Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 29

سورة محمد

اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ اَنۡ لَّنۡ یُّخۡرِجَ اللّٰہُ اَضۡغَانَہُمۡ ﴿۲۹﴾

Or do those in whose hearts is disease think that Allah would never expose their [feelings of] hatred?

کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ظاہر ہی نہ کر ے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Exposing the Hidden Secret of the Hypocrites Allah says, أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ Or do those in whose hearts is disease think that Allah would never expose their ill-wills? meaning, do the hypocrites think that Allah will not expose their affair to His believing servant? Yes indeed, He will expose their affair and manifest it so that those with insight will be able to understand it. In that regard, Allah revealed Surah Bara'ah (or At-Tawbah), in which He clarified the hypocrites' scandals, and pinpointed their practices that are indicative of their hypocrisy. Because of that, this Surah (Surah Bara'ah) is also called "The Exposer". Adghan is the plural of Dighn, which means what the souls harbor of envy and hatred toward Islam and its people who support it. Allah then says,

منافق کو اس کے چہرے کی زبان سے پہچانو یعنی کیا منافقوں کا خیال ہے کہ ان کی مکاری اور عیاری کا اظہار اللہ مسلمانوں پر کرے گا ہی نہیں ؟ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ تعالیٰ ان کا مکر اس طرح واضح کر دے گا کہ ہر عقلمند انہیں پہچان لے اور ان کی بد باطنی سے بچ سکے ۔ ان کے بہت سے احوال سورہ براۃ میں بیان کئے گئے اور ان کے نفاق کی بہت سی خصلتوں کا ذکر وہاں کیا گیا ۔ یہاں تک کہ اس سورت کا دوسرا نام ہی فاضحہ رکھ دیا گیا یعنی منافقوں کو فضیحت کرنے والی ۔ ( اضغان ) جمے ہے ( ضغن ) کی ضغن کہتے ہیں دلی حسد و بغض کو ۔ اس کے بعد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے نبی اگر ہم چاہیں تو ان کے وجود تمہیں دکھا دیں پس تم انہیں کھلم کھلا جان جاؤ ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ان تمام منافقوں کو بتا نہیں دیا تاکہ اس کی مخلوق پر پردہ پڑا رہے ان کے عیوب پوشیدہ رہیں ، اور باطنی حساب اسی ظاہر و باطن جاننے والے کے ہاتھ رہے لیکن ہاں تم ان کی بات چیت کے طرز اور کلام کے ڈھنگ سے ہی انہیں پہچان لو گے ۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں جو شخص کسی پوشیدگی کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے چہرے پر اور اس کی زبان پر ظاہر کر دیتا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی راز کو پردہ میں رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس پر عیاں کر دیتا ہے وہ بہتر ہے تو اور بدتر ہے تو ۔ ہم نے شرح صحیح بخاری کے شروع میں عملی اور اعتقادی نفاق کا بیان پوری طرح کر دیا ہے جس کے دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ۔ حدیث میں منافقوں کی ایک جماعت کی ( تعیین ) آچکی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم میں بعض لوگ منافق ہیں پس جس کا میں نام لوں وہ کھڑا ہو جائے ۔ اے فلاں کھڑا ہو جا ، یہاں تک کہ چھتیس اشخاص کے نام لئے ۔ پھر فرمایا تم میں یا تم میں سے منافق ہیں ، پس اللہ سے ڈرو ۔ اس کے بعد ان لوگوں میں سے ایک کے سامنے حضرت عمر گذرے وہ اس وقت کپڑے میں اپنا منہ لپیٹے ہوا تھا ۔ آپ اسے خوب جانتے تھے پوچھا کہ کیا ہے ؟ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر والی حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا اللہ تجھے غارت کرے ۔ پھر فرمایا ہے ہم حکم احکام دے کر روک ٹوک کر کے تمہیں خود آزما کر معلوم کرلیں گے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں ؟ اور صبر کرنیوالے کون ہیں ؟ اور ہم تمہارے احوال آزمائیں گے ۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس علام الغیوب کو ہر چیز ، ہر شخص اور اس کے اعمال معلوم ہیں تو یہاں مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سامنے کھول دے اور اس حال کو دیکھ لے اور دکھا دے اسی لئے حضرت ابن عباس اس جیسے مواقع پر ( لنعلم ) کے معنی کرتے تھے ( لنری ) یعنی تاکہ ہم دیکھ لیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 منافقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعناد تھا، اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] یعنی جو کچھ بھی وہ اندر ہی اندر کافروں سے گٹھ جوڑ کر رہے ہیں اور انہیں اپنی ہمدردیاں جتا رہے ہیں اور اسلام کے خلاف اپنی وفاداریاں انہیں پیش کر رہے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کینہ وہ رکھتے اور زہر اگلتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ایسی سب باتوں سے مسلمانوں کو خبردار کر دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ام حسب الذین فی قلوبھم مرض …:” اضغان “ ” ضغن “ کی جمع ہے، شدید کینہ، مراد اس سے وہ شدید حسد اور عداوت ہے جو منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف دلوں میں رکھتے تھے۔ یعنی کیا ان منافقین نے گمان کر رکھا ہے کہ انہوں نے اپنے دل میں مسلمانوں کے خلاف جو شدید حسد اور بغض کی بیشمار باتیں چ ھپا رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ظاہر نہیں کرے گا اور ان پر پردہ ہی پڑا رہے گا ؟ نہیں، ایسا نہیں ہوگا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے خبث باطن کو ضرور ظاہر کرے گا۔ چناچہ سورة توبہ میں م نافقین کی سازشوں، عداوتوں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی زہریلی باتوں کو ” ومنھم “ ” ومنھم “ کہہ کر اس طرح کھول کر رکھ دیا کہ ان کی پہچان میں کوئی مشکل باقی نہ رہی۔ اس لئے سورة توبہ کا نام سورة فاضحہ یعنی منافقین کو رسوا کرنے والی سورت بھی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ أَن لَّن يُخْرِ‌جَ اللَّـهُ أَضْغَانَهُمْ (Do those having disease in their hearts rather think that Allah will never expose their grudges [ against Islam ]? - 47:29) |" The word adghan is the plural of dighn which means secret enmity, rancour, malice or spite. This verse was revealed in connection with hypocrites to expose their bitter hatred and rancour against Islam which they were hiding in their hearts. Outwardly, they expressed their love for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and inwardly they harbored violent hatred and enmity for him. They knew that Allah is the knower of the unseen, yet they were not concerned that He would expose their inner secret and covert enmity to the people. Ibn Kathir says in Surah Bara&ah that Allah has described their works, actions and activities which expose their hypocrisy and they would be identified as hypocrites. Therefore, another name of that Surah is fadihah meaning exposing to shame or disgrace, because specific qualities of the hypocrites are set out in it.

(آیت) اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ ، اضغان جمع ضغن کی ہے جس کے معنی مخفی عداوت اور حسد و کینہ کے ہیں۔ منافقین جو اسلام کا دعویٰ اور ظاہر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کا اظہار اور باطن میں عداوت و کینہ رکھتے تھے ان کے بارے میں نازل ہوا کہ یہ لوگ اللہ رب العالمین کو عالم الغیب جانتے ہوئے اس بات سے کیوں بےفکر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے باطنی راز اور مخفی عداوت کو لوگوں پر ظاہر کردیں۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة برات میں ان کے ایسے اعمال و افعال اور حرکتوں کا پتہ دے دیا جن سے منافقین کے نفاق کا پتہ چل جائے اور وہ پہچانے جائیں، اسی لئے سورة برات کو فاضحہ بھی کہا جاتا ہے یعنی رسوا کرنے والی کیونکہ اس نے منافقین کی خاص خاص علامتیں ظاہر کردی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللہُ اَضْغَانَہُمْ۝ ٢٩ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ ضغن الضِّغْنُ والضَّغْنُ : الحِقْدُ الشّديدُ ، وجمعه : أَضْغَانٌ. قال تعالی: أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ [ محمد/ 29] ، وبه شبّه الناقة، فقالوا : ذاتُ ضِغْنٍ وقناةٌ ضَغِنَةٌ: عوجاءُ والإِضْغَانُ : الاشتمالُ بالثّوب وبالسّلاح ونحوهما . ( ض غ ن ) الضغن والضغن ۔ سخت کینہ اور انتہائی بعض ۔ اس کی جمع اضغاث آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ [ محمد/ 29] کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کریگا ۔ پھر بطور تشبیہ اس اونٹنی کو جو بدوں مار پٹائی کے صحیح چال نہ چلے اسے ناقۃ ذات ضغن کہاجاتا ہے ۔ اسی طرح ٹیڑے نیزے کو قنادۃ ذات ضغن کہہ دیتے ہیں ۔ الاضغان ( افعال ) کپڑا یا اسلحہ وغیرہ پہن کر اس میں مستور ہوجانا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور کہا گیا کہ یہ آیت یعنی جو لوگ پشت پھیر کر ہٹ گئے یہاں تک کہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو دین سے مرتد ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آگئے تھے اور کہا گیا ہے کہ یہ حکم بن ابی العاص منافق اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوا جو کہ جمعہ کے دن جبکہ رسول اکرم خطبہ دے رہے تھے اور یہ لوگ خطبہ نہیں سن رہے تھے بلکہ حضور کے بعد خلافت کے بارے میں باہم مشورہ کر رہے تھے کہ اگر ہم اس امت کے خلیفہ ہوگئے تو ایسا ایسا کریں گے پھر بعد میں بطور تعریض کے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہنے لگے کہ ابھی رسول اکرم نے منبر پر کیا کہا ہے کیا یہ لوگ جن کے دلوں میں شک و نفاق ہے یہ خیال کرتے ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بغض و عداوت ہے یا یہ کہ مومنین سے جو نفاق اور دشمنی ہے اللہ تعالیٰ اسے کبھی ظاہر نہیں کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ { اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ اَضْغَانَہُمْ } ” کیا سمجھ رکھا تھا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں روگ ہے کہ اللہ ان کے کھوٹ کو ظاہر نہیں کرے گا ؟ “ ان کا تو یہی خیال تھا کہ ان کے دوغلے پن کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوگی اور ان کے سینوں کے کھوٹ بےنقاب نہیں ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ان کے نفاق کو ظاہر کرنا ہی تھا۔ سورة العنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمادیا تھا : { وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ } ” اور یقینا اللہ ظاہر کر کے رہے گا سچے اہل ایمان کو ‘ اور ظاہر کر کے رہے گا منافقین کو بھی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٩۔ ٣١۔ یہ وہی آیتیں ہیں جن کا خلاصہ اوپر گزر چکا ہے کہ کیا ان منافق لوگوں نے اپنی بدنیتی کی درپردہ باتوں کو اللہ تعالیٰ سے چھپانا چاہا ہے کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ آسمان و زمین میں کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں لوگوں کے درپردہ مشورے اور ان کے دلوں کے بھید سب اس کو معلوم ہیں۔ وہ اگر چاہے تو ان منافقوں کے چہروں پر ایسی پھٹکار برسنے لگے اور ان کی بات چیت میں ایسا اندازہ پیدا ہوجائے کہ وہ منافق اپنے چہروں اور اپنی باتوں سے پہچانے جائیں پھر مسلمانوں کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ دین کی لڑائی کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کے لئے نازل فرمایا ہے کہ لڑائی میں ہمت کرنے والے اور فقط زبان سے ہمت جتلانے والوں کا حال کھل جائے نہیں تو اللہ کی قدرت سے یہ بات کچھ باہر نہیں تھی کہ وہ پچھلی قوموں کی طرح ان اسلام کے بدخواہ لوگوں کو کسی عذاب سے ہلاک کردیتا۔ اوپر کی آیت ولوشاء اللہ لانتصر منھم کو ان آیتوں میں کی آخر آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل وہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے زید بن ارقم کی جس روایت کا ذکر اوپر گزرا اور اوپر کے ذکر کے موایق وہی حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے۔ (٢ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٣٥)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:29) ام حسب الذین فی قلوبہم مرض ۔ میں ام منقطعہ ہے۔ کلام سابق سے اعراض پر دلالت کر رہا ہے ۔ اور استفہام انکاری ہے مرض سے مراد نفاق ہے۔ کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے یہ خیال کرتے ہیں۔ ان لن یخرج اللہ اضغانہم : ان مصدریہ ہے لن یخرج مضارع منفی تاکید بلن صیغہ واحد مذکر غائب اضغانہم مضاف مضاف الیہ۔ اضغان جمع ہے ضغن کی بمعنی سخت کینہ اور دل کی خفگی۔ چھپا ہوا کینہ، الاضغان (باب افعال) کپڑا یا اسلحہ وغیرہ پہن کر اس میں مستور ہوجانا۔ ترجمہ : کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ عداوتون کو کبھی ظاہر نہیں کرے گا۔ (ان کے دلوں کے اندر کے چھپے ہوئے کینہ کو کبھی ظاہر نہیں کر دے گا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ان کا بھانڈا نہیں پھوڑے گا۔ کینوں سے مراد وہ عداوت ہے جو یہ منافقین آنحضرت اور مسلمانوں کے خلاف دلوں میں رکھتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٩ تا ٣٨۔ اسرار معارف۔ کیایہ منافقین جن کے دلوں کو بیماری لاحق ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کی یہ کرتوت ظاہر نہ کردے گا تو ان کا یہ خیال غلط ہے ان کی سب کاروئیاں شت ازبام ہوں گی اور اگر ہم چاہتے تو آپ کو ایک ایک کا چہرہ دکھاکر پہچان کروادیتے۔ اگر حکمت الٰہی سے ایسانہ بھی ہو تو آپ کو ان کی گفتگو سے ہی پہچان حاصل ہوجائے گی ۔ حضوراکرم منافقین کو جانتے تھے۔ علماء حق کا ارشاد ہے نبی کریم ایک ایک منافق کو جانتے تھے اور آپ کو ان کی پہچان عطافرمائی گئی تھی بلکہ بعض تقریبا چھتیس کے قریب ایسے تھے جن کے نام بھی بتادیے گئے اور اہل ایمان کی آزمائش کا ذریعہ بھی تو جہاد ہے اور اس طرح ہم تمہیں آزمائیں گے تاکہ جہاد کرنے والوں کا پتہ چل جائے اور جہان ان سے وقف ہوا اور تمہارے اپنے وعدوں پر قائم رہنے کے باعث تمہارے دعوئے ایمان کی اور رسول اللہ کی اطاعت کی باتوں کی تصدیق ہوجائے۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی اور رسول اللہ کی مخالفت کی حالانکہ انہیں دلائل ومعجزات کے ساتھ یا اہل کتاب کو خود اپنی کتابوں میں پیش گوئیوں میں بھی ہدایت کی راہ تو واضح ہوچکی تھی اس کے باوجود اپنی حرکات سے بازنہ آئے کہ علماء یہودیہ کہا کرتے تھے کہ اہل علم تو ہم ہیں جب ہم ہی تعاون نہ کریں گے تو بھلایہ دین کیسے پھیلاسکیں گے لیکن وہ سب جان لیں کہ وہ اللہ کے دین اور سلام کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے بلکہ اس کے کردار کی وجہ سے ان کے اپنے اعمال اکارت جائیں گے اور اے ایمان والو تم ان باتوں کی پرواہ نہ کرو بلکہ اللہ کی اور رسول اللہ کی مثالی اطاعت کرو تاکہ تمہارے اعمال ضائع نہ ہوں اور ان پر پھل آئے۔ کفرتو ایسی مصیبت ہے کہ جس کسی نے اختیار کیا اس نے اللہ سے دشمنی لی اور اس کی راہ سے روکنے لگا پھر اسے توبہ نصیب نہ ہوئی اور کفر پر ہی مرگیا تو ایسے لوگوں کو اللہ کبھی نہ بخشے گا لہذا تم اے مسلمانوں ان کے مقابلے میں اسلام پر ڈٹ کر رہو اور کبھی ڈھیلے نہ پڑو یابزدلی ظاہر نہ کرو بلکہ انہیں اس فساد سے روکنے کے لیے صلح کی دعوت دو کہ اسلام زیادتی سے روکتا ہے محض بندے مارنااسلام کا مقصد نہیں لیکن اگر باز نہ آئیں اور مقابلے کی صورت پیدا ہوئی توجیت تمہاری ہی ہوگی کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو اور تمہاری محنت کو ضائع نہ جانے دے گا۔ معیت باری تعالی۔ اللہ کی ذاتی معیت سب سے اعلی مقام ہے جو انبیاء (علیہم السلام) میں صرف آقائے نامدار کو حاصل ہے اور غیر صحابہ میں سیدنا ابوبکر کو کہ فرمایا ان اللہ معنا۔ اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے علاوہ ازیں جہاں بھی معیت باری کا ذکر ہے وہ معیت صفاتی ہے یامعیت ذاتی ہے اور بندے کی طرف سے صفات کا بیان ہے یہاں بھی صورت حال وہی ہے مگر بندے کا وصف جہاد اور کفر وکافر سے مقابلہ اسلام پر فخر اور رسول اللہ کی اطاعت میں دین اسلام کے غلبہ کی کوشش میں فتح کی بشارت بھی ہے اور معیب باری کی عظمت کا وعدہ بھی ۔ سبحان اللہ مجاہد وہ خوش نصیب ہے کہ اس صفت کے باعث اسے اتنااعلی مقام نصیب ہے کہ اور جہاں صفات انسانی کا بیان ہے انبیاء (علیہم السلام) کے بعد یوں لگتا ہے جیسے یہ لوگ اولیاء کاملین ہی ہیں مگر یہاں ہر ہرمجاہد کو وعدہ دیاجارہا ہے اگر جہاد میں قربانی دینا پڑتی ہے تو زندگی جائے یامالی قربانی ہو آخر دنیا ہی کی چیزیں قربان ہوتی ہیں اور دنیا کی حیثیت محض ایک تماشا کی ہے کہ نتائج عمال بہ مرتب ہوں گے سو اگر تم ایمان اختیار کرو اور خلوص دل سے اطاعت کا راستہ اختیار کرو تو اللہ تمہیں اس کا بدلہ دیں گے اور کوئی مال دولت طلب نہ فرمائیں گے یعنی اس اجر کو تم مال دے کر نہیں پاسکتے بجز ایمان وعمل صالح کے۔ اور اگر اللہ مال ہی طلب فرمانے لگتے تو انسان بوجہ طبعی کمزوریوں کے تنگ آجاتے اور مال دینے میں بھی بخل کرنے لگتے۔ اور یوں انسانی مزاج کا بخل اور اس کی کمزوری ظاہر ہوجاتی مگر اس نے ایسا نہیں کیا اگر زکوۃ یا انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیاتوبہت معمولی اور تھوڑے سے مال کے خرچ پر اپنی رضامندی کا وعدہ فرمایا اور جب تمہیں اس تھوڑے خرچ کا حکم بھی ملتا ہے تو تم ہی میں سے یہ لوگ جو ایمان نہیں لائے بخل کرنے لگتے ہیں اور کفار کہا کرتے تھے کہ مال ہم کماتے ہیں بھلاکسی کے کہنے پر کیوں خرچ کریں جہاں اپنی خواہش ہوگی کریں گے لیکن جو کوئی بخل کرتا ہے اس سے اللہ کے دین کو تونقصان نہیں ہوسکتا ہاں خود بخیل کا نقصان ہوتا ہے کہ اللہ تو بےنیاز ہے کسی کے مال و اطاعت کی اسے کوئی ضرورت نہیں اور تم اے انسانو ہمیشہ اس کے محتاج ہو ہر کام میں ہر بات می اور ہر معاملے میں اور یاد رکھو اگر تم سب لوگ بھی اسلام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لو اور پھر جاؤ تو تمہاری جگہ کسی اور قوم کو توفیق عطا کردے گا اور کہ وہ اسلام کو اپنائیں اور اس کے غلبہ کے لیے جانیں دیں۔ نبی (علیہ السلام) کی غلامی کا حق ادا کریں اور پھر وہ لوگ کبھی نہ پھیریں گے۔ مقام ابوحنیفہ۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر خدانخواستہ ہم سے یہ حرکت سرزد ہوجائے کہ اسلام سے روگردانی کریں تو کون سی قوم یہ جگہ لے گی تو آپ نے حضرت سلمان فارسی کی ران پر ہاتھ مارکر فرمایا یہ اور ان کی قوم اگر دین ثریا پر بھی ہوتاتوفارس کے کچھ لوگ وہاں بھی پہنچ کر حاصل کرتے شیخ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ اس کی مصداق امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں کہ اہل فارس میں سے کوئی علم کے اس مرتبہ پر نہیں پہنچا جہاں یہ لوگ پہنچے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 29 تا 34 : اضغان (ضغن) کینہ۔ بغض۔ دل میں چھپائی گئی دشمنی ‘ عرفت (تونے پہچان لیا) ‘ سیما (پیشانیاں) لحن القول (گھما پھرا کر بات کہنا) ‘ شآقوا (انہوں نے نافرمانی کی) ‘ لن یضروا (وہ نقصان نہ پہنچائیں گے) ‘ یحبط ( وہ ضائع کردے گا) لا تبطلوا (تم ضائع نہ کرو) ۔ تشریح : آیت نمبر 29 تا 34 : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور نہایت رحم و کرم کرنے والا ہے۔ اس کا قانون یہ ہے کہ وہ گناہوں کے باوجود ہر آدمی کو مہلتیں دیتا چلا جاتا ہے تاکہ وہ صراط مستقیم پر گامزن ہو سکے۔ اسکے ہر عیب پر پردے ڈالتا چلاجاتا ہے لیکن بار بار آگاہ کرنے کے باوجود اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تب اللہ اسکے عیبوں پر سے پردے چاک کردیتا ہے۔ اللہ کی اس مہلت اور ڈھیل کی وجہ سے اس کو یہ غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ اس کے تمام حالات اور دلی کیفیات تک سے اچھی طرح واقف ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی بات کو واضح کرنے کے لئے فرمایا ہے ” اگر کوئی شخص اسے دل میں کسی بات کو چھپاتا ہے تو اللہ (اسی وقت اس کے گناہ کو ظاہر نہیں ہونے دیتا) بلکہ اس کے وجود پر اس چیز کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔ اگر وہ کوئی بھلی اور نیک بات کرتا ہے تو وہ ظاہر ہو کر رہتی ہے اور اگر بری بات ہے تو وہ بھی چھپی نہیں رہتی (ابن کثیر) ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھلی اور بری بات ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ چھپی رہے بلکہ آخر کار وہ ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ مدینہ منورہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خلوص دل سے ایمان لانے والوں کی اکثریت تھی لیکن بعض لوگ اپے دنیاوی مفادات کے لئے ایمان تو یل آئے تھے اور وہ دکھانے کے لئے تمام و کام کرتے تھے جو مخلص مسلمان نہایت عقیدت و محبت سے سر انجام دیتے تھے لیکن منافقین کے دلوں میں کینہ ‘ بغض ‘ حسد اور اسلام دشمنی کے جذبات بھی موجود تھے وہ اس منافقت کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور سمجھتے تھے کہ ان کی یہ منافقت اسی طرح چھپی رہے گی اور کسی پر ظاہر نہ ہو سکے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے منافقین کے لئے فرمایا ہے ” وہ منافقین جو اپنے دلی جذبوں کو پوشیدہ رکھنے کے لئے بڑا محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی اسلام دشمنی اور منافقت کا یہ مرض عرصہ تک چھپا رہے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کی صورتیں شکلیں تک آپ کو دکھا سکتے ہیں ( لیکن اللہ کے قانون کے خلاف ہے اس لئے) آپ ان کو ان کی بعض علامتوں سے اور ان کی بناوٹی باتوں سے پہچان سکتے ہیں اور اللہ تو ان کے تمام کاموں سے اچھی طرح واقف ہے “۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا دستور تو یہی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے عیب اور برائیوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا لیکن اگر اس کی مصلحت ہوتی کہ دوسرے ان منافقوں کے شر سے بچ جائیں تو کبھی کبھی ضرورت کے وقت ظاہر بھی کردیا جاتا ہے۔ چناچہ حضرت عقبہ ان عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھتیں (36) آدمیوں کا نام لے کر بتایا کہ فلاں فلاں منافق ہیں اور ان کو آپ نے اپنی محفل سے نکل جانے کا حکم دیا۔ (مسند احمد) ویسے عام طور پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین کی خاص خاص نشانیوں کا ذکر کیا ہے تاکہ اہل ایمان اس طرح کی نشانیاں رکھنے والوں سے ہوشیار رہیں جو مسلمانوں سے محض دکھاوے کا تعلق رکھتے ہیں اور انہیں حقیقی اور قلبی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ان کی بناوٹی باتیں ‘ انداز گفتگو اور اکھڑی اکھڑی باتیں ان کے دلی جذبات کی ترجمان ہیں جنہیں وہ چھپا ہی نہیں سکتے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا رہتا ہے خواہ وہ اللہ کے فرماں بردار ہوں یا فرماں بردار نہ ہوں۔ اس طرح آزمائش کی بھٹی سے نکلنے کے بعد منافق اور مومن بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ جو لوگ منافقت کے مرض میں مبتلا ہیں ان کی آزمائش یہ ہے کہ ان کو خوب ڈھیل اور سہولتیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ پوری آزادی سے اپنی منافقانہ کاروائیوں میں آگے بڑھتے چلے جائیں اور ان کا کینہ ‘ حسد ‘ جلن ‘ بغض اور اسلام دشمنی پر وی طرح کھل کر سامنے آجائے اور وہ اپنی آگ میں جل کر خود ہی ذلیل و رسوا ہوجائیں۔ اسکے برخلاف ان اہل ایمان کو جو جہاد اور صبر سے کام لیتے ہیں اس لئے آزمائش کی بھٹی سے گذارا جاتا ہے تاکہ وہ اس طرح کندن بن کر ابھریں جس طرح سونا آگ پر تپائے جانے کے بعد کندن اور صاف ستھرا ہوجاتا ہے۔ یہ آزمائش انکے لئے ایک انعام کے طور پر ہوتی ہے تاکہ ان کو بھاری ذمہ داریوں کے قبول کرنے کا اہل بنا دیا جائے۔ وہ لوگ جو اللہ ‘ اس کے رسول اور دین اسلام سے دوسروں کو دور رکھنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں سچائی پھیر لیتے ہیں اور خود اپنے ہاتھوں کلہاڑی اپنے پاؤں پر مار لیتے ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ وہ اپنے اخلاص ‘ حسن عمل ‘ اللہ کی عبادت و بندگی ‘ اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری میں لگے رہیں۔ آخرت کے لئے جدوجہد کرتے رہیں اور ان لوگوں کی پرواہ نہ کریں جن کا کام کفر کرنا اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکنا ہے کیونکہ اگر وہ کافر اسی طرح کفر پر ڈٹے رہے اور توبہ نہ کی تو ان کا انجام بہت برا ہوگا اور آخرت میں تو اللہ کی نظر کرم سے بھی محروم ہوں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حق و صداقت ‘ ایمان اور عمل صالح پر چلنے والوں کو اطمینان قلب ‘ ذہنی سکون ‘ عقل و فکر کی بلندی ‘ دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں عطا کی جاتی ہیں اور جو لوگ زندگی بھر جھوٹ ‘ فریب اور غلط فہمیوں میں زندگی گذارنے والے ہیں ہو سکتا ہے ان کو دنیا کی زندگی میں بعض فائدے مل جائیں لیکن آخرت جو انسان کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے وہاں وہ اللہ کے ہر انعام و اکرام اور فضل و رحمت سے محروم رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کی بری عادات کا ذکر جاری ہے۔ ” اَضْغَانَ “ کا واحد ” ضغن “ ہے جس کا معنٰی حسد وبغض اور کینہ ہے۔ منافق یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے حسد وبغض کو ظاہر نہیں کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو منافقوں کو اس طرح آشکارہ کردیتا کہ تمام مسلمان ان کو اچھی طرح پہچان لیتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم اور شفقت کی بنا پر ان کی پردہ پوشی کیے ہوئے ہے۔ البتہ اس نے منافقین کے لیڈروں کو کافی حد تک ظاہر کردیا ہے۔ اس بنا پر آپ ان کے کردار اور انداز گفتگو سے انہیں اچھی طرح پہچان سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے اور تمہیں ایک دوسرے کے ساتھ اور اپنے ارشادات کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو ممتاز کر دے اور جس سے تمہارے فکر و عمل کی پہچان ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے فکر وعمل اور مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو پہچاننے کا معنٰی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے فکر و عمل سے بیخبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ انسان سوچتا ہے اور جو عمل کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہے۔ تو اس کا یہ معنٰی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار اور منافقین کو مخلص مسلمانوں کے سامنے آشکارہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان اپنے اور بیگانوں کی اچھی طرح پہچان کرسکیں۔ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَالِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَفَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَا نَ خَیْرًا لَّہُ ) (رواہ مسلم : باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایمان دار شخص کی حالت پر رشک آتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں، ہر صورت میں بہتر ہے اور یہ اعزاز صرف ایمان دار کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہو تو شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو لوگوں کے عیوب کو آشکارہ کردے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے منافقوں کو آشکارہ کردیا۔ ٣۔ منافق اپنے کردار اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آزماتا ہے تاکہ مومنوں کو مجاہدین اور صابرین کا علم ہوجائے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کرتا ہے : ١۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢ ) ٢ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت : ٣) ٣۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٤۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٥۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٦۔ ” اللہ “ نے موت وحیات کو انسان کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ (الملک : ٢) ٧۔ ” اللہ “ نے آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام : ١٦٦) ٨۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن : ١٥) ٩۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ : ٢١٤) ١٠۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضروری ہے۔ (آل عمران : ١٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آخر میں کہا جاتا ہے کہ اللہ ستار ہے ، لیکن تم جو کچھ کر رہے ہو کہ اپنے اوپر اسلام کا جھوٹا لبادہ اوڑھے ہوئے ہو ، اس کو اللہ اتار سکتا ہے اس لیے اب بھی باز آجاؤ۔ ام حسب ۔۔۔۔ اللہ اضغانھم (٢٩) ولو نشاء لا ۔۔۔۔۔ یعلم اعمالکم (٣٠) ولنبلونکم حتی ۔۔۔۔۔۔ اخبارکم (٣١) (٤٧ : ٢٩ تا ٣١) “ کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے ، یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا ؟” ہم چاہیں تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیں اور ان کے چہروں سے تم ان کو پہچان لو۔ مگر ان کے انداز کلام سے تو تم ان کو جان ہی لوگے۔ اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔ ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تا کہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں ”۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” ام حسب۔ الایۃ “ منافقین پر زجر ہے۔ ان کا یہ خیال غلط ہے کہ اسلام پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں کے خلاف ان کے دلوں میں جو کینہ و عداوت پوشیدہ ہے اللہ اس کو ظاہر نہیں کرے گا اور ان کے مکر و فریب اور ان کی منافقت کا پردہ چاک نہیں کرے گا۔ ضرور کرے گا اور ایسے حالات پیدا فرمائے گا کہ ان کا خبث باطن خود کھل کر سامنے آجائے ” ولو نشاء۔ الایۃ “ اگر ہم چاہیں تو منافقین کو آپ کے سامنے کردیں اور آپ ان کو دیکھ کر ان کی صورتیں پہچان لیں کہ یہ منافق ہیں لیکن ابھی اس قسم کے دو ٹوک فیصلے کو ہماری حکمت مقتضی نہیں ویسے آپ ان کو ان کے انداز گفتگو سے پہچان لیں گے کیونکہ منافق خواہ کتنی ہی چاپلوسی کرے اور چکنی چپڑی باتیں کرے اس کے کلام میں وہ خلوص نہیں پیدا ہوسکتا جو ایک مخلص مومن کی سیدھی سادھی باتوں میں پایا جاسکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے کیا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی عداوتوں اور ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا۔ یعنی کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا نفاق کبھی آشکارا نہیں کیا جائے گا۔