1. These are the names of the prophets Biblically spelt respectively as follows: Abraham, Ishmael, Issac, Israel, Jesus, Job, Jonah, Aaron, Solomon and David. Zabur is the name of the Book revealed to David, Biblically known as the Psalms. If we refer back to Verse يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ (The People of the Book ask you...), it will be noticed that a silly question asked by the Jews was responded to in the mode of reproach. Here, in the present verse, the same question is being proved false in a different manner. It takes up their condition which they place before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، that is, they would believe in him if he brings before them a Book, all written up, from the heavens. They are being asked to realize that they do not make such demands before believing in the great prophets mentioned in the verse, prophets they too accept. Keeping this in view, it is necessary that they keep to the line of argument they use in favour of these great prophets, that is, they accept them on the basis of their miracles. As for miracles, Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has his miracles as well, therefore, there is no reason why they cannot step forward and believe in him too. But, the truth of the matter is that the demand they are making is no quest for truth. On the contrary, it is rooted in prejudice and hostility. Then comes a delineation of the wisdom behind the sending of prophets and an address to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) assuring him that Allah and His angels are witnesses to his prophethood and those who do not believe in him do nothing but ruin their own end. (Bayn a1-Qur&an) Commentary Verse 163 begins with the words: إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ &Surely, We have revealed to you as We have revealed to Nuh (علیہ السلام) (Noah) and to the prophets after him ...&It tells us clearly that Wahy (revelation) is a command of Allah, unique and inimitable, and His message sent to prophets; and that Almighty Allah sent His Wahy to Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) just as it was sent to the past prophets; and that whoever believed in the Wahy sent to past prophets must believe in this too; and that whoever rejects this becomes so to say, a rejecter of all those revelations. The reason for striking a similarity between Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and those who came after him is probably that the Wahy at the time of S:ayyidna Adam (علیہ السلام) was at an initial stage which reached its perfection with the prophethood of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . It can be said that the first state was an state of educational initiation while by the time of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) that state reached a stage of devel¬opment under which people could be tested with the incentive of reward for the obedient and the warning of punishment for the disobe-dient. Thus, it was from Sayyidna Nuh (علیہ السلام) himself that the chain of great prophets began and it was from his time too that the first punishment descended on those who transgressed against Divine reve¬lation. In short, punishment would not descend upon people for their hostility against Divine commandments and prophetic teachings. They were considered rather excusable and allowed to learn in due time through good counsel. Once religious education became fully widespread and people were left with no hidden reason to avoid following the dictates of Divine will, punishment did descend upon the disobe¬dient ones. The Great Flood came during the time of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) followed by different kinds of punishment visiting disbelievers during the times of prophets Sayyidna Salih, Sayyidna Shu&ayb and many others, may peace be on them all. Thus, by likening the Wahy which came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with the Wahy of Sayy¬idna Nuh and of those who came after him, full warning has been served on the People of the Book and on the. disbelievers of Makkah that anyone who will not believe in the Wahy (that is, The Qur&an) of the Last of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will deserve the greatest punishment. (Exegetical notes of Maulana Shabbir Ahmad ` Usmani) Before we move to the next verse, it would be useful to keep in mind that the personal presence of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) whose name appears first in this verse, was a miracle by itself. He was blessed with an age of nine hundred and fifty years. He had lost none of his teeth and had no streaks of white hair on his head and had faced no defi¬ciency in his physical strength - yet, he spent his whole life time braving the pain inflicted by his people on him with matching patience and fortitude. (Mazhari)
ربط آیات : یسئلک اھل الکتب سے یہودیوں کا ایک احمقانہ سوال نقل کر کے تفصیل سے اس کا الزامی جواب دیا، یہاں ایک دوسرے عنوان سے اسی سوال کو باطل کیا جا رہا ہے کہ تم جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لئے یہ شرط لگاتے ہو کہ آپ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب لا کر دکھلائیں، تو بتلاؤ کہ یہ جلیل القدر انبیاء جن کا ذکر ان آیات میں ہے ان کو تم بھی تسلیم کرتے ہو اور ان کے حق میں تم اس طرح کے مطالبات نہیں کرتے، تو جس دلیل سے تم نے ان حضرات کو نبی تسلیم کیا ہے، یعنی معجزات سے، تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی معجزات ہیں، لہٰذا ان پر بھی ایمان لے آؤ، لیکن بات یہ ہے کہ تمہارا یہ مطالبہ طلب حق کے لئے نہیں، بلکہ عناد پر مبنی ہے۔ آگے بعثت انبیاء کی حکمت بھی بیان کردی گئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے بتلا دیا گیا کہ یہ لوگ اگر آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے تو اپنا انجام خراب کرتے ہیں، آپ کی نبوت پرتو خدا بھی گواہ ہے اور خدا کے فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں۔ خلاصہ تفسیر ہم نے (کچھ آپ کو انوکھا رسول نہیں بنایا جو ایسی واہی تباہی فرمائش کرتے ہیں بلکہ) آپ کے پاس (بھی ایسی ہی) وحی بھیجی ہے جیسی (حضرت) نوح (علیہ السلام) کے پاس بھیجی تھی، اور ان کے بعد اور پیغمبروں کے پاس (بھیجی تھی) اور (ان میں سے بعضوں کے نام بھی بتلا دیتے ہیں کہ) ہم نے (حضرات) ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب (میں جو نبی گذرے ہیں) اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیہم الصلوة والسلام) کے پاس وحی بھیجی تھی اور (اسی طرح) ہم نے داؤد (علیہ السلام کے پاس بھی وحی بھیجی تھی، چناچہ ان) کو (کتاب) زبور دی تھی اور (ان کے علاوہ) اور (بعضے) ایسے پیغمبروں کو (بھی) صاحب وحی بنایا جن کا حال اس کے قبل ( سورة انعام وغیرہ مکی سورتوں میں) ہم آپ سے بیان کرچکے ہیں اور (بعضے) ایسے پیغمبروں کو (صاحب وحی بنایا) جن کا حال (ابھی تک) ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام کو بھی صاحب وحی بنایا، چناچہ ان) سے اللہ تعالیٰ نے خاص خاص طور پر کلام فرمایا (اور) ان سب کو (ایمان پر) خوش خبری (نجات کی) دینے والے اور (کفر پر عذاب کا) خوف سنانے والے پیغمبر بنا کر اس لئے بھیجا تاکہ لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے ان پیغمبروں کے (آنے کے) بعد کوئی عذر (ظاہراً بھی) باقی نہ رہے ( ورنہ قیامت میں یوں کہتے کہ بہت سی اشیاء کا حسن قبح عقل سے معلوم نہ ہوسکتا تھا، پھر ہماری کیا خطا) اور (یوں) اللہ تعالیٰ پورے زور ( اور اختیار) والے ہیں، (کہ بلا ارسال رسل بھی سزا دیتے تو بوجہ اس کے کہ مالک حقیقی ہونے میں منفرد ہیں ظلم نہ ہوتا اور درحقیقت عذر کا حق کسی کو نہ تھا لیکن چونکہ) بڑے حکمت والے (بھی) ہیں (اس لئے حکمت ہی ارسال کو مقتضی ہوئی تاکہ ظاہری عذر بھی نہ رہے، یہ بیان حکمت درمیان میں تبعاً آ گیا تھا، آگے اثبات نبوت محمدیہ کر کے جواب کی تکمیل فرماتے ہیں کہ گو وہ اپنے اس شبہ کے رفع ہونے پر بھی نبوت کو تسلیم نہ کریں) لیکن (واقع میں تو ثابت ہے اور اس کے ثبوت پر دلیل صحیح قائم ہے، چنانچہ) اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جس کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور بھیجا بھی (کس طرح) اپنے علمی کمال کے ساتھ (جس سے وہ کتاب معجزہ عظیمہ ہوگی وہ کہ نبوت کی دلیل قاطع ہے، ایسی کتاب معجز کے ذریعہ سے آپ کی نبوت کی) شہادت دے رہے ہیں (یعنی دلیل قائم کر رہے ہیں جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ کتاب معجز نازل فرمائی اور اعجاز دلیل نبوت ہے، پس دلیل سے تو واقع میں نبوت ثابت ہے، رہا کس کا ماننا نہ ماننا تو اول تو اس کا خیال ہی کیا) اور (اگر طبعاً اس کا جی ہی چاہتا ہو تو ان سے افضل مخلوق یعنی) فرشتے (آپ کی نبوت کی) تصدیق کر رہے ہیں، (اور مؤمنین کی تصدیق مشاہد ہی تھی، پس اگر چند حمقاء نے نہ مانا نہ سہی) اور (اصل بات تو وہی ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہی کی شہادت (یعنی اقامت دلیل فی الواقع) کافی ہے (کسی کی تصدیق و تسلیم کی آپ کو حاجت ہی نہیں) جو لوگ (ان جج قاطعہ کے بعد بھی) منکر ہیں اور (طرہ یہ کہ اوروں کو بھی) خدائی دین سے مانع ہوتے ہیں (حق سے) بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں (یہ تو دنیا میں ان کے مذہب کا حاصل ہے اور اس کا ثمرہ آخرت میں آگے سنو کہ) بلاشبہ جو لوگ (حق کے) منکر ہیں اور (حق سے مانع بن کر) دوسروں کا بھی نقصان کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو کبھی نہ بخشیں گے اور نہ ان کو سوائے جہنم کی راہ کے اور کوئی راہ (یعنی جنت کی راہ) دکھلائیں گے اس طرح پر کہ اس (جہنم) میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہا کریں گے اور اللہ کے نزدیک یہ سزا معمولی بات ہے (کچھ سامان نہیں کرنا پڑتا) معارف مسائل انا اوحینا الیک کما احینا الی نوح والنبین من بعدہ، اس سے معلوم ہوگیا کہ وحی خاص اللہ کا حکم اور اس کا پیام ہے جو پیغمبروں پر بھیجا جاتا ہے اور انبیاء سابقین پر جیسے وحی الٰہی نازل ہوئی ویسے ہی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی بھیجی، تو جس نے ان کو مانا اس کو بھی ضرور ماننا چاہئے اور جس نے اس کا انکار کیا گویا ان سب کا منکر ہوگیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان سے پچھلوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ شاید یہ ہے کہ حضرت آدم کے وقت سے جو وحی شروع ہوئی تو اس وقت بالکل ابتدائی حالت تھی، حضرت نوح (علیہ السلام) پر اس کی تکمیل ہوگئی، گویا اول حالت محض ابتداء تعلیم کی حالت تھی، حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں وہ حالت پوری ہو کر اس قابل ہوگئی کہ ان کا امتحان لیا جائے اور فرمانبرداروں کو انعام اور نافرمانوں کو سزا دی جائے، چناچہ انبیائے اولوالعزم کا سلسلہ بھی حضرت نوح (علیہ السلام) ہی سے شروع ہوا اور وحی الٰہی سے سرتابی کرنے والوں پر بھی اول عذاب حضرت نوح (علیہ السلام) کے وقت سے شروع ہوا۔ خلاصہ یہ کہ نوح (علیہ السلام) سے پہلے حکم الٰہی اور انبیاء کی مخالفت پر عذاب نازل نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کو معذور سمجھ کر ان کو ڈھیل دی جاتی تھی اور سمجھانے ہی کی کوشش کی جاتی تھی، حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں جب مذہبی تعلیم خوب ظاہر ہوچکی اور لوگوں کو حکم خداوندی کی متابعت کرنے میں کوئی خفا باقی نہ رہا تو اب نافرمانوں پر عذاب نازل ہوا، اول حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں طوفان آیا اس کے بعد حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب (علیہم السلام) وغیرہ انبیاء کے زمانہ میں کافروں پر قسم قسم کے عذاب آئے، تو آپ کی وحی کو حضرت نوح اور ان سے پچھلوں کی وحی کے ساتھ تشبیہ دینے میں اہل کتاب اور مشرکین مکہ کو پوری تنبیہ کردی گئی کہ جو آپ کی وحی یعنی قرآن کو نہ مانے گا وہ عذاب عظیم کا مستحق ہوگا۔ (فوائد علامہ عثمانی) حضرت نوح (علیہ السلام) کی ذات خد ایک معجزہ تھی، ساڑھے نو سو سال کی عمر آپ کو عطا کی گئی تھی، آپ کا کوئی دانت نہیں گرا تھا، نہ آپ کا کوئی بال سفید ہوا، آپ کی جسمانی طاقت میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور پوری عمر قوم کی ایذا رسانی کو صبر کے ساتھ سہتے رہے۔ (مظہری)