Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 16

سورة ص

وَ قَالُوۡا رَبَّنَا عَجِّلۡ لَّنَا قِطَّنَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡحِسَابِ ﴿۱۶﴾

And they say, "Our Lord, hasten for us our share [of the punishment] before the Day of Account"

اور انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب! ہماری سر نوشت تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی دے دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They say: "Our Lord! Hasten to us Qittana before the Day of Reckoning!" Here Allah denounces the idolators for calling for the punishment to be hastened upon themselves. Qitt refers to a book or record, or it was said that it means one's allotted share or fortune. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Mujahid, Ad-Dahhak, Al-Hasan and others said, "They asked...  for the punishment to be hastened." Qatadah added, this is like when they said: اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَأءِ أَوِ ايْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ "O Allah! If this (the Qur'an) is indeed the truth from You, then rain down stones on us from the sky or bring on us a painful torment." (8:32) It was also said that they asked for their share of Paradise to be hastened, if it really existed, so that they might have their share in this world; they said this because they thought it unlikely to exist and they disbelieved in it. Ibn Jarir said, "They asked for whatever they deserved, good or bad, to be hastened for them in this world." What he said is good, and A-Dahhak and Isma`il bin Abi Khalid based their views on it. And Allah knows best.  Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی ہمارے نامہ اعمال کے مطابق ہمارے حصے میں اچھی یا بری سزا جو بھی ہے، یوم حساب آنے سے پہلے ہی دنیا میں دے دے۔ یہ و قوع قیامت کو ناممکن سمجھتے ہوئے انہوں نے تمسخر کے طور پر کہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] کفار کا مطالبہ ہمارا اعمال نامہ ابھی دیا جائے :۔ چونکہ کفار مکہ بعث بعد الموت، روز آخرت، اعمال نامہ اور حساب کتاب سب باتوں کے منکر تھے۔ اس لئے از راہ مذاق جس طرح یہ کہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے ؟ اسی طرح یہ بھی کہتے تھے کہ ہمارا اعمال نامہ جو ہمیں قیامت کے دن ملن... ا ہے ابھی ہمارے حوالے کردیں اور ہمارے حصے جو شامت لکھی ہوئی ہے وہ اس دنیا میں ہی ہم سے حساب لے لے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا :” قَطَّ یَقُطُّ قَطًّا “ (ن) قلم وغیرہ کا سرا کاٹنا۔ ” قِطٌّ“ حصے کو کہتے ہیں، کیونکہ ہر ایک کو اس کا حصہ کاٹ کردیا جاتا ہے۔ انعام کے لیے کاغذ کا جو ٹکڑا لکھ کردیا جاتا ہے اسے بھی ” قِطٌّ“ کہتے ہیں۔ مراد عذاب میں سے ان کا حصہ ہے، بعض نے اعمال نامہ مراد لی... ا ہے۔ یعنی کفار قیامت کو ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کرتے ہوئے اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے جرأت کی اس حد تک پہنچ گئے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی ربوبیت کے واسطے سے دعا کرتے ہوئے کہنے لگے، اے ہمارے رب ! عذاب میں سے ہمارا جو حصہ ہے وہ ہمیں یوم حساب سے پہلے ابھی جلدی دے دے، جیسا کہ ابوجہل وغیرہ نے نہایت دیدہ دلیری سے کہا تھا : (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اے اللہ ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا (0 our Lord, give us our share [ of the punishment ] sooner, - 38:16 ). The word: قِطّ (qitt) used here is, in reality, the document through which someone has been promised with a reward. Later, this word came to be used also as a &share& in an absolute sense. Here, this very sense is meant, that is, &let us have whatever share is coming to us from the reward an... d punishment of the Hereafter right here in this world.&  Show more

عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا۔ ” قط “ اصل میں اس دستاویز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی کو انعام دینے کا وعدہ کیا گیا ہو۔ پھر یہ لفظ مطلق ” حصہ “ کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ یہاں یہی معنیٰ مراد ہیں کہ ” آخرت کی جزا وسزا سے جو کچھ ہمیں حصہ ملنا ہے وہ یہاں دلوا دیجئے۔ “

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ۝ ١٦ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیاد... ہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ قط قال تعالی: وَقالُوا رَبَّنا عَجِّلْ لَنا قِطَّنا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسابِ [ ص/ 16] الْقِطُّ : الصّحيفة، وهو اسم للمکتوب والمکتوب فيه، ثم قد يسمّى المکتوب بذلک کما يسمّى الکلام کتابا وإن لم يكن مکتوبا، وأصل الْقِطِّ : الشیء المقطوع عرضا، كما أنّ القدّ هو المقطوع طولا، والْقِطُّ : النّصيب المفروز كأنّه قُطَّ ، أي : أفرز، وقد فسّر ابن عباس رضي اللہ عنه الآية به وقَطَّ السّعر أي : علا، وما رأيته قَطْ ، عبارة عن مدّة الزمان المقطوع به . وقَطْنِي : حسبي . ق ط ط ) القط حصہ حساب کا رجسٹر قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا رَبَّنا عَجِّلْ لَنا قِطَّنا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسابِ [ ص/ 16] اور کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار ہم کو ہمارا حصہ حساب کے دن سے پہلے ہی دے دے القط اصل میں صحیفہ کو کہتے ہیں پھر کو چیز یعنی حکم وغیرہ لکھا گیا ہو اور جس چیز میں لکھا گیا ہو دونوں کو قط کہنے لگے ہیں اور کبھی صرف اس ( فیصلہ وغیرہ کو قط کہا جاتا ہے جو کسی چیز پر لکھا گیا ہو جیسا کہ کلام کو کتاب کہا جاتا ہے اگر چہ وہ لکھی ہوئی نہ ہو اصل میں قط اس چیز کو کہا جاتا ہے جو عرض میں قطع کی گئی ہو جیسا کہ اس کے بالمقابل ) قد اس چیز کو کہا جاتا ہے جو طول میں قطع کی گئی ہو ۔ پھر ( محاورہ میں ) اس معین حصہ کو ( بھی ) قط کہا جاتا ہے جو کاٹ کر الگ کرلیا ہو چناچہ حضرت ابن عباس نے آیت مذکور ہ میں یہی معنی مراد لئے ہیں ۔ مارایت قط میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تو قط سے خاص زمانہ مراد ہے ۔ قطنی ) اسم فعل ) مجھے کافی ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اللہ تعالیٰ نے جب اپنی کتاب میں اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کا تذکرہ کیا تو کفار مکہ کہنے لگے اے ہمارے رب ہمارا نامہ اعمال روز حساب سے پہلے ہی ہمیں دے دے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ اس میں کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ { وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ } ” اور وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمارا حصہ ُ تو ہمیں جلدی دے دے ‘ یومِ حساب سے پہلے۔ “ یعنی تو ہمارا حساب روز حساب سے پہلے ہی چکا دے ! قِطّ کے معنی حصہ بھی ہیں اور یہ حساب کے رجسٹر (چٹھا) کے لیے بھی بولاجاتا ہے ‘ جس م... یں کسی کاروبار کی آمدن اور خرچ کا سالانہ حساب کتاب لکھا جاتا ہے اور اس سے اس کاروبار کی سالانہ بچت یا نقصان کا پتا چلتا ہے۔ یہ بات مشرکین مکہ استہزائیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ یہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا ‘ پھر ہمارے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا اور اس کے بعد ہمیں سزا دی جائے گی ‘ تو اے ہمارے پروردگار ! اس کے لیے یوم حساب ہی کا انتظار کیوں ؟ یہ کام ابھی کیوں نہ ہوجائے ! اس لیے بہتر ہوگا کہ تو ہمارا حساب کتاب ابھی کرلے اور ہمارا چٹھا (Balace Sheet) ابھی اسی زندگی میں ہی ہمارے ہاتھ میں تھما دے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 That is, `Allah's torment will be so severe and terrible as mentioned above, but just consider the behaviour of these foolish people: they are telling the Prophet. mockingly: `Do not put off our affairs till the Day of Reckoning with which you are threatening us, but settle our account just now: whatever punishment is to be inflicted on us should be inflicted immediately."

سورة صٓ حاشیہ نمبر :15 یعنی اللہ کے عذاب کا حال تو ہے وہ جو ابھی بیان کیا گیا ، اور ان نادانوں کا حال یہ ہے کہ یہ نبی سے مذاق کے طور پر کہتے ہیں کہ جس یوم الحساب سے تم ہمیں ڈراتے ہو اس کے آنے تک ہمارے معاملے کو نہ ٹالو بلکہ ہمارا حساب ابھی چکوا دو ، جو کچھ بھی ہمارے حصے کی شامت لکھی ہے وہ فوراً ... ہی آ جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یہ کافروں کا وہی مطالبہ ہے جس کا زکر پہلے بار بار گذرا ہے کہ اگر ہم پر عذاب آنا ہے تو ابھی فوراً کیوں نہیں آتا؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ١٧ تفسیرابو العالیہ تفسیر سدی ٢ ؎ تفسیر ضحاک اور تفسیر کلبی میں جو شان نزول اس آیت کی چند روایتوں سے بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے۔ مشرکین مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب یہ سنا کہ قیامت کے دن دائیں اور بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جاویں گے اور جو لوگ جنت میں جاویں گے اور جو لو... گ جنت میں جاویں گے۔ ان کو بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی۔ تو مسخرا پن سے وہ مشرک یہ کہتے تھے۔ کہ وہ جنت کی نعمتیں دنیا میں ہی ہم آنکھوں سے دیکھ لیویں تو شاید ہم کو کچھ یقین آوے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور فرما دیا۔ کہ اے رسول اللہ کے ان نادانوں کی ایسی باتوں پر صبر کرنا چاہئے۔ وقت پر اپنے کئے کو خود یہ لوگ بھگت لیویں گے۔ بعضے مفسروں نے لکھا ہے۔ کہ جہاد کے حکم سے آیت کا ٹکڑا اصبر علی مایقولون منسوخ ہے مگر صحیح قول یہی ہے۔ کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے اب آگے آنحضرت کا دل بہلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤود کے قصہ کا ذکر فرمایا قط کے معنی لکھے ہوئے کاغذ کے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اور سعید بن جبیر کے قول کے موافق آیت کا وہی مطلب ہے جس کا ذکر اوپر گزرا کہ وہ لوگ مسخرا پن سے سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال کا آجانا۔ اور اس کے ذریعہ سے جنت کی نعمتوں کو یا الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال آن کر دوزخ کے عذاب کو دنیا میں ہی دیکھ لینا چاہتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب کرکے فرمایا۔ کہ ان لوگوں کے مسخرا پن پر صبر کیا جاوے۔ صحیح سند سے ترمذی ٣ ؎ ابن ماجہ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں سفیان (رض) بن عبد اللہ ثقفی سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان کو انگلیوں میں پکڑ کر یہ فرمایا کہ یہ زبان بھی آدمی کے حق میں بڑے خوف کی چیز ہے۔ اس حدیث کو آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ بت پرستی کے وبال کے علاوہ مشرکین مکہ اس وبال میں بھی قیامت کے دن پکڑے جاویں گے۔ کہ مسخرا پن کے طور پر ایسی باتیں منہ سے نکالتے تھے جس کا ذکر آیت کے اس ٹکڑے میں ہے۔ (٢ ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص ٢٩٧ ج ٥۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ۔ ص ١٠٠ ج ٢)  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:16) قالوا۔ ضمیر فاعل جمع مذکر غائب کا مرجع وہی کفار قریش ہیں جن کے لئے اوپر ھؤلاء استعمال ہوا ہے۔ ای قالوا بطریق الاستھزاء والسخریۃ مخول اور ٹھٹھا کے طور پر کہتے ہیں۔ عجل لنا۔ عجل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر تعجیل (نفعیل) مصدر سے تو جلدی کر ہمارے لئے۔ تو ہمیں جلدی دیدے۔ قطنا۔ مضاف مضاف الیہ۔ ... قط اصل میں س چیز کو کہتے ہیں جس کو عرض میں کاٹا گیا ہے ۔ جیسے قد اس چیز کو کہتے ہیں جو طول میں کو ٹی گئی ہو پھر جدا کردہ حصہ کو بھی قط کہنے لگے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک یہاں حصہ ہی مراد ہے یعنی ہمارا حصہ ہم کو جلدی دیدے۔ بعض کے نزدیک حصہ سے مراد عذاب کا حصہ ہے (یعنی کافر اسہزاء کہتے تھے کہ ہمیں قیامت کے جس عذاب سے ڈرایا جاتا ہے وہ ہمیں ابھی دے دیا جائے کہ ہم دیکھیں تو سہی کہ ہے بھی کہ نہیں) ۔ اور بعض نے اس سے حصہ جنت مراد لیا ہے (یعنی کافریہ کہتے کہ قیامت میں جو جنت دوزخ کا بار بار ذکر کیا جا رہا ہے ہمیں تو جنت کا حصہ جو ملنا ہے یہاں ہی مل جائے تاکہ ہم اپنی اس زندگی میں ہی اس کا خط اٹھالیں۔ یوم الحساب : روز قیامت۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ہمارا معاملہ قیامت تک کیوں ٹالتا ہے جو سزا ہمیں اس وقت ملنے والی ہے وہ اسی دنیا میں دے ڈال۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مطلب یہ کہ قیامت نہیں ہے، اور اگر ہے تو ہم کو ابھی عذاب مطلوب ہے، جب عذاب نہیں ہوتا تو معلوم ہوا قیامت نہ آوے گی۔ نعوذباللہ من الجھل۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 16 بس یہاں آکر قرآن مجید ان کے بارے میں بات ختم کردیتا ہے اور روئے سخن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے ۔ آپ کو تسلی دی جاتی ہے کہ ان کی حماقتوں کی پروانہ کریں۔ یہ عذاب کا مطالبہ کرکے اللہ کے جناب میں سوء ادب کا ارتکاب کررہے ہیں۔ دراصل یہ قیامت کے قیام پر یقین ہی نہیں رکھتے ... ۔ اللہ کی رحمت پر ناشکری کرتے ہیں۔ آپ کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ انبیائے سابقہ کے حالات پڑھیں کہ ان پر کیا کیا آزمائشیں آئیں۔ اور اسکے بعد اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ وقالوا الخ : یہ شکوی ہے اور ابتدائے سورت سے متعلق ہے۔ بل الذین کفروا الخ : کفار و مشرکین غرور و استکبار میں مست ہیں۔ اور ازراہ تعنت و استہزاء کہتے ہیں قیامت کے دن ہمارے لیے جو عذاب تیار ہے وہ ہمیں دنیا ہی میں دیدو۔ قطنا ای قسطنا من العذاب الذی توعدنا بہ (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور ان منکروں نے بطور استہزا کہا اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری سر نوشت اور ہمارا حصہ ہم کو حساب کے دن سے پہلے ہی دیدے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب وعدہ قیامت کا سنتے تو کہتے ہمارا حصہ ابھی ہم کو دیدے یہ ٹھٹھے تھے ان کے۔ خلاصہ : یہ کہ قیامت کا عذاب سن کر کہتے کہ قیامت تو آنے والی نہیں کافرو... ں کو جو عذاب اس دن ہونے والا ہے اس میں سے ہمارا حصہ ہو وہ ہم کو یہیں مل جائے اور ہماری سر نوشت ہم کو یہیں دیدی جائے تاکہ ہم کو اپنا انجام معلوم ہوجائے تو ہم کو ہماری چھٹی اور پروانہ یا نامہ اعمال اسی دنیا میں دیدیا جائے۔  Show more