The Envy and Miserly Conduct of the Jews
Allah says;
أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ
...
Or have they a share in the dominion!
Allah asked the Jews if they have a share in the dominion. That is merely a statement of rebuke, since they do not have any share in the dominion.
Allah then described them as misers,
...
فَإِذًا لاَّ يُوْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا
Then in that case they would not give mankind even a Naqir.
Meaning, if they had a share in the sovereignty and dominion, they would not give anyone anything, especially Muhammad, even if it was the speck on the back of a date-stone, which is the meaning of Naqir according to Ibn Abbas and the majority of the scholars.
This Ayah is similar to another of Allah's statements,
قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَايِنَ رَحْمَةِ رَبِّى إِذًا لامْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الاِنفَاقِ
Say: "If you possessed the treasure of the mercy of my Lord, then you would surely withhold it out of fear of spending it. (17:100)
meaning, for fear that what you have might end, although there is no such possibility here. This only demonstrates their greedy and stingy nature. This is why Allah said,
وَكَانَ الانْسَـنُ قَتُورًا
And man is ever Qatur. (17:100)
meaning Bakhil (stingy).
Allah then said,
یہودیوں کی دشمنی کی انتہا اور اس کی سزا
یہاں بطور انکار کے سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے کسی حصہ کے مالک ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں ، پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے کے دوا دار نہ ہوتے خصوصاً اللہ کے اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا بھی نہ دیتے جتنا کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا پردہ ہوتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:100 ) یعنی اگر تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم تو خرچ ہو جانے کے خوف سے بالکل ہی روک لیتے گو ظاہر ہے کہ وہ کم نہیں ہو سکتے تھے لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں ڈرا دیتی اسی لئے فرما دیا کہ انسان بڑا ہی بخیل ہے ، ان کے ان بخیلانہ مزاج کے بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل سے نہیں اس لئے ان سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے روک رہے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہاں الناس سے مراد ہم ہیں کوئی اور نہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے قبائل میں اولاد ابراہیم سے ہیں نبوۃ دی کتاب نازل فرمائی جینے مرنے کے آداب سکھائے بادشاہت بھی دی اس کے باوجود ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اس انعام و اکرام کو مانا لیکن بعض نے خود بھی کفر کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکاحالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے تو جبکہ یہ اپنے والوں سے بھی منکر ہو چکے ہیں تو پھر اے نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے کیا دور ہے؟ جب کہ آپ ان میں سے بھی نہیں ، یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض اس پر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے پس یہ کافر اپنے کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے ہیں اور ہدایت و حق سے بہت ہی دور ہیں پھر انہیں ان کی سزا سنائی جا رہی ہے کہ جہنم کا جلنا انہیں بس ہے ، ان کے کفر و عناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے ۔