Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 179

سورة آل عمران

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطۡلِعَکُمۡ عَلَی الۡغَیۡبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَلَکُمۡ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۹﴾

Allah would not leave the believers in that [state] you are in [presently] until He separates the evil from the good. Nor would Allah reveal to you the unseen. But [instead], Allah chooses of His messengers whom He wills, so believe in Allah and His messengers. And if you believe and fear Him, then for you is a great reward.

جس حال پر تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑدے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک کو الگ الگ نہ کردے ، اور نہ اللہ تعالٰی ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کر دے ، بلکہ اللہ تعالٰی اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کر لیتا ہے ، اس لئے تم اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو ، اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لئے بڑا بھاری اجر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَّا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُوْمِنِينَ عَلَى مَأ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ... Allah will not leave the believers in the state in which you are now, until He distinguishes the wicked from the good. meaning, He allows a calamity to happen, and during this calamity His friend becomes known and His enemy exposed, the patient believer recognized and the sinful hypocrite revealed. This Ayah refers to Uhud, since Allah tested the believers in that battle, thus making known the faith, endurance, patience, firmness and obedience to Allah and His Messenger that the believers had. Allah exposed the hypocrites in their defiance, reverting from Jihad, and the treachery they committed against Allah and His Messenger. This is why Allah said, مَّا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُوْمِنِينَ عَلَى مَأ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ (Allah will not leave the believers in the state in which you are now, until He distinguishes the wicked from the good). Mujahid commented, "He distinguished between them during the day of Uhud." Qatadah said, "He distinguished between them in Jihad and Hijrah." Allah said next, ... وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ ... Nor will Allah disclose to you the secrets of the Unseen. meaning, you do not have access to Allah's knowledge of His creation so that you can distinguish between the believer and the hypocrite, except by the signs of each type that Allah uncovers. Allah's statement, ... وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاء ... but Allah chooses of His Messengers whom He wills. is similar to another Ayah, عَـلِمُ الْغَيْبِ فَلَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً إِلاَّ مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً (He Alone is) the All-Knower of the Unseen, and He reveals to none His Unseen. Except to a Messenger (from mankind) whom He has chosen, and then He makes a band of watching guards (angels) to march before him and behind him. (72:26-27) Allah then said, ... فَأمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ ... So believe in Allah and His Messengers. Obey Allah and His Messenger and adhere to the law that he legislated for you. ... وَإِن تُوْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ and if you believe and fear Allah, then for you there is a great reward. The Censure of Selfishness, and Warning Against it Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

179۔ 1 اس لئے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست واضح اور دشمن ذلیل ہوجائیں۔ مومن صابر، منافق سے الگ ہوجائے، جس طرح احد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبر و ثبات اور اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بےنقاب ہوگیا۔ 179۔ 2 یعنی اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے لوگوں کے حالات اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے ظاہر اور باطن نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں منکشف ہوجائیں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص۔ 179۔ 3 ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کا علم عطا فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ بھی کسی کسی وقت اور کسی کسی نبی پر ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر نبی بھی (جب تک اللہ نہ چاہے) منافقین کے اندرونی نفاق اور ان کے مکرو فریب سے بیخبر ہی رہتا ہے (جس طرح کہ سورة توبہ کی آیت نمبر 101 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعراب اور اہل مدینہ جو منافق ہیں، اے پیغمبر ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نہیں جانتے) اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے۔ اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں ؟ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے (عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا 26؀ۙ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ) 072:026، 027 " عالم الغیب (اللہ تعالیٰ ہے) اور وہ اپنے غیب سے پنسدیدہ رسولوں کو ہی خبردار کرتا ہے " ظاہر بات ہے یہ امور غیبیہ وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق منصب و فرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ ماکان ومایکون (جو کچھ ہوچکا اور آئندہ قیامت تک جو ہونے والا ہے) ' کا علم۔ جیسا کہ بعض اہل باطل اس طرح کا علم غیب انبیاء (علیہم السلام) کے لیے اور کچھ اپنے " آئمہ معصومین کے لیے باور کراتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٦] یعنی اس حال میں پختہ ایمان والے مومن، کمزور ایمان والے اور منافقین سب ایک ہی اسلامی معاشرہ میں مل کر رہتے ہیں اور ایک ہی سطح کے سب مسلمان ہی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے درجات ایمان میں امتیاز صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اللہ ان سب کو کسی ابتلاء میں ڈال دے اور اس طرح اچھے اور برے میں از خود امتیاز ہوجائے جیسا کہ غزوہ احد کے دوران مسلمان جب شکست سے دوچار ہوئے، تو ہر ایک کے ایمان کی پختگی، کمزوری اور منافقت کا ہر ایک کو پتہ چل گیا۔ [١٧٧] ابتلاء کے علاوہ مسلمانوں کے ایمان کے مختلف درجات معلوم ہونے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ اپنے نبی کو ان کے احوال پر مطلع کردے۔ مگر یہ بات اللہ کے دستور کے خلاف ہے۔ کیونکہ ایمان تو ہوتا ہی بالغیب ہے۔ اگر غیب نہ رہا تو پھر ایمان کیسا ؟ جس قدر غیب پر اطلاع کی انسان کو ضرورت تھی وہ تو اللہ نے پہلے انبیاء کے ذریعہ سب انسانوں کو مطلع کردیا ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت ضرور آنے والی ہے۔ اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ مل کے رہے گا۔ نیک لوگ جنت میں اور بدکردار دوزخ میں جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے منافقین کی علامات تو بتلا دی ہیں۔ لیکن کسی کا نام لے کر نہیں بتلایا کہ فلاں فلاں شخص منافق ہے۔ دور نبوی میں صرف ایک ایسا واقعہ ملتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو شدید ضرورت کے تحت چند منافقین کے نام بھی بتلادیئے تھے۔ غزوہ تبوک سے واپسی سفر کے دوران چودہ یا پندرہ منافقوں نے ایک سازش تیار کی تھی کہ رات کو سفر کے دوران گھاٹی پر سے گزرتے ہوئے رسول اللہ کو سواری سے گرا کر گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے۔ اس وقت حضرت حذیفہ بن یمان آپ کی سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو منافقوں کی سازش سے مطلع کردیا اور ان منافقوں اور ان کے باپوں کے نام بھی بتلا دیئے، جو آپ نے حضرت حذیفہ کو بھی بتلا دیئے اور ساتھ ہی تاکید کردی کہ ان کے نام وغیرہ کسی کو نہ بتلانا۔ اسی لیے حضرت حذیفہ کو راز دان رسول کہا جاتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے مسلم کتاب صفات المنافقین) اللہ تعالیٰ پیغمبر کو غیب پر جب چاہے مطلع کرتا ہے، اور جتنا چاہے اتنی ہی بات سے مطلع کرتا ہے۔ اور اگر چاہے تو نہیں بھی کرتا۔ مثلاً حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو مصر سے قمیص لانے والے کی تو فوراً بذریعہ وحی خوشخبری دے دی۔ مگر جب یوسف کنعان ہی کے ایک کنوئیں میں ان کے پاس پڑے رہے اور یعقوب ان کے غم میں بیمار بھی رہے تو اس وقت اطلاع نہ دی۔ اسی طرح حضرت عمر (رض) اسلام لانے کے لیے آپ کی خدمت میں جارہے تھے تو آپ کو بذریعہ وحی اطلاع کردی گئی مگر جب آپ واقعہ افک کے بارے میں مہینہ بھر سخت بےچین اور پریشان رہے تو اس وقت پورے ایک ماہ بعد وحی کی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا كَان اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ چناچہ جنگ احد میں کفر و نفاق اور ایمان و اخلاص الگ ہو کر سامنے آگئے۔ رازی لکھتے ہیں : ” اس آیت کا تعلق بھی قصۂ احد سے ہے۔ چناچہ اس حادثہ میں قتل و ہزیمت اور پھر اس کے بعد ابو سفیان کے چیلنج کے جواب میں مسلمانوں کا نکلنا وغیرہ، سب ایسے واقعات تھے جن سے کفر ونفاق اور ایمان و اخلاص الگ الگ ہو کر سامنے آگئے اور مومن اور منافق میں امتیاز ہوگیا۔ چونکہ منافقین کا مومنوں کے ساتھ ملا جلا رہنا حکمت الٰہی کے خلاف تھا، اس لیے یہ تمام واقعات پیش آئے۔ 2ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْب : یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس طرح آزمائش کے ذریعے سے مخلص مومنوں اور منافقین کے لیے حالات اور ان کے ظاہر و باطن کو نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں ظاہر ہوجائیں اور تم جان سکو کہ کون مومن ہے اور کون منافق اور نہ تم میں سے ہر ایک کو غیب کی بات پر اطلاع دی جاسکتی ہے۔ نہ کسی کو بھی پورے غیب کی اطلاع دی جاسکتی ہے۔ 3 وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ : ہاں، البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب کی جتنی بات چاہتا ہے اس کی اطلاع دے دیتا ہے، جو نہیں چاہتا نہیں بتاتا۔ اب منافقین میں سے بعض کا بتادیا اور بعض کا نہیں بتایا۔ چناچہ فرمایا : ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ) ” اور ان لوگوں میں سے جو تمہارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے رسولوں کو غیب کی کچھ باتوں کی اطلاع دیتا ہے، جن کی انھیں نبوت کی دلیل کے طور پر ضرورت ہوتی ہے، مگر وہ اس سے عالم الغیب نہیں بنتے، عالم الغیب ایک اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٥٩) سورة نمل (١٦٥) ۔ اور سورة جن (٢٦ تا ٢٨) 4 ۠ فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرُسُلِھٖ ۚ : مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ رسول سے اپنی مرضی کی غیب کی باتیں بتانے کا مطالبہ کریں۔ ان کا کام اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا ہے اور اگر وہ ایمان لا کر تقویٰ اختیار کریں گے تو ان کے لیے اجر عظیم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The previous verse (178) answered the question about disbelievers as to why they, being the detested ones in the sight of Allah, are in possession of all sort of wealth, property and other means of luxurious living? The present verse (179), in sharp contrast, removes the doubt about true believers as to why they, being the favoured servants of Allah, are tested with all sorts of hardships? Being favoured required that they should have been the ones living in comfort surrounded by its para¬phernalia! Commentary The wisdom of making a believer distinct from a hypocrite through practical demonstration rather than through a revelation. It has been said in this verse that Allah Almighty has His way of making a sincere believer distinct from a hypocrite through which He generates such situations of hardship as would expose the hypocrisy of the hypocrites practically. This distinction, though, could also be made by identifying hypocrites by name through a revelation. But, the later course was not taken because it would have not been wise. The whole range of wisdom behind what Allah does is known to Him alone. However, one wise consideration in the present context could be: If Muslims were told about a person being a hypocrite through revelation, they would have had no difficulty in dealing with them carefully, but this would have not provided them with a clearly demonstrated proof necessarily acceptable to the hypocrites - for, they would have still insisted: You are wrong. We are true Muslims.& Contrary to this, the distinction was made practically. The introduction of hardship put the hypocrites to test in which they failed and ran away. Their hypocrisy was demonstrated and exposed practically and openly. Now they did not have the cheek to claim that they were true, sincere and believing Muslims. The manner in which the hypocrites were exposed yielded yet another benefit for Muslims when their formal relationship was also severed with the hypocrites. Otherwise, maintaining a state of discord in the heart with a veneer of formal social dealing would have been equally harmful ethically. The Unseen when communicated to anyone is no Knowledge of the Unseen as such This verse tells us that Allah Almighty does not inform everyone about Unseen matters through the medium of revelation (Wahy). However, He does inform His chosen prophets in this manner. From this, let no one hasten to doubt that prophets too have become sharers in the Knowledge of the Unseen or the knower, of the Unseen! The reason is that the Knowledge of the Unseen which is particularly attributed to the being of Allah Almighty cannot be taken as being shared by any created being. Doing so is Shirk (the crime of ascribing partners to Allah). The particular Knowledge is fortified by two condi¬tions: 1. This should be intrinsic to the being, not given by anyone else. 2. This has to be all-comprehensive, encompassing all universes, the past and the future - a Knowledge that covers even the minutest particle without any possibility of anything remaining hidden from it. As for things of the Unseen the information of which is given to His prophets by Allah Almighty through the medium of revelation (Wahy), they are not, really, the Knowledge of the Unseen as such. They are, rather, news of the Unseen given to prophets, something about which the Holy Qur&an it self has used the expression أَنبَاءِ الْغَيْبِ (news or reports of the Unseen) at several places : مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ... a part of the news of the Unseen We reveal to you. (11:49)

ربط آیات : پچھلی آیت میں اس شبہ کا جواب تھا کہ جب کفار اللہ تعالیٰ کے نزدیم مبغوض اور مردود ہیں تو دنیا میں ان کو اموال و جائیدا اور عیش و عشرت کے سامان کیوں حاصل ہیں مذکورہ آیت میں اس کے بالمقابل اس شبہ کا ازالہ ہے کہ مومن مسلمان جو اللہ کے مقبول بندے ہیں ان پر تکالیف و مصائب کیوں آتے ہیں، مقبولیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ راحتیں اور سامان راحت ان کو ملتا۔ خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر تم ہو (کہ کفر و ایمان اور حق و باطل اور مومن و منافق میں اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے انعامات دینوی کے اعتبار سے کوئی امتیاز اور فرق نہیں، بلکہ مسلمانوں پر شدائد و مصائب کا نازل ہوتے رہنا اس وقت تک ضروی ہے) جب تک کہ ناپاک (یعنی منافق) کو پاک (یعنی مومن مخلص) سے ممتاز نہ کردیا جائے ( اور یہ تمیز و تبیین مصائب و مشکلات ہی کے پیش آنے پر پوری طرح ہو سکتی ہے اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ مومن و کافر اور حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے کے لئے کیا ضروری ہے کہ حوادث و مصائب ڈال کر ہی یہ امتیاز حاصل کیا جائے، اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اس کا اعلان فرما سکتے ہیں کہ فلاں مومن مخلص ہے اور فلاں منافق اور فلاں چیز حلال ہے فلاں حرام، تو اس کا جواب یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ (بمقتضائے حکمت) ایسے امور غیبیہ پر تم کو (لا واسطہ ابتلاء و امتحان کے) مطلع نہیں کرنا چاہتے، لیکن ہاں جس کو (اس طرح مطلع کرنا) خود چاہیں اور (ایسے حضرات) وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ان کو (بلاواسطہ حوادث بھی غیبی خبروں پر مطلع کرنے کے لئے اپنے بندوں میں سے) منتخب فرما لیتے ہیں، (اور تم پیغمبر ہو نہیں، اس لئے ایسے امور کی اطلاع نہیں دی جاسکتی، البتہ ایسے حالات پیدا فرماتے ہیں کہ ان سے مخلص و منافق کا فرق خود بخود واضح ہوجائے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ دنیا میں کافروں پر عذاب نازل نہ ہونا بلکہ عیش و عشرت ملنا اور مسلمانوں پر بعض مصائب و شدائد نازل ہونا عین تقاضائے حکمت ہے، یہ باتیں کسی کے مقبول یا مردود ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتیں) پس اب تم (ایمان کے پسندیدہ اور کفر کے ناپسندیدہ ہونے میں کوئی شبہ نہ کرو، بلکہ) اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لے آؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور (کفر و معاصی سے) پرہیز رکھو تو پھر تم کو اجر عظیم ملے۔ معارف و مسائل مؤ من و منافق میں امتیاز وحی کے بجائے عملی طور پر کرنے کی حکمت :۔ اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ مومن مخلص اور منافق میں امتیاز کے لئے حق تعالیٰ ایسے حالات حوادث و مشکلات کے پیدا فرماتے ہیں جن سے عملی طور پر منافقین کا نفاق کھل جائے اور یہ امتیاز اگرچہ یوں بھی ہوسکتا تھا کہ بذریعہ وحی منافقین کے نام متعین کر کے بتلا دیا جائے، مگر بمقتضائے حکمت ایسا نہیں کیا گیا اللہ تعالیٰ کے افعال کی پوری حکمتیں تو اسی کو معلوم ہیں، یہاں ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر مسلمانوں کو بذریعہ وحی بتلا دیا جائے کہ فلاں منافق ہے تو مسلمانوں کو اس سے قطع تعلق اور معاملات میں احتیاط کے لئے کوئی ایسی واضح حجت نہ ہوتی جس کو منافق بھی تسلیم کرلیں، وہ کہتے کہ تم غلط کہتے ہو ہم تو پکے سچے مسلمان ہیں۔ بخلاف اس پر عملی امتیاز کے جو مصائب کے ابتلاء کے ذریعہ ہوا کہ منافق بھاگ کھڑے ہوئے عملی طور پر ان کا نفاق کھل گیا، اب ان کا یہ منہ نہیں رہا کہ مومن و مخلص ہونے کا دعویٰ کریں۔ اور اس طرح نفاق کھل جانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں کا ان کے ساتھ ظاہری اختلاط بھی قطع ہو ورنہ دل میں اختلاف کے باوجود ظاہری اختلاط رہتا تو وہ بھی مضر ہی ہوتا۔ امور غیب پر کسی کو مطلع کردیا جائے تو وہ علم غیب نہیں :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ امور غیب پر بذریعہ وحی اطلاع اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ پھر تو انبیاء بھی علم غیب کے شریک اور عالم الغیب ہوگئے کیونکہ وہ علم غیب جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے کسی مخلوق کو اس میں شریک قرار دینا شرک ہے، وہ دو چیزوں کے ساتھ مشروط ہے، ایک یہ کہ وہ علم ذاتی ہو کسی دسرے کا دیا ہوا نہ ہو دوسرے تمام کائنات ماضی و مستقبل کا علم محیط ہو، جس سے کسی ذرے کا علم بھی مخفی نہ ہو، حق تعالیٰ خود بذریعہ وحی اپنے انبیاء کو جو امور غیبیہ بتلاتے ہیں وہ حقیقتاعلم غیب نہیں ہے بلکہ غیب کی خبریں ہیں جو انبیاء کو دی گئی ہیں جن کو خود قرآن کریم نے کئی جگہ انبیاء الغیب کے لفظ سے تعبیر : من انبآء الغیب نوحیھا الیک (١١: ٩٤)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ اللہُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ۝ ٠ۭ وَمَا كَانَ اللہُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللہَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝ ٠ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝ ١٧٩ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ ميز المَيْزُ والتَّمْيِيزُ : الفصل بين المتشابهات، يقال : مَازَهُ يَمِيزُهُ مَيْزاً ، ومَيَّزَهُ تَمْيِيزاً ، قال تعالی: لِيَمِيزَ اللَّهُ [ الأنفال/ 37] ، وقرئ : لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ والتَّمْيِيزُ يقال تارة للفصل، وتارة للقوّة التي في الدّماغ، وبها تستنبط المعاني، ومنه يقال : فلان لا تمييز له، ويقال : انْمَازَ وامْتَازَ ، قال : وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس/ 59] وتَمَيَّزَ كذا مطاوعُ مَازَ. أي : انْفَصَلَ وانْقَطَعَ ، قال تعالی: تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک/ 8] . ( م ی ز ) المیر والتمیز کے معنی متشابہ اشیاء کو ایک دوسری سے الگ کرنے کے ہیں ۔ اور مازہ یمیزہ میزا ومیزاہ یمیزا دونوں ہم معنی ہیں چناچہ فرمایا ۔ لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ایک قراءت میں لیمیز اللہ الخبیث ہے ۔ التمیز کے معنی الگ کرنا بھی آتے ہیں اور اس ذہنی قوت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان لا تمیز لہ فلاں میں قوت تمیز نہیں ہے ۔ انما ز اور امتاز کے معنی الگ ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس/ 59] اور آج الگ ہوجاؤ اور تمیز کذا ( تفعل ) ماز کا مطاوع آتا ہے اور اس کے معنی الگ اور منقطع ہونے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک/ 8] گو یا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔ خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ طَلَعَ طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر/ 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ. ( ط ل ع ) طلع ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے اجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم/ 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] . الاجتباء ( افتعال ) کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٩) مشرکین نے رسول اکرم (رض) سے کہا کہ آپ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ تم میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی تو بتایئے کہ ہم میں سے کون مومن ہے اور کون کافر، اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں اے گروہ منافقین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس حالت عدم امتیاز پر جس پر تم سب ہو کر نہیں رکھنا چاہتا کہ مومن کافر اور کافر مومن معلوم ہو بلکہ مشیت الہی میں یہ ہے کہ شقی سعید (نیک بخت، بدبخت) سے اور کافر مومن سے اور منافق مخلص سے ممتاز اور نمایاں ہوجائے، کفار مکہ کو اللہ تعالیٰ حکمت کے تحت ایسے امور پر مطلع نہیں کرتا کہ کون ایمان لائے گا اور کون انکار کرے گا لیکن اس ذات الہی نے اپنی مشیت سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس چیز کے لیے منتخب فرمایا ہے کہ بذریعہ وحی آپ کو بعض امور سے اللہ تعالیٰ آگاہ فرما دیتے ہیں لہٰذا (اے مشرکین ! تم اپنی ضد اور شرک چھوڑ کر) تمام رسولوں اور تمام کتابوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان لے آؤ گے اور اس کے ساتھ کفر وشرک سے بھی بچو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں عظیم الشان ثواب عطا فرمائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٩ (مَا کَان اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ ) (حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ط) ۔ یہ آیت بھی فلسفۂ آزمائش کے ضمن میں بہت اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور صالح بندوں کو تکالیف میں کیوں ڈالتا ہے ‘ حالانکہ وہ تو قادر مطلق ہے ‘ آن واحد میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بات اللہ کی حکمت کے مطابق نہیں ہے کہ وہ تمہیں اسی حال میں چھوڑے رکھے جس پر تم ہو۔ ابھی تمہارے اندر کمزور اور پختہ ایمان والے گڈمڈ ہیں ‘ بلکہ ابھی تو منافق اور مؤمن بھی گڈمڈ ہیں۔ تو جب تک ان عناصر کو الگ الگ نہ کردیا جائے اور تمہاری اجتماعیت سے یہ تمام ناپاک عناصر نکال نہ دیے جائیں اس وقت تک تم آئندہ پیش آنے والے مشکل اور کٹھن حالات کے لیے تیار نہیں ہوسکتے۔ آگے تمہیں سلطنت روما سے ٹکرانا ہے ‘ تمہیں سلطنت کسریٰ سے ٹکر لینی ہے۔ ابھی تو یہ اندرون ملک عرب تمہاری جنگیں ہو رہی ہیں۔ ان آزمائشوں کا مقصد یہ ہے کہ تمہاری اجتماعیت کی تطہیر ‘ (purge) ‘ ہوتی رہے ‘ یہاں تک کہ منافقین اور صادق الایمان لوگ بالکل نکھر کر علیحدہ ہوجائیں۔ (وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ ) ( وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُص) ۔ وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کے حالات بھی بتاتا ہے۔ رسولوں کو غیب از خود معلوم نہیں ہوتا ‘ اللہ کے بتانے سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ان آزمائشوں میں کیا حکمتیں ہیں اور ان میں تمہارے لیے کیا خیر پنہاں ہے ‘ ہرچیز ہر ایک کو نہیں بتائی جائے گی ‘ البتہ یہ چیزیں ہم اپنے رسولوں کو بتا دیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

125. That is, God does not want to see the Muslim community in a hotch-potch condition with the true men of faith indistinguishable from the hypocrites. 126. This means that God does not resort to revelation to provide information as to whether specific individuals are true men of faith or hypocrites. God creates, instead, certain situations in which the faith of those who profess to believe is severely tested. The result is that the man of faith stands out clearly from the hypocrite.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :125 یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت کو اس حال میں دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ ان کے درمیان سچے اہل ایمان اور منافق ، سب خلط ملط رہیں ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :126 یعنی مومن و منافق کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے اللہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مسلمانوں کو دلوں کا حال بتا دے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق ، بلکہ اس کے حکم سے ایسے امتحان کے مواقع پیش آئیں گے جن میں تجربہ سے مومن اور منافق کا حال کھل جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

60: آیت 176 سے 178 تک اس شبہ کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں تو انہیں دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی کیوں حاصل ہے؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو آخرت میں تو کوئی حصہ ملنا نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ڈھیل دئیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے یہ مزید گناہوں میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک وقت آنا ہے جب یہ اکٹھے عذاب میں دھر لیے جائیں گے۔ آیت 179 میں اس کے مقابل اس شبہ کا جواب ہے کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، اس کے باوجود ان پر مصیبتیں کیوں آ رہی ہیں؟ اس کا ایک جواب اس آیت میں یہ دیا گیا ہے کہ یہ آزمائشیں مسلمانوں پر اس لیے آ رہی ہیں تاکہ مسلمانوں پر واضح ہوجائے کہ ایمان کے دعوے میں کون کھرا ہے اور کون کھوٹا؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس وضاحت کے بغیر نہیں چھوڑ سکتا، اور مشکلات ہی کے وقت یہ پتہ چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہتا ہے اور کون پھسل جاتا ہے؟ اس پر یہ سوال ہوسکتا تھا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشکل میں ڈالے بغیر کیوں نہیں بتا دیتا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں ہر ایک شخص کو نہیں بتاتا، بلکہ جتنی باتیں چاہتا ہے اپنے پیغمبر کو بتا دیتا ہے۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان منافقین کی بد عملی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے بارے میں رائے قائم کریں، اس لیے یہ آزمائشیں پیش آ رہی ہیں۔ آزمائشوں کی مزید حکمت آگے آیات 185 اور 186 میں بھی بیان فرمائی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:179) لیذر۔ مضارع منصوب واحد مذکر غائب۔ منصوب بوجہ عمل لام ہے وذر مصدر کہ چھوڑ دے۔ ہر دو باب ضرب ۔ نصر سے آتا ہے۔ یوذر کی واؤ حذف ہوگئی۔ یذر ہوگیا۔ لام کے عمل سے منصوب ہوکر لیذر ہوگیا۔ لیطلعکم۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ اطلاع (باب افعال) سے مصدر طلع مادہ کم ضمیر مفعول ۔ جمع مذکر حاضر۔ کہ وہ تم کو واقف کردے۔ تم کو آگاہ کر دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمہیں براہ راست غیب پر مطلع کر دے اور اتم بروں کو اچھوں سے الگ پہچان لو بلکہ منصب رسالت کے لیے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انتخاب فرماتا ہے اور اسے بذریعہ وحی اپنے غیب سے جتنی باتوں کا علم دینا چاہے دے دیتا ہے۔ (کذافی الروح) علم غیب پ ربحث کے لیے دیکھئے ( سورت انعام آیت 59)4 قریش کے کافر اور مدینہ کے منافق کہتے تھے کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو نام بنام کیوں نہیں بتاتا فلاں مامن ہے فلاں کافر ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) فرمایا کہ تمہیں غیب کی باتوں سے کیا اسروکار۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے تمہارا کام تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر ایمان لانا اور اتقوی ٰ اختیار کرنا ہے تاکہ اجر عظیم کے مستحق قرار باو) وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ جو فرمایا سب رسولوں پر ایمان لاو حالانکہ مقام مقتضی ہے ذکر ایمان بہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ پر بھی ایمان جب ہی متحقق ہوگا جب سب کو مانے کیونکہ ایک کی تکذیب سب کی تکذیب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں یہ آیت قطعی طور پر فیصلہ کردیتی ہے کہ اللہ کی شان یہ نہیں ہے ‘ اس کی الوہیت کا تقاضا یہ نہیں ہے اور اس کی کائنات میں مروجہ سنت یہ نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں منافقین کو اسی طرح چھپے ہوئے چھوڑدے ۔ حالت یہ ہے کہ منافقین بس دعوائے ایمان کریں ‘ اسلام کا اظہار کریں اور اسلامی صفوں میں چھپے رہیں حالانکہ ان کے دل ایمان کی تروتازگی سے خالی ہوں ‘ اور ان میں اسلام کی روح سرے سے نہ ہو۔ اس امت کو اللہ نے اس لئے برپا کیا ہے کہ وہ اس کائنات میں ایک عظیم کردار ادا کرے ۔ ایک عظیم نظام زندگی کا علم لے کر اٹھے ‘ اس زمین پر ایک منفرد صورت حال پیدا کردے ۔ ایک جدید نظام وجود میں آجائے ۔ اس مشن اور عظیم نصب العین کا تقاضایہ تھا کہ وہ پوری یکسوئی ‘ پوری صفائی اور پوری تمیز کے ساتھ اس نصب العین کو پختہ طریقے سے پکڑے اور یہ تقاضا بھی تھا کہ اس کی صفوں کے اندر کوئی خلل اور کوئی کمزوری نہ ہو ‘ اس کی بنیادوں میں کوئی کمزوری نہ ہو اور مختصر الفاظ میں یوں کہ ان مقاصد کا تقاضا تھا کہ یہ امت اس قدر عظیم ہو جس قدر اس کا یہ نصب العین عظیم ہے ۔ جس نصب العین اور جس ٹارگٹ تک اسے اس کائنات میں پہنچنا ہے ۔ اور آخرت کا بلند مقام و مرتبہ تو بہرحال ان کے لئے اللہ نے تیار کیا ہوا ہے ۔ ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی صف ہر وقت جاگتی رہے تاکہ اس سے خبیث عناصر نکل جائیں ۔ وہ کارکنوں پر اس قدر دباؤ رکھے کہ جو اینٹ کچی ہو ‘ وہ پہلے دن ہی بیٹھ جائے ۔ اور ان پر ہر وقت روشنی پڑتی رہے تاکہ اندرونی کمزوریاں اور ضمیر کے اندر برے خیالات کی تطہیر ہوتی رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے بھی ان کی صفوں کو صاف کرنے کے لئے ان کی امداد فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ کی شان کے یہ لائق نہ تھا کہ وہ اپنے دوستوں کی صفوں میں ایسے ناپاک لوگوں کو رہنے دے ۔ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو غائبانہ باتوں کا براہ راست علم دے دے ۔ اس لئے کہ غیب کا علم تو صرف اللہ کے شایان شان ہے ۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے ‘ اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ غیبی اطلاعات کا ادراک کرسکیں ۔ انسانی جسم کی مشینری جو ان کے اندر تخلیق ہوئی ہے وہ اس اسکیم کے مطابق تیار ہی نہیں کی گئی کہ وہ غائبانہ امور کا ادراک کرسکے ۔ الا یہ کہ کوئی خاص مقدار اللہ کسی کو دے دے ۔ اور یہ بھی خصوصی حکمت کے تحت ہوا کرتا ہے یعنی اس قدر جس قدر اس دنیا میں ان کی خلافت فی الارض کے مقاصد کے لئے ضروری ہو۔ اور اس مقصد یعنی انسان کے وظیفہ خلافت فی الارض کے لئے علم غیب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کی اس موجودہ مشینری پر علم غیب کے دروازے کھول دے تو یہ مشینری ختم ہوکر رہ جائے ‘ اس لئے کہ وہ علوم غیب کے اخذ کے لئے سرے سے تیار ہی نہیں ہے ۔ صرف اس قدر غیب کا علم اسے درکار ہوتا ہے جس میں اس کی روح کاملاپ اس کے خالق کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا وجود ‘ وجود کائنات سے مل جاتا ہے ۔ علم غیب پر اطلاع پانے کا کم سے کم نقصان تو یہ ہوگا وہ ہاتھ پاؤں ہلانا چھوڑدے گا ‘ ہر وقت ان نتائج کے بارے میں سوچتا رہے گا جو واقع ہونے والے ہیں ‘ اور وہ اس زمین میں کسی قسم کی ترقی کے لئے سوچ بھی نہ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات اللہ کی شایان شان نہ تھی کہ وہ لوگوں کو علم غیب کی اطلاع دے دے اور نہ یہ اس حکمت اور اسکیم کے مطابق تھی جس کے مطابق وہ اس زمین کو چلارہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پس اللہ خبیث کو طیب سے کیسے جدا کرتا ہے ؟ اور اس کی سنت اور اس کی شان اس تطہیر کے عمل میں کس طرح کام کرتی ہے ؟ اور کس طرح اسے چھانٹ کر رکھ دیتی ہے ؟ وہ کس طرح غبار اور دھند کو دور کرتا ہے ؟ کس طرح منافقین کو الگ کرکے اسلامی صفوں کو پاک کرتا ہے تاکہ مسلمان اس کرہ ارض پر اپنا کردار ادا کرسکیں جس کے لئے مسلمانوں کو بطور امت برپا کیا گیا ہے ۔ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ…………” اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کھرے کو کھوٹے سے اس طرح جدا کرتا ہے کہ اس نے رسولوں کو بھیجا ‘ کوئی ان پر ایمان لایا اور کسی نے ان سے انکار کیا ۔ اور رسالت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سلسلہ جہاد فرض کیا گیا۔ اور جہاد کے اندر لوگوں کو آزمائشوں میں ڈال کر آزمایا گیا ‘ ان تمام اقدامات سے شان الٰہی ظہور میں آتی ہے ۔ یوں اللہ کی سنت کام کرتی ہے اور یوں کھراکھوٹے سے الگ ہوجاتا ہے ۔ دلوں کی تطہیر ہوجاتی ہے ‘ نفوس پاک ہوجاتے ہیں اور اللہ کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ کی حکمت کے ایک حصے سے پردہ اٹھتا ہے ۔ یہ حکمت زندگی میں حقیقت بن کر ظاہر ہوتی ہے ۔ اور یہ حکمت ایک مضبوط بنیاد پر ‘ کھلے بندوں ‘ روشن ستارے کی طرح زمین پر استقرار حاصل کرتی ہے……اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے جو روشن ہوتی ہے ‘ جو واضح ہوتی ہے ‘ جو سادہ اور قابل فہم ہوتی ہے ‘ اب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے اندر حقیقی ایمان پیدا کریں اور پھر اس حقیقی ایمان کے تقاضے پورے کریں اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ آخرت میں ایک فضل عظیم ہے جوان کا منتظر ہے۔ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ……………” اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اگر تم ایمان لاؤ اور خدا ترسی کی روش پر چلو تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔ “……واقعات احد کے بیان اور اس کے بعد ان واقعات پر تبصروں اور تنقیدوں کے بیان کے بعد یہ بہترین ہدایت اور مشورہ ہے جو اہل ایمان کو دیا گیا ہے ۔ جنگ احد کے بارے میں قرآن کریم نے جو تبصرہ کیا ہے ‘ اس میں بعض نہایت ہی اہم اور عظیم حقائق کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ان تمام حقائق کو گنوادیا جائے اور یہاں ان کے بارے میں پوری تفصیلات دی جاسکیں ‘ لیکن مناسب ہے کہ ان حقائق میں سے جو زیادہ عمومی اور شامل اور زیادہ ظاہر ہیں ان کی طرف اشارہ کردیاجائے تاکہ ان اشارات پر وہ تمام واقعات قیاس کرلئے جائیں جو اس غزوہ میں پیش ہوئے ‘ جیسا کہ قرآن کریم نے انہیں عبرت کے طور پیش کیا ہے۔ ١۔ اس معرکے اور اس پر ہونے والے اس طویل تبصرے نے ایک بنیادی حقیقت کا بالکل کھول کر بیان کردیا ہے کہ یہ دین جو درحقیقت انسانوں کے لئے ایک نظام زندگی ہے ‘ اس کا اصل مزاج کیا ہے اور وہ انسانوں کی زندگیوں کے اندر کس طرح کام کرتا ہے ۔ یہ نہایت ہی اساسی اور سادہ اور قابل فہم حقیقت ہے لیکن بسا اوقات اسے بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے یا ابتداءً ہی اس کا ادراک نہیں کیا جاتا اور اس کے بھول جانے اور اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اس دین کی فہم میں فاش غلطیاں کی جاتی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس دین کی حقیقت کے سمجھنے میں بھی غلطی کی جاتی ہے بلکہ اس تاریخ کو سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے اور انسانی زندگی میں اس نے جو کردار ادا کیا یا کرتا ہے یا آئندہ کرے گا اس کے سمجھنے میں بھی نہایت ہی فاش غلطی ہوتی ہے۔ ہم میں بعض لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ دین اسلام جو انسانی زندگی کے لئے اللہ کا تجویز کردہ نظام ہے ‘ اسے معجزانہ طور پر کام کرنا چاہئے ۔ اس میں اس کے انسانی مزاج ‘ اس کی فطری قوت اور کسی وقت میں موجود مادی صورت حال کا کوئی لحاظ نہ رکھاجائے ‘ چاہے انسان ترقی کے کسی درجے میں ہوں ‘ اور جس معاشرے اور ماحول میں بھی ہوں۔ جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلام اس معجزانہ اور ساحرانہ انداز میں کام نہیں کرتا بلکہ اسلام لوگوں کی بشری طاقت کے مطابق کام کرتا ہے اور یہ انسانی محدود قوت اور انسان کی اصل بنیادی صورت حال باہم دگر مل کر کام کرتے ہیں ۔ بعض اوقات انسان اور اس وقت کی موجود صورت حالات اسلامی نظام سے واضح طور پر متاثر ہوجاتے ہیں ‘ اور یا یہ دونوں مل کر لوگوں کی جانب سے اسلام کی جانب ردعمل کو متاثر کرتے ہیں ۔ بعض اوقات ان دونوں کے اثرات اسلام کے خلاف ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے لوگ کیچڑ کی طرح بھاری ہوکر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان کی نظروں میں لالچ ‘ لذت اور شہوت اس قدر اہم ہوجاتی ہے کہ وہ اسلام کے پیغام کو قبول کرنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے اور لوگ اسلامی سمت میں نہیں چلتے ۔ جب یہ لوگ ایسی صورت حال دیکھتے ہیں تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ صورتحال ایسے لوگوں کی توقعات کے خلاف ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ دین اللہ کی جانب سے ہوتا ہے……اور بعض اوقات وہ اس بات میں شبہ کرنے لگتے ہیں کہ آیا یہ دین فی الواقعہ لوگوں کے لئے کوئی مکمل نظام حیات ہے بھی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض لوگ سرے سے اس دین کی حقانیت پر شک کرنے لگتے ہیں۔ فکر وعمل کی ان غلطیوں کی بنیاد صرف ایک غلطی پر ہے ۔ وہ یہ کہ ایسے لوگوں نے اس دین کے مزاج ہی کو نہیں سمجھا ۔ اس کے طریقہ کار ہی کو نہیں سمجھا ‘ یا وہ اس حقیقت کو سمجھ کر بھول گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین انسانی زندگی کے لئے ایک منہاج ہے۔ اور اس کا انسانی زندگی کے اندر قیام خالص انسانی جدوجہد پر موقوف کیا گیا ہے ۔ اور اس جدوجہد کو انسانی طاقت کے اندر محدود کیا گیا ہے۔ اور اس دین پر عمل پیرا ہونے کا آغاز وہاں سے کیا جاتا ہے جہاں انسان اپنی مادی زندگی کی ترقی کے مدارج میں سے جد درجے میں موجود ہو ‘ یہ دین انہیں جہاں پاتا ہے وہاں سے لے کر آگے چلتا ہے ۔ اور انہیں اپنے آخری انجام تک پہنچاتا ہے ۔ اور یہ سب کام انسان کی طاقت اور وسعت کے حدود میں کیا جاتا ہے ۔ اور وہاں تک وہ انہیں آگے بڑھاتا ہے جس قدر ان کے اندر طاقت اور وسعت ہو اور جہاں تک وہ پہنچ سکتے ہوں اور پہنچنے کی صلاحیت اپنے اندررکھتے ہوں ۔ اس کام میں اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک لحظہ بھی اس کام سے غفلت نہیں کرتا۔ کسی منصوبے میں غفلت نہیں کرتا ۔ کسی اقدام میں غفلت نہیں کرتا ۔ اور فطرت انسانی کے مطابق کام کرتا ہے ‘ انسانی طاقت کے حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرتا ہے ۔ انسان مادی اعتبار سے جہاں تک ترقی یافتہ ہو اس کے مطابق کام کرتا ہے ‘ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اسے اس مقام تک لے جاتا ہے جہاں تک وہ ابھی تک نہیں پہنچ پایا تھا اور تاریخ انسانی میں انسان کے وضع کردہ تمام نظامہائے زندگی کے ادوار میں سے کسی دور میں بھی نہیں پہنچ پایا تھا۔ اسلام نے اپنے یہ کمالات عملاً اس وقت دکھائے جب کبھی بھی ایک مختصر وقت کے لئے اسے نافذ کیا گیا اور آئندہ بھی وہ ایسا ہی کرکے دکھائے گا بشرطیکہ کوشش اس کے نفاذ کی ‘ کی جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلطی کا آغاز اس دین کے مزاج کو نہ سمجھنے یا سمجھ کر اسے بھلادینے کی وجہ سے ہوا جس طرح ہم نے کیا ۔ اور ہم نے نفاذ دین کے لئے معجزانہ اور ساحرانہ انقلاب کا انتظار شروع کردیا ‘ جو انسانی صورت حال کے مناسب نہیں ہے ‘ جس سے فطرت انسانی بدل جاتی ہے ‘ اور جس سے اسلام کا مزاج بدل جاتا ہے ۔ اور یہ طریقہ کار اس کی فطرت حقیقی سے لگا نہیں کھاتا ۔ اس کی استعداد اور اس کے رجحانات کے بھی خلاف ہے اور جو انسان کے مادی حالات کے بھی خلاف ہیں۔ کیا اسلام من جانب اللہ نہیں ہے ؟ کیا وہ ایسی قوت قادرہ کی طرف سے ارسال کردہ نہیں ہے جسے کوئی قوت عاجز نہیں کرسکتی ؟ تو پھر اسلام کے نفاذ کو کیوں انسانی طاقت کے حدود پر موقوف کردیا گیا اور کیوں اسے انسانی جدوجہد کا محتاج کیا گیا ہے ؟ پھر کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ انسان اس کے لئے کام کریں اور وہ ہمیشہ غالب ہی ہوں ؟ کیوں اسلامی لوگ ہمیشہ کامیاب نہیں رہتے ؟ انسان کی خواہشات نفسانیہ ‘ اس کا مزاج اور اس کی مادی صورت حال کیوں اس پر غالب آجاتی ہیں اور کبھی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اہل حق شکست فاش کھاتے ہیں حالانکہ وہ اہل حق ہوتے ہیں ؟ یہ تمام سوالات جیسا کہ ہم نے بیان کیا حقیقی سوالات ہیں اور یہ اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم نے اس دین کے اصل مزاج ہی کو نہیں سمجھا ہے باوجود اس کے کہ اس دین کا مزاج اور اس کا طریق کار نہایت ہی سادہ ہیں یا ہم نے انہیں سمجھتے ہوئے بھلادیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ انسانی فطرت کو بھی تبدیل کرسکتا ہے ۔ چاہے وہ فطرت انسانی کو اس دین کے ذریعہ بدلے یا اس کے لئے کوئی اور طریق کار اختیار کرے اور وہ اس بات پر بھی قادر تھا کہ ابتدائے آفرینش سے انسان کو کسی دوسری فطرت پر پیدا کرتا ۔ لیکن اس کی مشیئت یہ تھی کہ وہ انسان کو اس کی موجودہ فطرت پر ہی پیدا کرے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے پسند کیا کہ انسان کو ذی ارادہ بنائے اور اس کے اندر ہدایت وضلالت قبول کرنے کی صلاحیت ہو۔ اور اس کی مشیئت یہ بھی تھی کہ ہدایت کو ‘ انسان کی جدوجہد اور اس کی جانب سے طلب ہدایت اور اس کی استعداد قبولیت پر موقوف کردیا جائے ۔ پھر اللہ کی مشیئت نے چاہا کہ انسانی فطرت ہمیشہ کام کرتی رہے اور اسے کسی صورت میں مٹایانہ جاسکے ‘ نہ تبدیل کیا جاسکے اور نہ معطل کیا جاسکے اور اس کی مشیئت یہ بھی تھی کہ اسلامی نظام زندگی کو اس کرہ ارض پر بذریعہ انسانی جدوجہد قائم کیا جائے اور انسانی طاقت اور وسعت کے حدود کے اندر قائم کیا جائے ۔ اور یہ بھی مشیئت الٰہی کا ایک حصہ تھا کہ انسان کو وہی کچھ ملے جس قدر وہ اپنی وسعت کے مطابق جدوجہد کرے ۔ اس کی زندگی کے شب وروز کے مطابق اور جو صورت حال فی الواقعہ موجود ہو اس کے دائرے میں۔ انسانوں میں سے کسی کے لئے یہ حق نہیں ہے کہ وہ پوچھے اللہ نے ایسا کیوں چاہا ۔ جب تک انسان بندہ اور خدا الٰہ ہے اس لئے کہ انسان کے پاس اس کائنات کے نظام کا کلی علم نہیں ہے اور نہ اس علم تک کبھی انسان کے پہنچنے کا امکان ہے ۔ نہ انسان کو یہ علم دستیاب ہو سکتا کہ اس کائنات کے ہر موجود کے حوالے سے نظام کائنات کے تقاضے کیا ہیں اور یہ کہ انسان کی موجودہ فطرت کی منصوبہ بندی اور تشکیل کے پیچھے کیا کیا حکمت کارفرما ہے ۔ اس لئے ایسے مقامات پر ایک سچا مسلمان یہ سوال کر ہی نہیں سکتا کہ کیوں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایک سنجیدہ ملحد بھی یہ سوال نہیں کرسکتا کیوں ؟ مومن تو اس لئے نہیں کرسکتا کہ اسے بارگاہ الٰہ میں بڑا باادب ہونا چاہئے اس لئے کہ اس کا دل ذات باری کی حقیقت اور اس کی صفات سے واقف ہوتا ہے اور اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ انسانی ادراک کا یہ میدان عمل ہی نہیں ہے ۔ اور کافر اس لئے یہ سوال نہیں کرتا کہ وہ سرے سے خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتا ۔ اگر سے ذات باری کی معرفت ہوتی تو وہ اس کی ذات وصفات کا اعتراف کرلیتا ۔ الوہیت کے تقاضوں کو جانتا۔ ہاں بعض ایسے لوگ جو سنجیدہ نہیں ہوتے اور اخلاقی لحاظ سے گرے ہوئے ہوتے ہیں وہ ایسے سوالات کرتے ہیں ۔ وہ نہ سنجیدہ اور سچے مسلم ہوتے ہیں اور نہ ہی سنجیدہ اور سچے کافر ہوتے ہیں ۔ اس لئے اس سوال میں زیادہ دلچسپی لینا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اسے سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہئے ۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک جاہل شخص ذات باری کے متعلق سوال کرتا ہے ۔ اس لئے کہ ایسے جاہل کے سوال کا جواب براہ راست نہ دینا چاہئے ۔ اسے صرف اللہ کی الوہیت کی حقیقت بتادینا چاہئے ‘ تو اگر وہ اسے پالے تو مومن ہے اور اگر نہ پاسکے تو کافر ہے ۔ بس ایسے جاہل کے ساتھ بات یہاں ختم ہوجاتی ہے ۔ ورنہ یہ شخص بحث برائے بحث کررہا ہوگا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو یہ سوال اٹھانے کا حق ہی نہیں ہے کہ اللہ نے حضرت انسان کو اس کی اس موجودیہ فطرت کے مطابق کیوں پیدا کیا ؟ کیوں اس کی یہ فطرت کام کرتی رہتی ہے ‘ اسے مٹایا نہیں جاسکتا ۔ اس میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔ اسے معطل نہیں کیا جاسکتا اور پھر کیوں اللہ نے اسلامی نظام زندگی کے قیام کو انسانی جدوجہد پر موقوف کیا اور انسانی طاقت کے اندر جدوجہد کو ضروری قراردیا۔ ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرے ۔ وہ دیکھے کہ انسانی فطرت انسانی ماحول کے اندر کس طرح کام کرتی ہے۔ پھر وہ انسانی تاریخ کا مطالعہ اس فطری انداز میں کرے ۔ اس طرح ایک تو وہ تاریخی واقعات کے حقیقی اسباب کو سمجھے گا اور دوسرے یہ کہ اسے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ تاریخ کا رخ کس طرح موڑا جاسکتا ہے ۔ یہ نظام زندگی جسے ہم اسلام کہتے ہیں ‘ جس طرح اسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیش فرمایا ‘ اس زمین پر ‘ ان لوگوں کی دنیا میں ‘ صرف اس بناپر جاری وساری اور قائم نہیں ہوسکتا کہ بس وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے ۔ اور یہ صرف مجرد ” تبلیغ “ اور ” بیان “ سے بھی نافذ نہیں ہوسکتا ۔ اور یہ اس طرح بھی نافذ نہیں ہوسکتا کہ اسے اللہ تعالیٰ ناموس فطرت اور قوانین قدرت کی طرح نافذ کردے ‘ جو اس نے آسمانوں کی گردش ‘ ستاروں کی رفتار اور طبیعی اسباب پر طبیعی نتائج مرتب کئے جانے والے کے سلسلے میں جاری کئے ہوئے ہیں ۔ بلکہ اس کے لئے یہ منہاج رکھا گیا ہے کہ اسے ایک انسانی جماعت لے کر اٹھے ‘ جو سب سے پہلے اس پر اچھی طرح ایمان رکھتی ہو ‘ پھر خود اس پر پوری طرح عمل پیرا ہو اور اپنی طاقت کے مطابق اسے زندگی کا وظیفہ اور نصب العین قرار دے ۔ پھر دوسروں کے دلوں میں اس ایمان کی منتقلی اور ان کی زندگیوں میں اس نظام کے قیام کے لئے یہ جماعت جدوجہد کرتی ہو ‘ اور اس قدر جدوجہد کرے کہ اس سلسلے میں وہ اپنی پوری طاقت لگادے ۔ وہ انسانی کمزوریوں کے خلاف جہاد کرے وہ انسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرے اور وہ اپنے نفس کی جہالت اور دوسرے نفوس کی جہالت کے خلاف جہاد کرے ۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرے جو انسانی کمزوریوں ‘ خواہشات نفسانیہ اور جہالت کی وجہ سے اس نظام زندگی کی راہ روکے کھڑے ہیں اور اس نظام زندگی کو اس حد تک قائم کردے جس حد تک انسانی مزاج اور طاقت اسے برداشت کرسکتے ہیں اور وہ انسانوں کو اس مقام سے پکڑے جس مقام پر وہ درجہ ترقی کے حوالے سے عملاً موجود ہوں۔ وہ ان انسانوں کے حقیقی حالات زندگی کو نظر انداز نہ کرے ۔ نیز وہ لوگوں کے حقیقی حالات کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہ کرے اور ان حالات اور تقاضوں کے مطابق اس نظام کو چلائے ۔ لوگوں کی یہ جماعت پہلے خود اپنے نفس پر فتح حاصل کرے ‘ اور پھر کبھی وہ اپنے ماحول کے لوگوں پر فتح حاصل کرے اور کبھی یوں ہو کہ وہ اپنے نفس اور اپنے ماحول کے لوگوں سے شکست کھاجائے ۔ یہ بات اس کی جدوجہد کے عین مطابق ہو۔ ان عملی طریقہ ہائے کار کے عین مطابق ہو ‘ جو اس جماعت نے اختیار کئے یا جس قدر اسے اختیار کرنے کی توفیق ہوئی ۔ پھر اس جماعت کے لئے ہر چیز سے پہلے ‘ ہر جدوجہد سے پہلے اور ہر وسیلہ واسلوب سے پہلے ایک دوسرا بنیادی عنصر بھی ضروری ہے ‘ وہ یہ کہ یہ جماعت اس نصب العین کے ساتھ کس قدر مخلص ہے اور وہ کس قدر اپنی ذات کے اندر اسے نافذ کررہی ہے ۔ اور یہ کہ اس نظام کے نازل کرنے والے اللہ کے ساتھ اس کا تعلق کس قدر ہے ؟ اسے اس پر کس قدر اعتماد ہے اور اسے اس پر کس قدر توکل اور بھروسہ ہے ؟ یہ ہے اس دین کی اصل حقیقت اور یہ ہے اس کا طریق نفاذ اور یہ ہے اس کی تحریک کا منصوبہ ۔ اور یہی وہ بات ہے جسے اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو اچھی طرح سمجھانا چاہتے ہیں ۔ واقعہ جنگ احد کے تمام واقعات کے بیان ‘ ان واقعات پر آنے والے تبصروں کا پورا ماحصل یہی ہے ۔ اب یہ کہ احد کے موقعہ پر اسلامی جماعت نے جب مکمل اسلام کو ‘ جس میں اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام شامل تھے ‘ اپنے نفسوں میں عملی شکل پیش کرنے میں قدرے قصور کیا ‘ اور بعض مواقف پر اس نے بعض عملی اقدامات کرنے میں کوتاہی کی ‘ اور جب اس نے اس مذکورہ بالا عظیم اساسی حقیقت کو سمجھنے میں کوتاہی کی اور اس نے یہ خیال کیا کہ ہم تو بہرحال کامیاب ہوں گے ‘ اس لئے کہ یہ دین اور یہ نظام اللہ کی طرف سے ہے اور اس بنا پر اس نے اپنے تصرفات اور تدابیر کو نظر انداز کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ہزیمت سے دوچار کردیا تاکہ وہ ذرا تلخ تجربات کا مزہ بھی چکھ لے ۔ چناچہ اس تجربے کے بعد قرآن مجید نے ان کی اس غلط فہمی کو اپنے تبصرے کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کی۔ أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ” اور جب تم پر وہ مصیبت آئی جس کے دوگنا تمہارے ہاتھوں سے ان پر آئی تھی تو تم نے کہا یہ کیسے ؟ اے پیغمبر کہہ دو کہ یہ خود تمہارے اپنے نفوس کی وجہ سے ہے ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ جیسا کہ اس سے قبل سیاق کلام میں کہہ آئے ہیں ‘ اللہ اہل ایمان کو اس مقام پر چھوڑ نہیں دیتے بلکہ انہیں اللہ کی تقدیر کے ساتھ پیوستہ فرماتے ہیں جو ان اسباب اور نتائج کی پشت پر کام کررہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں بتاتے ہیں کہ اس ابتلا کی پشت پر اللہ کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے لئے بھلائی چاہتے ہیں ‘ رہی ابتلا تو یہ تو ان پر ان کے اپنے تصرفات اور اسباب ظاہری کی وجہ سے آتی ہے۔ یہ فیصلہ کہ اسلامی نظام زندگی کا قیام ‘ انسانی جدوجہد پر چھوڑدیا گیا ہے اور اس پر ان انسانی اقدامات کا اثر ہوتا ہے جو وہ اس کے حوالے سے کرتے ہیں ۔ اس میں انسان کے لئے بہت بڑی بھلائی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں فساد کے بجائے اصلاح چاہتا ہے ۔ اسے معطل کرنا نہیں چاہتا ۔ وہ انسانی فطرت کی اصلاح اس طرح چاہتا ہے کہ وہ اسے بیدار کرتا ہے اور اسے اعتدال پر لاتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ کسی دل میں ایمان اس وقت تک مکمل اور پورا نہیں ہوسکتا جب تک یہ شخص اسلام کے حوالے سے لوگوں کا مقابلہ نہیں کرتا۔ یہ جہاد وہ سب سے پہلے تبلیغ اور بیان کے ذریعہ کرے گا ۔ اس کے بعد وہ مجاہدہ ہاتھ سے کرے گا جب کہ مخالف اسلام قوت زبردستی راہ ہدایت کو مسدود کررہی ہے۔ اس سلسلے میں اس مومن پر ابتلا کا دور بھی آسکتا ہے جس میں اسے صبر سے کام لینا ہوگا ‘ تکالیف برداشت کرنا ہوں گی ‘ ہزیمت اٹھانی ہوگی اور اس پر صبر کرنا ہوگا۔ اگر فتح نصیب ہو تو سنجیدہ رہنا ہوگا۔ اس لئے کہ فتح کے وقت صبر اور سنجیدگی بہ نسبت شکست کے زیادہ مشکل ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ دل صاف ہوجائے ‘ صفوف کے اندر سے کچا عنصر چھٹ جائے ‘ جماعت اپنی صحیح راہ پر گامزن ہوجائے اور اپنی سیدھی راہ پر اوپر کی طرف چڑھتی جائے اور اس تمام سرگرمی میں متوکل علی اللہ ہو۔ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جب تک قلب مسلم ایمان کے معاملے میں لوگوں کے مقابلے میں مجاہدہ اور جہاد نہیں کرے گا ان کے دلوں میں حقیقت ایمان کا بیٹھنا نہایت ہی مشکل ہے ۔ اس لئے کہ لوگوں کے ساتھ مقابلہ اور مجاہدہ سے قبل اس نے اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرلیا ہوگا۔ اور اس جہاد کے بعد اس کے سامنے ایمان کے وہ آفاق کھلیں گے جو اس کے سامنے کبھی نہیں کھل سکتے جب تک وہ بیٹھا ہواہو ‘ پرامن زندگی گزارنے کا عادی ہو اور ہر کسی کے ساتھ مسالمت کررہا ہو اور ہر حال میں نباہ رہا ہو۔ جب وہ جہاد شروع کرے گا تو اسے لوگوں کے اندر حقائق نظر آئیں گے ‘ زندگی کے اندر کچھ حقائق اس پر روشن ہوں گے جو ہرگز اس پر روشن نہیں ہوسکتے تھے جب تک وہ مجاہدہ فی سبیل اللہ نہیں شروع کرتا ۔ اس جہاد فی سبیل اللہ ہی کے نتیجے میں اس کا نفس ‘ اس کا شعور ‘ اس کے تصورات ‘ اس کی عادات ‘ اس کا مزاج ‘ اس کے تاثرات اور اس کی قوت قبولیت حق اس مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں تک اس کے بغیر وہ ہرگز نہ پہنچ سکتا تھا۔ غرض جہاد کا یہ شاق اور تلخ تجربہ انسان کو کندن بنا دیتا ہے۔ اسی طرح کسی جماعت مسلمہ کے اندر بھی ایمان کی حقیقت اس وقت تک مکمل اور مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک وہ تجربہ ‘ امتحان اور ابتلا میں نہ پڑے ۔ اور جب تک اس کا ہر فرد اپنی قوت کی حقیقت سے واقف نہ ہو۔ جب تک اس فرد کو اپنے نصب العین کا پتہ نہ ہو ۔ اسی طرح اس جماعت کو بھی اپنی تمام اینٹوں کا پتہ نہ ہو جن سے وہ بنی ہے ۔ یوں کہ ہر اینٹ کس قدر بوجھ سہار سکتی ہے اور یہ کہ مشکل اور ٹکر کے وقت وہ اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ کس قدر پیوست ہیں ۔ یہ تھی وہ حکمت جس کو اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو سمجھانا چاہتے تھے ‘ اور یہ حکمت اس کو تربیت کے اس کورس میں اسے سمجھائی گئی جو میدان احد میں اسے دیا گیا۔ اور اس کے بعد پھر واقعات احد پر اس سورت میں جو تبصرہ کیا گیا ‘ اس میں بھی اسی حکمت کو اسے سمجھایا گیا۔ جبکہ ظاہری اسباب شکست کے بیان کے بعد اللہ نے فرمایا :” جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا ‘ اور اس لئے تھا کہ اللہ دیکھ لے تم میں سے مومن کون ہیں اور منافق کون ہیں ۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا ” اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کرکے رہے گا ۔ “ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں اللہ کی حکمت اور تقدیر کی طرف حوالے کرتا ہے ‘ یعنی ان اسباب کی پشت پر جو تقدیر اور حکمت تھی ۔ چناچہ انہیں ایمان کی اس عظیم حقیقت اور سچائی کی طرف موڑتا ہے جو اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ نفس انسانی کے اندر بیٹھ نہیں جاتی ۔ فرماتے :” اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے فریق مخالف کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔ تم پر یہ وقت اس لئے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی راستی کے گواہ ہیں کیونکہ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور وہ آزمائش کے ذریعہ مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کرنا چاہتا تھا۔ “ تو گویا یہ اب اللہ کی تقدیر ہے ‘ اس کی تدبیر ہے اور اس کی حکمت ہے ‘ جو ان اسباب کی پس پشت کام کررہی ہے ‘ ان واقعات کے پیچھے کام کررہی ہے ۔ اور ان تمام اشخاص اور ان کی تمام حرکات کے پیچھے حقیقی موثر ہے ۔ اور یہی اسلام کا کامل اور شامل اور جامع تصور ہے ۔ اور یہ تصور ان واقعات کے نتیجے میں انسانی ذہن میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اور پھر ان واقعات پر جو تبصرہ کیا گیا ہے ‘ اس میں بھی اس کی طرف واضح اشارات موجود ہیں ۔ ٢۔ اس معرکے کے واقعات اور ان تبصروں کے ذریعہ ایک دوسری حقیقت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے ۔ یعنی نفس انسانی ‘ فطرت انسانی ‘ انسانی جدوجہد کے مزاج ‘ اور ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان میں فریضہ اقامت دین کے حصول کے امکانات ……حقیقت یہ ہے کہ نفس انسانی کامل نہیں ہے اور یہ اپنی حقیقت واقعیہ کے اعتبار سے کامل نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ارتقاء اور ترقی کے اہل بھی ہے اور وہ اس میدان میں ترقی و کمال کی انتہاؤں کو چھوسکتا ہے ‘ جو انتہاء اور حد اس کے لئے مقرر کردی گئی ہے ۔ دیکھئے ہم انسانی جماعتوں میں سے ایک جماعت کا مطالعہ کرتے ہیں ‘ اور یہ جماعت اپنی حقیقی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ یہ جماعت گروہ صحابہ کی صورت میں ہے ‘ جس کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ……………(تم سب سے بہترین امت ہو ‘ جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے ) اور یہ خیر امت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ تھے ۔ یہ تمام انسانیت کی روح اور زمین کا نمک تھے۔ لیکن اس جماعت صحابہ کا جو مطالعہ اس سورت میں پیش کیا گیا ہے ” تم میں سے جو لوگ مقابلے کے دن پیٹھ پھیر گئے ان کی لغزش کا سبب یہ ہے کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگادیئے تھے ۔ اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ “ اور بعض دوسرے صحابہ کے بارے میں ہے ” مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور کام میں باہم اختلاف کیا ‘ اور جو نہی کہ وہ چیز تمہیں دکھائی دی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے تو تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کربیٹھے ۔ اس لئے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے ۔ “ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ……………” اور دراصل تمہاری اس لغزش کو اللہ نے معاف کردیا۔ “……انہی کے بارے میں قرآن کہتا ہے ” جب تم میں دوگروہوں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ وہ کمزوری دکھائیں اور اللہ تو ان کا مددگار تھا ‘ اللہ ہی پر اہل ایمان کو توکل کرنا چاہئے ۔ “ انہی حضرات میں سے بعض لوگ شکست کھاتے ہیں اور وہ کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور ان کی ہزیمت کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے ‘ کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمہیں نہ تھا۔ اور رسول تمہارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا ۔ اس وقت تمہاری ‘ اس روش کا بدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیئے تاکہ آئندہ کے لئے تمہیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو۔ “ جنگ بدر کے شرکاء سب کے سب مومن اور مسلم تھے ۔ لیکن یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا ۔ اس وقت جماعت کی تربیت اور تشکیل ہورہی تھی ۔ لیکن وہ اسلامی نظریہ حیات اپنانے میں سنجیدہ اور سچے تھے ۔ انہوں نے اپنا تمام معاملہ اللہ کے سپرد کردیا تھا۔ اللہ کی راہنمائی پر راضی ہوگئے تھے ۔ انہوں نے اس نظام زندگی کے آگے سرتسلیم خم کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انہیں اپنے جوار رحمت سے دھتکار نہ دیا ۔ ان پر رحم فرمایا اور انہیں معاف کردیا ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حکم دیا کہ وہ انہیں معاف کردیں ۔ اور ان کے لئے مغفرت طلب کریں ۔ اور اللہ نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم بھی دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے مشورہ بھی لازماً کریں ۔ باوجود اس کے کہ ان سے غلطیاں ہوئیں ‘ باوجود اس کے کہ مشورے کے نتیجے میں ‘ احد میں نقصان ہوا۔ اللہ نے انہیں اپنے معاملات اور تصرفات کے نتائج کا مزہ چکھنے دیا۔ اور انہیں ایسے سخت اور تلخ ابتلا میں ڈالا ۔ لیکن ان غلطیوں کے باوجود انہیں اسلامی صفوں سے باہر نکال کر نہیں پھینک دیا ۔ اور یہ حکم صادر نہیں کیا :” جاؤ تم اس کام کے لئے فٹ نہیں ہو ‘ کیونکہ تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ تم سے کمزوریاں سرزد ہوئیں اور تم نے غلطیاں کیں۔ “ بلکہ اسلام نے ان کی غلطیوں اور کمزوریوں کو قبول کرلیا ۔ اس ابتلا میں ڈال کر ان کی تربیت کی ۔ اس کے بعد ان کی غلطیوں پر مزید تبصرہ کرکے مزید تربیت کی ۔ اور اس کے بعد نصیحت کرکے اور ہدایات دے کر مزید تربیت کی ۔ اور یہ نصیحت اور یہ وعظ بھی نہایت ہی مشفقانہ انداز میں عفو و درگزر کے ساتھ کیا ۔ جس طرح ایک بزرگ اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے ۔ وہ آگ سے جلائے جاتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ آگ جلاتی ہے اور تاکہ وہ ہوشیار ہوجائیں ۔ اللہ نے ان کے ضعف کو ان پر آشکارا کیا اور ان کے دلوں کی خفیہ سوچوں سے بھی انہیں آگاہ کردیا ۔ اس لئے نہیں کہ انہیں شرمندہ کیا جائے ‘ یا ذلیل کیا جائے ‘ یا حقیر سمجھاجائے یا یہ کہ انہیں مجبور کیا جائے اور ان پر وہ بوجھ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے ‘ بلکہ اس لئے کہ ان کے ہاتھ پکڑے جائیں ‘ انہیں ہدایت دی جائے ۔ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی جائے اور وہ اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھیں اور کبھی بھی مایوس نہ ہوں جب تک وہ اللہ کی مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہیں ۔ اس تربیت کے بعد وہ اپنے اصل مقام پر آگئے ۔ اپنی آخری منزل تک پہنچ گئے اور ان کے اندر وہ رنگ پیدا ہوگیا جو احد کے معرکہ کے آغاز میں تھا ۔ آج ہزیمت اور چوٹ لگنے پر ایک ہی رات گزری ہے ۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تعاقب کے لئے نکل رہے ہیں ۔ آج نہ ان کے دل میں ڈر تھا نہ تردد تھا۔ آج وہ ڈرانے والوں کی باتوں کو خاطر ہی میں نہ لارہے تھے ‘ جو انہیں ان الفاظ میں ڈرا رہے تھے : الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ” جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف فوجیں جمع ہوئی ہیں ‘ ان سے ڈرو ۔ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔ “ اور اس کے بعد جب افراد جماعت بڑے اور بالغ ہوتے گئے تو ان کا معاملہ بھی بدلتا گیا اور ان کا محاسبہ اس طرح کیا جانے لگا جس طرح بڑے اور بالغ افراد کا کیا جاتا ہے ۔ لیکن ابتداء میں ان کی تربیت اسی طرح تھی جس طرح بچوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ جو شخص غزوہ تبوک کے حالات پڑھے گا (سورت برأت میں) چند افراد اس غزوے سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا سخت محاسبہ کیا ۔ یہ بہت ہی سخت محاسبہ تھا ۔ اس سے احد اور تبوک کی پالیسی کے درمیان واضح فرق نظرآئے گا اس لئے کہ اب جماعت تربیتی لحاظ سے بہت ہی آگے جاچکی تھی ۔ لیکن جب یہی لوگ احد میں تھے ‘ تو ان سے نرمی کی گئی ۔ اس لئے کہ اب تبوک کے معاملے میں وہ تربیت کے آخری مرحلے میں تھے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ تھے تو انسان ۔ پھر بھی ان میں انسانی کمزوری تھی ‘ غلطی ہوگئی ‘ لیکن ان کے اندر غلطی کا اعتراف اور توبہ کا داعیہ موجود تھا ‘ آخرکار معافی ہوئی ۔ غرض اسلامی زندگی کے اندر انسان کی بششریت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسے تبدیل نہیں کیا جاتا ‘ اسے معطل نہیں کیا جاتا اس پر اس قدر بوجھ نہیں ڈالا جاتا کہ اس کی طاقت سے باہر ہو۔ اگرچہ اسلامی نظام زندگی اسے اس دنیا میں اس مقام بلند تک پہنچاتا ہے جو اس کے لئے مقدر ہو۔ اسلام کا یہ طرز عمل اس نقطہ نظر سے بہت ہی اہم ہے کہ وہ انسان کو ہمیشہ امید کی کرن سے نوازتا ہے تاکہ وہ سعی برائے کمال جاری رکھے اور آگے بڑھے ۔ لیکن اسلامی نظام زندگی کے سایے میں ‘ یہ جماعت جس مقام بلند تک پہنچی وہ اس گرے ہوئے مقام سے اپنے سفر کا آغاز کرکے پہنچی جس میں وہ اس وقت پڑی تھی ‘ جب اسلام آیا راستے میں اس سے لغزشیں ہوتی رہیں ‘ اس لئے کہ راستہ دشوار گزار تھا ‘ اور وہ جماعت بہرحال ایک انسانی جماعت تھی اور ایک نہایت ہی پسماندہ سوسائٹی سے اٹھی تھی جو جاہلیت میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ہر لحاظ سے پسماندہ تھی جب کہ ہم نے اس کے نمونے تشریح آیات کے وقت پیش کئے ۔ اسلام کی اس پالیسی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کو اس مقام بلندتک پہنچنے کی امید سے مالا مال کردیتا ہے ۔ اگرچہ کسی معاشرے کے موجودہ حالات بد سے بدتر ہوں ۔ پھر اس پسماندہ سوسائٹی سے امت کو اٹھاکر اسلام اس قدر ترقی دیتا ہے کہ اس کی مثال آج تک پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ابھی تک اس مثال کو دہرایا نہیں جاسکا حالانکہ یہ کوئی معجزانہ انقلاب نہ تھا ‘ جواب ناقابل اعادہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا انقلاب تھا جو اسلامی زندگی کے تحت رونما ہوا ‘ جو انسانی جدوجہد کے نتیجے میں رونما ہوا۔ انسانی طاقت کے حدود کے اندر رونما ہوا ۔ آج بھی یہ انقلاب اسی انسانی طاقت کے بل بوتے پر برپا کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ انقلاب ممکن ہے ۔ غرض اسلامی زندگی پر سوسائٹی کو وہاں لیتا ہے جہاں وہ موجود ہوتی ہے اور جہاں تک وہ مادی ترقی کرچکی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد وہ اسے مزید ترقی دیتا ہے جب کہ اس نے عربوں کی جاہلیت زدہ پسماندہ سوسائٹی کے ساتھ کیا جو نہایت ہی ابتدائی مدارج پہ تھی ۔ نہایت گری ہوئی اور اس سوسائٹی کو اسلام نے نہایت ہی ایک مختصر عرصے میں جو ربع صدی سے بھی کم تھا ‘ اوج کمال تک پہنچایا۔ لیکن اس کے لئے واحد شرط ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ کوئی انسانی سوسائٹی اپنی نکیل اس نظام کے ہاتھ میں دے دے ۔ اس پر ایمان لائے ‘ اس کے آگے سرتسلیم خم کردے ۔ وہ اسے اصول حیات بنادے ‘ وہ اسے اپنی تحریک کا شعار بنادے ‘ اور اس طویل اور دشوار گزار سفر میں اس کے ساتھ ہم قدم ہوجائے ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اچھے اور برے لوگوں میں امتیاز فرمائے گا منافقین مخلص مسلمانوں میں گھلے ملے رہتے تھے ان کے ظاہری دعو وں کی وجہ سے اور بعض نمازوں میں حاضر ہونے کی وجہ سے ظاہری طور پر یہ امتیاز نہ ہو پاتا تھا کہ منافق کون ہے اور مخلص کون ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ تم کو اس حالت پر نہیں رکھنا چاہتا جس پر تم اب ہو بلکہ اللہ پاک کی طرف سے ایسے شدائد اور مصائب پیش آتے ہیں اور پیش آئیں گے کہ ناپاک لوگ یعنی منافقین کا پاک لوگوں (یعنی مومن مخلصین) سے امتیاز ہوجائے کیونکہ مصیبت کے وقت اپنے پرائے کا اچھی طرح پتہ چل جاتا ہے۔ پھر فرمایا (وَ مَا کَان اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ ) اس میں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ تمہیں منافقین کے نفاق پر اس طرح مطلع فرما دیں کہ تم ان کے قلوب کو جان لو ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے، حکمت یہ ہے کہ عملی طور پر ظاہری طریقے پر منافقوں کا نفاق کھل جائے اور وہ اس طرح سے واضح ہو کہ جب مصیبتیں پیش آئیں اور اللہ کی راہ میں جان و مال خرچ کرنے کے مواقع آئیں تو منافقین بھاگ نکلیں غزوہ احد میں عمل سے بھی راہ فرار اختیار کی اور زبانی طور پر بھی ایسے کلمات بول اٹھے جن سے صاف ظاہر ہوگیا کہ یہ اندر سے مومن نہیں ہیں۔ اگر مسلمانوں کو منافقوں کے قلوب کا حال بتادیا جاتا اور مسلمان اپنے اسی علم کی بنیاد پر یہ کہتے کہ تم منافق ہو مسلمان نہیں ہو تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ تمہارے پاس ہمارے منافق ہونے کی کیا دلیل ہے تم غلط کہتے ہو ہم تو سچے پکے مسلمان ہیں، لیکن جب مصیبتوں کا سامان ہوا اور منافق بھا گ کھڑے ہوئے تو ظاہری طور پر خود ہی مسلمانوں سے الگ ہوگئے اور اب ان کا منہ نہ رہا کہ مومن مخلص ہونے کا دعویٰ کریں۔ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے غیب کی بات بتادیتا ہے اس غیب میں یہ بھی ہے کہ کسی کا نفاق اور دل کا چور اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتادے اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ظاہر فرمائے یا مصائب اور شدائد اور تکالیف اور قربانی کے مواقع سامنے لا کر منافقین کا نفاق ظاہر فرمائے اور سب کے سامنے رسوا فرمائے یہ سب حکمت کے مطابق ہے۔ قال صاحب الروح صفحہ ١٣٧: ج ٤ والا ستدراک اشارۃ الی کیفیۃ وقوعہ علی سبیل الا جمال و ان المعنی ماکان اللہ لیترک المخلصین علی الاختلاط بالمنافقین بل یرتب المبادی حتی یخرج المنافقین من بینھم وما ذلک باطلاعکم علی ما فی قلوبھم من الکفر و النفاق ولکنہ تعالیٰ یوحی الی رسولہ فیجزہ بذلک و بما ظھر منھم من الاقوال و الافعال حسبماح کی عنھم بعضہ فیما سلف فیفضھم علی رؤس الا شھاد و یخلصکم مماتکر ھون۔ آخر میں فرمایا (فَاٰمِنُوْا باللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ) ( کہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ) یعنی اسی پر ثابت قدم رہو اور اگر تم مومن رہوگے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے لیے اجر عظیم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

271 حضرت شیخ نے فرمایا کہ یہ سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ تھا کہ مومنوں پر اللہ کی آزمائشیں کیوں آتی ہیں تو جواب دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ مومن اور منافق آپس میں ملے جلے رہیں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا فرما دیتا ہے تاکہ منافق ظاہر ہو کر مخلص مومنوں سے جدا ہوجائیں۔ مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ سے وہ حالت مراد ہے جس میں مخلص مومنین میں منافقین ملے ہوئے ہوں۔ من اختلاط المومنین المخلصین والمنافقین (مدارک ج 1 ص 153) ۔ اَلخَبِیْث سے منافق اور اَلطَّیِّب سے مخلص مومن مراد ہے منافق کو اس کے کفر و نفاق کی باطنی نجاست و خباثت کی بنا پر الخبیث فرمایا اور مخلص مومن کا قلب اخلاص اور نور ایمان کی طہارت و نورانیت کی وجہ سے طیب و طاہر ہوتا ہے اور پھر باطنی طہارت کے ساتھ اسے عملی اور اخلاقی طہارت بھی حاصل ہوتی ہے اس لیے اسے الطیب سے تعبیر فرمایا۔ 272 یہ ماقبل پر معطوف ہے اور لِیَطَّلِعَکُمْ میں خطاب مومنوں سے ہے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ خطاب عام ہے مومنوں اور کافروں سب کو شامل ہے۔ والاول اولی یہ بھی سوال مقدر کا جواب۔ مومنوں نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں کوئی علامت دی جائے جس سے وہ مومن اور منافق میں پہچان کرسکیں۔ ان المؤمنین سالوا ان یعطوا علامۃ یفرقون بھا بین المومن والمنافق فنزلت (روح ج 4 ص 138) ۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ نہ تو ایسا کرے گا کہ مومنوں اور کافروں کو باہم ملا جلا رہنے دے اور ان میں حد امتیاز قائم نہ کرے بلکہ وہ ضرور منافقین کو مومنین سے جدا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا۔ کہ تم کو غیب کا علم دے دے اور تم دل کی پوشیدہ باتوں پر مطلع ہوجاؤ اور اس طرح مومن اور منافق کو پہچان لیا کرو بلکہ تمہارے لیے ایک ہی صورت ہے کہ امتحان و ابتلاء اور تکلیف و محنت کے ذریعے بطور استدلال تم مومن اور منافق میں امتیاز کرلو جیسا کہ احد میں واقع ہوا یا معشر المؤمنین ای ما کان اللہ لیعین لکم المنافقین حتی تعرفوھم و کن ذالک لکم بالتکلف والمحنۃ و قد ظھر ذالک فی یوم احد فان المنافقین تخلفوا واظھروا الشماتۃ (قرطبی ج 4 ص 289) ۔ باقی رہا اطلاع الغیب کے ذریعے مومن و منافق میں امتیاز کرنا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بعض رسولوں کو منتخب کرتا ہے اور بذریعہ وحی ان کو اطلاع دیتا ہے۔ تحقیق مزید : جہاں تک آیت کے نفس مفہوم کا تعلق تھا وہ تو اوپر بیان ہوچکا ہے اب یہاں اہل بدعت کے ایک مغالطہ کا رد مقصود ہے مبتدعین اس آیت سے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کے لیے کلی علم غیب ثابت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں الغیب میں الف لام استغراق کیلئے ہے اس آیت میں غیر انبیاء سے الغیب یعنی کلی غیب کی نفی کی گئی ہے اور پھر لکن سے برگزیدہ رسولوں کے لیے الغیب یعنی کلی غیب کو ثابت کیا گیا ہے لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے۔ اولا اس لیے کہ الف لام بلا شبہ استغراق کے لیے بھی آتا ہے لیکن یہ اس کا حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی ہے اور الف لام عہد خارجی میں اصل اور حقیقت ہے۔ چناچہ علامہ تفتا زانی فرماتے ہیں۔ التعریف لا یلزم ان یکون للاستغراق بل العہد ھو الاصل (التلویح ص 160) یعنی لام تعریف کے لیے ضروری نہیں کہ وہ استغراق کے لیے ہو بلکہ اصل تو عہد خارجی ہے اور مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی فرماتے ہیں۔ انما الفرق بان الجنس لا یحتاج الی مؤنۃ المقام الخطابی بخلاف الاستغراق (حاشیہ عبدالغفور ص 2) یعنی جنس اور استغراق میں فرق بایں طور ہے کہ جنس کے لیے مقام خطابی کے قرینہ کی ضرورت نہیں لیکن استغراق قرینہ کا محتاج ہوتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ استغراق میں الف لام کا استعمال مجازی ہے۔ کیونکہ اہل علم خوب جانتے ہیں کہ قرینہ کے محتاج ہمیشہ مجازی معنی ہوتے ہیں۔ اور حقیقی معنی محتاج قرینہ نہیں ہوتے۔ اور فاضل محقق مولانا نور محمد لکھتے ہیں۔ قال العلامۃ تفتا زانی فی بعض تصانیف انھم اختلفوا فی اللام المزید بعد رفع الاسم بالابتداء کما فی سلام علیک فذبھب بعضھم الی انھا تعریف الجنس اذ لا عھد ھنا ولا ثالث لمعنی اللام باتفاق ائمۃ اللغۃ۔ اس کے بعد صاحب لباب الاعراب سے نقل کیا ہے۔ اللام لا یفید الا التعریف والاسم لا یدل الا علی الجنس فاذن لا یکون ثمہ الاستغراق نعم یصار الیہ بقرینۃ المقام لا ان یکون مدلول اللام (حاشیہ عبد الغفور ص 3) دونوں عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ الف لام باتفاق ائمہ لغت عہد خارجی اور جنس میں اصل اور حقیقت ہے اور استغراق میں اس کا استعمال مجازی اور محتاج قرینہ ہے، ہکذا فی المتن المتین وغیرہ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ استغراق الف لام کا مجازی استعمال ہے تو بلا قرینہ صارفہ حقیقت یعنی عہد خارجی کو چھوڑ کر استغراق مراد لینا ہرگز جائز نہیں۔ لان المجاز فرع الحقیقۃ اور مجازی معنی صرف اسی وقت مراد لیے جاتے ہیں۔ جب حقیقت متعذر ہو متی تعذر الحقیقۃ ارد المجاز۔ لیکن یہاں تو حقیقی معنی متعذر نہیں ہیں۔ بلکہ ممکن اور عین مراد ہیں کما سیاتی ثانیا۔ اس آیت میں الف لام کو استغراق پر محمول کرنا ویسے بھی مقام کے مناسب نہیں کیونکہ مقام تو عہد خارجی کا مقتضی ہے اس لیے کہ سوال تو غیب کے ایک خاص معاملہ کے بارے میں تھا یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں صاف صاف بتا دے کہ فلاں فلاں شخص منافق ہے یعنی ان کے دلوں میں نفاق ہے اس لیے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس غیب کی بات پر مطلع فرمادے۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ رسول کو اس غیب کی اطلاع دیدے۔ اس لیے الغیب میں الف لام عہد خارجی کے لیے ہے اور اس سے وہ مخصوص غیب مراد ہے یعنی منافقوں کی نشاندہی بذریعہ وحی الٰہی۔ ثالثا تمام مفسرین حضرات نے یہاں الغیب سے بعض علم غیب مراد لیا ہے۔ ماکان و ما یکون اور جمیع مغیبات کا کلی اور تفصیلی علم کسی نے بھی مراد نہیں یا تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ الف لام استغراق کے لیے نہیں۔ چناچہ علامہ قاضی بیضاوی اس آیت میں تفسیر میں فرماتے ہیں ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء فیوحی الیہ و یخبرہ ببعض المغیبات (بیضاوی ج 1 ص 56) لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے۔ چن لیتا ہے تو اس کی طرف وحی کرتا ہے اور اسے بعض مغیبات کی خبر دیتا ہے۔ امام بغوی فرماتے ہیں۔ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَاءُ فیطلعہ علی بعض علم الغیب (معالم ج 1 ص 382) لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب فرما لیتا ہے تو اسے بعض علم غیب پر مطلع فرما دیتا ہے علامہ خازن لکھتے ہیں۔ یعنی ولکن اللہ یصطفی و یختار من رسلہ من یشاء فیطلعہ علی ما یشاء من غیبہ (خازن ج 1 ص 382) ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جیسے چاہتا ہے چن لیتا ہے اور اپنے جس بعض غیب کی چاہتا ہے اس کو اطلاع دے دیتا ہے اور علامہ ابن صفی لکھتے ہیں۔ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسِلِہٖ مَنْ یَّشَاءُ فیخبرہ ببعض المغیبات (جامع البیان ص 66) اور مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں۔ فیطلعہ علی البعض من علوم الغیب احیانا (تفسیر مظہری 2 ص 185) یعنی اللہ تعالیٰ جس کو رسول منتخب کرتا ہے اسے بعض غیوب کی اطلاع دیتا ہے اور وہ بھی احیانا یعنی کبھی کبھی۔ رابعا اگر یہاں تمام قواعد عربیت اور اصول تفسیر کے خلاف الف لام استغراق کے لیے مان لیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماکان و ما یکون کا کلی اور تفصیلی علم غیب تھا تو اس سے مذکورہ بالا خرابیوں کے علاوہ قرآن مجید کی ان بہت سی آیتوں کی تکذیب لازم آئے گی جن میں نہایت صراحت سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی سے کلی علم غیب کی نفی کی گئی ہے مثلاً : (1) ۔ وَمِّمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنَافِقُوْنَ وَ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُم اور کچھ تمہارے گردوپیش والوں میں اور کچھ مدینہ والوں میں ایسے منافق ہیں جو نفاق کے حد کمال کو پہنچے ہوئے ہیں آپ بھی ان کو نہیں جانتے (کہ یہ منافق ہیں بس) ہم ان کو جانتے ہیں۔ اس آیت میں حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صراحۃً مدینہ کے ان منافقین کی پہچان کی نفی کی گئی ہے جو اپنا نفاق چھپانے میں انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیتے تھے یہ آیت سورة توبہ کی ہے جو سورة آل عمران کے بعد نازل ہوئی تھی تو اگر آل عمران کی آیت سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کلی علم غیب ثابت کیا جائے تو سورة توبہ کی بعد میں نازل ہونے والی آیت اس کی نفی کرتی ہے اور یہ کھلا ہوا تضاد ہے جس کا خدا کے کلام میں پایا جانا محال ہے۔ لہذا صحیح بات یہی ہے کہ زیر تفسیر آیت میں نہ الف لام استغراق کیلئے ہے اور نہ ہی اس سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ماکان ومایکون کا کلی علم غیب ثابت ہے۔ (2) ۔ عَفَا اللہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ (توبہ رکوع 1) ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف (تو) کردیا (لیکن) آپ نے ان کو (ایسی جلدی) اجازت کیوں دے دی جب تک آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے اور آپ جھوٹوں کو معلوم نہ کرلیتے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین کو جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت دے دی آپ نے ان کی چکنی چپڑی باتوں سے واقعی ان کو معذور سمجھ لیا حالانکہ وہ جھوٹے اور مکار تھے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ نازل فرمائی کہ آپ نے تمام عذر کرنے والوں کو کیوں اجازت دے دی۔ یہاں تک کہ آپ کو عذر میں سچے اور جھوٹے کا علم ہوجاتا تو اس سے معلوم ہوا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عذر میں سچے اور جھوٹے کی پہچان نہ تھی۔ یہ آیت بھی سورة توبہ کی ہے۔ (2) ۔ یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللہُ لَکَ تَبْتَغیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ (تحریم) ۔ اے نبی کیوں حرام کرتا ہے تو اس چیز کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے (اور وہ بھی) اپنی بیویوں کی رضا جوئی کے لیے۔ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ بعض ازواج مطہرات کی خاطر شہد نہ کھانے کی قسم کھالی تھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ کو قسم سے دستبردار ہونے کا حکم دیا گیا تو معلوم کہ اس وقت تک آپ کو ماکان و ما یکون کا کلی غیب حاصل نہیں تھا۔ اگر آپ کو کلی غیب ہوتا تو آپ ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہ فرماتے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہ ہوتی۔ یہ سورت بھی آل عمران کے بعد نازل ہوئی تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں الغیب میں استغراق ہرگز مراد نہیں۔ (4) ۔ سورة منافقون جو آل عمران کے بعد نازل ہوئی ہے اس میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس واقعہ کی تفصیل کتب حدیث میں موجود ہے چناچہ صحیح بخاری ج 2 ص 727 پر ہے۔ حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں نے عبداللہ بن ابی منافق کو کہتے سنا کہ پیغمبر کے ساتھیوں کی مالی امداد مت کرو تاکہ وہ بھوکے مرتے ہوئے اس کا ساتھ چھوڑ دیں اور اب جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو العیاذ باللہ ان کمینوں کو شہر سے نکال باہر کریں گے۔ میں نے یہ باتیںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچائیں تو آپ نے اس منافق کو بلا کر اس سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا۔ اور اس نے قسمیں کھا کھا کر اپنی سچائی کا آپ کو یقین دلا دیا چناچہ آپ نے میری تکذیب اور اس کی تصدیق فرما دی جس سے مجھے جس سے مجھے بہت صدمہ ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون کی ابتدائی آیتیں نازل فرما کر اصل حقیقت واضح فرمائی کہ ان منافقوں نے یہ باتیں کہی ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ نے لفظ بلفظ ان باتوں کی تصدیق فرمائی جو میں نے بیان کی تھیں اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری باتوں کی تصدیق فرما دی ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ تک بھی کلی غیب حاصل نہیں تھا۔ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے۔ جو 9 ھ میں پیش آیا۔ تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آل عمران کی آیت میں استغراق مراد نہیں اور نہ ہی اس آیت میں آپ کے کلی علم غیب کا کوئی ثبوت ہے۔ (5) ۔ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِداً ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقاً بیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ ۔ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَا اِلَّا الْحُسْنٰی۔ وَاللہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ۔ لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا (توبہ) اور جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ (اسلام کو) ضرر پہنچائیں اور اس میں بیٹھ کر کفر کی باتیں کریں۔ اور ایمان والوں میں تفریق ڈالیں اور ان لوگوں کو گھات کی جگہ مہیا کریں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں اور وہ قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے ہماری کوئی نیت نہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔ آپ اس میں کبھی (نماز کے لیے) کھڑے نہ ہوں۔ ابو عامر ایک نہایت ہی خبیث اور مکار پادری تھا۔ جو خود تو قیصر روم کے پاس پہنچا تاکہ اسے مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کرسکے۔ ادھر مدینہ کے منافقین کو لکھا کہ وہ مسجد کے نام پر ایک عمارت بنائیں اور نماز کے بہانے اس میں جمع ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں کیا کریں اور اس کے خفیہ خطوط بھی ان کو اسی جگہ ملا کریں گے۔ نیز اگر کبھی وہ مدینہ آیا تو اس کا قیام بھی یہیں ہوگا۔ چناچہ انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک مسجد نما عمارت بنا لی اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر لگے قسمیں کھانے کہ حضرت ہمارا ارادہ نیک ہے ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ مسجد قبا ہم سے دور ہے اور بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کا وہاں تک پہنچنا دشوار ہے اس لیے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے تاکہ یہ لوگ اس میں آسانی سے نمازیں ادا کرسکیں۔ اور ہماری دلی خواہش ہے کہ اس مسجد کا افتتاح آپ کی نماز سے ہو اس لیے آپ اس میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے چلیں۔ اس وقتحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک کی مہم پر جا رہے تھے اس لیے آپ نے ان سے وعدہ فرما لیا کہ تبوک سے واپسی پر میں تمہاری نئی مسجد میں آؤں گا۔ اور اس میں نماز بھی پڑھوں گا۔ چناچہ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں ولو قدمنا انشاء اللہ تعالیٰ اتینا کم فصیلنا لکم فیہ (تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 388) یعنی اگر انشاء اللہ اس مہم سے بخیریت واپس آگئے تو تمہاری مسجد میں جا کر نماز پڑھیں گے۔ جب آپ غزوہ تبوک سے بخیریت واپس تشریف لے آئے تو دل میں ایفائے عہد کا خیال آگیا لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو اصل حقیقت حال سے آگاہ فرما دیا تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمیع مغیبات کا علم نہیں تھا۔ اگر آپ کو کلی غیب کا علم ہوتا تو ان منافقین کی مکاری اور عیاری کا بھی علم ہوتا اور آپ مسجد ضرار میں تشریف لے جا کر نماز پڑھنے کا وعدہ نہ فرماتے۔ مندرجہ بالا پانچ آیتیں سورة آل عمران کے بعد نازل شدہ سورتوں کی ہیں اور ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلی علم غیب کی صاف صاف نفی ہوتی ہے لہذا معلوم ہوا کہ آل عمران کی اس آیت میں الغیب کا الف لام استغراق کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی یہاں الغیب سے ماکان و ما یکون کا کلی علم غیب مراد ہے بلکہ الف لام یہاں عہد کے لیے ہے اور الغیب سے احد میں بےوفائی کرنے والے منافقین کی پہچان مراد ہے حاصل یہ کہ اس آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کلی پر استدلال کرنا سراسر غلط اور باطل ہے۔ 273 جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ غیب پر مطلع نہیں کرنے کا تو اب تمہارے لیے صرف یہی چیز باقی رہ جاتی ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ اور اس پر قائم رہو تمہارا کام ایمان و تصدیق ہے نہ کہ علم غیب حاصل کرنے کی تمنا کرنا۔ ای علیکم التصدیق لا التشوف الی اطلاع الغیب (قرطبی ج 4 ص 290) ۔ یہاں اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ ہی کو قادر مطلق مانو اور صرف اسے ہی عالم الغیب اور پوشیدہ باتیں جاننے والا سمجھو اور رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں اللہ نے ان کو اپنی رسالت کے لیے چنا ہے اور وہ عالم الغیب نہیں ہیں ان کو صرف اتنا ہی غیب معلوم ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا اور وہ اللہ کی طرف سے وحی کے بغیر دین میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ فامنوا باللہ و رسلہ بان تقدروہ حق قدرہ وتعلمونہ و ھذہ مطلعا علی الغیوب وان تنزلوھم منازلھم بان تعلموھم عبادا مجتبین لا یعلمون الا ما علیھم اللہ و لا یخبرون الا بما اخبر اللہ بہ من الغیوب او لیسوا من علم الغیب فی شیء (بحر ج 3 ص 127) ۔ المراد من الایمان باللہ تعالیٰ ان یعلموہ وحدہ مطلعا علی الغیب و من الایمان برسلہ ان یعلموھم عبادا مجتبین لا یعلمون الا ما علمھم اللہ تعالیٰ ولا یقولون الا ما یوحی الیھم فی امر الشرائع (روح ج 4 ص 138) ۔ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا الخ۔ اور اگر تم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر کما حقہ ایمان لے آؤ گے اور پھر اللہ کے اوامرو نواہی میں اس کی مخالفت سے بچو گے تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و احسان سے تم کو اتنا بڑا اجر اور ثواب عطا کرے گا۔ جو اندازے اور حساب سے باہر ہوگا۔ لایکتنہ ولا یجد فی الدنیا و الاخرۃ (روح ج 4 ص 139) ۔ خلاصہ ماقبل :۔ شبہ متعلقہ جہاد کا باالتدریج جواب ارشاد فرمایا۔ پہلے اِذْ ھَمَّتْ طَّائِفَتٰنِ سے لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ تک فرمایا کہ تم کو کب بےیارو مددگار چھوڑا ہے۔ میدان احد میں بھی تمہاری مدد کی تم میں سے دو قبیلوں نے بزدلی دکھانے اور جنگ میں شریک نہ ہونے کا ارادہ کرلیا تو اللہ نے ان کو تھام لیا اور ان کی ہمتیں مضبوط کردیں اور اس سے پہلے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تم تعداد میں کم اور بےسرو سامان تھے۔ لیکن پھر بھی اللہ نے تم کو فتح یاب فرمایا۔ اس کے بعد رکوع 14 میں علی سبیل الترقی فرمایا۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ یہ شکست اللہ کی حکمت بالغہ کا عین مقتضا تھی اللہ تعالیٰ مخلص مومنوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اگر احد میں تمہیں مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تو ہوا کیا تمہارے دشمن بھی تو تمہارے ہاتھوں اس قدر نقصان اٹھا چکے ہیں۔ آخر میں اس سے ترقی کر کے فرمایا۔ وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللہُ وَعْدَہ الخ۔ یہ شبہ کا اصل جواب ہے یعنی اللہ نے تو اپنا وعدہ پورا فرما دیا اور وعدہ کے مطابق تمہاری امداد فرمائی اور تم کو فتح بھی دے دی۔ لیکن تمہاری کوتاہی اور امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی وجہ سے تمہاری فتح شکست میں بدل گئی۔ اب تک چار فریقوں کا ذکر آچکا ہے۔ (1) ۔ مومنین مخلصین۔ (2) ۔ منافقین طاعنین۔ (3) ۔ شہداء اور (4) حضرت پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ لَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا الخ سے یَغْشیٰ طَائِفَۃٌ مَّنْکُمْ تک مخلصین کا ذکر ہے جس میں ان کو زجریں بھی ہیں اور قتال وانفاق کی ترغیبیں بھی ان کی کوتاہیوں پر عفو و درگذر کا اعلان بھی تاکہ ان کی ان فروگذاشتوں کی بنا پر کوئی ان کے خلاف زبان طعن نہ کھولے اس لیے ایک ہی رکوع میں دو دفعہ اعلان فرمایا۔ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ اور وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ ، پھر فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ الخ۔ سے حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشفقانہ برتاؤ کی تعریف و تحسین فرمائی کہ جن کی غلطی شکست کا سبب بنی اور اسی طرح جو مسلمان شکست خوردہ ہو کر بھاگے ان پر سختی نہیں فرمائی۔ بلکہ پیار و محبت سے ان کی دلجوئی کہ نہ دل میں ان کے بارے میں کدورت باقی رکھی اور نہ زبان سے سختی کی فرمایا آپ کی نرم خوئی اور مشفقانہ برتاؤ یہ سب آپ پر اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے آپ کو ایسے کریمانہ اخلاق کی دولت عطا فرمائی ہے اگر آپ ان سے سختی کا برتاؤ کرتے تو وہ سب بد دل ہو کر آپ سے برگشتہ ہوجاتے آخر میں ارشاد ہوا کہ آپ ان سے درگذر فرمائیں اور آئندہ کے لیے امور مہمہ میں ان سے مشورہ کریں تاکہ مزید ان کی دلجوئی ہوجائے اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوگیا کہ اگر ماتحتوں سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ان سے سختی نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ اور طَائِفَۃٌ قَدْ اَھَّمَّتْھُمْ اَنْفُسُہُمْ سے اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ تک منافقین کے مختلف حالات بیان کیے ہیں اور درمیان میں ان کو زجر فرمایا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ مشفق و مہربان ہستی جو نہ دل میں کسی کے خلاف کینہ رکھے اور نہ زبان سے سختی کرے۔ کیا اس پر خیانت کا طعن کرتے ہو۔ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَیْ الْمُؤْمِنِیْنَ الخ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات تو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اس پر طعن کرنے کی بجائے تمہیں تو اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا سے لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُوْمِنِیْنَ تک اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے فضیلت اور ان کے ثواب کا ذکر ہے۔ پھر اَلَّذِینْ اسْتَجَابُوْا سے فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ تک تین چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلے تمام مومنین مخلصین کی شان اور ان کی تعریف فرمائی۔ جو اللہ کی راہ میں لڑے۔ زخموں پر زخم کھائے اور عزیزوں کی شہادت کے صدمات برداشت کیے۔ پہلے ان کو زجریں کی تھیں یہاں ان کی دلجوئی فرمائی تاکہ ان کے زخمی دلوں کی مرہم پٹی ہوجائے پھر وَ لَا یَحْزُنْکَ سے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ آپ ان شریر منافقوں کا غم نہ کریں یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اس کے بعد منافقین اور مشرکین کو زجر فرمایا اور ان کو عذاب اخروی سے تخویف فرمائی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ نہیں ہے اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ مسلمانوں کو اس ملی جلی حالت میں رہنے دے جس پر تم سب اس وقت ہو یعنی مخلص اور منافق سب مخلوط ہوں بلکہ مصائب و شدائد کا نزول اس وقت تک ضروری ہے جب تک اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے متمیز اور جدا نہ کردے یعنی منافق کو مخلص مسلمان سے الگ نہ کردے اور نہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے اور نہ اس کا یہ ارادہ ہے کہ وہ ایسے امور غیبیہ پر تم کو عام طور سے مطلع کردے اور اس قسم کے امور سے تم کو آگاہ کردے مگر ہاں وہ جس کو چاہے اپنے منتخب کردہ رسولوں میں سے اس قسم کی باتوں سے مطلع کردے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لے آئو اور ہر قسم کے کفر و نفاق سے بچتے رہو اور پرہیز کرتے رہو تو تم کو بڑا اجر وثواب ملے گا اور تم عذاب الیم سے اور عذاب عظیم سے بچ جائوگے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ میدانِ احد میں جو مصائب تم پر نازل ہوئے اس کی بعض حکمتوں سے تو تم کو آگاہ کردیا گیا اور ان کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلفین اور منافقین کو گڈمڈ اور مخلوط رکھنا نہیں چاہتا ہے بلکہ منافقین کو نمایاں اور ظاہر کردینا چاہتا ہے جس حالت پر تم سب اس وقت ہو کہ منافق بھی مسلمانوں میں ایسے رلے ملے ہیں کہ ان کا پتہ لگتا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ تم کو اس حالت میں رکھنا نہیں چاہتا اور چونکہ نفاق و اخلاص کا پتہ دو طرح لگ سکتا تھا ایک تو یہ کہ آزمائش کے طور پر مصائب و آلام نازل کئے جائیں اور منافق ان سے گھبرا کر کھل جائیں جیسا کہ احد میں ہوا۔ کہ کچھ تو واپس چلے گئے اور جو رہ گئے وہ بھی واہی تباہی بکنے لگے۔ بہرحال چونکہ ہمارا مقصد منافقین کو مخلصین سے متمیز کرنا ہے اس لئے ہماری حکمت یہ ہے کہ ہم اس قسم کے مصائب و آلام کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں جب تک یہ مقصد پورا نہ ہوجائے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ تم میں سے ہر ایک کو منافقین کے نام سے آگاہ کردے اور منافقین کے قلوب کی پوشیدہ باتوں سے آگاہ کردے … تو حق تعالیٰ کو یہ بھی منظور نہیں کہ وہ غیب کی باتوں سے عام طور پر ہر کس و ناکس کو آگاہ کردے اور اس قسم کی پوشیدہ باتیں کہ فلاں شخص کے دل میں یہ کھوٹ ہے۔ اور فلاں کے دل میں اس قدر خلوص بھرا ہوا ہے۔ عام لوگوں کو بتائے کیونکہ یہ امور غیب ہیں اور امور غیبیہ سے ہر شخص کو آگاہ کرنے کا قاعدہ نہیں۔ البتہ اس عموم سے وہ صورت مستثنیٰ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے منتخب بندوں میں سے جو رسول ہیں اور رسالت کے مرتبے پر فائز ہیں ان میں سے جس کو چاہے اور جو بات چاہے اس سے آگاہ کردے۔ لہٰذا اب جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ کفار کا عیش و آرام اور مسلمانوں کے مصائب و آلام کفر کی خوبی اور اسلام کی برائی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ کافر کی زندگی خواہ کتنی ہی عیش و مسرت کی زندگی ہو وہ اس امر کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ کافر کا مذہب حق و صداقت پر مبنی ہے۔ اور نہ مسلمان کی تکلیف و مصیت اس بات کی دلیل ہوسکتی ہے کہ اس کا مذہب غلط ہے اور معاذ اللہ اسلام صحیح مذہب نہیں ہے بلکہ کفر کا بطلان اور اسلام کی حقانیت کے لئے دوسرے دلائل ہیں تو تم سب لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو جس کو کم سے کم درجہ یہ ہے کہ شرک اور نفاق سے بچو اگر تم نے اخلاص کے ساتھ ایمان قبول کرلیا اور منافقت ترک کردی تو تم کو بڑا اجر ملے گا اور جس قسم کی سزائوں کا اوپر ذکر کیا گیا۔ یعنی عذاب عظیم، عذابِ الیم، اور عذاب مہین ان سب عذابوں سے محفوظ و مامون رہوگے۔ فقیر نے جو کچھ تیسیر میں اور تسہیل میں عرض کیا ہے یہ روح المعانی اور روح البیان سے ماخوذ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد اہل علم کو کسی شبہ کی گنجائش نہ رہے گی۔ فقیر نے تمام شبہات کو اپنی تقریر میں صاف کردیا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں جو مسلمان تھے اور بالخصوص مدینہ کے مسلمان مراد ہیں جن میں مسلمانوں کے اقتدار کی قوت سے بعض منافق شامل ہوگئے تھے جو غنیمت کی تقسیم کے وقت آستینیں چڑھا چڑھا کر جھگڑتے تھے اور مصائب کا مقابلہ کرنے سے گھبراتے تھے بلکہ خفیہ ریشہ دوانیاں کرتے تھے۔ (2) غایت لیذر سے نہیں ہے جس پر یہ شبہ کیا جائے کہ تمینیر کے بعد مخلوط چھوڑ دیا جائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ غیب کا علم نہ ملنے کی وجہ سے منافقین کا پتہ لگانے کی اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ مصائب و شدائد نازل ہوں اس لئے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک منافق مسلمانوں سے نمایاں نہ ہوجائیں جیسا کہ تیسیر میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ (3) لیطلعکم علی الغیب کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے امور کہ فلاں منافق ہے اور فلاں مخلص ہے ہر شخص کو نہیں بتائے جاتے اور چونکہ آیت میں اسی کی بحث ہے اس لئے ہم نے تیسیر میں ایسے امور کو غیبیہ عرض کیا ہے تاکہ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ محض اہل اللہ کو کشف کے ذریعے سے بعض باتیں معلوم ہوجاتی ہیں تو اول تو یہاں عام باتیں زیر بحث نہیں پھر کشف کو غیب دانی نہیں کہتے کشف تو ایک ظنی چیز ہے وحی کے مقابلے میں اس کی کوئی حقیقت نہیں پھر کسی دل کے کشف کے لیے دوسرے مسلمان مکلف نہیں۔ (4) یجتبی من رسلہ میں من بیانیہ ہے اسی رعایت سے ہم نے تسہیل میں خلاصہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن کو منتخب فرماتا ہے یعنی وہ منتخب اور چیدہ بندے رسول ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ منتخب شدہ حضرات میں سے اطلاع علی الغیب کے لئے پھر منتخب کرتا ہے۔ غرض رسولوں کا یہ مرتبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی کسی بات پر آگاہ کرنا چاہے تو ان کو وحی کے ذریعہ کردیتا ہے یا ایسے قرائن بتادیتا ہے جس سے وہ اس پوشیدہ بات کو معلوم کرلیتے ہیں اسی کو ہم نے تیسیر اور تسہیل میں صاف کیا ہے تاکہ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ رسول بھی بعضے منتخب اور بعضے غیر منتخب ہیں اس کی زیادہ تفصیل انشاء اللہ بشرط زندگی عالم الغیب فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا میں آجائے گی جو سورة جن کی آخری آیت ہے اور ہوسکتا ہے کہ من تبعیضہ ہو اور مطلب یہ ہو کہ بعض رسولوں کو اپنے غیب کی باتوں سے باخبر کردیتا ہے۔ (واللہ اعلم) (4) جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ دنیوی مصائب و آلام اور عیش و عشرت کو کفر اور اسلام کے بطلان و صداقت میں کوئی دخل نہیں تو فامنوا کا ربط صاف ہے کہ اسلام کی صداقت پر ہزار ہا دلائل عقلی و نقلی موجود ہیں ان کو سمجھ کر اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو۔ تم مسلمانوں کی ہزیمت اور کفار کی فتح سے جو استدلال کرتے ہو یہ طریقہ استدلال غلط اور لغو ہے۔ البتہ مسلمانوں پر دنیوی مصائب کا نزول اور اس پر صبر و استقامت کی وجہ سے اللہ کے نزدیک ماجور و مقبول ہونا یقینی ہے۔ لیکن یہاں اس کی بحث نہیں ہے یہاں تو صرف یہ بحث ہے کہ کافروں کی عارضی فتح کفر کے حق ہونے کی دلیل ہے اور مسلمانوں کی عارضی ہزیمت ان کے ناحق پر ہونے کی دلیل ہے۔ خوب سمجھ لیجئے اور زیادہ تحقیق منظور ہو تو روح المعانی ملاحظہ کیجئے۔ (5) بعض اہل باطل نے اس آیت سے انبیاء کے لئے جمیع مغیبات کا علم ثابت کیا ہے حالانکہ جو علم خواص باری تعالیٰ ہے یعنی ذاتی اور محیط وہ کسی مخلوق کے لئے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ان حرمان نصیبوں کے لئے اس آیت میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حق تعالیٰ مومن اور منافق کو اسی طرح کھولتا ہے اور غیب سے خبر کسی کو نہیں پہنچاتا مگر رسولوں کو۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے کس قدر مختصر خلاصہ نکالا ہے اور کیا خوب نکالا ہے۔ اب آگے پھر اہل کتاب کے بعض اعتراضات کا جواب ہے۔ بیچ میں ایک خاص مناسبت سے غزوئہ احد کا ذکر فرمایا تھا اور اس کے تفصیلی واقعات کا اظاہر اور تمام شکوک و شبہات کا جواب فرمایا۔ مسلمانوں کو تسلی دی گئی اور ان کی کوتاہی کے معاف کرنے کا اعلان کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسلمانوں کی سفارش فرمائی۔ ان تمام واقعات کے بعد یہودیوں کے ایک اعتراض کا جواب اور اس جواب کی تمہید ہے یہ تو ظاہر ہی ہے کہ یہود عام طور پر سخت بخیل ہوتے ہیں اور بخیل نہ دینے کے صدہا باہنے تلاش کیا کرتا ہے۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے قرض حسنہ کا مطالبہ کیا اور قرض پر اضعاف مضاعفہ کا وعدہ فرمایا تو یہود نے نہایت گستاخی کے ساتھ سرکار رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کہا اے محمد ! اللہ تعالیٰ مفلس اور فقیر ہوگیا ہے جو بندوں سے قرض مانگتا ہے اور چونکہ اس کا منشا یہود کا وہی جبلی بخل تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے بخل کی مذمت فرمائی اور آگے ان کی گستاخی اور جرأت کا جواب دیا۔ (تسہیل)