Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 71

سورة الزخرف

یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِصِحَافٍ مِّنۡ ذَہَبٍ وَّ اَکۡوَابٍ ۚ وَ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ ۚ وَ اَنۡتُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿ۚ۷۱﴾

Circulated among them will be plates and vessels of gold. And therein is whatever the souls desire and [what] delights the eyes, and you will abide therein eternally.

ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں ، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ... Trays of gold and cups will be passed round them; means, fine vessels of gold containing food and drink, without spouts or handles. ... وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاَْنفُسُ ... (there will be) that their souls desire, Some of them recited: ... مَا تَشْتَهِيِ الاْاَنفُسُ ... therein all that their souls could desire. ... وَتَلَذُّ الاَْعْيُنُ ... and all that eyes could delight in, means, of good food, delightful fragrances and beautiful scenes. ... وَأَنتُمْ فِيهَا ... and you will therein, (means, in Paradise), ... خَالِدُونَ abide forever, means, you will never leave it or want to exchange it. Then it will be said to them, as a reminder of the blessing and favor of Allah: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 مطلب ہے اہل جنت کو جو کھانے ملیں گے، وہ سونے کی رکابیوں میں ہوں گے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] اگرچہ جنت کی ساری نعمتیں ہی ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر ہوں گی مگر جو لذت و سرور اہل جنت کو دیدار الٰہی سے حاصل ہوگا۔ اتنا اور کسی نعمت سے نہ ہوگا اور یہ نعمت بھی اہل جنت کو وہاں حاصل ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یطاف علیھم بصحاف من ذھب و اکواب : ” صحاف “” صحفۃ “ کی جمع ہے، تھال جو بہت بڑا نہ ہو، رکابیاں۔ ” اکواب “ ” کو ب “ کی جمع ہے، پینے کا برتن جس کی دسوتی نہ ہو، ایسے برتن دستی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ صاٹف ہوتے ہیں۔ تھالوں میں طرح سرح کے کھانے اور میوے ہوں گے اور پیالوں میں طرح طرح کے پینے کی چیزیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا، ” صحاف “ جمع کثرت ہے اور ” اکواب “ جمع قلت، کیونکہ کھانے کے بتن پینے کے برتنوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ (٢) وفیھا ماتشتھیہ الانفس : اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حم سجدہ (٣١) اور سورة سجدہ (١٧) ۔ (٣) وتلذالاعین : آنکھوں کی لذت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُطَافُ عَلَيْہِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّاَكْوَابٍ۝ ٠ ۚ وَفِيْہَا مَا تَشْتَہِيْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْيُنُ۝ ٠ ۚ وَاَنْتُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ ٧١ ۚ طوف الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها . قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ صحف الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها : صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة . ( ص ح ف ) الصحیفۃ کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔ ذهب ( سونا) الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا، ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔ كوب الْكَوْبُ : قدح لا عروة له، وجمعه أَكْوَابٌ. قال : بِأَكْوابٍ وَأَبارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] . والْكُوبَةُ : الطّبل الّذي يُلْعَبُ به . ( ک و ب ) الکوب ۔ پیالہ جس کا دستہ نہ ہو ۔ اس کی جمع اکواب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بِأَكْوابٍ وَأَبارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] یعنی آبخور اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس ۔ الکوبۃ ( ڈکڑگی ) یعنی باریک میاں طبلکجو تماشہ کے وقت مداری بجاتے ہیں ۔ شها أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ. ( ش ھ و ) الشھوہ کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ وتلذ الاعین : ای وفیہا ما تلذ الاعین اور اس میں ہر وہ چیز ہوگی جس سے آنکھیں لذت اندوز ہوں گے۔ تلذ مضارع واحد مؤنث غائب لذۃ باب سمع مصدر ، بمعنی لذت پانا۔ مزہ لینا۔ جس سے آنکھیں لذت پائیں گی۔ عين العَيْنُ الجارحة . قال تعالی: وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ [ المائدة/ 45] ( ع ی ن ) العین کے معنی آنکھ کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ [ المائدة/ 45] آنکھ کے بدلے آنکھ ۔ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] ان کی آنکھوں کو مٹا ( کر اندھا ) کردیں ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ { یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّاَکْوَابٍ } ” گردش کرائے جائیں گے ان پر سونے کی طشتریاں اور پیالے۔ “ { وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُج وَاَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ } ” اور وہاں ہوگا وہ سب کچھ جس کی طلب ہوگی انسان کے نفس کو اور جس سے نگاہیں لذت حاصل کریں گی ‘ اور تم اب اس میں ہمیشہ ہمیش رہو گے۔ “ جنت کے پھول ‘ باغیچے ‘ مناظر اور اہل جنت کی بیویاں غرض وہاں کی ہرچیز انتہائی حسین اور دلکش ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:71) یطاف علیہم : یطاف مضارع واحد مذکر غائب اطافۃ (افعال) مصدر دور چلایا جائے گا۔ صحاف : جمع ہے صحفۃ کی۔ اتنی بڑی رکابی جس میں پانچ آدمی پیٹ بھر کر کھانا کھالیں۔ صحاف من ذھب سونے کی رکابیاں۔ واکواب واؤ عاطفہ ہے۔ اکواب معطوف ہے جس کا عطف صحاف پر ہے۔ کو ب واحد۔ کوزہ۔ آنجورہ۔ پیالہ۔ ایسا گول برتن جس کا گلا بھی مدور ہو اور قبضہ نہ ہو۔ ان پر بڑی بڑی رکابیوں اور پیالوں کے دور چلائے جائیں گے یعنی ان کو کھانے کی چیزیں اور پینے کے مشروبات سونے کی رکابیوں اور پیالوں میں مہیا کی جائیں گے۔ وفیہا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع (آیت سابقہ ادخلوا الجنۃ ۔۔ میں جنۃ ہے۔ ما تشتھیہ الانفس : ما موصولہ تشتھی مضارع واحد مؤنث غائب۔ اشتھاء (افتعال) مصدر۔ ضمیر فاعل الانفس کی طرف راجع ہے ہ ضمیر واحد مذکر غائب تشتھی کے مفعول کے لئے۔ جس کو جی چاہیں گے یعنی جنت میں وہ سب چیزیں مہیا ہوں گی جن کو جی چاہیں گے۔ وتلذ الاعین : ای وفیہا ما تلذ الاعین اور اس میں ہر وہ چیز ہوگی جس سے آنکھیں لذت اندوز ہوں گے۔ تلذ مضارع واحد مؤنث غائب لذۃ باب سمع مصدر ، بمعنی لذت پانا۔ مزہ لینا۔ جس سے آنکھیں لذت پائیں گی۔ وانتم فیہا خلدون : ای دائمون : اس آیت کا عطف آیت نمبر 70 پر ہے اور تم اس میں (یعنی جنت میں) ہمیشہ رہو گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 رکابیوں میں طرح طرح کے کھانے اور میوے ہونگے اور کو زوں میں طرح طرح کے پینے کی چیزیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنت میں داخل ہونے کے بعد متقی لوگوں کی ضیافت۔ جونہی جنتی جنت میں پہنچ کر اپنے محلّات میں داخل ہوں گے تو جنت کے خدّام شراب طہور سے بھرے ہوئے سونے کے جام جنتیوں کے سامنے پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ہی سونے، چاندی کی پلیٹوں میں رکھے ہوئے پھل اور خورد نوش کی دوسری چیزیں پیش کی جائیں گی۔ جنتیوں کے کھانے کے لیے جنت میں بیشمار قسم کے پھل ہوں گے۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے انہیں فی الفور پیش کردیا جائے گا۔ وہ جدھر دیکھیں گے انہیں آنکھوں کی لذت اور دل کا سرور حاصل ہوگا۔ جب سب کے سب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ اعلان کریں گے کہ جس جنت کے تم مالک بنا دیئے گئے ہو یہ تمہارے صالح اعمال کا صلہ ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والوں کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ جو ان کے بعد داخل ہوں گے یہ آسمان کے تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے۔ تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ تو ان کے درمیان اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ حسن کی وجہ سے جن کی پنڈ لیوں کا گودا ‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے ‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے۔ ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز شکل و صورت میں سب اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے۔ آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ ونعیمہا ] (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے) ۔ “ مسائل ١۔ جونہی جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے سامنے سونے کے جام شراب طہور سے بھرے ہوئے پیش کیے جائیں گے۔ ٢۔ جنتیوں کے سامنے جنت کے پھل اور خورد نوش کا سامان سونے چاندی کی پلیٹوں میں پیش کیا جائے گا۔ ٣۔ جنتی جنت میں جس چیز کی چاہت کریں گے وہ فی الفور ان کے حضور پیش کردی جائے گی۔ ٤۔ اعلان ہوگا کہ تمہیں جنت کا وارث اس لیے بنایا گیا ہے کہ تم نیک اعمال کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے پھل اور نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس ہے۔ (الکہف : ١٠٧) ٢۔ جنتیوں کے لیے جنت میں وہ کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ (حٰم السجدۃ : ٣١) ٣۔ جنت کے پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٤۔ یقیناً متقین سایوں اور چشموں اور پسندیدہ میوہ جات میں رہیں گے۔ (المرسلات : ٤١۔ ٤٢) ٥۔ اللہ کے مخلص بندے نعمتوں والی جنت میں ہوں گے ایک دوسرے کے سامنے صوفوں پر بیٹھے ہونگے۔ (الصٰفٰت : ٤٣۔ ٤٤) ٦۔ پرہیزگاروں کے لیے عمدہ مقام ہے۔ ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے اور ان میں تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (ص : ٤٩ تا ٥٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل جنت کے انعامات بتاتے ہوئے ﴿وَ تَلَذُّ الْاَعْيُنُ ﴾ بھی فرمایا کہ جنت میں وہ سب کچھ ملے گا جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی یعنی جنت میں ایسی کوئی چیز سامنے نہ آئے گی جس کا دیکھنا ناگوار ہو، جو بھی کچھ ہوگا جس پر نظر پڑے گی آنکھوں کو مزہ ہی آئے گا وہاں ایسے مواقع نہ ہوں گے کہ کوئی چیز سامنے آئے اور اس کے دیکھنے سے روکا جائے یہ ابتلا اور امتحان دنیا میں ہی ہے وہاں بد نظری کا کوئی موقعہ نہ ہوگا بلکہ نظر ہی بد نہ ہوگی مزید فرمایا ﴿ وَ اَنْتُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَۚ٠٠٧١﴾ (اور تم اس جنت میں ہمیشہ رہو گے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ ” یطاف علیہم “ جنت میں خوبرو غلمان ان کی خدمت میں ہوں گے اور کھانے پینے کی اشیاء سونے کی پلیٹوں اور پیالوں میں انہیں پیش کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ انہیں جنت میں ہر وہ چیز میسر ہوگی جس کی ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہوگی اور جس چیز کو دیکھنے کا ان کی آنکھوں کو شوق ہوگا اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ نہ ان پر موت آئیگی اور نہ جنت کی نعمتیں ہی فنا ہوں گی۔ اہل جنت سے کہا جائے گا دنیا میں جو تم نیک عمل کرتے رہے یہ جنت اور تمام نعمتیں اسی وجہ سے تمہیں عطا ہوئیں۔ اس میں تمہارے لیے بیشمار انواع و اصناف کے میوے اور پھل ہیں جو کبھی ختم نہ ہوں گے خواہ کس قدر تم کھاؤ جس قدر تم کھاؤ گے اس سے دگنے اور پیدا ہوجائیں گے۔ فاکہۃ کثیرۃ بحسب الانواع والاصناف۔ ووعن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاینزع رجل فی الجنۃ من ثمرھا الانبت مثلاھا مکانہا (ابو السعود ج 7 ص 454) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) ان اہل جنت کے روبرو سونے کی رکابیاں اور سونے کے جام اور آپ خورے لئے پھرتے ہوں گے اور ان کے روبرو پیش کئے جارہے ہہوں گے اور وہاں جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی دل خواہش کریں اور جس سے آنکھیں لذت اندوز ہوں اور تم اس جنت میں ہمیشہ رہوں گے۔ یعنی ہر قسم کی ماکولات سے بھری ہوئی قابیں اور رکابیاں اور ہر قسم کی مشروبات سے لبریز گلا اور آب خورے دل کی ہر خواہش اور آنکھیں جس سے لذت محسوس کریں وہ ہر چیزوہاں موجود ہوگی اور اہل جنت کو ارشاد ہوگا کہ تم اس جنت میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔