Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 163

سورة النساء

اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ عِیۡسٰی وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡنُسَ وَ ہٰرُوۡنَ وَ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا ﴿۱۶۳﴾ۚ

Indeed, We have revealed to you, [O Muhammad], as We revealed to Noah and the prophets after him. And we revealed to Abraham, Ishmael, Isaac, Jacob, the Descendants, Jesus, Job, Jonah, Aaron, and Solomon, and to David We gave the book [of Psalms].

یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح ( علیہ السلام ) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی ، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اُن کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نےداؤد ( علیہ السلام ) کو زبور عطا فرمائی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Revelation Came to Prophet Muhammad , Just as it Came to the Prophets Before Him Muhammad bin Ishaq narrated that Muhammad bin Abi Muhammad said that Ikrimah, or Sa`id bin Jubayr, related to Ibn Abbas that he said, "Sukayn and Adi bin Zayd said, `O Muhammad! We do not know that Allah sent down anything to any human after Musa.' Allah sent down a rebuttal of their statement, إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ (Verily, We have inspired you (O Muhammad) as We inspired Nuh and the Prophets after him)." Allah states that He sent down revelation to His servant and Messenger Muhammad just as He sent down revelation to previous Prophets. Allah said, إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإْسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالاَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ... Verily, We have sent the revelation to you as We sent the revelation to Nuh and the Prophets after him; We (also) sent the revelation to Ibrahim, Ismail, Ishaq, Yaqub, and Al-Asbat, (the offspring of the twelve sons of Yaqub) `Isa, Ayub, Yunus, Harun, and Suleiman; ... وَاتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا and to Dawud We gave the Zabur. The Zabur (Psalms) is the name of the Book revealed to Prophet Dawud, peace be upon him. Twenty-Five Prophets Are Mentioned in the Qur'an Allah said,

نزول انبیاء ، تعداد انبیاء ، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سکین اور عدی بن زید نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نہیں‏ مانتے کہ حضرت موسیٰ کے بعد اللہ نے کسی انسان پر کچھ اتارا ہو ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ، محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں جب آیت ( يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ۚ وَاٰتَيْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا ١٥٣؁ وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِيْثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا ١٥٤؁ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٥٥؀۠ وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًا ١٥٦؀ۙ ) 4 ۔ النسآء:153 سے 156 ) تک اتری اور یہودیوں کے برے اعمال کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے صاف کر دیا کہ کسی انسان پر اللہ نے اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں فرمایا ، نہ موسیٰ پر ، نہ عیسیٰ پر ، نہ کسی اور نبی پر ، آپ اس وقت گوٹ لگائے بیٹھے تھے ، اسے آپ نے کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے آیت ( وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ) 6 ۔ الانعام:91 ) نازل فرمائی ، لیکن یہ قول غور طلب ہے اس لئے کہ یہ آیت سورہ انعام میں ہے جو مکیہ ہے اور سورہ نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے جو ان کی تردید میں ہے ، جب انہوں نے کہا تھا کہ آسمان سے کوئی کتاب آپ اتار لائیں ، جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا ۔ پھر ان کے عیوب بیان فرمائے ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کر دیں پھر فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی ۔ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ، ان انبیاء علیہم السلام کے قصے سورہ قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا ہے تعداد اختیار اور اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے پہلے بہت سے انبیاء کا ذکر ہو چکا ہے اور بہت سے انبیاء کا ذکر نہیں بھی ہوا ۔ جن انبیاء کرام کے نام قرآن کے الفاظ میں آ گئے ہیں وہ یہ ہیں ، آدم ، ادریس ، نوح ، ہود ، صالح ، ابراہیم ، لوط ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، شعیب ، موسیٰ ، ہارون ، یونس ، داؤد ، سلیمان ، یوشع ، زکریا ، عیسیٰ ، یحییٰ ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس ) اور ان سب کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا ، اسی وجہ سے انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے ، اس بارے میں مشہور حدیث حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے کہ آپ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کتنے ہیں؟ فرمایا تین سو تیرہ ، بہت بڑی جماعت ۔ میں نے پھر دریافت کیا ، سب سے پہلے کون سے ہیں؟ فرمایا آدم میں نے کہا کیا وہ بھی رسول تھے؟ فرمایا ہاں اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، پھر ان میں اپنی روح پھونکی ، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا پھر فرمایا اے ابو ذر چار سریانی ہیں ، آدم ، شیت ، نوح ، خضوخ جن کا مشہور نام ادریس ہے ، انہی نے پہلے قلم سے خط لکھا ، چار عربی ہیں ، ہود ، صالح ، شعیب اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اے ابو ذر بنو اسرائیل کے پہلے نبی حضرت موسیٰ ہیں اور آخری حضرت عیسیٰ ہیں ۔ تمام نبیوں میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری نبی تمہارے نبی ہیں ۔ اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے ۔ حافظ ابو حاتم نے اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے جس پر صحت کا نشان دیا ہے ، لیکن ان کے برخلاف امام ابو الفرج بن جوزی رحمتہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے بہت سے لوگوں نے ان پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے واللہ اعلم ، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے حضرت ابو امامہ سے بھی مروی ہے ، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں اور قاسم بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں ، ایک اور حدیث ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار نبی بھیجے ہیں ، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں زیدی اور ان کے استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں ، واللہ اعلم ، ابو یعلی کی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے بھائی گذر چکے ہیں ان کے بعد حضرت عیسیٰ آئے اور ان کے بعد میں آیا ہوں اور حدیث میں ہے میں آٹھ ہزار نبیوں کے بعد آیا ہوں جن میں سے چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب تو ضرور ہے لیکن اس کے تمام راوی معروف ہیں اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں بجز احمد بن طارق کے کہ ان کے بارے میں مجھے کوئی علالت یا جرح نہیں ملی ، واللہ اعلم ۔ ابو ذر غفاری والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے بارے میں ہے ، اسے بھی سن لیجئے ، آپ فرماتے ہیں میں مسجد میں آیا اور اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف فرما تے ، میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے نماز کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا ہاں وہ بہتر چیز ہے ، چاہے کوئی زیادتی کرے چاہے کمی میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کون سے اعمال افضل ہیں؟ فرمایا اللہ پر ایمان لانا ، اس کی راہ میں جہاد کرنا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا مسلمان اعلیٰ ہے؟ فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں میں نے پوچھا کونسی ہجرت افضل ہے؟ فرمایا برائیوں کو چھوڑ دینا میں نے پوچھا کونسی نماز افضل ہے؟ فرمایا لمبے قنوت والی میں نے کہا کونسا روزہ افضل ہے؟ فرمایا فرض کفایت کرنے والا ہے اور اللہ کے پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے میں نے پوچھا کونسا جہاد افضل ہے؟ فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے ۔ میں نے کہا غلام کو آزاد کرنے کے عمل میں افضل کیا ہے؟ فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو ۔ میں نے پوچھا صدقہ کونسا افضل ہے؟ فرمایا کم مال والے کا کوشش کرنا اور چپکے سے محتاج کو دے دینا ۔ میں نے کہا قران میں سب سے بڑی آیت کونسی ہے؟ فرمایا آیت الکرسی پھر آپ نے فرمایا اے ابو ذر ساتوں آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے مقابلے میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر ، بھی ایسی ہے جیسے وسیع میدان کی حلقے پر میں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کتنے ہیں؟ فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار میں نے کہا ان میں سے رسول کتنے ہیں؟ فرمایا تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت میں نے پوچھا سب سے پہلے کون ہیں؟ فرمایا آدم میں نے کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے؟ فرمایا ہاں انہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں صحیح تر بنایا ۔ پھر آپ نے فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں ، آدم ، شیث ، خنوخ اور یہی ادریس ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں ہود ، شعیب ، صالح اور تمہارے نبی ، سب سے پہلے رسول حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں؟ فرمایا ایک سو چار ، حضرت شیث علیہ السلام پر پچاس صحیفے ، حضرت خنوخ علیہ السلام پر تیس صحیفے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفے اور حضرت موسیٰ پر توراۃ سے پہلے دس صحیفے اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان ، میں نے کہا یا رسول اللہ حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا اس کی مرکزی تعلیم جبر سے مسلط بادشاہ کو اس کے اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا احساس دلانا تھا ۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے ہیں ۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو! دنیا کا مال جمع کرنے سے روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقل مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے ، دوسرے حصہ میں اپنے خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے ، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو ۔ عقل مند کو تین چیزوں کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہئے ، ایک تو آخرت کے زاد راہ کی فکر ، دوسرے سامان زیست اور تیسرے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے سرور و لذت ، عقل مند کو اپنے وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہئے ، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہئے ، وہ بہت کم گو ہو گا ، بات وہی کہو جو تمہیں نفع دے ، میں نے پوچھا موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا وہ عبرت دلانے والی تحریروں کا مجموعہ تھے ، مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے پھر بھی غافل ہے ، تقدیر کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مال دولت کے لئے پاگل ہو رہا ہے ، ہائے وائے میں پڑا ہوا ہے ، دنیا کی بےثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے ، قیامت کے دن حساب کو جانتا ہے پھر بےعمل ہے ، میں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگلے انبیاء کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے ہاتھوں میں ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں پڑھو آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ) 87 ۔ الاعلی:14 ) آخر سورت تک ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں ، یہی تیرے اعمال کی روح ہے ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں ، یہی تیرے اعمال کی روح ہے ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور بھی ، آپ نے فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے لئے آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے حصول کا سبب ہو گا ، میں نے پھر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مزید فرمایئے ، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے ، میں نے کہا پھر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مزید فرمایئے ، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے ، میں نے کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو ، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے ، میں نے کہا اور وصیت کیجئے فرمایا بھلی بات کہنے کے سوا زبان بند رکھو ، اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہو گی ۔ میں نے کہا کچھ اور بھی فرما دیجئے فرمایا اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر نظریں نہ ڈالو ، اس سے تمہارے دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہو گی ، میں نے کہا مجھے اور زیادہ نصیحت کیجئے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کے ساتھ بیٹھو ، اس سے اللہ کی رحمتیں تمہیں گراں قدر معلوم ہوں گی ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا قرابت داروں سے ملتے رہو ، چاہے وہ تجھ سے نہ ملیں میں نے کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے وہ کسی کو کڑوی لگے ، میں نے اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کر ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا اپنے عیبوں پر نظر رکھا کر ، دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہو ، پھر میرے سینے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے ابو ذر تدبیر کے مانند کوئی عقل مندی نہیں اور حرام سے رک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیز گاری نہیں اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی حسب نسب نہیں ۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری پوچھتے ہیں کیا خارجی بھی دجال کے قائل ہیں ، لوگوں نے کہا نہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن مجھ سے اللہ نے اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے جو کسی اور کو نہیں فرمائی سنو وہ بھینگا ہو گا اور رب ایسا ہو نہیں سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہو گی ، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے چونے کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اسکی بائیں آنھ ایک جگمگاتے ستارے جیسی ہے ، وہ تمام زبانیں بولے گا ، اس کے ساتھ سر سبز و شاداب جنت سیاہ دھواں دھار دوزخ نظر آئے گا ایک حدیث میں ہے ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں بلکہ زیادہ کا ۔ پھر فرمایا ہے موسیٰ سے خود اللہ نے صاف طور پر کلام کیا ۔ یہ ان کی خاص صفت ہے کہ وہ کلیم اللہ تھے ، ایک شخص حضرت ابو بکر بن عیاش رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے آیت ( وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:164 ) یعنی موسیٰ نے اللہ سے بات کی ہے ، اس پر آپ بہت بگڑے اور فرمایا یہ کسی کافر نے پڑھا ہو گا ۔ میں نے اعمش سے اعمش نے یحییٰ نے عبدالرحمٰن سے ، عبدالرحمٰن سے علی سے ، علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا ہے کہ آیت ( وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:164 ) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے مگر عجب نہیں کہ یہ کوئی معتزلی ہو ، اس لئے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ کسی اور سے ۔ کسی معتزلی نے ایک بزرگ کے سامنے اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے اسے ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بد دیانتی کیسے کرو گے؟ جہاں فرمایا ہے آیت ( وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ) 7 ۔ الاعراف:143 ) یعنی موسیٰ ہمارے وعدے پر آیا اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا ، مطلب یہ ہے کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں چلے گی ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے تھے ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد صحیح نہیں اور جب موقوفاً بقول ابی ہریرہ ثابت ہو جائے تو بہت ٹھیک ہے ۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے ۔ کہ کلیم اللہ سے جب اللہ نے کلام کیا وہ صوفی کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے کی کھال کی جوتیاں پہنے ہوئے تھے ، ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں حضرت موسیٰ سے کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں ، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں حضرت موسیٰ سے سنی نہیں جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی ، اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں ۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے حضرت جابر فرماتے ہیں جو کلام اللہ تعالیٰ نے طور والے دن حضرت موسیٰ سے کیا تھا یہ تو میرے اندازے کے مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے الگ تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے دس ہزار زبانوں کی قوت سے کلام کیا ہے حالانکہ مجھے تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے بلکہ ان سب سے بھی بہت زیادہ ۔ بنو اسرائیل نے آپ سے جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے فرمایا میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا انہوں نے کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو ، آپ نے فرمایا تم نے کڑاکے کی آواز سنی ہو گی ، وہ اس کے مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی ، اس کے ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں اور بہت ہی ضعیف ہیں ۔ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا ۔ حضرت کلیم اللہ نے پوچھا باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے؟ فرمایا نہیں اور نہ تو میرے کلام کی استقامت کر سکتا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے دریافت کیا کہ اسے رب تیری مخلوق میں سے کسی کا کلام تیرے کلام سے مشابہ ہے؟ فرمایا نہیں سوائے سخت تر کڑاکے کے ، یہ روایت بھی موقوف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت کعب اگلی کتابوں سے روایت کیا کرتے تھے جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں ۔ یہ رسول ہی ہیں جو اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضامندی کے متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور اس کے اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب اور سزا سے ڈراتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں اور اپنے رسول بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے اوامر و نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لئے کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّآ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى ) 20 ۔ طہ:134 ) یعنی اگر ہم انہیں اس سے پہلے ہی اپنے عذاب سے ہلاک کر دیتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجے جو ہم ان کی باتیں مانتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ، اسی جیسی یہ آیت بھی ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 28 ۔ القصص:47 ) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام برائیوں کو حرام کیا ہے خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں جسے بہ نسبت اللہ کے مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے کہ اس نے خود اپنی مدح آپ کی ہے اور کوئی ایسا نہیں جسے اللہ سے زیادہ ڈر پسند ہو ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اسی وجہ سے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

163۔ 1 حضرت ابن عباس (رض) ما سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ نازل نہیں کیا اور یوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی و رسالت سے بھی انکار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس میں مذکورہ قول رد کرتے ہوئے رسالت محمدیہ کا اثبات کیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١٦] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آپ پر وحی آنے کا طریق کار وہی تھا جو دوسرے انبیاء کے لیے تھا۔ اور یہ طریق کار سیدہ عائشہ (رض) کی زبان سے سنئے : ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پہلے جو وحی آپ پر شروع ہوئی وہ پاکیزہ خواب تھے۔ سوتے میں آپ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح واضح ہوتا۔ پھر آپ کو تنہائی پسند آنے لگی اور آپ غار حرا میں اکیلے رہنے لگے مسلسل کئی راتیں وہاں رہ کر عبادت کرتے۔ پھر جب توشہ ختم ہوجاتا تو سیدہ خدیجہ کے پاس لوٹ کر آتے اور اتنا توشہ اور لے جاتے۔ آپ اسی حال میں غار حرا میں تھے کہ آپ کے پاس فرشتہ آیا۔ جس نے کہا && اقرأ && آپ کہتے ہیں کہ میں نے کہا && میں پڑھا لکھا نہیں۔۔ (آگے تفصیل کے لیے دیکھئے سورة علق) ٢۔ وحی کے مختلف طریقے :۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے آپ سے پوچھا && یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ && آپ نے فرمایا && کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار۔ اور یہ وحی مجھ پر سخت ناگوار ہوتی ہے پھر جب فرشتے کی کہی ہوئی بات مجھے یاد رہ جاتی ہے تو یہ موقوف ہوجاتی ہے اور کبھی فرشتہ مرد کی صورت میں میرے پاس آتا ہے، مجھ سے بات کرتا ہے تو میں اس کی کہی ہوئی بات یاد کرلیتا ہوں۔ && سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جب سخت سردی کے دن میں آپ پر وحی اترتی، پھر جب موقوف ہوتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ نکلتا۔ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اس کے مضامین وہی کچھ ہیں جو سابقہ انبیاء کو وحی کیے جاتے رہے ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص آج بھی تورات اور انجیل کا بنظر غائر مطالعہ کرے جن میں تحریف بھی ہوچکی ہے اور بہت سے الحاقی مضامین بھی ان میں شامل ہوچکے ہیں۔ تاہم بیشمار مقامات ایسے بھی آجاتے ہیں جن سے ایک عالم شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان تمام کتب سماویہ کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ [٢١٧] یہود زبور کو وحی الہٰی تسلیم کرتے ہیں حالانکہ وہ الواح تورات کی طرح یکبارگی نازل نہیں ہوئی تھی۔ یہاں یہود کے لیے زبور کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا ہے کہ تم اگر یکبارگی نازل ہونے کے باوجود اسے وحی الہی مانتے ہو تو آخر قرآن کو وحی الہی ماننے سے کیا چیز مانع ہے۔ یہ دراصل یہود کے مذکورہ مطالبہ کا ہی جواب ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ۔۔ : یہ ان کے اس اعتراض اور مطالبے کا اصل جواب ہے کہ آپ تورات کی طرح آسمان سے اکٹھی کتاب نازل کروائیں، یعنی وحی اور دعوت الی الحق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ دوسرے انبیاء سے مختلف نہیں ہے، نوح (علیہ السلام) سے لے کر جتنے انبیاء و رسل ہوئے ہیں سب کو الگ الگ معجزات ملے اور تورات کے علاوہ کسی کو بھی یک بارگی کتاب نہیں دی گئی، پھر جب یک بارگی کتاب ان پر نازل نہ کرنے سے ان کی نبوت پر حرف نہیں آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے لیے باعث اعتراض کیوں ہے ؟ نوح (علیہ السلام) سے پہلے بھی بہت سے انبیاء ہوئے ہیں مگر اولو العزم اور صاحب شریعت نبی سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) تھے اور نوح (علیہ السلام) ہی وہ نبی ہیں جن کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور رد شرک کا وعظ بھی نوح (علیہ السلام) سے شروع ہوا، اس لیے سب سے پہلے ان کا نام ذکر کیا ہے۔ ( قرطبی، کبیر) وحی کے اصل معنی تو ” کسی مخفی ذریعے سے کوئی بات سمجھا دینا “ کے ہیں اور ” اِیْحَاءٌ“ (افعال) بمعنی الہام بھی آجاتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة شوریٰ (٥١) ۔ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا : یعنی تم زبور کو تو اللہ تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہو، حالانکہ وہ بھی داؤد (علیہ السلام) پر تورات کی طرح تختیوں کی شکل میں نازل نہیں ہوئی تھی، پھر قرآن مجید کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو ؟ (کبیر) موجودہ زبور میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں، جن میں دعائیں نصیحتیں اور تمثیلیں مذکور ہیں، حلت و حرمت کے احکام مذکور نہیں ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

1. These are the names of the prophets Biblically spelt respectively as follows: Abraham, Ishmael, Issac, Israel, Jesus, Job, Jonah, Aaron, Solomon and David. Zabur is the name of the Book revealed to David, Biblically known as the Psalms. If we refer back to Verse يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ (The People of the Book ask you...), it will be noticed that a silly question asked by the Jews was responded to in the mode of reproach. Here, in the present verse, the same question is being proved false in a different manner. It takes up their condition which they place before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، that is, they would believe in him if he brings before them a Book, all written up, from the heavens. They are being asked to realize that they do not make such demands before believing in the great prophets mentioned in the verse, prophets they too accept. Keeping this in view, it is necessary that they keep to the line of argument they use in favour of these great prophets, that is, they accept them on the basis of their miracles. As for miracles, Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has his miracles as well, therefore, there is no reason why they cannot step forward and believe in him too. But, the truth of the matter is that the demand they are making is no quest for truth. On the contrary, it is rooted in prejudice and hostility. Then comes a delineation of the wisdom behind the sending of prophets and an address to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) assuring him that Allah and His angels are witnesses to his prophethood and those who do not believe in him do nothing but ruin their own end. (Bayn a1-Qur&an) Commentary Verse 163 begins with the words: إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ &Surely, We have revealed to you as We have revealed to Nuh (علیہ السلام) (Noah) and to the prophets after him ...&It tells us clearly that Wahy (revelation) is a command of Allah, unique and inimitable, and His message sent to prophets; and that Almighty Allah sent His Wahy to Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) just as it was sent to the past prophets; and that whoever believed in the Wahy sent to past prophets must believe in this too; and that whoever rejects this becomes so to say, a rejecter of all those revelations. The reason for striking a similarity between Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and those who came after him is probably that the Wahy at the time of S:ayyidna Adam (علیہ السلام) was at an initial stage which reached its perfection with the prophethood of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . It can be said that the first state was an state of educational initiation while by the time of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) that state reached a stage of devel¬opment under which people could be tested with the incentive of reward for the obedient and the warning of punishment for the disobe-dient. Thus, it was from Sayyidna Nuh (علیہ السلام) himself that the chain of great prophets began and it was from his time too that the first punishment descended on those who transgressed against Divine reve¬lation. In short, punishment would not descend upon people for their hostility against Divine commandments and prophetic teachings. They were considered rather excusable and allowed to learn in due time through good counsel. Once religious education became fully widespread and people were left with no hidden reason to avoid following the dictates of Divine will, punishment did descend upon the disobe¬dient ones. The Great Flood came during the time of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) followed by different kinds of punishment visiting disbelievers during the times of prophets Sayyidna Salih, Sayyidna Shu&ayb and many others, may peace be on them all. Thus, by likening the Wahy which came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with the Wahy of Sayy¬idna Nuh and of those who came after him, full warning has been served on the People of the Book and on the. disbelievers of Makkah that anyone who will not believe in the Wahy (that is, The Qur&an) of the Last of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will deserve the greatest punishment. (Exegetical notes of Maulana Shabbir Ahmad ` Usmani) Before we move to the next verse, it would be useful to keep in mind that the personal presence of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) whose name appears first in this verse, was a miracle by itself. He was blessed with an age of nine hundred and fifty years. He had lost none of his teeth and had no streaks of white hair on his head and had faced no defi¬ciency in his physical strength - yet, he spent his whole life time braving the pain inflicted by his people on him with matching patience and fortitude. (Mazhari)

ربط آیات : یسئلک اھل الکتب سے یہودیوں کا ایک احمقانہ سوال نقل کر کے تفصیل سے اس کا الزامی جواب دیا، یہاں ایک دوسرے عنوان سے اسی سوال کو باطل کیا جا رہا ہے کہ تم جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لئے یہ شرط لگاتے ہو کہ آپ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب لا کر دکھلائیں، تو بتلاؤ کہ یہ جلیل القدر انبیاء جن کا ذکر ان آیات میں ہے ان کو تم بھی تسلیم کرتے ہو اور ان کے حق میں تم اس طرح کے مطالبات نہیں کرتے، تو جس دلیل سے تم نے ان حضرات کو نبی تسلیم کیا ہے، یعنی معجزات سے، تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی معجزات ہیں، لہٰذا ان پر بھی ایمان لے آؤ، لیکن بات یہ ہے کہ تمہارا یہ مطالبہ طلب حق کے لئے نہیں، بلکہ عناد پر مبنی ہے۔ آگے بعثت انبیاء کی حکمت بھی بیان کردی گئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے بتلا دیا گیا کہ یہ لوگ اگر آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے تو اپنا انجام خراب کرتے ہیں، آپ کی نبوت پرتو خدا بھی گواہ ہے اور خدا کے فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں۔ خلاصہ تفسیر ہم نے (کچھ آپ کو انوکھا رسول نہیں بنایا جو ایسی واہی تباہی فرمائش کرتے ہیں بلکہ) آپ کے پاس (بھی ایسی ہی) وحی بھیجی ہے جیسی (حضرت) نوح (علیہ السلام) کے پاس بھیجی تھی، اور ان کے بعد اور پیغمبروں کے پاس (بھیجی تھی) اور (ان میں سے بعضوں کے نام بھی بتلا دیتے ہیں کہ) ہم نے (حضرات) ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب (میں جو نبی گذرے ہیں) اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیہم الصلوة والسلام) کے پاس وحی بھیجی تھی اور (اسی طرح) ہم نے داؤد (علیہ السلام کے پاس بھی وحی بھیجی تھی، چناچہ ان) کو (کتاب) زبور دی تھی اور (ان کے علاوہ) اور (بعضے) ایسے پیغمبروں کو (بھی) صاحب وحی بنایا جن کا حال اس کے قبل ( سورة انعام وغیرہ مکی سورتوں میں) ہم آپ سے بیان کرچکے ہیں اور (بعضے) ایسے پیغمبروں کو (صاحب وحی بنایا) جن کا حال (ابھی تک) ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام کو بھی صاحب وحی بنایا، چناچہ ان) سے اللہ تعالیٰ نے خاص خاص طور پر کلام فرمایا (اور) ان سب کو (ایمان پر) خوش خبری (نجات کی) دینے والے اور (کفر پر عذاب کا) خوف سنانے والے پیغمبر بنا کر اس لئے بھیجا تاکہ لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے ان پیغمبروں کے (آنے کے) بعد کوئی عذر (ظاہراً بھی) باقی نہ رہے ( ورنہ قیامت میں یوں کہتے کہ بہت سی اشیاء کا حسن قبح عقل سے معلوم نہ ہوسکتا تھا، پھر ہماری کیا خطا) اور (یوں) اللہ تعالیٰ پورے زور ( اور اختیار) والے ہیں، (کہ بلا ارسال رسل بھی سزا دیتے تو بوجہ اس کے کہ مالک حقیقی ہونے میں منفرد ہیں ظلم نہ ہوتا اور درحقیقت عذر کا حق کسی کو نہ تھا لیکن چونکہ) بڑے حکمت والے (بھی) ہیں (اس لئے حکمت ہی ارسال کو مقتضی ہوئی تاکہ ظاہری عذر بھی نہ رہے، یہ بیان حکمت درمیان میں تبعاً آ گیا تھا، آگے اثبات نبوت محمدیہ کر کے جواب کی تکمیل فرماتے ہیں کہ گو وہ اپنے اس شبہ کے رفع ہونے پر بھی نبوت کو تسلیم نہ کریں) لیکن (واقع میں تو ثابت ہے اور اس کے ثبوت پر دلیل صحیح قائم ہے، چنانچہ) اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جس کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور بھیجا بھی (کس طرح) اپنے علمی کمال کے ساتھ (جس سے وہ کتاب معجزہ عظیمہ ہوگی وہ کہ نبوت کی دلیل قاطع ہے، ایسی کتاب معجز کے ذریعہ سے آپ کی نبوت کی) شہادت دے رہے ہیں (یعنی دلیل قائم کر رہے ہیں جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ کتاب معجز نازل فرمائی اور اعجاز دلیل نبوت ہے، پس دلیل سے تو واقع میں نبوت ثابت ہے، رہا کس کا ماننا نہ ماننا تو اول تو اس کا خیال ہی کیا) اور (اگر طبعاً اس کا جی ہی چاہتا ہو تو ان سے افضل مخلوق یعنی) فرشتے (آپ کی نبوت کی) تصدیق کر رہے ہیں، (اور مؤمنین کی تصدیق مشاہد ہی تھی، پس اگر چند حمقاء نے نہ مانا نہ سہی) اور (اصل بات تو وہی ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہی کی شہادت (یعنی اقامت دلیل فی الواقع) کافی ہے (کسی کی تصدیق و تسلیم کی آپ کو حاجت ہی نہیں) جو لوگ (ان جج قاطعہ کے بعد بھی) منکر ہیں اور (طرہ یہ کہ اوروں کو بھی) خدائی دین سے مانع ہوتے ہیں (حق سے) بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں (یہ تو دنیا میں ان کے مذہب کا حاصل ہے اور اس کا ثمرہ آخرت میں آگے سنو کہ) بلاشبہ جو لوگ (حق کے) منکر ہیں اور (حق سے مانع بن کر) دوسروں کا بھی نقصان کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو کبھی نہ بخشیں گے اور نہ ان کو سوائے جہنم کی راہ کے اور کوئی راہ (یعنی جنت کی راہ) دکھلائیں گے اس طرح پر کہ اس (جہنم) میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہا کریں گے اور اللہ کے نزدیک یہ سزا معمولی بات ہے (کچھ سامان نہیں کرنا پڑتا) معارف مسائل انا اوحینا الیک کما احینا الی نوح والنبین من بعدہ، اس سے معلوم ہوگیا کہ وحی خاص اللہ کا حکم اور اس کا پیام ہے جو پیغمبروں پر بھیجا جاتا ہے اور انبیاء سابقین پر جیسے وحی الٰہی نازل ہوئی ویسے ہی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی بھیجی، تو جس نے ان کو مانا اس کو بھی ضرور ماننا چاہئے اور جس نے اس کا انکار کیا گویا ان سب کا منکر ہوگیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان سے پچھلوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ شاید یہ ہے کہ حضرت آدم کے وقت سے جو وحی شروع ہوئی تو اس وقت بالکل ابتدائی حالت تھی، حضرت نوح (علیہ السلام) پر اس کی تکمیل ہوگئی، گویا اول حالت محض ابتداء تعلیم کی حالت تھی، حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں وہ حالت پوری ہو کر اس قابل ہوگئی کہ ان کا امتحان لیا جائے اور فرمانبرداروں کو انعام اور نافرمانوں کو سزا دی جائے، چناچہ انبیائے اولوالعزم کا سلسلہ بھی حضرت نوح (علیہ السلام) ہی سے شروع ہوا اور وحی الٰہی سے سرتابی کرنے والوں پر بھی اول عذاب حضرت نوح (علیہ السلام) کے وقت سے شروع ہوا۔ خلاصہ یہ کہ نوح (علیہ السلام) سے پہلے حکم الٰہی اور انبیاء کی مخالفت پر عذاب نازل نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کو معذور سمجھ کر ان کو ڈھیل دی جاتی تھی اور سمجھانے ہی کی کوشش کی جاتی تھی، حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں جب مذہبی تعلیم خوب ظاہر ہوچکی اور لوگوں کو حکم خداوندی کی متابعت کرنے میں کوئی خفا باقی نہ رہا تو اب نافرمانوں پر عذاب نازل ہوا، اول حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں طوفان آیا اس کے بعد حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب (علیہم السلام) وغیرہ انبیاء کے زمانہ میں کافروں پر قسم قسم کے عذاب آئے، تو آپ کی وحی کو حضرت نوح اور ان سے پچھلوں کی وحی کے ساتھ تشبیہ دینے میں اہل کتاب اور مشرکین مکہ کو پوری تنبیہ کردی گئی کہ جو آپ کی وحی یعنی قرآن کو نہ مانے گا وہ عذاب عظیم کا مستحق ہوگا۔ (فوائد علامہ عثمانی) حضرت نوح (علیہ السلام) کی ذات خد ایک معجزہ تھی، ساڑھے نو سو سال کی عمر آپ کو عطا کی گئی تھی، آپ کا کوئی دانت نہیں گرا تھا، نہ آپ کا کوئی بال سفید ہوا، آپ کی جسمانی طاقت میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور پوری عمر قوم کی ایذا رسانی کو صبر کے ساتھ سہتے رہے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَـمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِہٖ۝ ٠ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَہٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ۝ ٠ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۝ ١٦٣ۚ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ سبط أصل السَّبْط : انبساط في سهولة، يقال : شَعْرٌ سَبْطٌ ، وسَبِطٌ ، وقد سَبِطَ سُبُوطاً وسَبَاطَةً وسَبَاطاً ، وامرأة سَبْطَةُ الخلقة، ورجل سَبْطُ الكفّين : ممتدّهما، ويعبّر به عن الجود، والسِّبْطُ : ولد الولد، كأنه امتداد الفروع، قال : وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْباطِ [ البقرة/ 136] ، أي : قبائل كلّ قبیلة من نسل رجل، وقال تعالی: وَقَطَّعْناهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْباطاً أُمَماً [ الأعراف/ 160] ، والسَّابَاطُ : المنبسط بين دارین . وأخذت فلانا سَبَاطِ ، أي : حمّى تمطّه، والسُّبَاطَةُ خط من قمامة، وسَبَطَتِ النّاقة ولدها، أي : ألقته . ( س ب ط ) السبط اس کا اصل معنی سہولت کے ساتھ کسی چیز کا منبسط ہونا ہیں اور سبط ( س ) سبوطا و سباطۃ وسباطا کے معنی بالوں کے سیدھا اور دراز ہونے کے ہیں اور سیدھے بالوں کو جن مین گھنگٹ نہ ہوں سبط یا سبط کہا جاتا ہے ۔ اسیطرح خوش قامت عورت کو بھی سبطۃ کہا جاتا ہے اور دراز کف دست آدمی کو سبط الکفین کہتے ہیں اور یہ سخاوت سے کنایہ ہوتا ہے ۔ السبط اس کے معنی اولاد کی اولاد یعنی پوتے اور نواسے کے ہیں گویا اس میں فروع کے امتداد کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْباطِ [ البقرة/ 136] اور حضرت یعقوب اور ان کی اولاد ۔ یہاں اسباط سے مراد قبائل ہیں ۔ ہر قبیلہ ایک شخص کی اولاد سے تھا ۔ جیسے فرمایا : أَسْباطاً أُمَماً [ الأعراف/ 160] ( الگ الگ ) بارہ قبیلے بنا دیئے الساباط وہ مسقف راستہ جو دو مکانوں کے درمیان ہو ۔ اور اخذت فلانا سباط کے معنی ہیں فلاں کو بخار چڑھ گیا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) السباطۃ خیر میں قمامۃ کہ خاک روبہ کوڑے سے بہتر ہے ۔ سبطت الناقۃ ولدھا اونٹنی نے نا تمام بچہ گرا دیا ۔ عيسی عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔ هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب . إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی زبر الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا . وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] ، وقال : وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» . ( زب ر) الزبرۃ لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٣) ہم نے آپ کے پاس بذریعہ جبریل امین قرآن کریم بھیجا ہے جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد اور انبیاء کے پاس اور ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بھی جبریل امین کو اور اسی طرح اولاد یعقوب کے پاس بھی وحی بھیجی ہے۔ شان نزول : (آیت) ” انا اوحینا الیک “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عدی بن زید نے کہا ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی اور شخص پر کوئی چیز نازل کی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اس رکوع کے شروع میں انبیاء اور رسولوں کے ناموں کا ایک خوبصورت گلدستہ نظر آتا ہے۔ قرآن پاک میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں ایسے گلدستے خوبصورتی سے سجائے گئے ہیں۔ یہاں آپ کو پے بہ پے انبیاء اور رسولوں کے نام ملیں گے اور پھر ان میں سے بعض کی اضافی شانوں کا ذکر بھی ملے گا۔ اس کے بعد فلسفۂ قرآن کے اعتبار سے ایک بہت اہم آیت بھی آئے گی ‘ جس میں نبوت کا بنیادی مقصد اور اساسی فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

204. This emphasizes that Muhammad (peace be on him) did not introduce any innovations, and that his essential message was no different from the earlier revelations. What Muhammad (peace be on him) expounded was the same truth which had previously been expounded by the earlier Prophets in various parts of the world and at different periods of time. Wahy means 'to suggest; to put something into someone's heart; to communicate something in secrecy; to send a message'. 205. The 'Psalms' embodied in the Bible are not the Psalms of David. The Biblical version contains many 'psalms' by others and they are ascribed to their actual authors. The 'psalms' which the Bible does ascribe to David do indeed contain the characteristic lustre of truth. The book called 'Proverbs', attributed to Solomon, contains a good deal of accretion, and the last two chapters, in particular, are undoubtedly spurious. A great many of these proverbs, however, do have a ring of truth and authenticity. Another book of the Bible is ascribed to Job. Even though it contains many gems of wisdom, it is difficult to believe that the book attributed to Job could in fact be his. For the portrayal of Job's character in that book is quite contrary to the wonderful patience for which he is applauded in the Qur'an and for which he is praised in the beginning of the Book of Job itself. The Book of Job, quite contrary to the Qur'anic portrayal of him, presents him as one who was so full of grievance and annoyance" with God throughout the entire period of his tribulation that his companions had to try hard to persuade him that God was not unjust. In fact Job is shown in the Bible as one whom even his companions failed to convince that God was just. In addition to these, the Bible contains seventeen other books of the Israelite Prophets. The greater part of these seem to be authentic. In Jeremiah, Isaiah, Ezekiel, Amos and certain other books, in particular, one often encounters whole sections which stir and move one's soul. These sections without doubt have the lustre of Divine revelation. While going through them one is struck by the vehemence of moral admonition, the powerful opposition to polytheism, the forceful exposition of monotheism, and the strong denunciation of the moral corruption of the Israelites which characterize them. One inevitably senses that these books, the orations of Jesus embodied in the Gospels, and the glorious Qur'an are like springs which have arisen from one and the same Divine source.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :204 اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی انوکھی چیز لے کر نہیں آئے ہیں جو پہلے نہ آئی ہو ۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں دنیا میں پہلی مرتبہ ایک نئی چیز پیش کر رہا ہوں ۔ بلکہ دراصل ان کو بھی اسی ایک منبع علم سے ہدایت ملی ہے جس سے تمام پچھلے انبیاء کو ہدایت ملتی رہی ہے ، اور وہ بھی اسی ایک صداقت و حقیقت کو پیش کر رہے ہیں جسے دنیا کے مختلف گوشوں میں پیدا ہونے والے پیغمبر ہمیشہ سے پیش کرتے چلے آئے ہیں ۔ وحی کے معنی ہیں اشارہ کرنا ، دل میں کوئی بات ڈالنا ، خفیہ طریقے سے کوئی بات کہنا ، پیغام بھیجنا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :205 موجودہ بائیبل میں زبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبور داؤد نہیں ہے ۔ اس میں بکثرت مزامیر دوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنفین کی طرف منسوب ہیں ۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلام حق کی روشنی محسوس ہوتی ہے ۔ اسی طرح بائیبل میں امثال سلیمان علیہ السلام کے نام سے جو کتاب موجود ہے اس میں بھی اچھی خاصی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس کے آخری دو باب تو صریحاً الحاقی ہیں ، مگر اس کے باوجود ان امثال کا بڑا حصہ صحیح و برحق معلوم ہوتا ہے ۔ ان دو کتابوں کے ساتھ ایک اور کتاب حضرت ایوب علیہ السلام کے نام سے بھی بائیبل میں درج ہے ، لیکن حکمت کے بہت سے جواہر اپنے اندر رکھنے کے باوجود ، اسے پڑھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ واقعی حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف اس کتاب کی نسبت صحیح ہے ۔ ۔ اس لیے قرآن میں اور خود اس کتاب کی ابتدا میں حضرت ایوب علیہ السلام کے جس صبر عظیم کی تعرف کی گئی ہے ، اس کے بالکل برعکس وہ ساری کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی مصیبت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے خلاف سراپا شکایت بنے ہوئے تھے ، حتٰی کہ ان کے ہمنشین انہیں اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ خدا ظالم نہیں ہے ، مگر وہ کسی طرح مان کر نہ دیتے تھے ۔ ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ خصوصاً یسعیاہ ، یرمیاہ ، حزقی ایل ، عاموس اور بعض دوسرے صحیفوں میں تو بکثرت مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کی روح وجد کرنے لگتی ہے ۔ ان میں الہامی کلام کی شان صریح طور پر محسوس ہوتی ہے ۔ ان کی اخلاقی تعلیم ، ان کا شرک کے خلاف جہاد ، ان کو توحید کے حق میں پر زور استدلال ، اور ان کی بنی اسرائیل کے اخلاقی زوال پر سخت تنقیدیں پڑھتے وقت آدمی یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اناجیل میں حضرت مسیح کی تقریریں اور قرآن مجید اور یہ صحیفے ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی سوتیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(163 ۔ 165) ۔ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) وغیرہ کی روایتوں میں ان آیتوں کی شان نزول یہ بیان کی گئ ہے کہ جب یہود نے انجیل اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا کوئی کلام کسی بشر پر نازل نہیں فرمایا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن اگر کلام الٰہی ہوتا تو تورات کی طرح ایک ہی دفعہ نازل ہوتا تھوڑ تھوڑا کر کے نازل نہ ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ١۔ اور فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد کے انبیاء جن کی نبوت کو یہ لوگ مانتے ہیں۔ ان سب پر ہم نے اپنا کلام اسی طرح نازل فرمایا ہے جس طرح قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہو رہا ہے۔ پھر ان انبیاء کی نبوت کو تسلیم کرنا اور نبی آخر الزمان کی نبوت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں ایسے شبہات کا ذکر کرنا بڑی ہٹ دھرمی ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی شفاعت کی بہت بڑی حدیث ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے صاحب شریعت نبی ہیں۔ ٢۔ اس لئے قرآن شریف میں جہاں انبیاء کے سلسلہ کا ذکر فرمایا ہے وہاں اس سلسلہ کو حضرت نوح ( علیہ السلام) (علیہ السلام) سے شروع کیا گیا ہے۔ اسباط حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کو کہتے ہیں۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نبوت پر سلف کا اتفاق ہے۔ باقی میں اختلاف ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملا کر ٢٥ نبیوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ مسند امام احمد میں ابوذر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی ہیں جن میں تین سو پندرہ رسول ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کی سند کو معتبر قرار دیا ہے ٣۔ غرض قرآن شریف میں سب رسولوں کا ذکر نہیں ہے۔ اسی واسطے فرمایا کتنے رسول جن کا احوالہ ہم نے اے نبی اللہ کے تم کو سنایا ہے اور کتنے ہیں جن کا احوال نہیں سنایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وحی میں فرشتہ کا واسطہ نہیں تھا۔ اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر سلسلہ سے الگ فرمایا۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھ باتوں کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اور انبیاء پر بزرگی اور فضیلت دی ہے ایک ١۔ تو تھوڑے لفظوں میں بہت سے مطلب کا بیان۔ دوسرے ٢ فقط رعب سے لشکر اسلام کی فتح کا سامان ہوجانا۔ تیسرے ٣ لوٹ کے مال کا شریعت محمدی میں حلال ہونا۔ چوتھے ٤ روئے زمین پر ہر جگہ شریعت محمدی میں نماز کا جائز ہونا۔ پانچویں ٥ میری نبوت کا تمام خلائق کے لئے عام ہونا۔ چھٹے ٦ میرا خاتم النبیین ہونا ١۔ معتبر سند سے ترمذی میں ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں سب اولاد آدم کا سردار ہوں ٢۔ غرض اس قسم کی احادیث کے سبب سے علمائے سلف اس پر متفق ہیں کہ نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل انبیاء ہیں لیکن صحیحین وغیرہ میں جو روایتیں ٣ ہیں ان میں خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کے لوگوں کو اس سے منع فرمایا ہے کہ وہ انبیاء کی فضیلت باہمی میں بحث مباحثہ کر کے بعض انبیاء کی کسر شان کے درپے ہوں۔ اس لئے امت کے ہر صاحب احتیاط آدمی کو چاہیے کہ جس حد تک یہ مسئلہ شریعت میں ہے اس حد کا پابند رہے۔ اس حد سے آگے نہ بڑ ہے۔ چناچہ اس مسئلہ کے متعلق یہی فیصلہ َآیت تلک الرسل بعضہم علی بعض کی تفسیر میں گزرچکا ہے۔ شریعت میں اس مسئلہ کی مثال تقدیر کے مسئلہ کی سی ہے کہ اس مسئلہ میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ کچھ حال تقدیر کا چند حدیثوں ٤ میں فرمایا اور پھر بحث مباحثہ کو اس مسئلہ میں منع فرمایا۔ اور معتبر سند کی طبرانی کی عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث میں یہ فرمایا کہ اس مسئلہ میں سکوت اولیٰ ٥ ہے۔ اب آگے رسول کی خدمت کا ذکر فرمایا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے فرمانبرداروں کو عقبیٰ کے اجر کی خوش خبری کا سنانا اور نافرمان لوگوں کو عقبیٰ کے عذاب سے ڈرانا یہ اللہ کے رسولوں کی خدمت ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ رسولوں کا بھیجنا کتابوں کا نازل فرمانا اس لئے ہے کہ قیا مت کے دن کسی کو عذر کی جگہ نہ رہے کہ اللہ کی مرضی اور ناراضی کی باتیں ہم کو معلوم نہ تھیں۔ صحیحین میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ سے بڑھ کر عذر کا قبول کرنے والا کون ہوسکتا ہے۔ جس نے لوگوں کی انجانی کا عذر رفع کرنے کے لئے رسولوں کو بھیجا کتابیں نازل فرمائیں ١۔ مسند امام احمد صحیح بخاری اور نسائی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس شخص کی عمر ساٹھ برس کی ہوگی اس کو دین کی باتیں سمجھنے کا پورا موقع مل گیا۔ اس لئے ایسے شخص کا انجانی کا عذر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہ ہوگا ٢۔ آخر کو فرمایا کہ نافرمانی لوگوں سے بدلا لینے میں وہ زبردست ہے اس کے عذاب کو اس کی بلا مرضی کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ہر وقت کی مصلحت کے موافق شریعت کے احکام نازل فرمانے میں وہ ایسا صاحب حکمت ہے جس کی حکمت کے بھید اسی کو معلوم ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:163) اوحینا۔ ہم نے وحی بھیجی۔ ہم نے حکم بھیجا۔ ایحائ۔ افعال۔ سے ماضی کا صیغہ جمع متکلم وحی مصدر۔ اشارہ سے بتانا۔ اشارہ سے بات کرنا۔ دل میں بات ڈالنا۔ لغت عربی میں وحی کا معنی اشارہ کرنا ہے جیسے قرآن مجید میں ہے فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی الیہم ان ستجوا بکرۃ وعشیا (19:11) پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ خدا کو صبح و شام یاد کرتے رہا کرو۔ لیکن اس کا اطلاق مختلف مفہوموں پر ہوتا رہتا ہے مثلاً : (1) بطریق الہام کسی چیز کو دل میں ڈال دینا۔ جیدے واوحینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ (28:7) اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ۔ (2) اپنے طبعی اور غیر فطری فرائض کی انجام دہی کے لئے فطری طور پر ہدایت خالق کی طرف سے ہوتی ہے اور اسے وحی تسخیری بھی کہتے ہیں۔ جیسے واوحی ربک الی النحل (16:28) اور تمہارے رب نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا۔ (3) کسی کو پر اسرار طریقہ پر کسی امر کی تعلیم دینے کو بھی وحی کہتے ہیں۔ جیسے وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس والجن یوحی بعضہم الی بعض زخرف القول غرورا۔ (6:113) اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) جنوں اور انسانوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنادیا وہ دھوکہ دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع باتیں ڈالتے رہتے ہیں۔ (4) شریعت میں کلمہ الٰہیہ کو وحی کہا جاتا ہے جو انبیاء و اولیاء کی طرف القاء کیا جاتا ہے۔ اس کی چند صورتیں ہیں۔ مثلا ً فرمایا : ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من وراء حجاب۔ اویرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشاء (42:51) اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ خدا اس سے بات کرے۔ مگر الہام کے ذریعہ سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ یا کوئی فرشتہ بھیج دے۔ تو وہ خدا کے حکم سے جو خدا چاہے القاء کرے۔ الہام کی مثال ام موسیٰ کے بارے میں اوپر گزر چکی ہے۔ وحی کی دوسری دو قسمیں بذریعہ فرشتہ یا از پس حجاب بلاواسطہ یہ دونوں انبیاء کے لئے مخصوص ہیں۔ وحی جو فرشتہ کے ذریعہ ہوتی ہے تو فرشتہ ظاہری آنکھوں سے نظر آتا ہے اور اس کا کلام سنائی دیتا ہے جیسا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ایک معین شکل میں آکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پیام رسالت پہنچایا کرتے تھے۔ من وراء حجاب جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر اللہ کا کلام سنا تھا۔ ایک اور صورت وحی کی القاء فی الروع یعنی دل میں کسی بات کا ڈال دینا۔ جیسے حدیث شریف میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان روح القدس نفث فی روعی (روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی) ۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انقطع الوحی وبقیت المبشرات وؤما المؤمن۔ کہ وحی تو منقطع ہوچکی ہے مگر مبشرات یعنی رؤیا مومن باقی رہ گئے ہیں ۔ اتینا داؤد زبورا کا عطف انا اوحینا الیک پر ہے آیت کی تقدیر گویا یوں ہے : انا اوحینا الیک (الکتب) کما اتینا (ای اوحینا الی) داؤد زبورا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہ ان کے شہ بے (ان تنزل علیہم کتابا من السما کا اصل معاملہ دوسرے یعنی وحی اور دعوت الی ٰ الحق میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ دوسرے انبیا سے مختلف نہیں ہے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر جتنے انبیا ورسل ( علیہ السلام) ہوئے ہیں سب کو الگ الگ معجزات ملے اور تورت کے علاہ کسی کو بی یکبارگی کتاب نہیں دی گئی پھر جب یکبارگی کتاب ان پر نازل نہ کرنے سے ان کی نبوت پر حرف نہیں آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے لیے کیسے وجب قدح ہوسکتا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) صاحب شریعت نبی سب سے پہلے حضرت نوح ( علیہ السلام) تھے اور حضرت نوح ( علیہ السلام) ہی وہ بی ( علیہ السلام) ہیں جن کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور رد شرکا وعظ بھی حضرت نوح ( علیہ السلام) سے شروع ہوا اس لیے سب سے پہلے ان کا نام ذکر کی ہے قرطبی۔ ، کبیر) وحی کے اصل معنی تو کسی مخفی ذریعہ سے کوئی بات سمجھا دینا کے ہیں اور ایحا (افعال) یعنی الہام بھی آجاتا ہے۔ (بحث کے لیے الشوریٰ آیت 51)7 یعنی تم زبور کو تو اللہ تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہو حالا ن کہ وہ بھی حضرت داود ( علیہ السلام) پر تورات کی مثل تختیوں کی شکل میں نازل نہیں ہوئ تھی پھر قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو۔ (کبیر) موجود زیور میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں جن میں دعائیں، نصحیتیں اور تمثلیں مذکور ہیں رحلت و حرمت کے احکام نہیں ہیں (وحیدی) یعنی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا جو اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ (دیکھئے سورت مقرہ آیت 253) پھر اگر موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے اس شرف سے دوسرے انبیا پر طعن نہیں آسکتا تو تورات کا یک باری کی نزول کسے مو جب طعن ہوسکتا ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 23 ۔ آیات 163 تا 171 ۔ اسرار و معارف : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نبوت و رسالت کا سلسلہ چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ انبیاء و رسل پر اللہ کی طرف سے وحی بھیجی جاتی ہے جیسے نوح (علیہم السلام) پر وحی کی گئی اور ان کے بعد آنے والے نبیوں اور رسولوں پر جیسے ابراہیم ، اسمعیل ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) یا ان حضرات کی اولاد میں سے انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ اور عیسیٰ و ایوب ، یونس و ہارون و سلیمان (علیہما السلام) اور ان میں حضرت داود (علیہم السلام) کو تو ہم نے کتاب بھی دی تھی جس کا نام زبور تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبوت کا دعوے کرنا نئی بات نہیں ہے اور نہ وحی الہی کا آپ پر نازل ہونا عجیب بات ہے۔ بلکہ ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا گیا۔ اور ایسے بھی جن کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہستیاں رسولوں میں موجود ہیں جن سے اللہ کریم نے ذاتی طور پر کلام فرمایا تو یہ لوگ ان سب کو مانتے ہیں ان کی نبوت و رسالت کا اقرار کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے گریزاں کیوں ہیں ؟ کیا یہ کوئی انہونی یا نئی بات ہے ہرگز نہیں ؟ بلکہ ہر نبی ہر رسول اللہ کی طرف سے نیکی پہ انعام و اکرام اور اللہ کی رضا کی خوشخبری اور نافرمانی پر سزا کا خوف دلاتا ہے یعنی حق کی حمایت ہی نہیں کرتا حق کی طرف دعوت دیتا ہے اور باطل سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ہر نبی اور ہر رسول اللہ کی طرف سے بندوں پہ دلیل ہوتا ہے۔ کہ لوگ کل یہ نہ کہہ سکیں کہ خدایا اتنی خوبصورت دنیا ہمارے سامنے تھی ہمیں کیا خبری تھی کہ اس کے پیچھے آخرت کا میدان بھی ہے اس اعتراض کا جواب نبی اور رسول ہی ہیں جو اللہ نے مبعوث فرمائے ، بذریعہ وحی انہیں دنیا اور اس کے کاموں کا انجام بتایا اس پر مرتب ہونے والا نتیجہ بتایا۔ تو یہ بات واضح ہوگئی کہ صاحب وحی نبی ہوتا ہے آپ کسی پر نزول وحی کا اقرار کریں تو نام لیں یا نہ لیں آپ نے اسے نبی مان لیا ، جیسے شیعہ حضرات کے ہاں امام کا تصور اور عقیدہ ہے کہ ہر امام پر وحی بھی آتی ہے معصوم بھی ہوتا ہے یہ صریح کفر ہے کہ ختم نبوت بھی جزو ایمان ہے خیر بہرحال لوگوں تک اللہ کی بات اللہ کی پسند پہنچانا یہ نبی کا منصب ہوتا ہے اور اسی دلیل سے دیکھیں تو آپ کس طرح حق واضح فرما کر باطل کی کتنی عالمگیر قوت سے ٹکر لے رہے ہیں ؟ کیا یہ اتنا بڑا کام اللہ کی تائید و حمایت کے بغیر کوئی اکیلا انسان کرسکتا ہے ؟ کہ اللہ ہی غالب اور زبردست بھی ہے اور وہی حکمت والا ہے وہ جانتا ہے کہ کونسی بات کرنے کے لیے کونسا کام کرنے کے لیے کونسا وقت موزوں ہے اور کون انسان مناسب ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تو سارا وجود پاک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بچپن ، لڑکپن ، جوانی اور عوی نبوت سب کچھ ہی معجزہ ہے ایک بہت بڑا معجزہ ، جس پر کوئی جتنا غور کرتا جائے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے پھر آپ پر جو کتاب نازل فرمائی گئی یہ کتنا بڑا معجزہ ہے جس کا ایک ایکلفظ گواہی دے رہا ہے کہ یہ خلاق عالم کے علم سے ہے مخلوق کی بات ہرگز نہیں پھر اس پر خود اللہ کی گواہی موجود ہے اللہ کے فرشتے تک تیری صداقت کے ، کتاب کے کتاب الہی ہونے کے گواہ ہیں۔ اور جب خود اللہ گواہ ہے تو پھر کسی اور کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔ دراصل کفر ایسا مرض ہے کہ کافر صرف خود کافر نہیں رہتا دوسروں کے لیے بھی راستے کی دیوار بنتا ہے اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے کا سبب بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ مزید گمراہی میں ڈوبتا اور دھنستا چلا جاتا ہے اور سیدھی راہ سے بھٹک کر بہت پرے چلا جاتا ہے حق بات تو یہ ہے کہ جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں۔ اور پھر حق کو دبانے کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں یہ ایک ایسا بھیانک جرم ہے کہ اللہ ایسوں کو بخشنا چاہتا ہی نہیں اور جب بخشش سے مھروم ہوں گے تو بات صاف ہے کہ سیدھے راستے پہ چلنا نصیب نہ ہوگا۔ اب یہ تو ہونے سے رہا کہ کسی کو نیکی کو توفیق بھی ارزاں کریں اور عذاب بھی دیں سو جسے اپنے لطف سے محروم فرمایا اسے توفیق عمل سے ہی محروم کردیا جاتا ہے۔ اور ایسے ظالموں کے لیے تو ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ ہے جہنم کا راستہ ، جس میں کافروں کو ہمیشہ رہنا ہوگا۔ اور دوزخ اور اہل دوزخ کو ہمیشہ کے لیے مبتلائے عذاب رکھنا ، یا عذاب کو مسلسل بڑھاتے رہنا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ الابریز۔ سید عبدالعزیز دباغ (رح) کے فرمودات وواقعات اور حالات کا مجموعہ ہے جو ان کے ایک فاضل شاگرد نے جمع فرما دئیے۔ اگرچہ سید صاحب خود پڑھنے لکھنے سے معذور تھے اس کا غالباً آخری واقعہ جو انہوں نے نقل فرمایا وہ یہ ہے ، وہ لکھتے ہیں میں اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بہت خوش تھا انہیں بھی خوشخبری دی کہ ظالم گورنر کو بادشاہ نے معزول کردیا ہے۔ تو فرمانے لگے یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ ابھی تو جہنم میں جو جگہ اس کے لیے بن رہی ہے اس میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ابھی وہ مزید ظلم کرے گا۔ پھر بڑی حسرت سے لکھتے ہیں کہ میرے شیخ کا تو وصال ہوگیا۔ اور اس ظالم کو بادشاہ نے پھر سے بحال کردیا دیکھیں اب اس کی ناؤ کب ڈوبتی ہے۔ اے لوگو ! اے اولاد آدم ! تمہارے پاس اللہ کا رسول حق کے ساتھ مبعوث ہوا ہے اب تمہاری بہتری مان لینے اور قبول کرلینے میں ہے۔ تمہارے نہ ماننے سے اللہ کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے اسی کا ہے لیکن تم خیر سے بھلائی سے اور بہتری سے محروم ہوجاؤ گے یہی وجہ ہے کہ کافر کو یا بےیقین مسلمان کو بھی کبھی چین نصیب نہیں ہوتا کہ چین اور قرار خیر میں ہے اور خیر نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہ اعتبار اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی میں ہے جو اللہ کے روبرو کرنا ہے جسے ہر بات کا علم بھی ہے اور جو دانا تر بھی ہے۔ اور اے اہل کتاب ! امور دنیا میں بھی حدود سے تجاوز درست نہیں ہوتا اور دین کے نام پر اگر حد سے گذر جاؤ گے تو بےدین ہوجاؤ گے اس لیے کہ دین میں جو زیادتی کرتا ہے یا کمی کرتا ہے تو اس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور اللہ پر حق کے علاوہ کچھ مت کہو ، یہ پکی بات ہے کہ مسیح عیسیٰ (علیہ السلام) جو مریم کے بیٹے ہیں۔ وہ اللہ کے رسول بھی ہیں اور اس کا کلمہ بھی یعنی اس کی قدرت کاملہ کی نشانی بھی اس کی عظمت کی دلیل بھی ، ایک ایسا کلمہ جو حضرت مریم کی طرف القاء کیا گیا یہ القاء کیا ہوتا ہے ؟ مختصراً یہ جان لیں کہ اللہ کریم فرشتے کو پیغام دے کر رانہ کریں تو وہ وحی کہلائے گا جو انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ عالم غیب کی اشیاء دل کی آنکھ سے دکھا دے تو اسے کشف کہا جاتا ہے اگر نظر نہ آئے مگر حقیقت دل میں واضح ہوجائے تو وجدان کہلاتا ہے اگر اوپر سے بات دل میں ڈال دیجائے۔ تو اسے الہام یا القاء کہتے ہیں۔ یعنی برکات دینے والا اپنے مقام کو بھی نہیں چھوڑتا اور ہاتھ بڑھا کر عطا کردیتا ہے اوپر سے نیچے یہ القا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مرد اور عورت سے نسل چلتی ہے مگر اظہار قدرت کے لیے ہر جگہ استثناء موجود ہے بندہ نے ایک بار بہت سے مستثنیات جمع بھی کئے۔ یہاں بھی اظہار قدرت ہے کہ مرد کا نطفہ شامل ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے اس کا حکم یا کلمہ تو تعمیر بدن انسانی بدن کے اندر شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں مرد نہیں نہ نطفے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ نرا حکم الہی ہے براہ راست اس کا حکم ہے اور پھر جب تعمیر بدن ایک درجہ پر پہنچتی ہے تو اس میں اللہ کی طرف سے روح پھونک دی جاتی ہے یہاں بھی یہی قاعدہ ہے کہ اللہ کی طرف سے روح پھونک دی گئی یہاں علماء نے بہت سی باتیں نقل فرمائی ہیں جن میں مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں جو سب تقریبا ایک ہی جیسی ہیں بندہ نے ذرا سلیس کرکے بات کو عام قاری کے لیے آسان کرنے کی کوشش کی ہے ، اب اس پہ یہ طومار کھڑا کرنا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خود خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں یا تین میں سے ایک ہیں اقنوم ثلاثہ یعنی تین غالب قوتیں خدا ، عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم ، ایک فرقے کے مطابق حضرت مریم کی جگہ جبرائیل امین کو شامل کرلیتے ہیں بہرحال یہ سب جھوٹ اور بہتان ہے ، اللہ پر بھی اور اللہ کے دین پر بھی۔ اور بھلائی اس میں ہے کہ یہ تین تین خداؤں کا تصور چھوڑ کر ذات وحدہ لاشریک پہ ایمان لاؤ اور اس کے تمام رسولوں کو رسول مانو یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی خدا ماننے کی بجائے خدا رسول مانو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی پہ بھی ایمان لاؤ اور بیہودگی سے باز آجاؤ اسی میں بہتری ہے اور خوب جان لو کہ اللہ بالکل اکیلا معبود ہے اور وہ ان باتوں سے پاک ہے کہ اس کے کوئی اولاد ہو اس کی ذات ان چیزوں سے بہت وری الوری بہت بلند ہے اور یہ ارض و سماء میں جو کچھ ہے سب اسی کا تو ہے اسی کی مخلوق ہے۔ اور وہی بہترین کارساز ہے اور اس کے بندوں کی نشانی یہی ہے کہ اس کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرنے والے ہوں گے اور جو خود کتاب و سنت پر عمل کرنے والے لوگ ہیں ان سے کتاب و سنت کو سیکھو۔ اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ محض اٹکل یا رسومات سے اللہ کریم کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اس کام کے لیے اس کے حکم کی تعمیل ضروری ہے اسی لیے پیروں اور مشائخ کے معاملہ میں بھی ادب ضرور کیا جائے مگر غلو سے کام نہ لیا جائے۔ ان سے اللہ اور اللہ کے نبی کی باتیں سیکھی جائیں۔ رسومات اور رواجات میں پڑ کر تباہی کا راستہ اختیار نہ کیا جائے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 163-169 لغات القرآن : اوحینا، ہم نے وحی کی۔ قصصنا، ہم نے قصے بیان کئے۔ کلم اللہ، اللہ نے کلام کیا۔ لئلا یکون، تاکہ نہ ہو۔ حجۃ، دلیل، طریق، راستہ۔ تشریح : آیت 153 میں جو ذکر ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا تھا کہ آسمان سے نازل کی ہوئی ایک مکمل لکھی ہوئی کتاب ہمیں دکھاؤ تو ہم ایمان لے آئیں گے ان آیات میں اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ جن نبیوں کو تم مانتے ہو، جن پر ایمان لانے کا دعویٰ تم کرتے ہو۔ کیا ان میں سے اکثر و بیشتر کو لکھی ہوئی مکمل کتاب نہیں دی گئی تھی ؟ ۔ ہاں زبور حضرت داؤد کو ملی تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خود اللہ نے براہ راست کلام کیا تھا اور توریت کی تختیاں دی گئی تھیں۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) (اور ان کی اولادیں) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ایوب (علیہ السلام) اور حضرت یونس (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو وحی بھیجی گئی تھی اور تم ان کی نبوت پر ایمان لاتے ہو تو پھر رسول اللہ سے تمہارے مطالبہ کا کیا مطلب ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول اس لئے نہیں بھیجے جاتے کہ ہر جائز و ناجائز مطالبات کو مانتے رہیں بلکہ ان کا مقصد دین ہدایت کو پھیلانا ہوتا ہے۔ ماننے والوں کو جنت کی بشارت دینا ہوتا ہے۔ نہ ماننے والوں کو جہنم سے ڈرانا ہوتا ہے۔ اللہ یہ قدرت رکھتا ہے کہ نافرمانوں کو سزا دیدے اور کوئی چون و چرا نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کی حکمت اور مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے رسول بھیجے جو اس کے پیغام بر ہوں اور بشیر و نذیر ہوں تاکہ عوام پر حجت تمام ہوجائے اور وہ یہ عذر لنگ پیش نہ کرسکیں کہ ہمیں علم نہ تھا۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اب جو پیغمبر اسلام بھیجے گئے ہیں ان کو مان لینے میں عافیت ہے۔ تم نے پہلے نبیوں کو معجزہ کی بنیاد پر مانا تھا۔ پیغمبر اسلام کا خاص معجزہ قرآن مجید ہے جس میں علم الٰہی ہے۔ اس کی گواہی اللہ بھی دیتا ہے اور فرشتے بھی۔ لیکن اگر تم نے الٹی سیدھی باتیں کیں ، خود بھی کافر بنے رہے اور دوسروں کو بھی راہ حق اختیار کرنے سے روکا۔ تو تمہارا انجام بہت ہی برا ہوگا۔ اگر تم نے کفر کیا اور مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے رہے تو سن لو تم سخت گمراہی میں ہو، اللہ تمہاری بخشش نہ کرے گا۔ اور تمہارے لئے جہنم کی آگ دہکائی جا رہی ہے جس میں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ چلنا پڑے گا وہاں تم نہ جیو گے نہ مروگے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین کے جن بنیادی ارکان کا پہلے ذکر ہوا ہے۔ اسی کی تبلیغ یہ عظیم المرتبت شخصیات کرتی رہی ہیں۔ یہودیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتلایا گیا ہے کہ دین کے بنیادی احکامات ہمیشہ سے ایک تھے اور ہیں۔ وہ لوگوں پر براہ راست نازل ہونے کی بجائے وحی کے ذریعے انبیاء ( علیہ السلام) پر نازل ہوتے رہے۔ جو مختلف انداز اور الفاظ میں اتارے گئے۔ قرآن مجید تحریری مسودہ کے بجائے لوگوں کی سہولت اور اصلاح احوال کی خاطر خطاب در خطاب کی صورت میں نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر خطاب میں نصیحت کے جامع پہلو کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظریہودیوں کے اس مطالبہ پر کہ ان پر براہ راست کتاب کیوں نہیں نازل کی جاتی اس کے جواب میں نصیحت کے کئی پہلو اختیار کیے گئے ہیں۔ ١۔ پہلے سرزنش کی گئی کہ تم موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بڑھ کر سوالات کرچکے ہو جن میں تمہارے اکثر سوال پورے ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود تم بڑے بڑے جرائم میں ملوث رہے اور اب بھی ان گناہوں کا اعتراف کرتے ہو۔ ان سے تائب ہونے کی بجائے ان پر فخر کرتے اور ان کا ارتکاب کیے جا رہے ہو۔ ٢۔ کسی امت پر بھی براہ راست کتاب نازل نہیں کی گئی اللہ تعالیٰ کے احکام وحی کے ذریعے ہی انبیاء پر نازل ہوتے رہے ہیں جن اولو العزم شخصیات پر وحی نازل ہوئی ان میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے جو شان و مرتبہ اور جدوجہد کے اعتبار سے سب سے نمایاں تھے جن کی اکثریت کا تعلق تمہارے آباؤ اجداد سے ہے۔ ٣۔ ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جس کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ توحیدخالص پر ایمان لانا، تمام آسمانی کتب کو تسلیم کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور آخرت پر کامل یقین رکھنا ہے۔ ٤۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت کا مقصد لوگوں کے اچھے اعمال کے بدلے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی خوشخبری دینا اور برے اعمال کے برے انجام سے لوگوں کو ڈرانا تھا۔ ٥۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد لوگوں کو سینہ زوری سے منوانا نہیں ان کا کام بتلانا اور سمجھانا تھا تاکہ محشر میں لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔ ٦۔ بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکرے کا مقصد نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ اس لیے آدم (علیہ السلام) سے انبیاء کا ذکر کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع کیا ہے کیونکہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تشریف آوری سے کچھ عرصہ پہلے تک لوگ توحید اور فطرت سلیم پر قائم رہے بعد ازاں لوگ شرک میں مبتلا اور دین سے منحرف ہوگئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال بڑی جانفشانی سے جدوجہد فرمائی لیکن چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب گمراہی پر قائم رہے جنھیں طوفان نے آلیا اور وہ نیست و نابود کردیے گئے۔ ان کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں نسل در نسل انبیاء ( علیہ السلام) کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ جن میں ایسے انبیاء بھی تھے جو نبوت کے منصب کے ساتھ حکمران بھی تھے ان میں موسیٰ (علیہ السلام) ایسے پیغمبر ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف پایا۔ ان کی شخصیت، جدوجہد اور حالات و واقعات کو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مماثل قرار دیا گیا ہے (المزمل : ١٥) ان انبیاء کے آخر اور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) عظیم الشان معجزات کے ساتھ تشریف لائے۔ یہ تمام کے تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری دینے والے اور اس کی نافرمانیوں سے ڈرانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چیدہ چیدہ انبیاء کا ذکر فرمایا ہے باقی کا ذکر نہیں کیا۔ جن کے ذکر نہ کرنے کی وہی حکمت جانتا ہے اللہ تعالیٰ ہر بات اور ہر کام پر غالب ہے اور اس کے ہر فرمان اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، وَالأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی، وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ ) [ رواہ البخاری : باب واذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء (علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور دین ایک ہی ہے۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) ہی کی طرح وحی نازل ہوئی۔ ٢۔ قرآن کی طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) پر بھی کتابیں نازل کی گئیں۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے از خود کلام فرمایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ انبیاء (علیہ السلام) کے واقعات بیان فرمائے اور کچھ کا ذکر نہیں فرمایا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کا اجتماعی ذکر : ١۔ اٹھارہ انبیاء کرام کا ذکر۔ (الانعام : ٨٣ تا ٩٠) ٢۔ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد موسیٰ ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام) ۔ (البقرۃ : ١٣٦) ٣۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر گرامی ( آل عمران : اور احزاب : ١٤٤، محمد : ٢، الفتح : ٢٩۔ ) موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ و مقام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست کلام کیا۔ (النساء : ١٦٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو عظیم معجزے عطا فرمائے۔ (طٰہٰ : ١٧ تا ٢٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو برتری عطا فرمائی۔ (الاعراف : ١٤٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہود کے الزام سے پاک کیا۔ (الاحزاب : ٦٩) ٥۔ موسیٰ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان مماثلت قرار دی گئی۔ (المزمل : ١٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں عطا فرمائیں۔ (بنی اسرائیل : ١٠١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٦٣ تا ١٦٥۔ غرض یہ ایک قافلہ ہے جو شاہراہ تاریخ پر چلتا ہوا نظر آتا ہے اور اس سلسلے کی کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں ۔ یہ ایک ہی رسالت ہے اور اس کا ایک ہی نصب العین ہے کہ انسان کو قبل از وقت خبردار کردیا جائے اور اچھے لوگوں کو قبل از وقت ہی اچھے انجام کی خوشخبری دیدی جائے ، اس قافلے میں آگے پیچھے مختار ان درگاہ الہی اور انسانوں میں سے چیدہ لوگ آگے پیچھے چلے آرہے ہیں ۔ یہ رہے حضرت نوح (علیہ السلام) یہ رہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ آئی سواری حضرت اسماعیل کی ۔ انکے بعد یہ چلے آرہے ہیں حضرت اسحاق (علیہ السلام) ان کے بعد متصلا حضرت یعقوب آرہے ہیں ۔ اب کچھ مختلف گروہ نمودار ہوئے حضرت ایوب (علیہ السلام) یونس (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) ‘ سلیمان (علیہ السلام) ‘ داؤد (علیہ السلام) ‘ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے اپنی اپنی باری پر اور بعض ایسے لوگ بھی چلے آئے ہیں جن کے نام سے ہم واقف نہیں ہیں۔ آخر میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبین تشریف لا رہے ہیں اور اب اس قافلے کا آخری سرا اختتام کو پہنچا ۔ اس قافلے میں بعض لوگ ایسے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے پیش کیا ۔ اس قافلے میں مختلف رنگوں اور مختلف نسلوں کے نبی ہیں اور کرہ ارض کے مختلف علاقوں میں یہ قافلہ نظر آتا ہے ۔ اور مختلف ادوار اور مختلف زمانوں میں ، مختلف معاشروں اور مختلف خاندانوں میں یہ رسول کام کرتے رہے ۔ یہ سب ایک ہی مصدر اور منبع سے پیغام لاتے رہے ۔ یہ سب راہ دکھانے والی ایک ہی روشنی کے حامل رہے ۔ سب کے سب متنبہ اور خبردار کرتے رہے اور خوشخبری دیتے رہے ۔ یہ سب کے سب قافلہ انسانیت کی زمام اپنے ہاتھ میں لیکر اسے نور ہدایت میں داخل کرتے رہے ۔ چاہے کوئی کسی ایک خاندان کیلئے آیا ہو ‘ چاہے کوئی کسی ایک قوم کیلئے آیا ہو ‘ چاہے کوئی ایک شہر ار ایک علاقے کیلئے آیا ہو ‘ چاہے کوئی تمام انسانوں کیلئے آیا ہو اور خاتم النبین کا لقب پایا ہو۔ یہ سب کے سب وحدہ سے وحی پاتے رہے ۔ ان میں سے کسی نے کوئی بات اپنی طرف سے پیش نہیں کی ۔ ان میں سے اگر اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست بات کی تو وہ بھی وحی کا ایک رنگ تھا ۔ اس کیفیت سے ہم آگاہ نہیں ہیں نہ اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ قرآن کریم آخری وحی کا ریکارڈ ہے اور یہ اس قدر درست ریکارڈ ہے جو ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہے اور قرآن نے اس ہم کلامی کی کوئی تفصیل یاکیفیت بیان نہیں کی ہے ۔ اس کی کیفیت کیا تھی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کن خواص اور کس قوت ادراک سے اسے پا رہے تھے ۔ یہ سب باتیں غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ قرآن کریم نے ان کے بارے میں کوئی بات بیان نہیں کی ہے ۔ اور قرآن کریم کے علاوہ اس موضوع پر جو کوئی بھی اپنے دہن سے بات کرے گا وہ بےسند ‘ فلسفہ یا قصہ کہانی ہوگی ۔ یہ رسول ‘ جن میں سے بعض کے نام ذکر ہوئے اور بعض کے نام نہیں لئے گئے کیوں بھیجے گئے ؟ اللہ کی شفقت اور رحمت اور عدالت کا تقاضا یہی تھا کہ وہ رسول بھیجے ۔ تاکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے مومنین اور اطاعت کندگان کو خوشخبری دیدیں کہ اللہ نے ان کیلئے کیا کیا نعمتیں تیار کی ہوئی ہیں ۔ بیشمار نعمتیں اور اللہ کی رضا مندی ان کے انتظار میں ہے ۔ اور کافروں اور نافرمانوں کو ڈرائیں کہ اللہ کا غضب اور ایک دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے ۔ اور یہ سب کچھ کیوں کیا گیا ۔ (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل “۔ (٤ : ١٦٥) (تاکہ ان کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے ۔ “ اور یہ رسول لوگوں کو بتا دیں کہ ان کے نفس اور ان کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے اندر کیا کیا دلائل ہیں ۔ انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ جنس بشر کو متاع عقل سے نوازا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنے نفسوں اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے اندر دلائل تلاش کریں۔ عقل کے ہوتے ہوئے بھی ان کے پاس رسول بھیجے گئے ، یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں پر خاص شفقت اور رحمت تھی کہ اس نے رسول بھیجے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ انسان کی ذاتی خواہشات اور اس کے میلانات اس کی عقل پر غالب آجائیں گے اور ان کے نتیجے یہ عظیم قوت دب کر رہ جائے گی ۔ اسی لئے اللہ نے اپنی رحمت خاصہ کے تحت ان کے پاس رسول بھیجے جو مبشرین اور منذرین تھے ۔ وہ ان کے سامنے یاد دہانی کراتے رہے ۔ انہیں بصارت اور بصیرت دیتے رہے ۔ وہ ان کی فطرت اور ان کی قوت عقلیہ کو شہوات نفسانیہ کے ڈھیروں کے نیچے سے نکال کر آزاد کراتے رہے ۔ جن ڈھیروں کے نیچے رہتے ہوئے اس کی عقل اور فطرت کیلئے دلائل ہدایت اور ایمان کے تقاضوں کو پانا مشکل ہوگیا تھا چاہے یہ دلائل خود نفس انسانی کے اندر ہوں یا اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی اس کائنات کے اندر ہوں ۔ (آیت) ” وکان اللہ عزیزا حکیما “۔ (٣ : ١٦٥) (اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم ودانا ہے ۔ “ وہ غالب اس طرح ہے کہ اس کے بندے جب جرائم کا ارتکاب کریں ان پر وہ گرفت کرسکتا ہے ۔ حکیم ودانا اس طرح ہے کہ وہ اس کائنات کے تمام امور کو اپنی حکمت کے مطابق چلاتا ہے ۔ ہر معاملے کو اپنی جگہ پر طے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کیلئے جو تقدیرات اور جو اندازے طے کئے ہیں وہ سب حکمت اور اپنی مشیت کے مطابق کئے ہیں ۔ اب ذرا منظر کے سامنے رکئے ! (لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (٤ : ١٦٥) ” تاکہ ان رسولوں کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے “۔ اس منظر میں تو ہدایات واشارات کا ایک ذخیرہ پنہاں ہے ۔ گہرے اشارے اور واضح ہدایات ۔ ہم ان میں سے دو تین کا ذکر کرتے ہیں اور وہ بھی ضلال القرآن کی مناسبت سے نہایت ہی مختصر۔ اس آیت سے پہلی بات جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ نظام دین میں انسانی عقل کا مقام کیا ہے ؟ اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ اور انسان کے اہم ترین مسائل مثلا مسئلہ ایمان کے سلسلے میں عقل کی اہمیت کیا ہے ؟ اس لئے کہ ایمان کی بنیادوں پر لوگوں کی زندگی کا نظام استوار ہونا تھا ۔ اور زندگی کے تمام عناصر ‘ اس کے تمام رجحانات ‘ اس کی پوری عملی شکل اور اس کی کائنات میں اس کے تمام تصرفات کو ایمانی نظریے پر استوار ہونا تھا ‘ جس طرح عالم آخرت میں اس کا انجام تمام کا تمام اس ایمان پر موقوف تھا ۔ اگر اپنی قوتوں کے بل پر (اور اللہ انسان اور اس کی قوتوں کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے ‘ اور ان قوتوں کو انسان کے اندر خود اللہ نے ودیعت کیا ہے ) یہ انسان صرف اپنی اس عقل کے ذریعہ ہدایت پاسکتا اور اپنی ذات اور اپنی حیات کیلئے راہ مصلحت تلاش کرسکتا ‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے لئے خیر ڈھونڈ سکتا تو اللہ تعالیٰ پوری انسانی تاریخ میں اس طویل سلسلہ رسل کو ہر گز نہ جاری فرماتا اور لوگوں پر بذریعہ رسل حجت تمام نہ کرتا اور انسان اپنی اس عقل کے بل بوتے پر اپنے لئے دلائل ہدایت اور ایمان ویقین کے اشارات تلاش کرلیتا ۔ یہ دلائل وہ اپنے نفس سے بھی معلوم کرلیتا اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے آفاق کے اندر سے بھی وہ انکو دھونڈ لاتا ۔ وہ اپنے لئے ایک ایسا نظام زندگی بھی گھڑلیتا جس سے اس کی زندگی کے تمام مسائل ہوجاتے ۔ وہ راہ حق اور صراط مستقیم پر سیدھا چلتا ۔ سلسلہ رسل کی سرے سے ضرورت نہ رہتی ‘ ان کی تبلیغی سرگرمیوں کی ضرورت نہ رہتی ‘ اور اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتے کہ اگر رسول نہ ہوتے تو لوگوں کے پاس حجت ہوتی ۔ جیسا کہ کہا گیا۔ (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (٤ : ١٦٥) ” تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت نہ ہو۔ “ لیکن اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا کہ اس کو عقل کا جو ذریعہ ادراک اور الہ فہم دیا ہے وہ بذات خود ان امور کے ادراک سے قاصر ہے اور محض عقل انبیاء کی راہنمائی کے بغیر ‘ رسولوں کی تنظیم اور معاونت کے بغیر ہدایت تک نہیں پہنچ سکتی ۔ نیز رسولوں کی راہنمائی کے بغیر اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پوری انسانی زندگی کیلئے کوئی اور منہاج حیات وضع کرلیں جس میں ان کی پوری پوری مصلحت ہو اور وہ ان کیلئے دنیا اور آخرت دونوں میں اچھے انجام کا ضامن ہو ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو عقل انسانی کی کوتاہ دامنی کا اچھی طرح علم تھا ‘ اسی لئے اللہ کی حکمت اور اس کی شفقت کا تقاضا یہ ہوا کہ وہ لوگوں کیلئے رسول بھیجے اور یہ کہ رسالت اور تبلیغ ہدایت کے بغیر لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا) ” ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں “ اور یہ بات اس قدر بدیہی ہے کہ آیت سے قطعا ثابت ہوتی ہے اور اگر قطعا ثابت نہیں ہوتی تو اس آیت کا لازمی تقاضا ضرور ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان وہدایت کے میدان میں اور ایمان وہدایت کی اساس پر تفصیلی نظام زندہ قیام کے معاملے میں پھر عقل کا کردار ہی کیا رہ جاتا ہے ۔ ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عقل انسانی کا کردار یہ ہے کہ وہ رسولوں سے ہدایت اخذ کرنے کے سلسلے میں اپنے فرائض ادا کرے ۔ عقل کا فرض ہے کہ رسولوں کی دعوت پر غور وفکر کرے ۔ رسولوں کے فرائض صرف اس حد تک ہیں کہ وہ پہنچا دیں اور سمجھا دیں اور انسانی فطرت کے اوپر جو غلط افکار کے تہہ بہ تہہ ڈھیر ہیں انہیں صاف کرکے فطرت کو ان کے نیچے سے نکال دیں ‘ اور انسان کو اس طرف متوجہ کردیں کہ اس کے نفس اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے اندر معرفت کرد گار (خالق) کے واضح دلائل موجود ہیں ۔ اس کیلئے یہ رسول صحیح نظام تربیت اور صحیح منہاج مطاعلہ کائنات وضع کردیں اور انسانوں کیلئے نظام زندگی تجویز کردیں جس پر انکی زندگی کا قافلہ رواں اور دواں ہوجائے اور جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی خیر ہو ۔ عقل کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ دین اور الہیات کے معاملے میں ‘ ان موضوعات کی صحت اور بطلان کے بارے میں مفتی اور جج بن جائے ۔ اسے اختیار ہو کہ جو چاہے وہ قبول کرے اور جس چیز کو چاہے اسے رد کر دے جبکہ وہ بات قرآن وسنت سے یقینی طور پر ثابت شدہ ہو یہ بعد کہ اس بات کا مفہوم واضح طور پر سمجھ میں آگیا ہو ۔ یعنی نصوص قرآنی کے لغوی اور اصطلاحی مدلولات کی روشنی میں ۔ اگر عقل انسانی کو رد و قبول کا یہ اختیار ہوتا یعنی صحیح مفہوم ومدلول کے ادراک کے بعد ‘ بایں طور کہ ہماری عقل اس مدلول کو قبول نہیں کرتی ‘ یا اسے قبول کرنا نہین چاہتی تو پھر خدا اور رسول کے بیان کے بعد انسان مستحق عذاب قرار نہ پاتا ۔ لہذا عقل اس بات کی پابند ہے کہ وہ ضروریات دین کو قبول کرے ۔ اگر یہ عقائد اس تک صحیح طرح پہنچ جائیں اور جب عقل صحیح طور پر ان نصوص کے مفہوم و مراد کو سمجھ بھی جائے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت عقل کو مخاطب کرتی ہے ۔ وہ عقل کو جگاتی ہے ‘ اس کیلئے فکر ونظر کا ایک درست منہاج وضع کرتی ہے اور اسے صحیح راہ پر ڈالتی ہے ۔ لیکن یہ خطاب اس مفہوم میں نہیں ہے کہ عقل کو اس رسالت کے صحیح ہونے یا اسکے باطل ہونے کا فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہے یا وہ ایسا کرسکتی ہے ۔ یا امور رسالت میں اسے رد و قبول کر اختیار حاصل ہے ‘ بلکہ بہ خطاب اس مفہوم میں ہے کہ جب نص سے کوئی امر ثابت ہوجائے تو وہی اللہ کا حکم ہوگا اور عقل انسانی کا فرض ہے کہ اسے قبول کرے ۔ اس کی اطاعت کرے اور اسے اس کرہ ارض پر نافذ کرے ۔ چاہے نص کا یہ مفہوم اس کے ذہن کیلئے مالوف ومقبول ہو یا اس کیلئے عجیب و غریب ہو ۔ عقل انسانی کا کردار اس بات میں صرف اس قدر ہے کہ وہنصوص کو سمجھنے کی صحیح کوشش کرے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ لغت عربی اور اصطلاحات شریعت کے مطابق اس نص کا مفہوم کیا بنتا ہے ۔ یہاں آکر عقل کا کام ختم ہوجاتا ہے اور نص شریعت سے جو صحیح مفہوم اخذ ہوتا ہے اسے کسی عقلی دلیل اور قیاس سے رد نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ جہاں تک نص کا تعلق ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے ۔ محض عقلی توجیہہ نص سے برتر نہیں ہو سکتی اس لئے کہ عقل الہ کا درجہ نہیں رکھتی نہ وہ اللہ کی نصوص کے اور ردوقبول کا درجہ رکھتی ہے۔ اس اہم نکتے پر خیالات کے اندر ایک عظیم التباس پیدا ہوجاتا ہے ۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو عقل انسانی کو الہ کا درجہ دیدیتے ہیں ۔ اپنے معاملات پر بھی اسے حکم قرار دیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایمان وہدایت کے میدانوں میں عقل کو دخل اندازی کی ذرہ بھر اجازت نہیں دیتے ، صحیح منہاج وہی ہے جو اوپر ہم نے بیان کردیا ہے ۔ وہ یہ کہ رسالت نے عقل کو مخاطب کیا ہے تاکہ وہ رسالت کے فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ رسالت اپنے عملی اور نظریاتی فیصلوں کے بارے میں عقل کیلئے بھی ایک منہاج بناتی ہے تاکہ وہ بھی اپنے دائرے کے اندر کام کرے ۔ پوری زندگی میں رسالت کے فیصلوں کا ادراک کرے ۔ جب عقل نے رسالت کے فیصلوں کو سمجھ لیا کہ نصوص شریعت و رسالت کا مفہوم کیا ہے تو پھر عقل کیلئے تصدیق ‘ اطاعت اور انکے نفاذ کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں رہتا شریعت یہ لازم نہیں کرتی کہ وہ مفاہیم نصوص سمجھے بغیر ان پر عمل کرے بلکہ شریعت کا مدعا یہ ہے کہ نصوص شریعت پر سمجھ کر عمل کیا جائے ۔ لیکن جب عقل ان کا ادراک کرلے تو اس پر فرض ہوجاتا ہے کہ پھر ان پر عمل پیرا ہو اور کوئی چون وچرا نہ کرے ۔ نصوص کے مفاہیم کے مطابق بات کو قبول کرے ۔ اور نصوص کا مقابلہ اور چون وچرا یہ ہوگا کہ ان میں سے بعض کو قبول کرے اور بعض کو رد کرے ۔ بعض کو صحیح قرار دے اور بعض کو غلط قرار دے ‘ باوجود اس علم کے کہ یہ نصوص وہدایت اللہ کی جانب سے آئی ہوئی ہیں ۔ اللہ وہی بات کرتا ہے جو حق ہوتی ہے اور وہ جو حکم بھی دیتا ہے اس میں بھلائی ہوتی ہے ۔ اسلامی منہاج حیات میں اللہ سے ہدایت پانے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ نصوص قرآن وسنت کا صحیح مفہوم پالینے کے بعد اس میں عقلی گھوڑے نہ دوڑائے جائیں یہ فہم اصول فہم کے مطابق ہو۔ انسان قرآن وسنت کا مطالعہ اپنے ذہن میں بعض فیصلے پہلے سے طے کرکے نہ کرے اس طرح کہ اپنے دین میں بعض منطقی نتائج طے کرلے یا اپنے محدود ملاحظے سے کچھ باتیں طے کرلے یا پنے ناقص تجربات کے مطابق بعض چیزوں کو حقائق سمجھ لے اور اس کے مطابق قرآن وسنت کو ڈھالنے کی سعی کرے ۔ صحیح منہاج مطالعہ یہ ہے کہ وہ نصوص کو اس طرح لے جس طرح کہ وہ ہیں اور نصوص نے جو فیصلے کر لئے ہیں وہ بہرحال فیصلے ہیں اور وہ اس کی ذاتی سوچ سے بہتر ہیں اور ان کا نظام اور ان کا منہاج اس کے ذاتی منہاج سے زیادہ مضبوط ہے اس لئے عقل دین کے فیصلوں پر کوئی محاکمہ نہیں کرسکتی ۔ جب عقل کے نزدیک یہ بات ثابت ہوجائے کہ یہ فیصلہ دین کا ہے ۔ لوگوں کے بتائے ہوئے فیصلے اصول دین پر برتری حاصل نہیں کرسکتے ہیں ۔ عقل بہرحال ان دینی ضوابط کی تابع ہوگی ۔ بشرطیکہ دین کے ضوابط اور پیمانے اچھی طرح ثابت ہو کو سامنے آجائیں ۔ عقل لو الہ کا درجہ حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ قرار دے کہ اس نے جو نتائج اخذ کر لئے ہیں وہ اللہ کے فیصلے ہیں ہاں عقل انسانی کو یہ حق ضرور حاصل ہے کہ وہ کسی نص کا کوئی مفہوم انسانی عقل کے مطابق کسی دوسرے مفہوم کے مقابلے میں پیش کرے جو بذات خود بھی عقلی مفہوم ہو ۔ یہ تو عقل انسانی کا دائرہ کار ہے اور اس میں عقل پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ اس میں کوئی حرج ہے بشرطیکہ نصوص کا یہ مفہوم وادراک صحیح اور اصولوں کے دائرے کے اندر ہو مقصود تاویل نصوص اور افہام و تفہیم ہو اور نصوص کے اندر تاویل کی گنجائش موجود ہو ۔ یہ تاویل اور تفہیم بھی ان قواعد اور ضوابط کے اندر ہو ‘ جو اس مقصد کیلئے خود دین نے وضع کئے ہیں ۔ یہ قواعد ایسے ہیں جو انسانوں کی حریت فکر کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور انسان کے فہم وادراک کیلئے ایک وسیع میدان فراہم کرتے ہیں ۔ اسلامی نظام میں کوئی ایا اداراہ کوئی ایسی اجتماعی پابندی اور کوئی ایسا عہدیدار نہیں ہے جسے ذہنوں پر تالے لگانے کا اختیار ہو کہ لوگ نصوص شرعیہ کے اندر غوروفکر نہیں کرسکتے ۔ ان کے انطباق کیلئے کوئی اچھی رائے نہیں دے سکتے یا کوئی معقول وجوہ پیش نہیں کرسکتے ۔ بشرطیکہ کوئی شرعی نص ان آراء ‘ ان تاویلات اور وجوہات کی متحمل ہو اور یہ تاویلات بھی اسلامی نظام کے حدود کے اندر ہوں اور اصول دین پر مبنی ہوں ۔ یہ ہے مفہوم اس بات کا کہ رسالت محمدیہ عقل کو مخاطب کرتی ہے ۔ بیشک اسلام ایک عقلی دین ہے ۔ وہ اپنے مسائل ‘ عقائد اور فیصلے عقل کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اور اسلام یہ فیصلے اور عقائد انسانوں سے فوق الفطری انداز میں نہیں منواتا کہ ماننے کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ رہے بلکہ وہ عقلی دین اس مفہوم میں ہے کہ وہ عقل سے مخاطب ہوتا ہے اور اسے غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ اس کے سامنے ہدایت اور صراط مستقیم پر آنے دلائل پیش کرتا ہے کہ وہ اپنے نفس اور اپنے آفاق کے اندر پائے جانے والے ان نشانات راہ پر غور کرے راہ پر غور کرے اور انسان کی اصلی فطرت کو ان عادات وتقالید کے تہ بہ تہ جمے ہوئے پردوں اور ڈھیرون کے نیچے سے نکالے ۔ نیز یہ کہ عقل اپنے آپ کو گمرہ کن خواہشات اور عقل و فطرت پر چھا جانے والے موثرات سے نکال لے ۔ قرآن کریم عقل کو اس لئے خطاب کرتا ہے کہ قرآن نے اپنے نصوص کے اندر جو امور طے کردیئے ہیں وہ ان پر غور وفکر کرکے انکو تسلیم کرے ، اور قرآن کریم کا یہ انداز نہیں ہے کہ وہ بغیر سمجھانے کے لوگوں کو بات تسلیم کرنے پر مجبور کرے ۔ ہاں جب عقل کو کام میں لا کر انسان کسی نص کا مفہوم ومدلول پالے اور حقائق کا ادراک کرے تو پھر اس کیلئے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے ۔ سمجھنے کے بعد اگر وہ تسلیم کرلیں تو مومن ہیں اور اگر تسلیم نہ کریں تو کافر ہیں۔ رہے قرآنی اور اسلامی فیصلے تو وہ عقل کے سامنے پیش کئے جانے سے پہلے ہوچکے ہیں ۔ عقل کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ درست ہیں یا غلط ہیں ۔ نہ عقل کو اختیار ہے کہفہم ودارک کے بعد اسلامی فیصلوں کو رد کرسکے ۔ آج کل بعض لوگ عقل کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اسلامی فیصلوں کو رد کرے ۔ ایسے لوگوں کے نزدیک ان کی عقل ان کا الہ بن جاتی ہے ۔ اب ان کا یہ الہ شریعت کے جن فیصلوں کو چاہے قبول کرلے اور جن کو چاہین انہیں رد کردے ۔ جن امورکو چاہے چن لے اور جن کو چاہے چھوڑ دے ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ (آیت) ” افتومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض “۔ کیا تم کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو ۔ “ یہ طرز عمل کافرانہ ہے اور ایسے لوگوں کو آخرت میں سخت سزا دی جائے گی ۔ اب اللہ تعالیٰ نے چاہے اس کائنات کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ‘ یا انسان کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ‘ یا کسی بھی دوسری مخلوق کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا یا اللہ تعالیٰ نے قانون میراث کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا یا فرائض ونواہی کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا تو اللہ کے یہ تمام فیصلے واجب القبول ہیں اور جن تک یہ فیصلے پہنچیں اور وہ ان فیصلوں کے مدلولات کا ادراک کرلیں تو ان کیلئے ان فیصلوں کو قبول کرنا فرض ہے ۔ مثلا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ (آیت) ” اللہ الذی خلق سبع سموت ومن الارض مثلھن “ (٦٥ : ١٢) (اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہیں کے مانند ۔۔۔۔۔ “ (آیت) ” (واللہ خلق کل دآبۃ من مآئ) (٢٤ : ٤٥) ” اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا۔ “ (آیت) ” (خلق الانسان من صلصال کالفخار) (١٤) (وخلق الجان من مارج من نار (١٥) (٥٥ : ١٤۔ ١٥) (انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے گارے سے بنایا اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا) یہ اور اس قسم کی بیشمار آیات ہیں جن کا تعلق اس کائنات کی نوعیت اور زندہ اور مردہ اشیاء کی ماہیت سے ہے ۔ پس اللہ نے جو کچھ کہہ دیا وہ حق ہے ۔ اب عقل کیلئے یہ مجال نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ باتیں تو میرے فیصلوں کے اندر اس طرح نہیں ہیں یا میرے فہم وادراک میں یہ بات نہیں سماتی یا یہ بات ابھی میرے تجربے کے اندر نہیں آئی ۔ اس لئے کہ ان معاملات میں عقل نے جو فیصلے کئے ہیں وہ درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کہہ دیا ہے وہ درست ہی ہو سکتا ہے اور اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ البتہ ہماری فہم نصوص کے صحیح مفہوم کا ادراک کرنے میں غلطی کرسکتی ہے اور یہ بات اس صورت میں ہے کہ نصوص کے صحیح مفہوم کا ہم ادراک کرلیں ۔ اسی طرح دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” (ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون) (٥ : ٤٤) (جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مومنین (٢٧٨) فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ وان تبتم فلکم رء وس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون “۔ (٢٧٩) (٢ : ٢٧٨۔ ٢٧٩) ” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ‘ خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ‘ اگر واقعی تم ایمان لائے ہو ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ‘ تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سودچھوڑ دو ) تو اپنا اصل سرمایہ تم لینے کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ (آیت) ” وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی) (٣٣ : ٣٣) ” اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کیسی سج دھج نہ دکھاتی پھرو “۔ (آیت) ” ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن “۔ (٢٤ : ٣١) ” اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں “۔ یہ اور انسانی زندگی کے بارے میں دوسری آیات وہدایات ایسی ہیں کہ ان میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہی سچ ہے اور ان کے بارے میں عقل کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ عقل کے مطابق فلاں اور فلاں باتوں میں مصلحت زیادہ ہے ‘ جو اللہ کے فیصلوں کے خلاف ہوں یا وہ ایسی باتیں ہوں جن کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہ دی ہو اور اسے لوگوں کیلئے قانون قرار نہ دیا ہو ۔ جس امر میں عقل کو مصلحت نظر آتی ہے اس میں خطا اور صواب دونوں کا امکان ہے اور وقتی جذبات اور خواہشات نفسانیہ کا دخل اس میں عین ممکن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرماتے ہیں وہ درست ہی ہو سکتا ہے اور اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے جن عقائد اور تصورات کی تلقین کی ہے ‘ یا زندگی کا جو منہاج اور طریق کار تجویز کیا ہے ان کے بارے میں عقل کا موقف جو ہو سو ہو ‘ جب تک نص صحیح ہے ‘ قطعی الدلالت ہے اور کسی وقت کے ساتھ موقت نہیں ہے ۔ اس بارے میں ہم عقل کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ یہ کہے کہ جہاں تک عقائد ونظریات کا تعلق ہے وہ تو ہم نصوص کے مطابق لیتے ہیں ۔ رہا زندگی کا تفصیلی نظام تو اس بارے میں بات یہ ہے کہ اب زمانہ بہت ہی بدل گیا ہے اور نہایت ہی ترقی یافتہ ہے ۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ نصوص شرعیہ کسی خاص وقت تک ہی موثر ہوں تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کرسکتا تھا ۔ جب تک کوئی نص مطلق ہے تو وہ جس طرح زمانہ نزول کے وقت موثر تھی اسی طرح وہ آخری زمانے میں بھی موثر ہوگی ورنہ یہ بات لازم آئے گی کہ ہم اللہ میاں کو قصور وار ٹھہرانے کی جسارت کریں جوہر قسم کے نقائص سے پاک وصاف ہے ۔ سوال یہ ہوگا کہ کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے ؟ نہیں اجتہاد اس مین ہوگا کہ ہم کسی جزئی صورت حال پر کسی نص کی تطبیق کریں ۔ یہ اجتہاد نہیں ہے کہ ہم ایک عام اصول میں یا حکم میں کوئی تبدیلی کریں یا اسے رد کردیں ‘ کسی دور میں یا کسی نسل میں اصول عقل میں سے کسی اصول کے تحت کوئی بات کریں ۔ درج بالا جو معروضات ہم نے پیش کی ہیں ‘ ان میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو حیات انسانی کے اندر عقل وخرد کی اہمیت کو کم کر رہی ہو اس لئے کہ اسلامی نصوص اور اصولوں کو جدید سے جدید تر حالات پر منطبق کرنے کا ایک وسیع میدان کار عقل کیلئے کھلا ہے ۔ جبکہ عقل اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی پیمانوں کا اچھی طرح ادراک کرے جو صحیح خطوط پر فہم دین سے مستفاد ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ وسیع میدان اس کائنات کے اصول طبیعی ‘ اس کی قوتوں اور اس کے اندر پوشیدہ ذخائر کا ہے ۔ اس کائنات کا مزاج ‘ اس کے اندر رہنے والی مخلوقات کا علم ‘ ان قوتوں کے استفادے کے ذرائع اور اس میں زندہ مخلوقات کیلئے زندگی آسان بنانے کے ذرائع واسباب عقل کیلئے وسیع تر میدان ہیں جن میں صرف عقل ہی کام کرسکتی ہے ۔ یہاں انسان کو ترقی دی جاسکتی ہے اور حدود اللہ میں رہتے ہوئے اس کی زندگی کے شب وروز بدل سکتے ہیں ۔ بہرحال عقل کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ انسانیت کی لگام ہوا وہوس اور لذت وشہوت کے ہاتھ میں دیدے جہاں عقل ٹھوکر کھاتی ہے اور فطرت خواہشات کے دبیز مادے کے نیچے دب جاتی ہے ۔ ذرا پھر رکئے اور اس آیت پر دوبارہ نظر ڈالئے (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (٤ : ١٦٥) ” تاکہ رسولوں کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔ “ اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کے کاندھوں پر کس قدر عظیم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں اور اس کے بعد جو لوگ انبیاء (علیہم السلام) کی رسالت پر ایمان لانے والے ہیں ان پر تمام انسانوں کے حوالے سے کس قدر عظیم ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں ۔ فی الواقعہ یہ عظیم اور بھاری ذمہ داریاں ہیں۔ تمام لوگ جو اس دنیا میں آباد ہیں ان کے انجام ‘ دنیا اور آخرت دونوں میں ‘ رسولوں اور رسولوں کے متبعین کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ مثلا رسول اور ان کے متبیعن اللہ کے پیغام کو ان تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور اس تبلیغ کے نتیجے ہی میں لوگوں کی خوش بختی اور بدبختی کا فیصلہ ہوگا ‘ اس تبلیغ اور دعوت ہی کے نتیجے میں ثواب اور عتاب کے وہ مستحق ہوں گے ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ بیشک یہ ایک ہولناک اور خوفناک اور عظیم ذمہ داری ہے لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام رسل (علیہم السلام) اپنی اس عظیم ذمہ داری کا شدید احساس رکھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ بھی ان کو اس بوجھ سے اچھی طرح آگاہ فرما دیتے تھے جو ان پر ڈالدیا گیا تھا ۔ یہی وہ بات ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہتے ہیں ۔ (آیت) ” انا سنلقی علیک قولا ثقیلا “۔ (٧٣ : ٥) ” ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنیوالے ہیں ۔ “ اور اس کیلئے تیاری یوں ہوگی ۔ (آیت) ” یایھا المزمل “ (١) قم الیل الا قلیلا (٢) نصفہ اوانقص منہ قلیلا (٣) اوزد علیہ ورتل القران ترتیلا (٤) (انا سنلقی علیک قولا ثقیلا (٥) (٧٣ : ١۔ ٥) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم ‘ آدھی رات ‘ یا اس سے کچھ کم کرلو ‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو ‘ اور قرآن کو خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو ۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنیوالے ہیں ۔ “ (آیت) ” انا نحن نزلنا علیک القرآن تنزیلا (٢٣) فاصبر لحکم ربک ولا تطع منھم اثما اوکفورا (٢٤) واذکراسم ربک بکرۃ واصیلا (٢٥) ومن الیل فاسجد لہ وسبحہ لیلا طویلا “۔ (٢٦) (٧٦ : ٢٣ تا ٢٦) ” اے نبی ! ہم نے تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے لہذا تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو ‘ اور ان میں سے کسی بدعمل ‘ یا منکر حق کی بات نہ مانو۔ اپنے رب کا نام صبح اور شام یاد کرو۔ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو ‘ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ یہ ہے وہ بات جس کا احساس اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو دلاتے ہیں اور اسے حکم دیتے کہ وہ یہ بات کریں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس کی حقیقت اور اہمیت کیا ہے ۔ (آیت) ” قل انی لن یجیرنی من اللہ احد ولن اجد من دونہ ملتحدا “۔ (٧٢ : ٢٢) ” کہو مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں ۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں ۔ “ (آیت) ” علم الغیب فلایظھر علی غیبہ احدا (٢٦) الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا (٢٧) لعلم ان قد ابلغوا رسلت ربھم واحاط بما لدیھم واحصی کل شیء عددا (٢٨) (٧٢ : ٢٦ تا ٢٨) ” وہ عالم الغیب ہے ۔ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ‘ سوائے اس رسول کے جسے اس نے پسند کرلیا ہو ‘ تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے ‘ اور وہ انکے پورے ماحول کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے ۔ “ بیشک یہ ایک خوفناک اور عظیم فریضہ ہے ۔ لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ان کی خوش بختی اور بدبختی کا معاملہ ہے ۔ ان کے ثواب اور عذاب کا مسئلہ ۔ یہ پوری انسانیت کے انجام کا معاملہ ہے ۔ اس فریضے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس پیغام کو یا تو لوگوں تک پہنچایا جائے گا تاکہ وہ اسے قبول کریں ‘ اس کی پیروی کریں جس کے نتیجے میں وہ دنیا وآخرت میں فلاح پائیں گے یا ان تک یہ پیغام پہنچے گا تو وہ اسے دور پھینک دیں گے اور دنیا وآخرت دونوں میں بدبختی کا شکار ہوں گے اور یا یہ پیغام ان تک نہ پہنچے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے ہاتھ ان کے رب کے خلاف ایک حجت ہاتھ آجائے گی اور ان لوگوں کی اس دنیاوی بدبختی کی ذمہ داری اور ان کی گمراہی کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جو اس دنیا میں ان تک خدا کا پیغام پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتے ۔ رہے اللہ کے رسول تو انہوں نے تو اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کردی ۔ انہوں نے اللہ کا پیغام اور امانت لوگوں تک پہنچا دی۔ وہ اپنے رب کے پاس اس حال میں گئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کردی تھیں ۔ انہوں نے یہ ذمہ داریاں صرف زبانی تبلیغ کی حد تک ہی پوری نہ کی تھیں بلکہ انہوں نے اللہ کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں عملی شکل دیکر لوگوں کو دکھایا اور وہ رات اور دن اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے ان مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرتے رہے جو اس پیغام کی راہ میں حائل تھیں ۔ یہ مشکلات چاہے شبہات کی شکل میں تھیں جو لوگوں کے ذہنوں میں کھٹک رہے تھے یا گمراہی کی شکل میں تھیں جو لوگوں پر مسلط تھیں یا ایسی قوتوں کی شکل میں تھیں جو طاغوتی قوتیں تھیں اور جو لوگوں کو اس دعوت پر کان دھرنے سے روکتی تھیں اور ان کے دین کیلئے فتنہ بنی ہوئی تھیں ۔ خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عملی زندگی میں اسلام کو پوری طرح نافذ کر کے دکھایا اس لئے کہ آپ آخری مبلغ تھے ۔ آپ کی رسالت تمام رسالتوں کا اختتامیہ تھی ‘ تو آپ نے محض زبانی تبلیغ پر اکتفاء نہ کیا ۔ آپ نے تلوار اور قوت کے زور سے بھی ان مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کیا ۔ (آیت) ” حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ “ (٢ : ١٩٣) ” تاکہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لئے ہوجائے ،۔ “ اب یہ بھاری ذمہ داری آپ کے بعد ان لوگوں پر آپڑتی ہے جو آپ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ زمانے گزر گئے ‘ نسلوں کی نسلیں گزر گئیں اور گزرتی رہیں گی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد تبلیغ کا سلسلہ آپ کی متبعین کی ذمہ داری میں آگیا ہے اور ان کے لئے اس مشکل اور بھاری ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔ انہوں نے لوگوں پر حجت قائم کرنی ہے ۔ انہوں نے لوگوں کو دنیا کی بدبختی اور آخرت کی ناکامی سے بچانا ہے ۔ یہ فریضہ اور یہ ذمہ داری صرف تبلیغ کرنے سے ہی ادا کی جاسکتی ہے ۔ اور یہ اسی منہاج پر ادا ہو سکتی ہے جس پر اسے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ادا فرمایا ۔ اس لئے کہ رسالت وہی ہے اور اہل ایمان پر وہی ہیں۔ گمراہیاں ‘ خواہشات نفسانیہ اور شبہات اور اعتراضات بھی وہی ہیں وہ طاغوتی قوتیں بھی اسی طرح موجود ہیں جو لوگوں تک دعوت اسلامی کے پہنچنے کی راہ میں حائل ہیں ۔ یہ قوتیں مسلمانوں کو ان کے دین کے بارے میں فتنے میں ڈال رہی ہیں اور قوت کے بل بوتے پر انکو گمراہی کر رہی ہیں ۔ وہی موقف ہے جو تھا ‘ وہی مشکلات ہیں جو تھیں ۔ لوگ بھی وہی ہیں جو تھے ۔ دعوت اسلامی وہ فریضہ ہے جس سے ہم روگردانی اور انکار نہیں کرسکتے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم تبلیغ کریں ‘ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یہ فریضہ ادا کریں ۔ تحریر وتقریر سے تبلیغ کریں ۔ اپنے عمل سے تبلیغ کریں تاکہ مبلغین اپنے عمل اور کردار کی وجہ سے چلتی پھرتی تبلیغ ہوں اور تبلیغ اور دعوت کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں کہ یہ بھی تبلیغ ہی کی ایک صورت ہوگی جو لوگ فتنے میں پھنسے ہوئے ہوں انہیں رہائی دلائیں ۔ اگر یہ کام نہ کیا گیا تو کوئی تبلیغ نہ ہوگی اور نہ ادائیگی فرض ہوگی اور نہ لوگوں پر اللہ کی حجت تمام ہوگی ۔ یہ ذمہ داریاں اٹھانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے ورنہ اس کے بھاری نتائج برآمد ہوں گے ۔ تمام دنیا گمراہی میں مبتلا ہوگی وہ اس دنیا میں بدبختی کا شکار ہوگی اور آخرت میں اس کے خلاف اللہ کے ہاں حجت نہ ہوگی اور ان کے ہاتھ حجت آجائے گی ۔ اگر امت یہ ذمہ داری ادا نہ کرے گی تو اس کی وجہ سے لوگ نجات نہ پائیں گے ۔ کون ہے جو اس بوجھ کو ہلکا سمجھے گا ؟ یہ کمر توڑ بوجھ ہے ‘ اس سے جسم کا ہر جوڑ اور ہر عضو کانپ رہا ہے جو شخص بھی یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ ” مسلم “ ہے یا تو وہ اس فریضے کو ادا کرے گا اور دعوت دین کا کام کرے گا ورنہ خود اس دنیا اور آخرت میں اس کیلئے فلاح ممکن نہیں ہے ۔ جب وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ مسلم ہے اور پھر دعوت دین کا کام نہیں کرتا اور اپنا فرض ادا نہیں کرتا ‘ ان تمام طریقوں کے مطابق جو دعوت دیں اور ادائیگی فرض کیلئے مسنون ہیں تو وہ گویا اس اسلام کے خلاف شہادت دے رہا ہے جس کا اس نے دعوی کیا ہے ۔ اس کی شہادت اسلام کے حق میں نہیں ہے بلکہ اسلام کے خلاف ہے حالانکہ اسے اس لئے اٹھایا گیا ہے کہ وہ اسلام کے حق شہادت دے ۔ (آیت) ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا التکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا “ (٢ : ١٤٢) اور اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو (تفصیلات کیلئے دیکھئے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتاب شھادت حق (سیدقطب) شہادت حق اور اسلام کے حق میں شہادت کا آغاز یوں ہوگا کہ ایک مسلمان بذاتہ پھر اس کا گھر اور خاندان ‘ پھر اس کی قوم اور اس کے رشتہ دار اس دین کا عملی نمونہ ہوں جس کی وہ دنیا کی دعوت دے رہا ہے ۔ اس کے بعد اس کی یہ شہادت ایک قدم اور آگے بڑھے اور ایک ایسی امت پیدا ہو جسے امت دعوت کہا جاسکے ۔ وہ اپنے گھر ‘ خاندان ‘ اور رشتہ داری کے حدود میں اسلام اور دعوت اسلامی کو عملی شکل میں پیش کرنے کے بعد شخصی معاملات اور ملک کے سیاسی معاملات کے اندر بھی اس دعوت کے قیام کی ذمہ داری لے ۔ اس کے بعد وہ ایسی شہادت دے کہ ان رکاوٹوں کو دور کردے جو اسلام کی راہ میں حائل ہیں ‘ جو لوگوں کو گمراہ کر رہی ہیں اور اس دعوت کے حوالے سے ان کو فتنے میں ڈال رہی ہیں ۔ چاہے یہ رکاوٹیں جس قسم کی بھی ہوں ۔ اگر کسی مسلمان نے اس مفہوم میں شہادت دی تو پھر وہ صحیح معنوں میں شاہد بھی ہوگا اور شہید بھی ہوگا ۔ وہ گواہی دیکر اپنے رب کے پاس پہنچ جائے گا ۔ یہ ہے وہ حقیقی شہید۔ سب سے آخر میں ہم دست بستہ اللہ کے حضور اس کی درگاہ عظمت و جلالت میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہ درگاہ درگاہ عدل ہے اور گہرے علم پر مبنی ہے ۔ اس درگاہ میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت سایہ فگن ہوتے ہیں اور اس میں ہر کسی کے ساتھ رعایت اور احسان ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس حضرت انسان کے ساتھ ہوتا ہے جو کبھی منکر حق کے روپ میں آتا ہے اور کبھی سخت نافرمانی کرتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے زیور علم سے آراستہ کیا ہے اور اس کی ذات کے اندر بےپناہ قوتیں ودیعت کی ہیں۔ اس کی ذات میں ہدایت اور ضلالت دونوں کی استعداد پیدا کی ہے ۔ اگر اس علم کو عقل کے تابع نہ کیا جائے تو اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کا ایک عظیم ہتھیار دیا ہے اور یہ کہ انسان کے انفس اور اس کے آفاق میں ہدایت اور قبول ایمان کے بیشمار دلائل موجود ہیں ۔ اللہ کو علم تھا کہ انسان کے پاس علم کا جو عظیم ہتھیا رہے اس کے مقابلے میں انسان کے اندر قوت شہوانیہ اور حیوانیہ بھی موجود ہے ۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ انفس وآفاق کے اندر جو کثیر التعداد دلائل و شواہد پائے جاتے ہیں انہیں انسان کی خواہشات نفسانیہ دبالیں اور اس کی کو تاہیاں اور اس کی جہالت انہیں اس کی نظروں سے اوجھل کردیں ۔ انسان کیلئے ان دلائل پر تب ہی غور وفکر کرنا ممکن ہوگا جب اس کے پاس رسول بھیجے جائیں اور اسے بار بار یاددہانی کرائی جائے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے بیان کے بعد بھی انسان کے ذمے یہ بات نہیں ڈالی کہ وہ اپنے لئے کوئی نظام زندگی بنائے بلکہ اسے نظام زندگی بنا کردیا اور اس کا فرض یہ قرار دیا کہ وہ اس نظام کو دنیا میں نافذ کرے ۔ اس کے بعد اسے پھر اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا ۔ ان حدود وقیود کے بعد بھی اس کیلئے اس عظیم مملکت میں ایک وسیع دائرہ کار رہ گیا ۔ اسے اجازت دی گئی کہ وہ اس میں جو چاہے نئی نئی ایجادات کرے ۔ جو تغیرات چاہے کرے اور جو ترکیبات چاہے کرے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے جس طرح اس پوری کائنات کو مسخر کیا ہے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اس میں یہ انسان کبھی درست فیصلے کرے گا اور کبھی غلط کبھی وہ پھسلے گا اور کبھی صراط مستقیم پر رواہ دواں ہوگا ۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اللہ کے ہاں انصاف کی کیا اہمیت ہے جسے اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ اگر رسول نہ بھیجے جاتے تو لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے خلاف ایک حجت ہوتی ۔ لیکن اللہ نے رسول بھیجے جو لوگوں کو خوشخبری دیتے تھے اور انجام بد سے ڈراتے تھے ۔ حالانکہ اس کائنات میں اللہ کی ذات پر ایمان لانے کے تکوینی دلائل موجود تھے اور یہ کائنات سب کے سامنے کتاب مفتوح تھی ۔ نیز نفس انسنای بھی ایک کھلی کتاب کے طور پر انسان کے سامنے موجود تھا ۔ جس کے اندر کرد گار کے وجود پر بیشمار دلائل تھے ۔ جن سے اللہ کی وحدانیت کو اچھی طرح معلوم کیا جاسکتا تھا ۔ جن سے اللہ کی تقدیر ‘ اللہ کی تدبیر ‘ اللہ کی قدرت اور اس کے علم کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو سکتا تھا ۔ نیز فطرت انسانی کے اندر بھی ایک قوی اور حقیقی داعیہ موجود ہوتا ہے جس سے انسان کو اس کائنات کے خالق تک رسائی کا ایک نہایت پختہ شوق ملتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ضرور ہے پھر اس فطرت اور دلائل کونیہ کے درمیان ایک قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق اور مدیر موجود ہے پھر اللہ تعالیٰ نیانسان کو عقل عطا فرمائی تھی جو مشاہدات کے ذریعے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ انسان کی ان تمام قوتوں پر ضعف طاری ہوجاتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ قوتیں معطل ہوجاتی ہیں ‘ کبھی یوں ہوتا ہے کہ بعض اثرات ان قوتوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔ کبھی تو ان عقلی قوتوں کو مٹا دیا جاتا ہے ۔ کبھی عقل کے فیصلوں میں غلطی واقعہ ہوتی ہے اور عقل پریشان ہوجاتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس ڈیوٹی سے معاف کردیا کہ وہ اس کائنات کے دلائل و شواہد ہی سے راہ ہدایت حاصل کریں یا محض فطری دلائل سے اپنی عقل کے بل بوتے پر راہ حق پائیں ‘ جب تک ان کے پاس کوئی رسول نہیں آجاتا تاکہ یہ رسالت انسان کی ان تمام خوبیوں اور قوتوں کو ان تمام آلودگیوں سے پاک کر دے اور ان عقلی قوتوں کو ان ضوابط کے اندر لے آئے جو اللہ رسالت نے بھیجے ۔ انسان کی یہ تمام فطری قوتیں جب اسلامی منہاج فکر کے اندر منضبط ہوجاتی ہیں تو ان قوتوں کے ذمے اب صرف یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اس رسالت کا اقرار کریں اور اللہ کی بندگی کریں اور رسول کا اتباع کریں ۔ یا اگر وہ انکار کردیں تو پھر ان پر حجت تمام ہوجائے اور قیامت کے دن سزا کی مستوجب ہوجائیں ۔ پھر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے ۔ وہ ان کی کس قدر دیکھ بھال کرتا ہے اور ان کو اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے ان کو کس قدر مکرم اور مختار بناتا ہے ۔ اس کے باوجود کہ اسے علم سے کہ انسان خطا اور نقص کا پتلا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ پرھ بھی اس جہان کو اس کے حوالے کردیتا ہے ۔ اسے خلیفہ فی الارض بناتا ہے ۔ حالانکہ یہ کائنات اس کی نسبت سے بہت ہی بڑی ہے ۔ اور اللہ تو بےنیاز ہے کہ اگر ایک ذرہ بھی اس کی اس عظیم کائنات میں ہے تو وہ ضائع نہیں ہو سکتا ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ارسال رسل کی حکمت اور متعدد انبیاء کرام (علیہ السلام) کا تذکرہ ان آیات میں اول تو سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے یہ فرمایا کہ ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی جیسا کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو وحی بھیجی تھی۔ اس سے ان لوگوں کا استعجاب دور فرمایا جو آپ کی نبوت کو نئی چیز سمجھتے تھے، یعنی یہ سمجھتے تھے کہ یہ دعویٰ نبوت کر کے نئی بات فرما رہے ہیں۔ اور ان لوگوں کی بھی تردید ہوئی جو لوگ کہتے تھے کہ انسان نبی بن کر کیوں آیا۔ جو لوگ سلسلہ نبوت سے واقف تھے وہ جانتے تھے کہ پہلے جو انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے ہیں وہ بھی انسان ہی تھے۔ لہذا تکذیب کے لیے یہ شوشہ چھوڑنا کہ ہمیں تو معلوم نہیں کہ پہلے نبی آئے ہوں اور یہ اعتراض اٹھانا کہ نبی آیا تو بشر کیوں آیا بالکل غلط ہے۔ اگر کسی کو نبیوں کی تشریف آوری کا بالفرض علم نہ تھا تو اب جان لے اور مان لے کہ پہلے بھی نبی آئے ہیں اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نبی ہیں۔ مخلوق کو راہ ہدایت بتانے کے لیے نبیوں کی تشریف آوری ضروری ہے کیونکہ محض اپنی عقل سے پوری طرح ایمانیات تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد چند حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اسمائے گرامی کا خصوصی تذکرہ فرمایا اور وہ یہ ہیں حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحق، حضرت یعقوب، حضرت عیسیٰ ، حضرت ایوب، حضرت یونس، حضرت ہارون، حضرت سلیمان، حضرت داؤو ( علیہ السلام) ، ان سب حضرات کی نبوت اور رسالت یہود میں معروف و مشہور تھی اور حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو تو قریش مکہ بھی جانتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ہم ان کی اولاد میں سے ہیں اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان دونوں حضرات نے کعبہ شریف بنایا تھا۔ زمانہ شرک میں جو حج کرتے تھے اس کے بارے میں جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بتایا ہوا طریقہ ہے اور ان کے دین کی بہت سی باتیں اہل مکہ میں رواج پذیر تھیں لیکن شرک دلوں میں اس قدر جاگزیں ہوگیا تھا کہ توحید کی بات بری لگتی تھی۔ سورة انعام (رکوع ٩) میں بھی متعدد انبیاء کرام (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہاں جن حضرات کا ذکر ہے ان کے علاوہ سورة انعام میں حضرت یوسف، حضرت زکریا، حضرت یحیے ٰ ، حضرت الیاس، حضرت الیسع، حضرت لوط ( علیہ السلام) کا تذکرہ ہے، سورة مریم اور سورة انبیاء میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی ہے۔ سورة انبیاء اور سورة ص میں حضرت ذوالکفل (علیہ السلام) کا بھی تذکرہ ہے۔ سورة اعراف اور سورة ہود اور سورة شعراء میں حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا بھی ذکر ہے۔ سورة بقرہ میں اور یہاں سورة نساء میں لفظ الاسباط بھی وارد ہوا ہے، اس کے بارے میں حضرات مفسرین کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ اس سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد مراد ہے جتنے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں تشریف لائے وہ سب حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہی کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء تشریف لائے۔ ان کے اسمائے گرامی بجززکریا اور یحیے ٰ ( علیہ السلام) کے قرآن مجید میں اور احادیث شریف میں مذکور نہیں ہیں۔ بعض حضرات کے اسماء گرامی یہود سے سنے گئے ہیں اور انہیں سے سن کر یہ نام تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں آگئے ہیں جیسے حضرت شمعون، حضرت شمویل، حضرت حزقیل۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے زبور عطا فرمائی جو مشہور چار کتابوں میں سے ہے۔ زبور عطا فرمانے کا ذکر سورة بنی اسرائیل رکوع ٦ میں بھی مذکور ہے۔ قرآن مجید میں چوبیس حضرات کا نام لے کر ان کے نبی ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔ تئیس نام تو اوپر مذکور ہوئے اور چوبیسویں سیدنا محمد رسول اللہ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ ابوالبشر سیدنا آدم (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی تھے۔ حدیث شریف میں بھی اس کی تصریح وارد ہوئی۔ سنن ترمذی میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وما من نبی یومئذ آدم فمن سواہ الاتحت لوائی (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٥١٣) (کہ قیامت کے دن کوئی بھی نبی ایسا نہ ہوگا جو میرے جھنڈے کے نیچے نہ ہو آدم ہوں یا کوئی نبی ہو) ان پچیس حضرات کو تو تعیین کے ساتھ نام لے کر نبی جاننا اور ان کی نبوت کا عقیدہ رکھنا فرض ہے ان کے علاوہ دوسرے حضرات کے بارے میں یوں اجمالی عقیدہ رکھا جائے کہ میں اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں کو مانتا ہوں۔ اور ان سب کے بارے میں بغیر کسی تفریق کے میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب حضرات اللہ کے نبی تھے۔ بعض روایات میں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعداد ایک لاکھ چو بیس ہزار مذکور ہے۔ جن میں سے تین سو پندرہ کو رسول بتایا ہے یہ روایت مسند احمد سے صاحب مشکوٰۃ نے صفحہ ٥١١ پر نقل کی ہے لیکن چونکہ حدیث خبر واحد ہے اور عقائد کا مدار آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ پر ہے اس لیے حضرات اکابر اہل سنت نے فرمایا ہے کہ تعداد مقرر کر کے ایمان نہ لائے بلکہ یوں کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و رسل پر ایمان لاتا ہوں تاکہ تعداد ذکر کرنے سے کوئی نبی اور رسول رہ نہ جائے اور جو نبی اور رسول نہ ہو وہ ان میں داخل نہ ہوجائے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس کی تصریح ہے (وَ رُسُلاً قَِدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ ) کہ ہم نے بہت سے رسول بھیجے جن کا حال ہم نے آپ سے بیان کردیا اور بہت سے رسول ہم نے ایسے بھیجے ہیں جن کا حال ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا۔ سورة مؤمن میں بھی اس امر کی تصریح ہے چناچہ ارشاد ہے (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مَّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مِّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ ) شرح عقائد میں اس بات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے : و قد روی بیان عددھم فی بعض الاحادیث علی ماروی ان النبی سئل عن عدد الانبیاء فقال ماءۃ الف واربعۃ و عشرون الفاوفی روایۃ مائتا الف و اربع و عشرون الفا و الاولی ان لا یقتصر علی عدد فی التسمیۃ فقد قال اللّٰہ تعالیٰ منھم من قصصنا علیک ومنھم من لم نقصص علیک ولا یو من فی ذکر العدد ان یدخل فیھم من لیس منھم ان ذکر عدد اکثر من عددھم او یخرج منھم من ھو فیھم ان ذکر اقل من عددھم یعنی ان خبر الواحد علیٰ تقدیر اشتمالہ علی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لا یفید الا الظن ولا عبرۃ بالظن فی باب الا عتقادیات خصوصاً اذا اشتمل علی اختلاف روایۃ و کان القول بموجبہ مما یفضی الیٰ مخالفۃ ظاھر الکتاب وھو ان بعض الانبیاء لم یذکر للنبی (علیہ السلام) و یحتمل مخالفۃ الواقع وھو عدالنبی من غیر الانبیاء أو غیر النبی من الانبیاء بناءً علی ان اسم العدد اسم خاص فی مدلولہ لا یحتمل الزیادۃ والنقصان ١ ھ اجمالی طور پر تمام انبیاء اور رسول پر ایمان لانے میں یہ بھی فائدہ ہے کہ حضرت ذوالکفل (علیہ السلام) کے بارے میں جو اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا عبد صالح تھے (راجع معالم التنزیل صفحہ ٢٦٥: ج ٣) اس اختلاف سے صرف نظر کرتے ہوئے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا اقرار ہوجائے گا اور اجمالاً سب پر ایمان ہوجائے گا۔ آیت بالا میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ایک خاص فضیلت بیان فرمائی اور فرمایا (وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْماً ) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے خاص طور پر کلام کیا۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ازلیہ میں صفت کلام بھی ہے اور قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے جو موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا اس کی کیفیت سمجھنے سے بندے عاجز ہیں کیفیت کا ذکر کتاب و سنت میں نہیں ہے اس لیے یہ ایمان لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا صحیح ہے حق ہے گو ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ محل حوادث نہیں ہے۔ اس نے اس طرح کلام فرما دیا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 109 یہ یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتٰبِ یہود کو زجروں اور تخویفوں کے بعد اب یہاں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے جو اس سے پہلے رکوع میں گذر چکا ہے یعنی آہستہ آہستہ وحی بھیجنا کوئی آپ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ آپ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر گذرے ہیں حضرت نوح (علیہ السلام) تک سب کی طرف اسی طرح آہستہ آہستہ وحی بھیجی جاتی تھی۔ ھذا متصل بقولہ یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزّلَ عَلَیْھِمْ کِتَاباً مِّنَ السَّمَاءِ ؟ علم تعالیٰ الیہ امر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کامر من تقدمہ من الانبیاء (قرطبی ج 6 ص 15) فاللہ تعالیٰ اجاب عن ھذہ الشبھۃ بان ھؤلاء الانبیاء الاثنی عشر کلھم کانوا انبیاء و رسلا مع ان اواحدا منھم ما اتی بکتاب مثل التوراۃ دفعۃ واحدۃ (کبری ج 3 ص 508) اور زَبُوْراً میں تنوین تعظیم کے لیے ہے اور زبور کا علیحدہ ذکر کر کے اس طرف اشارہ فرمایا کہ زبور جیسی شاندار کتاب بھی متفرق طور پر نازل ہوئی۔ گیارہ پیغمبروں کا نام بنام ذکر کر کے بعد میں فرمایا کہ ان کے علاوہ بہت سے رسول ایسے بھی گذرے ہیں جن کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا ان پر بھی تمام احکام کی وحی دفعۃً نازل نہیں ہوئی تھی۔ وَکَلَّمَ اللہُ مُوْسیٰ تَکْلِیماً باقی رہا تمہارا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دلیل لانا کہ ان پر تورات ایک ہی دفعہ نازل ہوئی تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وحی تورات ہی میں منحصر نہیں تھی تورات کے علاوہ بھی ان پر وحی آتی تھی اور وہ تھوڑی تھوڑی ہی نازل ہوتی تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi