Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 32

سورة لقمان

وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ ﴿۳۲﴾

And when waves come over them like canopies, they supplicate Allah , sincere to Him in religion. But when He delivers them to the land, there are [some] of them who are moderate [in faith]. And none rejects Our signs except everyone treacherous and ungrateful.

اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ ( نہایت ) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالٰی ہی کو پکارتے ہیں پھر جب وہ ( باری تعالیٰ ) انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ ... And when waves cover them like shades, meaning, like mountains or clouds, ... دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ... they invoke Allah, making their invocations for Him only. This is like the Ayah, وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ And when harm touches you upon the sea, those that you call upon vanish from you except Him. (17:67) فَإِذَا رَكِبُواْ فِى الْفُلْكِ And when they embark on a ship... (29:65) Then Allah says: ... فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ... But when He brings them safe to land, there are among them those that stop in between. Mujahid said, "This refers to the disbelievers -- as if he interpreted the word Muqtasid to mean denier as in the Ayah, فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ but when He brings them safely to land, behold, they give a share of their worship to others. (29:65) ... وَمَا يَجْحَدُ بِأيَاتِنَا إِلاَّ كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ And Our Ayat are not denied except by every Khattar Kafur. Khattar means one who betrays or stabs in the back. This was the view of Mujahid, Al-Hasan, Qatadah and Malik, narrating from Zayd bin Aslam. This word describes a person who, whenever he makes a promise, breaks his promise, and it refers to the worst form of treachery. كَفُورٍ (Kafur) means, one who denies blessings and does not give thanks for them, rather he forgets them and does not remember them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

321یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انھیں اپنی گرفت میں لے لینا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی اللہ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے 322بعض نے مقتصد کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہوگا۔ فمنھم مقتصد ومنھم کافر۔ پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں، دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی اعتدال پر رہنے والا اور یہ باب انکار سے ہوگا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی۔ انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت و اطاعت نہیں کرتا ؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نہ کہ اعتدال کا۔ مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ 323ختار غدار کے معنی میں ہے بد عہدی کرنے والا کفور ناشکری کرنے والا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] تلاطم خیز موجوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایا کہ ایسے طوفان سمندر میں اکثر اٹھتے رہتے ہیں۔ اس وقت تو سب لوگ کیا مشرک اور کیا دہریئے سب ہی اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور توحید باری تعالیٰ دونوں باتیں ہی انسان کی فطرت میں موجود ہیں۔ [ ٤٤] عععع مقتصد ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا اصل معنی تو اعتدال پر قائم رہنے والا ہے۔ پھر اس کے مفہوم راہ راست پر آجانے والا بھی شامل ہے۔ یعنی وہ شخص جو اس مصیبت میں اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کو یاد رکھے اور اسے پورا کرے جیسا کہ عکرمہ بن ابو جہل کے متعلق پہلے لکھا جاچکا ہے۔ (دیکھئے سورة الانعام کی آیت نمبر ٤١ کا حاشیہ) دوسرا مطلب یہ ہے کہ دہریے لوگ بھی اللہ سے انکار اور اللہ کے اقرار کے درمیان کی سطح پر آجاتے ہیں۔ کٹر منکر نہیں رہتے۔ یہی حال مشرکوں کا ہوتا ہے وہ اپنے معبودوں کی حاجت رواوی اور مشکل کشائی کے بارے میں شک میں پڑجاتے ہیں۔ مشرکوں پر اپنے معبودوں پر پورا اعتقاد نہیں رہتا۔ [ ٤٥] اور جن لوگوں کی عادت ہی یہ ہو کہ خواہ ان پر انعامات کی کس قدر بارش کردی جائے۔ انہوں نے شکر ادا کرنا یا احسان مان لینا سیکھا ہی نہ ہو، ایسے لوگ خطرہ ٹل جانے کے بعد پر اپنے سابقہ طرز زندگی یعنی کفر، شرک یا دہریت کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ ۔۔ : پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ساتھ سمندر میں چلنے والی کشتیوں اور جہازوں کو دیکھ کر ایمان والوں کی حالت کا ذکر فرمایا، جو بہت صبر و شکر کرنے والے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے ان کشتیوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی اور اس کے قادر و مختار ہونے کی بہت سے نشانیاں ہیں۔ اب بتایا کہ مشرکوں کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے، چناچہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے اور یک لخت پانی کی موجیں سائبانوں کی طرح انھیں ڈھانپ لیتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ معاملہ ختم ہے تو تمام خداؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کو چھوڑ کر اپنے دین یعنی عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس اکیلے کو پکارتے ہیں۔ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۔۔ : ” ختار “ ” خَتْرٌ“ میں سے ہے، جو بدترین عہد شکنی اور غداری کو کہتے ہیں۔ ” مقتصد “ کا لفظی معنی سیدھی راہ پر چلنے والا بھی ہے اور میانہ روی اختیار کرنے والا بھی۔ اس جملے کی تین تفسیریں ہوسکتی ہیں اور تینوں درست ہیں، ایک یہ کہ ” مقتصد “ کا معنی سیدھی راہ پر چلنے والا ہے، کیونکہ تمام راستوں میں سے درمیانہ راستہ ہی سیدھا اور درست ہوتا ہے۔ ” فمنہم “ میں ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ انھیں سائبانوں جیسی ان موجوں سے بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہی سیدھی راہ پر رہنے والے ہوتے ہیں، جو اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو انھوں نے طوفان کی حالت میں اپنے رب سے کیا تھا، جیسا کہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ (رض) تھے، ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا صاف انکار کردیتے ہیں جن کا مشاہدہ انھوں نے سمندر میں کیا تھا اور اس عہد کو توڑ دیتے ہیں جو انھوں نے طوفان کے وقت اپنے رب سے کیا تھا۔ پھر جو دہریے ہیں وہ اپنے بچ جانے کے لیے مادی اسباب بیان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم فلاں وجہ سے بچ گئے اور جو مشرک ہیں وہ اپنے بچ جانے کو کسی نہ کسی داتا یا دستگیر کی کرم نوازی قرار دینے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی آیات اور اس کی نعمتوں کا اس طرح صاف انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو بدترین عہد توڑنے والا اور نہایت ناشکرا ہو۔ ” ختار “ اور ” کفور “ مشرک کی صفات ہیں، جو بالترتیب مومن کی صفات ” صبار “ اور ” شکور “ کے مقابلہ میں آئی ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” مقتصد “ سے مراد کفر میں میانہ روی اختیار کرنے والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انھیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کفر میں اتنے شدید نہیں رہتے، بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں، جبکہ اکثر اپنے رب کی اس نعمت کا صاف انکار کر کے بدترین عہد شکنی اور ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس صورت میں ” مقتصد “ سے مراد ” مُقْتَصِدٌ فِي الْکُفْرِ “ ہوگا۔ تیسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ ” اِقْتِصَادٌ“ سے مراد ایمان و اخلاص اور عمل میں میانہ روی ہے : ” أَيْ فَمِنْھُمْ مُقْتَصِدٌ فِي الإِْیْمَانِ وَالْعَمَلِ “ یعنی طوفان سے نجات کے بعد جب کچھ وقت گزرتا ہے تو اخلاص اور ایمان کی وہ کیفیت کسی کی بھی باقی نہیں رہتی جو طوفان کے وقت تھی۔ پھر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اخلاص و ایمان اور عمل کے اعلیٰ درجے سے میانہ روی پر آجاتے ہیں، البتہ اکثر کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ سارے عہد توڑ کر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا صاف انکار کردیتے ہیں اور پھر اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” یعنی جو حال خوف کے وقت تھا وہ تو کسی کا نہیں، مگر بالکل بھول بھی نہ جائے، ایسے بھی کم ہیں۔ نہیں تو اکثر قدرت سے منکر ہوتے ہیں، اپنے بچ نکلنے کو تدبیر پر رکھتے ہیں یا کسی ارواح وغیرہ کی مدد پر۔ “ اللہ تعالیٰ کے کلام کا اعجاز ہے کہ آیت کے الفاظ میں تینوں معنوں کی گنجائش ہے اور کچھ بعید نہیں کہ تینوں مراد ہوں۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٦٧) ، عنکبوت (٦٥) اور یونس (٢١ تا ٢٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا غَشِيَہُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝ ٠ۥۚ فَلَمَّا نَجّٰىہُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ۝ ٠ ۭ وَمَا يَجْــحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوْرٍ۝ ٣٢ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ موج المَوْج في البحر : ما يعلو من غوارب الماء . قال تعالی: فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] ، يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] ومَاجَ كذا يَمُوجُ ، وتَمَوَّجَ تَمَوُّجاً : اضطرب اضطرابَ الموج . قال تعالی: وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ( م و ج ) الموج سمندر سے پانی کی جو لہر مغرب کی طرف سے اٹھتی ہے اسے موج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ ۔ فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] مہروں میں چلنے لگی ( لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ ( تھے) يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] جس پر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر آرہی ہے ماج کذا یموج وتموج تموجا موج کی طرح سضطرب ہونا۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس ( روز ) ہم ان کو چھوڑ دیں گے ۔ کہ روئے زمین پر پھیل کر ) ایک دوسرے میں گھس جائیں ۔ ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ برَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. قصد القَصْدُ : استقامة الطریق، يقال : قَصَدْتُ قَصْدَهُ ، أي : نحوت نحوه، ومنه : الِاقْتِصَادُ ، والِاقْتِصَادُ علی ضربین : أحدهما محمود علی الإطلاق، وذلک فيما له طرفان : إفراط وتفریط کالجود، فإنه بين الإسراف والبخل، وکالشّجاعة فإنّها بين التّهوّر والجبن، ونحو ذلك، وعلی هذا قوله : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] وإلى هذا النحو من الاقتصاد أشار بقوله : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] . والثاني يكنّى به عمّا يتردّد بين المحمود والمذموم، وهو فيما يقع بين محمود و مذموم، کالواقع بين العدل والجور، والقریب والبعید، وعلی ذلک قوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] ، وقوله : وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] أي : سفرا متوسّط غير متناهي هي البعد، وربما فسّر بقریب . والحقیقة ما ذکرت، وأَقْصَدَ السّهم : أصاب وقتل مکانه، كأنه وجد قَصْدَهُ قال : 368- فأصاب قلبک غير أن لم تقصد «3» وانْقَصَدَ الرّمحُ : انکسر، وتَقَصَّدَ : تكسّر، وقَصَدَ الرّمحَ : كسره، وناقة قَصِيدٌ: مکتنزة ممتلئة من اللّحم، والقَصِيدُ من الشّعر : ما تمّ شطر أبنیته «4» . ( ق ص د ) القصد ( ض ) راستہ کا سیدھا ہونا محاورہ ہ قصدث قصدہ میں اس کی طرف سیدھا گیا ۔ اسی سے اقتصاد ہے اوراقتصاد دوقسم ہر ہے (1) محمود عل الاطلاق جو افراط وتفریط کے درمیان میں ہو جیسے سخاوت جو اسراف اور بخل کے مابین کو کہتے ہیں اور شجاعت جو لاپرواہی اور بزدلی کے درمیانی درجہ کا نام ہے چناچہ اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا ۔ اوراقتصادی کی اسی نوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] یعنی اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔ (2) قصد کا لفظ کنایہ کے طور پر ہر اس چیز پر بولاجاتا ہے جس کے محمود اور مذموم ہونے میں شبہ ہو یعنی جو نہ بالکل محمود اور بالکل مذموم بلکہ ان کے درمیان میں ہو ۔ مثلا ایک چیز عدلی وجور کے مابین ہو چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] و کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں ۔ اسی طرح درمیانی مسافت پر بھی قصد کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ چناچہ آیت وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا ہے ۔ میں قاصد ا کے معنی معتدل سفر کے ہیں جو زیادہ دو ر کا نہ ہو اور بعض نے اس کا معنی سفر قریب لکھا ہے ۔ لیکن اصل معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے ہیں ۔ اقصد السھم تیر کا لگ کر فورا ہلاک کردینا ۔ گویا اس نے اپنے قصد کو پالیا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الکامل) (355) فاصاب قلبک غیرا ن لم یقصد وہ تیرے دل پر لگا لیکن اس نے قتل نہیں کیا انقصد الرمح کے معنی نیزہ ٹوٹ جانے کے ہیں اور تقصد بمعنی تکسر کے ہے ۔ قصد الرمح نیزہ تؤڑ دیا ۔ ناقۃ قصید گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی ۔ القصید کم ازکم سات اشعار کی نظم ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔ ختر الخَتْرُ : غدر يَخْتِرُ فيه الإنسان، أي : يضعف ويكسر لاجتهاده فيه، قال اللہ تعالی: كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ [ لقمان/ 32] . ( خ ت ر ) الختر اصل میں اس غداری کو کہتے ہیں جسے اس قدر کوشش سے کیا جائے کہ انسان کمزور پڑجائے اور اس کے اعضا ڈھیلے پڑجائیں قرآن میں ہے : ۔ كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ [ لقمان/ 32] جو عہد شکن اور ناشکرے ہیں ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب یہ کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور ان کو بادلوں کی طرح بلند موجیں طوفان میں گھیر لیتی ہیں تو خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں۔ پھر جب ہم ان کو دریا سے بچا کر خشکی کی طرف لے آتے ہیں تو ان کفار میں سے بعض قول فعل میں نسبت پہلے کے ذرا نرم ہوجاتے ہیں اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کا وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو غدار اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَاِذَا غَشِیَہُمْ مَّوْجٌ کَالظُّلَلِ ) ” بحری سفر کے دوران جب کبھی یہ لوگ طوفان میں پھنس جاتے ہیں اور سائبانوں کی طرح پھیلی ہوئی موجیں انہیں اپنی طرف ایسے بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جیسے کہ وہ ان کے اوپر سے گزر جائیں گی۔ (فَلَمَّا نَجّٰٹہُمْ اِلَی الْبَرِّ فَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ ط) ” یعنی ان میں سے اکثر و بیشتر توحید خالص سے برگشتہ ہو کر پھر شرک کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57 "Iqtisad" in the original may mean uprightness or moderateness. In the first case, the verse would mean: "A few of them only remain steadfast on Tauhid, which they had promised to follow when overwhelmed by the stone, and this makes them adhere to uprightness ever afterwards." If it is taken to mean moderateness, it would mean: Some of them become moderate and less rigid in their creed of atheism and polytheism, or they lose some of their fervour and enthusiasm that had been caused by the incident of calamity." Most probably AIlah has used this0 meaningful sentence here in order to allude to aII the three states simultaneously. The object probably is to point out the fact that during the storm at sea the mind of everybody is automatically set right, and everybody gives up atheism and polytheism and starts invoking One AIIah for help. But as soon as they safely land on the shore, only a few of them seem to have learnt any enduring lesson from their experience. Then, this small number also is divided into three groups: those who adopt uprightness ever afterwards, and those who become moderate in their disbelief, and Those who retain some of the spirit of enthusiasm caused temporarily by the calamity. 58 These two qualities are the antithesis of the two qualities mentioned in the preceding verse. A treacherous person is he who is utterly disloyal and who has no regard for his promise and pledge, and the ungrateful he who does not acknowledge the good and the gains and the benefits received by him, and even behaves rebelliously towards his benefactor. The people having these qualities return to their disbelief, their atheism and their polytheism without any hesitation as soon as the danger has been averted. They do not admit that they had perceived some signs in their own selves as well as outside themselves of Allah's existence and of His being only One when overwhelmed by the stone, and their invoking aIlah was in fact the result of their recognition of the same reality. The atheists among them explain away their act, saying, "It was a weakness which we manifested in the state of confusion and bewilderment, whereas there exists no God, Who might have saved us from the storm: we in fact succeeded in escaping by virtue of such and such a device and means and resources. " As for the mushriks, they generally say, "We had the succour and protection of such and such a saint or god and goddess available to us by virtue of which we escaped. " Therefore, as soon as they land on the shore, they start giving thanks to these false gods and presenting offerings at their shrines. They do not bother to think that when they had lost hope, there was none beside Allah, the One, whom they might have implored and invoked for help.

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :57 اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ اقتصاد کو اگر راست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کر کیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا دیتا ہے ۔ اور اگر اقتصاد بمعنی توسُّط و اعتدال لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر و دہریت کے عقیدے میں اس شدت پر قائم نہیں رہتے جس پر اس تجربے سے پہلے تھے ، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی ۔ اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہو ۔ مدعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پر آ جاتا ہے اور شرک و دہریت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں ۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نے اس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو ۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے ۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا ۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آگیا ۔ تیسری وہ جس کے اندر اس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :58 یہ دو صفات ان دو صفتوں کے مقابلے میں ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی کی آیت میں کیا گیا تھا ۔ غدار وہ شخص ہے جو سخت بے وفا ہو اور اپنے عہد و پیماں کا کوئی پاس نہ رکھے ۔ اور ناشکرا وہ ہے جس پر خواہ کتنی ہی نعمتوں کی بارش کر دی جائے وہ احسان مان کر نہ دے اور اپنے محسن کے مقابلے میں سرکشی سے پیش آئے یہ صفات جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ خطرے کا وقت ٹل جانے کے بعد بے تکلف اپنے کفر ، اپنی دہریت اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے طوفان کی حالت میں خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کچھ نشانیاں خارج میں بھی اور خود اپنے نفس میں بھی پائی تھیں اور ان کا خدا کو پکارنا اسی وجدان حقیقت کا نتیجہ تھا ۔ ان میں سے جو دہریے ہیں وہ اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک کمزوری تھی جو بحالت اضطراب ہم سے سرزد ہو گئی ، ورنہ درحقیقت خدا ودا کوئی نہ تھا جس نے ہمیں طوفان سے بچایا ہو ، ہم تو فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ رہے مشرکین ، تو وہ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگوں ، یا دیوی دیوتاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا جس کے طفیل ہم بچ گئے ، چنانچہ ساحل پر پہنچتے ہی وہ اپنے معبودان باطل کے شکریے ادا کرنے شروع کر دیتے ہیں اور انہی کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں ۔ یہ خیال تک انہیں نہیں آتا کہ جب ساری امیدوں کے سہارے ٹوٹ گئے تھے اس وقت اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہ تھا جس کا دامن انہوں نے تھاما ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:32) غشیہم : غشی یغشی (سمع) غشاء وغشاوۃ وغشیان مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اس نے ان کو ڈھانپ لیا۔ وہ ان پر چھا گیا۔ یا ان پر اپڑا ۔ ضمیر فاعل موج کے لئے ہے (اور جب سمندر کی موج ان کو ڈھانپ لیتی ہے) ۔ کا لظلل۔ کاف تشبیہ ہا ہے الظلل الظللۃ کی جمع ہے۔ الظلال بھی جمع ہے شامیانہ۔ سایہ دار۔ چھاؤں۔ ظل سایہ ۔ پرچھائیں۔ ظل سے بھی جمع ظلال ہے۔ موج : ماج یموج موج سے مصدر بھی ہے اور اسم مفرد بھی۔ لہر۔ اس کی جمع امواج ہے۔ واذا غشیہم موج کا لظلل۔ جب (سمندر کی) موجیں ان کو سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہیں۔ دعوا : دعاء سے ماضی جمع مذکر غائب۔ دعو اصل میں دعو وا تھا۔ واؤ متحرک ماقبل اس کا مفتوح واؤ کو الف سے بدلا۔ اب الف اور واؤ دو ساکن جمع ہوگئے اس لئے الف حذف ہوگیا۔ اور دعوا رہ گیا۔ انہوں نے پکارا ۔ (وہ پکارنے لگتے ہیں) ۔ مخلصین اخلاص سے۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت نصب بوجہ۔ ضمیر فاعل دعوا سے حال ہونے کے۔ اخلاص کے لگوی معنی ہیں کسی چیز کو ہر ممکن ملاوٹ سے پاک و صاف کردیتا۔ اور اصطلاح شرع میں اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ محض خداوند تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے عمل کیا جائے اور اس کے علاوہ کسی اور جذبہ کی اس میں آمیزش نہ ہو۔ الدین۔ اطاعت، شریعت کی پابندی۔ منصوب بوجہ مخلصین کے مفعول ہونے کے لہ میں ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے۔ مخلصین لہ الدین۔ اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے یعنی خالصۃ اللہ تعالیٰ کے ہی اطاعت گزار ہو کر اس کو پکارتے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے الا الذین تابوا واصلحوا واعتصموا باللہ واخلصوا دینھم للہ فاولئک مع المؤمنین (4:146) مگر جنہوں نے توبہ کی اور اپنی حالت کو درست کیا اور خدا کی رسی کو مضبوط پکڑا۔ اور خالص خدا کے اطاعت گزار ہوئے تو ایسے لوگو مؤمنوں کے زمرہ میں ہوں گے۔ نجہم : نجی ینجی تنجیۃ (تفعیل) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہمضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اسنے ان کو نجات بخشی۔ منھم میں من تبعیضیہ ہے یعنی ان میں سے بعض۔ ان میں سے کچھ۔ مقتصد۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ اقتصاد (افتعال) مصدر۔ قصد مادہ۔ اعتدال کی راہ پر چلنے والا۔ میانہ رو۔ متوسط۔ راہ راست پر چلنے والا۔ القصد قصد یقصد (ضرب) راستہکا سیدھا ہونا۔ محاورہ ہے قصدت قصدہ میں اس کی طرف سیدھا گیا۔ واقصد فی مشیک (31:19) اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر۔ اقتصاد کنایۃ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو نہ بالکل محمود ہو اور نہ بالکل مذموم ہو بلکہ ان کے درمیان ہو۔ مثلا فمنہم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد (35:32) تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ درمیانہ رو ہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جب طوفان میں گھرے ہو خالصۃ اللہ کو مدد کے لئے پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ساحل سمندر پر بامن و امان لے آتا ہے تو ان میں سے بعض تو راست روی پر قائم رہتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک تسلیم کرتے ہیں اور مشکل کشا ماننے میں ثابت قدم رہتے ہیں لیکن بعض دوسرے اپنے قول سے پھرجاتے ہیں اور شرک کی طرف عود کر جاتے ہیں۔ وما یجحد۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ جحد وجحود مصدر (باب فتح) وہ انکار نہیں کرتا ہے۔ کل ختار کفور : کل اسم ہے اور مضاف استعمال ہوتا ہے اور مضاف الیہ کے تمام افراد کے استغراق کے لئے آتا ہے مثلا کل نفس ذائقۃ الموت (3:185) یا آیۃ ہذا۔ کل ختار۔ ختر یختر (ضرب) ختر مصدر سے بروزن فعال مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ختر۔ سخت بےوفائی کرنا۔ بری طرح عہد شکنی کرنا۔ ختار عہد شکن۔ قول کا جھوٹا۔ مجرور بوجہ مضاف الیہ ہے۔ کفرر : کفر یکفر (باب نصر) کفر سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ ناشکرا۔ کافر۔ منکر یہاں ناشکرا مراد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 یعنی سمندر میں مصیبت پڑنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کا جو اقرار اس نے کیا تھا اس پر قائم رہت ا ہے۔ اصل میں ” اقتصاد “ کے معنی راست روی اور میانہ روی کے ہیں اور یہ لفظ ظالم کے مقابل ہمیں بھی اسعتمال ہوا ہے۔ (دیکھیے سورة فاطر (آیت 32) بعض مفسرین نے اس کے معنی ” کافر “ کئے ہیں کیونکہ سورة عنکبوت (آیت 65) میں ہے۔ ” فلما نجاھم الی البر اذا ھم یشرکون “ ” تو جب اس نے انہیں نجات دی تو اچانک وہ شرک پر اتر آئے۔ “ مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 1 یعنی جو مصیبت کا وقت ٹل جانے پر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اپنے قول وقرار کا بھی کوئی پاس نہیں کرتے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ پہلے جملہ میں ’ دمقتصد “ کے معنی راست روی اختیار کرنے والے ہی کے ہیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی کبھی شرک چھوڑ کر توحید کو جو کہ اعدل الطرق ہے اختیار کرلیتے ہیں۔ 7۔ کہ کشتی میں جو عہد توحید کا کیا تھا اس کو توڑ دیا، اور خشکی میں آنے کا مقتضا تھا شکر کرنا، اس کو چھوڑ دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سمندر میں کشتیوں کا چلنا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، مشرکین کو جب موج گھیر لیتی ہے تو اخلاص کے ساتھ دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام بیان فرمایا ہے کہ سمندر میں جو کشتی چلتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و انعام ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ دیکھو آدھا تولہ لوہا سمندر میں ڈالو تو اسی وقت ڈوب جائے گا اور سو من کی لکڑی جو کشتی کی صورت میں ہے وہ نہیں ڈوبتا، یہ کشتیاں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک لے جاتی ہیں، سامان لاتی ہیں، ضرورت کی چیزیں ان کے آنے جانے کی وجہ سے فراہم ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے انہیں ہواؤں کے تھپیڑوں کے ذریعہ اس حال میں کردیتا ہے کہ ان کا چلنا تیرنا مشکل ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ہواؤں کا رخ بدل دیتا ہے تو آرام سے چلتی ہیں، یہ سب عبرت کی چیزیں ہیں ان کے ذریعہ خالق کائنات جل مجدہٗ کی معرفت حاصل کرنی چاہیے، جو لوگ صبر اور شکر کا مزاج رکھتے ہیں وہی اللہ کی آیات سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ چلتی ہوئی کشتی کو پانی کا طوفان گھیر لیتا ہے، بڑی بڑی موجیں جو سائبانوں اور بادلوں کی طرح ہوتی ہیں وہ ڈھانپ لیتی ہیں۔ اس صورت میں انسان کو اپنے بچاؤ کا کوئی راستہ سمجھ میں نہیں آتا جو مومن بندے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف اخلاص کے ساتھ رجوع ہوتے ہی ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں لیکن جو لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اس وقت وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پوری سچائی اور پھر پورے اعتقاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ان میں جو مومن بندے ہوتے ہیں وہ برابر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رہتے ہیں خشکی میں آکر غیر اللہ کو نہیں پکارتے اور شرک میں مبتلا نہیں ہوتے، ان کے بارے میں فرمایا (فَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ) (کہ کشتی سے اتر کر خشکی میں آنے والے بعض لوگ اعتدال والی راہ اختیار کرنے والے ہوتے ہیں یعنی توحید پر ہی برقرار رہتے ہیں جو سیدھا اور اعتدال والا راستہ ہے، اور جو لوگ خشکی میں آکر اس مصیبت کو بھول جاتے ہیں جو کشتی میں پیش آئی تھی یعنی کشتی ڈوبنے کے قریب تھی یہ لوگ پھر شرک اختیار کرلیتے ہیں۔ سورة عنکبوت میں اسی کو فرمایا (فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ ) (سو جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں۔ ) (وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلاَّ کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوْرٍ ) (اور ہماری آیتوں کا ہر وہ شخص انکار کرتا ہے جو عہد کا بہت جھوٹا بہت ناشکرا ہو) ان جھوٹے عہد کرنے والوں میں وہ بھی ہوتے ہیں جو کشتی میں اخلاص کے ساتھ توحید کا عہد کرتے ہیں پھر کشتی سے باہر خشکی میں آکر توڑ دیتے ہیں، بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بڑے بڑے دلائل اور آیات کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور توحید کی دعوت کو قبول نہیں کرتے اور نہ صرف یہ کہ حق کو قبول نہیں کرتے بلکہ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری بھی کرتے ہیں، آیت کے آخر میں اسی کو بیان فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ واذا غشیہم الخ، یہ زجر ہے۔ دریاؤں اور سمندروں میں اگر ان کی کشتیوں کو پہاڑوں ایسی بلند وبالا موجیں گھیر لیں تو وہ اپنے تمام خود ساختہ کارسازوں سے مایوس ہو کر خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں موحدین لہ لا یدعون لخلاصہم سواہ (قرطبی ج 14 ص 80) ۔ فلما نجھم الخ جب اللہ تعالیٰ ان کو طوفان سے بچا کر کنارے لگا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ تو راہ اعتدال اختیار کرلیتے ہیں اور حق یعنی توحید پر قائم ہوجاتے ہیں فمہم مقیم علی التوحید (روح ج 21 س 106) ۔ البتہ عہد شکنی اور ناشکری جن کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہو وہ ایسے واضح اور روشن دلائل سے بھی نہیں سمجھتے بلکہ ضد اور عناد کی وجہ سے جحود و انکار پر ڈٹے رہتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32۔ اور جب ان لوگوں پر دریا کی موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں اور بادلوں کی طرح ان کو ڈھانک لیتی ہیں تو وہ لوگ اللہ تعالیٰ ہی پر خالص اعتقاد رکھ کر اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہیں اور اسی کی نری بندگی کا اعتقاد کر کے اس کو پکارتے ہیں ۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ ان کو نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے تو کوئی ان میں سے راہ راست پر قائم رہتا اور بیچ کی چال اختیار کرلیتا ہے اور کوئی عہد شکنی کرتا ہے اور ہماری نشانیوں کا بس وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو عہد شکن قول کے جھوٹے اور نا سپاس ہیں ۔ یعنی سمندر میں جب طوفان آجائے اور موج بدلی کی طرح سائبان بن کر گھیرے ڈالے لو اس وقت اللہ تعالیٰ کی توحید خالص کا اعتقاد کر کے خدا تعالیٰ کو پکارتے ہیں پھر جب ان کو نجات مل جاتی ہے اور خشکی پر آجاتے ہیں تو کوئی کوئی تو اپنے قول وقرار پر قائم رہتے ہوئے اعتدال کی راہ یعنی توحید پر قائم رہتا ہے اور کوئی کوئی قول وقرار سے پھرجاتا ہے اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کیا کرتے مگر غدار عہد شکن قول کے جھوٹے کفران نعمت کے خوگر ایسا کیا کرتے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی ہے بیچ کی چال پر یعنی وہ چال جو خوف کے وقت تھی سو وہ تو کسی کو نہیں رہتی مگر نرا بھول بھی نہ جاوے ایسے بھی کم نہیں تو اکثر منکر ہوتے ہیں ، قدرت سے اپنی تدبیر پر رکھتے ہیں یا کسی ارواح کی مدد پر ۔ 12 خلاصہ۔ یہ ہے کہ خوف کی حالت وت باقی نہیں رہتی البتہ کوئی عہد کو یاد رکھ کر توحید پر قائم رہتا ہے اور اکثر عذر کرتے ہیں کشتی میں جو عہد کیا تھا اس کو توڑ دیا یہ مطلب ختار کا اور کنارے پر پہنچ کر شکر بجا لانا تھا اسکی بجائے کفر کیا یہ مطلب ہے کفور کا ۔ یہاں چونکہ مقتصد ختار کے مقابلے میں آیا ہے اس لئے بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ توحید کا کم و بیش پابند رہتا ہے اور کفر کی طرف نہیں لوٹتا ۔ اب آگے کشتی کے خوف سے زیادہ ایک خوف کا دن یاد دلاتا ہے۔