Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 71

سورة الزمر

وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَاۤ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ رَبِّکُمۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ لٰکِنۡ حَقَّتۡ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۷۱﴾

And those who disbelieved will be driven to Hell in groups until, when they reach it, its gates are opened and its keepers will say, "Did there not come to you messengers from yourselves, reciting to you the verses of your Lord and warning you of the meeting of this Day of yours?" They will say, "Yes, but the word of punishment has come into effect upon the disbelievers.

کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتےتھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How the Disbelievers will be driven to Hell Allah informs, وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا ... And those who disbelieved will be driven to Hell in groups, Allah tells us how the doomed disbeliever will be driven to Hell by force, with threats and warnings. This is like the Ayah: يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا The Day when they will be pushed down by force to the fire of Hell, with a horrible, forceful pushing. (52:13) which means, they will be pushed and forced towards it, and they will be extremely thirsty, as Allah says: يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَـنِ وَفْداً وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْداً The Day We shall gather those who have Taqwa unto the Most Gracious, like a delegation. And We shall drive the criminals to Hell, in a thirsty state. (19:85-86) When they are in that state, they will be blind, dumb and deaf, and some of them will be walking on their faces: وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا and We shall gather them together on the Day of Resurrection on their faces, blind, dumb and deaf; their abode will be Hell; whenever it abates, We shall increase for them the fierceness of the Fire. (17:97) ... حَتَّى إِذَا جَاوُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا ... till when they reach it, the gates thereof will be opened. means, as soon as they arrive, the gates will be opened quickly, in order to hasten on their punishment. ... وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ... And its keepers will say: Then the keepers of Hell, who are stern angels, severe and strong, will say to them by way of rebuking and reprimanding: ... أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ ... Did not the Messengers come to you from yourselves, meaning, `of your own kind, so that you could have spoken to them and learned from them,' ... يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ ايَاتِ رَبِّكُمْ ... reciting to you the Ayat of your Lord, means, `establishing proof against you that what they brought to you was true,' ... وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا ... and warning you of the meeting of this Day of yours, means, `warning you of the evil of this Day.' : ... قَالُوا بَلَى ... They will say, "Yes", meaning, the disbeliever will say to them that they did come to us and warn us and establish proof and evidence against us,' ... وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ but the Word of torment has been justified against the disbelievers! means, `but we rejected them and went against them, because we were already doomed, as it was decreed that we would be, because we had turned away from the truth towards falsehood.' This is like the Ayat: ... كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ فِي ضَلَلٍ كَبِيرٍ وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ ... Every time a group is cast therein, its keeper will ask: "Did no warner come to you" They will say: "Yes, indeed a warner came to us, but we denied him and said: `Allah never revealed anything; you are only in great error."' And they will say: "Had we but listened or used our intelligence, we would not have been among the dwellers of the blazing Fire!" (67:8-10) which means, they will feel regret and will blame themselves. فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لاَِّصْحَابِ السَّعِيرِ Then they will confess their sin. So, away with the dwellers of the blazing Fire! (67:11) means, they are lost and doomed.

کفار کی آخری منزل ۔ بدنصیب منکرین حق ، کفار کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح رسوائی ، ذلت ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکی سے جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے ۔ جیسے اور آیت میں یدعون کا لفظ ہے یعنی دھکے دیئے جائیں گے اور سخت پیاسے ہوں گے ، جیسے اللہ جل و علا نے فرمایا ( یوم نحشر المتقین ) الخ ، جس روز ہم پرہیزگاروں کو رحمان کے مہمان بناکر جمع کریں گے اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے ۔ اس کے علاوہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہوں گے اور منہ کے بل گھسیٹ کر لائیں گے یہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا جب اس کی آتش دھیمی ہونے لگے ہم اسے اور تیز کردیں گے ۔ یہ قریب پہنچیں گے دروازے کھل جائیں گے تاکہ فوراً ہی عذاب نار شروع ہو جائے ۔ پھر انہیں وہاں کے محافظ فرشتے شرمندہ کرنے کیلئے اور ندامت بڑھانے کیلئے ڈانٹ کر اور گھرک کر کہیں گے کیونکہ ان میں رحم کا تو مادہ ہی نہیں سراسر سختی کرنے والے سخت غصے والے اور بڑی بری طرح مار مارنے والے ہیں کہ کیا تمہارے پاس تمہاری ہی جنس کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے تھے؟ جن سے تم سوال جواب کرسکتے تھے اپنا اطمینان اور تسلی کرسکتے تھے ان کی باتوں کو سمجھ سکتے تھے ان کی صحبت میں بیٹھ سکتے تھے ، انہوں نے اللہ کی آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں اپنے لائے ہوئے سچے دین پر دلیلیں قائم کردیں ۔ تمہیں اس دن کی برائیوں سے آگاہ کردیا ۔ آج کے عذابوں سے ڈرایا ۔ کافر اقرار کریں گے کہ ہاں یہ سچ ہے بیشک اللہ کے پیغمبر ہم میں آئے ۔ انہوں نے دلیلیں بھی قائم کیں ہمیں بہت کچھ کہا سنا بھی ۔ ڈرایا دھمکایا بھی ۔ لیکن ہم نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان کے خلاف کیا مقابلہ کیا کیونکہ ہماری قسمت میں ہی شقاوت تھی ۔ ازلی بدنصیب ہم تھے ۔ حق سے ہٹ گئے اور باطل کے طرفدار بن گئے ۔ جیسے سورۃ تبارک کی آیت میں ہے جب جہنم میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا ۔ اس سے وہاں کے محافظ پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں آیا تو تھا لیکن ہم نے اس کی تکذیب کی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم بڑی بھاری غلطی میں ہو ۔ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج دوزخیوں میں نہ ہوتے ۔ یعنی اپنے آپ کو آپ ملامت کرنے لگیں گے اپنے گناہ کا خود اقرار کریں گے ۔ اللہ فرمائے گا دوری اور خسارہ ہو ۔ لعنت و پھٹکار ہو اہل دوزخ پر ، کہا جائے گا یعنی ہر وہ شخص جو انہیں دیکھے گا اور ان کی حالت کو معلوم کرے گا وہ صاف کہہ اٹھے گا کہ بیشک یہ اسی لائق ہیں ۔ اسی لئے کہنے والے کا نام نہیں لیا گیا بلکہ اسے مطلق چھوڑا گیا تاکہ اس کا عموم باقی رہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے عدل کی گواہی کامل ہو جائے ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اب جاؤ جہنم میں یہیں ہمیشہ جلتے بھلستے رہنا نہ یہاں سے کسی طرح کسی وقت چھٹکارا ملے نہ تمہیں موت آئے آہ! یہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے جس میں دن رات جلنا ہی جلنا ہے ۔ یہ ہے تمہارے تکبر کا اور حق کو نہ ماننے کا بدلہ ۔ جس نے تمہیں ایسی بری جگہ پہنچایا اور یہیں کردیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 زمر زَمَرَ سے مشتق ہے بمعنی آواز ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا ایک گروہ کے پیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا یوم یدعون الی نار جہنم دعا الطور یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا۔ 71۔ 2 یعنی ان کے پہنچتے ہی فورا جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیئے جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔ 71۔ 3 یعنی جس طرح دنیا میں بحث و تکرار اور جدال و مناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجانے کے بعد بحث وجدال کی گنجایش ہی باقی نہ رہے گی، اس لئے اعتراف کیے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ 71۔ 4 یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اور مخالفت کی اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا اس مضمون کو سورة الملک میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] اس لئے کہ کفر کی بھی بیسیوں اقسام ہیں۔ اور اسی لحاظ سے ان کافروں کی قیامت کے دن گروہ بندی ہوگی۔ اور ان کی گروہ بندی کرنے کے بعد انہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ جیسے ان مجرموں کو، جو عدالت کے فیصلہ کے بعد واقعی مجرم ثابت ہوجاتے ہیں & پابہ زنجیر کرکے جیل خانہ کی طرف لے جایا جاتا ہے اور جس طرح ان مجرموں کے جیل خانہ پہنچنے پر جیل کا پھاٹک کھول دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے گروہوں کے جہنم کے پاس پہنچنے پر جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ [٩١] جہنم کے داروغے اور ان کا سوال :۔ جب یہ گروہ جہنم پر پہنچ جائیں گے تو جہنم کے داروغے یا سپرنٹنڈنٹ ملامت کے طور پر انہیں پوچھیں گے، ارے کم بختو ! تمہارے پاس اللہ کے رسول تمہیں آج کے حالات سے خبردار کرنے یا ڈرانے کے لئے نہیں پہنچے تھے ؟ مجرم جواب دیں گے : آئے تو تھے مگر ہماری بدبختی اور نالائقی کہ ہم نے انہیں سچا نہ سمجھا جس کے نتیجہ میں آج ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال کی سزا ہمیں مل کر ہی رہے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ۭ : ” سَاقَ یَسُوْقُ سَوْقًا “ (ن) کسی کو اپنے آگے رکھ کر پیچھے سے ہانکنا، اس میں ہانکے جانے والے کی ذلت کا اظہار ہوتا ہے۔ آگے رہ کر کسی کو اپنے پیچھے چلانے کے لیے ” قَادَ یَقُوْدُ “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ” زُمَرًا “ ” زُمْرَۃٌ“ کی جمع ہے، وہ گروہ جس کے پیچھے اور گروہ ہو۔ ” زُمْرَۃٌ مِنَ النَّاسِ “ اس جماعت کو کہا جاتا ہے جس کے پیچھے اور جماعت آرہی ہو۔ 3 پچھلی آیات میں قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلے کا ذکر ہے، ان آیات میں اس فیصلے پر عمل کا ذکر ہے۔ چناچہ پہلے عذاب کے مستحق لوگوں کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ مقام ان لوگوں کو نصیحت اور ڈرانے کا ہے جو اتنی نصیحت اور اس قدر دلائل سن کر بھی کفر پر جمے رہے۔ 3 یعنی جب کافروں کا جرم ثابت ہونے کے بعد فیصلہ کردیا جائے گا تو ٹولیاں بنا کر انھیں زبردستی ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ) [ الطور : ١٣ ] ” جس دن انھیں جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جائے گا، بری طرح دھکیلا جانا۔ “ مختلف گروہوں میں تقسیم یا تو کفر کی درجہ بندی کے لحاظ سے ہوگی کہ منافق درک اسفل میں ہوں گے اور کچھ وہ بھی ہوں گے جنھیں صرف آگ کا جوتا پہنایا جائے گا، یا زمانے کے لحاظ سے کہ پہلے لوگ پہلے اور بعد کے لوگ بعد میں داخل ہوں گے۔ (دیکھیے اعراف : ٣٨) ایک تقسیم مجرموں کی مختلف اقسام کے لحاظ سے بھی ہوگی، مثلاً چوروں کا گروہ، بدکاروں کا گروہ وغیرہ۔ دیکھیے سورة صافات (٢٢) اور سورة حٰمٓ السجدہ (١٩) ۔ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا : یعنی ان کے آنے پر جہنم کے دروازے، جو پہلے بند تھے، کھولے جائیں گے، جس طرح قید خانے کے دروازے صرف مجرموں کی آمد پر کھولے جاتے ہیں اور پھر ان پر بند کردیے جاتے ہیں، تاکہ وہ وہیں قید رہیں۔ وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ : ” خَزَنَۃٌ“ ” خَازِنٌ“ کی جمع ہے، جیسا کہ ” طَلَبَۃٌ“ ” طَالِبٌ“ کی جمع ہے۔ دربان کو خازن کہا جاتا ہے، کیونکہ عموماً دربان وہیں ہوتے ہیں جہاں قیمتی چیزوں کا خزانہ ہو۔ جہنم کے دربانوں کی صفت کے لیے دیکھیے سورة تحریم (٦) ۔ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ ۔۔ : جہنم کے سخت دل، سخت لہجے اور قوت والے فرشتے ان سے یہ بات پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں ملامت کرنے اور ڈانٹنے کے لیے کہیں گے، جسمانی عذاب کے ساتھ یہ عذاب مزید ہوگا۔ دیکھیے سورة انعام (١٢٠) اور سورة ملک (٨ تا ١١) ۔ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ ۔۔ : یعنی ہاں آئے تھے اور انھوں نے ڈرایا بھی تھا، مگر ہم ہی ایسے اعمال کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ بات جو اس نے جہنم کو کافر جنوں اور انسانوں سے بھرنے کے متعلق فرمائی تھی (دیکھیے السجدہ : ١٣) وہ ہمارے حق میں سچی ثابت ہوئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَہَنَّمَ زُمَرًا۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَــتُہَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا۝ ٠ ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝ ٧١ ساق سَوْقُ الإبل : جلبها وطردها، يقال : سُقْتُهُ فَانْسَاقَ ، والسَّيِّقَةُ : ما يُسَاقُ من الدّوابّ. وسُقْتُ المهر إلى المرأة، وذلک أنّ مهورهم کانت الإبل، وقوله : إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] ، نحو قوله : وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] ، وقوله : سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : ملك يَسُوقُهُ ، وآخر يشهد عليه وله، وقیل : هو کقوله : كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] ، وقوله : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] ، قيل : عني التفاف الساقین عند خروج الروح . وقیل : التفافهما عند ما يلفّان في الکفن، وقیل : هو أن يموت فلا تحملانه بعد أن کانتا تقلّانه، وقیل : أراد التفاف البليّة بالبليّة نحو قوله تعالی: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] ، من قولهم : کشفت الحرب عن ساقها، وقال بعضهم في قوله : يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] :إنه إشارة إلى شدّة «2» ، وهو أن يموت الولد في بطن الناقة فيدخل المذمّر يده في رحمها فيأخذ بساقه فيخرجه ميّتا، قال : فهذا هو الکشف عن الساق، فجعل لكلّ أمر فظیع . وقوله : فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] ، قيل : هو جمع ساق نحو : لابة ولوب، وقارة وقور، وعلی هذا : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، ورجل أَسْوَقُ ، وامرأة سَوْقَاءُ بيّنة السّوق، أي : عظیمة السّاق، والسُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ ( س و ق) سوق الابل کے معنی اونٹ کو سنکانے اور چلانے کے ہیں یہ سفقتہ ( ن) کا مصدر ہے اور انسان ( انفعال ) کے معنی ہنکانے کے بعد چل پڑنے کے ہیں ان جانوروں کو جو ہنکائے جاتے ہیں سیقۃ کہا جاتا ہے ۔ اور عورت کو مہر ادا کرنے کے لئے سقت المھر الی المرءۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب حق مہر میں وعام طور پر ) اونٹ دیا کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] میں امساق سے معنی پروردگار کی طرف چلنا کے ہیں جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] میں ہے یعنی تمہیں اپنے پروردگار کے پاس پہچنا ہے اور آیت سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا اور ایک ( اس کے عملوں کی ) گواہی دینے والا ۔ میں سابق سے وہ فرشتہ مراد ہے جو اسے چلا کر حساب کے لئے پیش کرے گا اور دوسرا فرشتہ شہید بطور گواہ کے اس کے ساتھ ہوگا جو اسکے حق میں یا سکے خلاف گواہی گا بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کیطرف دھکیلے جاتے ہیں کے ہم معنی ہے اور آیت : ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی لپٹ جائے گی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبض روح کے وقت پنڈلیوں کا لپٹنا مراد لیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لپٹنے سے مراد موت ہے کہ زندگی میں وہ اس کے بوجھ کو اٹھا کر چلتی تھیں لیکن موت کے بعد وہ اس بار کی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک شدت کا دوسری شدت سے لپٹنا مراد ہے اسی طرح آیت : ۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا ۔ میں پنڈلی سے کپرا ا اٹھانا صعوبت حال سے کنایہ ہے اور یہ کشفت الحرب عن ساقھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی لڑائی کے سخت ہوجانے ہیں ۔ بعض نے اس کی اصل یہ بیان کی ہے کہ جب اونٹنی کے پیٹ میں بچہ مرجاتا ہے تو مزمر ( جنوانے والا ) اس کے رحم کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے : ۔ اور اسے پنڈلیوں سے پکڑ کر ذور سے باہر نکالتا ہے ۔ اور یہ کشف عن الناق کے اصل معنی ہیں پھر ہر ہولناک امر کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوناے لگا ہے تو یہاں بھی شدت حال سے کنایہ ہے اور آیت : ۔ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سوق ساق کی جمع ہے جیسے لابۃ کی جمع لوب اور فارۃ کی جمع فور آتی ہے ۔ اور اسی طرح آیت : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ میں بھی سوق صیغہ جمع ہے اور رجل اسوق کر معنی بڑی پنڈلیوں والے آدمی کے ہیں اسکی مؤنث سوقاء آتی ہے اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ السویق کے معنی ستو کے ہیں کیونکہ وہ بغیر جائے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ زمر قال : وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ، جمع زُمْرَةٍ ، وهي الجماعة القلیلة، ومنه قيل : شاة زَمِرَةٌ: قلیلة الشّعر، ورجل زَمِرٌ: قلیل المروءة، وزَمَرَتِ النّعامة تَزْمِرُ زمَاراً ، وعنه اشتقّ الزَّمْرُ ، والزَّمَّارَةُ كناية عن الفاجرة . ( ز م ر ) زمرۃ کے معنی چھوٹی سی جماعت کے ہیں اس کی جمع زمر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جہنوں نے اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیا وہ بہشت کی طرف گروہ گروہ کر کے چلے جائینگے اور اسی سے شاۃ زمرۃ ہے جس کے معنی کم اون والی بھیڑ کے ہیں اور بےمروت آدمی کو رمز کہا جاتا ہے اور زمرت النعامۃ تزمر زمارا کے معنی ہیں شتر مرغ نے سیٹی بجائی اور اسی سے کنایہ کے طور پر فاجرہ عورت کو زمرۃ و زمارۃ کہا جاتا ہے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کافروں کو گروہوں کی صورت میں ترتیب وار دوزخ کی طرف ہانکا جائے گا۔ اور جب یہ دوزخ کے قریب پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے جو اس سے پہلے کھلے ہوئے نہیں تھے اور ان سے وہاں کے داروغہ اور محافظ کہیں گے کہ اے گروہ کفار کیا تمہارے پاس تم ہی لوگوں میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمہیں تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے اور تمہیں اس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے، کافر کہیں گے بیشک ہمارے پاس رسول آئے لیکن عذاب کا وعدہ ہمارے اعمال کی وجہ سے پورا ہو کر رہا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ { وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا } ” اور ہانک کرلے جائے جائیں گے کافر جہنم کی طرف گروہ در گروہ۔ “ اس طرح کہ ایک امت کے بعد دوسری امت اور پھر تیسری اُمت۔ غرض تمام امتوں کے مجرم لوگ اپنے اپنے لیڈروں کی قیادت میں جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ سورة ہود میں فرعون اور اس کی قوم کے حوالے سے ایک نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : { یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَط وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ ۔ } ” قیامت کے دن وہ آئے گا آگے چلتا ہوا اپنی قوم کے ‘ پھر وہ آگ کے گھاٹ پر انہیں اتار دے گا۔ اور وہ بہت ہی برا گھاٹ ہے جس پر وہ اتارے جائیں گے “۔ تو یوں اہل جہنم کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا۔ { حَتّٰٓی اِذَا جَآئُ وْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا } ” یہاں تک کہ جب وہ پہنچ جائیں گے جہنم پر تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے “ جیسے جیل کے دروازے صرف نئے قیدیوں کے داخلے کے لیے ہی کھولے جاتے ہیں ‘ اسی طرح جہنم کے بند دروازے بھی مجرموں کی آمد پر ہی کھولے جائیں گے۔ { وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَآ } ” اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے “ ان مجرمین کی آمد پر جہنم پر مامور فرشتے ان سے پوچھیں گے : { اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا } ” کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول ( علیہ السلام) نہیں آئے تھے جو تمہیں سناتے تھے تمہارے رب کی آیات اور تمہیں خبردار کرتے تھے تمہاری آج کے دن کی اس ملاقات سے ! “ { قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ } ” وہ کہیں گے کیوں نہیں ! لیکن کافروں پر عذاب کا حکم ثابت ہو کررہا۔ “ یعنی پیغمبروں نے تو دعوت و تبلیغ کا حق ادا کردیا ‘ لیکن یہ لوگ انکار اور کفر پر اڑے رہے اور یوں انہوں نے خود کو عذاب کا مستحق ثابت کر دکھایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81 That is, the gates of Hell will not have already been opened but will be opened on their arrival there just as the gate of a prison is opened on the arrival of the culprits and is closed as soon as they have entered it.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :81 یعنی جہنم کے دروازے پہلے سے کھلے نہ ہوں گے بلکہ ان کے پہنچنے پر کھولے جائیں گے ، جس طرح مجرموں کے پہنچنے پر جیل کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور ان کے داخل ہوتے ہی بند کر دیا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧١۔ ٧٣۔ اوپر کی آیتوں میں ذکر تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے اس نئی زمین پر جو اس وقت پیدا ہوگی لوگوں کے حساب و کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا اور زمین اللہ کے نور سے روشن ہوجائے گی اس حساب و کتاب کے بعد جو نتیجہ نکلے گا اس آیت سے آخر سورة تک اب اس کا ذکر ہے کہ جنتی لوگ جنت میں اور دوزخی لوگ دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے جس طرح میدان محشر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے لوگوں کا حساب و کتاب شروع ہوگا اسی طرح ابوہریرہ (رض) کی حدیث صحیح ٥ ؎ مسلم میں ہے کہ جنتی لوگوں کی جنت میں جانے کی شفاعت بھی پہلے آپ ہی شروع کریں گے اور سب سے پہلے جنت کا دروازہ بھی آپ ہی کھلوا دیں گے چناچہ صحیح مسلم ٦ ؎ کی انس (رض) بن مالک کی روایت میں ہے کہ سب سے پہلے میں ہی جنت کے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹاؤں گا انبیا میں آپ کی عزت اور آپ کا رتبہ بڑھانے کے لئے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہوگا کہ نبی آخر الزمان سے پہلے کوئی جنت کا دروازہ کھلوائے تو نہ کھولنا چناچہ معتبر سند سے مسند امام ١ ؎ احمد میں حضرت انس (رض) کی روایت ہے جسکا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب میں جنت کا دروازہ کھلواؤں گا تو خازن پوچھے گا تم کون ہو جب میں اپنا نام لوں گا تو خازن کہے گا مجھ کو یہی اللہ کا حکم تھا کہ تم سے پہلے کوئی جنت کا دروازہ کھلوئے تو نہ کھولوں یہ تو صحیحین ٢ ؎ کی حدیث سے ثابت ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جس دروازے سے روزے دار لوگ داخل ہوں گے اس دروازہ کا نام ریان ہے لیکن جنتوں کی تعداد بعضے مفسروں نے سات ہی بتلائی ہے۔ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ جنت کی نعمتوں کی پوری تفصیل سوا خدا کے کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی پل صراط پر گزرنے کے بعد جنتی لوگ ایک اونچی جگہ پر دوزخ اور جنت کے بیچ میں ٹھہرائے جائیں گے اور دنیا میں جس کسی نے کسی پر زیادتی کی ہوگی اس کا بدلہ لیا جائے گا پھر جنت میں داخل ہونے کا حکم ہوگا کل اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی۔ جس میں اسی صفیں امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوں گی کل درجے ایک سو ہیں اور ایک درجہ سے دوسرے درجہ تک سو برس کے رستہ کا فاصلہ ہے۔ فردوس اعلیٰ درجہ کی جنت ہے۔ اس کے اوپر عرش معلیٰ ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٣ ؎ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے فردوس کی خواہش کرنی چاہئے ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٤ ؎ جنت کے نیچے کے درجے والے لوگوں کو اوپر والے لوگ اس طرح نظر آئیں گے جس طرح دور سے تارا نظر آتا ہے صحابہ نے پوچھا کیا حضرت اوپر کے درجے میں انبیا رہیں گے۔ آپ نے فرمایا انبیا اور فرمانبردار لوگ بھی اسی اوپر کے درجہ میں رہیں گے۔ معتبر سند سے ترمذی ٥ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قبروں سے اٹھتے ہی جنتی لوگوں کو سواریاں مل جائیں گی جن پر وہ سوار ہو کر میدان محشر کو جائیں گے۔ ان آیتوں میں اہل جنت اور اہل دوزخ دونوں کے ساتھ ہانکنے کا جو لفظ ہے اس کا مطلب اس حدیث کے موافق یہ ہے کہ اہل دوزخ تو خود ہانکے جائیں گے اور اہل جنت کی سواریوں کے جانوروں کو ہانکا جائے گا۔ اہل دوزخ کے ذکر میں بغیر واؤ کے فتحت ابوابھا اور اہل جنت کے ذکر میں واؤ بڑھا کر وفتحت ابوابھا جو فرمایا اس کی تفسیر میں بعضے مفسروں کا قول ہے کہ اس حالیہ واؤ کے بڑھ جانے سے یہ مطلب قرار پایا کہ جنتی لوگ جنت کے دروازوں پر اس حالت میں پہنچیں گے کہ جنت کے دروازے ان کے پہنچنے سے پہلے ہی کھلے ہوئے ہوں گے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث جو اپور گزری کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے جنت کے دروازے کھلوائیں گے اس صحیح حدیث سے اوپر کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے۔ اس لئے یہی تفسیر قوی ہے جب دوزخی دوزخ میں جائیں گے تو ان کو قائل کرنے کے لئے فرشتے یہ کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کے احکام لے کر رسول نہیں آئے اور اس دن کی آفت سے انہوں نے تم کو نہیں ڈرایا دوزخی لوگ جواب دیں گے کہ ہاں رسول تو اللہ کے احکام لے کر آئے اور انہوں نے اس دن کی آفت سے ہم کو ڈرایا لیکن ہم نے ان کا کہنا نہیں مانا اور شیطان کا کہنا ہر بات میں مانتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کو یہ پہلے ہی جتلا دیا تھا کہ جو اس کا کہنا مانے گا وہ جہنم میں جھونکا جائے گا اسی ارشاد کے موافق آج ہم اس آفت میں پکڑے گئے اللہ کے فرشتے دوزخیوں کی یہ بات سن کر کہیں گے کہ دنیا کے عیش و آرام کے غرور میں جب تم لوگوں نے اللہ کے رسولوں کا کہنا نہیں مانا تو جاؤ اب ہمیشہ دوزخ میں پڑے جلتے رہو اہل جنت جب جنت کے دروازے پر جائیں گے تو اللہ کے فرشتے ان سے سلام علیک کریں گے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم پر ہر طرح کی برائی سے سلامتی بخشے پھر کہیں گے تم لوگ دنیا میں نیک راہ پر تھے اس لئے اب جاؤ اور جنت میں ہمیشہ رہو۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جب اہل جنت جنت میں اور اہل دوزخ دوزخ میں جا چکیں گے تو جنت اور دوزخ کے درمیان میں موت کو ذبح کیا جا کر یہ کہہ دیا جائے گا کہ اب جو جہاں ہے ہمیشہ وہیں رہے گا۔ خلدین فیھا اور فادخلوھا خلدین کی گویا تفسیر ہے۔ (٥ ؎ صحیح مسلم باب اثبات الشفاعۃ ص ١١٢ ج ١۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة زمر ص ١٧٩ ج ٢۔ ) (٦ ؎ صحح مسلم باب اثبات الشفاعۃ ص ١١٢ ج ١۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٦٥ ج ٤۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری صفۃ ابواب الجنۃ ص ٤٦١ ج ١۔ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ کتاب الجہاد ص ٣٢٩ و ترمذی ابواب صفۃ الجنۃ ص ٨٩ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب الجنۃ و نعیمھا ص ٣٧٨ ج ٢۔ ) (٥ ؎ جامع ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سورة بنی اسرائیل ص ١٦٤ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص ٩٦٩ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:71) سیق۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب سوق وسیاقۃ ومساق (باب نصر) مصدر ہانکنا۔ ہانک لے جانا۔ یہاں ماضی بمعنی مستقبل ہے وہ ہانک لے جائے جائیں گے۔ زمرا جھتے جھتے، گروہ گروہ۔ جوق در جوق۔ زمرۃ کی جمع ۔ جس کے معنی تھوڑی تھوڑی جماعت کے ہیں۔ نوجہ حال منصوب ہے۔ جاء وھا : الوابھا۔ خزنتھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع جہنم ہے۔ منکم ای من جنسکم۔ تمہاری ہی جنس سے۔ تم میں سے ہی۔ تمہاری نوع میں سے۔ الم یاتکم : استفہام تقریری ہے ۔ یتلون مضارع جمع مذکر غائب تلاوۃ مصدر باب نصر۔ پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ینذرونکم : ینذرون مضارع جمع مذکر غائب انذار افعال مصدر بمعنی ڈرانا کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر تم کو ڈرایا کرتے تھے لقاء یومکم ھذا : یومکم مضاف مضاف الیہ۔ ھذا متعلق یوم مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ لقاء مضاف۔ تمہارے اس دن کی پیشی۔ لقاء حاصل مصدر ہے لقی یلقی (سمع) لقی ولقاء ۃ مصدر سے بمعنی ملنا۔ سامنے آنا۔ پیش ہونا۔ ینذرون کا مفعول ثانی ہے ینذرونکم لقاء یومکم ھذا کو تمہارے اس دن کی پیشی سے ڈرایا کرتے تھے۔ یومکم ھذا۔ سے مراد یوم قیامت ہے یا کافروں کے جہنم میں داخل ہونے کا وقت۔ بلی۔ ہاں ۔ بیشک استفہام تقریری کے جواب میں۔ ای قالوا بلی قد اتانا رسل منا تلوا علینا ایت ربنا وانذرونا لقاء یومنا ھذا۔ وہ کہیں گے ہاں بیشک ہم میں سے ہی (خدا کی طرف سے) رسول ہماری طرف آئے تھے ہمارے رب کی آیات کو انہوں نے پڑھ پڑھ کر سنایا اور ہمیں اس دن کی پیشی سے ڈرایا۔ حقت ماضی واحد مؤنث غائب ضمیر فاعل واحد مؤنث کا مرجع کلمۃ ہے۔ ٹھیک پڑی۔ ثابت ہوئی۔ کلمۃ العذاب مضاف مضاف الیہ۔ عذاب کا حکم۔ کافروں کے لئے عذاب کا حکم جو علم ازلی میں ان کے اعمال پر مرتب ہوکر لوح محفوظ میں درج ہے یا اس کا اشارہ قول الٰہی کی طرف ہے۔ لاملئن جنھم منک وممن تبعک منہم اجمعین ۔ (38:85) کہ میں تجھ سے اور ان میں سے جو تیرا ساتھ دیں ان سب سے دوزخ کو ضرور بھر دوں گا۔ ولکن حقت کلمۃ العذاب علی الکفرین۔ لیکن عذاب کا حکم (آخر) کافروں پر سچا ثابت ہوکر ہی رہا۔ یا کافروں کے خلاف عذاب کا حکم (آخر) پورا ہو کر ہی رہا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اس فیصلہ کے بعد جب کافروں کا جرم ثابت کردیا جائے گا تو وہ ٹولیاں بنا کر دوزخ کی طرف ہانک دیئے جائیں گے۔11 یعنی ہاں آئے تھے اور انہوں نے ڈرایا بھی تھا۔12 یعنی ہمیں ایسے اعمال کرتے رہے کہ اللہ کا وہ کلمہ جو اس نے دوزخ کو کافر، جنوں اور انسانوں سے بھرنے کے متعلق فرمایا تھا ہمارے حق میں سچا ثابت ہوا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 8 ۔ آیات 71 تا 75: اسرار و معارف : تب فیصلہ ہونے کے بعد کفار کے گروہ یعنی ہر جرم کے لوگ ایک ایک گروہ بن کر دوزخ کی طرف ہنکائے جائیں گے جہاں پہلے سے دروازہ کھولے فرشتے منتظر ہوں گے اور ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے مبعوث نہ ہوئے تھے کہ تمہیں تمہارے پروردگار کا پیغام پہنچاتے اور آج کی اس مشکل گھڑی سے بروقت خبردار کرتے۔ کہیں گے آئے تھے مگر ہم نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا لہذا ہمارے کفر کے سبب ہم پر یہ عذاب آیا اور عذاب کا حکم کافروں پہ نافذ ہوجائے گا۔ اور انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا کہ چلو اب دوزخ میں جہاں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے داخل ہوجاؤ کہ تکبر کرنے والوں کا کس قدر برا اور تکلیف دہ ٹھکانا ہے۔ تب اہل جنت کو بھی گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا جیسے شہداء کی جماعت ، صالحین کی جماعت ، حفاظ کا گروہ ، مبلغین کا گروہ اور جنت کے فرشتے بھی دروازے کھولے ان کی راہ دیکھتے ہوں گے اور انہیں خوش آمدید کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر کیسے پیارے لوگ ہو تم اب جنت میں داخل ہوجاؤ جہاں ہمیشہ ہمیشہ موج کروگے اور وہ اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ الحمدللہ اللہ نے ہمارے ساتھ جو وعدہ فرمایا تھا پورا کردیا اور ہمیں جنت کا مالک بنا دیا کہ جہاں چاہیں پھریں اور جس ہستی سے چاہیں ملاقات کریں نیک عمل کرنے والوں کو کس قدر بہترین اجر نصیب ہوا۔ اور اللہ کے فرشتے اللہ کے عرش کو گھیرے ہوئے ہوں گے اور تسبیحات کر رہے ہوں گے اس کی عظمت کے گیت گاتے ہوں گے اور اعلان ہوگا کہ سب تعریفیں اللہ ہی کو سزوار جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے اور جس نے سب کے درمیان جھگڑا چکا دیا اور سب کا فیصلہ کردیا جائے گا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 71 تا 75 : وسیق (اس نے کھینچا ، گھسیٹا) زمر (جماعت ، گروہ) خزنۃ (نگران ، دیکھ بھال کرنے والا) حقت (ثابت ہوگئی) طبتم (تمہیں مبارک ہو) اور ثنا (ہمیں مالک بنا دیا) نعم ( بہترین) حافین (گھیرنے والے) حول العرش (عرش کے اردگرد) تشریح : آیت نمبر 71 تا 75 : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے میدان حشر کا نقشہ کھینچ کر بتا دیا تھا کہ یہ وہ انصاف کا دن ہوگا جس میں ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ کفار و مشرکین کو اس دن ذلت و رسوائی اور اہل ایمان کو عزت و عظمت نصیب ہوگی چناچہ مشرکین ، کفار اور منافقین کو نہایت ذلت کے ساتھ گھسیٹ کر جہنم کے دروازوں تک پہنچا دیا جائے گا اور اہل ایمان کو نہایت عزت و احترام سے ہمیشہ کے لئے رہنے والی جنتوں تک پہنچایا جائے گا ۔ قیامت کے دن کفار و مشرکین اور منافقین کو جانوروں کی طرح گھسیٹ کر لایا جائے گا ۔ وہ اس دن بھوکے ، پیاسے ، بہرے، گونگے اور فرشتوں کی جھڑکیاں کھاتے ہوئے منہ کے بل گھسیٹ کر لائے جائیں گے۔ داروغہ جہنم ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پاس اللہ کے پیغمبر نہیں آئے تھے ؟ کیا تمہیں اللہ کی آیات پڑھ کر نہیں سنائی گئی تھیں جن میں اس دن کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا تھا ؟ وہ نہایت شرمندگی کے ساتھ اس بات کا اقرار کریں گے کہ ہاں ہاں وہ پیغمبر آئے تھے مگر یہ ہماری بد قسمتی تھی کہ ہم نے ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔ اس اعتراف و اقرار کر کے بعد ان پر کفر و انکار کف فرد جرم عائد کردی جائے گی ۔ ان کو جہنم کے اس جیل خانہ میں داخل کرنے کے لئے دروازے کھلوا دیئے جائیں گے جن میں ان سے کہا جائے گا کہ اب تم اس جہنم میں ہمیشہ کے لئے داخل ہو جائو ۔ اللہ کے مقابلے میں تکبر اور بڑائی اختیار کرنے والوں کا یہ بد ترین ٹھکانہ ہے۔ دوسری طرف وہ صاحبان ایمان وتقویٰ ہوں گے جنہوں نے اللہ کی فرماں برداری میں زندگی گزاری ہوگی ، جنہوں نے اللہ کے خوف اور اس کی رضا کے لئے ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کی ہوگی ان کو نہایت خوبصورت اور بہترین سواریوں پر بٹھا کر نہایت عزت و احترام کے ساتھ جنت کی طرف لایا جائے گا ۔ اس وقت جنت میں داخل ہونے والوں کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے دمکتے ہوں گے۔ ان کے لئے جنت کے دروازے پہلے سے ہی کھول دیئے ہوں گے اور وہ حسب مراتب جنت کے ان دروازوں سے داخل ہوں گے۔ جنت کے آٹھ دروازے ہوں گے جن میں فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور اہل جنت کی آمد پر ان کو مبارک باد دیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میری امت میں جس جماعت کا داخلہ سب سے پہلے ہوگا وہ ستر ہزار افراد ہوں گے۔ جنت کا ہر دروازہ اہل جنت کی آوازیں دے گا ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جس کو ہر دروازہ اپنی طرف آنے کے لئے پکارے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ایک ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبریل میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر مجھے وہ دروازہ دکھایا گیا جس سے میری امت کے ( خاص خاص لوگ) داخل ہوں گے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاش میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا ( تا کہ اس دروازے کو دیکھ لیتا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابوبکر (رض) تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میری امت میں سب سے پہلا شخص جو جنت میں داخل ہوگا وہ تم ہو گے۔ جب داروغہ جنت اہل جنت کو مبارک باد دے کر یہ کہیں گے کہ اب تم اس جنت میں داخل ہو جائو جس میں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے اس وقت یہ اہل جنت اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کہیں گے کہ الحمد للہ ہم سے اللہ نے جو وعدہ کیا تھا وہ سچ کر دکھایا اور ہمیں ان جنتوں کا مالک بنا دیا کہ ان میں ہم جس طرح چاہیں گے رہیں گے اور نیک کام کرنے والوں کا یہی بہتر انجام اور اجر ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس وقت آپ دیکھیں گے کہ عرش کے چاروں طرف فرشتے حلقہ بنائے اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد وثناء کر رہے ہوں گے۔ تمام لوگوں میں فیصلہ کردیا جائے گا اور ہر ایک کی زبان پر یہی ایک ترانہ ہوگا ۔ الحمد رب العالمین۔ جنت کیا ہے ؟ اس کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا اور نہ اس کا تصور کسی دل پر گزرا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جنت اتنی خوبصورت اور حسین و جمیل ہوگی کہ دنیا میں اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ تا ہم قرآن کریم کی آیات اور احادیث میں جنت کی خوبصورتی کے لئے جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٭جب اہل جنت اپنی اپنی جنتوں میں داخل ہوں گے تو وہ جنت میں خوبصورت بلند وبالا عمارتیں دیکھیں گے جن کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں کی ہوں گی جو مشک اور زعفران کے گارے سے چنی گئی ہوں گی۔ ٭اس کی روشیں اور راستے زمرد ، یاقوت اور بلور کی ہوں گی۔ ٭ان جنتوں میں ایسی صاف شفاف نہریں بہہ رہی ہوں گی جن کے کنارے جواہرات سے مزین ہوں گے کوئی نہر شہد کی ہوگی کوئی دودھ اور خوش ذائقہ شراب کی۔ ٭جنت کے فرش نہایت خوبصورت اور حسین و جمیل ہوں گے۔ ٭ایسی حوریں ہوں گی جو ان کی ہم عمر اور خوبصورت ہوں گی ، ان کے لباس ایسے نازک اور باریک تاروں سے بنے ہوئے ہوں گے کہ ستر تہوں میں بھی بدن جھلکتے ہوں گے۔ ٭نہ وہاں سردی ہوگی نہ گرمی ، نہ سورج کی تیز و تند شعاعیں ہوں گی نہ تاریکی بلکہ ایسا وقت لگے گا جیسے صبح کو سورج نکلنے سے پہلے کا سہانا وقت ہوتا ہے۔ ٭وہاں نہ کوئی بیمار ہوگا ، نہ گندگی ہوگی نہ محنت اور نہ مشقت ٭سیر و تفریح کے لئے ایسی تیز رفتار سواریاں ہوں گی ، ایسے تخت ہوں گی جو ہواؤں پر اتنی تیزی سے اڑیں گے کہ ایک مہینے کا سفر ایک گھنٹے میں طے کریں گے۔ ٭جنتی جس چیز کی خواہش کریں گے تو وہ ان کو اسی وقت مل جائے گی اگر ان کو کسی درخت کا پھل پسند آئے گا تو اس کی شاخیں خود بخود اس کی طرف جھک جائیں گی اور وہ بغیر کسی محنت مشقت کے اس کا پھل توڑ سکے گا ۔ ٭بہترین اور خوبصورت تکیئے لگائے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوں گے۔ ٭اہل جنت کے لئے مشک و عنبر کے ٹیلے ہوں گے۔ ٭جب ہوا چلے گی تو درخت طوبیٰ کے ہر پتے سے بہترین نغمے سنائی دیں گے جس سے سننے والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجائے گی۔ جنت کی حوریں بھی اپنی خوش الحانی سے اپنے شوہروں کا دل لبھائیں گی۔ ٭وہاں سب سے بڑی نعمت دیدار الٰہی ہوگا ۔ دیدار الٰہی کے وقت بعض خوش الحان بندوں حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اور حضرت دائود (علیہ السلام) سے کہا جائے گا کہ وہ اللہ کی پاک بیان کریں ۔ اس وقت ایسا عجیب سماں ہوگا کہ سننے والوں پر وجد طاری ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی جنت کی یہ نعمتیں عطاء فرمائیں۔ آمین۔ ان آیات کے ساتھ ہی الحمد للہ سورة زمر کی آیات کا ترجمہ ، اس کی تشریح مکمل ہوئی۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ گروہ گروہ اس لئے کہ اقسام و مراتب کفر کے جدا جدا ہیں، پس ایک ایک طرح کے کفار کا ایک ایک گروہ ہوگا۔ 5۔ یہ اعتذار نہیں اعتراف ہے کہ باوجود ابلاغ کے ہم نے کفر کیا، اور کافروں کے لئے جو عذاب موعود تھا وہ ہمارے سامنے آیا، واقعی ہماری نالائقی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عدالت کبریٰ کے فیصلے بعد کفار کو جہنم کی طرف ہانکا جانا۔ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا تو رب ذوالجلال کی طرف سے حکم ہوگا۔ کہ جہنمیوں کو ان کے جرائم کے مطابق گروہ بندی کرکے جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ جہنمی جہنم کے پاس پہنچیں گے تو جہنم کے دروغے جہنم کے دروازے کھولتے ہوئے جہنمیوں کو طعنہ اور جھڑکتے ہوئے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے تمہارے رب کے ارشادات پڑھتے اور تمہیں آج کے دن سے ڈراتے۔ جہنمی زارو قطارورتے ہوئے اقرار کریں گے۔ کیوں نہیں ! ہمارے پاس ہمارے رب کے رسول آئے۔ اور انہوں نے ہمیں باربار اخلاص کے ساتھ سمجھایا لیکن ہم باز نہ آئے جس وجہ سے عذاب کا حکم ہم پر برحق ثابت ہوا اور ہم اس کے سزا وار ٹھہرے۔ اس کے بعد ملائکہ انہیں جہنم کے دروازوں میں دھکیلتے ہوئے کہیں گے تم نے فخر و غرور کی وجہ سے اپنے رب کے ارشادات کا انکار کیا لہٰذا تکبر کرنے والوں کے لیے جہنم ہے جو بدترین ٹھکانہ ہے اور تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ یاد رہے کہ رب کی عبادت کے پیچھے شکر گزاری کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور اس کی نافرمانی کے پیچھے شعوری یا بےپرواہی اور تکبر ہوا کرتا ہے۔ (لَھَا سَبْعَۃُ اَبْوَابِ لِکُلِّ بَابٍ مِنْھُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ) [ الحجر : ٤٤] ” اس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کا ایک گروہ مقرر ہے۔ “ مسائل ١۔ کفارکو گروہوں کی صورت میں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔ ٢۔ کفار کو دیکھتے ہی جہنّم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور ملائکہ ان سے سوال کریں گے۔ ٣۔ جہنّمی اقرار کریں گے کہ ہمارے پاس اللہ کے رسول آئے تھے اور انہوں نے اس کا پیغام پہنچایا تھا۔ ٤۔ جہنّمیوں کے اقرار کے بعد ملائکہ انہیں جہنّم میں دھکیل دیں گے۔ ٥۔ جہنّم رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن منکرین کا انجام : ١۔ زمین میں چل، پھر کردیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النحل : ٣٦) ٢۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٣۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٤۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ : ٩٢) ٥۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٦۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن : ٧٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 71 یہاں فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور کہیں گے ہاں تم اس جہنم کے مستحق ہو اور یہ ہیں اس کے اسباب ۔ کافروں کے خلاف اللہ کا فیصلہ برحق صادر ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اس لیے کافر یہاں کسی مخاصمت کے اسے تسلیم کرتے ہیں ، اقرار کرتے ہیں کہ ہم مجرم تھے اور سرتسلیم خم کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل کفر اور اہل ایمان کی جماعتوں کا گروہ گروہ اپنے ٹھکانوں تک پہنچنا اس رکوع میں اہل کفر اور اہل ایمان کا انجام بیان فرمایا ہے۔ اول کافروں کا حال بیان فرمایا کہ کافروں کو گروہ گروہ بنا کر دوزخ کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا سورة الطور میں فرمایا (یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا) (جس روز انہیں دوزخ کی آگ کی طرف دھکے دے کر لایا جائے گا) جب دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا تو ان کے مختلف گروہ ہوں گے کیونکہ کفر کی بہت سی اقسام ہیں اور کفر کے مراتب بھی جدا جدا ہیں اس لیے ایک ایک طرح کے کافروں کا ایک ایک گروہ ہوگا۔ (قال صاحب الروح ای سیقوا الیھا بالعنف والا ھانۃ افواجا متفرقۃ بعضھا اثر بعض مترتبۃ بحسب ترتب طبقاتھم فی الضلالۃ والشرارۃ) ” صاحب تفسیر روح المعانی فرماتے ہیں : یعنی جہنم کی طرف سختی اور ذلت کے ساتھ ہانکے جائیں گے مختلف گروہوں کی شکل میں گمراہی و شرارت میں اپنے اپنے درجہ کے مطابق ترتیب سے “ اسی طرح چلائے جاتے رہیں گے یہاں تک کہ جب دوزخ کے قریب پہنچ جائیں گے تو اس میں داخل کرنے کے لیے اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اس سے پہلے دوزخ کے دروازے بند ہوں گے جیسے کہ دنیا میں بھی جیل خانوں کے دروازے بند رہتے ہیں جب کوئی قیدی لایا جاتا ہے تو کھول دئیے جاتے ہیں دوزخ کے جو ذمہ دار فرشتے ہوں گے وہ ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم ہی میں سے تھے (جن سے علم حاصل کرنا اور عمل سیکھنا اور ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا تمہارے لیے آسان تھا) وہ تم پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے تھے اور آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے اس کے جواب میں وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ کے رسول آئے تھے انہوں نے ہمیں پروردگار جل مجدہٗ کی آیات بھی سنائیں اور آج کے دن کی ملاقات سے بھی ڈرایا لیکن عذاب کا کلمہ کافروں کے حق میں ثابت ہوگیا اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرمایا تھا کہ کافر دوزخ میں جائیں گے اس کے مطابق ہمیں یہاں آنا پڑا نہ کافر ہوتے نہ یہاں آتے، ان سے کہا جائے گا کہ تم دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ تم اس میں ہمیشہ رہو گے اس میں داخل ہونے کے بعد تمہیں یہاں سے نکلنا نہ ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ ” و سیق الخ “ یہ بھی تخویف اخروی ہے قیامت کے دن فصل قضاء کے بعد کفار و مشرکین کو ٹولیوں کی صورت میں جہنم کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا۔ جب وہ جہنم کے دروازوں پر پہنچیں گے تو ان کے لیے جہنم کے دروازے کھول دئیے جائٰں گے اس وقت جہنم پر مقرر فرشتے ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس تم ہی میں اسے اللہ کا پیغام پہنچانے والے نہیں آئے تھے۔ جو تمہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے اور تمہیں آج کے دن اللہ کی بارگاہ میں پیشی سے ڈراتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے کیوں نہیں ؟ آئے تو تھے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم کافروں پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ نافذ ہوگیا۔ کیونکہ کہ ہم نے محض ضد وعناد سے حق کا انکار کیا۔ ” قیل ادخلوا الخ “ اس وقت ان سے کہا جائے گا اچھا اب جہنم میں داخل ہوجاؤ جو تمہارا ہمیشہ کے لیے ٹھکانا ہے۔ جہنم منکرین کے لیے نہایت برا ٹھکانا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) اور وہ لوگ جو کفرکا شیوہ اختیار کئے رہے نہایت ذلت کے ساتھ جہنم کی طرف گروہ گروہ بنا کر ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس جہنم کے پاس پہنچیں گے تو جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور دوزخ کی حفاظت کرنے والے فرشتے ان سے دریافت کریں گے کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے اور تم کو تمہارے اس دن کے پیش آنے سے اور تمہارے اس دن کی ملاقات سے تم کو ڈرایا کرتے تھے۔ وہ منکر کہیں گے ہاں آئے تھے لیکن عذاب کا کلمہ اور عذاب کا وعدہ منکروں پر ثابت ہوکر رہا۔ یعنی جن کے خلاف فیصلہ ہوگا ان کو ہنکا کر جہنم کی طرف لیجایا جائے گا جب وہ جہنم پر پہنچیں گے تو ان سے فرشتے یہ باتیں دریافت کریں گے اور وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ کلمۃ العذاب سے شاید مراد لا ملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین۔