Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 99

سورة آل عمران

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا وَّ اَنۡتُمۡ شُہَدَآءُ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۹﴾

Say, "O People of the Scripture, why do you avert from the way of Allah those who believe, seeking to make it [seem] deviant, while you are witnesses [to the truth]? And Allah is not unaware of what you do."

ان اہلِ کتاب سے کہو کہ تم اللہ تعالٰی کی راہ سے لوگوں کو کیوں روکتے ہو؟ اور اس میں عیب ٹٹولتے ہو ، حالانکہ تم خود شاہد ہو ، اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ مَنْ امَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنتُمْ شُهَدَاء ... Say: "O People of the Scripture (Jews and Christians)! Why do you stop those who have believed, from the path of Allah, seeking to make it seem crooked, while you (yourselves) are witnesses! They learned this from the previous Prophets and honorable Messengers, may Allah's peace and blessings be on them all. They all brought the glad tidings and the good news of the coming of the unlettered, Arab, Hashimi Prophet from Makkah, the master of the Children of Adam, the Final Prophet and the Messenger of the Lord of heavens and earth. ... وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ And Allah is not unaware of what you do." Allah has warned the People of the Book against this behavior, stating that He is Witness over what they do, indicating their defiance of the knowledge conveyed to them by the Prophets. They rejected, denied and refused the very Messenger whom they were ordered to convey the glad tidings about his coming. Allah states that He is never unaware of what they do, and He will hold them responsible for their actions, يَوْمَ لاَ يَنفَعُ مَالٌ وَلاَ بَنُونَ (The Day whereon neither wealth nor sons will avail), (26:88).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] یہود کی اسلام دشمنی کا ایک طریقہ یہ تھا کہ جو شخص مسلمان ہونے لگتا اسے طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتے تھے۔ پہلی بات جو اسے ذہن نشین کرائی جاتی وہ یہ تھی کہ جس نبی آخر الزمان کی بشارت ہماری کتابوں میں دی گئی ہے وہ یہ نبی نہیں۔ اگر یہ وہی نبی ہوتا تو قبلہ کو کیوں تبدیل کرتا۔ جو سب انبیاء کا قبلہ رہا ہے یا جو چیزیں حرام ہیں انہیں حلال کیوں بنا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے غلط قسم کے مسائل کو اصل بنیاد قرار دے کر مسلمان ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی ہی حرکات پر گرفت فرمائی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَّاَنْتُمْ شُہَدَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٩٩ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ عوج الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال : عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، ( ع و ج ) العوج ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ ) (تَبْغُوْنَہَا عِوَجًا) تم چاہتے ہو کہ جو اہل ایمان ہیں وہ بھی ٹیڑھے راستے پر چلیں۔ چناچہ تم سازشیں کرتے ہو کہ صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو کافر ہوجاؤ تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں بھی وسوسے اور دغدغے پیدا ہوجائیں۔ (وَّاَنْتُمْ شُہَدَآءُ ط) حالانکہ تم خود گواہ ہو ! تم راہ راست کو پہچانتے ہو اور جو کچھ کر رہے ہو جانتے بوجھتے کر رہے ہو۔ (وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ۔ لیکن ان تمام سازشوں کے جواب میں اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: یہاں سے آیت نمبر ۸۰۱ تک کی آیات ایک خاص واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ مدینہ منورہ میں دو قبیلے اوس وخزرج کے نام سے آباد تھے۔ اسلام سے پہلے ان کے درمیان سخت دُشمنی تھی، اور دونوں میں وقتا فوقتا جنگیں ہوتی رہتی تھیں جو بعض اوقات سالہا سال جاری رہتی تھیں۔ جب ان قبیلوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اسلام کی برکت سے ان کی یہ دُشمنی ختم ہوگئی اور اِسلام کے دامن میں آکر وہ شیر وشکر ہو کر رہنے لگے۔ بعض یہودیوں کو ان کا یہ اتحاد ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ ایک مرتبہ دونوں قبیلوں کے لوگ ایک مجلس میں جمع تھے، ایک یہودی شماس بن قیس نے ان کے پیار محبت کا یہ منظر دیکھا تو اس سے نہ رہا گیا، اور اس نے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے یہ ترکیب کی کہ ایک شخص سے کہا کہ اس مجلس میں وہ اَشعار سنادو جو زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج کے شاعروں نے ایک لمبی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے خلاف کہے تھے۔ اس شخص نے وہ اَشعار سنانے شروع کردیئے، نتیجہ یہ ہوا کہ ان اَشعار سے پرانی باتیں تازہ ہوگئیں، شروع میں دونوں قبیلوں کے لوگوں میں زبانی تکرار ہوئی، پھر بات بڑھ گئی اور آپس میں نئے سرے سے جنگ کی تاریخ اور وقت مقرر ہونے لگا۔ آنحضرتﷺ کو علم ہوا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں تنبیہ فرمائی کہ یہ سب شیطانی حرکت تھی، بالآخر آپ کے سمجھانے سے یہ فتنہ ختم ہوا۔ ان آیتوں میں اﷲ تعالیٰ نے پہلے تو یہودیوں سے خطاب کرکے فرمایا ہے کہ اوّل تو تم کو خود اِیمان لانا چاہئے اور اگر خود اس سعادت سے محروم ہو تو کم از کم ان لوگوں کے راستے میں رُکاوٹ نہ ڈالو جو اِیمان لاچکے ہیں۔ اس کے بعد بڑے موثر انداز میں مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے اور آخر میں باہمی جھگڑوں سے بچنے کا علاج یہ بتایا ہے کہ اپنے آپ کو دِین کی تبلیغ ودعوت میں مصروف کرلو تو اس سے اشاعتِ اسلام کے علاوہ یکجہتی بھی پیدا ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:99) تصدون۔ صد (نصر) تم روکتے ہو۔ تم بند کرتے ہو۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تبغونھا۔ تم اس کو چاہتے ہو بغی سے۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جو سبیل اللہ کی طرف راجع ہے۔ سبیل مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ عوج یعوج (سمع) سے اس ہے ٹیڑھا ہونا۔ کج ہونا۔ جو کجی آنکھوں سے نظر آجائے۔ مثلاً دیوار کا ٹیڑھا ہونا۔ وہ عوج (بفتح عین) ہے اور جو نظر نہ آئے مثلاً سوچ و سمجھ میں کجی۔ قول میں کجی (عین کے کسرہ کے ساتھ) ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 رد شبہات کے بعد ان آیات میں اہل کتاب کو زجر وتوبیخ کی کہ تم نہ صرف یہ کہ حق پر خود ایمان نہیں لاتے بلکہ جو لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں ان میں طرح طرح کے فتنے اور مئو شے چھوڑ کر حق کی راہ میں کجی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہو اور پھر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو تمہارے یہ کر توت خوب معلوم ہیں۔ تمہیں اپنے اس جرم کی سزا بھگتی پڑے گی (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا تعارف ان الفاظ میں کیا ہے ۔ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا……………” یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے ۔ “ یہ ایک بامعنی جائزہ ہے ۔ اور اس میں بہت بڑا راز ہے ۔ یعنی اللہ کا راستہ تو بالکل سیدھا راستہ ہے اور اس کے علاوہ جو راستے ہیں وہ سب ٹیڑھے راستے ہیں ۔ اور جب لوگوں کو سیدھے راستے سے روکا گیا اور جب ابھی ایمان کو اسلامی نظام حیات سے محروم کیا گی تو تمام انسانی امور میں اتقامت اور سیدھ ختم ہوجائے گی اور حسن وقبح کے پیمانے صحیح و سلامت نہ رہیں گے ۔ اور اس زمین کے نظام کا ہر شعبہ ٹیڑھا ہوجائے گا ۔ یہ ایک عظیم فساد ہوگا ‘ نظام فطرت میں فساد برپا ہوگا کیونکہ نظام فطرت کے خلاف ورزی ہوگی ‘ انسانی زندگی میں فساد اس لئے ہوگا کہ یہ زندگی ٹیڑھ پر قائم ہوگی ‘ اور یہ عظیم فساد اس لئے رونما ہوگا کہ لوگوں کو اسلامی ظام حیات سے روک دیا گیا ہوگا۔ پھر یہ فساد انسانی تصورات میں بھی برپا ہوگا ‘ انسانی ضمیر میں بھی فساد ہوگا ‘ انسانی اخلاق میں بھی فساد ہوگا ‘ انسانی طرزعمل میں فساد ہوگا ‘ انسانی روابط میں فساد ہوگا ‘ انسانی معاملات میں فساد ہوگا۔ غرض ان تمام روابط میں فساد ہوگا جو ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان پیدا ہوں گے ۔ نیز یہ فساد ان کے اور اس نظام کائنات میں بھی برپا ہوگا جس کائنات میں انسان رہتے ہیں ۔ پس لوگ یا تو اسلامی نظام زندگی کے تحت زندگی بسر کریں گے تو اس صورت میں وہ صراط مستقیم اور حالت صالحہ میں ہوں گے اور ان کے لئے بھلائی ہوگی یا پھر وہ ٹیڑھے اور منحنی راہوں پرچلیں گے ‘ تو اس صورت میں وہ ٹیڑھ ‘ فساد اور شر میں مبتلا ہوں گے ۔ دنیا میں یہی دوراستے ہیں اور یہی دوحالات ہیں جو بنی نوع انسان کی زندگی پر آسکتے ہیں ۔ ایک حالت یہ ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہوں گے تو پھر ان کے لئے خیر اور بہتری ہے اور یا وہ اس شاہراہ پر گامزن ہوں تو پھر ان کے لئے خیر اور بہتری ہے اور یا وہ اس شاہراہ سے منحرف ہوں گے تو اس صورت حال میں شر اور فساد ہی ان کا مقدر ہوگا۔ یہاں آکر اہل کتاب کے ساتھ اب مناظرہ ختم ہوجاتا ہے ۔ اب انہیں بھلادیا جاتا ہے اور اب خطاب جماعت مسلمہ سے ہورہا ہے ۔ اب امت مسلمہ کو ہدایات دی جارہی ہیں ۔ انہیں تنبیہ کی جاتی ہے او دشمن کی چالوں سے ڈرایا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ جماعت مسلمہ کے خصائص کیا ہیں ‘ اس کا تصور حیات اور اس کا نظام زندگی کیا ہے ‘ اور وہ کیا ذرائع ہیں جنہیں کام میں لاکر اس نظام زندگی کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

142 سسَبِیْل اللہِ سے مراد توحید اور دین اسلام ہے جو لوگ دین اسلام کو قبول کرلیتے تھے۔ یہود نصاریٰ کے علماء مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان کے دلوں میں شبہات ڈال کر انہیں اسلام سے روکنے کی کوشش کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر ملامت فرمائی وھو الاسلام وکانوا یمنعون من اراد الدخول فیہ بجھدھم ومحل (مدارک ص 134 ج) وکان صدھم عن سبیل اللہ بالقاء الشبہ والشکوک فی قلوب الضعفۃ من المسلمین الخ (کبیر ص 20 ج 2) ۔ 143 تَبْغُونَھَا میں ضمیر منصوب سَبِیْلِ اللہِ کی طرف راجع ہے اور اس سے پہلے لام محذوف ہے۔ تطلبون لھا فحذف اللام مثل واذا کالوھم (قرطبی ص 154 ج 4) ای تبغون لہا (روح ص 15 ج 4) عوج سے ٹیڑھا پن اور حق سے انحراف مراد ہے اور وَانْتُمْ شُھَداء تَصُدُّوْنَ یا تَبْغُوْنَ کے فاعل سے حال ہے مطلب یہ ہے کہ تم دین اسلام، مسئلہ توحید اور صداقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچھی طرح جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ تورات وانجیل میں جس آخری نبی کی بشارت ہے وہ یہی ہے جس کو آج تم جھٹلا رہے ہو۔ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ دین اسلام ہی دین حق ہے۔ اور توحید تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ہے۔ اس لیے تم جان بوجھ کر لوگوں کو دین اسلام سے کیوں روکتے ہو۔ اور ان کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈال کر انہیں اسلام اور توحید سے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیوں بدگمان کرتے ہو۔ وانتم شھداء ان فی التوراۃ مکتوبا ان دین اللہ الذی لا یقبل غیرہ الاسلام وان فیہ نعت محمدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (قرطبی ص 155 ج 4) ای کیف تفعلون ھذا وانتم علماء عارفون بتقدم البشارۃ بنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطلعون علی صحۃ نبوتہ (روح ص 15 ج 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے نبی آپ ان اہل کتاب سے یہ بھی فرمائیے کہ اے اہل کتاب تم ایسے شخص کو اللہ کی راہ سے جو ایمان لائے کیوں روکتے ہو اور اس شخص کو جو ایمان لا چکا ہو کیوں اللہ کی راہ سے ہٹاتے ہو اور تمہاری حالت یہ ہے کہ تم اس راہ میں کجی اور عیب نکالنے کی تلاش میں لگے رہتے ہو حالانکہ تم خود ان حرکات کے مذموم ہونے کو جانتے ہو اور سبیل اللہ کے راہ راست ہونے پر گواہ ہو اور اس راہ کی حقانیت سے باخبر ہو اور اللہ تعالیٰ ان کاموں سے جو تم کیا کرتے ہو غافل اور بیخبر نہیں ہے۔ (تیسیر) اللہ کی راہ سے مراد اسلام ہے چونکہ اہل کتاب ان لوگوں کو جو مسلمان ہوجاتے تھے مرتد کرنے کی کوشش کرتے تھے جو ایمان لانے والے ہوتے تھے ان کو بہکا کر ایمان لانے سے روکتے تھے اس لئے ہم نے تیسیر میں اس کا لحاظ رکھ کر وضاحت کی ہے۔ اللہ کی راہ سے روکنے میں اغوا کے تمام طریقے داخل ہیں خواہ وہ تخویف و ترغیب ہو یا آسمانی کتابوں میں لفظی اور معنوی تحریف ہو یا کوئی اور طریقہ گمراہ کرنے کا جو سب کو روکنا اور ہٹانا شامل ہے۔ عوجا مفعول بہ ہے اور مفعول لہٗ بھی ہوسکتا ہے ہم نے پہلی صورت اختیار کی ہے۔ کجی ڈھونڈنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں عیب اور نقص تلاش کرتے رہتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ راہ کی وجہ سے عوج فرمایا کیونکہ ٹیڑھا اور کج ہونا راستہ کیلئے موزوں اور مناسب ہے۔ وانتم شھداء کا مطلب ہم نے تیسر میں واضح میں واضح کردیا ہے۔ یعنی اپنی حرکات کی قباحت اور اسلام کی صداقت سے باخبر ہو۔ اور یہ جو فرمایا کہ تمہارے کاموں سے اللہ تعالیٰ غافل نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ڈرتے رہو اور ان حرکات سے باز آئو ورنہ تم کو سخت سزا دی جائے گی۔ اہل کتاب کے اعمال قبیحہ پر تنقید کرنے کے بعد مسلمانوں کو فہمائش کی جاتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)