Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 53

سورة النساء

اَمۡ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّنَ الۡمُلۡکِ فَاِذًا لَّا یُؤۡتُوۡنَ النَّاسَ نَقِیۡرًا ﴿ۙ۵۳﴾

Or have they a share of dominion? Then [if that were so], they would not give the people [even as much as] the speck on a date seed.

کیا ان کا کوئی حصّہ سلطنت میں ہے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کی گُٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Envy and Miserly Conduct of the Jews Allah says; أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ ... Or have they a share in the dominion! Allah asked the Jews if they have a share in the dominion. That is merely a statement of rebuke, since they do not have any share in the dominion. Allah then described them as misers, ... فَإِذًا لاَّ يُوْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا Then in that case they would not give mankind even a Naqir. Meaning, if they had a share in the sovereignty and dominion, they would not give anyone anything, especially Muhammad, even if it was the speck on the back of a date-stone, which is the meaning of Naqir according to Ibn Abbas and the majority of the scholars. This Ayah is similar to another of Allah's statements, قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَايِنَ رَحْمَةِ رَبِّى إِذًا لامْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الاِنفَاقِ Say: "If you possessed the treasure of the mercy of my Lord, then you would surely withhold it out of fear of spending it. (17:100) meaning, for fear that what you have might end, although there is no such possibility here. This only demonstrates their greedy and stingy nature. This is why Allah said, وَكَانَ الانْسَـنُ قَتُورًا And man is ever Qatur. (17:100) meaning Bakhil (stingy). Allah then said,

یہودیوں کی دشمنی کی انتہا اور اس کی سزا یہاں بطور انکار کے سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے کسی حصہ کے مالک ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں ، پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے کے دوا دار نہ ہوتے خصوصاً اللہ کے اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا بھی نہ دیتے جتنا کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا پردہ ہوتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:100 ) یعنی اگر تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم تو خرچ ہو جانے کے خوف سے بالکل ہی روک لیتے گو ظاہر ہے کہ وہ کم نہیں ہو سکتے تھے لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں ڈرا دیتی اسی لئے فرما دیا کہ انسان بڑا ہی بخیل ہے ، ان کے ان بخیلانہ مزاج کے بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل سے نہیں اس لئے ان سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے روک رہے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہاں الناس سے مراد ہم ہیں کوئی اور نہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے قبائل میں اولاد ابراہیم سے ہیں نبوۃ دی کتاب نازل فرمائی جینے مرنے کے آداب سکھائے بادشاہت بھی دی اس کے باوجود ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اس انعام و اکرام کو مانا لیکن بعض نے خود بھی کفر کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکاحالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے تو جبکہ یہ اپنے والوں سے بھی منکر ہو چکے ہیں تو پھر اے نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے کیا دور ہے؟ جب کہ آپ ان میں سے بھی نہیں ، یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض اس پر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے پس یہ کافر اپنے کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے ہیں اور ہدایت و حق سے بہت ہی دور ہیں پھر انہیں ان کی سزا سنائی جا رہی ہے کہ جہنم کا جلنا انہیں بس ہے ، ان کے کفر و عناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یہ انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تو یہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہوجاتا نَقَیْرًا اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] یہود کا بخل اور تنگ نظری :۔ یہاں یہود کی ایک مشہور رذیل صفت بخل کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر ان کے پاس کسی ملک کی حکومت بھی ہو تو بھی وہ کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دیں گے اور ان کے بخل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اتنے تنگ نظر ہیں کہ حق بات کا اعتراف کرنا بھی ان کے لیے محال ہے۔ کیونکہ یہ مشرکین مکہ کو توحید پرستوں سے برتر قرار دے رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیت میں یہود کی جہالت بیان کی کہ وہ بتوں کی پوجا کو اللہ واحد کی عبادت پر ترجیح دیتے ہیں، اس آیت میں ان کے بخل اور حسد کو بیان فرمایا۔ بخل تو یہ ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے کسی کو دی ہو دوسروں سے اسے روک لینا اور حسد یہ ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو دی ہے اس پر جلے بھنے اور آرزو کرے کہ اس سے چھن جائے، پھر خواہ مجھے ملے یا نہ ملے۔ پس حسد اور بخل دونوں میں یہ بات قدرے مشترک ہے کہ دوسروں سے نعمت کو روکنا اور یہ گوارا نہ کرنا کہ اپنی ذات کے سوا دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے۔ (رازی۔ قرطبی) یہود میں یہ دونوں صفتیں اتم اور اکمل طور پر پائی جاتی تھیں، قرآن نے بتایا کہ یہ مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں اور ان کے بخل کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ملک و سلطنت میں ان کو کچھ اختیار ہوتا تو کسی کو ” تل برابر “ بھی کچھ نہ دیتے۔ ” نَقِيْرًا “ دراصل اس نقطے کو کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشت پر ہوتا ہے اور یہ قلت میں ضرب المثل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Linked with previous verses, the description of Jewish traits of character continues in the present verses as well.

خلاصہ تفسیر ہاں کیا ان کے پاس کوئی حصہ ہے سلطنت کا سو ایسی حالت میں تو اور لوگوں کو ذرا سی چیز بھی نہ دیتے یا دوسرے آدمیوں سے (جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) ان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں سو (آپ کو ایسی چیز مل جانا کوئی نئی بات نہیں کیونکہ) ہم نے (پہلے سے) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان (والوں) کو کتاب (آسمانی) بھی دی ہے اور علم بھی دیا ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے (چنانچہ بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء گذرے ہیں، بعض انبیاء سلاطین بھی ہوئے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) و حضرت داؤد (علیہ السلام) و حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت داؤد (علیہ السلام) و حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا کثیر الازدواج ہونا بھی معلوم و مشہور ہے اور یہ سب اولاد ابراہیم میں ہیں، سو جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اولاد ابراہیم سے ہیں، تو آپ کو اگر یہ نعمتیں و عطیات مل گئے تو تعجب کی کیا بات ہے) سو (ان انبیاء علیہم السام کے زمانہ میں بھی جو کہ خاندان ابراہیم (علیہ السلام) سے گذر چکے ہیں جو لوگ موجود تھے) ان میں سے بعضے تو اس (کتاب و حکمت) پر ایمان لائے اور بعضے ایسے تھے کہ اس سے روگرداں ہی رہے (پس اگر آپ کی رسالت و قرآن پر بھی آپ کے زمانہ کے بعضے لوگ ایمان نہ لائیں تو کوئی رنج کی بات نہیں) اور (ان کفار و معرضین اگر دنیا میں سزا کم بھی ہو یا نہ ہو تو کیا ہوا ان کے لئے آخرت میں) دوزخ کی آتش سزاں (سزا) کافی ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا۝ ٥٣ۙ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ نقر النَّقْرُ : قَرْعُ الشَّيْءِ المُفْضِي إِلَى النَّقْبِ ، والمِنْقَارُ : ما يُنْقَرُ به كمِنْقَارِ الطَّائرِ ، والحَدِيدَةِ التي يُنْقَرُ بها الرَّحَى، وعُبِّرَ به عن البَحْثِ ، فقیل : نَقَرْتُ عَنِ الأَمْرِ ، واستُعِيرَ للاغْتِيَابِ ، فقیل : نَقَرْتُهُ ، وقالتْ امرأةٌ لِزَوْجِهَا : مُرَّ بِي عَلَى بَنِي نَظَرِي ولا تَمُرَّ بي عَلَى بَنَاتِ نَقَرِى «1» ، أي : علی الرجال الذین ينظُرون إليَّ لا علی النِّساء اللَّواتِي يَغْتَبْنَنِي . والنُّقْرَةُ : وَقْبَةٌ يَبْقَى فيها ماءُ السَّيْلِ ، ونُقْرَةُ القَفَا : وَقْبَتُهُ ، والنَّقِيرُ : وَقْبَةٌ في ظَهْرِ النَّوَاةِ ، ويُضْرَبُ به المَثَلُ في الشیء الطَّفِيفِ ، قال تعالی: وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً [ النساء/ 124] والنَّقِيرُ أيضا : خَشَبٌ يُنْقَرُ ويُنْبَذُ فيه، وهو كَرِيمُ النَّقِيرِ. أي : كَرِيمٌ إذا نُقِرَ عنه . أي : بُحِثَ ، والنَّاقُورُ : الصُّورُ ، قال تعالی: فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا صَوَّتَّ له بلسانِكَ ، وذلک بأن تُلْصِقَ لسانَك بنُقْرَةِ حَنَكِكَ ، ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا خَصَصْتَهُ بالدَّعْوَةِ ، كأَنَّك نَقَّرْتَ له بلسانِكَ مُشِيراً إليه، ويقال لتلک الدَّعْوَةِ : النَّقْرَى. ( ن ق ر ) النقر ( ن ) کسی چیز کو کھٹکھٹانا حتیٰ کہ اس میں سوراخ ہوجائے المنقار کھٹکھٹا نے لا آلہ جیسے پرند کی چونچ یا چکی کو کندہ کرنے کے اوزار وغیرہ ۔ نقرت عن الامر کسی معاملہ کی چھان بین کرنا نقرتہ بطور استعارہ بمعنی غیبت کرنا جیسا کہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا : ۔ کہ مجھے مردوں کے پاس سے لے کر کر گزر نا جو نظر ڈالتے ہیں اور عورتوں کے پاس سے لے کر نہ گزر نا جو عیب لگاتی اور غیبت کرتی ہیں ۔ النقرۃ گڑھا جس میں سیلاب کا پانی باقی رہ جاتا ہے گر دن کے پچھلے حصے کے گڑھے کو نقرۃ القفا کہا جاتا ہے ۔ انقیر کھجور کی گھٹلی کے گڑھے کو کہتے ہیں ۔ اور یہ حقیر چیز کے لئے ضرب المثل ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً [ النساء/ 124] اور تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی ۔ اور النقیر اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جس میں گڑھا کر کے اس میں نبی د ڈالتے ہیں کہا جاتا ہے ھو کریم النقیر فلاں شریف الاصل ہے یعنی بعد از تفتیش ۔ الناقور کے معنی صور یعنی بگل کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ نقرت الرجل زبان کو تالو سے لگا کر آواز نکال کر کسی آدمی کو بلانا ۔ نقرت ت الرجل کسی شخص کو جماعت میں سے خاص کر علیحدہ بلانا گو یا زبان کے ذریعہ آواز نکال کر خاص کر اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور اس طور سے بلانے کو نقری کہا جاتا ہے ۔ میں نے خاص طور پر انہیں بلایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣۔ ٥٤) اگر یہود کے پاس سلطنت کا کچھ حصہ ہوتا تو یہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اس میں سے نہ دیتے بلکہ آپ کو جو اللہ تعالیٰ نے کتاب ونبوت اور حرم نبوی کو جو بہترین عورتیں عطا کی ہیں۔ اس پر یہ حسد کرتے ہیں، ہم نے حضرت داؤد (علیہ السلام) وسلیمان (علیہ السلام) کو علم وفہم اور نبوت عطا کی اور نبوت واسلام کے ذریعے عزت عطا کی اور بنی اسرائیل کی بادشاہت دی چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی سو بیبیاں تھیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاں سات سو باندیاں اور سو بیبیاں تھیں۔ شان نزول : (آیت) ” ام یحسدون “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے بواسطہ عوفی ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ اہل کتاب بولے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھتے ہیں کہ ان کو بڑی بادشاہت مل گئی اور ان کی نو ازواج مطہرات ہیں ان کا کام صرف شادی کرنا ہے تو اس سے افضل کون سی بادشاہت ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمائی اور ابن سعد نے عمر مولی عفرہ سے اسی طرح اس سے مفصل روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (اَمْ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْکِ ) انہوں نے یہ جو تقسیم کرلی ہے کہ دنیا میں یہ سب کچھ ہمارے لیے ہے ‘ باقی تمام انسان Goyems اور Gentiles ہیں ‘ تو انسانوں میں یہ تقسیم اور تفریق کا اختیار انہیں کس نے دیا ہے ؟ کیا ان کا اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ ہے ؟ زمین و آسمان کی بادشاہی تو اللہ کی ہے ‘ مالک الملک اللہ ہے۔ تو کیا ان کو اس کے پاس سے کوئی اختیار ملا ہوا ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84. The Jews, who had judged the Muslims to be in error, are asked if they have some share in God's authority which entitles them to judge who is rightly guided and who is not. If the Jews really had any share in that authority, no one would receive so much as a penny from them, for their hearts are too small to even acknowledge the truth, let alone credit others with righteousness and goodness. This verse can also be understood somewhat differently so as to pose the following question to the Jews: 'Is it a matter of your possessing some dominion which you are reluctant to share with others?' Obviously, the question was merely one of acknowledging the Truth, and they were too grudging to credit others with it.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :84 یعنی کیا خدا کی حکومت کا کوئی حصہ ان کے قبضہ میں ہے کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسر ہدایت ہے اور کون نہیں ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ہاتھوں دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نصیب نہ ہوتی کیونکہ ان کے دل تو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سے حق کا اعتراف تک نہیں ہو سکتا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے کہ اس میں دوسرے لوگ حصہ بٹانا چاہتے ہیں اور نہ انہیں اس میں سے کچھ نہیں دینا چاہتے؟ یہاں تو محض اعتراف حق کا سوال درپیش ہے اور اس میں بھی یہ بخل سے کام لے رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی اور عناد کا سبب قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ انہیں یہ توقع تھی کہ جس طرح پچھلے بہت سے انبیائے کرام ( علیہ السلام) بنی اسرائیل سے آئے ہیں، نبی آخرالزماںﷺ بھی انہی کے خاندان سے ہوں گے، لیکن جب آنحضرتﷺ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں مبعوث فرمائے گئے تو یہ لوگ حسد میں مبتلا ہوگئے، حالانکہ نبوت وخلافت وحکومت تو اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے وہ جب جس کو مناسب سمجھتا ہے اپنے اس فضل سے سرفراز فرماتا ہے، اگر کوئی شخص اس پر اعتراض کرے تو گویا وہ یہ دعوی کررہا ہے کہ کائنات کی بادشاہی اس کے پاس ہے اور اسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند سے انبیاءؑ کو منتخب کرے، اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتے ہیں کہ اگر کہیں بادشاہی واقعی ان کو مل گئی ہوتی تو یہ اتنے بخیل ہیں کہ کسی کو ذرہ برابر بھی کچھ نہ دیتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(53 ۔ 55) ۔ اوپر ذکر تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہود کو یہاں تک دشمنی تھی کہ یہ لوگ قریش کو احزاب کی لڑائی پر آمادہ کرنے کے لئے اطراف مدینہ سے سفر کر کے مکہ گئے ان آیتوں میں فرمایا یہود کیہ یہ دشمنی فقط اس سبب سے ہے کہ نبی آخر الزماں بنی اسماعیل میں سے کیوں ہوئے اولاد اسحاق میں سے کیوں نہیں ہوئے حالانکہ بنی اسحاق اور بنی اسماعیل دونوں کا سلسلہ ابراہیم (علیہ السلام) سے ملتا ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے اسماعیل کی اولاد میں ایک مدت دراز تک نبوت بادشاہت سب کچھ رہا اب ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے اسماعیل کی اولاد میں ایک نبی آخر الزماں کے پیدا ہونے سے نبی آخر الزماں کے ساتھ ان لوگوں کی اس قدر دشمنی فقط ان لوگوں کی بخیلی کے سبب سے ہے کیونکہ ان کی بخیلی کی عادت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے۔ کہ ان کے قبضہ میں ایک سلطنت بھی ہو تو یہ لوگ اس میں سے ایک تل برابر چیز بھی کسی کو نہ دیں۔ کھجور کی گٹھلی پر نقطہ کی برابر ایک نشان جو ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں یحسدون الناس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ ناس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھ مقصود ہیں ٢۔ انہیں آیتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین کے لئے یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں کی مخالفت اللہ کے نبی کے سات کچھ نئی نہیں ہے۔ بلکہ نبی آخر الزمان کی بنی اسماعیل میں پیدا ہونے کا حیلہ ہے یہ لوگ تو ایسوں کی اولاد ہیں جنہوں نے خود اپنے گھرانے کے نبیوں کے ساتھ بڑی مخالفتیں کر کے بعض نبیوں کو شہید کر ڈالا۔ آخر کو فرمایا یہ لوگ ہوں یا ان کے بڑے ایسے لوگوں کو جہنم کی دھکتی آگ کی سزا کافی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:53) فاذا۔ اگر ایسا ہوتا تو۔ اس وقت۔ حرف جزا ہے، جواب اور جزاء کے لئے آتا ہے۔ لایؤتون۔ نہیں دیتے ہیں۔ نہ دیتے۔ نقیرا۔ اسم منصوب۔ کھجور کی گٹھلی کے اوپر کا چھلکا۔ مراد حقیر ترین چیز۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اوپر کی آیت میں یہود کو جہالت بیان کی کہ وہ بتوں کی پوجا کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ترجیح دیتے ہیں اس آیت میں ان کے بخل اور حسد کو بیان فرمایا ہے (کبیر) بخل تو یہ ہے کہ نعمت اللہ تعالیٰ نے کسی کو دی ہو دوسروں سے اسے روک لینا۔ اور حسد یہ ہے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو دی ہے اس پر جلے بھنے اور آرزو کرے کہ اس سے چھین جائے اور مجھے مل جائے پس حسد اور بخل دونوں میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ دوسروں سے نعمت کو رکنا اور یہ گوارا نہ کرنا کہ اپنی ذات کے سوا دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے (کبیر، قرطبی) یہود میں یہ دونوں صفتیں اتم اور اکمل طوپر پائی جاتی تیں۔ قرآن نے یہ بتایا کہ یہ مسلمان پر حسد کرتے ہیں اور ان کے بخل کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ملک و سلطنت میں ان کو اختیار ہوتا تو کسی کو تل برابر بھی کچھ نہ دتیے نقیر دراصل اس نقطہ کر کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشست پر ہوتا ہے اور یہ قلت ضرب المثل ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ابھی تو یہودیوں کے پاس کوئی اقتدار اور اختیار نہیں۔ اگر ان کے پاس اقتدار اور اختیار ہو تو یہ کسی کو دمڑی بھی نہ دیں اور نہ ہی کسی کو دم مارنے دیں۔ اہل کتاب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے یتیم کو نبوت کا تاج اور قوموں کی قیادت کیوں عطا فرمائی ہے جو روز بروز عملاً غلبہ پارہی ہے۔ یہ جس قدر چاہیں حسد کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپ کو عزت و عظمت، امامت و قیادت اور دین کو غلبہ دے گا۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو امامت و حکومت اور نبوت عطا کی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنے اور وطن سے نکالنے والے بالآخر ناکام ہوئے تھے اسی طرح انجام کے لحاظ سے یہ بھی ناکام ہوں گے۔ چناچہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات لوگوں کو اس وقت بتلائی جب خندق کھودنے کے دوران کچھ صحابہ کو ایسی چٹان سے واسطہ پڑا جس کو توڑنا ان کے لیے مشکل ہوا۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں اس پریشانی کا اظہار کیا۔ آپ نے وہاں پہنچ کر اتنے زور سے کدال ماری کہ پہلی اور دوسری ضرب پر پتھر سے چنگاریاں نکلیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے صحابہ خوش ہوجاؤ ! اللہ تعالیٰ نے قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی چابیاں مجھے عطا فرمادیں ہیں۔ [ مسند احمد : کتاب اول مسند الکوفیین، باب حدیث البراء بن عازب ] رہی بات ان لوگوں کی جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی آل میں بھی ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے حسد و بغض اور باہمی مخالفت کی بنیاد پر اپنے باپ دادا کے دین سے انحراف کیا تھا۔ یہ لوگ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے ساتھ نسبت کا دعویٰ رکھنے کے باوجود آپ کی ذات اور دعوت سے انکاری ہیں۔ ایسے بغیض اور حاسدوں کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ :إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَفَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب، باب فی الحسد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَاابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ھَلْ مَرَّبِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَاوَاللّٰہِ یَارَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِي الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَا وَاللّٰہِ یَارَبِّ مَا مَرَّ بِيْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب صبغ أنعم أھل الدنیا فی النار وصبغ أشدھم بؤسا فی الجنۃ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روز قیامت دنیا میں سب سے زیادہ ناز و نعمت میں پلنے والے جہنمی کو لا کر آگ میں غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے کبھی کوئی خیر دیکھی ؟ کیا کبھی تجھے کوئی نعمت میسر ہوئی ؟ تو وہ کہے گا نہیں اللہ کی قسم ! میرے رب میں نے کوئی نعمت نہیں دیکھی۔ پھر ایک جنتی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تکلیفوں میں رہا اسے جنت میں داخل کر کے پوچھا جائے گا اے ابن آدم ! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف اور سختی دیکھی تو وہ جواباً کہے گا نہیں اللہ کی قسم ! مجھے کبھی کوئی تکلیف اور مصیبت نہیں آئی۔ “ مسائل ١۔ آدمی کو حسد سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ یہودی بدترین قسم کے بخیل ہوتے ہیں۔ ٣۔ یہودی دوسروں پر حسد کرتے ہیں۔ ٤۔ اہل کتاب لوگوں کو ہدایت سے روکتے ہیں۔ ٥۔ لوگوں کو ہدایت سے روکنے والے جہنم میں جائیں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40 یہود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے بہت زیادہ حسد رکھتے تھے کیونکہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکومت عطا فرمادی اور دوسری طرف اسلام دن بدن ترقی کر رہا تھا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ حسد کیوں کرتے ہیں کیا ان کے پاس سلطنت یا حکومت ہے جو ان سے مسلمانوں نے چھین لی ہے اگر ان کے پاس کسی جگہ کی حکومت ہوتی تو وہ اس سے پھوٹی کوڑی بھی کسی کو نہ دیتے جب ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں نہ ان سے کچھ چھینا گیا ہے تو ان کا حسد بلا وجہ ہے جیسا کہ سورة ص میں فرمایا۔ اَمْ عِنْدَھُمْ خَزَائِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَھَّاب۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi