Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 101

سورة النساء

وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ اِنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ کَانُوۡا لَکُمۡ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا ﴿۱۰۱﴾

And when you travel throughout the land, there is no blame upon you for shortening the prayer, [especially] if you fear that those who disbelieve may disrupt [or attack] you. Indeed, the disbelievers are ever to you a clear enemy.

جب تم سفر پر جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے ، یقیناً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Salat Al-Qasr, Shortening the Prayer Allah said, وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الاَرْضِ ... And when you Darabtum in the land, meaning if you travel in the land. In another Ayah, Allah said, أَن سَيَكُونُ مِنكُمْ مَّرْضَى وَءَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِى الاٌّرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَءَاخَرُونَ He knows that there will be some among you sick, others Yadribuna (traveling) through the land, seeking of Allah's bounty...). (73:20) Allah's statement, ... فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلَةِ ... there is no sin on you if you shorten the Salah (prayer), by reducing (the units of the prayer) from four to two. Allah's statement, ... إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... if you fear that the disbelievers may put you in trial (attack you), refers to the typical type of fear prevalent when this Ayah was revealed. In the beginning of Islam, and after the Hijrah, Muslims used to experience fear during most of their travels. Rather, they restricted their movements to large or short military expeditions. During that era, most areas were areas of combatant enemies of Islam and its people. But when the prevalent circumstances cease, or a new situation is prevalent, decrees of this nature may not be understood, as Allah said; وَلاَ تُكْرِهُواْ فَتَيَـتِكُمْ عَلَى الْبِغَأءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّناً And force not your slave girls to prostitution, if they desire chastity. (24:33) And His saying; وَرَبَايِبُكُمُ اللَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَأيِكُمُ (And your stepdaughters, under your guardianship, born of your wives whom you have gone into) (24:23) Imam Ahmad recorded that Ya`la bin Umayyah said, "I asked `Umar bin Al-Khattab about the verse: فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ (there is no sin on you if you shorten the prayer. If you fear that the disbelievers may put you in trial), `Allah granted Muslims safety now.' Umar said to me, `I wondered about the same thing and asked the Messenger of Allah about it and he said, صَدَقَــةٌ تَصَدَّقَ اللهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَه A gift that Allah has bestowed on you, so accept His gift." Muslim and the collectors of Sunan recorded this Hadith. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih". Ali bin Al-Madini said, "This Hadith is Hasan Sahih from the narration of Umar, and it is not preserved by any other route besides this one, and its narrators are all known." Abu Bakr Ibn Abi Shaybah recorded that Abu Hanzalah Al-Hadha' said, "I asked Ibn Umar about the Qasr prayer and he said, `It consists of two Rak`ahs.' I said, what about Allah's statement, إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ (if you fear that the disbelievers may put you in trial (attack you), `We are safe now.' He said, `This is the Sunnah of the Messenger of Allah."' Al-Bukhari recorded that Anas said, "We went out with the Messenger of Allah from Al-Madinah to Makkah; he used to pray two Rak`ahs until we went back to Al-Madinah." When he was asked how long they remained in Makkah, he said, "We remained in Makkah for ten days." This was recorded by the Group. Imam Ahmad recorded that Harithah bin Wahb Al-Khuza`i said, "I prayed behind the Prophet for the Zuhr and `Asr prayers in Mina, when the people were numerous and very safe, and he prayed two Rak`ahs." This was recorded by the Group, with the exception of Ibn Majah. Al-Bukhari's narration of this Hadith reads, "The Prophet led us in the prayer at Mina during the peace period by offering two Rak`ahs." Allah's statement, ... إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُواْ لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا verily, the disbelievers are ever unto you open enemies.

صلوۃ نصر؟ فرمان الٰہی ہے کہ تم کہیں سفر میں جا رہے ہو ۔ یہی الفاظ سفر کے لئے سورہ مزمل میں بھی آئے ہیں ۔ تو تم پر نماز کی تخفیف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، یہ کمی یا تو کمیت میں یعنی بجائے چار رکعت کے دو رکعت ہے جیسے کہ جمہور نے اس آیت سے سمجھا ہے گو پھر ان میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط ہے کہ سفر اطاعت کا ہو مثلاً جہاد کے لئے یا حج و عمرے کے لئے یا طلب و زیارت کے لئے وغیرہ ۔ ابن عمر عطاء یحییٰ اور ایک روایت کی رو سے امام مالک کا یہی قول ہے ، کیونکہ اس سے آگے فرمان ہے اگر تمہیں کفار کی ایذار سانی کا خوف ہو ، بعض کہتے ہیں اس قید کی کوئی ضرورت نہیں کہ سفر قربت الہیہ کا ہو بلکہ نماز کی کمی ہر مباح سفر کے لئے ہے جیسے اضطرار اور بےبسی کی صورت میں مردار کھانے کی اجازت ہے ، ہاں یہ شرط ہے کہ سفر معصیت کا نہ ہو ، امام شافعی وغیرہ ائمہ کا یہی قول ہے ، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں تجارت کے سلسلے میں دریائی سفر کرتا ہوں تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا ، یہ حدیث مرسل ہے ، بعض لوگوں کا مذہب ہے کہ ہر سفر میں نماز کو قصر کرنا جائز ہے سفر خواہ مباح ہو خواہ ممنوع ہو یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکہ ڈالنے کے لئے اور مسافروں کو ستانے کے لئے نکلا ہوا ہے اسے بھی نماز قصر کرنے کی اجازت ہے ، ابو حنیفہ ثوری اور داؤد کا یہی قول ہے کہ آیت عام ہے ، لیکن یہ قول جمہور کے قول کے خلاف ہے ۔ کفار سے ڈر کی جو شرط لگائی ہے یہ باعتبار اکثریت کے ہے آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ عموماً یہی حال تھا اس لئے آیت میں بھی اسے بیان کر دیا گیا ، ہجرت کے بعد سفر مسلمانوں کے سب کے سب خوف والے ہی ہوتے تھے قدم قدم پر دشمن کا خطرہ رہتا تھا بلکہ مسلمان سفر کے لئے نکل ہی نہ سکتے تھے بجز اس کے کہ یا تو جہاد کو جائیں یا کسی خاص لشکر کے ساتھ جائیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جب منطوق بہ اعتبار غالب کے آئے تو اس کا مفہوم معتبر نہیں ہوتا ۔ جیسے اور آیت میں ہے اپنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کرنا چاہیں اور جیسے فرمایا ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں جن عورتوں سے تم نے محبت کی ہے ۔ پس جیسے کہ ان دونوں آیتوں میں قید کا بیان ہے لیکن اس کے ہونے پر ہی حکم کا دارومدار نہیں بلکہ بغیر اس کے بھی حکم وہی ہے یعنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور کرنا حرام ہے چاہے وہ پاکدامنی میں ہو یا نہ ہو ، حالانکہ دونوں جگہ قرآن میں یہ قید موجود ہے ، پس جس طرح ان دونوں موقعوں میں بغیر ان قیود کے بھی حکم یہی ہے اسی طرح یہاں بھی گوخوف نہ ہو تو بھی محض سفر کی وجہ سے نماز کو قصر کرنا جائز ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ نے حضرت عمر فاروق سے پوچھا کہ نماز کی تخفیف کا حکم تو خوف کی حالت میں ہے اور اب تو امن ہے؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ یہی خیال مجھے ہوا تھا اور یہی سوال میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۔ مسلم اور سنن وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے بالکل صحیح روایت ہے ۔ ابو حنظلہ حذاء نے حضرت عمر سے سفر کی نماز کا پوچھا تو آپ نے فرمایا دو رکعت ہیں انہوں نے کہا قرآن میں تو خوف کے وقت دو رکعت ہیں اور اس وقت تو پوری طرح امن و امان ہے تو آپ نے فرمایا یہی سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( ابن ابی شیبہ ) ایک اور شخص کے سوال پر حضرت عمر نے فرمایا تھا آسمان سے تو یہ رخصت اتر چکی ہے اب اگر تم چاہو تو اسے لوٹا دو ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مکہ اور مدینہ کے درمیان ہم نے باوجود امن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعت پڑھیں ( نسائی وغیرہ ) اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکے کی طرف چلے تو اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ تھا اور آپ برابر دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے ۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ واپسی میں بھی یہی دو رکعت آپ پڑھتے رہے اور مکے میں اس سفر میں آپ نے دس روز قیام کیا تھا ۔ مسند احمد میں حضرت حارثہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی میں ظہر کی اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھی ہیں حالانکہ اس وقت ہم بکثرت تھے اور نہایت ہی پر امن تھے ، صحیح بخاری میں ہے حضرت عبداللہ کے ساتھ ( سفر میں ) دو رکعت پڑھی ہیں ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چار رکعات کا ذکر آیا تو آپ نے اناللہ الخ ، پڑھ کر فرمایا میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی منی میں دو رکعت پڑھی ہیں اور صدیق اکبر کے ساتھ بھی اور عمر فاروق کے ساتھ بھی کاش کہ بجائے ان چار رکعات کے میرے حصے میں دو ہی مقبول رکعات آئیں ، پس یہ حدیثیں کھلم کھلا دلیل ہیں اس بات کی کہ سفر کی دو رکعات کے لئے خوف کا ہونا شرط نہیں بلکہ نہایت امن و اطمینان کے سفر میں بھی دو گانہ ادا کر سکتا ہے ، اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں کیفیت میں یعنی قرآت قومہ رکوع سجود وغیرہ میں قصر اور کمی مراد ہے نہ کہ کمیت میں یعنی تعداد رکعات میں تخفیف کرنا ، ضحاک ، مجاہد اور سدی کا یہی قول ہے جیسے کہ آرہا ہے ، اس کی ایک دلیل امام مالک کی روایت کردہ یہ حدیث بھی ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں نماز دو دو رکعتیں ہی سفر حضر میں فرض کی گئی تھی پھر سفر میں تو وہی دو رکعتیں رہیں اور اقامت کی حالت میں دو اور بڑھا دی گئیں ، پس علماء کی یہ جماعت کہتی ہے کہ اصل نماز دو رکعتیں تھی تو پھر اس آیت میں قصر سے مراد کمیت یعنی رکعتوں کی تعداد میں کمی کیسے ہو سکتی ہے؟ اس قول کی بہت بڑی تائید صراحتاً اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں حضرت عمر کی روایت سے ہے کہ بہ زبان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی دو رکعتیں ہیں اور ضحی کی نماز بھی دو رکعت ہے اور عیدالفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے یہ یہی پوری نماز ہے قصر والی نہیں ، یہ حدیث نسانی ، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے اس کی سند بشرط مسلم ہے ۔ اس کے راوی ابن ابی لیلیٰ کا حضرت عمر سے سننا ثابت ہے جیسے کہ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے اور خود اس روایت اور اس کے علاوہ بھی صراحتاً موجود ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے انشاء اللہ ۔ گو بعض محدثین سننے پر فیصلہ دینے کے قائل نہیں ، لیکن اسے مانتے ہوئے بھی اس سند میں کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ بعض طرق میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک ثقہ سے اور ان کا حضرت عمر سے سننا مروی ہے ، اور ابن ماجہ میں ان کا کعب بن عجرہ سے روایت کرنا اور ان کا حضرت عمر سے روایت کرنا بھی مروی ہے فاللہ اعلم ۔ مسلم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نماز کو اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہے اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت ۔ پس جیسے کہ قیام میں اس سے پہلے اور اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے یا پڑھی جاتی تھی اسی طرح سفر میں بھی اور اس روایت میں اور حضرت عائشہ والی روایت میں جو اوپر گذری کہ حضر میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعتیں ہی فرض کی تھیں گویا مسافات سے مشروط ہیں اس لئے کہ اصل دو ہی تھیں بعد میں دو اور بڑھا دی گئیں پھر حضر کی چار رکعت ہوگئیں تو اب کہہ سکتے ہیں کہ اقامت کی حالت میں فرض چار رکعتیں ہیں ۔ جیسے کہ ابن عباس کی اس روایت میں ہے واللہ اعلم ۔ الغرض یہ دونوں روایتیں اسے ثابت کرتی ہیں کہ سفر میں دو رکعت نماز ہی پوری نماز ہے کم نہیں اور یہی حضرت عمر کی روایت سے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ مراد اس میں قصر کمیت ہے جیسے کہ صلوۃ خوف میں ہے اسی لئے فرمایا ہے اگر تم ڈرو اس بات سے کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے اور اس کے بعد فرمایا جب وقت ان میں ہو اور نماز پڑھو تو بھی ۔ پھر قصر کا مقصود صفت اور کیفیت بھی بیان فرما دی امام المحدثین حضرت بخاری نے کتاب صلوۃ خوف کو اسی ( وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا ) 4 ۔ النسآء:101 ) تک لکھ کر شروع کیا ہے ، ضحاک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ لڑائی کے وقت ہے انسان اپنی سواری پر نماز دو تکبیریں پڑھ لے اس کا منہ جس طرف بھی ہو اسی طرف صحیح ہے ۔ سدی فرماتے ہیں کہ سفر میں جب تو نے دو رکعت پڑھیں تو وہ قصر کی پوری مقدار ہے ہاں جب کافروں کی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو ایک ہی رکعت قصر ہے البتہ یہ کسی سنین خوف کے بغیر جائز نہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ دن ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کے ساتھ حسب معمول چار رکعتیں پوری ادا کیں پھر مشرکین نے سامان و اسباب کو لوٹ لینے کر ارادہ کیا ، ابن جریر اسے مجاہد اور سدی اور جابر اور ابن عمر سے روایت کرتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اسی کو کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ۔ حضرت خالد بن اسید حضرت عبداللہ بن عمر سے کہتے ہیں صلوۃ خوف کے قصر کا حکم تو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں لیکن صلوۃ مسافر کے قصر کا حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو حضرت ابن عمر جواب دیتے ہیں ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نماز کو قصر کرتے ہوئے پایا اور ہم نے بھی اس پر عمل کیا ۔ خیال فرمائیے کہ اس میں قصر کا اطلاق صلوۃ خوف پر کیا اور آیت سے مراد بھی صلوۃ خوف لی اور صلوۃ مسافر کو اس میں شامل نہیں کیا اور حضرت ابن عمر نے بھی اس کا اقرار کیا ۔ اس آیت سے مسافرت کی نماز کا قصر بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سند بتایا ۔ اس سے زیادہ صراحت والی روایت ابن جریر کی ہے کہ حضرت سماک آپ سے صلوۃ پوچھتے ہیں آپ فرماتے ہیں سفر کی نماز دو رکعت ہے اور یہی دو رکعت سفر کی پوری نماز ہے قصر نہیں ، قصر تو صلوۃ خوف میں ہے کہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھاتا ہے دوسری جماعت دشمن کے سامنے ہے پھر یہ چلے گئے وہ آگئے ایک رکعت امام نے انہیں پڑھائی تو امام کی دو رکعت ہوئیں اور ان دونوں جماعتوں کی ایک ایک رکعت ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 اس حالت میں سفر میں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے، ان خفتم۔ " اگر تمہیں ڈر ہو۔ " غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف بھی خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے جیسے قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ) 003:130 (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) 024:033 تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں۔ " چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر وہ بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ( وَرَبَاۗىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕكُمُ ) 004:023 بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے اس کے صدقے کو قبول کرو۔ " (مسند أحمد جلد 1، ص 25، 36 وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٨] اس آیت میں اگرچہ سفر کے ساتھ دشمن کے اندیشہ کا بھی ذکر ہے تاہم سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ ہر طرح کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ سفر فی سبیل اللہ ہی ہو بلکہ ہر سفر میں قصر کی جاسکتی ہے رہی یہ بات کہ کتنے فاصلہ کو سفر کہہ سکتے ہیں اس میں بھی اگرچہ اختلافات موجود ہیں۔ تاہم ہمارے لیے یہ امر کافی اطمینان کا باعث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ && کوئی عورت ایک رات بھی محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ && (بخاری، کتاب العمرۃ، باب حج النسائ) گویا اتنی مسافت جہاں سے ایک انسان پیدل رات کو اپنے گھر واپس نہ پہنچ سکتا ہو، وہ سفر ہے اور سیدنا عمر (رض) نے اسے اپنے دور خلافت میں ایک عورت کے سفر پر محمول کرتے ہوئے اس دور کے ٩ میل کی مسافت کو سفر قرار دیا تھا جو آج کل کے پیمانہ کے لحاظ سے ٢٥ کلومیٹر بنتا ہے۔ یعنی ایک کمزور انسان پیدل ایک دن میں ٢٥ کلومیٹر جانے کا اور اتنا ہی آنے کا کل ٥٠ کلومیٹر مسافت طے نہیں کرسکتا۔ لہذا اتنی مسافت پر سفر کا اطلاق ہوگا۔ سفر میں اگر قصر نہ کی جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم قصر کرنا ہی افضل ہے۔ پھر سفر میں دو نمازیں اکٹھی کر کے پڑھنے کا موقع آجاتا ہے۔ ایسی تفصیلات کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سفر میں قصر جمع اور سفر کی تعیین :۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں && ابتداء سفر و حضر میں نماز دو رکعت فرض کی گئی تھی۔ پھر سفر کی نماز تو اتنی ہی برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کیا گیا۔ (منیٰ میں && ) (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یقصر اذا خرج من موضعہ۔۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب صلٰوۃ المسافرین) ٢۔ حارث بن وہب فرماتے ہیں کہ منیٰ میں ہمیں نبی اکرم نے دو رکعت (نماز قصر) پڑھائی۔ حالانکہ آپ بالکل امن میں تھے۔ && (بخاری، ابو اب تقصیر الصلٰوۃ، باب الصلٰوۃ بمنیٰ ) ٣۔ یعلٰی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر (رض) سے کہا کہ && اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہیں (کافروں کا) خوف ہو تو نماز میں قصر کرو اور اب تو ہم امن میں ہیں۔ && سیدنا عمر (رض) نے جواب دیا && اسی بات پر میں نے بھی تعجب کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا && یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ نے آپ پر کیا لہذا اس کا صدقہ قبول کرو۔ && (ترمذی، ابو اب القصر) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کر کے تین رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر بعد عشاء کی اقامت ہوتی تو آپ دو رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔ && (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یصلی المغرب ثلاثا فی السفر) ٥۔ عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے مدینہ میں رہ کر (یعنی بلاسفر) سات رکعتیں مغرب اور عشاء کی اور آٹھ رکعتیں ظہر اور عصر کی (ملا کر) پڑھیں۔ && ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے کہا && شاید بارش کی رات میں ایسا کیا ہو ؟ && انہوں نے کہا && شاید && (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب تاخیر الظہر الی العصر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : قصر کا معنی کمی ہے، یہ کمی رکعات کی تعداد میں بھی مسنون ہے اور اگر خوف زیادہ ہو تو نماز کی ہیئت و شکل میں بھی کمی ہوسکتی ہے، مثلاً پیدل جاتے جاتے نماز پڑھ لینا۔ ظاہر ہے اس میں سجدہ اور رکوع تو پوری طرح ممکن نہیں، یا سواری پر اشارے سے نماز پڑھ لینا۔ (دیکھیے سورة بقرہ (٢٣٩) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن انیس (رض) کو خالد بن سفیان کے قتل کے لیے بھیجا تو عصر کا وقت قریب تھا، انھوں نے جاتے جاتے ہی نماز پڑھ لی۔ [ أبو داوٗد، صلاۃ السفر، باب صلاۃ الطالب : ١٢٤٩ ] حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے جید کہا ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر ] عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ “ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : ٦٨٧ ] عام سفر میں مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کے بجائے دو رکعت پڑھنا قصر ہے۔ ” تم پر کچھ گناہ نہیں “ کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں، اس کی صرف اجازت ہے اور یہی اکثر علمائے سلف کا مسلک ہے، مگر چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ سفر میں قصر پڑھی ہے، لہٰذا آپ کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور اکثر محدثین (رح) کے نزدیک قصر افضل ہے۔ 2 سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے، جسے عرف میں سفر کہا جاتا ہو، اب رہی میلوں یا دنوں کی مقدار کی تعیین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی صریح حدیث میں۔ اس بنا پر جن ائمہ اور علماء نے کسی مقدار کی تعیین کی ہے، انھوں نے عموماً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفروں کو دیکھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے کی ہے، تاہم سب سے قوی دلیل سفر کی مقدار کی تعیین میں صحیح مسلم (٦٩١) میں مروی حدیث انس ہے، جس کی رو سے تین فرسخ ( ٩ کوس) تقریباً اکیس کلو میٹر سفر کرنا ہو تو شہر سے نکل کر قصر کرسکتے ہیں۔ 3 کسی صحیح حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنتیں ادا کی ہوں، ہاں رات کے وتر اور صبح کی سنتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زاد المعاد : ١؍٤٥٦) صحابہ میں سے ابو بکر، عمر اور ابن عمر (رض) کا اسی پر عمل تھا۔ [ بخاری، التقصیر، باب من لم یتطوع فی السفر دبر الصلاۃ : ١١٠١ ] 4 مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کرے گا۔ موسیٰ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ہم ابن عباس کے ساتھ مکہ میں تھے تو میں نے کہا جب ہم آپ کے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں جب اپنی رہائش کی جگہوں میں جاتے ہیں تو دو رکعت پڑھتے ہیں تو انھوں نے فرمایا یہ ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ [ أحمد ٢١٦؍١، ح : ١٨٦٧ ] اس کی ہم معنی روایت صحیح ابی عوانہ (٣٤٠؍٢) میں ہے۔ ارواء الغلیل تحت حدیث (٥٧١) اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ ۔۔ : یہ آیت چونکہ جہاد کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس لیے اس میں نماز قصر کی اجازت کے ساتھ ” اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے “ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ باقی رہا عام سفر، جس میں دشمن کا خوف نہ ہو تو اس میں قصر کے حکم کے بارے میں یہ آیت خاموش ہے، اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و فعل سے واضح فرمایا ہے۔ عمر (رض) سے ایک شخص نے سوال کیا : ” کیا وجہ ہے کہ لوگ ہر سفر میں قصر کر رہے ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں یہ حکم خوف کے ساتھ مقید ہے ؟ “ تو عمر (رض) نے فرمایا : ” خود مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا اور میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ ایک صدقہ ہے، جو اللہ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔ “ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : ٦٨٦ ] ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت رب العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ نے دو ہی رکعت نماز پڑھی۔ “ [ تقصیر الصلاۃ فی السفر، بابٌ : ١٤٣٦ ] انس (رض) بیان کرتے ہیں : ” ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو آپ نماز کی دو دو رکعتیں ادا فرماتے رہے، حتیٰ کہ ہم مدینہ واپس آگئے۔ “ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ” آپ لوگوں نے مکہ میں کتنی دیر قیام کیا تھا انھوں نے جواب دیا : ” ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔ “ [ بخاری، التقصیر، باب ما جاء فی التقصیر : ١٠٨١ ] ایک مرتبہ آپ نے مکہ میں انیس (١٩) دن بھی قیام کیا تھا۔ [ بخاری، المغازی، باب مقام النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمکۃ زمن الفتح : ٤٢٩٨ ] جابر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مدت صراحت کے ساتھ نہیں آئی کہ کتنے دن کسی جگہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو قصر کرسکتا ہے۔ علماء کے اجتہادات مختلف ہیں بعض نے فرمایا انیس دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پوری بڑھے اس سے کم ہو تو قصر کرے بعض نے وہ مدت پنرہ دن بیان فرمائی بعض نے چار دن۔ مگر راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب تک کسی جگہ اقامت کا ارادہ نہ کرے قصر کرسکتا ہے۔ ثمامہ بن شراحیل فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے پاس گیا تو ہم نے عرض کیا : مسافر کی نماز کیسے ہے انھوں نے فرما ای دو دو رکعتیں سوائے مغرب کے کہ وہ تین رکعتیں ہے۔ میں نے کہا یہ باتئیں اگر ہم ذوالمجاز میں ہوں ؟ انھوں نے فرمایا : ذوالمجاز کیا ہے میں نے کہا ایک جگہ ہے جس میں ہم جمع ہوتے ہیں اور خریدو فروخت کرتے ہیں اور بیس راتیں یا پندرہ راتیں ٹھہرتے ہیں تو انھوں نے فرمایا یا ایھا الرجل (اے آدمی) میں آذر بیجان میں رہا، میں نہیں جانتا کہ انھوں نے چار مہینے کہا یا دو ماہ، تو میں نے انھیں دیکھا کہ وہ دو ، دو رکعت پڑھتے تھے اور میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو ، دو رکعت پڑھتے دیکھا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۂ حسنہ ) (مسند احمد : ٥٥٥٢) وحسنہ محققوہ فی طبع الرسالۃ

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

1. Sajdah or Sujud, a way of prostration specified by the Shari` ah of Islam as a part of Salah. Commentary The subject of Jihad and Hijrah were taken up in previous verses. Since travel is involved in Jihad and Hijrah under most conditions, the likelihood of confrontation with the enemy is strong and frequent while making such a trip. Therefore, special mention has been made in the verses cited above of some particular leaves and concessions in the performance of Sarah in due consideration of travel and its dangers.

خلاصہ تفسیر اور جب تم زمین میں سفر کرو (جس کی مقدار تین منزل ہو) سو تم کو اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا (بلکہ ضروری ہے) کہ تم (ظہر اور عصر اور عشاء کے فرض) نماز ( کی رکعات) کو کم کردو (یعنی چار کی جگہ دو پڑھا کرو) اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم کو کافر لوگ پریشان کریں گے (اور اس اندیشہ کی وجہ سے ایک جگہ زیادہ دیر تک ٹھہرنا خلاف مصلحت سمجھا جاوے، کیونکہ) بلاشبہ کافر لوگ تمہارے صریح دشمن ہیں اور جب آپ ان میں تشریف رکھتے ہوں (اور اسی طرح آپ کے بعد اور جو امام ہو) پھر آپ ان کو نماز پڑھانا چاہیں (اور اندیشہ ہو کہ اگر سب نماز میں لگ جائیں گے تو کوئی دشمن موقع پا کر حملہ کر بیٹھے گا) تو (ایسی حالت میں) یوں چاہئے کہ (جماعت کے دو گروہ ہوجائیں پھر) ان میں سے ایک گروہ تو آپ کے ساتھ (نماز میں) کھڑے ہوجائیں (اور دوسرا گروہ نگہبانی کے لئے دشمن کے مقابل کھڑا رہے تاکہ دشمن کو دیکھتا رہے) اور وہ لوگ (جو آپ کے ساتھ نماز میں شامل ہیں وہ بھی مختصر مختصر) ہتھیار لینے میں دیر نہ لگے، فوراً قتال کرنے لگیں، گو نماز قتال سے ٹوٹ جائے گی، لیکن گناہ نہیں) پھر جب یہ لوگ (آپ کے ساتھ) سجدہ کر چکیں (یعنی ایک رکعت پوری کرلیں) تو یہ لوگ (نگہبانی کے لئے) تمہارے پیچھے ہوجاویں (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور دوسرے گروہ کے جو کہ اب نماز میں شامل ہوں گے جن کا بیان آگے آتا ہے، یہ پہلا گروہ ان سب کے پیچھے ہوجائے) اور دوسرا گروہ جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی (یعنی شروع بھی نہیں کی) وہ اس پہلے گروہ کی جگہ امام کے قریب) آجائے اور آپ کے ساتھ نماز (کی ایک رکعت جو باقی رہی ہے اس کو) پڑھ لیں اور یہ لوگ بھی اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لیلیں (اور سامان اور ہتھیار ہمراہ لینے کا اس لئے سب کو حکم کیا ہے کہ) کافر لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے (ذرا) غافل ہو جاؤ تو تم پر ایک بارگی حملہ کر بیٹھیں، (سو ایسی حالت میں احتیاط ضروری ہے) اور اگر تم کو بارش (وغیرہ) کی وجہ سے (ہتھیار لے کر چلنے میں) تکلیف ہو یا تم بیمار ہو ( اور اس وجہ سے ہتھیار باندھ نہیں سکتے، تو تم کو اس میں (بھی) کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھ اور (پھر بھی) اپنا بچاؤ (ضرور) لے لو، (اور یہ خیال نہ کرو کہ کفار کی دشمنی کا صرف دنیا ہی میں علاج کیا گیا ہے بلکہ آخرت میں اس سے بڑھ کر ان کا علاج ہوگا کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے سزائے اہانت آمیز مہیا کر رکھی ہے، پھر جب تم نماز (خوف) کو ادا کر چکو تو (بدستور) اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگ جاؤ کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے بھی (یعنی ہر حالت میں حتی کہ عین لڑائی کے وقت بھی اللہ کا ذکر جاری رکھو دل سے بھی اور احکام شرعی کے اتباع سے بھی کہ وہ بھی ذکر میں داخل ہے، لڑائی میں خلاف شرع کوئی کارروائی کرنے سے پرہیز کرو، غرض نماز تو ختم ہوئی ذکر ختم نہیں ہوتا، سفر یا خوف کی وجہ سے نماز میں تو تخفیف ہوگئی تھی لیکن ذکر اپنی حالت پر ہی ہے) پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ (یعنی سفر ختم کر کے مقیم ہوجاؤ اور اسی طرح خوف کے ختم ہونے کے بعد بےخوف ہوجاؤ) تو نماز کو (اصلی) قاعدہ کے موافق پڑھنے لگو (یعنی قصر اور نماز میں مشی وغیرہ چھوڑ دو ، کیونکہ وہ بوجہ عارض کے جائز رکھا گیا تھا) یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے (پس فرض ہونے کی وجہ سے ادا کرنا ضرور اور وقت کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے وقت ہی میں ادا کرنا ضرور ہوا، اس لئے کچھ کچھ اس کی شکل و صورت میں تبدیلی کردی گئی، ورنہ نماز کی صورت مقصودہ وہی اصلی صورت ہے، پس سبب کے ختم ہونے کے بعد نماز کی اصلی صورت کی حفاظت لازم ہوگئی) اور ہمت مت ہارو اس مخالف قوم کے تعاقب کرنے میں (جبکہ اس کی ضرورت ہے) اگر تم (زخموں سے) تکلیف میں مبتلا ہو تو (کیا ہوا) وہ بھی تو درد میں مبتلا ہیں جیسے تم درد میں مبتلا ہو (تو وہ تم سے زیادہ قوت نہیں رکھتے پھر کا ہے کو ڈرتے ہو) اور (تم میں ایک زیادتی ان سے یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی چیزوں کی امید رکھتے ہو کہ وہ لوگ (ان کی) امید نہیں رکھتے (یعنی ثواب، تو دل کی قوت میں تم زیادہ ہوئے اور ضعف بدن میں ایک جیسے تو تم کو زیادہ چست رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں (ان کو کفار کا کمزور دل اور کمزور بدن معلوم ہے) بڑے حکمت والے ہیں (تمہاری قوت برداشت سے زیادہ حکم نہیں فرمایا) ۔ معارف ومسائل ربط آیات :۔ اوپر جہاد اور ہجرت کا ذکر تھا چونکہ اب احوال میں جہاد اور ہجرت کے لئے سفر کرنا پڑتا ہے اور ایسے سفر میں مخالف کی طرف اندیشہ بھی اکثر ہوتا ہے اس لئے سفر اور خوف کی رعایت سے جو نماز میں بعض خاص سہولتیں اور تحفیفیں کی گئی ہیں آگے ان کا ذکر فرماتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ۝ ٠ۤۖ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا۝ ١٠١ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ضَّرْبُ ( چلنا) والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ جناح وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر : الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔ قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سفر میں نماز کا حکم ارشاد باری ہے (واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصدوا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا۔ اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تمام میں اختصار کر دو ( خصوصاً ) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے) اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور قصر کو دو باتوں کی بنا پر مباح کردیا ہے۔ ایک تو سفر یعنی زمین میں قدم مارنے ( سفر کرنے ) کی بنا پر اور دوسری خوف کی بنا پر۔ آیت میں مذکور قصر کے مفہوم کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضر کی نماز چار رکعتیں اور سفر کی نماز دو رکعتیں اور خوف کی نماز ایک رکعت تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے فرض کی ہے۔ یزید الفقیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ صلوۃ الخوف ایک ایک رکعت ہے مجاہد سے مروی ہے کہ چار کی تعداد قصر کر کے دو کردی گئی ہے۔ ابن جریج نے طائوس سے، اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ نماز میں قصر خوف اور قتال کی صورت میں ہوتی ہے نماز ہر حالت میں پڑھے گا خواہ سوار ہو پیدل۔ رہ گئی یہ بات کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگوں یعنی صحابہ کرام نے سفر میں جو دو رکعتیں پڑھی ہیں تو وہ قصر نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق جو اس روایت کے علاوہ ہے جس کا ذکر ہم نے قصر کے سلسلے میں کیا ہے، قصر صرف حدود یعنی صفت صلوۃ میں ہے نیز یہ کہ تم تکبیر کہتے ہوئے اپنا سر ذرا جھکا لو گے اور اشارہ سے کام لو گے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کی رو سے سب سے اولیٰ اور مناسب تاویل وہ ہے جو حضرت ابن عباس (رض) اور طائوس سے مروی ہے کہ قصر نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے کے اندر ہوتی ہے یعنی رکوع اور سجود ترک کر کے اشارے سے کام لیا جاتا ہے اور قیام ترک کر کے سواری پر سوار ہو کر نماز ادا کی جاتی ہے۔ نماز ک اندر پائوں سے چلنے کو بھی قصر کا نام دینا درست ہے۔ کیونکہ جب خوف کی حالت نہ ہو اس صورت میں نماز کے اندر پائوں سے چلنے کی بنا پر نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) عنہ اور حضرت جابر (رض) سے صلوٰۃ الخوف کے متعلق ایک رکعت کی جو روایت ہے وہ اس پر محمول ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ صرف ایک رکعت پڑھے گا کیونکہ امام لوگوں کے دو گروہ بنائے گا جو گروہ امام کے ساتھ ہوگا وہ ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلا جائے گا پھر دوسرا گروہ آ کر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے گا۔ اور امام سلام پھیر دے گا اس طرح ہر گروہ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھے گا اور پھر ایک رکعت خود ادا کرے گا۔ اس طرح حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت کہ نماز کی صفت میں قصر ہوتی ہے اس روایت کی مخالف نہیں ہوگی کہ صلوٰۃ الخوف ایک رکعت ہوتی ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ روایتیں ہیں جو صلوۃ الخوف میں آپ کے طریق کار کو بیان کرتی ہے اگرچہ ان روایات میں بیان کردہ صورتوں میں بڑا اختلاف ہے۔ تا ہم یہ تمام رواتیں دو رکعتوں کی موجب ضرور ہیں۔ ان میں سے کوئی روایت ایسی نہیں ہے جس میں یہ بیان ہو کہ آپ نے صلوۃ الخوف ایک رکعت پڑھی ہے۔ البتہ ان روایات میں یہ بات ضرور بیان کی گئی ہے کہ ہر گروہ کے لیے امام کے ساتھ ایک رکعت ہے اور صرف اس ایک رکعت پر انحصار کیے بغیر دوسری رکعت کو خود ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر صلوٰۃ الخوف صرف ایک رکعت ہوتی تو اس کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے والوں کی نماز کی کیفیتوں میں اختلاف نہ ہوتا۔ جب حضرت ابن عباس (رض) عنہ اور دیگر صحابہ نے یہ نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعیتیں ادا کی ہیں تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ خائف کی نماز کا فرض بھی غیر خائف کی نماز کے فرض کی طرح ہے نیز یہ کہ لوگوں کے لیے ایک ایک رکعت کی روایت اس معنی پر محمول ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھی تھی اور ایک ایک رکعت خود ادا کی تھی جیسا کہ تمام روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت میں جس قصر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے میں قصر ہے یا اس سے مراد پائوں سے چلنا اور دشمن کے مقابلہ میں اس طریقے پر آگے پیچھے ہونا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، نماز کی رکعتوں میں قصر نہیں ہے، نیز قصر کے سلسلے میں حضرت ابن عباس (رض) کے مسلک کا مفہوم وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس سے رکعتوں کی تعداد کی کمی مراد نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کی دلیل وہ روایت ہے جس کے راوی مجاہد ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس (رض) عرض کیا کہ میں اپنے ایک رفیق کے ہمراہ سفر پر نکلا تھا، سفر کی دوران میں تو نماز پوری پڑھتا تھا لیکن میرا رفیق قصر کرتا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ سن کر فرمایا کہ ” دراصل قصر تم کرتے تھے اور تمہارا رفیق پوری نماز پڑھتا تھا “۔ گویا حضرت ابن عباس (رض) نے اسے یہ بتایا کہ رکعتوں کی تعداد میں قصر نہیں ہوتی نیز سفر کے اندر دو رکعتیں قصر نہیں ہیں۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے سفیان نے زبیر الیامی سے نقل کیا ہے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہ آپ نے فرمایا ” سفر کی نماز کی دو رکعتیں ہیں، عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کی نماز کی بھی دو دو رکعتیں ہیں ، تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کے مطابق نمازوں کی یہ صورتیں قصر نہیں ہیں بلکہ یہ پوری نمازیں ہیں۔ اس میں سفر کے اندر صلوٰۃ الخوف بھی داخل ہے کیونکہ حضرت عمر (رض) نے نماز کی ان صورتوں کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق یہ قصر نمازیں نہیں ہیں بلکہ پوری نمازیں ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ زیر بحث آیت میں مذکور قصر کا مفہوم وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے ۔ نماز کی رکعتوں کی تعداد میں کمی مراد نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ (رض) سے مروی ہے کہ انوہں نے حضرت عمر (رض) سے دریافت کیا تھا کہ اب نماز میں قصر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ دشمن کے خوف سے اب ہمیں امن نصیب ہوگیا ہے اور دوسری طرف ارشاد باری ہے ( فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا۔ ) حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا تھا کہ جس بات سے تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی ہوا تھا پھر میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا جس پر آپ نے فرمایا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا اصدقۃ) یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے اس لیے اس کا صدقہ قبول کرلو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ آیت میں مذکور قصر سے مراد رکعتوں کی تعداد میں قصر ہے اور صحابہ کرام نے آیت سے یہی مفہوم اخذ کیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے یعنی نماز کی رکعتوں کی تعداد میں قصر اور نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے میں قصر جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم نے بیان کیا ہے، اس لیے اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت یعلیٰ (رض) کے خیال میں وہ بات گزری ہو جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے اور حضرت عمر (رض) نے حالت امن میں قصر کے حکم کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا ہو، نہ یہ کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا ہو کہ آیت میں مذکور قصر تعداد کے اندر ہے اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں وہ جواب دیا ہو جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ بلکہ اس کی گنجائش ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آیت کا مفہوم کا حوالہ دیے بغیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا ہو کہ اب ہم کیسے قصر کرسکتے ہیں جبکہ ہمیں امن نصیب ہوچکا ہے۔ ہماری اس توضیح کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام غزوات کے دوران قصر کرتے رہے پھر آپ نے حج کے سفر میں قصر کیا تھا جب کہ وہ امن کا زمانہ تھا اور مشرکین سے قتال اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے خوف اور امن دونوں حالتوں میں سفر کے اندر دو رکعتوں کی فرضیت ساقت کردی ہے اور اب صرف دو رکعتوں کی فرضیت باقی رہ گئی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفر کی نماز کے متعلق روایت کی ہے کہ یہ پوری نماز ہوتی ہے، قصر نماز نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ابتدا میں یہ خیال کیا ہو کہ خوف کی بنا پر قصر رکعتوں کی تعداد میں ہوتی ہے لیکن جب آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ( صلوۃ السفر رکعتان تمام غیر قصر) تو آپ کو اس کا علم ہوگیا کہ آیت میں مذکور قصر سے مراد نماز کی ادائیگی کے طریقہ میں قصر ہے۔ رکعتوں کی تعداد میں قصر نہیں ہے۔ جب ہماری مذکورہ بالا توضیح کی روشنی میں یہ بات درست ہوگئی کہ قصر سے مراد وہ مفہوم ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو اس کے بعد آیت میں مسافر کے فرض پر کوئی دلالت موجود نہیں ہوگئی اور نہی اس بات کی دلالت پائی جائے گی کہ مسافر کو پوری نماز پڑھنے اور قصر کرنے کے درمیان اختیار ہے کیونکہ آیت میں سرے سے ان کا ذکر ہی نہیں ہے۔ مسافر کے فرض نماز کے متعلق فقہاء میں اختالف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد کا قول ہے کہ مسافر کے لیے صرف دو رکعتیں فرض ہیں۔ البتہ مغرب کی تین رکعتیں فرض ہیں۔ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لیں اور دو رکعتوں کے بعد قعدہ نہیں کیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے ۔ اگر ان نے تشہد کی قعدہ اولیٰ کرلیا تو اس کی نماز مکمل ہوجائے گی جس طرح اس شخص کی نماز مکمل ہوجاتی ہے جس نے فجر کی نماز ایک سلام کے ساتھ جا رکعتیں پڑھ لی ہوں۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ حماد بن ابی سلیمان کا قول ہے کہ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لیں تو وہ نماز کا اعادہ کرے گا، حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس نے عمداً چار رکعتیں پڑھ لی ہوں تو سفر مختصر ہونے کی صورت میں نماز لوٹائے گا لیکن اگر سفر طول کھینچ لے تو چار رکعتیں پڑھ لینے کی صورت میں اعادہ نہیں کرے گا۔ ان کا قول ہے کہ اگر چار رکعتیں پڑھنے کی نیت سے نماز شروع کرے گا تو اسے نئے سرے سے نماز کی ابتدا کرنی ہوگی جس میں وہ دو رکعتوں کی نیت کرے گا۔ اگر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد تشہد پڑھے گا اور اس کے دل میں چار رکعتیں پوری کرنے کا خیال آنے پر چار رکعتیں پڑھ لے گا تو اس صورت میں وہ نماز کا اعادہ کرے گا، اگر مسافر نے دو رکعتوں کی بنیاد پر نماز شروع کرلی ہو پھر چار پڑھنے کی نیت کرلے اور دو رکعتوں کے بعد اس کی نیت بدل جائے اور وہ سلام پھیر لے تو اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لی ہوں تو جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے اسے اعادہ کرنا ہوگا۔ لیکن اگر وقت نکل جائے تو اعادہ نہیں کرے گا۔ ان کا قول ہے کہ اگر مسافر چار کی نیت کے ساتھ فرض نماز شروع کرلے پھر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد اس کی نیت بدل جائے اور وہ سلام پھیر لے تو اس کی یہ نماز درست نہیں ہوگی۔ اگر ایک مسافر مسافروں کی امامت کر رہا ہو اور دو رکعتوں کے بعد وہ تیسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور مقتدیوں کی طرف سے سبحان اللہ کہہ کر اسے قعدہ میں واپس آنے کے اشارے کے باوجود وہ نہ بیٹھے تو مقتدی بیٹھ کر تشہد پڑھیں گے اور اس کی پیروی نہیں کریں گے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ مسافر دو رکعتیں پڑھے گا۔ اگر وہ تیسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا اور اسے پورا کرلے گا تو و اس تیسری رکعت کو کالعدم قرار دے کر سجدہ سہو کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مسافر کے لیے دو رکعتیں پڑھنے کی گنجائش نہیں ہے الا یہ کہ وہ احرام کے ساتھ قصر کی نیت بھی کرلے۔ اگر احرام کے ساتھ قصر کی نیت نہیں کرے گا تو وہ اصل فرض کے مطابق چار رکعتیں پڑھے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں ہم نے سابقہ سطور میں یہ بات واضح کردی ہے کہ آیت کے اندر رکعتوں کی تعداد میں قصر کرنے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف لوگوں کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امن اور خوف کی دونوں حالتوں کے اندر اپنے تمام سفروں کے دوران قصر کیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسافر پر دو ہی رکعتیں فرض ہیں کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل یہی ہے اور اس کے ذریعے آپ نے آیت میں اللہ کی مراد کی وضاحت فرما دی تھی۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ میں نے امن کی حالت میں قصر کرنے کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ دریافت کیا تھا۔ جواب میں آپ نے یہ فرمایا تھا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) ہم پر اللہ کا صدقہ نماز کی دو رکعتوں کی اسقاط کی صورت میں ہوا ہے اور یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ دو رکعتیں ہی فرض ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے ( فاقبلوا صدقتہ) اس بات کو واجت کردیتا ہے۔ کیونکہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے جب ہمیں قصر کرنے کا امر ہے تو اتمام یعنی پوری نماز پڑھنے کی ممانعت ہوگئی۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ مسافر کی نماز دو رکعتیں ہیں یہی اس کی مکمل نماز ہے۔ یہ قصر نہیں ہے۔ یہ بات تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوائی گئی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے یہ بتادیا کہ دو رکعتیں فرض ہیں اور یہ قصر نہیں ہے بلکہ یہ مکمل نماز ہے جس طرح آپ نے فجر ، جمعہ، عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازوں کے متعلق دو دو رکعتیں کا ذکر کیا اور اس بات کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نسبت کردی۔ اس نسبت کی بنا پر حضرت عمر (رض) کے قول کی حیثیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول جیسی ہوگئی کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے۔ یہ مکمل نماز ہے، قصر نہیں ہغ۔ یہ چیز قضر اور اتمام کے درمیان اختیار کی نفی کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر پر نکلتے تو واپسی تک دو رکعتیں پڑھتے رہتے۔ علی بن زید نے ابو نضرہ سے اور انہوں نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں حج ادا کیا تھا آپ مدینہ واپسی تک دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ مکہ مکرمہ میں اٹھارہ دن آپ کا قیام رہا آپ وہاں بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے، آپ نے اہل مکہ کو چار رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ہم مسافر لوگ ہیں “۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا۔ ” میں سفر کے اندر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ رہا۔ آپ نے دو رکعتیں سے زائد نہیں پڑھی، میں حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) کے ہمراہ بھی رہا۔ ان حضرات نے بھی دو سے زائد نہیں پڑھی حتیٰ کہ انہیں اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنتہ) اللہ کے رسول کی ذات میں تمہارے لیے بہترین نمونو موجود ہے۔ “ بقیہ بن الولید نے روایت بیان کی ہے ، انہیں ابان بن عبداللہ نے خالد بن عثمان سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے، انہوں نے حضرت عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا ( صلوۃ المسافر رکعتان حتیٰ یئوب الی اھلہ اور یموت) مسافر کی نماز دو رکعت ہے یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے یا اس کی وفات ہوجائے) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ” میں نے منیٰ کے مقام پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں “۔ موروق العجلی کا قول ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے سفر کی نماز کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :” دو دو رکعتیں ، اور جو شخص اس بارے میں سنت کی مخلفت کرے گا وہ کافر ہوگا۔ سفر کے اندر دو رکعتوں کی ادائیگی اور اس سے زائد کی نفی کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے یہ متواتر روایتیں ہیں۔ ان میں دو طرح سے اس بات پر دلالت موجود ہے کہ یہی دو رکعتی مسافر پر فرض ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ کتاب اللہ میں نماز کا فرض مجمل ہے جسیے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل جب بیان کے طورپر وارد ہو تو وہ آپ کے قولی بیان کی طرح ہوتا ہے اور ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سفر کے اندر دو رکعت پڑھنا آپ کی طرف سے اس بات کا بیان ہے کہ اللہ کی مراد بھی یہی ہے۔ جس طرح نماز فجر، نماز جمعہ اور باقی ماندہ تمام نمازوں کی ادائیگی کے متعلق آپ کا عمل بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مراد یہ ہوتی کہ مسافر کو پوری نماز پڑھنے اور قصر کرنے کے مابین اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے کرلے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ درست نہ ہوتا کہ آپ اپنے بیان کو صرف ایک پہلو یعنی قصر تک محدود رکھتے اور دسورے پہلو یعنی اتمام کا ذکر نہ کرتے اور اتمام کے سلسلے میں آپ کا بیان قصر کے سلسلے میں آپ کے بیان کے ہم وزن ہوتا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہماکے لیے قصر کا بیان آگیا، اتمام کا نہ آیا تو اس سے ہمیں یہ دلالت حاصل کہ کہ قصر ہی اللہ کی مراد ہے، اتمام مراد نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت کے سلسلے میں اللہ کی مراد دو باتوں میں سے ایک تھی یعنی یا تو روزہ چھوڑ دے یا روزہ رکھ لے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس کا بیان کبھی روزہ رکھنے کی صورت میں وارد ہوا اور کبھی افطار یعنی روزہ چھوڑنے کی صورت میں۔ نیز حضرت عثمان (رض) نے جب منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو صحابہ کرام نے اسے ناپسند کیا اور اس پر تنقید کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں پھر تمہاری راہیں مختلف ہوگئیں، میری تمنا ہے کہ ان چار رکعتوں میں سے میرے حصے میں دو رکعتیں آ جائیں جو اللہ کے ہاں قبول ہونے والی ہوں۔ ” حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : سفر کی نماز دو رکعت ہے جو شخص سنت کی مخالفت کرے گا وہ کافر ہوگا “۔ حضرت عثمان کا قول ہے : ” میں پوری نماز اس لیے پڑھتا ہوں کہ میں نے اس شہر یعنی مکہ مکرمہ میں اپنا گھر بسا لیا ہے اور میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے کہ (من تاھل ببلد فھو من الہ جو شخص کسی شہر میں اپنا گھر بسا لیتا ہے وہ اس شہر کا باشندہ ہوجاتا ہے۔ حضرت عثمان نے اتمام کی ممانعت میں صحابہ کرام کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ آپ نے یہ عذر پیش کیا کہ میں مکہ معظمہ میں گھر آباد کرچکا ہوں اس لیے میں اب اس شہر کے باشندوں میں سے ہوں۔ اہل مکہ کے متعلق ہمارا بھی یہی قول ہے کہ وہ قصر نہیں کریں۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سفر میں دو رکعتیں فرض کی ہیں اور حضر میں چار رکعتیں۔ حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ سب سے پہلے نماز کی فرضیت دو دو رکعتوں کی صورت میں ہوئی۔ پھر حضر یعنی اقامت کی حالت کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اور سفر کی حالت کی نماز کو بحالہ باقی رہنے دیا گیا۔ حضت عائشہ (رض) نے یہ بیان کردیا کہ مسافر پر دراصل دو رکعتیں فرض ہیں اور مقیم پر چار رکعتیں فرض ہیں جس طرح فجر اور ظہر کی نمازوں کی فرضیت ہے اس لیے مسافر کی نماز میں اسی طرح اضافہ جائز نہیں جس طرح دوسری نمازوں میں اس کا جواز نہیں ہے۔ عقلی طور پر یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مسافر کے لیے آخری دو رکعتیں کے ترک کا جواز ہے اور ان دونوں رکعتوں کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اگر مسافر ان دونوں کی بھی ادائیگی کرلیتا ہے تو وہ گویا نئے سرے سے ابتداء کر کے ان کی ادائیگی کرتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں رکعتیں نفل ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے نماز کی یہ صورت تفصل نماز کی صورت ہے۔ وہ یہ کہ نمازی کو نفل نماز کی ادائیگی اور اس کے ترک کے درمیان اختیار ہوتا ہے اور ترک کی صورت میں اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ جن حضرات نے مسافر کے لیے قصر اور اتمام کے مابین اختیار ہونے کا قول کیا ہے انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کی راوی حضرت عائشہ ہیں۔ ان کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی۔ یہ روایت درست ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ادائیگی میں قصر کیا ہے اور حکم میں اتمام کیا ہے جس طرح حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ ” سفر کی نماز دو رکعت ہے، یہ مکمل نماز ہے ، قصر نہیں ہے، یہ بات تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوائی گئی ہے “۔ اس حضرات کا استدلال یہ بھی ہے کہ اگر مسافر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو اس پر اتمام لازم ہوگا یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اصل کے اعتبار سے اسے اختیار ہوتا ہے لیکن یہ استدلال فاسد ہے۔ اس لیے امام کی نماز میں دخول فرض کو بدل دیتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جمعہ کے روز عورت اور غلام پر چار رکعتوں کی فرضیت ہوتی ہے لیکن اگر یہ دونوں جمعہ کی نماز کی جماعت میں شامل ہوجائیں گے تو دو رکعتیں پڑھیں گے۔ یہ چیز اس پر دلالت نہیں کرتی کہ نماز جمعہ میں داخل ہونے سے پہلے ان دونوں کو چار اور دو کے درمیان اختیار تھا۔ ہم نے اپنی تصنیفات میں اس مسئلے پر متعدد مقامات میں سیر حاصل بحث کی ہے ایک مسافر مقیم امام کی نماز با جکاعت میں اگر شامل ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہوگا اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے کہ وہ مقیم کی نماز ادا کرے گا خواہ تشہد کے اندر وہ امام کے ساتھ آ کر شامل کیوں نہ ہوا ہو، سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر امام کے ساتھ اسے ایک پوری رکعت نہ ملے تو وہ دو رکعتیں پڑھے گا۔ پہلے قول پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ ( ماادرکتم فصلوا وما فاتکم ذاتموا، نماز کا جتنا حصہ تمہیں باجماعت مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کرلو) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں ( وما فتکم فاقضوا اور جو رہ جائے اسے کی قضا کرلو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امام کے ساتھ رہ جانے والے نماز کے حصے کو قضا کرنے کا حکم دیا اس لیے جس شخص کی چاروں رکعتیں رہ گئی ہوں وہ بھی ان کی قضا کرے گا۔ نیز امام کی نماز کے آخری حصے میں اس کی شمولیت درست ہوتی ہے۔ اور اگر امام کو سہو لاحق ہوگیا ہو تو اس پر بھی سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اور اگر خود اسے سہو لاحق ہوجائے تو امام کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔ اس لیے اتمام کے لحاظ سے بھی اس پر امام کی نماز کا حکم لازم ہوگا۔ نیز اگر مسافر اس حالت میں اقامت کی نیت کرے گا تو اس پر اتمام صلوٰۃ لازم ہوجائے گا۔ اسی طرح امام کی نماز میں اس کے دخول کے ساتھ اس پر اس کا اتمام لازم ہوگا۔ تشہد میں امام کی نماز می اس کی شمولیت کی وہی حیثیت ہے جو نماز کی ابتدا میں اس کی شمولیت کی ہے جس طرح تشہد میں اقامت کی نیت کا وہی حکم ہے جو نماز کی ابتداء میں اقامت کی نیت کا ہے۔ واللہ اعلم۔ فصل ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مسافر کے لیے نماز کی قصر کے سلسلے میں جن دلائل پر ہم پچھلی سطور میں سحث کر آئے ہیں وہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ہر قسم کے مسافر کی نماز دو رکعت ہے خواہ کسی بھی مقصد کے تحت کوئی سفر کیوں نہ کر رہا ہو یعنی یہ تجارتی نوعت کا سفر ہو یا کوئی اور سفر۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں مروی آثار میں سفر کی کسی صورت میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ایک شخص بحرین کی طرف تجارت کی غرض سے سفر کیا کرتا تھا اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ میں کتنی رکعت پڑھا کروں۔ آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ دو رکعتیں پڑھا کرو۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ یہ دونوں حضرات طائف کی طرف جب گئے تھے تو قصر پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ صرف حج یا جہاد کے سفر میں قصر کرو۔ عطاء سے مروی ہے کہ میرے خیال میں صرف وہی شخص قصر کرے جو اللہ کے راستے میں سفر کر رہا ہو۔ اگر یہ کہ جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف حج یا جہاد کے سفر میں قصر کیا تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ در اصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج یا جہاد کے سوا اور کسی مقصد کے لیے کبھی سفر نہیں کیا تھا لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قصر صرف حج یا جہاد کے سفر تک محدود ہے۔ حضرت عمر (رض) کا یہ قول ہے کہ ” تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سفر کی نماز دو رکعت ہے “۔ اس میں سفر کی تمام صورتوں کے لیے عموم ہے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) بھی سفر کی تمام صورتوں کے لیے عام ہے۔ اسی طرح آپ کا اہل مکہ سے یہ فرمانا کہ ” تم اپنی نماز پوری کرلو ہم مسافر لوگ ہیں “ اور یہ نہ فرمایا کہ ہم لوگ حج کے سفر میں ہیں “۔ اس بات کی دلیل ہے کہ قصر کا حکم تمام مسافروں کے لیے عام ہے۔ چونکہ اس حکم کا تعلق سفر کے ساتھ ہے اس لیے ضروری ہے کہ سفر کی تمام صورتوں کے لحاظ سے اس حکم میں کوئی فرق نہ کیا جائے جس طرح موزوں پر تین دنوں تک مسح کرنے کا حکم ہے۔ جو لوگ قول باری ( واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصدوا من الصلوٰۃ) کی تاویل میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد رکعتوں کی تعداد میں قصر ہے وہ بھی سفر کی تمام صورتوں میں قصر کے لیے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہیں جبکہ مسافر کو دشمن کا خوف لاحق ہو۔ پھر جب یہ بات صلوۃ الخوف میں اس صورت کے اندر ثابت ہے جب اس کا سفر تقرب الٰہی کے سوا کسی اور کام کے لیے ہو تو سفر کی تمام صورتوں مییں اس بات کا ثابت ہونا واجب ہے اس لیے کہ کسی نے بھی ان دونوں میں فرق نہیں کیا ہ اور ہم نے یہ بیان کردیا ہے قصر رکعتوں کی تعداد کے اندر نہیں ہوتی۔ ہم نے سفر کی تمام صورتوں میں قصر کے حکم کا جو ذکر کیا ہے بشرطیکہ سفر تین دنوں کا ہو، وہ ہمارے اصحاب ، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے ۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص شکار کے لیے سفر کررہا ہے جبکہ شکار ہی اس کا ذریعہ معاش ہو تو وہ قصر کرے گا لیکن اگر شوق پورا کرنے کی غرض سے گھر سے نکلا ہو تو مجھے اس کا قصر کرنا پسند نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی گناہ کی خاطر سفر کرے گا تو قصر نہیں کرے گا اور نہ ہی موزوں پر مسافروں کی طرح تین دنوں تک مسح کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سورة بقرہ میں بیان کردیا تھا کہ یہ بات مضطر یعنی وہ شخص جس پر اضطراری کیفیت طاری ہو اس کے بارے میں ہے۔ ڈرائیور کیسے قصرکریں کشتی کے ملاح کے متعلق اختلاف رائے ہے کہ آیا وہ کشتی کے اندر قصر پڑھے گا یا نہیں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب وہ کشتی میں سفر پر ہوگا تو قصر پڑھتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اپنے گائوں کے قریب پہنچ جائے پھر وہ پوری نماز پڑھے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کشتی کے اندر ہی اس کا بسیرا ہو اور بال بچوں کے ساتھ اس میں رہتا ہو تو کشتی کرائے پر دینے کی صورت میں وہ قصر پڑھے گا اور اس مقام پر واپس پہنچ کر پوری نماز پڑھے گا جہاں سے اس نے کشتی کرائے پر دی تھی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر کشتی سا کا ٹھانہ اور گھر ہو اور اس کے سوا اس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو تو وہ اس کشتی میں مقیم کی حیثیت کا حامل ہوگا اس لیے کشتی میں رہتے ہوئے اتمام کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ملاح کا مالک سفینہ ہونا اسے سفر کے حکم سے خارج نہیں کرتا۔ جس طرح اونٹوں کا مالک اونٹوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے اس کی یہ حالت اسے سفر کے حکم سے خارج نہیں کرتی۔ ہم نے سورة بقرہ میں روزے کے احکام بیان کرتے وقت سفر کی مدت کے بارے میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ ہمارے اصحاب نے سفر میں قصر کے لیے تین دن تین راتوں کی مدت کی شرط مقرر کی ہے سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک نے اس کے لیے اڑتالیس میل کی طرح رکھی ہے۔ اگر میلوں کا حساب نہ ہو سکے تو پھر ایک دن ایک رات کی مسافت کی شرط ہے جو قافلے والے طے کرتے ہیں۔ لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی کے نزدیک ایک پوریدن کی شرط ہے۔ امام شافعی کے نزدیک چھیالیس ہاشمی میلوں کی شرط ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے تین دنوں کی روایت منقول ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے ایک دن ایک رات کی روایت منقول ہے۔ اس مدت کے بارے میں فقہا میں اختلاف رائے ہے جس میں وہ اتمام کرے گا۔ ہمارے اصحاب اور ثوری کا قول ہے کہ مسافر اگر پندرہ دنوں کی اقامت کی نیت کرے گا تو اتمام صلوٰۃ کرے گا۔ اگر اس سے کم دنوں کی نیت ہو تو قصر کرے گا۔ امام مالک اور شافعی کا قول ہے کہ جب چار دنوں کے لیے اقامت کی نیت کرے گا تو نماز پوری پڑھے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر تیرہ دنوں کی نیت کرے گا تو اتمام کرے گا اور اگر اس سے کم کی نیت ہو تو قصر کرے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مسافر کا گزر اس شہر سے ہو جس میں اس کے اہل و عیال رہتے ہوں اور وہ اپنا سفرجاری رکھے تو جب تک وہ وہاں دس دنوں تک قیام نہیں کرے گا، قصر کرتا رہے گا ۔ اگر وہ وہاں دس دن یا اس سے زائد قیام کرے گا تو نماز پوری پڑھے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اس طرح وہاں سے نکلنے تک آپ کا قیام چار دنوں سے زیادہ رہا اور آپ قصر پڑھتے رہے، یہ چیز چار دنوں کی مدت کے اعتبار کے سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ نیز امام ابوحنیفہ نے عمر بن زر سے رایت کی ہے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے کہ ان دونوں حضرات نے فرمایا : جب تم کسی شہر میں مسافر بن کر پہنچو اور تمہارے دل میں وہاں پندرہ دنوں کے قیام کی نیت ہو تو پوری نماز ادا کرو اور اگر تمہیں پتہ نہ ہو کہ کب کوچ کرو گے تو قصر پڑھو “۔ سلف میں سے کسی سے بھی اس روایت کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ اس لیی اس کی حجیت ثابت ہوگئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ عطاء خراسانی نے سعید بن المسیب سے ان کا یو قول نقل کیا ہے کہ جو شخص سفر کی حالت میں کسی جگہ چار دن قیام کا ارادہ کرلے تو وہ پوری نماز ادا کرے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہسیم نے دائود بن ابی ہند کے واسطے سے سعید بن المسیب سیروایت کی ہے کہ مسافر جب پندرہ دن یا رات کی اقامت کرلے گا تو وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس سیکم کی صورت میں قصر کرے گا۔ اگر ہم سعید بن المسیب کی ان دونوں روایتوں کو ایک دوسرے کی متعارض قرار دیں تو یہ دونوں روایتیں ساقط ہوجائیں گی اور یوں سمجھ لیا جائے گا کہ ان سے اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں ہے اور اگر تعارض کے بغیر ان سے روایت کا ثبوت ہوجائے تو اس کا حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کے خلاف ہونا درست نہیں ہوگا۔ نیز اقامت اور سفر کی مدتوں کا تعین قیاس کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ اس کا تعین یا تو توقیف کے ذریعے ہوسکتا ہے یا اتفاق امت کے ذریعے۔ پندرہ دنوں کی مدت پر امت کا اتفاق موجود ہے اور اس سے کم کی مدت مختلف فیہ ہے اس لیے یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ پندرہ دنوں کا قیام اقامت صحیحہ ہے اور اس سے کم کی مدت ثابت نہیں ہو سکے گی۔ اسی طرح سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ تین دنوں کا سفر درست سفر ہے جس کے ساتھ قصر کا حکم متعلق ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روزہ چھوڑنے کا حکم بھی متعلق ہوتا ہے ۔ اس سے کم کی مدت مختلف فیہ ہے اس لیے وہ ثابت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١) سفر کی حالت میں رباعی (چار رکعتوں والی) نماز میں قصر کردینے میں کوئی گناہ نہ سمجھو اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ نماز کی حالت میں کفار تمہیں قتل کردیں گے کیوں کہ وہ کھلے دشمن ہیں تو اس طرح نماز خوف ادا کرو، جس طرح کہ اللہ نے بتلائی ہے۔ شان نزول : (آیت) ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ بنی نجار نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سفر میں کس طرح نماز پڑھیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا یعنی جب تم سفر کرو سو تمہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ تم نماز کو کم کردو۔ اس کے بعد وحی بند ہوگئی پھر جب ایک سال کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد کیا اور ظہر کی نماز پڑھی تو مشرکین نے کہا کہ اس وقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کرنے کا یہ مناسب موقع ہے تو پھر کیوں نہ زبردست قسم کا حملہ کردیں تو ان میں سے کسی نے کہا ان لوگوں کے مجاہدین کی اتنی جماعت ان کی حفاظت میں بھی کھڑی ہے۔ اس پر دونوں نمازوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ان خفتم “۔ سے لے کر ” عذابا مھینا “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں، چناچہ اس وقت نماز خوف کا حکم نازل ہوگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اس رکوع میں پھر شریعت کے کچھ احکام اور عبادات کی کچھ تفاصیل ہیں۔ گویا خطاب کا رخ اب پھر اہل ایمان کی طرف ہے ۔ آیت ١٠١ (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِق) (اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط) (اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ) یہ تو ہے حالت سفر میں قصر صلوٰۃکاحکم۔ لیکن جنگ کی حالت میں قصر یعنی صلوٰۃ الخوف کا طریقہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔ حالت جنگ میں جب پورے لشکر کا ایک ساتھ نماز پڑھنا ممکن نہ رہے تو گروہوں کی شکل میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن ایسی صورت میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی لشکر میں موجود ہوتے تو کوئی ایک گروہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ سکتا تھا ‘ جبکہ دوسرے گروہ کے لوگوں کو لازماً محرومی کا احساس ہوتا۔ لہٰذا اس مسئلے کے حل کے لیے صلوٰۃ الخوف ادا کرنے کی بہت عمدہ تدبیر بتائی گئی ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

132. Shortening Prayers (qasr) while travelling in peace-time consists of praying two rak'ahs at those appointed times when one is normally required to pray four rak'ahs. The form of qasr during a state of war has not been specified. Prayers should, therefore, be performed as circumstances permit. People should pray in congregation if possible, otherwise individually. If it is not possible to turn towards the qiblah, one may keep the direction in which one happens to be facing. One may even pray while seated either on the back of an animal or on a vehicle. If actual bowing and prostrating are not possible, they may be performed with hand signals. If absolutely necessary, one may even pray while walking. One may also pray even though one's clothes are soiled with blood. If, in spite of these relaxations, a man still fails to manage to perform a Prayer within the prescribed time, he may defer it, following the precedent set by the Prophet (peace be on him) during the Battle of the Ditch. There is disagreement as to whether one should also perform the sunnah (recommended) Prayers, or confine oneself to the obligatory ones. It is established that the practice of the Prophet (peace be on him) was to keep up the sunnah connected with the fajr (morning) Prayers, and with the witr in the 'isha' (evening) Prayers. At the other prescribed times, he performed only the obligatory Prayers. He did, however, perform the nafl (supererogatory) Prayers whenever he had the chance to do so, sometimes even while he was mounted. For this reason 'Abd Allah b. 'Umar expressed the opinion that one ought not to perform the sunnah Prayers while travelling, except for the sunnah in the fajr Prayers. But a majority of scholars consider both the performance and the omission of these Prayers as equally permissible, leaving the matter entirely to the discretion of the individual. The opinion held by the Hanafi school, however, is that it is preferable for a traveller actually on the move to omit the sunnah Prayers, but when he makes an overnight stop and is at his ease (even though in the legal sense he may still be a traveller), their performance is preferable. According to some eminent jurists, journeys on which one may resort to qasr are those characterized as being fi sabil Allah (in the cause of God), such as military expeditions, Pilgrimage, the quest for knowledge, and so on. This is the judgement of 'Abd Allah b. 'Umar, 'Abd Allah b. Mas'ud and 'Ata'. On the other hand, Shafi'i and Ahmad b. Hanbal are of the view that such permission extends to all journeys undertaken for lawful purposes, though not to those undertaken for unlawful purposes: indeed, if one travels for illegitimate purposes, one has no right whatever to benefit from the relaxation of qasr. Hanafi jurists, however, do not connect qasr with the purpose of the journey; they consider it lawful on all journeys, regardless of the purposes for which they are undertaken. They hold that a traveller may be either rewarded or punished by God, depending on his purpose in travelling. That, however, has nothing to do with the permissibility of qasr. (See the commentaries on the verse by Qurtubi, Ibn Kathir and Jassas. See also Ibn Rushd, Biddy at al-Mujtahid, vol. 1, p. 163 - Ed.) Other eminent jurists have inferred from the words: 'And there is no blame on you . . . ' that qasr is not obligatory for a traveller: it is merely permitted. A person may avail himself of it if he chooses, and he may also perform his Prayers normally if he so wishes. This is the view of Shafi'i, even though he considers qasr recommended and holds its omission to be tantamount to failure to adopt the preferable alternative. According to Ahmad b. Hanbal, however, while qasr is not obligatory, its omission falls under the category of disapproved acts. In Abu Hanifah's opinion, qasr is obligatory, and according to one report, Malik is of the same opinion. (See the commentaries on the verse by Qurtubi, Jassas and Ibn al-'Arabi. See also al-Fiqh 'aid al-Madhdhib al-Arba'ah, vol. 1, p. 471, and n. 1, pp. 471-3 and Ibn Rushd, vol. 1, p. 161 - Ed.) It is established by the Hadith that the Prophet (peace be on him) always shortened his Prayers during his journeys. There is no reliable tradition to the effect that the Prophet (peace be on him) ever prayed four full rak'ahs in these circumstances. Ibn 'Umar states that he accompanied the Prophet (peace be on him) as well as Abu Bakr, 'Umar and 'Uthman on their journeys, and never saw any of them fail to shorten their Prayers. A number of authentic traditions which have come down from Ibn 'Abbas and several other Companions corroborate this. When 'Uthman prayed four rak'ahs in Mina on the occasion of Hajj, some Companions objected to his not shortening the Prayer. 'Uthman convinced them that he had not made any mistake in so doing by arguing that he had got married in Makka and he had heard from the Prophet (peace be on him) that the place a person married in was in a sense his home. In that respect he was, therefore, not a traveller. (See the commentaries on the verse by Qurtubi, Jassas and Ibn Kathir, and the chapters on 'Salat al-Qasr' in the major collections of Hadith - Ed.) In opposition to these numerous traditions are two from 'A'ishah which indicate that it is equally valid both to shorten the Prayers and to do them in full. These traditions, however, have weak links in their transmission and are also opposed to the authenticated practice of 'A'ishah herself. It is also true that there are intermediary states between travel and non-travel. During a temporary stop, it is quite proper for a man to shorten his Prayers on some occasions and on others to complete them. It depends upon the circumstances. It is probably in this context that 'A'ishah states that the Prophet (peace be on him) sometimes shortened his Prayers and sometimes performed them in full. The Qur'anic expression in the verse 'there shall be no blame' also occurs in the Qur'anic verse on the ritual of running between Safa and Marwah (see Surah al-Baqarah 2: 158). The actual words used in both verses apparently mean that these acts were not blameworthy even though the running, as we know, is part of the prescribed rites of Pilgrimage and is obligatory: We can appreciate the significance of both these Qur'anic verses if we remember that the purpose in each case is to dispel the misunderstanding that the acts concerned might either entail some sin or jeopardize a man's reward. Another question in. regard to qasr is: What is the minimum travelling distance in which Prayers may be shortened? The Zahiri school recognizes no limit at all: any travelling validates the shortening of Prayers. According to Malik, however, one may not shorten Prayers if the distance involved is either less than forty-eight miles (seventy-seven kilometers) or involves travelling for less than a day and a night. This is also the opinion of Ahmad b. Hanbal and Ibn 'Abbas and a statement in support of it has also come down from Shafi'i. The Companion Anas considers it permissible to shorten Prayers if the travelling distance is fifteen miles. Awza'i, Zuhri and 'Umar consider one day's travelling to be sufficient; Hasan al-Basri says that the journey should be two days long, and Abu Yusuf says that it should be more than two days. According to Abu Hanifah, one may shorten the Prayers on any journey in which one has to travel for three days either on foot or by camel, i.e. a distance of eighteen farsakh. Ibn 'Umar, Ibn Mas'ud and 'Uthman agree with this view. (See the commentary on the verse by Qurtubi and Jassas. See also al-Fiqh 'aid al-Madhahib al-Arba'ah, vol. 1, pp. 472 ff. and Ibn Rushd, vol. 1, pp. 163 ff. - Ed.) If one stops over en route to one's destination, how long may one stay in one place and still be allowed to shorten one's Prayers? On this question, too, a variety of opinions have been expressed. Ahmad b. Hanbal is of the opinion that if a man decides to stay for four days, he should perform his Prayers in full. Malik and Shafi'i are of the opinion that a man may not shorten his Prayers if he decides to stay at a place for more than four days. Awza'i and Abu Hanifah are respectively of the opinion that if a person intends to stay at a place for more than thirteen or fifteen days, he should pray in full. No categorical injunction has come down from the Prophet (peace be on him) on this matter. All jurists agree, however, that if a man has been held up somewhere and cannot proceed because of some constraint, he may shorten his Prayers indefinitely provided he is in a constant state of readiness to undertake the journey back to his home as soon as the constraint is removed. Instances are reported of Companions who continued to shorten their Prayers for two years in this kind of circumstance. Treating the situation of a prisoner as analogous to this, Ahmad b. Hanbal holds that he may shorten his Prayers throughout the period of his imprisonment. (For legal discussions on the questions discussed here see the commentaries on the verse by Ibn Kathir, Jassas, Qurtubi and Ibn al-'Arabi. See also Ibn Rushd, vol. 1, pp. 160-5 - Ed.) 133. The Zahiris and Khawarij have interpreted this to signify that the injunction of shortening Prayers is confined to war-time alone and that it is against the Qur'an to shorten Prayers while travelling in peace-time. But it is established by an authentic tradition that when 'Umar mentioned this misgiving to the Prophet (peace be on him), he said: "This is a charitable gift to you from God, so accept His charitable gift.' (Muslim, 'Salat al-Musafirin', 12; Abu Da'ud, 'Salat al-Safar', 1; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 3, pp. 129 and 190 - Ed.) It is more or less established by an overwhelmingly large number of traditions that the Prophet (peace be on him) shortened his Prayers in times of both war and peace. Ibn 'Abbas states categorically that the Prophet (peace be on him) left Madina with the intention of performing Pilgrimage to the Ka'bah, and during this journey he prayed two rak'ahs (instead of four) even though he could have nothing to fear except God. (See Nasa'i, 'Taqsir al-Salah', 1 - Ed.) It is for this reason that I have added the word 'especially' in brackets to the text of the translation:

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :132 زمانہ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں ۔ اور حالت جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں ، نماز پڑھی جائے ۔ جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی ۔ قبلہ رخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رخ ہو ۔ سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو ۔ رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی ۔ ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو ۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں ۔ ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پر خطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جا سکے تو مجبوراً موخر کی جائے جیسے جنگ خندق کے موقع پر ہوا ۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ سفر میں صرف فرض پڑھے جائیں یا سنتیں بھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشاء کے وتر کا تو التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض پڑھتے تھے ، سنتیں پڑھنے کا التزام آپ سے ثابت نہیں ہے ۔ البتہ نفل نمازوں کا جب موقع ملتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے ، حتٰی کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھتے رہتے تھے ۔ اسی بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے ۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسے بندے کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کر رہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر منزل کرے اور اطمینان حاصل ہو تو پڑھنا افضل ہے ۔ جس سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے اس کے لیے بعض ائمہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے ، جیسے جہاد ، حج ، عمرہ ، طلب علم وغیرہ ۔ ابن عمر ، ابن مسعود رضی اللہ عنہما اور عطا کا یہی فتویٰ ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سفر کسی ایسے مقصد کے لیے ہونا چاہیے جو شرعاً جائز ہو ، حرام و ناجائز اغراض کے لیے جو سفر کیا جائے اس میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جا سکتا ہے ، رہی سفر کی نوعیت ، تو وہ بجائے خود ثواب یا عتاب کی مستحق ہو سکتی ہے ، مگر قصر کی اجازت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ بعض ائمہ نے ”مضائقہ نہیں“ ( فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ ) کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض اس کی اجازت ہے ۔ آدمی چاہے تو اس سے فائدہ اٹھائے ورنہ پوری نماز پڑھے ۔ یہی رائے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے ، اگرچہ وہ قصر کرنے کو افضل اور ترک قصر کو ترک اولیٰ قرار دیتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک قصر کرنا واجب تو نہیں ہے مگر نہ کرنا مکروہ ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قصر کرنا واجب ہے اور یہی رائے ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں اور کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے قصر نہ کیا ہو ۔ اسی کی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے متعدد صحابہ سے بھی مستند روایات منقول ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں پڑھائیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کیا کہ میں نے مکہ میں شادی کر لی ہے ، اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں متأَ مِّل ہوا ہو وہ گویا اس شہر کا باشندہ ہے ، اس لیے میں نے یہاں قصر نہیں کیا ۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور اتمام دونوں درست ہیں ، لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کےعلاوہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں ۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ ایک حالت بین السفر والحضر بھی ہوتی ہے جس میں ایک ہی عارضی فرودگاہ پر حسب موقع کبھی قصر اور کبھی اتمام دونوں کیے جا سکتے ہیں ، اور غالباً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی حالت کے متعلق فرمایا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی ۔ رہے قرآن کے یہ الفاظ کہ”مضائقہ نہیں اگر قصر کرو“ تو ان کی نظیر سورہ بقرہ رکوع ۱۹ میں گزر چکی ہے جہاں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے گئے ہیں ، حالانکہ یہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور واجب ہے ۔ دراصل دونوں جگہ یہ کہنے کا مقصود لوگوں کے اس اندیشہ کو دور کرنا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں کوئی گناہ تو لازم نہیں آئے گا یا ثواب میں کمی تو نہ ہوگی ۔ مقدار سفر جس میں قصر کیا جاسکتا ہے ، ظاہریہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے ، ہر سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ٤۸ میل یا ایک دن رات سے کم کے سفر میں قصر نہیں ہے ۔ یہی رائے امام احمد رحمہ اللہ کی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ایک قول اس کی تائید میں مروی ہے ۔ حضرت اَنَس ۱۵ میل کے سفر میں قصر کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ امام اَوزاعی اور امام زُہری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو لیتے ہیں کہ ایک دن کا سفر قصر کے لیے کافی ہے ۔ حَسن بصری دو دن ، اور امام ابو یوسف دو دن سے زیادہ کی مسافت میں قصر جائز سمجھتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جس سفر میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوں ( یعنی تقریباً ۱۸ فرسنگ یا ۵٤ میل ) اس میں قصر کیا جا سکتا ہے ۔ یہی رائے ابن عمر ، ابن مسعود اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی ہے ۔ اثنائے سفر میں دوران قیام جس میں قصر کیا جا سکتا ہے مختلف ائمہ کے نزدیک مختلف ہے ۔ امام احمد کے نزدیک جہاں آدمی نے چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی ۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک جہاں چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو وہاں قصر جائز نہیں ۔ امام اوزاعی ۱۳ دن اور امام ابو حنیفہ ۱۵ دن یا اس سے زیادہ کی نیت قیام پر پوری نماز ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے ۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبوری دور ہوتے ہی وطن واپس ہو جائے گا تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ بلا تعین مدت قصر کیا جاتا رہے گا ۔ صحابہ کرام سے بکثرت مثالیں ایسی منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حالات میں دو دو سال مسلسل قصر کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اسی پر قیاس کر کے قیدی کو بھی اس کے پورے زمانہ قید میں قصر کی اجازت دیتے ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :133 ظاہریوں اور خارجیوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالت جنگ کے لیے ہے اور حالت امن کے سفر میں قصر کرنا قرآن کے خلاف ہے ۔ لیکن حدیث میں مستند روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہی شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ ۔ ”یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے ، لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو ۔ “ یہ بات قریب قریب تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور خوف دونوں حالتوں کے سفر میں قصر فرمایا ہے ۔ ابن عباس تصریح کرتے ہیں کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج من المدینۃ الیٰ مکۃ لا یخاف الا ربّ العٰلمین فصلی رکعتین ۔ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت ربّ العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا ، مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں “ ۔ اسی بنا پر میں نے ترجمہ میں خصوصاً کا لفظ قوسین میں بڑھا دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

63: اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز آدھی کردی ہے۔ اسے قصر کہا جاتا ہے۔ عام سفروں میں قصر ہر حالت میں واجب ہے، چاہے دشمن کا خوف ہو یا نہ ہو لیکن یہاں ایک خاص قسم کے قصر کا ذکر مقصود ہے جو دشمن کے مقابلے کے وقت ہی ہوسکتا ہے، اس میں یہ چھوٹ بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا لشکر دو حصوں میں تقسیم ہو کر ایک ہی امام کے پیچھے باری باری ایک ایک رکعت پڑھے، اور دوسری رکعت بعد میں تنہا پوری کرے جس کا طریقہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ خاص قسم کا قصر جسے صلاۃ الخوف کہتے ہیں دشمن کے مقابلے کی حالت ہی میں ہوسکتا ہے، اس لیے یہاں قصر کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی ہے کہ اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں پریشان کریں گے۔ (ابن جریر) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر صلاۃ الخوف پڑھی ہے۔ اس کا مفصل طریقہ احادیث اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر ابن جریر میں حضرت علی (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ بنی نجار قبیلہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت ہم لوگ سفر کرتے رہتے ہیں سفر میں ہم نماز کیوں کر پڑھا کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا وہ ٹکڑا نازل فرمایا جس میں نماز کے قصر کرنے کا حکم ہے پھر اس کے ایک برس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لڑائی پر تشریف لے گئے۔ دشمنوں کے عین مقابلہ کے وقت آپ نے ظہر کی نماز پڑہی نماز کے وقت تو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی عقل پر پردہ ڈال دیا۔ لیکن جب آپ اور صحابہ کرام جماعت کی نماز پڑھ چکے تو خالد بن ولید نے جو مشرکوں کے لشکر کے سردار تھے بڑے افسوس کے ساتھ اپنے لشکر والوں سے یہ کہا کہ جس وقت سب مسلمان صف باندھ کر نماز میں مشغول تھے اس وقت ان کی پشت کی طرف سے ان پر حملہ کرنے کا خوب موقع تھا پھر یہ بھی کہا کہ تھوڑی دیر میں اور دوسری نماز کا موقعہ ہے۔ جس نماز کو مسلمان لوگ اپنی جان اور اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے ظہر اور عصر کے ما بین میں یہ صلوٰۃ الخوف کا حکم نازل فرمایا ٢۔ اور جس طرح مشرکوں نے عصر کی نماز کے وقت مسلمانوں کی پشت کی طرف سے حملہ کرنے کا منصوبہ کیا تھا۔ وہ موقع ان کو نہیں ملا۔ اگرچہ حافظ ابن کثیر نے اس شان نزول کی روایت کو غریب کہا ہے لیکن اور صحیح روایتوں میں اس کی تائید ہوتی ہے۔ چناچہ صحیح مسلم اور سنن میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے قصر نماز میں خوف کی قید کی بابت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ بغیر خوف کے سفر میں نماز کا قصہ کرنا۔ یہ صدقہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کی ایک مہربانی ہے اس کو قبول کرنا چاہیے ٣۔ حضرت عمر (رض) کی یہ حدیث بہت صحیح ہے ائمہ حدیث نے بالاتفاق اس کی صحت بیان کی ہے۔ اور اس صحیح حدیث سے اوپر کی شان نزول کی روایت کے اس ٹکڑے کی پوری تائید ہوتی ہے کہ بغیر حالت خوف کے سفر میں قصر نماز جائز ہے رہا اس شان نزول کا دوسرا ٹکڑا کہ ایک لڑائی میں ظہر اور عصر کے ما بین میں صلوٰۃ الخوف کا حکم ہوا اس کی تائید آئندہ کی آیت کی شان نزول سے ہوسکتی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل بھی یہی پایا جاتا ہے کہ حالت سفر میں آپ اکثر قصر کیا کرتے تھے ١۔ رہی یہ بات کہ کس قدر مسافت کے سفر میں قصر نماز پڑھنی چاہیے اس باب میں حضرت انس (رض) کی صحیح مسلم کی روایت سے بڑھ کر کوئی صحیح روایت نہیں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تین میل یا نو میل کی مسافت کی سفر میں آپ قصر کیا کرتے تھے ٢۔ اس سے زیادہ کی تفصیل اس مسئلہ کی بڑی کتابوں میں ہے ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:101) ضربتم فی الارض (سبب) تم زمین میں سفر کرو۔ ضرب فی الماء پانی میں تیرنا۔ تقصروا من الصلوۃ۔ تم قصر کرو نماز میں۔ یعنی نماز کو مختصر کرلو۔ یغتنکم۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر مفعول ۔ جمع مذکر حاضر۔ فتن وفتون مصدر باب ضرب۔ کہ تم کو پریشانی میں ڈال دیں گے۔ مصیبت میں مبتلا کردیں گے۔ آیت ہذا میں کلام ان خفتم ۔۔ کفروا۔ کلام ما قبل سے منفصل ہے اور کلام مابعد سے متصل۔ اس صورت میں یہ شرط ہے اور جواب شرط اس کے بعد محذوف یعنی ” تو بھی قصر نماز کرلو۔ اور اگر اس کو کلام ماقبل کے ساتھ لیا جاوے تو مطلب ہے “ تم قصر نماز کرسکتے ہو جب تم حالت سفر میں ہو اور جب دشمنوں کی طرف سے تکلیف و گزند کا اندیشہ ہو۔ بحرکیف بحالت سفر اور بحالت خوف کفار۔ دونوں حالتوں میں قصر جائز ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کی بجائے دو رکعت پڑھنے کا نام قصر ہے تم پر کچھ گناہ نہیں کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں۔ اس کی صرف اجازت ہے یہی اکثر علمانے سلف کا مسلک ہے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی احمد بن جنبل اور اکثر محدثین کے نزدیک قصر افضل ہے، بعض علما نے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث فرضت الصلوٰۃ رکعیتن ( کہ نماز دو رکعت فرض ہوئی) کے پیش نظر قصر کو واجب مانا ہے مگر حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث کے متن میں اضطراب ہے اور حضرت عائشہ (رض) کا عمل اور فتویٰ اس کے خلاف ہے اور پھر حضرت ابن عباس (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) قصر کو سنت کہتے ہیں ناین المذھب عن قولھا۔ ) قرطبی) سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے جسے عرمیں سفر کہا جاتا ہو اب رہی میلوں کی یا دونوں کی مقدار کی تعین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی صریح حدیث میں بنا بریں جن ائمہ اور علمانے کسی مقدار کی تعین کی ہے انہوں نے عموما نبی صلعم کے سفروں کے دیکھتے ہوئے اپنے اجتہادی سے کی ہے تاہم سب سے بہتر دلیل مقداد سفر میں صحیح مسلم میں حدیث انس (رض) ہے جس کی رو سے نو کوس تک کا سفر ہونا چاہیے نیز کسی صحیح حدیث میں نبی صلعم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنت ادا کی ہو ہاں رات کے وقت اور صبح کی سنتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زادالمعاد) صحابہ (رض) میں سے ابوبکر (رض) ، عمر (رض) اور ابن عمر (رض) کا اسی پر عمل تھا (بخاری) البتہ بعض صحابہ (رض) سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں سنتیں اور نفل پڑھا کرتے تھے اس لیے یہ جائز ہیں۔ مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کریگا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے (مسند احمد)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 15 آیات 101 تا 104 ۔ اسرار و معارف : واذا ضربتم ۔۔۔ علیما حکیما۔ اللہ کریم نے جہاں دین میں استقامت اور ہمت و جرات کا حکم فرمایا ہے وہاں رخصتیں بھی دی ہیں۔ رعایتیں بھی برتی ہیں جیسے حدیث معراج میں مشہور واقعہ ہے کہ پچاس نمازوں کا حکم ہوا ایک رات دن میں پڑھی جائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کمی کی درخواست کرنے کا مشورہ دیا الغرض بار بار جانا آنا ہوا حکم ہوا چالیس کردیتے ہیں پھر تیس ، بیس ، دس ، حتی کہ پانچ تو روایات میں ملتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا یا رسول اللہ پانچ بھی زیادہ ہیں۔ میری امت دو کا حق بھی ادا نہ کرسکی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب مزید درخواست کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ پچاس سے پانچ تو کروا لیں۔ اللہ کریم کو یہ ادا بہت پسند آئی اور فرمایا تیرے اس شرم کے صدقے اب پانچ ادا کریں گے۔ مگر اجرپچاس کا دوں گا۔ ثواب اتنا ہی عطا کروں گا جتنا پچاس پہ کرنا تھا۔ لہذا جس طرح عزیمت پر عمل کرنے سے ثواب ہوتا ہے۔ رخصت پہ عمل میں بھی اسی طرح ثواب حاصل ہوتا ہے۔ یہاں ایسے ہی رعایت عطا کی گئی جس کی وجہ تو ہجرت کے سفر اور جہاد کے سفر بنے مگر ہر قسم کے سفر میں اس کا فائدہ عام ہوگیا کہ حالت سفر میں نماز کی رکعات کو کم کرلیا کرو یعنی چار کی جگہ دو رکعت ادا ہوں اگر موقع نصیب ہوسنت ، نوافل ادا کرے تو پورے کرے گا مگر فرض چار کی جگہ دو ۔ صبح کے پہلے ہی دو ہیں اور مغرب کے تین ہی پڑھے جائیں گے۔ علماء کے مطابق سفر تین منزل ہونا چاہئے۔ جبکہ ایک منزل تقریبا سولہ میل شمار ہوتے ہیں اور شہر سے نکلتے ہی نماز قصر شروع ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی جگہ پندرہ روز یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا پروگرام بن گیا تو مقیم یعنی وہاں کا رہنے والا شمار ہوگا اور نماز پوری پڑھے گا۔ ورنہ دو رکعت ہی ادا کرے گا۔ حتی کہ اگر دوران سفر قضا ہوگئی تو بھی قصر ہی کی قضا پڑھی جائے گی۔ غرض فقہی تفصیل دوسری جگہوں پہ دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا مقصود تھا کہ حالت سفر میں رعایت فرما دی لیکن حاضری سے چھٹی نہیں دی کہ آدمی سے نماز معاف ہوجائے ہرگز نہیں اور دوسری صورت سفر ہجرت میں بھی پیش آسکتی ہے اور جہاد کے سفر میں بھی وہ ہے کافروں سے نقصاں پہنچنے کا اندیشہ کہ مسلمان تو سارے سر بسجود ہوں کفار ٹوٹ پڑیں اور گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیں کیونکہ کافروں کی دشمنی میں تو کوئی شبہ نہیں نہ ان سے کسی رعایت کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ اب دیکھئے یہاں کس قدر خطرناک حد تک حالات نازک ہیں مگر ارشاد ہوتا ہے اے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ ساتھ ہوں مراد یہ کہ آپ نہ ہوں تو جو امیر و امام ہو نماز شروع کرے مگر ایک جماعت نگہبانی کے لیے اسلحہ سے لیس کھڑی رہے اور ایک جماعت آپ کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے یہ لوگ بھی اپنا اسلحہ اپنے پاس رکھیں اور جب ایک رکعت ادا ہوچکے تو یہ لوگ پہرے پہ چلے جائیں۔ اور دوسرے ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کرلیں پھر امام تو فارغ ہوجائے گا۔ یہ اپنی دو پوری کریں گے۔ پھر پہلے والے آ کر ایک رکعت مزید ادا کریں گے۔ تو اس طرح کفار کی طر ف پوری پوری نگاہ بھی رہے گی اور اللہ کی عبادت بھی ہوگی۔ یعنی اسلام نہ عبادت چھوڑنے کی رخصت دیتا ہے نہ عملی زندگی سے فرار کا کوئی راستہ بلکہ اللہ کی یاد کے ساتھ بھرپور عملی زندگی جو اطاعت رسول کا نمونہ وہی اسلام ہے۔ چونکہ کافر کی خواہش ہے اور رہے گی کہ وہ اسلام کا نام تک مٹا دیں اس لیے مسلمان کو ہمیشہ مسلح بھی رہنا چاہئے اور اسلحہ کے استعمال سے آگاہی بھی حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اسلام کی حفاظت کی جائے تو اب ضروری ہے کہ اس کی عملی زندگی میں اسلام موجود ہو اگر اسلام ہی نہ ہوگا تو پھر وہ یہ سب کچھ کرے گا کس لیے سو عین حالت جنگ میں گولہ باری بھی جاری رکھو۔ باری باری نماز بھی دوگانہ ادا کرلو کہ سفر کی طرح حالت خوف میں بھی قصر ہی پڑھی جائے گی۔ ورنہ کافر تو چاہتے ہیں کہ تم سب عبادت میں لگ جاؤ تو تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں بلکہ ان آیات کے شان نزول میں اس طرح کا واقعہ ملتا ہے کہ کافر حالات کا مشاہدہ کرتے رہے اور آخر یہ فیصلہ کیا کہ جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ مگر اللہ کریم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع فرما دیا اور آئندہ یہ احتیاطی طریقہ تعلیم فرما دیا کہ ایک ایک رکعت با جماعت اور ایک ایک اپنی پڑھ لیں۔ چار کی دو پڑھ لیں مگر چھوڑ نہ دیں ، اب ذرا ہمیں ، میری مراد اس دور کے مسلمان سے ہے غور کرنا چاہئے کہ کیا ہمارے کردار میں نماز کی یہی اہمیت ہے ہاں اور رعایت بھی ہے کہ بارش وغیرہ یعنی موسمی خرابی ہتھیار لگانے سے مانع ہے یا کسی بیماری اور مرض کی وجہ سے ہتھیار نہیں لگا سکتے تو کھول کر رکھ لو۔ چونکہ اس دور کے ہتھیار تو بدن پر سجائے جاتے تھے۔ اس لیے اجازت ہے پورے ہتھیار نہ لگاؤ مگر اس قدر ضرور لے لو جس سے کم از کم دفاع تو کرسکو۔ بچاؤ تو کرسکو۔ یہ بات طے ہے کہ ذلت کافر کا مقدر ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ مگر دنیا عالم اسباب ہے تمہیں سبب اختیار کرکے اللہ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ یہی توکل ہے اور آخرت انعام باری ہے۔ دنیا میں اطاعت کرنے کا۔ سو یہ دو کام تم کرو۔ کافروں کا انتظام ہم کریں گے۔ نہ صرف دنیا میں ذلیل ہوں گے بلکہ آخرت میں اس سے بڑھ کر ذلیل ہوں گے۔ اب جو یہ دو کام تمہارے ذمے لگ گئے بھلا یہ کیسے ہوں گے مشکل لگتے ہیں۔ اوقات عبادت میں عبادت ، کام کے وقت کام ، وہاں رسومات سے اجتناب ، یہاں حرام سے پرہیز سوچ اور آرزو تک پر پابندی پھر اس کے ساتھ کفر سے ہمہ وقت مقابلہ جان کا خوف الگ یہ آسان کام نہیں۔ فرمایا اس کا بھی ایک نسخہ ہے کہ نماز تو ادا کی ختم ہوگئی مگر اللہ کا ذکر تو ختم نہیں ہوتا۔ اللہ کا ذکر کرو اس شدت سے اس کثرت سے کہ کھڑے بیٹھے لیٹے کوئی حال اللہ کی یاد اس کے نام ، اس کے ذکر ، سے خالی نہ ہو اس کو اس کے نام کو اس کی تجلیات کو دل میں بسا لو ، سمو لو ، اپنے اندر جذب کرلو۔ پھر دیکھو کس قدر سکون ملتا ہے ، کتنا اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ذرا پھر نماز پڑھ کے دیکھو کچھ حالت بدل گئی یا نہیں۔ یہاں جو لوگ نماز کو ذکر کا بدل قرار دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ بیک وقت نہ صرف نماز بلکہ صلوۃ الخوف کا بیان ہو رہا ہے جو حالت جہاد میں ادا کی جاتی ہے۔ پھر بھی حکم ہے نماز ختم ہوگئی ذکر الہی ختم نہیں ہوتا لڑ رہے ہو حملہ کر رہے ہو گر رہے ہو یا لیٹ گئے ہو آرام کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ زخمی ہو کر گر گئے ہو روح پرواز کے لیے پر تول رہی ہے مگر ذکر الہی جاری رہے پتہ نہیں جو حضرات لوگوں کو ذکر الہی سے روکتے ہیں وہ ان آیات سے کیسے گذر جاتے ہیں۔ پھر جب سکون ہو پوری اور باقاعدہ نماز ادا کرو اور یہ بھی درست ہے کہ ذکر مسلسل سے بھی نماز کی کیفییات میں فرق آئے گا جب اطمینان نصیب ہوگا تو سجدوں میں اور سی لذت ہوگی اور نماز تو اس کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا فرض ہے۔ یعنی اپنی شرائط اور اوقات کے ساتھ نماز کی ادائیگی تو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اور کفار کے تعاقب میں کبھی سستی مت دکھاؤ۔ اگر تمہیں تکالیف ہیں ، تھکاوٹ ہے یا زخمی ہو یا راشن اور کھانے پینے کی اشیاء کی کمی کا سامنا ہے تو یہی شمکلات ان کے لیے بھی تو موجود ہیں کہ آخر وہ بھی تو حالت جنگ میں ہیں۔ اور تمہیں اللہ کریم سے کتنی نوازشوں کی امید ہے۔ کس قدر امیدوارِ کرم ہو حتی کہ دیدار باری کی تمنا لیے بیٹھے ہو انہیں تو ایسی کوئی امید بھی نہیں جو میدان جنگ میں ان کی ڈھارس ہی بندھا سکتی۔ اللہ کریم سب کچھ جانتے بھی ہیں اور بہت بڑے حکمت والے بھی ہیں۔ سو ہر ایک کو اس کے عمل اور اس کی نیت ، اس کے خلوص کا بدلہ دیں گے نیز اتنا ہی کام بھی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جتنی اللہ کی طرف سے قوت کار عطا ہوتی ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 101-104 لغات القرآن : ان تقصروا، یہ کہ تم قصر کرو۔ کنت، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ اسلحۃ، ہتھیار۔ یمیلون، وہ حملہ کرتے ہیں۔ میلۃ واحدۃ، ایک دفعہ حملہ۔ مطر، بارش۔ تالمون، تم تکلیف میں ہو۔ ترجون، تم امید رکھتے ہو۔ تشریح : ان آیات میں قصر نماز اور صلوۃ خوف کا ذکر ہے ۔ سفر میں اور خوف میں دونوں حالات میں نماز مختصر بھی ہے اور مخصوص بھی۔ کتنے دور کے سفر میں قصر ہے، کتنا قصر ہے۔ کن نمازوں میں قصر ہے۔ کتنے دنوں کے قیام سے قصر ٹوٹتا ہے ، کیا قصر لازم ہے وغیرہ وغیرہ ان سوالات کے جواب مختلف آئمہ فکر نے قدرے اختلافات کے ساتھ دئیے ہیں۔ ایک بات ظاہر ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور چاروں خلفائے راشدین نے بھی اسی پر عمل کیا ہے۔ صلوۃ خوف میں جب کہ انسانی یا حیوانی دشمن کا خطرہ لگا ہو تو۔ ان آیات میں جو حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے تو تمام ائمہ فقہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی جاری وساری ہے اور امام وقت اس کو نافذ کرے گا۔ جب قصر اور خوف کی کیفیت ختم ہوجائے ، تو پھر پوری نماز پڑھنی پڑے گی۔ جہاد میں قصر اور خوف دونوں کیفیات عموماً ہوا کرتی ہیں۔ جب کہ ایک شخص سفر میں ہو تو قصر نماز امن کی حالت میں بھی پڑھنے کا حکم ہے۔ آیت نمبر 104 غالباً اس وقت اتری ہے جب دشمنوں کے تعاقب کرنے کا سوال درپیش تھا اور مسلمان اپنی تھکاوٹ اور سازوسامان کی کمی کی وجہ سے پس و پیش کر رہے تھے۔ یہ صورت جنگ احد کے فوراً بعد پیش آئی ہے ۔ اس آیت نے واضح حکم دے دیا۔ چناچہ تعاقب کیا گیا۔ اس تعاقب کا سب سے بڑا نتیجہ جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ مشرکین مکہ جو پلٹ کر پھر مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر رہے تھے بھاگ کر مکہ واپس چلے گئے۔ اور آئندہ سال ابو سفیان بدر صغریٰ کے لئے آنے کی ہمت نہ کرسکا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ جس کی مقدار تین منزل ہو۔ 6۔ ظہر وعصر و عشاء کے فرض کی رکعات چار کی جگہ دو پڑھا کرو۔ 1۔ جو سفر تین منزل سے کم ہو اس میں نماز پوری پڑھی جاتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین اپنے ماننے والوں کو بےجا تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ حالت جنگ میں اور سفر کے دوران آدمی تکلیف میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاد ‘ اور سفر کی حالت میں نماز جیسی عظیم عبادت میں تخفیف فرما دی گئی ہے۔ ایمان لانے کے بعد مسلمانوں پر سب سے زیادہ زور نماز کی ادائیگی اور اس کے قیام پر دیا گیا ہے۔ قیام صلوٰۃ سے مراد اس کے ارکان کی سنت کے مطابق ادائیگی اور اس کے روحانی اور معاشرتی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہر قسم کی رعایت بخشی گئی۔ حالت مجبوری میں نماز کے لیے تیمم ہی کافی سمجھا گیا۔ کسی وجہ سے قبلہ کی طرف منہ کرنا مشکل ہو تو یہ شرط بھی ختم کردی گئی۔ نماز میں قیام اور رکوع و سجود کرنے فرض ہیں۔ لیکن کوئی شخص کھڑا نہیں ہوسکتا تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے ‘ بیٹھ کر نماز ادا نہیں ہوتی تو لیٹ کر ادا کرے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو اشارے کے ساتھ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ لیکن نماز چھوڑنا کفر کے مترادف قرار پایا۔ لہٰذا نماز بقائمی ہوش و حواس ہر حال میں فرض ہے اور اسے جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ حالت جنگ میں خوف، اضطراب اور عجلت ہوتی ہے۔ اور حالت سفر میں بھی آدمی کو منزل مقصود تک پہنچنے کی جلدی اور گھر سے دور ہونے کی وجہ سے اضطراب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نہایت مہربانی فرماتے ہوئے سفر میں قصر کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ حالت جنگ میں ناصرف نماز فرض ہے بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہوا ہے چاہے اسلحہ اٹھا کر ہی پڑھنی پڑے۔ تاہم اس کی رکعات میں تخفیف کردی گئی کہ حالت جنگ میں سنن اور نوافل کی ادائیگی معاف کرنے کے ساتھ فرض کی چار رکعات کو دو میں تبدیل کردیا گیا یہاں تک کہ شدید ہنگامی حالات میں ایک رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ حالت جنگ میں نماز باجماعت کی ادائیگی کی کئی صورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں جن میں چند ایک صورتیں درج ذیل ہیں : ١۔ کچھ مجاہد امام کے ساتھ نماز ادا کریں اور باقی پہرہ دیں اور امام دو رکعت پڑھ کر بیٹھا رہے اس کے ساتھ پڑھنے والے مجاہد دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر دوسرے لوگ آکر امام کی تیسری اور چوتھی رکعت کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کریں۔ اس طرح امام کی چار اور مجاہدین کی دو دورکعت نماز ہوگی۔ ٢۔ امام دو رکعت نماز پڑھائے گا ایک جماعت اس کے ساتھ ایک رکعت مکمل کرنے کے بعد پیچھے ہٹ کر دوسری رکعت از خود پڑھے گی۔ اب باقی لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کرنے کے بعد دوسری رکعت خودمکمل کریں گے۔ اور امام دو رکعت کے بعد سلام پھیرے گا۔ ٣۔ تیسری صورت میں سب لوگ امام کے ساتھ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے۔ پہلی صفوں کے لوگ امام کے ساتھ سجدہ کریں گے جبکہ پچھلے لوگ اسی طرح کھڑے رہیں گے۔ اب یہ لوگ آگے بڑھ کر سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور پہلے لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہو کر قیام اور رکوع کرنے کے بعد کھڑے رہیں گے۔ اب یہ لوگ سجدے کرتے ہوئے تشہد بیٹھنے کے بعد امام کے ساتھ اکٹھے سلام پھیریں گے۔ (مشکوٰۃ باب نماز خوف) ٤۔ شدید خوف، گھمسان کا رن یا موجودہ طرز جنگ کے مطابق فوجی اپنے اپنے مورچوں میں جس حالت میں مناسب سمجھیں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ بیشک تیمم کے ساتھ جوتوں سمیت پڑھنی پڑھے۔ مجبوری کی حالت میں قبلہ کی پابندی بھی اٹھا دی گئی۔ فرمان عالی ہے : (اَےْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ) [ البقرۃ : ١١٥] ” تم جس طرف بھی اپنے چہرے کرو گے اسی طرف ہی اللہ تعالیٰ کی توجہ کار فرما ہوگی۔ “ یہ رعایتیں اس لیے عنایت فرمائیں کہ کفار کی یہ خواہش ہے کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی غافل پا کر یکبارگی حملہ کرکے ختم کردیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی بقا اور ہر لحاظ سے ترقی اور ان کا تحفظ چاہتا ہے۔ جس کی وجہ سے عبادت کے دوران بھی دفاع سے غفلت کی اجازت نہیں دی گئی۔ کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے دفاعی اور حربی طاقت کو بڑھاتے اور آج غیروں کے سامنے سرنگوں اور ذلیل نہ ہوتے۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان میں موجود ہوں تو بنفس نفیس امامت کروائیں کیونکہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی کا مقام نہیں کہ وہ امامت و قیادت کرے۔ اسی سے استدلال کرتے ہوئے صحابہ (رض) نے آپ کے جسد اطہر کے ہوتے ہوئے صرف درود پڑھا تھا۔ نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ یہاں یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ سرکاری افسران اور قوم کے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ میں اتنی صلاحیت پیدا کریں کہ وہ امامت کروائیں۔ جب سے دینی اور دنیوی قیادت الگ الگ ہوئی۔ اسی وقت سے مذہب اور سیاست میں تفریق پیدا ہوئی۔ سیاست بےدین لوگوں کی وجہ سے کرپشن اور فساد کا منبع بنی اور امامت غریب لوگوں کی بنا پر غیر اہم ہوگئی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسفار کو سامنے رکھتے ہوئے مسافت کے تعین میں علماء کرام کی مختلف آراء ہیں امام بخاری (رض) ‘ امام احمد بن حنبل (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) ٤٨ میل جبکہ دوسرے علماء شہر کی حدود سے باہر عرب کے ٩ میل، ہمارے پرانے ساڑھے تیرہ میل اور موجودہ پیمائش کے مطابق (تقریباً ٢٢ کلو میٹر) کے قائل ہیں۔ بعض علماء علمی موشگافیوں میں پڑ کر یہ کہتے ہیں کہ اس وقت سفر کی سہولتوں کا فقدان تھا۔ آج سڑکیں ہموار اور سواریاں تیز رفتار ہیں اس وجہ سے ٩ میل کی مسافت پر قصر نہیں کرنا چاہیے بعض علماء تو اس طرح نماز پڑھنے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت کے پیش نظر کوئی مخصوص علاقہ یا زمانہ نہیں ہوتا۔ آج بھی پہاڑی علاقوں میں پگڈنڈیوں کے ذریعے ٩ میل بالخصوص میدانی علاقے کے رہنے والوں کے لیے دل ہلا دینے والا سفر ہے۔ شریعت کا مطمع نظر لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ لہٰذا شریعت کے مقصد کو فوت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ کیونکہ خالق کائنات کو معلوم تھا اور ہے کہ دنیا میں کون کون سی ایجادات ہوں گی۔ اس لیے شریعت کو مکمل سمجھنا چاہیے اور اپنی طرف سے قیل و قال کر کے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہییں۔ قصر کتنے دن ؟ جس طرح مسافت کی تعیین میں علماء کے مختلف خیالات ہیں اسی طرح قصر کے ایام کے بارے میں اختلافات ہیں کیونکہ بعض وجوہات کی وجہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قصر کے ایام میں کمی بیشی ثابت ہے جو لوگ تین سے زیادہ دن قصر کرنے کے قائل ہیں وہ اپنے موقف کی تائید میں انہی روایات کا حوالہ دیتے ہیں جو علماء تین دن کے قائل ہیں وہ ان روایات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تردد کی کیفیت میں تھے جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ پر پندرہ سے انیس دن قصر کرنے کی روایات ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ انتظامی امور نمٹانے کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تردد میں تھے کہ آج رخصت ہوتے ہیں یاکل۔ ایسی صورت میں پندرہ یوم کجا کئی مہینے بھی قصر کی جاسکتی ہے لہٰذا تین دن کے قائل علماء کے دلائل یہ ہیں کہ آپ نے مہمان نوازی تین دن قرار دی ہے۔[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق ] اس کے بعد مہمان کے ساتھ مقیم جیسا سلوک کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح حج کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد تھا کہ مکہ سے باہر رہنے والے لوگ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں۔[ رواہ النسائی : کتاب تقصیر الصلاۃ فی السفر ] کیونکہ صحابہ مکہ سے ہجرت کرچکے تھے اس لیے تین دن سے زیادہ ٹھہرنا مقیم ہونے کے مترادف ہوگا۔ سفر میں نفلی نماز : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) یَقُوْلُ صَحِبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَانَ لَایَزِیْدُ فِي السَّفَرِ عَلٰی رَکْعَتَیْنِ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ کَذٰلِکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب من لم یتطوع في السفر دبرا لصلاۃ وقبلھا ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابو بکر، عمر عثمان (رض) کے ساتھ رہا ہوں وہ سفر میں صرف دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ “ دو نمازوں کو اکٹھا کرنا : (عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَیْنٍ (رض) أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّسِیْرَ یَوْمَہٗ جَمَعَ بَیْنَ الظُّھْرِ وَالْعَصْرِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَّسِیْرَ لَیْلَہٗ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ ) [ مؤطا امام مالک : کتاب النداء للصلاۃِ ] ” حضرت علی بن حسین (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دن کے وقت سفر کا ارادہ کرتے تو ظہر اور عصر کی نماز کو جمع فرماتے اور جب رات کو سفر کرنا چاہتے تو مغرب اور عشاء کی نماز کو اکٹھا کرتے تھے۔ “ مسائل ١۔ سفر کے دوران نماز قصر کرنے کی اجازت ہے۔ ٢۔ کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے۔ ٣۔ کافر مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ٤۔ جنگ کے دوران حالت نماز میں اسلحہ پہنے رکھنے کی اجازت ہے۔ ٥۔ مسلمانوں کو سستی اور غفلت کی بنا اپنے آپ پر کفار کو حملہ کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ ٦۔ بارش اور جسمانی تکلیف کی وجہ سے حالت نماز میں اسلحہ رکھ دینا جائز ہے۔ ٧۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو امامت کے فرائض خود سر انجام دینے چاہییں۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠١۔ جو شخص مسافر ہو ‘ اسے اپنے رب کے ساتھ دائمی تعلق کی ضرورت ہے ‘ تاکہ اللہ اس پر سفر کی مشکلات میں آسانیاں پیدا کر دے ۔ اس کی تیاریوں میں اس کی مداد ہو ‘ سامان سفر فراہم ہو اور راستے کی مشکلات اللہ اس کے لئے آسان کر دے ۔ نماز تعلق باللہ کا موثر ترین ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مشکلات اور تکالیف میں نماز سے امداد حاصل کریں ۔ جب خوف کا مقام ہو اور جب زندگی کی مشقتوں کا سامنا ہو تو حکم ہے کہ نماز سے معاونت حاصل کرو۔ (آیت) ” واستعنوا بالصبر والصلوۃ) (نماز اور صبر کے ذریعے اللہ کی امداد طلب کرو) یہی وجہ ہے کہ سفر و جہاد کے اس موضوع کے متصلا بعد اللہ تعالیٰ نے نماز کا ذکر کیا ۔ ایسے حالات میں نماز ایک مومن کا نہایت ضروری ہتھیار ہوتی ہے ۔ اگر کسی کو راستے میں خوف اور خطرے کے حالات درپیش ہوں تو ایسے حالات میں اسے صرف اللہ کی یاد سے اطمینان ہوتا ہے ۔ جو شخص اپنے ملک کو چھوڑتا ہے اس کے لئے اللہ کی درگاہ میں پہنچ جانا ہی باعث اطمینان ہوتا ہے ۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ ہے کہ کامل نماز اور پورے رکوع اور سجود کے ساتھ نماز کی وجہ سے کبھی ہو سکتا ہے کہ ایک مومن پر دشمن حملہ آور ہوجائیں جو کہیں قریب ہی چھپے ہوں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دشمن اسے پہچان لیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طویل رکوع اور سجود میں اسے پکڑ لیں ‘ چناچہ جو لوگ جہاد کے لئے نکلیں ان کے لئے جائز ہے کہ وہ خوف کے وقت نماز کو مختصر کردیں ۔ یہاں قصر کے مفہوم اور تفسیر میں ہم اسی بات کو ترجیح دیتے ہیں جسے جصاص نے لیا ہے کہ اس قصر سے مراد رکعات میں قصر نہیں ہے اس لئے کہ یہ تو مطلق مسافر کے لئے جائز ہے خواہ حالت خوف ہو یا نہ ہو ‘ بلکہ سفر میں تو قصر لازمی ہے ۔ جس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصر فرمائی اور ہر سفر میں فرمائی اس لئے کہ سفر میں راجح اقوال کے مطابق پوری رکعات پڑھنا جائز ہی نہیں ہے ۔ لہذا یہاں حالت خوف میں قصر سے مراد بالکل دوسری ہوگی اور یہ قصر مسافر کی قصر سے مختلف ہوگی ۔ یہ قصر نماز کی کیفیت میں ہوگی مثلا رکوع ‘ سجود اور قیام میں نہایت ہی سکون سے یہ ارکان سرانجام دینے میں قصر ہوگی ۔ یوں حالت خوف میں مسافر کے لئے چلتے ہوئے ‘ سواری کی حالت میں اور صرف اشارے سے بھی نماز جائز ہوگی اور اس طرح وہ اپنے رب کے ساتھ جڑا ہوا رہے گا ۔ حالت خوف اور حالت فتنہ میں بھی وہ اس ضروری ہتھیار سے مسلح ہوگا اور دشمن کے مقابلے میں محتاج بھی ہوگا اس لئے کہ (آیت) ” ان الکفرین کانوا لکم عدوامبینا “۔ (٤ : ١٠١) (بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں) مسافر اور مجاہد کی نماز میں حالت خوف میں قصر کے حکم کے بعد اور اسی مناسبت سے معرکہ کارزار میں اب صلوۃ الخوف کا حکم بھی یہاں دیا جاتا ہے ۔ اس خالص فقہی حکم کے اندر بھی نفسیاتی اور تربیتی اشارات کا وافر ذخیرہ دستیاب اور موجود ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سفر میں نماز قصر پڑھنے کا بیان جہاد اور ہجرت میں چونکہ سفر در پیش ہوتا ہے اس لیے ہجرت کے ساتھ سفر میں نماز قصر کرنے کا حکم بھی بیان فرما دیا۔ بموجب احکام کتاب و سنت مسلمان ہمیشہ نماز پڑھتے آئے ہیں۔ قصر صرف چار رکعت والی نماز میں ہے یعنی ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعتوں کے بجائے دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے ان کو سفر میں بھی پورا ہی پڑھنا فرض ہے۔ اگر مسافر کسی مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے بھی امام کی اقتداء میں چار رکعت والی نماز پوری پڑھنی فرض ہے۔ مقیم اگر مسافر کے پیچھے اقتداء کرلے تو جب امام دو رکعت پر سلام پھیرے تو مقیم مقتدی کھڑے ہو کر اپنی چار رکعت پوری کرنے کے لیے باقی رکعات پڑھے۔ ہر سفر میں قصر پڑھنا درست نہیں ہے اگر تین منزل کا سفر ہو تو قصر کرنا درست ہے ایک منزل سولہ میل کی لینے سے مسافت قصر ٤٨ میل ہے اور کلومیٹر کے حساب سے ٨٨ کلومیٹر ہے یہ مسافت قصر ہے، اتنی مسافت کے لیے جب اپنی بستی کی حدود سے نکل جائے تو نماز سفر شروع کر دے اگرچہ ذرا دور ہی پہنچا ہو اور جب تک کسی بستی یا شہر میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے۔ نماز قصر ہی پڑھتا رہے۔ اگر کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلی تو وہاں سے چلنے تک ہر نماز پوری پڑھے قصر نہ کرے۔ سفر میں سنتیں پڑھنے کا حکم : سنتوں میں قصر نہیں ہے البتہ اگر جلدی ہو سواری چھوٹ جانے کا ڈر ہو تو سنتیں بالکل ہی چھوڑی جاسکتی ہیں، اطمینان ہو اور جلدی کا تقاضا نہ ہو تو سنتیں بھی پڑھ لے البتہ وتر ہرگز نہ چھوڑے اور فجر کی سنتیں بھی اہتمام سے پڑھ لے، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں دو رکعت نماز ظہر پڑھی اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور عصر کی دو رکعتیں آپ کے ساتھ پڑھیں اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی اور مغرب کی سفر اور حضر میں تین رکعت نماز پڑھی ان میں سفر اور حضر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی تھی اور یہ دن کے وتر ہیں اور ان کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ (رواہ الترمذی صفحہ ١٠٥) حضرت براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اٹھارہ دن سفر میں رہا، میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلنے کے بعد دو رکعتیں چھوڑی ہوں۔ معلوم ہوا کہ سفر میں سنتیں پڑھنا بھی مشروع ہے۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں : ثم اختلف اھل العلم بعد النبی فرای بعض اصحاب النبی ان یتطوع الرجل فی السفروبہ یقول احمد واسحق ولم یرطائفۃ من اھل العلم ان یصلی قبلھا ولا بعدھا و معنی من لم یتطوع فی السفر قبول الرخصۃ و من تطوع فلہ فی ذلک فضل کثیر وھو قول اکثر اھل العلم یختارون التطوع فی السفر۔ مسافر اگر پوری چار رکعت پڑھ لے ؟ قرآن مجید کے انداز بیان سے معلوم ہو تاکہ اگر کافروں کے فتنے میں ڈالنے یعنی تکلیف پہنچانے کا اندیشہ ہو تو نماز قصر کرنے کی اجازت ہے اسی لیے حضرت یعلی بن امیہ نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو یوں ارشاد فرمایا ہے (اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ امن وامان ہو تو قصر نہ ہو) اب تو امن وامان ہوگیا (لہٰذا پوری پڑھنی چاہیے) حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے بھی اس بات سے تعجب ہوا تھا جس سے تمہیں تعجب ہو رہا ہے (کہ اب امن وامان ہے۔ لہٰذا پوری نماز پڑھا کریں) میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سوال کیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے لہٰذا اللہ کا صدقہ قبول کرو۔ (رواہ مسلم صفحہ ٢٤١: ج ١) اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ کافروں کی طرف سے فتنے میں ڈالنے کی شرط جو الفاظ قرآن سے مفہوم ہو رہی ہے یہ شرط ابتداء تھی بعد میں یہ شرط نہیں رہی اور نماز قصر مستقل ایک حکم بن گئی اور مسافت قصر کے سفر پر ہی قصر کا مدار رہ گیا۔ کسی قسم کا کوئی خوف اور کافروں کی فتنہ گری نہ ہو تب بھی چار رکعت والی نماز قصر ہی پڑھی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ سے مدینہ کا سفر فرمایا اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ تھا۔ آپ دو ، دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے۔ (مجمع الزوائد صفحہ ١٥٦: ج ٢) حضرت حارثہ بن وہب (رض) نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں اور یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ لوگ خوب زیادہ امن وامان میں تھے (رواہ مسلم صفحہ ٢٤٣: ج ١) دوسرے یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بصیغہ امر ارشاد فرمایا فاقبلوا صدقتہ کہ اللہ کے صدقے کو قبول کرو، اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ قصر کرنا واجب ہے۔ مسافر پوری نماز پڑھ لے گا تو اچھا نہ کرے گا۔ اور چونکہ اس پر دو رکعتیں فرض ہیں اسی لیے دو رکعتوں پر ہی اس کا قعدہ اخیرہ ہے اگر دوسری رکعت پر بیٹھے بغیر کھڑا ہوگیا اور اس طرح چار رکعتیں پڑھ لیں تو دوبارہ نماز پڑھے کیونکہ ترک فرض ہوگیا اور ترک فرض ہوجائے تو سجدہ سہو سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوتی۔ اور عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں رہا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعتوں سے زیادہ (چار رکعت والی فرض) نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی اور حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ رہا ہوں انہوں نے سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ (فرض) نماز نہیں پڑھی اور حضرت عمر (رض) کے ساتھ رہا ہوں، انہوں نے بھی سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ (فرض) نماز نہیں پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اٹھا لیا اور حضرت عثمان (رض) کے ساتھ رہا ہوں انہوں نے بھی سفر میں دو رکعت سے زیادہ (فرض) نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) (البتہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی ذات شریفہ میں اسوہ حسنہ یعنی اچھی اقتدارء ہے) ۔ (صحیح مسلم صفحہ ٢٤٢: ج ١) حضرت عثمان (رض) اپنے آخری زمانہ خلافت میں چار رکعتیں پڑھنے لگے تھے (صحیح مسلم صفحہ ٢٤٣: ج ١) اس پر لوگوں کو اشکال ہوا تو جواب میں کہا گیا کہ انہوں نے تاویل کرلی ہے۔ یہ تاویل خود حضرت عثمان (رض) سے مروی ہے۔ مجمع الزوائد صفحہ ١٥٦: ج ٢ میں مسند احمد سے نقل کیا ہے کہ عبدالرحمن بن ابی ذباب نے بتایا کہ حضرت عثمان (رض) نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تو لوگوں نے اس کو اچھا نہیں جانا حضرت عثمان (رض) نے جب لوگوں کی طرف سے انکار دیکھا تو فرمایا کہ میں نے مکہ میں وطن بنا لیا ہے اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو کسی شہر میں وطن بنالے تو وہاں مقیم والی نماز پڑھے، حضرت عثمان (رض) کا تاویل کرنا اور وطن بنانے کی نیت کرکے چار رکعت پڑھنا اور حاضرین کا پوری نماز پڑھنے پر تعجب کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسافر کو قصر ہی پڑھنا لازم ہے اگر سفر میں چار رکعت والی نماز پوری پڑھنا جائز ہوتا یا افضل ہوتا تو حاضرین کو حضرت عثمان (رض) کے پوری نماز پڑھنے پر تعجب نہ ہوتا (جبکہ یہ حضرات صحابہ (رض) اور تابعین تھے) اور حضرت عثمان (رض) کو بھی تاویل نہ کرنی پڑتی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74 آٹھواں حکم سلطانی (جہاد کے لیے جارہے ہو تو نماز میں قصر کرو اور عین میدان جنگ میں نماز کا وقت آجائے اور دشمن کے حملے کا ڈر ہو تو نماز اس طرح ادا کرو) ۔ ان آیتوں میں قصر صلوۃ کا حکم دیا گیا اور صلوۃ الخوف کا طریقہ بتایا گیا ہے جب عین میدان جنگ میں نماز کا وقت آجائیگا تو نماز کی فرضیت اس وقت بھی ساقط نہیں ہوگی اور نماز اس حالت خوف میں بھی معاف نہیں ہوگی۔ جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں قصر صلوۃ سے چار کے بجائے دو رکعت پڑھنا مراد ہے لیکن شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ قصر سے اختصار قراءت مراد ہے اور اِنْ خِفْتُمْ کی قید احترازی نہیں بلکہ اتفاقی ہے اور قصر (دو گانے) کا حکم سفر جہاد سے مختص نہیں بلکہ ہر سفر میں قصر کا حکم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور جب تم ملک میں سفر کرو تو سفر کی حالت میں تم پر اس بات کا کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرلیا کرو یعنی جس میں چار فرض ہیں بجائے چار کے دو پڑھا کرو اور اگر تم اس بات کا خوف کرتے ہو کہ کافر تم کو اپنی شرارت سے کسی فتنے اور پریشانی میں مبتلا کریں گے بلاشبہ کافر تمہارے صریح اور کھلے ہوئے دشمن ہیں۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں سفر جو تین منزل کا ہو اس میں چار رکعت فرض آیا اس تقریب سے معافی ملی ہر وقت کو اور پوری نہ پڑھئے کہ اللہ صاحب کی بخشش سے بےپروائی ہوتی ہے اور سنت کا تقیہ سفر میں نہیں رہتا۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ شرعی سفر وہ معتبر ہے جو کم از کم تین منزل کا ہو تین منزل سے کم کا سفر قصر کے لئے کافی نہیں۔ قصر سے مراد یہ ہے کہ جن نمازوں کی چار رکعتیں فرض ہیں جیسے ظہر، عصر اور عشاء ان میں بجائے چار فرضوں کے دو فرض پڑھے جائیں اور کافروں کی شرارت کے اندیشہ کا ذکر اس وقت کے حالات کی بنا پر فرمایا ہے اب اگر یہ اندیشہ نہ بھی ہو تب بھی قصر کرنا ہوگا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے حنفیہ کے نزدیک سفر میں نماز کا قصر کرنا رخصت نہیں بلکہ عزیمت ہے یعنی یہ اختیار نہیں کہ چاہے دو پڑھے یا پوری چار پڑھ لے بلکہ دو ہی پڑھنی چاہئیں۔ سفر میں سنتوں کی تاکید باقی نہیں رہتی لیکن سنتوں میں قصر نہیں ہے اگر سنتیں نہ پڑھے تو مواخذہ نہیں لیکن پڑھے تو پوری پڑھے و ترچون کہ واجب ہیں اس لئے ان کی حالت بدستور رہے گی سفر خواہ خشکی کا ہو یا تری کا دونوں کا حکم یکساں ہے۔ مسافر جب کسی شہر یا قصبہ میں قیام پذیر ہو تو اگر پندرہ دن یا پندرہ دن سے زیادہ دن رہنے کی نیت کرے تو وہ شرعاً مسافر نہیں ہتا بلکہ وہ مقام جہاں اس نے پندرہ یا پندرہ دن سے زیادہ قیام کی نیت کی ہے وہ وطن اقامت ہوجاتا ہے۔ اور یہ جو فرمایا فلیس علیکم جناح اس کا یہ مطلب نہیں کہ چاہے قصر کرو یا نہ کروئی کوئی گناہ نہیں بلکہ یہ ایک شبہ کا جواب ہے کہ شاید قصر کریں اور چار کی بجائے دو رکعتیں پڑھیں تو کوئی گناہ ہو اس گناہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی گناہ نہیں بلکہ دو پڑھنی چاہئیں۔ حضرت یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم کو کافروں کی فتنہ پردازی کا اندیشہ ہو تو قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں اور اب تو امن حاصل ہوچکا ہے۔ حضرت عمر نے کہا مجھ کو بھی یہ خیال ہوا تھا تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا یہ ایک رعایت اور صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے لہٰذا تم اس کا صدقہ اور اس کی رعایت کو قبول کرو۔ (مسلم) اس روایت سے معلوم ہوا اگرچہ خاص حالات میں رعایت کا اعلان کیا گیا تھا مگر یہ رعایت ہر سفر میں دائماً ہے اس موقعہ پر اور بھی مختلف مباحث ہیں مزید تفصیل مطلوب ہو تو تفسیر مظہری اور کتب فقہ کا مطالعہ کیا جائے ہم ان میں سے بعض چیزوں کا ذکر سورة بقرہ میں روزے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے عرض بھی کرچکے ہیں اب آگے کفار کے خطرے کے وقت نماز کا طریقہ تعلیم فرماتے ہیں اور نماز کے اس طریقہ کو جو آگے مذکور ہوتا ہے صلوۃ الخوف کہتے ہیں۔ یہاں عام طور پر سفر کا لحاظ کرتے ہوئے دو رکعتوں کے پڑھنے کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے لیکن اگر سفر نہ ہو بلکہ مسلمانوں کو اپنی بستی کے قریب ہی جہاد کرنے کی نوبت آئے تو اسی طریقہ سے چار رکعتیں پڑھنی ہوں گی۔ یعنی بجائے ایک رکعت کے دو رکعتیں ایک گروہ امام کے ساتھ پڑھے گا اور دو رکعتیں دوسرا گروہ امام کے ساتھ ادا کرے گا۔ بہرحال ! اب صلوۃ الخوف کا طریقہ تعلیم فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)