Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 18

سورة محمد

فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً ۚ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُہَا ۚ فَاَنّٰی لَہُمۡ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ ذِکۡرٰىہُمۡ ﴿۱۸﴾

Then do they await except that the Hour should come upon them unexpectedly? But already there have come [some of] its indications. Then what good to them, when it has come, will be their remembrance?

تو کیا یہ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں پھر جبکہ ان کے پاس قیامت آجائے انہیں نصیحت کرنا کہاں ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ... Do they then await except that the Hour should come upon them suddenly, meaning, while they are unaware of it. ... فَقَدْ جَاء أَشْرَاطُهَا ... But already there have come (some of) its portents; meaning, the signs of its approach. This is similar to Allah's saying, هَـذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الاٍّوْلَى أَزِفَتِ الاٌّزِفَةُ This is a warner of the warners of old. The approaching Day has drawn near. (53:56-57) And His saying, اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ The Hour has drawn near, and the moon has split. (54:1) And His saying, أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَ تَسْتَعْجِلُوهُ The command of Allah is coming, so do not be impatient for it. (16:1) And His saying, اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ The people's Day of Reckoning has approached while they turn away in heedlessness. (21:1) Thus, the Messenger's advent is one of the signs of the Hour, because he is the Finality of the Messengers. With him, Allah has completed the religion and established the evidence against all people in a way that was never done by a previous Prophet. Allah's Messenger has most clearly informed about the signs and indications of the Hour, as we have discussed elsewhere. Al- Bukhari recorded from Sahl bin Sa`d, may Allah be pleased with him, that he saw Allah's Messenger bring his index and middle fingers together while he said, بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْن I have been sent before the Hour as these two (fingers). Allah continues, ... فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ and when it (actually) is on them, how can they benefit then by their reminder? meaning, how would remembering benefit the disbelievers when the Hour comes upon them This is similar to Allah's saying, يَوْمَيِذٍ يَتَذَكَّرُ الاِنسَـنُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى On that Day will the human being remember, but what would that remembrance avail him then? (89:23) And His saying, وَقَالُواْ ءَامَنَّا بِهِ وَأَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِن مَّكَانِ بَعِيدٍ They will say (in the Hereafter): "Now we believe in it!" But how could they claim belief from such a far place? (34:52) Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت بجائے خود قرب قیامت کی ایک علامت ہے جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا بعثت انا والساعۃ کھاتین۔ صحیح بخاری۔ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کر کے واضح فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔ 18۔ 2 یعنی جب قیامت اچانک آجائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کرسکیں گے ؟ مطلب ہے اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو مقبول نہیں ہوگی اس لئے اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت ہے ورنہ وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ ان کی توبہ بھی غیر مفید ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] علامات قیامت :۔ قیامت کی سب سے بڑی نشانی تو آپ کی بعثت ہے کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا یہ ارشاد بھی قیامت کی نزدیکی پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : && بعثت انا والساعۃ کھا تین && (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ عنوان باب) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جیسے ان دو انگلیوں کے درمیان تیسری کوئی انگلی یا کوئی چیز نہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور اس مطلب کی طرف لفظ بعثت سے واضح اشارہ ملتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وسطی انگلی جتنی شہادت کی انگلی سے آگے نکل ہوئی ہے۔ اتنی ہی دنیا کی عمر باقی رہ گئی ہے۔ پھر قیامت آجائے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی چاند کا پھٹنا بھی تھا جو دور نبوی میں واقع ہوچکا۔ نیز آپ نے اپنے بہت سے ارشادات میں قیامت کی نشانیاں بیان فرمائیں جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں : سیدنا حذیفہ بن اسید کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے کہ آپ نے ہماری طرف جھانکا اور پوچھا : && کس چیز کا ذکر کر رہے ہو && ہم نے کہا :&& قیامت کا && آپ نے فرمایا : وہ اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ دخان، دجال، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسیٰ بن مریم کا نزول، یاجوج ماجوج اور تین (جگہ) زمین کا دھنس جانا۔ مشرق میں، مغرب میں اور جزیرۃ العرب اور آخری نشانی آگ ہے جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہنکا کر ان کے جمع ہونے کی جگہ پر لے جائے گی && (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب فی الآیات تکون قبل الساعۃ) سیدنا انس فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ && قیامت کی کچھ نشانیاں یہ ہیں۔ علم گھٹ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، شراب کثرت سے پی جائے گی، زنا عام ہوگا & عورتیں زیادہ ہوں گی اور مرد کم حتی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہوگا && (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب رفع العلم وظھور الجھل) سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && دین کا علم اٹھ جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور حرج بکثرت ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ && حرج کیا ہے ؟ && آپ نے ہاتھ کو ترچھا ہلا کر بتایا جس سے آپ نے قتل مراد لیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الفتیا باشارۃ الید والراس) اور یہ بھی قرآنی تصریحات سے ثابت ہے کہ جب موت کا وقت آجائے یا ایسی واضح علامت جو قیامت کا پیش خیمہ ہوں جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا قیامت کے آنے پر کسی شخص کا ایمان لانا اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغتتہ : یعنی کون سی نصیحت اور کون سی وعید ہے جو انہیں نہیں سنائی گئی اور کون سی دلیل ہے جو ان کے سامنے پیش نہیں کی گئی، مگر وہ اتنے بدبخت ہیں کہ جب تک قیامت کو پانی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان لانے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے گویا اسی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اچانک ان کے سامنے آکھڑی ہو، نہ پہلے علم ہونے کی وجہ سے اس پر ایمان لاسکیں نہ اس کی تیاری کرسکیں ۔ (٢) فقد جآء اشراطھا : یعنی جس قیامت کا اتنظار کر رہے ہیں اس کے آنے میں دیر بھی کیا رہ گئی ہے، اس کی نشانیاں تو آہی چکی ہیں، اب اس کے آنے میں کیا شبہ باقی ہے ؟ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیدا ہوتا ہے۔ سب نبی خاتم النبین کی راہ دیکھتے تھے، جب وہ آچکے تو قیامت ہی آنی رہ گئی ہے۔ “ (موضح) ابوہریرہ (رض) بیان کتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(بعثت انا والساعۃ کھاتین) (بخاری، الرقاق، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” بعث انا والساعۃ کھاتیں…“: ٦٠٥٦)” میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں ہیں۔ “ یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں اسی طرح قیامت میرے بعد متصل آرہی ہے۔ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے شق قمر کی نشانی بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ظاہر ہوچکی تھی، جیسا کہ فرمایا :(اقتربت الساعۃ وانشق القمر) (القمر : ١)” قیامت بہت قیرب آگئیا ور چاد پھٹ گیا۔ “ آلوسی نے فرمایا :” ظاہر یہ ہے کہ ان نشانیوں سے وہی نشانیاں مراد ہیں جو اس آیت کے نزول کے وقت نمودار ہوچکی تھیں۔ “ (٣) فانی لہم اذا جآئتھم ذکرتھم :” ذکرتھم ” مبتدا ہے اور ” فانی لہم “ اس استفہام خبر مقدم ہے۔” فانی لہم اذا جائتھم ذکرتھم “ (پھر جب وہ ان کے پاس آگئی تو ان کے لئے ان کی نصیحت کیسے ممکن ہوگی) ،” اذا جآء تھم “ میں ” جاء ت کا فاعل ” الساعۃ “ کی ضمیر ہے۔ (التسہیل) یعنی جب ان کے پاس قیامت آگئی تو نصیحت قبول کرنے یا مان لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہی بات اس آیت میں بیان ہوئی ہے :(یومئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکری) (الفجر : ٢٣) ” اس دن انسانیت نصیحت حاصل کرے گا اور (اس وقت) اس کے لئے نصیحت کہاں۔ “ مزید دیکھیے سورة سبا (٥١، ٥٢) اور سورة مومن (٨٤، ٨٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِيَہُمْ بَغْتَۃً۝ ٠ ۚ فَقَدْ جَاۗءَ اَشْرَاطُہَا۝ ٠ ۚ فَاَنّٰى لَہُمْ اِذَا جَاۗءَتْہُمْ ذِكْرٰىہُمْ۝ ١٨ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ شرط الشَّرْطُ : كلّ حکم معلوم متعلّق بأمر يقع بوقوعه، وذلک الأمر کالعلامة له، وشَرِيطٌ وشَرَائِطُ ، وقد اشْتَرَطْتُ كذا، ومنه قيل : للعلامة : الشَّرَطُ ، وأَشْرَاطُ السّاعة علاماتها، قال تعالی: فَقَدْ جاءَ أَشْراطُها [ محمد/ 18] ، والشُّرَطُ قيل : سمّوا بذلک لکونهم ذوي علامة يعرفون بهاوقیل : لکونهم أرذال الناس، فَأَشْرَاطُ الإبل : أرذالها . وأَشْرَطَ نفسه للهلكة : إذا عمل عملا يكون علامة للهلاك، أو يكون فيه شرط الهلاك . ( ش ر ط ) الشرط وہ معین حکم جس کا وقوع کسی دوسرے امر پر معلق ہو اسے شرط کہتے ہیں اور دوسرا امر اس کے لیے بمنزلہ علامت کے ہوتا ہے اور شریط بمعنی شرط آتا ہے اس کی جمع شرائط ہے ۔ اشترطت کذا کوئی شرط لگانا ۔ اور اسی سے شرط بمعنی علامت ہے ۔ اور اشراط الساعۃ کے معنی علامات قیامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَدْ جاءَ أَشْراطُها [ محمد/ 18] سو اس کی نشانیاں ( وقوع میں ) آچکی ہیں ۔ اور پولیس کو شرط کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ بھی ایسی علامت لگا لیتے ہیں ۔ جس سے ان کی پہچان ہوسکتی ہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اشراط الابل سے مشتق ہے جس کے معنی رذیل اونٹوں کے ہیں ۔ اور پولیس میں بھی چونکہ ( عام طور پر ) رذیل لوگ ہوتے تھے اس لئے انہیں شرط کہہ دیا گیا ہے ۔ اشرط نفسہ للھلکۃ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا یا کسی کام میں ہلاکت کی بازی لگانا ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ کفار مکہ جبکہ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو کیا یہ قیامت کے ہی منتظر ہی کہ وہ ان پر اچانک آپڑے حالانک اس کی متعدد نشانیاں تو آچکی ہیں۔ یعنی انشقاق قمر رسول اکرم کی نزول قرآن کریم کے ساتھ بعثت وغیرہ تو جب قیامت ان کے سامنے آکھڑی ہوگی تو پھر انہیں توبہ کی کہاں توفیق ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ { فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِیَہُمْ بَغْتَۃً فَقَدْ جَآئَ اَشْرَاطُہَا } ” تو یہ لوگ اب کس چیز کے منتظر ہیں سوائے قیامت کے کہ وہ آدھمکے ان پر اچانک ؟ پس اس کی علامات تو ظاہر ہو ہی چکی ہیں۔ “ قیامت کی سب سے بڑی نشانی تو خود محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری رسول ہیں۔ ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو انگلیوں کو آپس میں ملا کر فرمایا : (بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ ) (١) ” میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی مانند (جڑے ہوئے) بھیجے گئے ہیں “۔ ظاہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعداب قیامت ہی کو آنا ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اَنَا آخِرُ الْاَنْبِیَائِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ ) (٢) ” میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ “ { فَاَنّٰی لَہُمْ اِذَا جَآئَ تْہُمْ ذِکْرٰٹہُمْ } ” تو جب وہ ان پر آدھمکے گی تو اس وقت ان کا نصیحت حاصل کرنا کس کام کا ہوگا ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 That is, as far as the explanation andclarification of the truth is concerned; it has been explained fully well by argument and reasoning, the miraculous discourses of the Qur'an, the pure character of the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) and the revolution in the lives of his Companions. Now, are these people awaiting that Resurrection itself should take place and then only they will believe? , 30 Theportents of Resurrection imply those signs which indicate that its approach is near. One such important sign is the advent of God's Last Prophet after whom no other prophet will come till Resurrection. Traditions have been related in Bukhari, Muslim. Tirmidhi and Musnad Ahmad on the authority of Hadrat Anas, Hadrat Sahl bin Sa'd As-Sa'idi and Hadrat Buraidah, saying that the Holy Prophet raised his index finger and the middle finger and said: "My advent and Resurrection are like these two fingers." That is, 'Just as there is no other finger between these two fingers, so no other prophet will be raised between the and Resurrection; after me only Resurrection now will occur."

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :29 یعنی جہاں تک حق واضح کرنے کا تعلق ہے وہ تو دلائل سے ، قرآن کے معجزانہ بیان سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک سے ، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں کے انقلاب سے ، انتہائی روشن طریقے پر واضح کیا جا چکا ہے ۔ اب ایمان لانے کے لیے یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہو؟ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :30 قیامت کی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا وقت اب قریب آ لگا ہے ان میں سے ایک اہم علامت خدا کے آخری نبی کا آ جانا ہے جس کے بعد پھر قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے ۔ بخاری ، مسلم ، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت انس ، حضرت سہل بن سعد ساعدی ، اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہم کی روایات منقول ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کھڑی کر کے فرمایا: بُعثتُ انا و السّاعۃ کھَاتین ۔ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں ۔ یعنی جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے ، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی بھی مبعوث ہونے والا نہیں ہے ۔ میرے بعد اب بس قیامت ہی آنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:18) فھل ینظرون۔ استفہام انکاری ہے الساعۃ سے مراد روز قیامت ہے۔ بغتۃ ۔ اچانک۔ یکایک، مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو (43:66) پس کیا یہ لوگ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان پر اچانک آجائے۔ فقد جاء اشراطھا ۔ ف عاطفہ، قد ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے اشراطھا مضاف مضاف الیہ اشراط جمع ہے اس کی واحد شرط ہے جس کے معنی علامت کے ہیں۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الساعۃ کی طرف راجع ہے قیامت کی نشانیاں ۔ الشرط وہ معین حکم جس کا وقوع کسی دوسرے امر پر معلق ہو اسے شرط کہتے ہیں وہ دوسرا امر اس کے لئے بمنزلہ علامت کے ہوتا ہے اس کی جمع شرائط ہے۔ عربی میں شرط پولیس کو بھی کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ بھی ایسی علامت لگا لیتے ہیں جس سے ان کی پہچان ہوسکتی ہے۔ فقد جاءت اشراطھا ۔ سو بیشک اس کی نشانیاں (وقوع میں ) آچکی ہیں۔ اشراط یا شرط کا استعمال قرآن مجید میں صرف اسی آیت میں ہوا ہے۔ فانی لہم اذا جاء تہم ذکرہم ۔ تقدیر کلام یوں ہے فانی لہم ذکرہم اذا جاء تہم ۔ ذکرہم مضاف مضاف الیہ مل کر مبتداء مؤخر۔ انی خبر مقدم۔ لہم متعلق خبر ۔ جملہ انی لہم ذکرہم جواب شرط ہے جو شرط سے مقدم آیا ہے۔ اذا جاء تہم جملہ شرط مؤخر۔ ترجمہ ہوگا : تو جب قیامت ان کے سامنے آکھڑی ہوئی تو ان کو سمجھنا کہاں میسر ہوگا۔ (ترجمہ ونحواز تفسیر بیان القرآن) ۔ یعنی اگر قیامت یک لخت آگئی تو ان کی توبہ کیا ہوگی ؟ ان کو توبہ و استغفار کا تو موقعہ ہی نہ ملے گا۔ جب قیامت آہی گئی تو اس وقت تو یہ دروازہ بند ہوجائے گا اور اس وقت توبہ و استغفار یاد خدا ان کو کچھ نفع نہ دے گا۔ ذکری مصدر ہے ذکر یذکر (باب نصر) بمعنی ذکر، یاد کرنا۔ نصیحت پکڑنا نصیحت۔ ذکری کثرت ذکر کے لئے بولا جاتا ہے یہ ذکر سے زیادہ بلیغ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی کونسی نصیحت اور کونسی وعید ہے جو انہیں نہیں سنائی گی لیکن اتنے بدبخت ہیں کہ جب تک قیامت کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لیں ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے گویا اسی کا انتظار کر رہے ہیں لیکن قیامت کے آنے میں بھی کونسی کسر رہ گئی ہے۔ اس کی نشانیاں تو آ ہی چکی ہیں پھر اس کے بعد اس کی آمد میں کونسا شبہ رہ گیا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :” بڑی نشانی قیامت کی ہماری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیدا ہونا ہے۔ سب نبی خاتم النبین کی راہ دیکھتے تھے۔ جب وہ آچکے تو اب قیامت ہی باقی ہے۔ حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت نے انگشت شہادت اور بیج کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : بعثت انا والساعۃ کھاتین مجھے قیامت کے ساتھ یوں بھیجا گیا ہے جیسے یہ دو انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری) 1 یعنی اس وقت کا سمجھنا اور ماننا بیکار ہوگا کیونکہ اس سے نجات نہیں ہوسکتی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ یہ مجاز ہے توبیخ سے یعنی کیا قیامت میں نصیحت حاصل کریں گے۔ 1۔ یہاں اشراط سے مراد وہ علامتیں ہیں جو قیامت سے بہت پہلے واقع ہوئیں اور علامات قریبہ مثل نزول مسیح و خروج دجال و طلوع الشمس من المغرب یہاں مراد لینا اس لئے مناسب نہیں کہ اس سے تحذیر زمانہ نزول آیت کے لوگوں کی خالی از تکلف نہیں، اور قد جاء اشراطہا سے مقصود وعید ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو انتباہ۔ قرآن مجید نے منافقین کو ہر موقع اور ہر حوالے سے ہدایت کی طرف لانے کی کوشش فرمائی مگر منافقین بدفطرت ہونے کی وجہ سے نفاق میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ حالانکہ وہ کئی بار کفار کا انجام دیکھ چکے تھے لیکن اس کے باوجود سچا ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے جس پر قرآن مجید نے انہیں انتباہ کے انداز میں ارشاد فرمایا کہ اب تو ان کے ہدایت پانے کی کوئی صورت باقی نہیں۔ سوائے اس کے ان پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب ان پر قیامت آپڑے گی تو انہیں نصیحت پانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر یہ غور کریں تو قیامت کی کئی نشانیاں آچکی ہیں۔ یاد رہے کہ قیامت کی نشانیاں تین اقسام پر مشتمل ہیں۔ 1 ۔ کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں پوری ہوچکی ہیں۔ 2 ۔ کچھ قیامت سے پہلے نمودار ہوں گی۔ 3 ۔ کچھ قیامت کے قریب برپا ہوں گی۔ (اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ) (القمر : ١) ” قیامت کی گھڑی قریب آچکی اور چاند پھٹ گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں قیامت کی ایک نشانی : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِرْقَتَیْنِ ، فِرْقَۃً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَۃً دُونَہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشْہَدُوا) (رواہ البخاری : باب (وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْا آیَۃً یُّعْرِضُوا) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں شق قمر کا واقعہ پیش آیا۔ چاند کے دو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا پہاڑ پر گرا اور ایک ٹکڑا اس کے علاوہ تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو ! گواہ ہوجاؤ۔ “ (عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ عِظْنِی وَأَوْجِزْفَقَالَ إِذَا قُمْتَ فِی صَلاَتِکَ فَصَلِّ صَلاَۃَ مُوَدِّعٍ وَلاَ تَکَلَّمْ بِکَلاَمٍ تَعْتَذِرُ مِنْہُ غَداً وَاجْمَعِ الإِیَاسَ مِمَّا فِی یَدَیِ النَّاسِ ) ( رواہ احمد : مسند ابو ایوب انصاری، ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت ابو ایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آکر عرض کی کہ مجھے نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو اس طرح نماز ادا کیا کرو گویا کہ الوداعی نماز پڑھ رہے ہو اور ایسی گفتگو نہ کرو۔ جس کے لیے کل کو عذر پیش کرنا پڑے اور جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس کی امید نہ کرو۔ “ (عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہٗ باللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا) (رواہ مسلم : باب قبول التوبۃ من الذنوب وإن تکررت الذنوب والتوبۃ) ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ عزوجل رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ دن کو خطائیں کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ صورت حال سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک رہے گی۔ “ (یعنی قیامت سے پہلے تک) مسائل ١۔ منافق سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجود اپنی منافقت سے توبہ نہیں کرتا۔ ٢۔ منافق بڑی سے بڑی مصیبت اور ذلت قبول کرلیتا ہے لیکن منافقت چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن منافق کا کردار : ١۔ منافق کو مسلمانوں کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔ (آل عمران : ١٢٠) ٢۔ منافق صرف زبان سے حق کی شہادت دیتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ : ١٤) ٤۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ (البقرہ : ١٠) ٥۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ (البقرہ : ١٤) ٦۔ منافق مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ (المنافقون : ٨) ٧۔ منافق اسلام کی بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (آل عمران : ١٦٧) ٨۔ منافق ریا کار ہوتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٩۔ منافق دنیا کے فائدے کے لیے اسلام قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب بات ان لوگوں کی طرف آتی ہے جو منافق ہیں ، اندھے ہیں ، غافل ہیں ، جو مجلس رسول سے ایسی حالت میں نکلتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے سنا اس سے کوئی نفع نہیں اٹھایا۔ ہدایت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ان کے دلوں کے اندر خدا کا کوئی خوف پیدا نہ ہوا۔ چناچہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ حساب و کتاب کا دن بہت ہی جلدی آنے والا ہے۔ فھل ینظرون الا الساعۃ ۔۔۔۔۔ ذکرھم (٤٧ : ١٨) “ اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے ؟ اس کی علامات تو آچکی ہیں۔ جب وہ خود آجائے گی تو ان کے لئے نصیحت قبول کرنے کا کون سا موقع باقی رہ جائے گا ؟” ان آیات میں منافقین کو ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ جگایا جاتا ہے اور گریبان سے پکڑ کر ان کو اس طرح جھنجھوڑا جاتا ہے جس طرح کسی نشے میں دھت شخص کو کھینچا جاتا ہے ۔ یعنی یہ غافل لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں جاتے ہیں اور وہاں سے کچھ ہدایت لیے بغیر ، کچھ یاد کئے بغیر ، کچھ نصیحت پکڑے بغیر ، کورے کے کورے واپس ہوئے۔ یہ بدبخت اب کس چیز کا انتظام کرتے ہیں۔ فھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغتۃ (٤٧ : ١٨) “ کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ اچانک آجائے ”۔ اور ان کے حالات یہ ہوں کہ یہ غفلت اور لاپرواہی میں ، اور فسق و فجور میں غرق ہوں۔ اگر یہ لوگ قیامت ہی چاہتے ہیں تو : فقد جاء اشراطھا (٤٧ : ١٨) “ اس کی علامات تو آچکی ہیں ”۔ یہ آخری رسالت قیامت کی بڑی نشانی ہے۔ یہ رسالت دراصل اعلان ہے کہ اب قیامت جلد ہی آنے والی ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بعثت انا والساعۃ ۔۔۔۔ “ میں اور قیامت ان دو کی طرح مبعوث ہوئے ہیں ”۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں سبابہ اور درمیان انگلی کو جوڑ کر اشارہ فرمایا (متفق علیہ) ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ادھر اگر زمانہ لوگوں کو زیادہ طویل ہوتا ہوا نظر آتا ہے تو اللہ کے ایام ہمارے ایام کے مقابلے میں بہت ہی طویل ہوتے ہیں۔ اللہ کے حساب میں قیامت کی نشانی آگئی ہے۔ اور بڑی نشانی یہ آخری رسالت ہے۔ اور یہ کسی عقلمند شخص کی روش نہیں ہو سکتی کہ مصیبت آئے اور وہ سویا ہوا ہو۔ اور وہ پھر بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ کرسکے۔ فانی لھم اذا جاءتھم ذکرھم (٤٧ : ١٨) “ جب وہ آجائے گی تو ان کے لئے نصیحت قبول کرنے کا کون سا موقعہ باقی رہ جائے گا ”۔ یہ نہایت ہی قوت سے جھنجھوڑنے کے متراد ہے کہ جاگو ، خطرہ سر پر ہے اور سختی کے ساتھ گریبان سے پکڑ کر ہلانا ، اس سورت کے سخت انداز کے بھی مناسب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تیسری آیت میں منکرین اور منافقین کو تو بیخ فرمائی کہ ان لوگوں کا طور طریقہ ایسا ہے کہ بس قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں۔ نہ ایمان لاتے ہیں نہ اعمال خیر میں مشغول ہوتے ہیں نہ گناہوں سے بچتے ہیں اور نہ انذار وتبشیر ان کے حق میں مفید ہوتا ہے نہ عذاب کی وعید سے متاثر ہوتے ہیں نہ جنت کی بشارت کا یقین کرتے ہیں اب کیا رہ گیا ؟ بس قیامت کا آنا باقی ہے اس کے انتظار میں ہیں کہ وہ اچانک آجائے اور قیامت آجائے تو نصیحت حاصل کریں سو قیامت کی علامتیں آچکی ہیں خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبعوث ہونا بھی علامات قیامت میں سے ہے اور معجزہ شق القمر بھی علامات قیامت میں سے ہے جسے سورة القمر کی پہلی آیت میں بیان فرمایا ﴿ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ ٠٠١﴾ جب قیامت آجائے گی تو اس وقت سمجھنے اور نصیحت حاصل کرنے کا نہ موقعہ ہوگا نہ اس سے کچھ فائدہ ہوگا اس مضمون کو ﴿ فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ ٠٠١٨﴾ میں بیان فرمایا، یہ مضمون سورة الفجر کی آیت کریمہ ﴿وَ جِايْٓءَ يَوْمَىِٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ ١ۙ۬ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَ اَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى ؕ٠٠٢٣﴾ میں بھی بیان فرمایا ہے اس دن جہنم کو لایا جائے گا اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا اور اب کہاں ہے نصیحت حاصل کرنا یعنی اب اس کا فائدہ کچھ نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” فھل ینظرون “ تخویف دنیوی۔ جو امور عبرت و نصیحت حاصل کرنے کا موجب تھے وہ تو سب سامنے آچکے مثلا قرآن، معجزات وغیرہ، لیکن ان منافقین اور مشرکین نے عبرت حاصل نہیں کی اور ہدایت کو قبول نہیں کیا اب صرف ایک چیز باقی رہ گئی ہے کہ اچانک قیامت آجائے مگر علامات تو قیامت کی بھی ظاہر ہوچکی ہیں مثلاً بعثت حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعلیہم اجمعین اور شق قمر، لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضد و حسد اور بغض وعناد کی وجہ سے ایمان نہ لانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ” قال المفسرون من اشراط الساعۃ انشقاق القمر و بعثۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خازن ج 6 ص 179، ابن کثیر ج 4 ص 177) ۔ ” انی لھم “ خبر مقدم ہے اور ” ذکراھم “ مبتدا موخر اور ” اذا جاءتہم “ جملہ معترضہ (روح) یعنی جب قیامت آپہنچے گی تو پھر وہ کس طرح عبرت حاصل کریں گے اس وقت تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) اب کیا یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ قیامت ان پر دفعتہ آپڑے اور اس میں شک نہیں کہ اس قیامت کی علامتیں تو آہی چکی ہیں پھر جب وہ قیامت ان پر آپہنچے گی تو اس وقت ان کو سمجھنا اور نصیحت قبول کرنا کہاں نصیب ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب ہر قسم کے دلائل اور براہین سے قائل نہیں ہوتے تو بس اب صرف قیامت کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک واقع ہوجائے اور دفعتہ قیامت ان پر آجائے چناچہ اس کی علامتیں تو آہی گئی ہیں، مثلاً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور انشقاق قمر وغیرہ یہ علامات قیامت میں سے ہیں اور جب قیامت آجائے گی تو اس وقت ایمان لانا اور سمجھنا اور نصیحت قبول کرنا کہاں میسر ہوسکتا ہے۔ احادیث میں قیامت کی علامتیں بہت مذکور ہیں جن کی تعداد تقریباً اسی ہے یہاں ان کی تفصیل کا موقع نہیں ہے نبی آخرالزمان کی تشریف آوری اور چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا یہ بھی قیامت کی علامتوں میں سے ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی کا پیدا ہونا سب نبی راہ دیکھتے تھے خاتم النبین کی جب وہ آچکے اب قیامت ہی رہی باقی۔