Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 49

سورة آل عمران

وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ ۙ اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِئُ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾

And [make him] a messenger to the Children of Israel, [who will say], 'Indeed I have come to you with a sign from your Lord in that I design for you from clay [that which is] like the form of a bird, then I breathe into it and it becomes a bird by permission of Allah . And I cure the blind and the leper, and I give life to the dead - by permission of Allah . And I inform you of what you eat and what you store in your houses. Indeed in that is a sign for you, if you are believers.

اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگاکہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں ، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالٰی کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مُردوں کو زندہ کر تا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے ، اگر تم ایمان لانے والے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَايِيلَ ... And will make him a Messenger to the Children of Israel, means, that Allah will send `Isa as a Messenger to the Children of Israel, proclaiming to them, ... أَنِّي قَدْ جِيْتُكُم بِأيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْيَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ ... I have come to you with a sign from your Lord, that I design for you out of clay, a figure like that of a bird, and breathe into it, and it becomes a bird by Allah's leave. These are the miracles that `Isa performed; he used to make the shape of a bird from clay and blow into it, and it became a bird by Allah's leave. Allah made this a miracle for `Isa to testify that He had sent him. ... وَأُبْرِىءُ الاكْمَهَ ... And I heal him who is Akmah, meaning, `a person who was born blind,' which perfects this miracle and makes the challenge more daring. ... والااَبْرَصَ ... And the leper, which is a known disease. ... وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ ... And I bring the dead to life by Allah's leave. Many scholars stated that Allah sent every Prophet with a miracle suitable to his time. For instance, in the time of Musa, magic was the trade of the time, and magicians held a high position. So Allah sent Musa with a miracle that captured the eyes and bewildered every magician. When the magicians realized that Musa's miracle came from the Almighty, Most Great, they embraced Islam and became pious believers. As for `Isa, he was sent during a time when medicine and knowledge in physics were advancing. `Isa brought them the types of miracles that could not be performed, except by one sent by Allah. How can any physician bring life to clay, cure blindness and leprosy and bring back to life those entrapped in the grave! Muhammad was sent during the time of eloquent people and proficient poets. He brought them a Book from Allah; if mankind and the Jinn tried to imitate ten chapters, or even one chapter of it, they will utterly fail in this task, even if they tried to do it by collective cooperation. This is because the Qur'an is the Word of Allah and is nothing like that of the creatures. `Isa's statement, ... وَأُنَبِّيُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ... And I inform you of what you eat, and what you store in your houses, means, I tell you about what one of you has just eaten and what he is keeping in his house for tomorrow. ... إِنَّ فِي ذَلِكَ ... Surely, therein, all these miracles. ... لاايَةً لَّكُمْ ... is a sign for you, testifying to the truth of what I was sent to you with. ... إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 اخلق لکم۔ یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے یہاں اس کے معنی ظاہر شکل و صورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔ 49۔ 2 دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں نہیں میں تو اس کا عاجز بندہ ہوں اور رسول ہی ہوں یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت ہو اور بالاتری نمایاں ہو سکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جادوگری کا زور تھا انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا کہ جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا چناچہ انہوں نے ٰمردہ کو زندہ کردینے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردینے کا ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور شعر وادب اور فصاحت اور بلاغت کا دور تھا چناچہ انہیں قرآن جیسا فصیح وبلیغ اور پر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے بلغا اور شعرا عاجز رہے اور چلینج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طب کا فن اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ بڑے بڑے حکمائے یونان بقراط و سقراط اور ارسطاطالیس وغیرہ نے اسی دور میں شہرت پائی تھی۔ لہذا عیسیٰ کو معجزات بھی ایسے عطا کئے گئے جو اطباء کی دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً آپ مٹی سے ایک پرندہ کی شکل بناتے پھر اس میں پھونک مارتے تو وہ زندہ ہو کر اڑنے لگ جاتا۔ مردوں کو کہتے کہ اللہ کے حکم سے اٹھ کر کھڑے ہوجاؤ، تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے اور باتیں کرنے لگتے۔ مادر زاد اندھوں کی آنکھوں پر اور کوڑھی کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تو وہ بالکل تندرست ہوجاتے اور بھلے چنگے ہوجاتے اور اندھوں کی بینائی لوٹ آتی اور کوڑھیوں کے جسم ٹھیک ہوجاتے۔ علاوہ ازیں وہ لوگوں کو یہ بھی بتلا دیتے تھے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور باقی گھر میں کیا چھوڑ آئے ہیں اور یہ سب باتیں آپ کے منجانب اللہ رسول ہونے اور آپ کے پاک باز ہونے پر واضح دلائل تھے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پوری زندگی ہی معجزات سے معمور بھرپور تھی۔ آپ کی پیدائش بھی معجزانہ طور پر ہوئی۔ مہد میں کلام کیا، آپ مردہ کو زندہ کرتے تھے اور مٹی کے بنائے ہوئے پرندوں میں پھونک مار کر انہیں جیتا جاگتا پرندہ بنا دیتے تھے۔ پھر معجزانہ طور پر انہیں دشمنوں کی دسترس سے بچا کر آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ پھر قیامت کے قریب ان کا اس دنیا میں نزول بھی ہوگا، اور یہ ایسے معجزات ہیں جن میں عیسیٰ منفرد ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ آپ کی پیدائش والد کے نطفہ کے بجائے نفخہ جبریل سے ہوئی تھی۔ اور آپ میں کچھ ملکوتی صفات بھی آگئی ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب رہی یہ بات کہ منکرین معجزات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان چند معجزات کی کیا تاویلات بیان فرماتے ہیں تو گذارش ہے کہ اس سلسلہ میں تین حضرات نے اپنی عقل و خرد سے گھوڑے دوڑائے ہیں۔ پہلے تو آنرایبل سرسید احمد خان صاحب ہیں۔ دوسرے حافظ عنایت اللہ صاحب اثری ہیں جو تاویلات کے میدان میں سب سے سبقت لے گئے ہیں اور ان کی تاویلات دلچسپ اور مضحکہ خیز بھی زیادہ ہیں اور تیسرے نمبر پر جناب غلام احمد پرویز صاحب ہیں۔ ان سب کی تاویلات کو یہاں پیش کرنا پھر ان پر تبصرہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔ البتہ ان کی تفصیل میں نے اپنی دو کتابوں & عقل پرستی اور انکار معجزات & اور & آئینہ پرویزیت & میں پیش کردی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ : یعنی جب وہ رسول بن کر آئیں گے تو ان کی دعوت یہ ہوگی جو آگے بیان ہوئی ہے۔ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ : یہاں ” خَلَقَ “ کا لفظ ظاہری شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا : ( اَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ ) ” تم نے جو خلق کیا اسے زندہ کرو۔ “ [ بخاری، البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ۔۔ ٢١٠٥ ] پیدا کرنے اور زندگی دینے کے معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ: یہاں ” بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ“ کا لفظ بار بار لانے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو عیسیٰ (علیہ السلام) یہ معجزات نہ دکھا سکتے اور یہی ہر نبی کے معجزات کا حال ہے کہ وہ اللہ ہی کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی کو اس کے زمانے کے مناسب حال معجزات عطا فرمائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو اور جادوگروں کا زور تھا، سو اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ معجزات دے کر بھیجا جن سے تمام جادوگر دنگ رہ گئے اور ان کی عقل چکرا گئی، بالآخر وہ جادوگر از خود مسلمان ہوئے اور اسلام کی راہ میں سولی چڑھنے تک کے لیے تیار ہوگئے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں طب اور علوم طبعیہ (سائنس) کا چرچا تھا، سو اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ معجزات عطا فرمائے جن کے سامنے تمام اطباء اور سائنسدان اپنے عاجز اور درماندہ ہونے کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں فصاحت و بلاغت اور شعر و ادب کا ڈنکا بجتا تھا، سو اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ کتاب نازل فرمائی جس نے تمام فصحاء و بلغاء کی گردنیں خم کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین طرح کا چیلنج دیا، پہلے پورے قرآن کی مثل لانے کا (بنی اسرائیل : ٨٨) پھر دس سورتیں اس جیسی لانے کا (ہود : ١٣) پھر اس جیسی کوئی ایک سورت لانے کا (یونس : ٣٨) مگر وہ بار بار چیلنج سننے کے باوجود اس جیسی دس سورتیں تو کجا، اس جیسی ایک سورت بھی پیش نہ کرسکے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ پروردگار کا کلام مخلوق کے کلام سے مماثلت نہیں رکھتا۔ ( ابن کثیر، رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ٠ۥۙ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝ ٠ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَہَيْــــَٔــۃِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْہِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢا بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ۝ ٠ۙ فِيْ بُيُوْتِكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٤٩ۚ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس اِسْرَاۗءِيْلَ ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو . (إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال . جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ طين الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] . ( ط ی ن ) الطین ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ هيأ الْهَيْئَةُ : الحالة التي يكون عليها الشیء، محسوسة کانت أو معقولة، لکن في المحسوس أكثر . قال تعالی: أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران/ 49] ، وَالمُهايأَةُ : ما يَتَهَيَّأُ القوم له فيتراضون عليه علی وجه التّخمین، قال تعالی: وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً [ الكهف/ 10] ، وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف/ 16] وقیل : هَيَّاكَ أن تفعل کذا . بمعنی: إيّاك، قال الشاعر : هيّاك هيّاک وحنواء العنق ( ھ ی ء ) الھیئتہ اصل میں کسی چیز کی حالت کو کہتے ہیں عام اس سے کہ وہ حالت محسوسہ ہو یا معقولہ لیکن عموما یہ لفظ حالت محسوسہ یعنی شکل و صورت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران/ 49] کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بہ شکل پر ندبناتا ہوں ۔ لمھایاۃ ( مہموز ) جس کے لئے لوگ تیار ہوں ۔ اور اس پر موافقت کا اظہار کریں ۔ ھیاء کے معنی کسی معاملہ کیلئے اسباب مہیا کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً [ الكهف/ 10] اور ہمارے کام میں درستی ( کے سامان ) مہیا کر ۔ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف/ 16] اور تمہارے کاموں میں آسانی ( کے سامان ) مہیا کرے گا ۔ اور ایاک ان تفعل کذا میں لغت ھیاک ان تفعل کزا بھی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( ( 4 5 8 ) ھیاک ھیاک وحنواء العنق گردن مروڑنے یعنی تکبر سے دور رہو ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ كمه الْأَكْمَهُ : هو الذي يولد مطموس العین، وقد يقال لمن تذهب عينه، قال : كَمِهَتْ عيناه حتی ابیضّتا ( ک م ہ ) الاکمتہ کے معنی پیدائشی اندھا کے ہیں مگر کبھی اس شخص کے لئے آتا ہے جس کی بعد میں بصارت کھوگئی ہو شاعر نے کہا ہے کہ ( الرمل ) ( 385 ) کمھت علیناہ حتی ابیضتا اس کی آنکھیں بےنور ہوکر سفید ہوگئیں ۔ برص البَرَصُ معروف، وقیل للقمر : أَبْرَص، للنکتة التي عليه، وسام أَبْرَص «3» ، سمّي بذلک تشبيها بالبرص، والبَرِيصُ : الذي يلمع لمعان الأبرص، ويقارب البصیص «4» ، بصّ يبصّ : إذا برق . ( ب ر ص ) البرص پھلبہری مشہورمرض کا نام ہے اور چاند کو اس سیاہ دھبہ کی وجہ سے جو اس میں نظر آتا ہے & ابرص کہا گیا ہے ۔ اور سام ابرص کے معنی چھپکلی کے ہیں کیونکہ اس کی جلد پر بھی برص جیسے دھبے ہوتے ہیں ۔ البریص وہ ہے جو ابرص کی طرح چمکدار ہو ۔ یہی معنی تقریبا بصیص کے ہیں جو بص یبص بمعنی برق سے مشتق ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینب مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ ذخر أصل الادّخار اذتخار، يقال : ذخرته، وادّخرته : إذا أعددته للعقبی. وروي : (أنّ النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کان لا يدّخر شيئا لغد) والمذاخر : الجوف والعروق المدّخرة للطّعام، قال الشاعر : فلما سقیناها العکيس تملّأت ... مذاخرها وامتدّ رشحا وریدهاوالإذخر : حشیشة طيّبة الرّيح . ( ذ خ ر ) الا دخار ( افتعال ) اصل میں اذتخار تھا ۔ کہا جاتا ہے ۔ ( مستقبل کے لئے ذخیرہ جمع کرنا ایک روایت میں ہے لغد کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کل کے لئے کوئی چیز جمع نہ کرتے تھے ۔ المذا خر ۔ پیٹ اور انتڑیاں جن میں طعام کا ذخیرہ جمع رہتا ہے شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) جب ہم نے اسے عکیس یعنی شوربے میں ملا ہوا دورح پلایا تو اس کا پیٹ بھر گیا اور گیں پھول کر پسینہ بہنے لگا ۔ الاذخر ۔ ایک قسم کی خوشبو دار گھاس ۔۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) اور پھر تیس سال کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجیں گے، آپ عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے جا کر کہیں گے کہ میں تم لوگوں کے پاس اپنی نبوت پر کھلی اور روشن دلیل لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ پرندے کی شکل کی طرح مٹی کی مصنوعی صورت تمہارے سامنے بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں اور وہ پرندہ بن کر بحکم الہی آسمان و زمین کے درمیان اڑنے لگے گا، چناچہ ان کے سامنے چمگاڈر بنادی وہ لوگ بولے یہ تو جادو ہے، اسے ہم نہیں مانتے اس کے علاوہ اور کوئی دلیل لاؤ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بولے کہ میں پیدائشی نابینا اور کوڑھی کو اللہ کے حکم سے اچھا کردیتا ہوں تو اس پھر بھی وہ ہٹ دھرم لوگ کہنے لگے کہ یہ جادو ہے تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہیں وہ بھی بتا دیتا ہوں جو تم صبح وشام کھا کر آتے ہو اور جو صبح وشام کے لیے گھروں میں ذخیرہ کرکے آتے ہو اگر تم تصدیق کرنے والے ہو تو ان باتوں میں میری نبوت کے لیے کھلے دلائل موجود ہیں، (کہ جن سے ایک عقل مند کے لیے انکار کی گنجائش نہیں)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ لا) اب یہ جو دو بیک وقت آنے والی (contemporary) اصطلاحات ہیں ان کو نوٹ کر لیجیے۔ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں تمام توصیفی کلمات کے بعد آخری بات یہ فرمائی : (نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ) نبی ہوں گے صالحین میں سے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا : (وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَلا) یعنی بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر آئیں گے۔ نبی اور رسول میں یہ فرق نوٹ کر لیجیے کہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) صرف نبی تھے اس لیے وہ قتل بھی کردیے گئے ‘ جبکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) رسول تھے اور رسول قتل نہیں ہوسکتے ‘ اس لیے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ یہ بہت اہم مضمون ہے۔ مطالعۂ قرآن حکیم کے دوران اس کے اور بھی حوالے آئیں گے۔ (اَنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ج ) ابھی تک گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ساری خوشخبریاں دی گئیں۔ اب یوں سمجھئے کہ قصہ مختصر ‘ ان کی ولادت ہوئی ‘ وہ پلے بڑھے ‘ یہ ساری تاریخ بیچ میں سے حذف کر کے نقشہ کھینچا جا رہا ہے کہ اب حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز کردیا۔ آپ ( علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ (اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْءَۃِ الطَّیْرِ ) (فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِ اللّٰہِج ) یہاں آپ نوٹ کرتے جایئے کہ ہر معجزے کے بعد بِاِذْنِ اللّٰہِفرمایا۔ یعنی یہ میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے ‘ میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ جو کچھ ہے وہ اللہ کے حکم سے ہے۔ (وَاُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِج ) (وَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَلا فِیْ بُیُوْتِکُمْ ط) (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے اپنی رسالت کی صداقت اور دلیل کے طور پر یہ تمام معجزات پیش فرمائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45. It is hinted here that these signs are sufficient proof that Jesus was designated by God, the Creator and Sovereign of the universe, provided people are prepared to accept the truth instead of obstinately clinging to their prejudiced views. This is further proof that Jesus had been entrusted with a mission by God. Had he not been designated by God but by an imposter he would surely have attempted to found an independent religion, exploiting his miracles to lead people away from their original faith. However, Jesus believed in, and confirmed, the validity of the teachings of the original religion which had been preached at God's behest by the earlier Prophets.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :45 یعنی یہ علامت تم کو اس امر کا اطمینان دلانے کے لیے کافی ہیں کہ میں اس خدا کا بھیجا ہوا ہوں جو کائنات کا خالق اور حاکم ذی اقتدار ہے ۔ بشرطیکہ تم حق کو ماننے کے لیے تیار ہو ، ہٹ دھرم نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: یہ سب معجزے تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی نبوت کے ثبوت کے طور پر عطا فرمائے تھے اور آپ نے ان کا عملی مظاہرہ فرمایا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:49) الطین۔ گارا۔ مٹی۔ خاک۔ مٹی اور پانی کا آمیزہ۔ مٹی اور پانی دونوں کا آمیزہ طین ہے گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے۔ کہیئۃ۔ ک۔ حرف تشبیہ ۔ ہیئۃ۔ کسی چیز کی حالت۔ کیفیت۔ شکل و صورت ہئی مادہ۔ انفخ۔ نفخ سے باب نصر۔ مضارع واحد متکلم ۔ میں پھونک مارتا ہوں۔ ابری۔ ابراء (افعال) سے مضارع واحد متکلم۔ ابرائ۔ ہر بری چیز۔ مرض وغیرہ سے بری کرنا اور نجات دلانا۔ میں بری کردیتا ہوں مرض سے۔ میں تندرست کردیتا ہوں۔ اکمہ۔ مادہ زاد اندھا۔ صفت مشبہ کا صیغہ۔ ابرص۔ کوڑھی۔ جس کو برص کی مرض ہو۔ ہر دو اکمہ و ابرص کی تانیث و جمع بروزن افعل (واحد مذکر) فعلاء (واحد مؤنث) فعل (جمع مذکر و مؤنث) ہوگی۔ انبئکم۔ میں تم کو بتاؤں یا بتاتا ہوں۔ نبا ینبی ۔ نبأ خبر۔ تدخرون (باب افتعال) اصل میں تذتخرون تھا۔ اذ تخر یذتخر۔ پہلے تاء کو دال سے تبدیل کیا۔ پھر ذال کو دال بنا کر دال کو دال میں مدغم کیا۔ ادخر یدخر ہوگیا۔ تدخرون تم ذخیرہ کرتے ہو۔ تم آئندہ کے لئے جمع کرتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہاں خلق کا لفظ ظاہر شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا احیو اما خلقتم (کہ تم نے جو خلق کیا اسے زندہ کرو) پیدا کرنے اور ندگی دینے کے معنی ہیں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔3 یہاں باذن اللہ لا لفظ مکر ذکر کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) یہ معجزات نہ کھا سکتے۔۔ اور یہی ہر نبی کے معجزات کا حال ہے۔ (شو کانی۔ ابن کثیر)4 اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی ( علیہ السلام) کو اس کے زمانے کے منا سب حال معجزات عطا فرمائے ہیں۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانے میں جا دو اور جا دو گروں کا دور تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات دے کر بھیجا جن سے تمام جاد وگر دنگ رہ گئے اور ان کی عقل چکرا گئی۔ بآلا آخر از خود مسلمان ہوئے اور اسلام کی راہ میں پھا نسی تک کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں طیب اور علوم طبیعہ (سائنس) کا چرچہ تھا۔ سوا للہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات عنایت فرمائے جن کے سامنے تمام اطبا اور سائنسدان اپنے عاجز اور درماندہ ہونے کا اعتراف کیے بغیر نہ وہ سکے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں فصاحت وطلا غت اور شعر و ادب کا ڈنکا بجتا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے نے ان پر وہ کتاب نازل فرمائی جس نے تمام فصحا اور بلغا کی گردنیں خم کردیں اور وہ بار بار چیلنج سننے کے باوجود اس جیسی دس سورتیں تو کجا ایک سورت بلکہ ایک آیت تک پیش نہ کرسکے کیوں اس لیے کہ پروردگار کا کلام مخلوق کے کلام سے مما ثلث نہیں رکھتا، (ابن کثیر۔ کبیر

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ پرندہ کی شکل بنانا تصویر تھا جو اس شریعت میں جائز تھا، ہماری شریعت میں اس کا جواز منسوخ ہوگیا، اور ابرء اکمہ و ابرص کا امکان اگر اسباب طبعیہ سے ثابت ہوجاوے تو وجہ اعجاز یہ تھی کہ بلا اسباب طبعیہ ابراء واقع ہوجاتا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی رسالت صرف بنی اسرائیل کے لئے تھی ۔ اس لئے کہ آپ انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ تورات جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی ‘ اور جس میں بنی سرائیل کی زندگی کی تنظیم کے لئے شریعت موجود تھی ۔ اور جس میں باہم معاملات اور اجتماعی تنظیم کے امور طے ہوئے تھے ۔ وہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب بھی تھی ‘ ہاں اس پر انجیل کا اضافہ کیا گیا تھا ۔ اور مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں روحانی پاکیزگی پیدا کی جائے اور ان کا ضمیر جاگ اٹھے اور قلب روشن ہو۔ اور وہ معجزہ جس کی بابت اللہ نے ان کی والدہ حضرت مریم کو بشارت دی تھی کہ وہ معجزہ ان کے پاس ہوگا ۔ اور جس کے ساتھ اس نے بنی اسرائیل سے عملاً مباحثہ کیا وہ بھی یہی معجزہ احیاء تھا۔ یعنی مردہ چیز میں پھونک مار کر روح ڈال دینا ‘ اور کسی چیز کا زندہ ہوجانا ‘ اور مردہ انسانوں کو از سر نو زندہ کرنا اور مادر زاد اندھوں کو نظر عطا کیا جانا۔ اور کوڑھی کا تندرست ہونا اور غیب کی خبریں دینا مثلاً یہ کہ بنی اسرائیل نے کیا کھایا ہے اور کیا گھروں میں ذخیرہ کیا ہے ۔ جیسا کہ یہ اشیاء نظروں سے اوجھل ہوں………یہاں آیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی جن معجزات کا اظہار ہوا ہے۔ اور جن کی بشارت حضرت مریم کو دی گئی تھی اور جن کا اظہار پھر بعد میں حضرت عیسیٰ کی زبان سے بھی ہوا۔ یہاں آیت میں باربار اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ یہ سب معجزات کا جو اظہار ہوا ‘ اور جو عملاً بنی اسرائیل کے سامنے پیش بھی ہوئے ۔ یہ سب معجزات اللہ کی جانب سے تھے اور اللہ کے اذن سے تھے ۔ ہر معجزے کے بعد اذن اللہ کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ محض اس احتیاط کی خاطر کوئی انہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذاتی کمال نہ سمجھے ۔ ان تمام معجزات کا تعلق یا تو زندگی کی تخلیق سے ہے اور یا جس مخلوق سے زندگی نکل جائے ۔ اس میں دوبارہ زندگی لوٹانے سے ہے ۔ یا انسانی صحت کے ساتھ ان کا تعلق ہے جو کہ خود بقائے حیات کا ایک ذریعہ ہے ۔ یا پھر ان معاملات کو دیکھنے سے جو بظاہر نظروں سے اوجھل ہوں ۔ ان تمام معجزات کا تعلق اپنی حقیقت کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے غیر معمولی تولد کے معجزے سے ہے ۔ اللہ نے حضرت عیسیٰ کو اس طریقے سے وجود بخشا جس کی کوئی مثال ماسوائے حضرت آدم کے اور نہ تھی ۔ اگر اللہ اپنی مخلوقات میں سے ایک مخلوق کے ہاتھ پر اس قسم کے معجزات کا اظہار فرماسکتے ہیں تو وہ بذات خود اس طریقے پر معجزے کے طور پر خود حضرت عیسیٰ کو کیوں پیدا نہیں کرسکتے ۔ اس لئے نہ ان شبہات کا کوئی جواز ہے جو حضرت عیسیٰ کے بارے میں پھیلائے گئے ‘ نہ ان کہانیوں کی ضرورت ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے بارے میں خود عیسائیوں نے تصنیف کیں۔ اس لئے کہ جب معاملہ اللہ کی مشئیت کا ہوجائے تو پھر کوئی استحالہ نہیں رہتا ۔ اور خود انسانی عادت اللہ پر کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منصب کی ذمہ داری اور ان کے معجزات ان آیات میں حضرت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعض صفات بیان فرمائیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ ان کو کتاب کی تعلیم دے گا۔ کتاب سے کیا مراد ہے جبکہ تورات اور انجیل کا ذکر بعد میں آ رہا ہے بعض حضرات نے فرمایا ہے اس سے تورات و انجیل کے علاوہ کتابیں مراد ہیں مثلاً زبور وغیرہ، نیز فرمایا کہ اللہ ان کو حکمت سکھائے گا۔ صاحب روح المعانی صفحہ ١٦٦: ج ٣ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ اس سے علم الحلال و الحرام مراد ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ تمام امور دینیہ مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھائے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرات انبیاء (علیہ السلام) کی سنتیں مراد ہیں۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو تورات اور انجیل سکھائے گا۔ انجیل تو انہیں پر نازل ہوئی تھی اور تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی جو بنی اسرائیل کے لیے دینی و دنیاوی امور میں مفصل دستور حیات تھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے تورات بھی سکھا دی اور اس کے علوم بھی بتا دیئے۔ یہ سب باتیں فرشتوں کی خوشخبری ہی کے ذیل میں مذکور ہو رہی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اور نبوت سے سر فراز فرمایا ان سب باتوں کا ظہور ہوگیا اور ایسا ہی ہوا جیسے فرشتوں نے حضرت مریم [ کو خوشخبری دی تھی۔ معجزات کی تفصیل : خوشخبری میں یہ بات بھی شامل تھی کہ مریم کا یہ لڑکا بنی اسرائیل کی طرف اللہ کا رسول ہوگا اور اس کو معجزات دیئے جائیں گے ان کو جو معجزات دیئے گئے ان میں ایک یہ تھا کہ وہ مٹی (گارا) لے کر پرندہ کی ایک صورت بنا دیتے تھے پھر اس میں پھونک دیتے تھے تو وہ اللہ کے حکم سے زندہ پر ندہ ہو کر اڑ جاتا تھا۔ اور ایک معجزہ یہ تھا کہ وہ مادر زاد اندھے کی آنکھوں کی جگہ پر ہاتھ پھیر دیتے تھے جس سے وہ بینا ہوجاتا تھا اور دیکھنے لگتا تھا۔ اور ایک معجزہ یہ تھا کہ وہ برص والے کے جسم پر ہاتھ پھیر دیتے تھے جس سے اس کے جسم کی کھال صحیح ہوجاتی تھی اور مرض جاتا رہتا تھا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو خصوصیت کے ساتھ ایسی چیزیں بھی بطور معجزہ دی جاتی ہیں جن سے اہل زمانہ اپنے فن میں ماہر ہونے کے باو جود عاجز ہوتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں جادو گری کا بہت زور تھا ان کو عصا دے دی گئی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طب کا بہت زور تھا بڑے بڑے ماہرین موجود تھے جو اکمہ (مادر زاد اندھا) اور برص کے علاج سے بالکل ہی عاجز تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بطور معجزہ ایسی چیز دی گئی جس کا مقابلہ کوئی بھی صاحب فن طبیب نہیں کرسکا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک یہ بھی معجزہ تھا کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے روح المعانی صفحہ ١٦٩: ج ٣ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے چار آدمیوں کو زندہ کیا اور ان چار میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا سام بھی تھا۔ جب انہوں نے مردوں کو زندہ کیا تو معاندین کہنے لگے کہ یہ تو آپ نے ان کو زندہ کر کے دکھایا جو زمانہ حال ہی میں مرے تھے ممکن ہے ان کو سکتہ طاری ہوگیا ہو کسی ایسے شخص کو زندہ کرو جس کی موت کو زمانہ طویل ہوچکا ہو۔ لہٰذا انہوں نے سام بن نوح کو زندہ کیا ان کی موت کو چار ہزار سال سے زیادہ ہوچکے تھے اور فرمایا کہ اب تو ایمان لے آؤ ان میں سے بعضے ایمان لائے اور بعض نے تکذیب کی اور کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے۔ دوسرا کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ چیزیں بتاتا ہوں جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور ذخیرہ رکھتے ہو اور فرمایا کہ یہ سب معجزات خوارق عادات جو تمہارے سامنے آئے یہ واضح معجزات ہیں اگر تمہیں ایمان قبول کرنا ہے راہ حق اختیار کرنا ہے تو ایمان لے آؤ۔ لیکن جن کو ماننا نہ تھا انہوں نے نہ مانا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ جو میرے سامنے تورات شریف ہے میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں کہ وہ اللہ کی کتاب ہے یہ بات کہنے کی ضرورت اس لیے تھی کہ بنی اسرائیل تورات شریف کو مانتے تھے اگر کوئی تورات شریف کی تصدیق نہ کرتا تو ایمان نہ لانے کا یہ بہانہ ہوسکتا تھا کہ تم اللہ کی کتاب کو نہیں مانتے تم پر کیسے ایمان لائیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تورات شریف کی تصدیق کرتا ہوں تمہارے اور تمہارے دین کے خلاف کوئی دین لے کر نہیں آیا اور تمہارے لیے اللہ کی طرف سے بعض ان چیزوں کو بھی حلال قرار دیتا ہوں جو تم پر سابقہ شریعت میں حرام تھیں اور یہ معجزات منصف سمجھ دار کے لیے کافی ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ کفر اختیار کر کے اپنی بربادی نہ کرو۔ اندیشہ تھا کہ مذکورہ بالا معجزات اور خاص کر احیاء موتیٰ کا منظر دیکھ کر لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا سمجھنے لگیں اس لیے انہوں نے دوبارہ باذن اللہ فرمایا۔ سورة مائدہ کے ختم کے قریب بھی ان کے معجزات کا ذکر ہے وہاں چار مرتبہ یہ فرمایا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو دعوت دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ :

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68 یہ اَنِّیْ قَدْجِئْتُکُمْ سے بدل ہے اور اذن اللہ سے مراد امر اللہ ہے اور یہاں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی تفصیل شروع ہوتی ہے ان کا ایک معجزہ تھا کہ وہ مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس میں دم کردیتے تو وہ زندہ ہوجاتا۔ باذن اللہ کا اضافہ کر کے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مٹی کے بت کا زندہ ہوجانا یہ محض اللہ کے حکم سے تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس میں کوئی تصرف یا اختیار نہیں تھا۔ والمراد بامر اللہ واشار بذالک الی ان احیاءہ من اللہ تعالیٰ ولکن بسبب النفع ولیس ذالک مخصوصیۃ فی عیسیٰ (علیہ السلام) الخ (روح ج 3 ص 168) 69 یہ اخلق پر معطوف ہے۔ اکمہ اسے کہتے ہیں۔ جو ماں کے پیٹ سے ہی اندھا پیدا ہوا ہو اور ابرص کوڑھی کو کہتے ہیں۔ یہ بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات تھے۔ جب ان کے پاس کوئی علاج کے لیے آتا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تو اللہ شفا عطا کردیتا۔ اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے کے لیے بھی خدا سے دعا مانگتے اور یہ سب کچھ اللہ مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا تھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور کاموں کا اختیار نہیں تھا۔ اس لیے وہ الہ اور معبود نہیں تھے۔ وکان یداویھم بالدعاء الی اللہ تعالیٰ بشرط الایمان (روح ج 3 ص 169) 70 یہ بھی ان کا معجزہ تھا۔ وہ لوگوں کو بتا دیتے تھے کہ وہ کیا کھا کر آئے ہیں اور کیا گھر بچا کر رکھا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے بتانے سے انہیں معلوم ہوتا تھا۔ وہ خود غیب نہیں جانتے تھے۔ 71 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مذکورہ معجزات دکھا کر اپنی قوم سے کہیں گے کہ اگر ایمان لانا چاہو اور میری تصدیق کرنی چاہو تو یہ معجزات میری رسالت ونبوت کی بہت بڑی دلیل ہیں۔ کیونکہ یہ خارق عادت امور پیغمبر کے سوا کسی جھوٹے مدعی کے ہاتھ پر ہرگز ظاہر نہیں ہوسکتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4۔ اور اس عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم کو اللہ تعالیٰ عام کتب سماویہ کی تعلیم دے گا اور اس کو فہم و دانش کی باتیں سکھائے گا اور خاص طور پر اس کو تورات و انجیل کی تعلیم دے گا اور اس کو تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر اور یہ پیغام دے کر بھیجے گا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اپنے پروردگار کی جانب سے بہت بڑی دلیل لے کر آیا ہوں ۔ وہ یہ کہ میں تمہارے سامنے مٹی کے گارے سے ایک پرندے جیسی صورت اور مجسمہ بناتا ہوں پھر اس مصنوعی مجسمہ کے اندر پھونک مار دیتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے سچ مچ کا پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھ کے بیمار کو اچھا کردیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کر دیتاہوں اور جو کھانا تم اپنے گھروں میں کھا کر آتے ہو اور جو دوسرے دن کے لئے اپنے گھروں میں رکھ آتے ہو وہ سب تم کو بتادیتا ہوں ۔ بلا شبہ ان معجزات مذکورہ میں میری نبوت کے لئے کافی دلیل ہے اگر تم ایمان لانے پر آمادہ ہو۔ ( تیسیر) کتاب کا ترجمہ ہم نے کتب سماویہ کیا ہے مراد اس سے وہ صحائف اور کتابیں ہیں جو تورات اور انجیل کے علاوہ وقتاً فوقتا ًنازل ہوتی رہتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد کتاب سے فن کتابت اور فن تحریر ہو ۔ جیسا کہ بعض نے اس کو اختیار کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بڑے خوشخط تھے بنی اسرائیل میں سب سے پہلے نبی حضرت یوسف معبوث ہوئے تھے اور سب سے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے جیسا کہ صاحب تفسیر مظہری نے کہا ہے۔ بایۃ سے معلوم ہوتا تھا کہ شاید صرف ایک معجزہ ہوگا لیکن تفصیل میں کئی معجزے بیان کئے تو اس کا جواب یہ کہ ہر معجزہ ایک مستقل دلیل ہے مٹی کا مجسمہ بنا کر اس میں پھونک مارتے تھے شاید اس شریعت میں تصویر بنانا جائز ہوگا ۔ باذن اللہ کی قید بار بار اس لئے لگائی تا کہ کسی طرح الوہیت کا شبہ نہ ہو سکے یعنی میں جو کچھ کرتا ہوں وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتا ہوں۔ مفسرین نے کہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نبوت کا دعویٰ کیا اور معجزات کا ذکر کیا تو بنی اسرائیل نے ان سے چمگادڑ کی فرمائش کی ۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے مٹی کی چمگادڑ بنائی پھر اس میں پھونک ماری اور وہ زندہ ہوکر اڑ گئی۔ وہب کا قول ہے کہ لوگوں کے سامنے وہ جانور اڑ جاتا تھا لیکن زندہ نہیں رہتا تھا بلکہ کہیں دور جا گرپڑتا تھا تا کہ خالق اور مخلوق کے فعل میں امتیاز باقی رہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں چونکہ اطبائے یونان کا زور تھا اور ان کی طب کا ہر جگہ چرچا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجرات عطا فرمائے جو ان کے دور کے لئے موزوں اور مناسب تھے۔ اور جن امراض سے تمام اطباء عاجز تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی صحت اور ان کو اچھا کردینے کا معجزہ عطا فرمایا۔ اکمہ مادر زاد اندھا یا وہ جو ون کو دیکھے اور رات کو نہ دیکھ سکے ، یا وہ جو رات کو دیکھے اور دن کو نہ دیکھ سکے۔ ابرص وہ جس کے جسم پر کوڑھ کے داغ ہوں یہ وہ امراض تھے جو لا علاج سمجھے جاتے تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان ہی کا ذکر فرمایا۔ اس جملہ میں باذن اللہ کی قید اور اکمہ اور ابرص اور مردوں کے زندہ کرنے کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ صرف احی الموتی کی قید ہو۔ مردوں کے زندہ کرنے کے متعلق صحیح تعداد نہیں بتائی جاسکتی ۔ مفسرین نے چار شخصوں کا ذکر کیا ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے زندہ ہوگئے تھے۔ ( واللہ اعلم) فی بیوتکم کی قید میں بھی یہ احتمال ہے کہ صرف تدخرون کی قید ہو اگرچہ ہم نے تاکلون اور تدخرون دونوں کی قید رکھی ہے ۔ جیسا کہ تیسیر سے ظاہر ہے ، اگر فقط تد خرون کی قید ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ تم جو کچھ کہیں کھا آتے ہو اسکی بھی میں تم کو خبر دیتا ہوں اور جو کچھ دوسرے روز کے لئے گھر میں رکھ آتے اس کی بھی خبر دیتا ہوں۔ بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تمام فضائل و اوصاف حضرت مریم کو بتائے گئے کہ جو لڑکا تیرے ہاں بغیر باپ کے ہوگا وہ کتب سماویہ کا عالم ہوگا اور حکمت الٰہی اور مصالح الٰہی کا راز دار ہوگا ۔ تورات و انجیل سے با خبر ہوگا ، اس کو رسول اور صاحب معجزات بنا کر تمام بنی اسرائیل کی طرف بھیجا جائے گا وہ ان کو اپنی رسالت کے ساتھ اپنے معجزات سے بھی آگاہ کرے گا ۔ وہ ہزاروں بیماروں کو اچھا کرے گا ۔ مردوں کو زندہ کرے گا ، وہ لوگوں سے یہ بھی کہے گا کہ تم جو کچھ کھاتے ہو اور جو دوسرے وقت کے لئے بچا کر رکھ آتے ہو میں وہ بھی تم کو بتادوں گا اور یہ دلائل میری نبوت و رسالت کے لئے کافی ہیں ۔ اگر تم ایمان لانا چاہو اور ہم نے جو تمام بنی اسرائیل کہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سوائے بنی اسرائیل کے دوسرے ان پر ایمان لانے کے مکلف نہ تھے بلکہ بنی اسرائیل کی عمومیت کے لحاظ سے تمام کہا گیا ہے۔ البتہ نبوت کی جو عمومیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے وہ عمومیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل نہیں تھی اس لئے الی بنی اسرائیل فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اور ہر کتاب بغیر پڑھے آتی تھی اور یہ سب معجزے ہوتے تھے۔ ( موضح القرآن) وہب کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ہزار ہا مریض آتے تھے اور جو آنے کے قابل نہ ہوتا تھا اس کے پاس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خود تشریف لے جاتے تھے ۔ ہزاروں ، اندھوں ، لنگڑوں اور کوڑھیوں کو ان کی دعا سے شفا ہوتی تھیں وہ ذیل کی دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللھم انت الہ من فی السماء وانت الہ من من فی الارض لا الہ فیھما غیر ک وانت جبار من فی السموات و جبار من فی الارض لا جبار فیھما غیرک وانت ملک من فی السماء وملک من فی الارض لا ملک فیھما غیرک قدرتک فی الارض کقد رتک فی السماء سلطانک فی الارض کسلطانک فی السماء واسئلک باسملک الکریم ودجھلک المنیر و ملکک القدیم انک علی کل شی قدیر۔ وہب نے کہا یہ دعا گھبراہٹ اور جنوں کے مریض پر پڑھنے اور پانی میں گھول کر پلانے سے انشاء اللہ بالکل فائدہ ہوجائیگا اور گھبراہٹ و جنوں کا مریض شفا یاب ہوگا اب آگے حضرت عیسیٰ کی رسالت کی مزید تشریح اور ان کی تقریر مذکور ہے۔ (تسہیل)