Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 18

سورة النساء

وَ لَیۡسَتِ التَّوۡبَۃُ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡئٰنَ وَ لَا الَّذِیۡنَ یَمُوۡتُوۡنَ وَ ہُمۡ کُفَّارٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿۱۸﴾

But repentance is not [accepted] of those who [continue to] do evil deeds up until, when death comes to one of them, he says, "Indeed, I have repented now," or of those who die while they are disbelievers. For them We have prepared a painful punishment.

ان کی توبہ نہیں جو بُرائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں ، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّيَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الانَ ... And of no effect is the repentance of those who continue to do evil deeds until death faces one of them and he says: "Now I repent," and, فَلَمَّا رَأَوْاْ بَأْسَنَا قَالُواْ ءَامَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ So when they saw Our punishment, they said: "We...  believe in Allah Alone..." (40:84) Allah decided that repentance shall not be accepted from the people of the earth when the sun rises from the west, as Allah said, يَوْمَ يَأْتِى بَعْضُ ءَايَـتِ رَبِّكَ لاَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ ءَامَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِى إِيمَـنِهَا خَيْرًا The day that some of the signs of your Lord do come, no good will it do to a person to believe then, if he believed not before, nor earned good through his faith. (6:158) Allah said, ... وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ... nor of those who die while they are disbelievers. Consequently, when the disbeliever dies while still a disbeliever and polytheist, his sorrow and repentance shall not avail him. If he were to ransom himself, even with the earth's fill of gold, it will not be accepted from him. Ibn Abbas, Abu Al-Aliyah and Ar-Rabi bin Anas said that the Ayah: وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ (nor of those who die while they are disbelievers), was revealed about the people of Shirk. Imam Ahmad recorded that Usamah bin Salman said that Abu Dharr said that the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِهِ أَوْ يَغْفِرُ لِعَبْدِهِ مَالَمْ يَقَعِ الْحِجَاب Allah accepts the repentance of His servant, or forgives His servant, as long as the veil does not drop. They asked, "And what does the drop of the veil mean?" He said, أَنْ تَخْرُجَ النَّفْسُ وَهِيَ مُشْرِكَة When the soul is removed while one is a polytheist. Allah then said, ... أُوْلَـيِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا For them We have prepared a painful torment, torment that is severe, eternal and enormous.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 اس سے واضح ہے کہ موت کے وقت کی گئی توبہ غیر مقبول ہے، جس طرح کہ حدیث میں بھی آتا ہے اس کی ضروری تفصیل آل عمران کی 90 آیت میں گزر چکی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] جب انسان پر نزع کا عالم طاری ہوجائے، وہ موت کے آثار دیکھ لے اور اسے روح قبض کرنے والے فرشتے نظر آنے لگیں تو توبہ کا وقت ختم ہوچکا۔ کیونکہ اب وہ دارالامتحان سے نکل کر دارالآخرت کی سرحد پر کھڑا ہے اور توبہ ایک عمل ہے جس کا وقت گزر چکا۔ اس آیت میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو تھے تو مسلما... ن مگر ساری عمر گناہ کرتے کرتے ہی گزار دی اور دوسرے وہ جو کافر تھے پھر اسی کفر کی حالت میں مرگئے۔ دونوں طرح کے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ان دو آیات میں چار قسم کے لوگوں کی توبہ کا ذکر ہوا ہے۔ ایک وہ جس نے نادانستہ گناہ کیا۔ مگر جب اسے معلوم ہوگیا تو اس نے فوراً توبہ کرلی۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ( اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَهَالَةٍ 17؀) 4 ۔ النسآء :17) اور علیٰ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ پر واجب ہے یا وہ ضرور توبہ قبول کرتا ہے اور یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اپنے لیے واجب کرلیا ورنہ وہ تو مختار مطلق ہے۔ اور دوسری قسم عدم شرط سے پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ لوگ جو گناہ تو نادانستہ طور پر ہی کرتے ہیں مگر معلوم ہوجانے پر توبہ میں جلدی نہیں کرتے بلکہ تاخیر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا اللہ نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ چاہے تو قبول کرلے اور چاہے تو نہ کرے۔ تیسری قسم اس مسلمان کی ہے جسے عمر بھر تو توبہ کا خیال نہ آیا اور اگر خیال آیا بھی تو موت کے وقت، ایسے شخص کے متعلق واضح طور پر فرما دیا کہ اس کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ اور چوتھی قسم جو توبہ کیے بغیر کفر ہی کی حالت میں مرگیا اس کی بھی موت کے وقت توبہ قبول نہیں ہوسکتی اور اس کی وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ ۔۔ : یعنی ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ کو اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ موت کے وقت اس کی روح حلق تک نہ پہنچ جائے۔ “ [ ترمذی، الدعوات، باب إن اللہ یقبل۔۔ : ٣٥٣٧، عن ابن عمر (رض) ] آخری وقت م... یں تو فرعون نے بھی توبہ کرلی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ ) [ یونس : ٩١ ] ” کیا اب ؟ حالانکہ بیشک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔ “ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ : یعنی جو لوگ مرتے دم تک شرک میں مبتلا رہتے ہیں اور موت کے آثار دیکھ کر توبہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْا اٰمَنَّا باللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ (84) فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکٰفِرُوْنَ ) [ المؤمن : ٨٤، ٨٥ ] ” پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انھوں نے کہا ہم اس اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جنھیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔ پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔ “ [ نیز دیکھیے الأنعام : ١٥٨ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول فرماتے ہیں، جب تک حجاب نہ گرے۔ “ صحابہ نے دریافت کیا : ” حجاب گرنے سے کیا مراد ہے ؟ “ فرمایا : ” یہ کہ جان نکلے اور وہ مشرک ہو۔ “ [ أحمد : ٥؍١٧٤، ح : ٢١٥٧٨ عن أبی ذر ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَيْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ۝ ٠ ۚ حَتّٰٓي اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝ ١٨ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال :...  ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ ج) ۔ مسلسل حرام خوریاں کرتے رہتے ہیں ‘ زندگی بھر عیش اڑاتے رہتے ہیں۔ (حَتّٰیٓ اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الأٰنَ ) (وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَہُمْ کُفَّارٌ ط) ان کی توبہ کا کوئی سوال ہی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27. The Arabic word tawbah means 'to return, to come back'. A man's tawbah after he has sinned means that God's servant, who had turned away from his Master in disobedience, has repented, and has returned to obedience and service. On the other hand, tawbah on the part of God means that the attention of the Master, which had turned away from His erring servant, has once again turned towards him. In...  this verse, however, God makes it clear to His servants that tawbah is acceptable only from those who commit errors inadvertently and out of ignorance. Such persons will always find the door of God open for them whenever they turn to Him in repentance. But this tawbah is not for those who pile sin upon sin throughout their lives in sheer indifference to God and who cry for pardon as soon as they see the angel of death approaching. The Prophet (peace be on him) has warned against this attitude in the following words: 'God accepts the repentance of a slave until the gurgling (of death) begins.' (Tirmidhi, 'Da'wat', 98; Ibn Majah, 'Zuhd', 30; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, pp. 132 and 153, and vol. 3, pp. 425 - Ed.) For when the last leaf of a man's book of life has been turned, what opportunity remains for a man to return to righteous conduct? Likewise, if a person spends even the very last moment of his life in a state of disbelief and then on the threshold of the Next Life he comes to discover that the facts are quite contrary to what he had imagined, what sense is there for him to seek forgiveness?  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :27 توبہ کے معنی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں ۔ گناہ کے بعد بندے کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام ، جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اسے منہ پھیر گیا تھا ، اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی طرف پلٹ آیا ہے ۔ اور خدا کی طرف سے بندے پر توبہ ی... ہ معنی رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظر عنایت جو پھر گئی تھی وہ ازسرنو اس کی طرف منعطف ہوگئی ۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ میرے ہاں معافی صرف ان بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصور کرتے ہیں ، اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہو کر اپنے قصور کی معافی مانگ لیتے ہیں ۔ ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے اس کا دروازہ کھلا پائیں گے کہ ؎ ایں درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ مگر توبہ ان کے لیے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بے خوف اور بے پروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں اور پھر عین اس وقت جبکہ موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہو معافی مانگنے لگیں ۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ یقبل توبة العبد مالم یُغرغِر ۔ ” اللہ بندے کی توبہ بس اسی وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ آثار موت شروع نہ ہوں“ ۔ کیونکہ امتحان کی مہلت جب پوری ہوگئی اور کتاب زندگی ختم ہو چکی تو اب پلٹنے کا کونسا موقع ہے ۔ اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جائے اور دوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا تو اس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:18) اعتدنا۔ ہم نے تیار کر رکھا ہے۔ اعتاد (افعال) مصدر۔ الاعداد۔ تیار کرنا ۔ مہیا کرنا۔ عدد مادہ۔ واعدلہم جنت (9:100) اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں۔ وآیۃ ہذا۔ اور اگر مصدر اعتداء سے ہو تو معنی ہوتے ہیں زیادتی کرنے کے لیکن اس کا مادہ عدو ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی، ترمذی میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اللہ یقبل توبتہ العبد مالم یفر غر کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک وہ جان کنی کی حد تک نہیں پہنچ جاتا۔ (ترمذی) اس معنی میں اور بھی بہت س... ی مسند اور مرسل ورایات موجود ہیں (ان کثیر۔ قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حضور موت کا مطلب یہ ہے اس سرور عالم کی چیزیں نظر آنے لگیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ولیست التوبة للذین یعملون السیات ، حتی اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الئن ” مگر توبہ ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو برے کام کئے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ میں نے توبہ کی ۔ “ اس لئے کہ یہ توبہ گویا اب مضطر کی توبہ ہے جو گمراہی میں ڈ... وب گیا ہے ۔ اور خطا کاری میں وہ گھرا ہوا ہے ۔ یہ اس شخص کی توبہ ہے جس کے لئے اب ارتکاب گناہ کا کوئی موقعہ ہی نہیں رہا ہے۔ نہ اب وہ کسی غلط کاری میں پڑ سکتا ہے ۔ اور اس حالت میں اللہ تعالیٰ کو یہ توبہ قبول نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس سے قلبی اصلاح اور زندگی کی عملی اصلاح کا اظہار نہیں ہوتا ۔ اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس شخص کے دل میں کوئی تبدیلی آگئی ہے یا اس کے نقطہ نظر اور سمت میں کوئی بہتر تبدیلی ہوگئی ہے ۔ توبہ اس لئے قبول کی جاتی ہے کہ یہ ایک دروازہ ہے جو ان لوگوں کے لئے کھلا رکھا گیا ہے جو اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں تاکہ وہ واپس آکر اسلام کے حظیرہ امن و سکون میں داخل ہوجائیں ‘ وہ واپس آجائیں ‘ گمراہیوں کی تاریکی ‘ دبیز تاریکی سے واپس آجائیں ۔ انسانیت انہیں شیطان کے جھنڈوں کے زیر سایہ کام کرنے والے گروہ سے نکال کر واپس لے آئے اور وہ صالح زندگی کا آغاز کریں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس واپسی کے بعد انہیں موقعہ ملتا ہے یا نہیں ۔ کم از کم یہ موقعہ تو ہو کہ وہ یہ اعلان کرسکیں کہ ہدایت نے گمراہی پر فتح پا لی ہے ۔ اگرچہ اس اعلان کے بعد انہیں مزید فرصت نہ ملے اور ان کی زندگی کا اختتام ہوجائے ۔ اس لئے کہ موت کا علم کسی کو بھی نہیں ہے ۔ کہ وہ کب پہنچ آئے ۔ (آیت) ” ولا الذین یموتون وھم کفار۔ “ ” اور اسی طرح توبہ ان لوگوں کے لئے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں ۔ “ کیونکہ ان لوگوں نے اس تعلق ہی کو ختم کردیا جو ان کے اور توبہ کے درمیان تھا ۔ انہوں نے اس مہلت کو ضائع کردیا جو انہیں توبہ اور حصول مغفرت کے لئے دی گئی تھی ۔ (آیت) ” اولئک اعتدنا لھم عذابا الیما (٨١) ” ایسے لوگوں کے لئے تو ہم نے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے ۔ “ یہ تیار ہے پوری طرح مہیا کردی گئی ہے ‘ حاضر ہے ‘ موجود ہے ‘ ان کے انتظار میں ہے ۔ تیاری کی ضرورت نہ ہوگی ۔ غرض یہ درست ہے کہ اسلامی نظام نے فحاشی کے لئے سخت ترین سزا تجویز کی ہے لیکن اس نے توبہ کا دراوزہ بھی پوری طرح کھلا چھوڑا ہوا ہے چناچہ اسی طرح سزا کی سختی کے اندر ایک طرح کا توازن پیدا ہوجاتا ہے اور انسانی زندگی میں اس کی وجہ سے ایسے نتائج اور آثار پیدا ہوئے ہیں جو اس کرہ ارض پر کسی بھی قدیم وجدید نظام کی وجہ سے نہیں پیدا ہوئے ۔ اس سبق کا دوسرا موضوع عورت ہے ‘ عورت کی ذات ۔ عربی جاہلیت میں بھی تمام دوسری ان جاہلیتوں کی طرح جو عرب کے ارد گرد پھیلی ہوئی تھیں ‘ عورت کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاتا تھا ۔ اسے بنیادی انسانی حقوق حاصل نہ تھے ۔ مرد کے مقابلے میں اس کی حیثیت بہت ہی نیچے تھی ، وہ ایک انسان کے بجائے ایک سامان سمجھی جاتی تھی ، اور اس کی یہ حیثیت اس وقت ہے جب مرد اس سے سکون بھی حاصل کرتا ‘ اس سے حیوانی لذت بھی حاصل کرتا ‘ اسے نفس کے لئے فتنہ بھی قرار دیتا اور اسے نیکی اور بھلائی کے اوصاف کے لئے شیطانی فتنہ قرار دیا جاتا ۔ بس شہوت رانی اور ننگی غزلوں کا وہ موضوع ہوتی ایسے حالات میں جب اسلامی نظام زندگی آیا تو اس نے عورت سے ان تمام مظالم کو رفع کردیا ۔ اور اسے خاندان کے اندر ایک حقیقی مقام اور حیثیت دی گئی اور انسانی سوسائٹی میں اسے اپنے اصلی منصب پر فائز کیا گیا ۔ وہ حیثیت جو اس منصب اور مقام کے عین مطابق تھی جس کا ذکر اس سورت کے آغاز میں کیا گیا تھا ” جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد اور عورت دنیا میں پھیلائے “۔ اس کے بعد عائلی زندگی کے اندر انسانی جذبات اور انسانی شعور کا درجہ بلند کیا گیا اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام اور رحم وہمدردی اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا تاکہ دونوں کے یہ تعلقات محض حیوانی درجے سے بلند ہو کر انسانی مقام تک آجائیں اور اس قدر پختہ ہوں کہ ایک ہی وار میں ٹوٹ پھوٹ نہ جائیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فائدہ : آیت شریفہ میں (یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَھَالَۃٍ ) فرمایا ہے اس میں جہالت حماقت کے معنی میں ہے جو بھی کوئی شخص گناہ کرتا ہے وہ حماقت ہی سے کرتا ہے کیونکہ یہ شخص اپنے آپ کو عذاب سے آخرت میں مبتلا کرنے کا راستہ اختیار کرتا ہے گناہ میں جو ذرا سا مزہ ہے اس کے لیے آخرت کے بڑے عذاب کے لیے اپنی ج... ان کو تیار کرنا حماقت نہیں ہے تو کیا ہے ؟ حضرات صحابہ کرام (رض) سے جہالت کے یہی معنی منقول ہیں، لہٰذا آیت کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ عمداً گناہ کو گناہ جانتے ہوئے کوئی شخص گناہ کرے تو توبہ قبول نہ ہوگی، گناہ عمداً ہوں یا سہواً خطاً ہوں یا جہلاً توبہ سے سب معاف ہوجاتے ہیں مگر شرط وہی ہے کہ توبہ اصول و شرائط کے مطابق ہو۔ موت کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی : پھر ارشاد فرمایا کہ جو لوگ گناہ کرتے چلے جائیں اور جب موت آنے لگے تو توبہ کرنے لگیں ایسے لوگوں کی توبہ کوئی توبہ نہیں۔ اور جو لوگ کفر پر مر رہے ہیں ان کی توبہ بھی کوئی توبہ نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ جب موت کا وقت آجائے، دوسرے عالم کے حالات نظر آنے لگیں اس وقت جو کوئی توبہ کرے وہ توبہ قبول نہیں۔ حدیث شریف میں فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْبِنَفْسِہٖ (رواہ احمد، ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالرحمن وھو ثقۃ کمافی مجمع الزوائد) کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک کہ غرغرہ کی حالت نہ ہوجائے، جب روح نکلنے لگے اور اندر سے جان نکلنے کی آواز آنے لگے اس وقت کو غرغرہ کہا جاتا ہے۔ اس وقت چونکہ عالم غیب کی چیزیں سامنے آجاتی ہیں فرشتے نظر آنے لگتے ہیں اور جان کنی کی تکلیف شروع ہوجاتی ہے اور اس طرح سے دوسرے عالم سے تعلق ہوجاتا ہے اس لیے اس حالت میں توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اس وقت نہ مومن کی توبہ قبول ہوتی ہے جو گناہوں سے توبہ کرے اور نہ کافر کی توبہ قبول ہوتی ہے جو کفر سے توبہ کرنے لگے کیونکہ ایمان وہ معتبر ہے جو ایمان بالغیب ہو جب عالم برزخ کی چیزیں نظر آنے لگیں اور ان کا مشاہدہ کرلیا تو اب ایمان بالغیب نہ رہا اس لیے اس وقت کسی کا ایمان معتبر نہیں ہے۔ غرغرہ کی حالت سے پہلے سب کی توبہ قبول ہے، اگر غرغرہ سے پہلے کافر ایمان لے آئے تو وہ بھی معتبر ہے مومن ہمیشہ توبہ کرتا رہے اور جب توبہ کرے پکی توبہ کرے اگر توبہ کے بعد گناہ ہوجائے تو پھر توبہ کرے اور توبہ کی شرائط جو اوپر لکھی گئی ہیں ان کا لحاظ رکھے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 سوائے اس کے نہیں کہ وہ توبہ جس کا قبول کرنا وعدے کی بنا پر اللہ کے ذمہ ہے وہ تو ان لوگوں کی توبہ ہے جو کوئی گناہ خواہ کبیرہ ہو یا صغیرہ اپنی نادانی اور بیوقوفی سے کر گزرتے ہیں پھر وہ قریب ہی وقت میں یعنی حضور موت سے قبل اور موت کے آنے سے پہلے پہلے توبہ کرلیتے ہیں تو یہی لوگ وہ ہیں جن کی توبہ الل... ہ تعالیٰ قبول کرلیتا ہے اور نظر عفو کے ساتھ ان پر توجہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ کمالِ علم اور کمال حکمت کا مالک ہے وہ ہر توبہ کرنے والے کی نیت سے باخبر ہے اور گنہگار کی گرفت جلدی نہ کرنے کی حکمت سے واقف ہے اور ایسے لوگوں کی توبہ کسی توجہ کے قابل نہیں ہے جو گناہوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان گناہگاروں میں سے کسی کے سامنے موت ہی آکھڑی ہوتی ہیں اور عالم آخرت نظر آنے لگتا ہے تو یوں کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔ لہٰذا نہ تو ان کی توبہ قابل قبول ہے اور نہ ان لوگوں کی توبہ قابل توجہ اور لائق قبول ہے جو حالت کفر پر مرے ہیں اور ان کو کفر کی حالت پر موت آئی ہے ان کو کفر پر مرنے والوں کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ (تیسیر) گناہ کے ساتھ جہالت کی قیدکا مطلب یہ ہے کہ گناہ کرنے والے حماقت اور بیوقوفی ہی سے کرتے ہیں ورنہ گناہ اس قابل نہیں کہ کوئی سمجھ دار انسان اس کا ارتکاب کرے۔ حضرت مجاہد کا قول ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی وہ جاہل ہے حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کہا کرتے تھے کہ بندہ جو گناہ کرتا ہے وہ جہالت ہے خواہ گناہ عمداً ہو یا خطائً ہو۔ حضرت قتادہ (رض) کا قول ہے کہ صحابہ کا اس پر اجماع ہے کہ گناہ کرنے والا جاہل اور بیوقوف ہے۔ من قریب کا مطلب یہ ہے کہ موت سے قبل توبہ کرلے خواہ ایک سال قبل خواہ ایک مہینہ قبل یا ایک ہفتہ قبل۔ بہرحال اس عالم کی چیزیں نظر آنے سے قبل توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مریض کو خواہ کتنی ہی مایوسی ہوجائے لیکن اس نے موت کے فرشتے نہ دیکھے ہوں تو اس کی توبہ معتبر ہے اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی امید ہے۔ البتہ جب وہ عالم نظر آجائے اور اس عالم کے لوگ نظر آجائیں اور پھر کوئی گنہگار توبہ کرے تو وہ توبہ قابل قبول نہیں۔ ابو دائود طیاسی نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا جس نے مرنے سے ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک جمعہ یا ایک ساعت قبل بھی توبہ کرلی تو اس کی توبہ قبول ہے۔ ایوب تابعی نے ان سے کہا اے ابن عمر (رض) اللہ تعالیٰ تو من قریب فرماتا ہے یعنی گناہ کے قریب ہی توبہ کرلے آپ موت کے قریب فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا میں تجھ سے وہ کہتا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے حضرت امام احمد (رض) نے عبدالرحمن (رض) بن سلمان (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت کے چار اصحاب ایک جگہ جمع تھیان میں سے ایک نے کہا میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ مرنے سے پہلے ایک دن قبل توبہ کرنے والے کی اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرلیتا ہے۔ دوسرے نے کہا میں نے سنا ہے مرنے سے آدھے دن قبل جو توبہ کرتا ہے اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ تیسرے نے کہا میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ ایک ساعت قبل مرنے سے جو توبہ کرتا ہے اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ چوتھے نے کہا میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جب تک مرنے والے کا گھنگرو نہ بولنے لگے اس وقت تک کی توبہ مقبول ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے جو روایت ابن مردویہ نے نقل کی ہے اس میں بھی مالم یغرغر کے الفاظ موجود ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مرنے والے کی یہ وہ حالت ہے جب فرشتے موت کے نظر آجاتے ہیں اور اسی کو حالت یاس کہا جاتا ہے یہ وہ وقت ہے کہ اس وقت نہ عاصی کی توبہ مقبول ہے اور نہ کافر کا ایمان مقبول ہے مرنے سے پہلے پہلے تمام اوقات کو قریب فرمایا کیونکہ دنیا کا تمام زمانہ قریب ہی ہے۔ حضور موت سے پہلے پہلے جس وقت توبہ کی توفیق ہوجائے اس کو قریب ہی سمجھنا چاہئے۔ پہلی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی توبہ کا قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے اور یہ ذمہ بھی اس لئے کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہم توبہ قبول کرنے والے ہیں اسی کی یہ تفصیل ہے کہ ہر شخص کی توبہ قبول کرنے کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی توبہ قبول کرنے کے ذمہ دار ہیں جو اپنی حماقت اور جہالت سے کوئی گناہ کر بیٹھا وہ گناہ خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ پھر اس کو احساس ہوا اور اس نے مرنے سے پہلے پہلے توبہ کرلی اگرچہ حالت یاس ہی میں توبہ کی مگر یہ توبہ قبول کرلی جاتی ہے اور اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ علم و حکمت کا مطلب ہم تیسیر میں عرض کرچکے ہیں کہ توبہ کرنے والے کی نیت اور اس کے اخلاص کا ہم کو علم ہے اور چونکہ ہم حکیم ہیں اس لئے یہ ہماری حکمت ہے کہ ہم مجرم کو رسوا نہیں کرتے اور اس کی گرفت میں جلدی نہیں کرتے۔ دوسری آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی توجہ ناقابل توجہ ہے جو ہمیشہ گناہوں کا ارتکاب کرتا رہے اور جب موت سرہانے آکھڑی ہو اور فرشتے موت کے آموجود ہوں تو توبہ کرنے لگے تو ایسوں کی توبہ قابل توجہ نہیں اور جس طرح توبہ میں ان تاخیر والوں کی اس توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، جو مرتے وقت حالت یاس میں کی جائے اسی طرح ان کافروں کی توبہ اور ان کے ایمان لانے کا بھی کوئی اعتبار نہیں جو مرتے دم تک کفر کرتے رہے اور موت کے فرشتوں کو دیکھ کر کفر سے توبہ کرنے لگے اور ایمان کا اقرار کرنے لگے تو ایسے کافروں کی توبہ اور ان کا ایمان بھی ناقابل اعتبار ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ غرض، فاسق مسلمان جو اپنے فسق تمام عمر اڑے رہیں اور اصرار کرتے رہیں اور توبہ میں تاخیر کرتے رہیں اور توبہ پر آمادہ نہ ہوں اور توبہ کو آج کل پر ٹلاتے رہیں وہ فاسق مسلمان اور وہ کافر جو دین حق کے منکر ہیں اس معاملہ میں دونوں برابر ہیں حالت یاس یعنی عالم آخرت کا معائنہ کرنے کے بعد نہ فاسق کی توبہ قبول ہے اور نہ کافر کا ایمان مقبول ہے۔ اہل تحقیق کا یہی مذہب ہے۔ (واللہ اعلم) ولا الذین یموتون وھم کفار کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ حالت کفر پر مرنے والوں کا قیامت کے دن مشاہدئہ عذاب کے وقت ایمان لانا معتبر نہ ہوگا اور فاسق کے لئے جو یہ کہا گیا کہ حضور موت کے وقت اس کی توبہ قبول نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس توبہ پر مغفرت کا وعدہ نہیں۔ باقی ان کی مشیت اور ان کے فضل کا معاملہ دوسرا ہے اور اس کی یہاں بحث نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جب موت یقین ہوچکی اور آخرت نظر آنے لگی تب توبہ قبول نہیں اور اس سے پہلے قبول ہے۔ مسلمان کی توبہ اور کافر اگر گناہ سے توبہ کرے وہ گناہ نہیں اترتا مگر جو مسلمان ہوکر مرے (موضح القرآن) بعض اہل علم نے دونوں آیتوں کا مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت حق جل مجدہ کا توبہ قبول کرنے میں ایک مقررہ ضابطہ ہے۔ جن لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ ہے اور بجب وعدہ جن کی توبہ قبول کرنا ان کے ذمے سے وہ لوگ وہ ہیں جو کبھی غلطی سے کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں پھر اس گناہ کے بعد فوراً ہی تائب ہوجاتے ہیں تو ایسے لوگوں کی توبہ وہ ضرور قبول کرلیتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو جرائم پیشہ ہیں اور ہمیشہ گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور جب موت سامنے آکھڑی ہوتی ہے اس وقت توبہ کرنے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی ذمہ ہے بلکہ اس کے فضل پر موقوف ہے اور نہ ان لوگوں کی توبہ مقبول ہے جو کفر پر مرجاتے ہیں بلکہ ان کے لئے تو دردناک عذاب ہم نے تیار کررکھا ہے ان کی توبہ قبول کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ (واللہ اعلم) بعض حضرات نے دوسری آیت میں جو سیآت ہے اس کی تفسیر شرک سے کی ہے۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس اور بعض نے نفاق سے کی ہے۔ اگر یہ تفسیر اختیار کی جائے تو دوسری آیت کا تعلق صرف اہل نفاق اور اہل شرک سے ہوگا۔ جیسا کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) سے مروی ہے کہ پہلی آیت کا تعلق اہل ایمان سے ہے اور درمیانی حصہ کا تعلق منافقین سے ہے اور آخری حصہ کا تعلق کافروں سے ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) اب آگے پھر عورتوں کے حقوق کا ذکر ہے اور ان احکام کا بیان ہے جو عورتوں کے حقوق کے متعلق ہیں بعض احکام میں اولیاء کو خطاب ہے اور بعض احکام میں براہ راست خاوندوں کو خطاب ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more