Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 46

سورة آل عمران

وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۶﴾

He will speak to the people in the cradle and in maturity and will be of the righteous."

وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلً ... He will speak to the people, in the cradle and in manhood, calling to the worship of Allah Alone without partners, while still in the cradle, as a miracle from Allah, and when he is a man, by Allah's revelation to him. Muhammad bin Ishaq recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, مَا تَكَلَّمَ مَوْلُودٌ فِي صِغَرِهِ إِلاَّ عِيسَى وَصَاحِبُ جُرَيْج No infant spoke in the cradle except `Isa and the companion of Jurayj. Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah said that the Prophet said, لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلاَّ ثَلَثَةٌ عِيسَى وَصَبِيٌّ كَانَ فِي زَمَنِ جُرَيْجٍ وَصَبِيٌّ اخَر No infant spoke in the cradle except three, `Isa, the boy during the time of Jurayj, and another boy. ... وَمِنَ الصَّالِحِينَ And he will be one of the righteous. in his statements and actions, for he will possess, pure knowledge and righteous works. `Isa was Created Without a Father When Maryam heard the good news that the angels conveyed from Allah, she said;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے (گہوارے) میں گفتگو کرنے کا ذکر خود قرآن کریم کی سورة مریم میں موجود ہے اس کے علاوہ صحیح حدیث میں دو بچوں کا ذکر اور ہے ایک صاحب جریج اور ایک اسرائیلی عورت کا بچہ (صحیح بخاری) ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ جب وہ بڑے ہو کر وحی اور رسالت سے سرفراز کئے جائیں گے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ کا قیامت کے قریب جب آسمان سے نزول جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے تو اس وقت جو وہ اسلام کی تبلیغ کریں گے وہ کلام مراد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر و قرطبی)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گہوارہ میں تین بچوں کے سوا کسی بچہ نے بات نہیں کی۔ ان میں سے ایک عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ دوسرے بنی اسرائیل سے جریج راہب جس پر حرامی بچہ کی نسبت تہمت لگائی تھی : اس نے بول کر اپنے اصلی باپ کا نام بتلا دیا۔ تیسرے وہ بچہ جس نے ماں کی چھاتی چھوڑ کر کہا تھا یا اللہ ! مجھے اس ظالم سوار کی طرح نہ کرنا۔ (بخاری، کتاب، الانبیائ، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم اذا نتبذت من اھلھا) اور مہد (گود) میں کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ ابھی گود میں ہو، شیر خوار ہو اور وہ کلام کرنے کی عمر کو نہ پہنچا ہو، نہ ہی ابھی اس نے کلام کرنا سیکھا ہو اور & کھلا & کا مطلب پختہ عمر ہے یعنی حضرت عیسیٰ نے مہد میں بھی ایسے ہی کلام کیا۔ جیسے پختہ عمر میں کیا یا دوسرے لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں اور اس عمر میں ان کا کلام ایسا پر مغز اور معقول تھا جیسا کہ عام لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں۔ اس وقت آپ نے کیا باتیں کیں۔ اس کی تفصیل سورة مریم میں آئے گی، سردست یہ بتلانا مقصود ہے کہ اس عمر میں آپ کے ایسے کلام سے لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود تھا۔ وہ اللہ کی قدرت کاملہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اور جو لوگ ان کی والدہ ماجدہ کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں وہ غلط کار ہیں۔ ان کی والدہ پاک دامن، صدیقہ اور راست باز ہیں۔ جو کچھ وہ کہتی ہیں وہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے۔ حضرت عیسیٰ کی اس خرق عادت پیدائش کے بارے میں تین مختلف الرائے گروہ پائے جاتے ہیں۔ پہلا فریق تو یہود ہیں جو حضرت عیسیٰ کی ایسی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود انہیں معاذ اللہ ولدالحرام کہتے ہیں۔ حضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی اور ان کے ساتھ حضرت زکریا کو ملوث کیا۔ پھر آخر اپنی اسی بدظنی کی بنا پر انہیں قتل بھی کردیا۔ دوسرا گروہ نصاریٰ کا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مریم کی منگنی ان کے چچا زاد بھائی یوسف نجار سے ہوئی تھی۔ مگر ابھی نکاح نہیں ہوا تھا کہ انہیں اللہ کی قدرت سے حضرت عیسیٰ کا حمل ٹھہر گیا جب یوسف کو اس صورت حال کا علم ہوا تو اس نے یہ منگنی توڑ دینا چاہی، مگر خواب میں اسے ایک فرشتہ ملا جس نے بتلایا کہ مریم پاک باز عورت اور ہر طرح کے الزامات سے بری ہے۔ اسے حمل اللہ کی قدرت سے ہوا ہے۔ لہذا تم ایسی پاک باز اور پاکی زہ سیرت عورت کو ہرگز نہ چھوڑنا چناچہ یوسف نے اپنی رائے بدل دی۔ پھر اس کے بعد اس نے یوسف سے شادی کی۔ اور اولاد بھی ہوئی۔ یہ فریق اپنے بیان کے مطابق مختلف اناجیل سے حوالے بھی پیش کرتا ہے۔ تیسرا گروہ منکرین معجزات کا ہے جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں لیکن وہ تاویل ایسی پیش کرتے ہیں جس کا ثبوت نہ کتاب و سنت سے مل سکتا ہے نہ اناجیل سے اور نہ کسی دوسری کتاب سے، اور وہ تاویل یہ ہے کہ حضرت مریم کی یوسف نجار سے منگنی نہیں بلکہ نکاح ہوچکا تھا۔ مگر ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ یوسف مریم کے پاس یا مریم یوسف کے پاس گئی۔ اور ان کے باہمی ملاپ سے حمل ٹھہرا اور یہ ایسا بیان ہے جو حضرت مریم کی اس قرآنی صراحت ( وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ) کے صریحاً خلاف ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر معاملہ یہی تھا تو یہود نے حضرت مریم کو لعن طعن کس بات پر کی تھی ؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہود میں رخصتی سے پہلے میاں بیوی کی مباشرت شدید جرم سمجھا جاتا تھا، خواہ نکاح ہوچکا ہو، اور اسی جرم کی بنا پر یہود نے لعن طعن کی تھی۔ حالانکہ یہ بات بھی قرآنی تصریحات کے بالکل برعکس ہے۔ نیز ان کے نظریہ کو بھی کسی کتاب کے حوالہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے قرآن میں اپنے نظریات کو بہ تکلف داخل کرنا چاہتے ہیں خواہ اس سے قرآن کی کتنی ہی آیات کا انکار لازم آتا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر حضرت مریم (علیہا السلام) بولیں اے میرے پروردگار کس طرح ہوگا میرے بچہ حالانکہ مجھ کو کسی بشر نے (صحبت کے طور پر) ہاتھ نہیں لگایا ( اور کوئی بچہ جائز طریق سے عادۃ بدون مرد کے پیدا نہیں ہوتا، تو معلوم نہیں کہ ویسے ہی محض قدرت خداوندی سے بچہ ہوگا یا مجھ کو نکاح کا حکم کیا جائے گا) اللہ تعالیٰ نے (جواب میں فرشتے کے واسطے سے) فرمایا ایسے ہی (بلا مرد کے) ہوگا (کیونکہ) اللہ تعالیٰ جو چاہیں پیدا کردیتے ہیں ( یعنی کسی چیز کے پیدا ہونے کے لئے صرف ان کا چاہنا کافی ہے، کسی واسطہ یا سبب خاص کی ان کو حاجت نہیں، اور ان کے چاہنے کا طریقہ یہ ہے کہ) جب کسی چیز کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو اس کو کہہ دیتے ہیں کہ (موجود) ہوجا، بس وہ چیز (موجود) ہوجاتی ہے ( پس جس چیز کو بلا اسباب و وسائط موجود ہونے کو کہہ دیا وہ اسی طرح ہوجاتی ہے ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٤٦ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : كهل الْكَهْلُ : من وَخَطَهُ الشَّيْبُ ، قال : وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ [ آل عمران/ 46] واكْتَهَلَ النّباتُ : إذا شارف الیبوسة مشارفة الْكَهْلِ الشّيبَ ، قال : مؤزّر بهشيم النّبت مُكْتَهِلٌ ( ک ہ ل ) الکھل ۔ اوھیڑ عمر آدمی جس کے بال سفید ہوگئے ہوں ۔ قرآن میں ہے : وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ [ آل اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہوکر لوگوں سے گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا ۔ اکتھل النبات پودے کا حد پیوست یعنی بڑھنے کی آخری حد کو پہنچ جانا ۔ جیسا کہ ادھیڑ عمر آدمی بڑھاپے کی حد کو پہنچ جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( بسیط) (386) موزر یھشم النبت مکتھل اس کی گھاس آخری حدتک بڑھی ہوئی ہے اور اس نے اپنے گردا گر د دوسرے پودوں کی چادر پہن رکھی ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) اور وہ گہوارہ (ماں کی گود) میں بھی جب کہ وہ چالیس دن کے ہوں گے تب بھی اور پھر نبوت ملنے کے بعد ایک ہی جیسا کلام کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْْمَہْدِ وَکَہْلاً ) کہولت چالیس برس کے بعد آتی ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا رفع سماوی ٣٣ برس کی عمر میں ہوگیا تھا۔ گویا اس آیت کا تقاضا ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ اور اس سے اندازہ کر لیجیے کہ یہ بات کہنے کی ضرورت کیا تھی ؟ پوری عمر کو پہنچ کر تو سبھی بولتے ہیں ‘ یہاں اس کا اشارہ کیوں کیا گیا ؟ اس لیے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) پر موت ابھی وارد نہیں ہوئی ‘ بلکہ وہ واپس آئیں گے ‘ دنیا میں دوبارہ اتریں گے ‘ پھر ان کی کہولت کی عمر بھی ہوگی۔ وہ شادی بھی کریں گے ‘ ان کی اولاد بھی ہوگی اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نظام خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کو پوری دنیا میں قائم کرے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: اﷲ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کی پاک دامنی واضح کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزے کے طور پر اس وقت بات کرنے کی قدرت عطا فرمائی تھی جب دُودھ پیتے بچے تھے۔ اس کا ذکر سورۂ مریم (آیت ۹۲ تا ۳۳) میں آیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:46) المھد۔ اسم ۔ گہوارہ۔ پنگھوڑا۔ مراد شیر خوارگی کا زمانہ یا ماں کی گود میں ہونے کا زمانہ۔ کہلا۔ باوقار۔ متوسط عمر کا آدمی جس کے کچھ بال سفید اور کچھ سیاہ ہوں۔ عمر کا وہ حصہ جب آدمی کی قوتیں شباب پر ہوں۔ الکہل۔ ادھیڑ عمر کا ۔ تیس سے پچاس سال تک کی عمر والا۔ (المنجد) یکلم الناس ۔۔ کہلا۔ یعنی پچپن سے لے کر پکی عمر تک حکمت و دانش کی باتیں لوگوں کو بتائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 سورت مریم آیت 30 ۔ 33، میں وہ باتیں بھی مذکور ہیں جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی پیدا ئش کے بعد مہد میں کیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ماں کی گود میں چار بچوں نے کلام کیا۔ عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) شاہد یوسف م، صاحب جریج اور فرعون کی ماشطہ کے لڑکے نے (فتح البیان )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلًا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مزید فرمایا (وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلًا) (کہ اے مریم تمہارے جو یہ لڑکا پیدا ہوگا۔ گہوارہ میں اپنے بچپن میں بات کرے گا۔ اور بڑی عمر میں بھی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ سورة مریم کے دوسرے رکوع میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ جب ان کی ولادت ہوگئی اور ان کی والدہ ان کو اٹھا لائیں تو لوگوں نے کہا کہ اے مریم تم نے یہ بڑے غضب کا کام کیا۔ اس وقت انہوں نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کردیا اور کہنے لگے کہ ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارہ میں ہے بچہ ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بول پڑے کہ (اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَّ بَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا) (وہ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھ کو کتاب دی اور اس نے مجھ کو نبی بنایا اور مجھ کو برکت والا بنایا میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک کہ میں زندہ رہوں اور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گذار بنایا اور اس نے مجھ کو سر کش بدبخت نہیں بنایا) فی المھد کے ساتھ وکھلاً بھی فرمایا یعنی یہ بچہ زمانہ کہولت میں بھی لوگوں سے بات کرے گا۔ کہولت جوان اور بوڑھے کی درمیانی عمر کو کہتے ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس کا کلام کرنا بچپن میں اور زمانہ کہولت میں یکساں ہوگا۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس میں حضرت مریم [ کی بشارت دی گئی کہ تمہارا بچہ زمانہ کہولت کو بھی پائے گا اور اس کی اتنی عمر ہوگی کہ جوانی کی عمر سے بڑھ کر زمانہ کہولت میں بھی داخل ہوگا۔ آخر میں فرمایا (وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْن) یہ بچہ صالحین میں سے ہوگا۔ چند صفحات پہلے صالح کا مطلب بتادیا گیا ہے اور وہاں یہ بتایا گیا کہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) صفت صلاح سے متصف ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ یہ بھی فرشتے کا کلام ہے یعنی وہ بچہ شیر خوارگی کے زمانہ میں بھی باتیں کرے گا اور بڑھاپے میں بھی اور صالحین میں سے ہوگا شیر خوارگی کے زمانہ میں باتیں کرنا تو ایک معجزہ تھا۔ اس لیے اس کا ذکر کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر بڑھاپے میں باتیں کرنا تو کوئی کمال نہیں پھر اس کے ذکر کی آخر کیا وجہ ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر 33 برس کی ہوئی اس وقت اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ چناچہ ابھی تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر ہیں اور ان کا کہولت میں باتیں کرنا ابھی باقی ہے کیونکہ کہولت چالیس سال کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے وہ آسمان سے اتریں گے اور دوبارہ زمین پر آکر چوبیس سال زندگی بسر کریں گے اور اس طرح کہولت میں باتیں کرنے کا خدائی وعدہ پورا ہوگا۔ وعلی ما ذکر فی سن الکہولۃ یراہ بتکلیمہ (علیہ السلام) کہلا تکلیمہ لھم کذالک بعد نزولہ من السماء وبلوغہ ذالک السن بناء علی ما ذھب الیہ سعید بن المسیب وزید بن اسلم وغیرھما انہ (علیہ السلام) رفع الی السماء وھو ابن ثلاث وثلثین سنۃ وانہ سینزل الی الارض ویبقی فیھا اربعا وعشرین سنۃ کما رواہ ابن جریر بسند صحیح ( روح ج 3 ص 164، کبیر ج 2 ص 677، قرطبی ج 4 ص 90) ویکلم الناس فی المھد وکہلا قال ابن زید رفعہ اللہ الیہ قبل ان یکون کہلا قال وینزل کہلا۔ ابن جریر ج 3 ص 184) یہ آیت حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات اور رفع الی السماء کی واضح دلیل ہے۔ نیز یہ آیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے بطلان پر نص صریح ہے کہ اس سے ان کے تغیر احوال کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا، طفل ہونا اور کہل ہونا وغیرہ اور جو ذات اس قدر متغیر اور انقلاب زمانہ سے متاثر ہو وہ معبود اور الہ بننے کے لائق نہیں۔ جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ المراد عنہ بیان کونہ متقلبا فی الاحوال من الصبا الی الکھولۃ والتغیر علی الالہ تعالیٰ ومحال والمراد منہ الرد علی وفد مجران فی قولھم ان عیسیٰ کان الہا (کبیر ج 2 ص 677) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ اور وہ لوگوں سے گہوارے اور ماں کی گود میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی لوگوں سے کلام کرے گا یعنی حالت رضاعت و طفولیت کے کلام میں اور بڑی عمر کے کلام میں باہم کوئی فرق نہ ہوگا اور وہ ان نیکو کار لوگوں میں سے ہوگا جو صلاح کے انتہائی مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ صاحب معجزات ہوگا جو بچنے میں بھی لوگوں سے بات چیت کرے گا ۔ مہد اس مقام کو کہتے ہیں جو بچوں کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ خواہ ماں کی گود ہو ، یا گہوارہ ہو ۔ جھولا ہو یا پنگورا ہو ۔ صلاح کا مطلب ہم اوپر بیان کرچکے ہیں یعنی صلاح اور نیکو کاری کا بلند سے بلند مرتبہ۔ کہولت میں مفسرین کے کئی قول ہیں عام طور سے کہولت چالیس سال کے بعد کی عمر کو کہتے ہیں ان کا رفع الی السماء کہولت سے قبل ہوا ہے کیونکہ جب ان کو آسمان پر اٹھایا گیا تو ان کی عمر تینتیس سال تھی ، لہٰذا کہولت میں کلام کرنا ان کا باقی ہے اور قرآن کی یہ پیشین گوئی اس وقت پوری ہوگی جب وہ آسمان سے نازل ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہدایت کی باتیں سکھا دے گا لوگوں کو سو وہ باتیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں کہیں یا نبی ہو کر کہیں۔ ( موضح القرآن) اب آگے حضرت مریم کا قول ہے کہ یہ بشارت کس طرح پوری ہوگی اور اس کی شکل کیا ہوگی کیونکہ بچہ مرد و عورت کی مواصلت سے ہوتا ہے اور مجھ کو تو کسی اجنبی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا تو مجھ کو نکاح کا حکم دیا جائیگا یا بدون باپ کے بچہ ہوگا چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)