً حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے متعلق یہ فیصلہ کردیا تھا کہ اختلاف کی شکل میں جس پارٹی کی طرف عبدالرحمٰن کی رائے ہو اس پارٹی کے فیصلے کو ترجیح دی جائے۔ جیسا کہ طبقات میں ابن سعد نے کہا ہے تو یہ حضرت عمر نے اپنے حق کا استعمال کیا اور چونکہ وہی کمیٹی کے ممبر نامزد کر رہے تھے اس لئے انہی کو یہ شرط لگانے کا بھی حق تھا کہ اگر دونوں طرف کمیٹی کے ممبر برابر ہوجائیں تو جس طرف عبدالرحمان بن عوف ہوں اس کی رائے راجح مانی جائے جس کو آج کل کا سٹنگ ووٹ کہتے ہیں اس سے ملتی جلتی شکل سمجھ لیجیے۔ یہاں آیت کا یہ مطلب ہے کہ مسلمانوں سے مشورہ کرتے رہا کیجیے تاکہ ان کو خوشی ہو سب کی سن کر عام جذبات کا اندازہ ہوجائے رائے عامہ کی واقفیت کا فائدہ پہنچے اور آپ کی جانب استبداد رائے کا شبہ نہ کیا جائے۔ پھر جب مشورہ کے بعد خواہ وہ حسب ضرورت عوام سے ہو یا خواص سے آپ ایک قطعی فیصلہ کرلیں اور آخری رائے قائم کرلیں تو جو چیز آپ کے نزدیک بہتر اور مفید ہو اس کو کر لیجیے اور اس کے کرتے وقت خدا پر توکل اور اسی پر بھروسہ کیجیے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ بہتر اور مفید کیا ہے اور خیر کس میں ہے یہ بات نہ آپ جانتے ہیں اور نہ مشورہ دینے والے جانتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اس لئے تم اپنا معاملہ اسی کے سپرد کردو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے مشورہ کرنے اور عزم کرنے کے بعد پھر توکل کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ تدبیر کے باوجود توکل کرنا چاہئے اور تدبیر کے ساتھ ساتھ خدا پر اعتماد کرنا ضروری ہے اور جن لوگوں نے توکل کا مطلب یہ سمجھ رکھا ہے کہ انسان تدبیر نہ کرے اور اپنے کو مہمل چھوڑ دے اور اپنے کو متوکل سمجھے یہ طریقہ غلط ہے البتہ اگر کوئی قوی القلب ہو اور تدبیر ظنی ہو تو ایسی حالت میں تدبیر کا ترک کردینا جائز ہے البتہ اگر تدبیر محض دہمی ہو تو ایسی تدبیر کا ترک کردینا ضروری ہے اور اگر وہ تدبیر دینی ہے تو اس کا ترک قابل مذمت ہے اور اگر تدبیر دنیوی ہو اور اس کا مفید ہونا عادتاً یقینی ہو تو اس کا ترک بھی ناجائز ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تدبیر توکل کے منافی نہیں البتہ تدبیر کی مختلف قسمیں ہیں اور اسی طرح لوگوں کے قلب کی حالت بھی مختلف ہے جس مرتبہ کا آدمی ہو اور جیسی تدبیر ہو اس کے موافق عمل کرے یہ بحث بہت وسیع ہے جس پر انشاء اللہ آئندہ کسی موقعہ پر تبصرہ کیا جائے گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں شاید حضرت کا دل خفا ہوا ہوگا اور چاہا ہوگا کہ اب سے ان کی مشورت نہ پوچھیے، سو حق تعالیٰ نے سفارش کی اور فرمایا کہ اول مشورت لینی بہتر ہے جب ایک بات ٹھہرا چکے پھر پس و پیش نہ کرئیے۔ (موضح القرآن) اب آگے توکل کی عام تاکید اور اپنی مدد کا اظہار فرماتے ہیں جس طرح اوپر فرمایا تھا وما النصر الا من عند اللہ اسی کی تفصیل آگے مذکور ہے چناچہ ارشاد ہتا ہے ۔ (تسہیل)