Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 90

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۹۰﴾

O you who have believed, indeed, intoxicants, gambling, [sacrificing on] stone alters [to other than Allah ], and divining arrows are but defilement from the work of Satan, so avoid it that you may be successful.

اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیرپہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Prohibiting Khamr (Intoxicants) and Maysir (Gambling) Allah says; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالاَنصَابُ وَالاَزْلاَمُ ... O you who believe! Khamr, Maysir, Ansab, and Azlam are, Allah forbids His believing servants from consuming Khamr and Maysir which is gambling. Ibn Abi Hatim recorded that Ali bin Abi Talib, the Leader of the Faithful, said that; chess is a type of gambling. Ibn Abi Hatim recorded that Ata, Mujahid and Tawus, or , two of them, said that; every type of gambling, including children's playing with (a certain type of) nuts, is Maysir. Ibn Umar said that; Al-Maysir means gambling, and this is the same statement that Ad-Dahhak reported from Ibn Abbas, who added, "They used to gamble during the time of Jahiliyyah, until Islam came. Allah then forbade them from this evil behavior." Meaning of Ansab and Azlam According to Ibn Abbas, Mujahid, Ata', Sa`id bin Jubayr and Al-Hasan, Al-Ansab were altar stones, in whose vicinity sacrifices were offered (during the time of Jahiliyyah). As Ibn Abi Hatim narrated they also said that; Al-Azlam were arrows that they used for lotteries to make decisions. Allah said, ... رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ... A Rijs of Shaytan's handiwork, meaning, abomination of Shaytan's handiwork, according to Ali bin Abi Talhah who reported it from Ibn Abbas. Sa`id bin Jubayr said that; Rijs means `sin'. while Zayd bin Aslam said; "An evil handiwork of Shaytan." ... فَاجْتَنِبُوهُ ... So avoid that, avoid all of these abominations, ... لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ in order that you may be successful. and this is a statement of encouragement. Allah said next, إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ

پانسہ بازی ، جوا اور شراب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے روکتا ہے ۔ شراب کی ممانعت فرمائی ، پھر جوئے کی روک کی ۔ امیر المونین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شطرنج بھی جوئے میں داخل ہے ( ابن ابی حاتم ) عطا مجاہد اور طاؤس سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ جوئے کی ہر چیز میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو ۔ جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسلام نے غارت کیا ۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیجتے تھے ، پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے ۔ حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیلا کرتے تھے ، یہ بھی جوا ہے صحیح مسلم شریف میں ہے پانسوں سے کھیلنے والا گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت میں آلودہ کرنے والا ہے ۔ سنن میں ہے کہ وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے ۔ واللہ اعلم ، مسند میں ہے پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے ۔ حضرت علی سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ امام مالک امام ابو حنیفہ امام احمد تو کھلم کھلا اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی بھی اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ انصاب ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح کرتے تھے ازلام ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے ۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں ۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ ۔ اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے ۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے ۔ حرمت شراب کی مزید وضاحت اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے شریف میں آئے تو لوگ جواری شرابی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا اور آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ) 2 ۔ البقرۃ:219 ) نازل ہوئی ۔ اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں ۔ چنانچہ شراب پیتے رہے ۔ ایک دن ایک صحابی اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھرے ہوئے تو قرأت خط ملط ہو گئی اس پر آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ) 4 ۔ النسآء:43 ) نازل ہوئی ۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:90 ) نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ بول اٹھے انتھینا ربنا اے اللہ ہم اب باز رہے ، ہم رک گئے ، پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے سے پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت ( لیس علی الذین ) الخ ، نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے ، مسند احمد میں ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا اللہ ہمارے سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورہ بقرہ کی آیت ( فیھما اثم کبیر ) نازل ہوئی ۔ حضرت عمر فاروق کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ نے فرمایا اے اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما! پس سورہ نساء کی آیت ( وانتم سکاری ) نازل ہوئی اور مؤذن جب حی علی الصلوۃ کہتا تو ساتھ ہی کہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے قریب بھی نہ آئیں ۔ حضرت عمر کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ نے یہی فرمایا کہ اے اللہ اس بارے میں صفائی سے بیان فرما ۔ پس سورہ مائدہ کی آیت اتری آپ کو بلوایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی جب آیت ( فھل انتم منتھون ) تک سنا تو فرمانے لگے انتھینا انتھینا ہم رک گئے ہم رک گئے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے منبر نبوی پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی ، انگور ، شہد ، کجھور ، گہیوں اور جو ۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آ جائے خمر ہے ۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور حرام ہے صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے موقع پر مدینے شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی ، ابو داؤد طیالسی میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں شراب کے بارے میں تین آیتیں اتریں ۔ اول تو آیت ( یسلونک عن الخمر ) والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی اس پر بعض صحابہ نے فرمایا رسول اللہ ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، آپ خاموش ہو گئے پھر آیت ( وانتم سکاری ) والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی ۔ لیکن صحابہ نے فرمایا دیا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے ۔ آپ پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ اب شراب حرام ہو گئی ۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضور کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے یا قبیلہ دوس میں سے ۔ فتح مکہ والے دن وہ آپ سے ملا اور ایک مشک شراب کی آپ کو تحفتاً دینے لگا آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کر دیا ہے ۔ اب اس شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال ، آپ نے فرمایا کیا کہا ؟ اس نے جواب دیا کہ بیچنے کو کہہ رہا ہوں آپ نے فرمایا جس اللہ نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے ۔ اس نے اسی وقت کہا جاؤ اسے لے جاؤ اور بطحا کے میدان میں بہا آؤ ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت تمیم دارمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ دینے کیلئے ایک مشک شراب کی لائے ، آپ اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا یہ تو تمہارے جانے کے بعد حرام ہو گئی ہے کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کر لوں گا ، یہ سن کر آپ نے فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کیا ، اللہ تعالیٰ نے شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کر دیا ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ اس میں ہے کہ ہر سال حضرت دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے تھے ، اس کے آخر میں حضور کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام ، ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ حضرت کیسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شراب کے تاجر تھے جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے لائے تھے حضور سے ذکر کیا آپ نے فرمایا اب تو حرام ہو گئی پوچھا پھر میں اسے بیچ ڈالوں؟ آپ نے فرمایا یہ بھی حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے ۔ چنانچہ حضرت کیسان نے وہ ساری شراب بہا دی ، مسند احمد میں ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح حضرت ابی بن کعب ، حضرت سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے تھے قریب تھا کہ نشے کا پارہ بڑھ جائے ، اتنے میں کسی صحابی نے آ کر خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہو گئی ؟ انہں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا ۔ یہ شراب کھجو کی تھی اور عامتاً اسی کی شراب بنا کرتی تھی ، یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے اور روایت میں ہے کہ شراب خوری کی یہ مجلس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر تھی ، ناگاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے؟ میں نے جا کر سنا منادی ندا دے رہا ہے کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے ، میں نے آ کر خبر دی تو حضرت ابو طلحہ نے فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے سب بہادو میں نے بہادی اور میں نے دیکھا کہ مدینے کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے ، بعض اصحاب نے کہا ان کا کیا حال ہو گا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کر دیئے گئے ؟ اس پر اس کے بعد کی آیت ( لیس علی الذین ) الخ ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں ، ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے ناموں میں حضرت ابو دجانہ اور حضرت معاذ بن جبل کا نام بھی ہے اور یہ بھی ہے کہ ندا سنتے ہی ہم نے شراب بہا دی ، مٹکے اور پیپے توڑ ڈالے ۔ کسی نے وضو کر لیا ، کسی نے غسل کر لیا اور حضرت ام سلیم کے ہاں سے خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے تو دیکھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھ رہے تھے ، ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور اس سے پہلے جو لوگ فوت ہو گئے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ پس اس کے بعد آیت اتری ، کسی نے حضرت قتادہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ فرمایا ہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں؟ مسند احمد میں ہے حضور فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے شراب اور پانسے اور بربط کا باجا حرام کر دیا ہے ، شراب سے بچو غبیرا نام کی شراب عام ہے مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔ میں نے آپ سے سنا ہے کہ شراب جوا پانسے اور غبیرا سب حرام ہیں اور ہر نشے والی چیز حرام ہے ، مسند احمد میں ہے شراب کے بارے میں دس لعنتیں ہیں خود شراب پر ، اس کے پینے والے پر ، اس کے پلانے والے پر ، اس کے بیچنے والے پر ، اس کے خریدنے والے پر اس کے نچوڑنے والے پر ، اس کے بنانے والے پر ، اس کے اٹھانے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس یہ اٹھا کر لے جایا جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ) مسند میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باڑے کی طرف نکلے میں آپ کے ساتھ تھا ۔ آپ کے دائیں جانب چل رہا تھا جو حضرت ابو بکر صدیق آئے میں ہٹ گیا اور آپ کے داہنے حضرت صدیق چلنے لگے تھوڑی دیر میں حضرت عمر آ گئے میں ہٹ گیا آپ حضور کے بائیں طرف ہو گئے جب آپ باڑے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا چھری لاؤ جب میں لایا تو آپ نے حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں پھر فرمایا شراب پر ، اس کے پینے والے پر ، پلانے والے پر ، بیچنے والے پر ، خریدار پر ، اٹھانے والے پر ، اٹھوانے والے پر ، بنانے والے پر ، بنوانے والے پر ، قیمت لینے والے پر سب پر لعنت ہے ، مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو ، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک مشک بھی نہ چھوڑی ۔ بہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیجتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے حضرت ابن عباس سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے ، اے امت محمد اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا ، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے ، پھر حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا سنو میں حضور کے ساتھ مسجد میں تھا ۔ آپ گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے ۔ لوگوں نے لانی شروع کی ، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو ۔ جب سب جمع ہو جائے مجھے خبر کو ، جب جمع ہو گئی اور آپ سے کہا گیا تو آپ اٹھے میں آپ کے داہنے جانب تھا آپ مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے حضرت ابو بکر صدیق جب آئے تو آپ نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کر دیا اور میری جگہ حضرت ابو بکر نے لے لی ، پھر حضرت عمر سے ملاقت ہوئی تو آپ نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ شراب ہے ، فرمایا سنو اس پر اس کے بنانے والے پر ، بنوانے والے پر ، پینے والے پر ، پلانے والے پر ، اٹھانے والے پر ، اٹھوانے والے پر ، بیچنے والے پر ، خریدنے والے پر ، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا اسے تیز کر لو پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور مشکوں اور مٹکو کو رہنے دیجئے اور کام آئیں گی فرمایا ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غضہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب اراض ہے ۔ حضرت عمر نے فرمایا حضور آپ خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں فرمایا نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا ۔ بیہقی کی حدیث میں ہے کہ شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں ۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں ۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے ، ہم افضل ہیں ۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں ۔ ایک انصاری نے اونٹ کے جبڑا لے کر حضرت سعد کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری ۔ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے ، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بےحرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری ۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہو گا ؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے جواب میں اگلی آیت اتری ۔ ابن جریر میں ہے حضرت ابو بریدہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھاناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ سلام کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی ، بعض وہ بھی تھے ، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آ گئے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی ۔ بزار میں یہ ذاتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت ( لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:93 ) نازل ہوئی ، ابو یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو گئی وہ واپس مڑ گیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آ گیا اور حضور سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے کہا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں ۔ فرمایا اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں ، کہا پھر اجازت دیجئے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے آپ نے فرمایا یہ بھی ٹیک نہیں کہ حضور اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے فرمایا دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے یتیموں کی مدد کریں گے پھر مدینہ میں منا دی ہو گئی ایک شخص نے کہا حضور شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے ۔ یہ حدیث غریب ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے آپ نے فرمایا جاؤ اس یہا دو عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں فرمایا نہیں ۔ یہ حدیث مسلم ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے فرمایا جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے ۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا ۔ حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالیٰ اسے طینتہ الخیال پلائے گا ۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ فرمایا جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ ( مسند احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں ناقبول ہیں ۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور طینتہ الخیال پلائے گا پوچھا گیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے ۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بےتوبہ مر گیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ، ماں باپ کا نافرمان ، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا ، مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے والا ، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے گا ۔ مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اولاد بھی ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعلای عنہ فرماتے ہیں شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جر ہے ۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا ۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا ، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی ، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا ، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی ۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے ، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے ۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لئے بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا ، سارا پی گیا ۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ ، خوب پیا ، جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا ۔ پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہو تے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے ( بیہقی ) امام ابو بکر بن ابی الدنیا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے واللہ اعلم ، اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زانی زنا کے وقت ، چور چوری کے وقت ، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت ( لیس علی الذین ) الخ ، نازل ہوئی یعنی ان پر اس میں کوئی حرج نہیں اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پرھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت ( ماکان اللہ لیضیع ایمانکم ) الخ ، نازل ہوئی یعنی ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو حضور نے فرمایا مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے ۔ مسند احمد میں ہے پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔ لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ جوا پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال کے تیروں کو رجس (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کرکے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آجاؤ گے یا نہیں ؟ جس مقصود اہل ایمان کی آزمائش ہے۔ چنانچہ، جو اہل ایمان تھے وہ تو منشائے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہوگئے اور کہا اُنْتَھَیْنَا رَبَّنَا ! اے رب ہم باز آگئے، لیکن آجکل کے بعض " دانشور " کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے ؟ (برین عقل و دانش بباید گریست) ۔ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا نیز اس اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا ان مجتہدین کے نزدیک حرمت کے لئے کافی نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک پلید کام بھی جائز ہے شیطانی کام بھی جائز ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ اجتناب کا حکم دے وہ بھی جائز ہے اور جس کی بابت کہے کہ اس کا ارتکاب عدم فلاح اور اس کا ترک فلاح کا باعث ہے وہ بھی جائز ہے (اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ 156؁ۭ ) 002:156

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٣٣[ شراب اور اس کی حرمت کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حرمت شراب میں تدریج :۔ سیدنا عمر ص فرماتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے شافی بیان واضح فرما۔ تو سورة بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ) چناچہ سیدنا عمر ص کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ پھر سیدنا عمر ص نے دعا کی : یا اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے شافی بیان نازل فرما & تو سورة نساء کی یہ آیت نازل ہوئی (یٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَقْرَبُوْا الصَّلٰوٰۃَ ) چناچہ سیدنا عمر ص کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ آپ نے پھر دعا کی۔ یا اللہ ہمارے لیے شراب کے بارے میں شافی بیان واضح فرما۔ تو سورة مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (اِنَّمَا یُرِِیْدُ الشَّیْطٰنُ ۔۔ مُنْتَھُوْنَ ) تک، چناچہ سیدنا عمر کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی تو انہوں نے کہا & ہم باز آئے۔ ہم باز آئے۔ & (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ بخاری کتاب الاشربۃ باب نزول تحریم الخمر) ٢۔ سیدنا (رض) کہتے ہیں کہ & احد کے دن صبح کچھ لوگوں نے شراب پی تھی۔ اسی حال میں وہ شہید ہوئے۔ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی & (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٣۔ سیدنا عمر ص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ منبر پر کھڑے ہو کر فرما رہے تھے & لوگو ! شراب حرام ہوئی شراب پانچ چیزوں سے بنا کرتی ہے۔ انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جو سے اور جس مشروب سے عقل میں فتور آئے وہ خمر (شراب) ہے۔ & (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٤۔ حرمت شراب کے وقت کا منظر :۔ سیدنا انس ص فرماتے ہیں کہ میں ابو طلحہ کے گھر لوگوں کا ساقی بنا ہوا تھا اور ان دنوں شراب فضیخ (گندی کھجوروں کی) ہی تھی۔ میں ابو طلحہ، ابو عبیدہ، ابی بن کعب، ابو ایوب، ابو دجانہ، سہیل بن بیضاء اور اپنے چچاؤں اور کسی دوسرے صحابہ کرام کو کھڑا ہوا شراب پلا رہا تھا اور میں ان سب سے چھوٹا تھا۔ رسول اللہ نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ شراب حرام ہوگئی۔ ابو طلحہ نے مجھے کہا جاؤ ! باہر جا کر سنو۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے۔ & سن لو ! شراب حرام ہوگئی۔ & اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا کیا تمہیں کوئی خبر پہنچی ہے ؟ وہ کہنے لگے & کیسی خبر ؟ & اس نے کہا & شراب حرام ہوگئی ہے۔ & ابو طلحہ نے مجھے کہا & باہر جا کر مٹکا توڑ دو اور شراب بہا دو & میں باہر نکلا اور سل کے ایک بٹے کو اٹھا کر مٹکے کے پیندے میں مارا۔ مٹکا ٹوٹ گیا اور شراب بہہ گئی۔ (اس دن) مدینہ کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اس شخص سے یہ خبر سننے کے بعد لوگوں نے نہ اس کی تصدیق کی اور نہ ہی پھر کبھی شراب پی۔ (بخاری کتاب الاشربہ۔ باب۔ نزول تحریم الخمر و کتاب المظالم باب صب الخمر فی الطریق۔ مسلم کتاب الاشربہ باب تحریم الخمر) ٥۔ حرمت شراب سے متعلقہ مسائل :۔ سیدنا عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & جو شخص انگور اترنے کے زمانے میں انگور سٹاک کر رکھے تاکہ اسے شراب بنانے والوں کے ہاتھ فروخت کرے اس نے دیدہ دانستہ آگ میں جانے کی کوشش کی (رواہ الطبرانی فی الاوسط، اسنادہ حسن) ٦۔ آپ سے پوچھا گیا & کیا شراب بطور دوا استعمال ہوسکتی ہے ؟ & آپ نے فرمایا & شراب تو خود بیماری ہے یہ شفا کیا دے گی۔ & (ترمذی۔ ابو اب الطب۔ باب ماجاء فی التداویٰ بالمسکر) ٧۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا & ہر نشہ آور چیز حرام ہے & (مسلم۔ کتاب الاشربہ۔ باب۔ بیان ان کل مسکر خمر) ٨۔ آپ نے فرمایا & جس چیز کی کثیر مقدار حرام ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ & (ترمذی۔ ابو اب الاشربہ باب ما اسکر کثیرۃ فقلیلہ حرام ) ٩۔ آپ سے پوچھا گیا کہ & کیا ہم شراب کا سرکہ بنا کر اسے استعمال کرسکتے ہیں ؟ & فرمایا & نہیں & (مسلم۔ کتاب الاشربہ باب۔ تحریم تخلیل الخمر ) ١٠۔ ابن عباس (رض) ص فرماتے ہیں کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک وفد مدینہ آیا تو آپ نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ فلاں فلاں برتن (آپ نے ایسے برتنوں کا نام لیا جن میں اس زمانہ میں شراب بنائی جاتی تھی) کسی دوسرے استعمال میں نہ لائے جائیں (انہیں بھی توڑ دیا جائے) اور ان میں نبیذ بھی نہ بنائی جائے۔ & (ترمذی۔ ابو اب الاشربۃ۔ فی کراھیہ ان ینبذ فی الدباء والنقیر والحنتم ) ١١۔ آپ نے فرمایا & میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کے کوئی دوسرے نام رکھ کر انہیں جائز قرار دے لیں گے۔ & (بخاری۔ کتاب الاشربہ۔ باب ماجاء فی من یستحل الخمر ویسمیہ بغیر اسمہ ) ١٢۔ سیدہ انس ص فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے دو ٹہنیوں سے اسے چالیس مرتبہ مارا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالخمر) ١٣۔ آپ نے فرمایا & اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا پینا حرام ٹھہرایا ہے اس کی خریدو فروخت بھی حرام کردی & (مسلم۔ کتاب البیوع۔ باب۔ تحریم بیع الخمر) ١٤۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب سود سے متعلق سورة بقرہ کی آیات نازل ہوئیں تو آپ مسجد میں آئے ان آیتوں کو پڑھ کر سنایا پھر فرمایا & کہ شراب کی خریدو فروخت حرام ہے۔ & (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب تحریم تجارۃ الخمر فی المسجد) ١٥۔ سیدنا انس ص فرماتے ہیں کہ آپ نے شراب کے سلسلہ میں دس لوگوں پر لعنت فرمائی (١) شراب نچوڑنے والا (٢) نچڑوانے والا (٣) لینے والا (٤) اٹھانے والا (٥) جس کے لئے لے جائی جائے (٦) پلانے والا۔ (٧) بیچنے والا (٨) اس کی قیمت کھانے والا (٩) خریدنے والا (١٠) جس کے لیے خریدی گئی۔ & (ترمذی ابو اب البیوع۔ باب ماجاء فی بیع الخمر و نہی عن ذالک) شراب اور جوئے سے متعلق اگرچہ اس آیت میں تحریم یا حرام ہونے کا لفظ صراحت سے مذکور نہیں ہوا تاہم انداز بیان سے سب صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ یہ چیزیں حرام ہوگئی ہیں۔ اس انداز بیان میں انما حصر کا لفظ لا کر شراب، جوئے کو الانصاب اور ازلام کے ساتھ ملایا گیا ہے جن کی حرمت کی کئی مقامات پر وضاحت ہے (٢) ان چیزوں کو ناپاک کہا گیا (٣) انہیں شیطانی عمل قرار دیا گیا (٤) ان سے اجتناب کا حکم دیا گیا (٥) انہیں باہمی عداوت کا پیش خیمہ قرار دیا گیا (٦) اور اللہ کی یاد سے غافل کرنے والی چیزیں قرار دیا گیا اور آخر میں (٧) طنزیہ اور سوالیہ انداز میں پوچھا گیا کہ آیا ان تمام تر قباحتوں کے باوجود بھی تم باز آتے ہو یا نہیں ؟ جس کے جواب میں سیدنا عمر ص نے فرمایا تھا کہ & ہم باز آئے۔ & شراب کی حد کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ شراب کی سزا حد ہے یا تعزیر۔ اور اس شبہ کی وجہ یہ ہے کہ دور نبوی میں سزا دینے والی چیز صرف کوڑے ہی نہیں تھے بلکہ بعض دفعہ ہاتھوں سے، جوتوں سے، چھڑی سے، کپڑے سے اور ٹہنی سے مار کر سزا دی جاتی تھی اور بعض احادیث میں چالیس کی تعداد کا بھی ذکر نہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث میں سے حدیث نمبر ٣ سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز امام بخاری نے ایک باب کے عنوان میں حد کا نام ہی نہیں لیا باب کا عنوان ہے ماجاء فی ضرب شارب الخمر شراب کی سزا کا بیان نیز حدیث نمبر ٧ میں سیدنا علی ص کی حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں ذلک ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لم یسنہ یعنی رسول اللہ نے اس کا کوئی متعین طریقہ بیان نہیں فرمایا یا مقرر نہیں کیا۔ اور جو لوگ اسے تعزیر نہیں بلکہ حد سمجھتے ہیں اور اکثریت کا یہی مذہب ہے ان کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ کی حدوں کے سوا کسی کو بھی دس کوڑوں سے زیادہ سزا نہ دی جائے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب قدر اسواط التعزیر) اور چونکہ دور نبوی میں بھی شرابی کی سزا چالیس کوڑے مارنا ثابت ہے لہٰذا یہ حد ہے تعزیر نہیں۔ اب ہم ایسی احادیث درج کرتے ہیں جو شرابی کی سزا کے بارے میں بخاری اور مسلم میں وارد ہیں۔ ١۔ عتبہ بن حارث کہتے ہیں کہ نعیمان کا بیٹا رسول اللہ کے ہاں لایا گیا۔ اس نے شراب پی تھی۔ جو لوگ اس گھر میں موجود تھے آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے ماریں۔ چناچہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسے چھڑیوں اور جوتوں سے مارا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) ٢۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ رسول اللہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کی شروع خلافت میں شراب پینے والا جب لایا جاتا تو ہم اٹھ کر اسے ہاتھوں سے، جوتوں سے اور چادروں سے مارتے۔ یہاں تک کہ سیدنا عمر کی خلافت کا آخری دور آگیا تو انہوں نے شرابی کو چالیس کوڑے لگائے مگر جب لوگوں نے سرکشی اور نافرمانی کی راہ اختیار کی تو انہوں نے اسی کوڑے لگائے (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) ٣۔ سیدنا عمر ص کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانہ میں ایک شخص کو لوگ عبداللہ حمار کہا کرتے تھے۔ وہ رسول اللہ کو ہنسایا کرتا تھا۔ آپ نے اس کو شراب کی حد بھی لگائی تھی۔ ایک دفعہ ( غزوہ خیبر کے دوران) اس نے شراب پی اور لوگ اسے پکڑ لائے۔ آپ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا جو اسے لگائے گئے۔ اتنے میں ایک شخص (خود سیدنا عمر) بول اٹھے، یا اللہ اس پر لعنت کر کمبخت کتنی مرتبہ شراب کی وجہ سے لایا جا چکا ہے۔ آپ نے فرمایا اس پر لعنت نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اپنے بھائی کے مقابلہ میں شیطان کی مدد نہ کرو۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) ٤۔ سیدنا انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے اسے دو چھڑیوں سے چالیس بار مارا۔ اور سیدنا ابوبکر ص نے اپنے دور خلافت میں) بھی ایسا ہی کیا۔ پھر جب سیدنا عمر ص کا دور خلافت آیا تو آپ نے اس بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ سب حدوں میں سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں (یعنی حد قذف جو قرآن میں مذکور ہے) تو سیدنا عمر ص نے شرابی کے لیے اسی کوڑوں کی حد کا حکم دیا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الخمر) ٥۔ سیدنا انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ شراب میں جوتوں اور ٹہنیوں سے چالیس ضربیں مارتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود باب حد الخمر) ٦۔ حسین بن منذر سے روایت ہے کہ میری موجودگی میں لوگ ولید بن عقبہ کو سیدنا عثمان (رض) کے پاس لائے۔ ولید نے شراب پی تھی اور اس پر دو آدمیوں نے گواہی بھی دی۔ سیدنا عثمان (رض) نے (ازراہ توقیر و تکریم) سیدنا علی (رض) سے فرمایا کہ اٹھو اور اسے کوڑے لگاؤ۔ اور سیدنا علی (رض) نے سیدنا حسن (رض) (اپنے بیٹے کو) کوڑے لگانے کے لیے کہہ دیا۔ سیدنا حسن (رض) نے جواب دیا جس نے خلافت کا مزہ چکھا ہے اسے ہی اس کا گرم بھی چکھنے دیجئے۔ (یعنی سیدنا عثمان (رض) کو ہی کوڑے لگانے دیجئے۔ ) اس بات پر سیدنا علی (رض) سیدنا حسن (رض) پر خفا ہوئے اور عبداللہ بن جعفر (رض) سے کہا کہ اٹھ اور ولید کو کوڑے لگا۔ عبداللہ اٹھے اور ولید کو کوڑے لگانا شروع کیے اور سیدنا علی گنتے جاتے تھے۔ جب چالیس کوڑے لگ چکے تو کہنے لگے۔ ذرا ٹھہر جاؤ پھر فرمایا کہ رسول اللہ نے چالیس کوڑے لگائے اور سیدنا ابوبکر ص نے بھی چالیس لگائے اور سیدنا عمر ص نے اسی کوڑے لگائے اور یہ سب سنت ہیں۔ اور میرے نزدیک چالیس لگانا بہتر ہے۔ ٧۔ سیدنا علی ص نے فرمایا میں اگر کسی پر حد قائم کروں اور وہ مرجائے تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں۔ البتہ اگر شراب کی حد میں کوئی مرجائے تو اس کی دیت دلاؤں گا کیونکہ رسول اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الخمر۔ بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) ] ١٣٤[ جوئے کی اقسام :۔ میسر بمعنی وہ کثیر مال و دولت جو مفت میں یا آسانی سے ہاتھ لگ جائے۔ اسے ہی جوا اور قمار بازی بھی کہتے ہیں وئے کی معروف قسم تو شرعاً اور قانوناً حرام ہے اور جواری کو کسی معاشرہ میں بھی معاشرہ کا معزز فرد نہیں سمجھا جاتا مگر موجودہ دور میں جوئے کی کئی نئی اقسام بھی وجود میں آچکی ہیں جن میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی اور بعض کو حکومتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے حالانکہ ایسی سب نئی شکلیں بھی حرام ہیں مثلاً لاٹری، معمہ بازی، ریفل ٹکٹ، انعامی بانڈ، ریس کو رس اور بیمہ کی بعض شکلیں۔ نیز چوسر اور شطرنج وغیرہ بھی قمار ہی کی قسمیں ہیں۔ ] ١٣٥[ بت اور آستانے :۔ ایسے مقامات جنہیں کسی موجود یا غیر موجود بت یا کسی دوسرے شرکیہ عقیدہ کی بنا پر عوام میں تقدس کا درجہ حاصل ہو اور وہاں نذریں نیازیں بھی چڑھائی جاتی ہوں۔ ان میں مرکزی کردار چونکہ کسی بت پیر فقیر یا اس کی روح کا ہوتا ہے لہٰذا بت گری، بت پرستی اور بت فروشی سب چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اور اس کے علاوہ مجسمے اور جاندار اشیاء کی تصویر کشی بھی حرام قرار دی گئی بالخصوص ایسے انسانوں کی جنہیں دینی یا دنیوی لحاظ سے معاشرہ میں کوئی ممتاز مقام حاصل ہو یا رہ چکا ہو۔ ]] ١٣٦[ ازلام کے لیے دیکھئے سورة مائدہ کی آیت نمبر ٣ حاشیہ نمبر ١٦

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ ۔ : یہ شراب کے سلسلے میں تیسرا اور آخری حکم ہے، جس کے بعد وہ قطعی حرام قرار دے دی گئی، اس سے پہلے دو حکم آ چکے تھے، پہلا حکم سورة بقرہ (٢١٩) میں اور دوسرا سورة نساء (٤٣) میں، مگر ان دونوں آیتوں میں قطعی حرمت کا ذکر نہیں تھا، اس لیے عمر بن خطاب (رض) نے سورة بقرہ اور سورة نساء کی آیات نازل ہونے کے بعد کہا : ” یا اللہ ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم فرما۔ “ آخر صریح حرمت کی یہ آیت تین مزید چیزوں کی حرمت کے ساتھ اتری۔ [ نسائی، الأشربۃ، باب تحریم الخمر : ٥٥٤٢ ] ’ الْخَمْر “ کی تفسیر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی، چناچہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ ) ” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے (خواہ کسی بھی چیز سے بنی ہو) ۔ “ [ مسلم، الأشربۃ، باب بیان أن کل مسکر خمر۔۔ : ٢٠٠٣ ] خلافت اسلامیہ کو برباد کرنے کے اسباب میں سے یہ بھی ایک بڑا سبب ہے کہ بعض علماء نے صرف انگور اور کھجور کی شراب پینے پر حد لازم قرار دی، باقی ہر نشہ آور چیز پینے پر حد ختم کردی، خواہ وہ کسی چیز سے بنی ہو اور خواہ اس سے نشہ کیوں نہ آجائے۔ اب جن اسلامی خلافتوں میں ام الخبائث کی کئی قسمیں پینے پر حد معاف ہو وہاں رعایا، لشکر اور خلفاء کا کیا حال ہوگا ؟ اس آیت اور اس سے اگلی آیت سے شراب اور جوئے کی حرمت سات وجہوں سے ثابت ہوتی ہے، اسی لیے اسے ” ام الخبائث “ قرار دیا گیا ہے : 1 ” رِجْسٌ“ گندی چیز ہے۔ 2 عمل شیطان ہے۔ ” فَاجْتَنِبُوْهُ “ امر کا صیغہ فرض کے لیے ہوتا ہے، چناچہ اس سے اجتناب فرض ہے، لہٰذا پینا حرام ہے۔ 4 ” لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ “ اس کے ترک سے فلاح کی امید ہے، ورنہ نہیں۔ 5 شیطان اس کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈالنا چاہتا ہے اور عداوت اور بغض پیدا کرنے والا ہر کام حرام ہے۔ 6 اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روکنا چاہتا ہے۔ یہ بھی اس کی حرمت کی ایک وجہ ہے۔ 7 ” تو کیا تم باز آنے والے ہو ؟ “ یہ سوال کی صورت میں امر ہے اور امر فرض کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا صحابہ (رض) نے سن کر کہا ” اِنْتَھَیْنَا اِنْتَھَیْنَا “ یعنی ہم باز آگئے، ہم باز آگئے۔ چناچہ صحابہ نے شراب کے مٹکے توڑ دیے اور شراب گلیوں میں بہنے لگ گئی۔ اتنی صراحتوں کے باوجود کفار کے نمائندے کئی لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں شراب کہاں حرام ہے ؟ ” الْمَيْسِر “ علماء نے لکھا ہے کہ جس چیز میں بھی ہار جیت پر شرط لگائی جائے وہ جوا ہے، لاٹری، قسمت کی پڑی، انعامی بانڈ، انعامی معمے، انعامی سکیمیں سب جوئے کی قسمیں ہیں۔ کئی ظالم جوئے والی سکیموں پر عمرے یا حج کا انعام رکھ کر لوگوں کو پھنساتے ہیں، یاد رکھیں حرام مال اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا نہ حرام کے ساتھ کی ہوئی عبادت قبول ہے۔ انشورنش (بیمہ) سود اور جوئے کا بدترین مرکب ہے، بولی والی کمیٹی سراسر سود ہے اور شطرنج وغیرہ میں گو شرط نہ بھی لگائی جائے، پھر بھی یہ حرام ہے، کیونکہ یہ نماز سے غفلت کا سبب بنتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Linkage of Verses Earlier, considered abandonment of Halal things was prohibited. Prohibited now is the use of some Harm things. Commentary Creation of the Universe is for the Benefit of Human Beings Through these verses, the purpose is to tell that the Master of the Universe has created it to serve human beings. Everything in it has been appointed to take care of their wishes. They are the served ones in this Universe. There is only one restriction placed on them: Do not transgress the limits set by Allah when you benefit from what He has created. Abstaining from good and lawful things made Halal for you is mannerlessness and ingratitude; and the contravention of what has been prohibited in a certain form is disobedience and rebellion. A ser¬vant of Allah must make use of what has been created for him or her following the instructions of the Creator and Master. This is the ` abdiyyah (the state of being a slave of Allah, which requires total sub-mission to as related to Allah which is the highest possible achieve¬ment human beings can look forward to). The first verse (90) describes the prohibition of four things: (1) Drinking, (2) Gambling, (3) Idols and (4) Divining Arrows. Another verse on this subject in almost similar words has appeared in Surah al-Baqarah as well [ Ma&ariful-Qur&an, Volume I, Verse 2:219, Pages 539-553]. There too, as here, these four things have been called |"Rijs|" (filth). In the Arabic language, the word |"Rijs|" refers to something foul, which is disgusting for human taste. All four things mentioned here are, for anyone with commonsense and good taste, repulsive and disgusting. An Explanation of |"Al-Az lam|" One of the four things is Azlam which is the plural of Zalam. Azlam is the name of the arrows which were used to draw lots in gam¬bling, an Arab practice at that time. The custom was that ten people would get together as partners and slaughter a camel. Then, rather than distribute ten equal shares from the meat to each participant, they had a way of gambling with the exercise. They had ten arrows, out of which they would pick out seven and mark them out with signs indicating the number of some shares on each - some arrow would have one, others would have two or three. The three remaining ar¬rows were kept blank. They would put all these arrows in the quiver and give it a good shake. Then, for every participant, they would draw out one arrow from the quiver. If the arrow so drawn had a certain number of shares marked on it, the recepient of the arrow became de-serving of that many shares. Whoever drew a blank arrow in his name would remain deprived of a share. This is similar to many kinds of lot¬tery-based games and enterprises common today. Drawing lots in this manner is Qimar or gambling which is حَرَام haram according to the Qur&an. The Permissible Way of Drawing Lots However, there is one way of drawing lots which is permissible, and proved from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) According to this method, when the rights everyone has are equal and the shares too have been distributed equally, then, the shares can be determined by drawing lots. Let us take an example - a house has to be divided among four sharers so we come up with four equal shares in terms of the price. Now, we have to determine as to who keeps which share. If it cannot be done by mutual compromise and consent, it is also possi-ble that we can settle this by drawing lots whereby whoever gets a cer¬tain portion of the house as his share may have it. Or, the number of people eager to have something is one thousand, and the rights everyone has are equal, but the number of what has to be distributed is only one hundred. In this condition, the matter can be decided by drawing lots. As for the prohibition of the pagan custom of distributing meat by drawing of lots through divining arrows, it has already appeared in a verse of Surah al-Ma&idah itself, that is: وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ (and that you determine shares through the arrows - 5:3). In short, two out of the four things declared Harm in this verse, that is, ` Maisir& (gambling) and ` Azlam& (divining arrows), in terms of the outcome, are just the same. As for ` Ansab& (altar-stones), the word Al-Ansab is the plural of Nusub. It refers to what has been made to stand as an object of worship, whether an idol, a stone or tree. Physical and Spiritual Disorders Caused by Drinking and Gambling The main objective in this verse, as evident from the background of its revelation and the verse which follows it, is to indicate that drink¬ing and gambling, being agencies of corruption, have been made حَرَام har¬am. The addition of altar-stones or idols to this list is there for listen¬ers to understand that this matter of drinking and gambling is as serious a crime as the worship of idols. In a Hadith from Ibn Majah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: شَارِبُ الخمرِ کَعَابِدِ الوَثنِ , that is, one who drinks is (a crimi¬nal) like the one who worships idols. In some narrations, the words appear as: شَارِبُ الخَمرِ کَعَابدِ اللَّاتِ وَ العُزَّی ، that is, one who drinks is like the one who worships (the idols) Al-Laat and Al-&Uzza. In brief, by saying رِ‌جْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ that these things are filth, a work of Satan, taken up first were their spiritual ills. The sense is that indulgence in these activities is disgusting. This is a trap of Sa¬tan. Whoever walks in never walks out, only to become a victim of many more vices. Then, the command given was: فَاجْتَنِبُوهُ (Therefore, re¬frain from it) since the nature of these indulgences requires it. In the end it was said: لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (so that you may be successful). It means that one&s chances of succeeding and prospering in the present world and in the Hereafter depend on doing just that - abstain.

ربط آیات اوپر حلال چیزوں کے ترک خاص کی ممانعت تھی، آگے بعض حرام چیزوں کے استعمال کی ممانعت ہے۔ خلاصہ تفسیر اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو (بوجہ ان کو مضرتوں سے بچنے کے جو آگے مذکور ہیں) فلاح ہو (اور وہ مضرتیں دنیوی بھی ہیں اور دینی بھی جن کا بیان یہ ہے کہ) شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے آپس میں (برتاؤ میں) عداوت اور (دلوں میں) بغض واقع کر دے (چنانچہ ظاہر ہے کہ شراب میں تو عقل نہیں رہتی، گالی گلوچ دنگہ فساد ہوجاتا ہے، جس سے بعد میں بھی طبعاً کدورت باقی رہتی ہے، اور جوئے میں جو شخص مغلوب ہوتا ہے اس کو غالب پر غیظ ہوتا ہے، اور جب اس کو رنج ہوگا دوسرے پر بھی اس کا اثر پہنچے گا، یہ تو دنیوی مضرت ہوئی) اور (شیطان یوں چاہتا ہے کہ اسی شراب اور جوئے کے ذریعہ سے) اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے (جو کہ اللہ کی یاد کا سب سے افضل طریقہ ہے) تم کو باز رکھے (چنانچہ یہ بھی ظاہر ہے، کیونکہ شراب میں تو اس کے ہوش ہی بجا نہیں ہوتے اور قمار میں غالب کو تو سرور و نشاط اس درجہ ہوتا ہے کہ وہ اس میں غرق ہوتا ہے، اور مغلوب کو مغلوب ہونے کا رنج و اضمحلال اور پھر غالب آنے کی کوشش اس درجہ ہوتی ہے کہ اس سے فراغ نہیں ہوتا، یہ دینی مضرت ہوئی۔ جب ایسی بری چیزیں ہیں) سو (بتلاؤ) اب بھی باز آؤ گے ؟ اور تم (جمیع احکام میں) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہو اور (مخالفت حکم سے) احتیاط رکھو اور اگر (اطاعت سے) اعراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف (حکم کا) پہنچا دینا تھا (اور وہ اس کو بخوبی انجام دے چکے اور تم کو احکام پہنچا چکے اب تمارے پاس کسی عذر کی گنجائش نہیں رہی) ۔ معارف و مسائل کائنات کی تخلیق انسان کے نفع کے لئے ہے ان آیات میں بتلانا یہ منظور ہے کہ مالک کائنات نے ساری کائنات کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا فرمایا، اور ہر ایک چیز کو انسان کی خاص خاص خدمت پر لگا دیا ہے، اور انسان کو مخدوم کائنات بنایا ہے، انسان پر صرف ایک پابندی لگا دی کہ ہماری مخلوقات سے نفع اٹھانے کی جو حدود ہم نے مقرر کردی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، جن چیزوں کو تمہارے لئے حلال طیب بنادیا ہے ان سے احتراز کرنا بےادبی اور ناشکری ہے اور جن چیزوں کے کسی خاص استعمال کو حرام قرار دے دیا ہے، اس میں خلاف ورزی کرنا نافرمانی اور بغاوت ہے، بندہ کا کام یہ ہے مالک کی ہدایت کے مطابق اس کی مخلوقات کا استعمال کرے، اسی کا نام عبدیت ہے۔ پہلی آیت میں شراب، جوا، بت اور جُوئے کے تیر، چار چیزوں کی حرمت کا بیان ہے۔ اسی مضمون کی ایک آیت تقریباً ایسے ہی الفاظ کے ساتھ سورة بقرہ میں بھی آچکی ہے۔ (آیت) یایھا الذین امنوا۔ ، اس میں ان چار چیزوں کو رجس فرمایا، رجس عربی زبان میں ایسی گندی چیز کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کی طبعیت کو گھن اور نفرت پیدا ہو، یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ذرا بھی عقل سلیم اور طبع سلیم رکھتا ہو تو خود بخود ہی ان چیزوں سے اس کو گھن اور نفرت ہوگی۔ ازلام کی تشریح ان چار چیزوں میں سے ایک ازلال ہے، جو زلم کی جمع ہے، ازلام ان تیروں کو کہا جاتا ہے جن پر قرعہ اندازی کرکے عرب میں جوا کھیلنے کی رسم جاری تھی، جس کی صورت یہ تھی کہ دس آدمی شرکت میں ایک اونٹ ذبح کرتے تھے، پھر اس کا گوشت تقسیم کرنے کے لئے بجائے اس کے کہ دس حصے برابر کرکے تقسیم کرتے اس میں اس طرح جوا کھیلتے کہ دس عدد تیروں میں سات تیروں پر کچھ مقررہ حصوں کے نشانات بنا رکھتے تھے، کسی پر ایک کسی پر دو یا تین اور تین تیروں کو سادہ رکھا ہوا تھا، ان تیروں کو ترکش میں ڈال کر ہلاتے تھے، پھر ایک ایک شریک کے لئے ایک ایک تیر ترکش میں سے نکالتے، اور جتنے حصوں کا تیر کسی کے نام پر نکل آئے وہ ان حصوں کا مستحق سمجھا جاتا تھا، اور جس کے نام پر سادہ تیر نکل آئے وہ حصہ سے محروم رہتا تھا، جیسے آج کل بہت سی قسمیں لاٹری کے طریقہ پر بازاروں میں جاری ہیں، اس طرح کی قرعہ اندازی، قمار یعنی جوا ہے جو ازروئے قرآن کریم حرام ہے۔ قرعہ اندازی کی جائز صورت ہاں ایک طرح کی قرعہ اندازی جائز اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے وہ یہ کہ جب حقوق سب کے مساوی ہوں اور حصے بھی مساوی تقسیم کر دئیے گئے ہوں پھر ان میں سے حصوں کی تعیین بذریعہ قرعہ اندازی کرلی جائے، مثلاً ایک مکان چار شریکوں میں تقسیم کرنا ہے تو قیمت کے لحاظ سے چار حصے برابر لگا لئے گئے، اب یہ تعین کرنا کہ کونسا حصہ کس شریک کے پاس رہے، اس کا تعیین اگر آپس میں مصالحت و رضا مندی سے نہ ہو تو یہ بھی جائز ہے کہ قرعہ اندازی کرکے جس کے نام پر جس طرف کا حصہ نکل آئے اس کو دے دیا جائے، یا کسی چیز کے خواہش مند ایک ہزار ہیں، اور سب کے حقوق مساوی ہیں مگر جو چیز تقسیم کرنا ہے وہ کل سو ہیں، تو اس میں قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ازلام کی قرعہ اندازی کے ذریعہ گوشت تقسیم کرنے کی جاہلانہ رسم کی حرمت سورة مائدہ ہی کی آیت میں پہلے آچکی ہے۔ (آیت) وان تستقسموا بالازلام۔ خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں جن چار چیزوں کا حرام ہونا مذکور ہے ان میں سے دو یعنی میسر اور الازلام نتیجہ کے اعتبار سے ایک ہی ہیں، باقی دو میں ایک انصاب ہے جو نصب کی جمع ہے، ایسے چیز کو نصب کہا جاتا ہے جو عبادت کے لئے کھڑی کی گئی ہو خواہ بت ہو یا کوئی درخت پتھر وغیرہ۔ شراب اور جوئے کے جسمانی اور روحانی مفاسد آیت کے شان نزول اور اس کے بعد والی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اصل مقصود دو چیزوں کی حرمت اور مفاسد کا بیان کرنا ہے، یعنی شراب اور جوا، انصاب یعنی بتوں کا ذکر اس کے ساتھ اس لئے ملا دیا گیا ہے کہ سننے والے سمجھ لیں کہ شراب اور جوئے کا معاملہ ایسا سخت جرم ہے جیسے بت پرستی۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا شارب الخمر کعابدالوثن۔ یعنی ” شراب پینے والا ایسا مجرم ہے جیسے بت کو پوجنے والا “۔ اور بعض روایات میں ہے : شارب الخمر کعابد الات والعزی۔ ” یعنی شراب پینے والا ایسا ہے جیسا لات و عزی کی پرستش کرنے والا “۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہاں شراب اور جوئے کی شدید حرمت اور ان کی روحانی اور جسمانی خرابیوں کا بیان ہے، اول روحانی اور معنوی خرابیاں رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ کے الفاظ میں بیان کیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ یہ چیزیں فطرت سلیمہ کے نزدیک گندی قابل نفرت چیزیں اور شیطانی جال ہیں، جن میں پھنس جانے کے بعد انسان بیشمار مفاسد اور ملک خرابیوں کے گڑھے میں جاگرتا ہے، یہ روحانی مفاسد بیان فرمانے کے بعد حکم دیا گیا فاجْتَنِبُوْهُ کہ جب یہ چیزیں ایسی ہیں تو ان سے اجتناب کرو اور پرہیز کرو۔ آخر میں فرمایا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، جس میں بتلا دیا گیا کہ تمہاری فلاح دنیا و آخرت اسی پر موقوف ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرتے رہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ ٩٠ خمر أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» ( خ م ر ) الخمر ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر ۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ يسر اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ نصب نَصْبُ الشیءِ : وَضْعُهُ وضعاً ناتئاً كنَصْبِ الرُّمْحِ ، والبِنَاء والحَجَرِ ، والنَّصِيبُ : الحجارة تُنْصَبُ علی الشیءِ ، وجمْعُه : نَصَائِبُ ونُصُبٌ ، وکان للعَرَبِ حِجَارةٌ تعْبُدُها وتَذْبَحُ عليها . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] ، قال : وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ [ المائدة/ 3] وقد يقال في جمعه : أَنْصَابٌ ، قال : وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة/ 90] والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] وأَنْصَبَنِي كذا . أي : أَتْعَبَنِي وأَزْعَجَنِي، قال الشاعرُ : تَأَوَّبَنِي هَمٌّ مَعَ اللَّيْلِ مُنْصِبٌوهَمٌّ نَاصِبٌ قيل : هو مثل : عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . والنَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران/ 23] ، فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] ويقال : نَاصَبَهُ الحربَ والعَداوةَ ، ونَصَبَ له، وإن لم يُذْكَر الحربُ جَازَ ، وتَيْسٌ أَنْصَبُ ، وشَاةٌ أو عَنْزَةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبُ القَرْنِ ، وناقةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبَةُ الصَّدْرِ ، ونِصَابُ السِّكِّين ونَصَبُهُ ، ومنه : نِصَابُ الشیءِ : أَصْلُه، ورَجَعَ فلانٌ إلى مَنْصِبِهِ. أي : أَصْلِه، وتَنَصَّبَ الغُبارُ : ارتَفَع، ونَصَبَ السِّتْرَ : رَفَعَهُ ، والنَّصْبُ في الإِعراب معروفٌ ، وفي الغِنَاءِ ضَرْبٌ منه ( ن ص ب ) نصب الشئیء کے منعی کسی چیز کو کھڑا کرنے یا گاڑ دینے کے ہیں مثلا نیزے کے گاڑنے اور عمارت یا پتھر کو کھڑا کرنے پر نصب کا لفظ بولا جاتا ہے اور نصیب اس پتھر کو کہتے ہیں جو کسی مقام پر ( بطور نشان کے ) گاڑ دیا جاتا ہے اس کی جمع نصائب ونصب آتی ہے ۔ جاہلیت میں عرب جن پتھروں کی پوجا کیا کرتے اور ان پر جانور بھینٹ چڑہا یا کرتے تھے ۔ انہیں نصب کہا ۔ جاتا تھا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] جیسے وہ عبارت کے پتھروں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ [ المائدة/ 3] اور وہ جانور بھی جو تھا ن پر ذبح کیا جائے ۔ اس کی جمع انصاب بھی آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة/ 90] اور بت اور پا سے ( یہ سب ) ناپاک کام اعمال شیاطین سے ہیں ۔ اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ وانصبنی کذا کے معنی کسی کو مشقت میں ڈالنے اور بےچین کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 427 ) تاو بنی ھم مع اللیل منصب میرے پاس رات کو تکلیف وہ غم بار بار لوٹ کر آتا ہے ۔ اور عیشۃ راضیۃ کی طرح ھم ناصب کا محاورہ بھی بولا جاتا ہے ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جانے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] تو جب فارغ ہوا کرو ۔ تو عبادت میں محنت کیا کرو النصب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران/ 23] بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ۔ اور ناصبۃ الحر ب والعدۃ ونصب لہ کے معنی کسی کے خلاف اعلان جنگ یا دشمنی ظاہر کرنے کے ہیں ۔ اس میں لفظ حر ب یا عداوۃ کا حزف کر نا بھی جائز ہے تئیس انصب وشاۃ او عنزۃ نصباء کھڑے سینگوں والا مینڈ ھایا بکری ۔ ناقۃ نصباء ابھرے ہوئے سینہ والی اونٹنی نصاب السکین ونصبۃ کے معنی چھری کے دستہ ہیں ۔ اور اسی سے نصاب الشئی کا محاورہ ہے جس کے معنی اصل الشئی ہیں ۔ تنصب الغبار غبار کا اڑنا نصب الستر پر دہ اٹھانا نصب ( اعراب زبر کو کہتے ہیں اور نصب ایک قسم کا راگ بھی ہے ۔ زلم ( الأزلام) ، جمع زلم بفتح الزاي وضمّها مع فتح اللام وهو القدح بکسر القاف، اسم جامد لسهم لا ريش له ولا نصل . رجس الرِّجْسُ : الشیء القذر، ، والرِّجْسُ يكون علی أربعة أوجه : إمّا من حيث الطّبع، وإمّا من جهة العقل، وإمّا من جهة الشرع، وإمّا من کلّ ذلک کالمیتة، فإنّ المیتة تعاف طبعا وعقلا وشرعا، والرِّجْسُ من جهة الشّرع : الخمر والمیسر، وقیل : إنّ ذلک رجس من جهة العقل، وعلی ذلک نبّه بقوله تعالی: وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] ، لأنّ كلّ ما يوفي إثمه علی نفعه فالعقل يقتضي تجنّبه، وجعل الکافرین رجسا من حيث إنّ الشّرک بالعقل أقبح الأشياء، قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] ، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] ، قيل : الرِّجْسُ : النّتن، وقیل : العذاب ( ر ج س ) الرجس پلید ناپاک جمع ارجاس کہا جاتا ہے ۔ جاننا چاہیے کہ رجس چار قسم پر ہے ( 1 ) صرف طبیعت کے لحاظ سے ( 2 ) صرف عقل کی جہت سے ( 3 ) صرف شریعت کی رد سے ( 4 ) ہر سہ کی رد سے جیسے میتہ ( مردار سے انسان کو طبعی نفرت بھی ہے اور عقل و شریعت کی در سے بھی ناپاک ہے رجس جیسے جوا اور شراب ہے کہ شریعت نے انہیں رجس قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ چیزیں عقل کی رو سے بھی رجس ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219]( مگر ) فائدہ سے ان کا گناہ ( اور نقصان ) بڑھ کر ۔ میں اسی معنی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ جس چیز کا نقصان اس کے نفع پر غالب ہو ضروری ہے کہ عقل سلیم اس سے مجتنب رہنے کا حکم دے اسی طرح کفار کو جس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کرتے ہیں اور شرک عند العقل قبیح ترین چیز ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جس کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تو اس ( سورت ) نے ان کی ( پہلی ) خباثت پر ایک اور خباثت پڑھادی ۔ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] اور خدا ( شرک وکفر کی ) نجاست انہیں لوگون پر ڈالتا ہے جو ( دالائل وحدانیت ) میں عقل کو کام میں نہیں لاتے ۔ بعض نے رجس سے نتن ( بدبو وار ) اور بعض بت عذاب مراد لیا ہے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو اجتناب ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه . قال تعالیٰ في النار : وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] ، وذلک إذا أطلق فقیل : جنب فلان فمعناه : أبعد عن الخیر، وذلک يقال في الدعاء في الخیر، وقوله عزّ وجل : وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] ، من : جنبته عن کذا أي : أبعدته، وقیل : هو من جنبت الفرس، كأنما سأله أن يقوده عن جانب الشرک بألطاف منه وأسباب خفيّة . الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔ جنب بنوفلان بےشیر شدن قوم جنب فلان خیرا ۔ فلاں خیر سے محروم ہوگیا ۔ جنب شر ا ۔ وہ شر سے دور رہا ۔ چناچہ قرآن میں نار جہنم کے متعلق ہے :۔ وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] اور جو بڑا پرہیزگار ہے وہ اس ( نار) سے بچالیا جائے گا ۔ جو اپنا مال دیتا ہ تاکہ پاک ہو ۔ لیکن اگر مطلق یعنی بغیر کسی متعلق کے جنب فلان ؛ کہا جائے تو اس کے معنی خیر سے محروم ہونا ہی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح دعائے خیر کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی برستش کرنے لگیں بچائے رکھ ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

شراب کی تحریم قول باری ہے (انما الخمر والمیسر والا نصاب والا زلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو) آیت دو وجوہ سے شراب کی تحریم کی مقتضی ہے ۔ اول قول باری (رجس) اس لئے شرع میں رجس اس چیز کا نام ہے جس سے اجتناب لازم ہوتا ہے۔ نیز رجس کا اسم ہر اس چیز پر واقع ہوتا ہے جو نجس اور گندہ ہو۔ اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔ شراب کو رجس کا نام دنیا اس سے پرہیز کے لزوم کا موجب ہے۔ دوم قول باری (فاجتنبوہ) یہ امر کا صیغہ ہے اور امر ایجاب کا مقتضی ہے۔ اس طرح آیت دو وجوہ سے شراب کی تحریم کے حکم پر مشتمل ہے۔ شراب انگور کے اس خام رس کو کہتے ہیں جس میں تیزی آ گئی ہو۔ اس طرح کے رس کے شراب ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ بعض دوسری حرام مشروبات پر بھی تشبیہ کے طور پر شراب کا اسم واقع ہوتا ہے مثلاً فصیح جو گدر کھجور یا خشک کھجور یعنی خرما کو پانی میں بھگو کر بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ ان دونوں قسموں کو خمر کے اسم کا اطلاق شامل نہیں ہوتا۔ خمر کے مفہوم کے بارے میں بہت سی روایات منقول ہیں۔ مالک بن مغول نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : شراب کی حرمت نازل ہوئی اس وقت مدینہ منورہ میں اس نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ ١ ؎ تحریم خمر کے بارے میں ابوبکر جصاص کی تحقیق ہے۔ وہ امام ابوحنیفہ کے قول پر مبنی ہے لیکن مفتی بہ قول امام ابو یوسف اور امام محمد کا ہے۔ یہ جمہور کے مطابق ہے۔ مترجم۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ مدینہ منورہ میں تقیع البسر (گدر کھجور کو پانی میں ملا کر بنایا جانے الا مشروب) اور نقیع التمر (خشک کھجور کو پانی میں ملا کر بنایا جانے والا مشروب) اور ا ن سے بنائی جانے والی تمام دوسری مشروبات ہوتی تھیں۔ حضرت ابن عمر ا نلوگوں میں سے نہیں تھے جن سے اشیاء کے ناموں کے لغوی معنی مخفی ہوں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ کھجور سے بنائی جانے والی مشروبات ان کے نزدیک خمر کے نام سے موسوم نہیں ہوتی تھیں۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ شراب کی تحریم نازل ہوئی اور یہ شراب فضیخ ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہ بتایا کہ فضیخ کو شراب کہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس نے اسے شراب کا نام اس لئے دیا تھا کہ حرام مشروب تھا۔ حمید الطویل نے حضرت انس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں ” میں ابوطلحہ کے گھر میں ابوعبیدہ، ابی بن کعب اور سہیل بن بیضاء کو شراب پلا رہا تھا کہ ہمارے پاس سے ایک آدمی گزرا اس نے کہا کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ خدا کی قسم ! ان لوگوں نے یہ سن کر یہ نہیں کہا کہ ہمیں پتا لگا لینے دو ۔ بلکہ یہ کہا۔ انس ! تمہارے برتن میں جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے اسے گرا دو ۔ “ اس کے بعد ان لوگوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا یہاں تک کہ اپنے خلاق حقیقی سے جا ملے، اس زمانے میں مہارے پاس جو شراب ہوتی تھی وہ گدر کھجور اور خشک کھجور سے تیار کی جاتی تھی۔ “ حضرت انس نے یہ بتایا کہ جس دن شراب کی حرمت ہوتی ہے اس دن یعنی اس زمانے میں گدر کھجور اور خشک کھجور سے تیار شدہ مشروب کو شراب کا نام دیا جاتا تھا۔ اس میں یہ گنجائش ہے کہ درج بالا دونوں قسم کے مشروب حرام تھے اس لئے حضرت انس نے انہیں خمر کا نام دیا، اور ان کی مراد یہ تھی کہ لوگ انہیں شراب کا درجہ دیتے تھے اور شراب کی طرح سمجھتے تھے یہ مراد نہیں کہ حقیقت میں بھی ان کا نام شراب تھا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ قتادہ نے حضرت انس سے یہی روایت نقل کی ہے جس میں حضرت انس نے کہا ہے کہ اس زمانے میں ہم لوگ بایں معنی انہیں شراب شمار کرتے تھے کہ انہیں شراب کی طرح سمجھتے تھے۔ ثابت نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا :” ہم پر جب شراب حرام ہوئی توی اس زمانے میں ہمارے ہاں انگوری شراب بہت کم ہوتی تھی عام طور پر گدر کھجور اور خشک کھجور کی بنی ہوئی شراب استعمال کی جاتی تھی۔ اس روایت کے معنی بھی یہی ہے کہ اس زمانے میں یہی دو مشروب ہوتے تھے تاہم لوگ انہیں اس لحاظ سے خمر کا درجہ دیتے تھے کہ پینے پلانے نیز نشہ اور سرور کے حصول کے لئے انہیں استعمال کیا جاتا تھا۔ مختار بن فلفل نے کہا ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے مشروبات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا :” شراب حرام کردی گئی، یہ انگور کے رس، خشک کھجور، شہد، گندم، جو اور باجرہ کی بنتی ہے۔ ان میں سے جو چیز نشہ آور بن جائے وہ شراب ہے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے درج بالا چیزوں کو اس وقت خمر کیا جائے گا جب ان کے اندر نشہ آوری کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ اگر اس کا یعنی نشہ آوری کی کیفیت نہ پیدا ہو تو وہ خمر نہیں کہلائے گی۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :” شراب حرام کردی گئی ہے یہ پانچ چیزوں کی بنتی ہے۔ انگور، خشک کھجور، شہد، گندم اور جو سے ، خمر وہ ہے جو عقل پر پردہ ڈال اور اس پر اثر انداز ہوجائے۔ “ یہ روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت عمر نے ان چیزوں سے بنی ہوئی مشروبات کو اس وقت خمر کا نام دیا ہے جب زیادہ استعمال کرلینے سے یہ نشہ پیدا کردیں۔ اس لئے کہ آپ نے فرمایا ” والخمر صاخا مرالعقل (خمروہ مشروب ہے جو عقل پر اثر انداز ہوجائے۔ ) سمری بن اسماعیل سے روایت کی گئی ہے، انہوں نے شعبی سے کہ انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا : گندم کی شراب ہوتی ہے، جو کی بھی شراب ہوتی ہے، زبیب یعنی خشک انگور کی بھی شراب ہوتی ہے، خشک کھجور کی بھ شراب ہوتی ہے اور شہد کی بھی شراب ہوتی ہے۔ “ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایسی تمام مشروبات جن کا تعلق درج بالا اصناف سے ہو شراب ہیں۔ بلکہ آپ نے یہ بتایا ہے کہ ان چیزوں کی شراب ہوتی ہے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ نے یہ مراد لی ہو کہ ان میں سے جو چیزیں نشہ آور ہوں وہ شراب ہیں اور اس کیفیت کے پائے جانے کی صورت میں حرام ہیں۔ آپ کی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ یہ ان مشروبات کا نام ہے جو ان اصناف سے تیار کی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ اس روایت کی اسناد سے زیادہ صحیح اسناد کے ساتھ وہ روایتیں ہیں جو اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ شراب کا تعلق ان اصناف سے ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت سنائی ، انہیں ابو دائود نے، انہیں موسیٰ بن اسمایعل نے، انہیں ابان نے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو کثیر سے، (یہ یزید بن عبدالرحمٰن ہیں) انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الخمر من ھاتین الشجرتین النخلۃ والغب شراب ان دونوں درختوں یعنی کھجور اور انگور کی ہوتی ہے۔ ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبید بن حاتم نے، انہیں ابن عماد الموصلی نے، انہیں عبدہ بن سلیمان نے سعید بن ابی عروبہ سے، انہوں نے عکرمہ بن عمار سے، انہوں نے ابو کثیر سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الخمر من ھاتین الشجرتین النخلی والعنب۔ یہ روایت اپنی سند کی صحت کی بنا پر ان تمام روایات کا خاتمہ کردیتی ہے جن کا ذکر اس کتاب میں گزر چکا ہے۔ یہ روایت ان تمام مشروبات سے خمر کے اس کی نفی کو متضمن ہے جو ان دو درختوں یعنی کھجور اور انگور کے سوا اور کسی چیز سے تیار کی گئی ہوں اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول (الخمر) اسم جنس ہے جو ان تمام مشروبات کا حامل ہے جنہیں خمر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات منتقی ہوگئی کہ ان دو درختوں کے علاوہ کسی اور چیز سے بنے ہوئے مشروب کو خمر کے نام سے موسوم کیا جائے۔ یہ روایت اس امر کیمقتضی ہے کہ خمر کے نام سے صرف وہی مشروب موسوم ہوگا جو ان دو درختوں سے نکلا ہو۔ اس کا اطلاق اس رس پر ہوتا ہے جو ابتدا میں ان سے نکلتا ہے اور نشہ آور ہوتا ہے ۔ یہ وہ خام رس یا شیرہ ہوتا ہے جس میں سختی اور تیزی پید اہو گئی ہو۔ اس میں گدر کھجور اور خشک کھجور سے بنا وہا مشروب بھی شامل ہے جسے ابھی آگ پر پکایا نہ گیا ہو۔ اس لئے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول (منھما) اس امر کا مقتضی ہے کہ اس سے مراد وہ رس ہے جو ابتدا میں ان دونوں درختوں سے نکلا ہو نیز نشہ آور بھی ہو۔ اب اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس مشروب کے خمر ہونے پر سب کا اتفاق سامنے آیا ہے یہ وہ مشروب ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے یعنی انگور کا خام رس جس میں تیزی آ گئی ہو اور جھاگ مادر یا ہو۔ جب خمر کے یہی معنی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے تو اس صورت میں یہ احتمال ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ (الخمر من ھاتین الشجرتین) کا یہ مفوہم ہو کہ آپ نے ان دو درختوں میں سے ایک مرادلی ہے۔ یعنی ان دونوں میں سے ایک سے شراب نکلتی ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (یامعشر الجن والانس الم یاتکم رسل منکم اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے ؟ حالانکہ رسولوں کی آمد صرف گروہ انس سے ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے (یخرج منھما اللولووالمرجان ان دونوں (میٹھے اور نمکین سمندروں) سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں) حالانکہ موتی اور مونگا ان میں سے ایک سے برآمد ہوتے ہیں۔ خمر کے حقیقی معنی وہ ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر خمر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جو شخص بلا ضرورت شراب کو حلال سمجھتا ہے وہ کافر ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص بلا ضرورت شراب کو حلال سمجھتا ہے وہ کافر ہے۔ نیز سب کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ خمر کے سوا باقی ماندہ حرام مشروبات کو حلال سمجھنے والا کفر کی علامت یعنی تکفیر کا مستحق نہیں ہوتا۔ اگر یہ دوسری مشروبات بھی خمر ہوتیں تو یقینا ان کو حلال سمجھنے الا کافر ہوتا اور اس شخص کی طرح خارج اسلام ہوتا جو انگور کے خام رس کو حلال سمجھتا جس میں تیزی آ گئی ہو اور وہ جھاگ مار رہا ہو۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ خمر کا اسم حقیقت میں صرف انگور کے رس کو شامل ہے جس کو ابھی ہم نے بیان کیا ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو تقویٰ اور پرہیز گاری صرف اسی بات میں سمجھتے ہیں کہ نیند کی تحریم ثابت کرنے پر پورا زور علم صرف کریں لیکن یتیموں کا مال کھانے اور حرام خوری سے اپنا دامن نہ بچائیں ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ کی کتاب۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی صحیح احادیث خمر کی تفسیر کے سلسلے میں آثار و روایت، لغت کے مشوہر اقوال، قیاس و نظر اور اہل عقول کے عقلی تقاضے یہ تمام کے تمام اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو وہ خمر ہے۔ قرآن مجید کی آیت (تتخذون منہ سکراً تم اس میں سے نشہ کی چیزیں بناتے ہو) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انگور سے بنیہوئی نشہ کی چیز کھجور سے بنی ہوئی نشہ کی چیز کی طرح ہے۔ اس طرح اس قائل نے دعویٰ کیا ہے کہ اللہ کی کتاب اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ چیز جو نشہ آور ہو وہ خمر ہے۔ پھر اس نے اس آیت کی تلاوت کی ہے حالانکہ درج بالا آیت میں نہ یہ بات موجود ہے کہ سکو یعنی نشہ کی چیز کیا ہوتی ہے اور نہ ہی یہ بات کہ نشہ کی چیز خمر ہوتی ہے۔ اگر نشہ کی چیز فی الحقیقت خمر ہے تو پھر یہ وہ خمر ہوگی جو انگور کے رس سے تیا رہوتی ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (ومن ثمرات النخیل والاعناب اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے) اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ آیت اس سکر کی اباحت کی مقتضی ہے جس کا ذکر آیت میں ہوا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے انگور اور کھجور کے منافع اور فوائد گنوائے ہیں جس طرح اس نے چوپایوں اور ان سے پیدا ہونے والے دودھ کے فوائد گنوائے ہیں۔ اس سلئے آیت میں سکر کی تحریم پر کوئی دلالت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ سکر خمر ہے۔ اگر آیت کی دلالت اس پر ہو بھی جاتی تو اس صورت میں بھی اس بات پر اس کی دلالت نہ ہوتی کہ شراب ہراس چیز کی ہوتی ہے جو نشہ پیدا کرتی ہے۔ اس لئے کہ آیت میں انگوروں کا ذکر ہے جس کے رس سے شراب تیار کی جاتی ہے۔ اس لئے کتاب اللہ کی دلالت کے بارے میں اس قائل کا دعویٰ درست نہیں ہوا۔ اس قائل نے اس سلسلے میں ان احادیث و آثار کا ذکر کیا ہے جن کا ہم اس سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات اور سلف کے اقوال کے تحت ذکر کر آئے ہیں ہم نے ان احادیث و آثار کی توجیہ بھی وہیں بیان کردی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان احادیث کا بھی ہم نے ذکر کردیا ہے جن میں آپ نے فرمایا ہے (کل مسکر خمرء کل مسکر حرام، کل شراب اسکرفھو حرام، وما اسکرکثیرہ فقلیلہ حرام۔ ہر نشہ آور چیز شراب ہے، ہر نشہ آور چیز حرام ہے، ہر ایسا مشروب جو نشہ آور ہو وہ حرام ہے۔ نیز ہر وہ چیز جسے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بنا پر نشہ پیدا ہوجاتا ہے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے) اور ان ہی جیسی دوسری روایات۔ ان تمام روایات میں حرمت کا حکم اس حالت پر محمول ہے جن میں مذکورہ چیزوں میں نشہ آوری کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ اگر یہ کیفیت موجود نہ ہو تو اس صورت میں ان چیزوں کے ساتھ حرمت کے حکم کا تعلق نہیں ہوگا۔ ہماری یہ تاویل ان روایات کی ان دوسری روایات کے ساتھ تطبیق کر دے گی جو ان چیزوں کے خمر ہونے کی نفی کرتی ہیں، نیز اجماع کی دلالت کے ساتھ بھی ان روایات کی تطبیق ہوجائے گی۔ سلف کی ایک جماعت سے تیز قسم کے نیند پینے کی تواتر کے ساتھ روایات موجود ہیں۔ ان میں حضرت عمر حضرت عبد اللہ، حضرت ابوالدردآء اور حضرت بریدہ اور دیگر حضرات شامل ہیں جن کا ہم نے اپنی تصنیف ” کتاب الاشربۃ میں ذکر کردیا ہے۔ کچھ اور روایات ہیں جن میں مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیز یعنی گاڑھے نبیذ کا استعمال کیا تھا۔ اگر اس قائل کی بات درست تسلیم کرلی جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ مذکورہ بالا حضرات نے (نعوذ باللہ) خمر یعنی شراب کا استعمال کیا تھا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں مطین نے، انہیں احمد بن یونس نے، انہیں ابوبکر بن عیاش نے ابکلی سے، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (کل مسکر حرام ہر نشہ آور چیز حرام ہے) راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عباس سے پوچھا :” حضرت یہ نبیذ جو ہم پیتے ہیں ہمارے اندر سکر کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ “ حضرت ابن عباس نے فرمایا : بات یہ نہیں ہے، اگر تم سے کوئی شخص نوپیالے پی لے اور اسے نشہ نہ آئے تو یہ مشروب حلال ہے۔ اگر دسویں پیالے پر نشہ آ جائے تو وہ حرام ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں بشرین موسیٰ نے، انہیں ہودہ نے انہیں عوف بن سنان نے ابوالحکم سے، انہوں نے اشعری قبیلہ کے ایک شخص سے، انہوں نے الاشعری سے وہ کہتے ہیں :” مجھے اور معاذ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا، میں نے عرض کیا :” اللہ کے رسول ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمیں ایسی سر زمین کی طرف بھیج رہے ہیں جہاں کچھ مشروبات رائج ہیں۔ ایک مشروب یتع ہے جو شہد سے تیار کیا جاتا ہے۔ ایک مزر ہے جو باجرہ اور جو سے تیار ہوتا ہے، اس میں تیزی آ جاتی ہے جس کی بنا پر وہ نشہ آور بن جاتا ہے۔ “ حضرت اشعری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختصر مگر جامع قسم کے الفاظ کہنے کی صفت عطا فرمائی تھی۔ چناچہ میری بات سن کر آپ نے فرمایا (انما حرم المسکر الذی یسکر عن ا لصلوۃ صرف وہی مشروب حرام ہے جو مسکر یعنی نشہ آور ہو، جو پینے والے کو نماز سے مدہوش رکھتا ہو۔ ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں یہ بیان فرما دیا کہ صرف وہی مشربو حرام ہے جو نشہ کا موجب ہو۔ جو مشروب اس طرح کا نہ ہو وہ حرام نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن زکریا العلائی نے، انہیں عباس بن بکار نے، انہیں عبدالرحمٰن بن بشیر الغطفافی نے ابواسحق سے، انہوں نے الحارث سے، انہوں نے حضرت علی سے ، وہ فرماتے ہیں : میں نے حجتو الوداع کے سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشروبات کے متعلق دریافت کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (حرام الخمر بعینھا والسکر من کل شراب شراب بعینہ حرام ہے اور ہر وہ مشروب بھی حرام ہے جو سکر یعنی نشہ کا باعث ہو) اس حدیث میں بھی شراب کے سوا حرام مشروبات کا بھی بیان ہے، یہ وہ مشروبات ہیں جو نشہ کا موجب ہوتی ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں مسدد نے، انہیں ابوالاحوص نے، انہیں سماک بن حرب نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابوہردہ بن نیار سے وہ کہتے ہیں : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے (اشربوا فی الظروف ولا تسکروا۔ برتنوں میں ڈال کر پیو لیکن نشہ میں نہ آئو) آپ کا (اشربوا ) کا حکم اس نہی سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے آپ نے برتنوں میں ڈال کر پینے سے منع فرما دیا تھا، اس حکم کے ذریعے آپ نے اس کی اباحت کردی۔ یہ تو واضح ہے کہ آپ کی اس سے مراد ہر وہ مشروب ہے جس کی کثیر مقدار مسکر ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا درست نہیں ہوتا :” پانی پیو لیکن نشہ میں نہ آئو “ اس لئے کہ پانی پینے کی وجہ سے کسی صورت میں بھی نشہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس قول سے آپ کی مراد یہ تھی کہ جس مشروب کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار کی اباحت ہے۔ صحابہ کرام سے تیز یعنی گاڑھے نبیذ پینے کی جو روایات ہیں ہم نے ان میں سیا کثر کا ذکر اپنی صنیف ” کتاب الاشربہ “ میں کردیا ہے۔ یہاں بھی ہم چند روایات کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ۔ انہیں حسین بن جعفر الفتات نے، انہیں یزید بن مہران الخباز نے، انہیں ابوبکر بن عیاش نے ابوحصین سے اور اعمش نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ اور اسود سے، وہ کہتے ہیں کہ ” ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے گھر جایا کرتے تھے۔ آپ ہمیں تیز یعنی گاڑھا نبیذ پینے کے لئے دیتے تھے۔ “ ہمیں عبداللہ بن حسین کرخی نے روایت بیان کی، انہیں ابوعوان الفرضی نے، انہیں احمد بن منصور الرمادی نے، انہیں نعیم بن حماد نے، وہ کہتے ہیں :” ہم کوفہ میں یحییٰ بن سعید القطان کے پاس موجود تھے۔ وہ ہمیں تحریم نبیذ کے بارے میں بتا رہے تھے، اتنے میں ابوبکر بن عیاش آئے اور آ کر یحییٰ بن سعید کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کہا :” اولچے ! خاموش ہو جائو۔ “ ہمیں اعمش بن ابراہیم نے علقمہ سے روایت سنائی ہے جس میں انہوں نے کہا : ہم نے عبداللہ بن مسعود کے پاس گاڑھا نبیذ پیا تھا جس کے آخری حصے میں کسر پیدا کرنے کی خاصیت موجود تھی۔ “ ہمیں ابو اسحق نے عمر و بن میمون سے روایت سنائی ہے وہ کہتے ہیں :” جب حضرت عمر وحشی کے نیزے سے زخمی ہوگئے تھے تو اس وقت میں آپ کے پاس گیا، میری موجودگی میں آپ کے لئے نبیذ کا مشروب لایا گیا جسے آپ نے پی لیا۔ “ وہ کہتے ہیں : ابوبکر بن عیاش نے یحییٰ بن سعید القطان سے جو یہ کہا تھا کہ ” بچے ! چپ ہو جائو “ اس سے ہمیں بڑا تعجب ہوا۔ “ اسرائیل نے ابواسحٰق سے روایت کی ہے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے سعید اور علقمہ سے کہ ایک بدو نے حضرت عمر کے مشروب میں سے پی لیا، حضرت عمر نے حد کے طور پر کوڑے لگائے۔ بدو نے کہا کہ میں نے تو آپ کے مشروب میں سے پیا تھا یہ سن کر حضرت عمر نے اپنا وہ مشروب منگایا اور اس میں پانی ملا کر اس کی تیزی ختم کردی اور پھر اس میں سے پی لیا۔ ساتھ ہی فرمایا : جس شخص کو اپنے مشروب میں تیزی اور سکر کا اندیشہ پیدا ہوجائے وہ اس میں پانی ملا کر اس کی تیزی ختم کر دے۔ ابراہیم نخعی نے حضرت عمر سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عمر نے اعربای کو سزا دینے کے بعد اس مشروب میں سے پیا تھا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں العمری نے، انہیں محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، انہیں عمر نے، انہیں عطاء بن ابی میمونہ نے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے، انہوں نے ام سلیم اور ابو طلحہ سے کہ یہ دونوں متقی اور کھجور سے تیار شدہ نبیذ پیا کرتے تھے۔ دونوں پھل ملا کر نبیذ تیار کرتے تھے۔ ابو طلحہ سے کہا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کے مشروب سے روکا ہے تو انہوں نے کہا کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اس لئے روکا تھا ک ہ اس زمانے میں بڑی غربت اور اشیائے صرف کی کمی تھی اس لئے آپ نے دو پھلوں کو ملا کر بنے ہوئے نبیذ سے بھی منع کردیا تھا۔ اس باب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایات منقول ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے ان کا ایک حصہ اپنی تصنیف ” کتاب الاشربۃ “ میں بیان کردیا ہے۔ یہاں ہم نے طوالت کے خوف سے ان کا اعادہ نہیں کیا۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ہمارے اصحاب جن مشروبات کی حلت کے قائل ہیں ان کی تحریم کے متعلق کسی صحابی یا تابعی سے کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ ان حضرات سے صرف نقیع زبیب اور نقیع تمر (منقی یا خشک کھجور کو پانی میں بھگو کر تیار کیا جانے والا مشروب) کی تحریم کی روایت منقول ہے۔ نیز ان حضرات سے اس شیرے کی تحریم بھی منقول ہے جو پکنے یا دھوپ میں رکھنے کے بعد تہائی حصہ نہ رہ جائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے جو علم سے عاری تھے، انہوں نے عوام الناس کے سامنے نبیذ کی تحریم کے متعلق شدت پسندی کا مسلک گھڑ کر پیش کردیا۔ اگر نبیذ کی حرمت ہوتی تو اس کے متعلق کثرت سے روایات منقول ہوتیں اس لئے عوام الناس کو اس سے شب و روز واسطہ پڑتا تھا کیونکہ اس وقت لوگ عام طور پر خشک اور گدر کھجور کا بنا ہوا نبیذ مشروب کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اگر ان کی تحریم ہوجاتی تو اس بارے میں اسی کثرت سے روایات منقول ہوتیں جس طرح تحریم خمر کے بارے میں منقول ہیں۔ بلکہ نبیذ کے استعمال کے ساتھ لوگوں کا واسطہ خمر کے استعمال کی بہ نسبت بڑھ کر تھا اس لئے کہ اس وقت لوگوں کے لئے شراب کی بڑی قلت تھی۔ اس وضاحت کے اندر ان لوگوں کے قول کے بطلان کی دلیل موجود ہے جو نبیذ کی تحریم کے قائل ہیں۔ ہم نے اپنی تصنیف ’ دکتاب الاشربہ “ میں اس مسئلے کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ میسر یعنی جوئے کے متعلق حضرت علی سے مروی ہے کہ شطرنج جوئے کی ایک شکل ہے۔ حضرت عثمان اور صحابہ کرام نیز تابعین عظام کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ میسر نرد کو کہتے ہیں (ایک قسم کا کھیل جس کو ارد شیر بابک شاہ ایران نے ایجاد کیا تھا) اہل علم کے ایک گروہ کا قول ہے کہ قمار یعنی جوئے کی تمام صورتیں میسر میں داخل ہیں۔ اس کے اصل معنی اونٹ کے گوشت کی تقسیم کے معاملے کو آسان کرنے کے ہیں جب لوگ اکٹھے ہو کر جوا کھیلتے۔ اس مقصد کے لئے تیروں پر مختلف نشانات لگا کر انہیں ایک تھیلے میں ڈال دیا جاتا۔ پھر تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ان تیروں کو پھیرا جاتا اور باری باری ایک ایک شریک کے لئے تیر نکالا جاتا۔ اور تیر پر لگے ہوئے نشان کے مطابق ہر شریک کو گوشت میں سے حصہ مل جاتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ ایک شریک کا ایک تیر نکلتا جس پر کوئی نشان نہ ہوتا اور اسے کوئی حصہ نہ ملتا اور بعض دفعہ ایک شریک کو تیر پر لگے ہوئے نشان کی بنا پر وافر مقدار میں حصہ مل جاتا۔ یہ دراصل شرط لگا کر ماں کی تملیک کی ایک صورت تھی ۔ تملیک کے ایسے عقود کے بطلان کی یہی بات بنیاد ہے جن میں مستقبل میں پیش آنے والے کسی امر کی شرط لگا دی گئی ہو۔ مثلاً ہبہ کی تمام صورتیں، صدقات نیز خرید و فروخت کے عقود جب انہیں اس قسم کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا جائے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے۔” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی جب زید کی آمد ہوجائے “ یا د ’ میں نے یہ چیز تمہیں ہبہ کردی جب عمرو اپنے گھر سے نکل آئے۔ “ اس لئے کہ اونٹ کے گوشت پر جوئے کی یہی صورت ہوتی تھی کہ ایک شخص کہتا : جس کا تیر نکل آئے گا وہ اونٹ کے فلاں حصے کا حق دار ہوگا۔ “ اس طرح گوشت کے حصے پر اس کا استحقاق ایک شرط کے ساتھ مشروط ہوتا۔ حقوق میں قرعہ اندازی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ قرعہ اندازی میں حصہ لینے والوں کے حصے یکساں ہوتے ہیں۔ قرعہ اندازی کے ذریعے کسی کے حق کے اثبات یا اس کے حصے میں کمی کا سوال نہیں ہوتا۔ قرعہ اندازی صرف ان حقداروں کے دلوں میں اطمینان پیدا کرنے اور انہیں خوش رکھنے کی خاطر کی جاتی ہے مثلاً کسی چیز کی تقسیم کے سلسلے میں قرعہ اندازی، یا بیویوں کے لئے باری مقرر کرنے کی خاطر قرعہ اندازی یا مثلاً قاضی کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے سلسلے میں متعلقہ افراد کے درمیان قرعہ اندازی وغیرہ قرعہ اندازی کی دوسری صورت وہ ہے جس کے قائل ہمارے مخالفین ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص مرض الموت میں اپنے غلاموں کو آزادی دے دے اور ان غلاموں کے سوا اس کا کوئی اور ترکہ نہ ہو تو اس صورت میں ہمارے مخالفین کے قول کے مطابق ان غلاموں کے تہائی حصے کی آزادی کے لئے ان میں قرعہ اندازی کی جائے گی (یاد رہے کہ ایک شخص مرض الموت میں صرف اپنی تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے) ہمارے مخالفین کا یہ قول اس قمار بازی کی جنس میں سے ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فصاً ممانعت کردی ہے۔ اس لئے کہ اس قرعہ اندازی سے ایک غلام پر واقع ہوجانے والی آزادی کو دوسرے کی طرف منتقل کردینا لازم آتا ہے۔ نیز اس میں ایک کے حق کا اثبات اور دوسرے کے حق کو گھٹا دینا لازم آتا ہے جس کی وجہ سے ایک تو بالکلیہ اپنے حق سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی بجائے دوسرا شخص اپنے حق کے ساتھ اس کا حق بھی سمیٹ لیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مفہوم کے لحاظ سے قرعہ اندازی کی اس صورت الحال میسر کے درماین کوئی فرق نہیں ہے۔ انصاب سے مراد وہ بت یا پتھر ہیں جو پوجا کے لئے کھڑے کردیئے جاتے تھے خواہ ان پر کوئی شکل بنی ہوتی یا نہ نہ بنی ہوتی۔ اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو عبادت اور پوجا کی غرض سے قائم کی جاتی تھیں۔ ازلام سے مراد وہ پانسے یا تیر ہیں جن پر وہ کسی کام کے کرلینے یا نہ کرنے کے نشانات لگا دیتے پھر وہ اپنے تمام کام ان تیروں کے نشانات کے مطابق سر انجام دیتے۔ اگر کسی کام کے متعلق کرلو کے نشان والا تیر نکلتا تو اسے کرنے پر تیار ہوجاتے۔ اگر نہ کرو، کا تیر نکل آتا تو اس کام میں ہاتھ ہی نہ ڈالتے، اسی طرح اثبات یا نفی کے نشانات پر بھی عمل پیرا ہوتے۔ نسب کے اثبات یا نفی کے سلسلے میں بھی وہ ان تیروں کو اپنا ذریعہ بناتے۔ اگر کسی بچے کے نسب کے متعلق شک پڑجاتا تو وہ تیر نکالتے اگر لا یعنی نہیں، والا تیر نکل آتا تو اس کے نسب کی نفی کردیتے اگر نعم یعنی ہاں والا تیر نکل آتا تو نسب کا اثبات کردیتے۔ قمار بازی کے لئے بھی اس قسم کے تیر استعمال ہوتے۔ قول باری (رجس من عمل الشیطان) میں وارد لفظ رجس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اس بنا پر اجتناب لازم ہے کہ یا تو وہ نجس ہے یا عبادت یا تعظیم کی وجہ سے وہ قبیح بن چکی ہے اس لئے کہ رجس اور نجس کے الفاظ ہم معنی ہیں، رجس کہہ کر نجس مراد لیا جاتا ہے۔ ان دونوں میں ہر لفظ دوسرے کے ساتھ آتا ہے۔ جس طرح عرب کے لوگ کہتے ہیں ” حسن بسن “ یا ” عطشان، نطشان “ غیرہ۔ یہاں یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ آتے ہیں اور ہم معنی ہیں۔ لفظ (جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ عذاب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قول باری ہے (لئن کشفت عنا الرجزا اگر تو ہم سے عذاب دور کر دے) رجز سے مراد عذاب ہے کبھی یہ لفظ رجس یعنی نجس کے معنوں میں آتا ہے۔ قول باری ہے (والرجز فاھجر اور نجس سے دامن بچا) نیز فرمایا (ویذھب عنکم الرجز اور تم سے گندگی کو دور کر دے) اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمایا (من عمل الشیطان) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ان گندے کاموں کی طرف بلاتا اور انہیں عمل میں لانے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی طرف نسبت کر کے ان افعال کی تحریم کی اور بھی تاکید کردی کیونکہ شیطان معاصی، محرمات اور قبیح افعال کو بروئے کار لانے کے سوا اور کسی بات کا حکم نہیں دیتا۔ اس لئے مجازاً ان افعال کی نسبت شیطان کی طرف درست ہوگئی۔ اس لئے شیطان ہی ان افعال کی طرف دعوت دینے والا اور انہیں خوشنما بنا کر پیش کرنے والا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کسی اور شخص کی پٹائی کرنے یا گالی دینے پر ابھارے اور اس عمل کو بہت آراستہ کر کے اسے دکھائے تو اس موقع پر اس شخص سے یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ ” یہ سب تمہاری کارستانی ہے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٠) شراب اور جوئے کی تمام اقسام اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیریہ سب حرام ہیں، یہ شیطانی کام اور اس کے وسوسے ہیں تم ان سب چیزوں کا بالکل چھوڑ دو تاکہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور اس کی ناراضگی سے بچو اور آخرت میں تمہیں اطمینان حاصل ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٠ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) شراب اور جوئے کے بارے میں تو پہلے بھی حکم آچکا ہے ‘ لیکن انصاب اور ازلام کا یہاں اضافہ کیا گیا ہے۔ اَنصاب سے مرادبتوں کے استھان ہیں اور ازلام جوئے ہی کی ایک قسم تھی جس میں اہل عرب تیروں کے ذریعے پانسے ڈالتے تھے ‘ قرعہ اندازی کرتے تھے۔ ان تمام کاموں کو رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ قرار دے دیا گیا۔ ُ

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

108.For 'altars' and divination by arrows see (nn.12 )and 14 )above. For games of chance see (n. 14) above. While divination by arrow-shooting essentially constitutes a game of chance there is nevertheless a certain difference between the two, since divination by arrow-shooting, in addition to being a game of chance, is also tainted with polytheistic beliefs and superstitions. As for games of chance, this expression is applied to those games and acts in which accidental factors are considered the criteria for acquisition, fortune-making and the division of goods and property. 109. In this verse four things are categorically prohibited: (1) intoxicants; (2) games of chance; (3) places consecrated for the worship of anyone else besides God, and altars for either sacrifices or offerings in the name of others than God; and (4) polytheistic divination by arrow-shooting. The last three items have already been explained. (See Towards Understanding the Qur'an, vol. I,( Surah 2: 219, n. 235 )and (Surah 5: 3, n. 14 above). Two injunctions had already been revealed concerning the prohibition of intoxicants See (Surahs 2: 219 )and( 4: 43). Before the revelation of the last injunction, the Prophet (peace be on him) had warned the people that intoxicants were highly displeasing to God. Hinting at the possibility of their being prohibited, he advised people to dispose of intoxicants if they had any. A little later on the present verse was revealed and the Prophet (peace be on him) then proclaimed that those who had intoxicants should neither consume nor sell them, but rather destroy them. Intoxicating liquors were poured into the streets of Madina. When asked if such liquor might be offered to the Jews as a gift the Prophet (peace be on him) replied in the negative and said: 'He Who has prohibited it has also required it not to be given away as a gift.' Some people inquired whether it was permitted to make vinegar out of such liquor. The Prophet (peace be on him) told them not to do so, but to throw it away instead. Another person asked insistently whether or not an intoxicant could be used as medicine. The Prophet (peace be on him) replied that far from being a remedy for any malady it was in itself a malady. Others sought permission to consume intoxicating liquor on the plea that they lived in a very cold region and had to work very hard, and that the people of that region habitually drank intoxicants to combat exhaustion and cold. The Prophet (peace be on him) inquired if the drink concerned did cause intoxication. On being told that it did, he said that they should abstain from it. They pointed out that the people of their region would not accept this, to which the Prophet (peace be on him) replied that they should fight them. It is reported by 'Abd Allah Ibn 'Umar that the Prophet (peace be on him) said: 'God has cursed khamr (wine) and him who drinks it, him who provides it to others and him who buys or sells it, him who squeezes (the grapes) into wine and him who causes others to squeeze grapes (in order to make wine), him who carries it and him to whom it is carried.' (See Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, p. 97; vol. 1, p. 316; Abu Da'ud, 'Ashribah', 2 - Ed.) According to another tradition the Prophet (peace be on him) instructed not to eat at the table where intoxicating drinks were being taken. In the beginning the Prophet (peace be on him) even forbade the use of vessels in which intoxicating drinks had either been made or served. Later on, when the prohibition of drinks was completely observed the Prophet (peace be on him) withdrew the interdiction regarding the use of these vessels. (See Abu Da'ud, 'At'imah', 18; Tirmidhi, 'Adab', 43; Darimi, 'Ashribah', 15; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 1, p. 20; vol. 3, p. 339 - Ed.) Though the word khamr in Arabic means literally 'the drink made from grapes', it was also used figuratively for intoxicating liquors made from wheat, barley, raisins, dates and honey. The Prophet (peace be on him) applied the prohibition of wine to all intoxicants. In this regard we find categorical statements from the Prophet (peace be on him) embodied in traditions: 'Every intoxicant is khamr, and every intoxicant is prohibited.' 'Every drink which causes intoxication is prohibited.' 'I forbid everything which intoxicates.' In a Friday sermon 'Umar defined khamr in the following manner: 'Whatever takes hold of the mind is khamr.' (See Bukhari, 'Wudu", 71; 'Maghazi', 60, 'Ashribah', 4,10, 'Adab', 8, 'Ahkam', 22; Muslim, 'Ashribah', 67-9; Abu Da'ud, 'Ashribah', 5, 71; Ibn Majah, 'Ashribah', 9, 13, 14; Darimi, 'Ashribah', 8, 9; Muwatta', 'Dahaya', 8; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 1, pp. 274, 289, 350; vol. 2, pp. 16, 158, 171, 185, 429, 501; vol. 3, pp. 63, 66, 112, 119, 361; vol. 4, pp. 41, 416; vol. 6, pp. 36, 71, 72, 97, 131, 190 and 226 - Ed.) The Prophet (peace be on him) also enunciated the following principle: 'If anything causes intoxication when used in large quantity, even a small quantity of it is prohibited.' 'If a large quantity of something causes intoxication, to drink even a palmful of it is prohibited.' (See Abu Da'ud, 'Ashribah', 5; Ibn Majah, 'Ashribah', 10; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, pp. 167, 179 and vol. 3, p. 343 - Ed.) In the time of the Prophet (peace be on him) no specific punishment had been laid down for drinking. A person caught drunk would be struck with shoes, fists, and whips made of twisted cloth and palm sticks. The maximum number of lashes to which any culprit was subjected was forty. In the time of Abu Bakr the punishment continued to be forty lashes. In the time of 'Umar the punishment initially remained at forty lashes also, but when he saw people persist in drinking he fixed the punishment at eighty lashes after consulting the Companions. This was considered the prescribed legal punishment for drinking by Malik and Abu Hanifah, and even by Shafi'i according to one tradition. But Ahmad b. Hanbal, and, according to a variant tradition, Shafi'i, considered the punishment to consist of forty lashes, and 'Ali is reported to have preferred this opinion. According to Islamic Law, it is the bounden duty of an Islamic government to enforce this prohibition. In the time of 'Umar the shop of a member of the Thaqif tribe, by the name of Ruwayshid, was burnt down because he carried on the sale of liquor. On another occasion a whole hamlet was set on fire because it had become a center of illegal traffic in liquor.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :108 آستانوں اور پانسوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۱۲ و ۱٤ ۔ اس سلسلہ میں جوئے کی تشریح بھی حاشیہ نمبر ۱٤ میں مل جائے گی ۔ اگرچہ پانسے ( جوئے ) ہی کی ایک قسم ہیں ۔ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ عربی زبان میں ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اس صورت کو کہتے ہیں کہ جو مشرکانہ عقائد اور وہمیات سے آلودہ ہو ۔ اور میسر کا اطلاق ان کھیلوں اور ان کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی امور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور تقسیم اموال و اشیاء کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :109 اس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں ۔ ایک شراب ۔ دوسرے قمار بازی ۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصوص کیے گئے ہوں ۔ چوتھے پانسے ۔ مؤخر الذکر تینوں چیزوں کی ضرورت تشریح پہلے کی جا چکی ہے ۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے: شراب کی حرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آچکے تھے ، جو سورہ بقرہ آیت ۲۱۹ اور سورہ نساء آیت ٤۳ میں گزر چکے ہیں ۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے ، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے ، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں ۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں ، نہ بیچ سکتے ہیں ، بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں ۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی ۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم یہودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے اسے تحفۃً دینے سے بھی منع کر دیا ہے“ ۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم شراب کو سرکے میں کیوں نہ تبدیل کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ” نہیں ، اسے بہا دو“ ۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے؟ فرمایا” نہیں ، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے“ ۔ ایک اور صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے ، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے ۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہاں ۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو ۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے ۔ فرمایا” اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو“ ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مبتاعھا و عاصرھا و معتصرھا و حاملھا و المحمولۃ الیہ ۔ ” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو“ ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو ۔ ابتداءً آپ نے ان برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی ۔ بعد میں جب شراب کی حرمت کا حکم پوری طرح نافذ ہو گیا تب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اٹھا دی ۔ خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجازاً گیہوں ، جو ، کشمش ، کھجور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت کے اس حکم کو تمام ان چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں حضور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام ۔ ” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہرنشہ آور چیز حرام ہے“ ۔ کل شرابٍ اسکر فھو حرام ۔ ” ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے“ ۔ وانا انھی عن کل مسکرٍ ۔ ”اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں“ ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خامر العقل ۔ ”خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے“ ۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول بیان فرمایا کہ ما اسکر کثیرہ فقلیْلہ حرام ۔ ” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے“ ۔ اور ما اسکر الفرق منہ مفل الکف منہ حرام ۔ ” جس چیز کا ایک پورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چلو پینا بھی حرام ہے“ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی ۔ جو شخص اس جرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اسے جوتے ، لات ، مکے ، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجور کے سنٹے مارے جاتے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ ٤۰ ضربیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس جرم پر لگائی گئی ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ٤۰ کوڑے مارے جاتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ابتداءً کوڑوں ہی کی سزا رہی ۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو انہوں نے صحابہ کرام کے مشورے سے ۸۰ کوڑے سزا مقرر کی ۔ اسی سزا کو امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعی رحمہ اللہ بھی ، شراب کی حد قرار دیتے ہیں ۔ مگر امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ اور ایک دوسری روایت کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ ٤۰ کوڑوں کو قائل ہیں ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے ۔ شریعت کی رو سے یہ بات حکومت اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دوکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا ۔ ایک دوسرے موقع پر ایک پورا گاؤں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس قصور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

62: بتوں کے تھان سے مراد وہ قربان گاہ ہے جو بتوں کے سامنے بنا دی جاتی تھی اور لوگ بتوں کے نام پر وہاں جانور وغیرہ قربان کیا کرتے تھے۔ اور جوے کے تیروں کی تشریح اسی سورت کے شروع میں آیت نمبر 3 کے تحت حاشیہ نمبر 6 میں گذر چکی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(90 ۔ 92) ۔ معتبر سند سے طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ شراب کے نشہ میں بعض صحابہ کی آپس میں تکرار ہو کر مار پیٹ کی نوبت آجاتی جس کے سبب سے ان لوگوں کے آپس کے سلوک میں روزبروز خلل پڑتا جاتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ٢ ؎۔ شراب کی چار حالتیں جو اسلام میں رہی ہیں ان کا ذکر تو سورة بقرہ کی آیہّ { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخُمْرِ وَالْمَیْسِرِ } (٢: ٢١٩) کی تفسیر میں گذرچکا ہے ٣ ؎ ان چاروں حالتوں میں ایک حالت سورة النساء کی آیت { یَٓاٰ ایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ لاَ تَقْرَبُوْا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی } (٤: ٤٣) کے نازل ہونے کے بعد کی تھی جس میں نماز کا وقت ٹال کر لوگ شراب پیا کرتے تھے اس حالت کے زمنہ میں یہ آپس کی تکرار اور مارپیٹ ہوا کرتی تھی اس پر یہ شراب کے ہر وقت کے قطعی حرام ہونے کا حکم نازل ہوا۔ شراب پینے سے آپس کی دشمنی اس سبب سے پیدا ہوجاتی ہے کہ شراب پی کر آدمی کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں رہتے ہر ایک سے لڑنے جھگڑنے لگتا ہے۔ جو اس سبب سے باعث عداوت ہے کہ جو شخص جوے میں اپنا مال ہار جاتا ہے وہ بھی بد حواس ہو کر ہر ایک سے لڑنے لگتا ہے۔ شراب میں ایک یہ بھی خرابی ہے کہ اس کا نشہ آدمی کو ذکر الٰہی اور نماز سے روک دیتا ہے۔ اس سورة میں یہ اوپر گزرچکا ہے کہ انصاب بتوں کے تھان تھے اور اذلام جوا کھیلنے کے پانسے ان بتوں کے تھانوں پر بتوں کے نام کے جانور ایام جاہلیت میں ذبح کئے جاتے تھے شراب خواری اور قماربازی بھی یہیں ہوتی تھی جوئے کے پانسے بھی یہیں رکھے جاتے رہتے تھے اس لئے ان سب کا ذکر ایک ساتھ ایک جگہ فرمایا۔ ہر طرح کے برے کام کو رجس کہتے ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شیطان خود تو اپنا تخت سمندر کے پانی پر بچھا کر اس تخت پر بیٹھ جاتا ہے اور شیاطین کو لوگوں کے بہکانے کے لئے ہر روز بھیج دیتا ہے ٤ ؎۔ ان آیتوں میں برے کاموں کو آپس میں دشمنی کے ڈالنے کو۔ ذکر الٰہی اور نماز سے روکنے کو شیطان کے ارادے کا اثر جو فرمایا ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ شیاطین شراب کے نشہ اور جوئے کی دھن میں لوگوں کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیتے ہیں کہ لوگوں کو ان برے کاموں کی برائی نہیں سوجھتی اس واسطے ان کاموں سے باز رہنے کی ہدایت فرما کر ہر ایمان دار کی عقبیٰ کی بہبودی کو اس ہدایت کے موافق عمل کرنے پر منحصر رکھا ہے اور اس کو اللہ اور رسول کی فرمانبرداری ٹھیرایا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول کا کام یہی ہے کہ وہ تم لوگوں کو اللہ کا حکم پہنچا دیویں اب جو کوئی اس کو نہ مانے گا وہ عقبیٰ میں اس نافرمانی کا خمیازہ بھگتے گا۔ صحیح مسلم میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سوائے نماز کے اوقات کے اور وقتوں میں جب شراب کا پینا جائز رکھا گیا تھا تو شراب کے نشہ میں طرح طرح کے جھگڑے قصے جو ہوا کرتے تھے اس کا حال سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص کے پاس کچھ شراب ہو اس کو وہ یا تو بیچ ڈالے یا اور کسی کام میں لے آوے ورنہ شراب کے باب میں کوئی قطعی حکم نازل ہونے والا ہے۔ اس کے تھوڑے دنوں کے بعد یہ آیت { اِنَّمَا الْخَمْرُ } نازل ہوئی اس کے نازل ہونے کے بعد آپ نے فرمایا اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے شراب حرام فرما دی اب جس مسلمان شخص کے پاس کچھ شراب ہو تو وہ اس کو نہ بیچ سکتا ہے نہ پی سکتا ہے۔ آپ کے اس حکم کے بعد لوگوں نے جو شراب تھی اس کو مدینہ کی گلیوں میں بہا دیا اور اس کے پینے کو سب نے حرام قرار دیا ١ ؎۔ اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں۔ آیت اور ان حدیثوں کو ملانے سے یہ مطلب ٹھیرتا ہے کہ اس آیت میں شراب سے بچنے کا جو ارشاد ہے وہ شراب کے حرام ہونے کا ایک قطعی حکم ہے جس کے بعد اسلام میں شراب پھینک دینے کے قابل ایک چیز قرار پا گئی۔ یہ جو ایک اختلاف مشہور ہے کہ آیت میں خمرہ کا لفظ ہے اور انگور کے سوا کسی دوسری چیز سے جو شراب بنائی جاتی ہے اس کو خمر نہیں کہتے اس صورت میں آیت کا حکم انگور کی شراب پر منحصر ہونا چاہیے یہ اختلاف خمر کے لغوی معنی کی بنا پر ہے ورنہ شرع میں یہ صراحت موجود ہے کہ کھجور، گیہوں جو وغیرہ سے جو شراب بنائی جائے اس کو بھی خمر کہتے ہیں چناچہ مسند امام احمد ترمذی، ابوداؤد وغیرہ میں نعمان بن بشیر (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لفظ خمر کے یہی معنی فرمائے ہیں ٢ ؎ پھر جس طرح الفاظ صوم صلوٰۃ حج زکوٰۃ میں شرعی معنی کا اعتبار ہے اسی طرح لفظ خمر کے بھی شرعی معیر احکام شرع میں معتبر ہوں گے۔ نعمان بن بشیر (رض) کی حدیث کی سند میں ایک راویت ابراہیم بن المہاجر ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام احمد نے ابراہیم بن المہاجر کو ناقابل اعتراض ٹھیرایا ہے ١ ؎۔ اس صورت میں یہ حدیث معتبر اور آیت کے لفظ خمر کی تفسیر قرار پا سکتی ہے۔ صحیح مسلم، ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں انس بن مالک کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب سے سرکہ بنانے کو منع فرمایا ہے ٢ ؎۔ اکثر علماء امت کا یہ مذہب بھی اس حدیث کے موافق ہے لیکن بعض علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے جس کی تفصیل بڑی کتابوں میں ہے

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:90) المیسر۔ اسم ومصدر۔ جوا۔ جوا کھیلنا۔ قمار بازی۔ یسر سے۔ یسر کے معنی آسانی۔ اور سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے۔ چونکہ جوا کھیلنے میں بھی مال آسانی اور بلا کلفت حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو المیسر کہا جاتا ہے۔ الانصاب۔ نصب کی جمع ۔ بت وہ تمام چیزیں جو عبادت کے لئے نصب کی جائیں۔ خواہ وہ مورتی ہو یا پتھر۔ یا اور کچھ۔ ان کو انصاب کہا جاتا ہے ۔ یہاں انصاب سے مراد وہ پتھر ہیں جو حرم میں کعبہ کے اردگرد نصب تھے اور کفار ان کے لئے جانور ذبح کرتے اور ان کو خون ان پتھروں پر مل دیتے اور گوشت ان پتھروں پر کرھ دیتے۔ جسے قرآن مجید نے حرام فرمایا ۔ دیکھو 5:3 ۔ الازلام۔ تیر۔ تیر پھینک کر شگون لینا۔ دیکھو 5:3 ۔ رجس۔ ناپاک، پلید، گندہ۔ عقوبت، عذاب۔ بلا۔ ارجاس جمع (حرمت شراب کے متعلق ) ملاحظہ ہو (2:219)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اس رجس سے بچو شراب کے سلسلے میں یہ تیسرا اور آخری حکم ہے جس کے بعد وہ قطعی حرام قرار دے گئی اس سے قبل دو حکم آچکے تھے پہلا سورت بقرہ آیت 219 میں اور دوسرا سورة نسا آیت 43 میں مگر ان دونوں آیتوں میں شراب کی قطعی حرمت کا ذکر نہ تھا اس لیے حضر عمر (رض) نے بقرہ اور نسا کی آیات نازل ہونے کے بعد کہا اللھم بین لنافی الخمر اے اللہ شراب کے متعلق مزید وضاحت یعنی حرمت کی ضرورت ہے حتی کہ سورت مائدہ کی یہ آیات نازل ہوئیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 90 تا 92 لغات القرآن : الخمر (شراب۔ ہر وہ چیز جو عقل کو ڈھانپ دے) ۔ المیسر (جوا۔ (آسانی سے حاصل ہونے والی چیز) ۔ الانصاب (بت۔ تھان) ۔ الازلام (زلم) ۔ جوئے کے تیر۔ پانسے) ۔ رجس (گندگی ۔ بیماری) ۔ عمل الشیطن (شیطانی کام) ۔ اجتنبوا (تم بچو۔ (قریب بھی نہ جاؤ) ۔ لعلکم (شاید کہ تم ۔ توقع ہے کہ تم) ۔ ان یوقع (یہ کہ وہ ڈال دے) ۔ بینکم (تمہارے درمیان) ۔ یصدکم (تمہیں روک دے) ۔ ذکر اللہ (اللہ کی یاد۔ اللہ کا ذکر) ۔ الصلوٰۃ (نماز) ۔ منتھون (رک جانے والے) ۔ اطیعوا (اطاعت کرو۔ کہا مانو) ۔ البلغ (پہنچا دینا) ۔ تشریح : آیت 90 میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کردی گئی ہیں۔ (1) جتنی شرابیں ہیں سب حرام اور ناپاک ہیں۔ خواہ اس کی مقدار اتنی کم ہو کہ نشہ نہ لائے۔ بطور دوا بھی اس کا استعمال ممنوع ہے۔ شراب کے علاوہ جتنے نشے ہیں ان کا کسی ماہر ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق بطور دوا کے اتنی مقدار رکھ لینا درست ہے کہ بالکل نشہ نہ آئے۔ (2) سٹہ اور جوا یعنی وہ کام جس میں ایک کا نقصان کرکے دوسرے کا فائدہ ہو اور یہ فائدہ بھی محض حسن اتفاق اور سراسر قسمت آزمائی کے ذریعہ ہو۔ (3) بتوں کے تھان اور آستانے ان مقامات پر جانا جہان گندے شیطانی کام ہوا کرتے ہیں مثلاً کلب، ریس کورس، حیا سوز فلم گاہیں، بازار حسن، رقص و سرور ، بدنام ہوٹل، بدزبان اور بد اعمال لوگوں کا اجتماع وغیرہ۔ ان میں وہ مقامات بھی شامل ہیں جو اللہ واحد کے سوا کسی اور کی عبادت یا قربانی یا نذر نیاز کیلئے مخصوص ہوں۔ (4) وہ فال گیری اور قرعہ اندازی جسے اسلام نے منع کردیا ہو۔ اس میں رمل، نجوم ، جوتش، ستارہ شناشی دولت اور شہرت کیلئے لاٹری ، تاش ، شطرنج وغیرہ یہ سب شامل ہیں۔ اسمیں اسپورٹس کی وہ شکل بھی شامل ہے جو ازلام یا جوا ہے اور جو نماز روزے سے باز رکھتی ہیں۔ خمر کے معنی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیم، گانجا، چرس، ہیرؤن اور ہر نشہ آور چیز ہے۔ (علماء نے چائے اور سگریٹ، حقہ، پان، بیڑی ، چھالیہ وغیرہ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے مگر بہتر ہے ہر اس چیز سے احتیاط برتی جائے جس کی چاٹ لگ جائے اور جس کے بغیر آدمی کام کا نہ رہے) خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل ، تمیز، ادب اور قوت فیصلہ کو وقتی طور پر مفلوج کر دے اور آدمی ہوش میں نہ رہے۔ اس ضمن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت سی احادیث ہیں جن میں چند یہ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے “ ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جس چیز کی بڑی مقدار نشہ پیدا کرتی ہے اس کی چھوٹی مقدار بھی حرام ہے “ ۔ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلا نے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کی کشید کرنے والے پر، اس کی کشید کرانے والے پر، اس کے ڈھوکر لے جانے والے پر اور ہر اس شخص پر جس کیلئے وہ ڈھو کرلے جائی گئی ہو “ ۔ حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شراب پینے والا اتنا ہی بڑا مجرم ہے جتنا بت پوجنے والا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے جس پر شراب پی جا رہی ہو۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے دور میں ایک پورے گاؤں کی ایسی عمارتوں کو جلا دینے کا حکم دیا تھا جہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔ مغرب کی وہ حکومتیں جو سائنس کی جنگی اور غیر جنگی ، زمینی اور خلائی تمام طاقتوں پر نازل کرتی ہیں ، ایشیا میں آکر چھوٹی چھوٹی غیر مسلم قوموں سے عبرت انگیز شکستیں کھا گئی ہیں اور کھا رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ ان کے پاس ایمان ہے نہ جذبہ جہاد ہے نہ ان کے پاس صحت مند ہمت اور لڑنے مرنے والے سپاہی ہیں کہ شراب، شہوت ہوس اور عیش نے قوم کو دیمک کیطرح چاٹ لیا ہے۔ ان آیات میں فرمایا ہے کہ خمر، جوا، آستانے اور ازلام (پانسو کے تیر) یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان کا گندہ اور قابل نفرت ہونا تو ہر صاحب ذوق سلیم پر ظاہر ہے۔ خصوصاً اس پر جو ذکر الٰہی اور صوم و صلوٰۃ کی لذتوں سے واقف ہے۔ یہ شیطانی کام ہیں چونکہ شیطان ہماری دنیا اور دین دونوں کی تباہی چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں ذریعہ مال اور محبت کی بربادی کرا کے مسلمان کو مسلمان سے لڑا دے۔ باہم دشمنی کا بیج بودے اور اس اتحاد ملی، تنظیم اور شیرازہ بندی (ڈسپلن) کو پارہ پارہ کر دے جس کی بنیاد پر ملے اسلامہ ترقی کر ہی ہے۔ دوسری طرف وہ چاہتا ہے کہ انہیں بےہوش کرکے یا فضولیات میں مبتلا کرکے ذکر الٰہی اور صوم و صلوٰۃ کی نعمتوں سے محروم کر دے۔ تاکہ وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھول کر ان ہی گندے کاموں میں لگ جائیں۔ خطرات اور خرابیاں دکھا کر اور ان چیزوں کو حرام قرار دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اللہ کا اور رسول کا حکم مانو اور ان گندی شیطانی چیزوں سے دور رہو۔ اور خبردار کیا ہے کہ اگر تم نہیں مانتے ہو تو پرواہ نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف پیغام حق پہنچانا ہے۔ وہ انہوں نے پہنچا دیا۔ اب ساری ذمہ داری اس شخص پر ہے جس نے پیغام حق کے بعد بھی اپنی روش کو تبدیل نہیں کیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ کے نام کا تقدس ہے کہ اسے ناجائز استعمال نہیں کرنا اسی طرح اس کے حکم کا تقاضا ہے کہ شراب اور شیطانی کاموں کو چھوڑ دیا جائے۔ سورۃ البقرۃ کی تشریح میں بتایا گیا ہے کہ عربی میں ہر اس چیز کو خمر کہتے ہیں جو دوسرے پر پردہ ڈال دے۔ اسی مناسبت سے عورتوں کی اوڑھنیوں کو بھی قرآن مجید میں خمر کہا گیا ہے (سورۃ النور : ٣١) کیونکہ عورت اس سے اپنا سر، چہرہ اور جسم ڈھانپتی ہے شراب کو خمر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کی عقل و فکر پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اسلام کے دوسرے ضابطوں اور قوانین کی طرح شراب کے حکم امتناعی کی تکمیل بھی تدریجاً ہوئی ہے۔ شراب کی جسمانی اور اخلاقی قباحتوں کی وجہ سے اسے مطلقاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ شراب کا عادی شخص اپنی عمر سے کہیں پہلے بوڑھا ہوجاتا ہے آدمی شراب پی کر ایسی حرکات کرتا اور خرافات بکتا ہے کہ جس کا صحیح حالت میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے شراب کسی بھی مذہب میں جائز قرار نہیں دی گئی۔ شراب کے بارے میں دور حاضر کے ڈاکٹر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس کے فائدے نہایت عارضی اور معمولی ہیں لیکن روحانی، جسمانی، اخلاقی، معاشرتی اور معاشی نقصان لامحدود اور ناقابل تلافی ہیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کو علاج کے طور پر استعمال کرنے سے منع ہی نہیں فرمایا ہے بلکہ اسے بیماری قرار دیتے ہوئے ابتدا میں اس کے لیے استعمال ہونے والے برتنوں سے بھی منع فرما دیا۔ (أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَیْدٍ الْجُعْفِیَّ (رض) سَأَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْخَمْرِ فَنَہَاہُ أَوْ کَرِہَ أَنْ یَصْنَعَہَا فَقَالَ إِنَّمَا أَصْنَعُہَا للدَّوَاءِ فَقَالَ إِنَّہُ لَیْسَ بِدَوَاءٍ وَلَکِنَّہُ دَاءٌ )[ رواہ مسلم : کتاب الاشربہ، باب تحریم التداوی بالخمر ] ” طارق بن سوید جعفی (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شراب کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اسے پینے سے منع کیا یا ناپسند کیا تو اس نے کہا کیا میں اسے بطور دوا استعمال کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا یہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔ “ ( ٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوبَۃَ وَقَالَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ)[ رواہ احمد ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوا اور شترنج کو حرام کردیا ہے مزید فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ “ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا أَسْکَرَ کَثِیرُہُ فَقَلِیلُہُ حَرَامٌ) [ رواہ الترمذی : باب الاشربہ ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس چیز کی کثیر مقدار حرام ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ لَعَنَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی الْخَمْرِ عَشْرَۃً عَاصِرَہَا وَمُعْتَصِرَہَا وَشَارِبَہَا وَحَامِلَہَا وَالْمَحْمُولَۃُ إِلَیْہِ وَسَاقِیَہَا وَبَاءِعَہَا وَآکِلَ ثَمَنِہَا وَالْمُشْتَرِی لَہَا وَالْمُشْتَرَاۃُ لَہُ )[ رواہ الترمذی : کتاب البیوع، باب النہی ان یتخذ الخمر خلا ] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کے متعلق دس آدمیوں پر لعنت کی ہے۔ ١۔ شراب نچوڑنے والا۔ ٢۔ نچڑوانے والا۔ ٣۔ لینے والا۔ ٤۔ اٹھانے والا۔ ٥۔ جس کے لیے لے جائی جائے۔ ٦۔ پلانے والا ٧۔ بیچنے والا۔ ٨۔ اس کی قیمت کھانے والا۔ ٩۔ خریدنے والا۔ ١٠۔ جس کے لیے خریدی جائے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَجَلَدَہُ بِجَرِیدَتَیْنِ نَحْوَ أَرْبَعِینَ قَالَ وَفَعَلَہُ أَبُو بَکْرٍ فَلَمَّا کَانَ عُمَرُ اسْتَشَار النَّاسَ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَخَفَّ الْحُدُودِ ثَمَانِینَ فَأَمَرَ بِہِ عُمَرُ (رض) [ رواہ مسلم : کتاب الحدود، باب حد الخمر ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے دو چھڑیوں سے چالیس ضربیں لگائیں۔ اور حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے دور خلافت میں بھی ایسا ہی کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) کا دور خلافت آیا تو انھوں نے اس بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا کہ سب حدوں میں سے ہلکی حد اسّی کوڑے ہیں۔ (یعنی حد قذف جو قرآن میں مذکور ہے) حضرت عمر (رض) نے شرابی کے لیے اسّی کوڑوں کی حد کا حکم دیا۔ “ میسر : ہر وہ عقد جس کی رو سے ہارنے والا جیتنے والے کو ایک معین اور پہلے سے طے شدہ رقم ادا کرے اس کو میسر کہتے ہیں، یہ ” یسر “ سے ہے جس کا معنی آسانی ہے۔ اسے عرف میں جوا کہتے ہیں جوئے کے ذریعے جیتنے والے فریق کو ہارنے والے فریق کی رقم آسانی سے مل جاتی ہے۔ اس لیے اس کو میسر کہتے ہیں۔ ازلام : تیروں کی شکل میں پتلی پتلی لکڑیاں، ان سے زمانۂ جاہلیت میں قسمت کا حال اور شگون لیا کرتے اور فال نکالتے تھے۔ جس کے ہر دور میں کئی طریقے اختیار کیے جاتے رہے ہیں جیسا کہ آج کے زمانے میں طوطے کو سکھلا کر اس سے کاغذ کی پرچیاں اٹھوائی جاتی ہیں۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا قَدِمَ أَبَی أَنْ یَدْخُلَ الْبَیْتَ وَفِیہِ الْآلِہَۃُ فَأَمَرَ بِہَا فَأُخْرِجَتْ فَأَخْرَجُوا صورَۃَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ فِی أَیْدِیہِمَا الْأَزْلَامُ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَاتَلَہُمْ اللّٰہُ أَمَا وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّہُمَا لَمْ یَسْتَقْسِمَا بِہَا قَطُّ فَدَخَلَ الْبَیْتَ فَکَبَّرَ فِی نَوَاحِیہٖ وَلَمْ یُصَلِّ فیہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب من کبر فی نواحی الکعبۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں بلاشبہ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم میں آئے تو کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہاں بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نکالنے کا حکم دیا۔ ان کو نکال دیا گیا۔ لوگوں نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل ( علیہ السلام) کے مجسمیجن کے ہاتھوں میں تیر تھے، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو برباد کرے اللہ کی قسم ! یہ جانتے تھے کہ یہ ان کی قسمت کا حال کبھی نہیں بتاسکتے۔ تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے آپ نے اس کے کونوں میں تکبیر کہی اور وہاں نماز نہ ادا کی۔ “ انصاب : بتوں کے پاس نصب شدہ پتھر جن کی عبادت کی جاتی تھی اور بتوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان پر جانور ذبح کیے جاتے تھے۔ (المفردات ج ٢ ص : ٦٣٨) رجس : جو چیز حسًا یا معنًا گندی اور ناپاک ہو، انسان کی طبیعت اس سے گھن کھائے یا عقل اس کو برا جانے یا شریعت نے اس کو ناپاک قرار دیا ہو وہ رجس اور حرام ہے۔ مسائل ١۔ شراب، جوا، وغیرہ شیطانی کام ہیں۔ ٢۔ شیطانی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٣۔ دنیا و آخرت کی کامیابی برے کاموں سے بچنے میں ہے۔ ٤۔ شیطان اپنے افعال سے مسلمانوں کو باہم لڑاتا ہے۔ ٥۔ شراب اور جوا نماز اور ذکر الٰہی سے روکتے ہیں تفسیر بالقرآن شراب کے مسائل : ١۔ شراب کا نقصان فائدہ سے زیادہ ہے۔ (البقرۃ : ٢١٩) ٢۔ شراب پینا شیطانی عمل ہے۔ (المائدۃ : ٩٠) ٣۔ شراب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکتی ہے۔ (المائدۃ : ٩١) ٤۔ شراب حرام ہے اس کے پینے سے بچنا چاہیے۔ (المائدۃ : ٩٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٩٠ تا ٩٣۔ شراب ‘ جوا آستانے اور پانسے جاہلی معاشرے کی سب سے بڑی علامات تھیں اور یہ ایسی عادات تھیں جن کا جاہلی معاشرے کے اندر بہت زیادہ رواج تھا ۔ یہ تمام عادات دراصل ایک معاشرتی کل تھیں اور باہم مربوط تھیں اور جاہلی معاشرے کی پہچان تھیں ۔ اہل جاہلیت بڑی مقدار میں شراب استعمال کرتے تھے اور اس میں وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے ۔ انکی فخریہ حکایات اور فخریہ اشعار کا موضوع کثرت شراب نوشی ہوا کرتی تھی ۔ مجالس شراب کے ساتھ پھر جانوروں کا ذبح کرنا اور شراب کے ساتھ کباب اور تکے کھلانا بھی لازم تھا ۔ اس میں پینے اور پلانے والے سب شریک ہوتے اور اس طرح اس قسم کی مجالس میں سب کے لئے دلچسپی کا سامان ہوتا ۔ یہ ذبیحے وہ بتوں کے نام اور آستانوں پر کرتے تھے اور ان ذبیحوں کا خون بتوں کا خون بتوں پر ڈالتے تھے ۔ نیز وہ اپنے الہوں اور کاہنوں کے نام پر بھی بعض جانوروں کو ذبح کرتے تھے ۔ شراب نوشی اور دوسرے مواقع پر جو جانور ذبح کرتے تھے ‘ ان کے گوشت کو پھر وہ پانسوں کے ذریعے تقسیم کرتے تھے ۔ ہر شخص اپنے پانسے کے مقررہ حصے کا گوشت لیتا تھا ‘ جس کا پانسہ اونچا نکلا اس کا حصہ بھی زیادہ ہوتا تھا ۔ اسی طرح گوشت تقسیم ہوتا تھا ۔ اسی طرح گوشت تقسیم ہوتا ‘ یہاں تک کہ بعض اوقات جانور ذبح کرنے والے کے حصے میں کچھ نہ آتا اور وہ مکمل خسارے میں پڑجاتا ۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی رسوم اور عادات باہم مربوط اور متعلق تھیں اور یہ عادات انہیں جاہلی طریقوں پر جاری تھیں ۔۔۔ اسلامی نظام زندگی نے تحریک کا آغاز ان رسوم کی اصلاح سے شروع نہیں کیا اس لئے کہ یہ رسوم اور عادات بعض فاسد نظریاتی تصورات پر قائم تھیں ۔ اگر محض اصلاح رسوم کی سطحی تحریک شروع کردی جاتی اور اصل اعتقادی نظریات کی بیخ کنی نہ کی جاتی تو یہ کام نہایت ہی سطحی ہوتا ۔ اسلام سے ہر گز یہ توقع نہ کی جاسکتی تھی کہ وہ جڑوں کو چھوڑ کر محض سطحی امور تک اپنے آپ کو محدود کر دے ۔ اسلام نے سب سے پہلے نفس انسانی کی پہلی گرہ یعنی عقائد ونظریات پر کلام کیا ۔ اس نے سب سے پہلے جاہلی عقائد و تصورات کو لیا اور انہوں اور انہیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ۔ ان کی جگہ پاک وصاف اسلامی نظریہ حیات دیا اور یہ تصور اور نظریہ فطرت انسانی کی گہرائیوں تک اتار دیا ۔ اسلام نے متعدد الہوں کے بارے میں ان کے تصورات کو لیا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ۔ ان کی جگہ پاک وصاف اسلامی نظریہ حیات دیا اور یہ تصور اور نظریہ فطرت انسانی کی گہرائیوں تک اتار دیا ۔ اسلام نے متعدد الہوں کے بارے میں ان کے تصورار کے فساد کو ظاہر کیا اور ان کو ایک الہ حق کے عقیدے پر مجتمع کردیا ۔ جب ان کے دل و دماغ پر یہ عقیدہ توحید چھا گیا تو اب وہ فطری طور پر سوچنے کے لئے تیار ہوگئے کہ انکا الہ الحق کس بات کو پسند نہیں کرتا ۔ اس نظریاتی اصلاح سے پہلے وہ کب اپنی عادات ورسومات کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو سکتے تھے وہ نظریاتی تبدیلی کے بغیر اپنے جاہلی پسندیدہ طریقوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ اگرچہ انہیں بار بار نصیحت کی جاتی ۔ فطرت کی گرہ درحقیقت عقیدے کی گرہ ہوتی ہے ۔ جب تک سب سے پہلے اس گرہ اور عقدے کو حل نہ کیا جائے اس وقت تک کوئی اخلاقی تعلیم ‘ کوئی تہذیب اخلاق کا پروگرام اور کوئی اجتماعی اصلاحی سکیم کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ نظریہ دراصل انسانی فطرت کی کنجی ہے ۔ جب تک یہ کنجی لگا کر فطرت انسانی کو کھول کر نہیں دیا جاتا اس وقت تک اس کے نہاں خانے اور اس کی راہ ورسم کی تہ تک رسائی ممکن نہ ہوگی ۔ جب ہم اس کی ایک تنگ گلی کو کھولیں گے تو کئی اور تنگ گلیاں سامنے آئیں گی اور اگر ہم اس کا ایک پہلو روشن کرلیں گے تو دس اور تاریک پہلو سامنے آئیں گے ۔ ہم ایک گرہ کھولیں گے اور مزید دس گرہیں لگ جائیں گی ۔ ہم ایک راہ کھولیں گے تو دس راہیں بند ہوجائیں گی اور اس طرح ہم ایسی بھول بھلیوں میں پڑجائیں گے کہ نکلنے کی راہ نہ ملے گی ۔ یہ وجہ ہے کہ اسلامی نظام حیات نے جاہلیت کی بری رسموں اور گندی عادات سے اپنے اصلاحی کام کا آغاز نہ کیا ۔ اسلام نے سب سے پہلے نظریاتی اصلاح سے کام شروع کیا ۔ سب سے پہلے یہ مطالبہ ہوا کہ تم کلمہ طیبہ کو قبول کرو اور مکہ کے ابتدائی تیرہ سال اسی نظریاتی اصلاح اور عقائد کی درستی میں صرف ہوئے ۔ ان طویل سالوں میں تحریک اسلامی کا نصب العین ہی شہادت لا الہ الا رہا ۔ اس عرصے میں لوگوں کو رب العالمین سے متعارف کرایا گیا ‘ ان کو صرف اسی کی بندگی کی دعوت دی جاتی رہی ‘ اور لوگوں کو صرف اسی کی بادشاہت کی طرف بلایا جاتا رہا ۔ یہاں تک کہ ان کے نفوس صرف رب واحد کے لئے خالص ہوگئے ۔ ان کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ اپنے لئے وہی کچھ پسند کرنے لگے جو ان کے لئے ان کا خدا پسند کرتا تھا ۔ جب نظریاتی اصلاح اس ڈگری تک پہنچ گئی تو اب فرائض کا آغاز ہوا ‘ مراسم عبودیت فرض ہوئے اب جاہلیت کی گندی عادات اور رسوم کی اصلاح کا آغاز ہوا ‘ اجتماعی طور طریقوں کے بدلنے کے احکام صادر ہونا شروع ہوئے ‘ اقتصادی اصلاحات نافذ کی گئیں ‘ نفسیاتی اور اخلاقی طرز عمل کی اصلاح شروع ہوئی اور یہ کام ایسے وقت میں شروع ہوا کہ ادھر سے اللہ کا حکم آتا ادھر سے مسلمان اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ‘ بغیر کسی حیل وحجت کے ‘ اس لئے کہ انہوں نے امر ونہی کے تمام اختیارات الہ العالمین کے سپرد کردیئے تھے ان کا اپنا کچھ اختیار نہ تھا ۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اوامر اور نواہی کی تلقین اس مرحلے کے بعد شروع ہوئی جب لوگوں نے مکمل انقیاد سے سر تسلیم خم کردیا ۔ ہر ایک مسلم نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کردیا ‘ اور یہ بات تسلیم کرلی کہ اللہ کے اوامر ونواہی کے بالمقابل اس کا کوئی اختیار نہیں ہے جیسا کہ استاد ابوالحسن علی ندوی نے کہا ہے وہ اپنی کتاب عالم اسلام میں مشرقیت اور مغربیت کی کشمکش میں کہتے ہیں ۔ ” کفر وشرک کا عظیم عقدہ کھل گیا ۔ بیشک یہ ایک عظیم عقدہ تھا ۔ اس عقدے کا کھلنا تھا کہ تمام عقدے کھل گئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ یہ پہلا جہاد کیا اور اس لئے انہیں مزید کسی جہاد کی ضرورت نہ رہی ۔ ہر امر اور ہر نہی کے لئے آپ کو کوئی جدوجہد کرنا نہ پڑی ۔ اس پہلے نظریاتی معرکے میں اسلام کو جاہلیت پر فتح نصیب ہوئی اور اس کے بعد ہر معرکے میں کامیابی نے آپ کا ساتھ دیا ۔ یہ اس لئے ہوا کہ یہ لوگ اپنے دلوں ‘ اپنی روح ‘ اپنے اعضاء کے ساتھ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ جب ان پر ہدایت نازل ہوتی تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخالفت اور مخاصمت نہ کرتے تھے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو فیصلہ کرتے اس پر وہ اپنے دلوں میں کوئی خلجان نہ پاتے اور سوال کے فیصلے کے بعد ان کے لیے کوئی اختیار یا دائرہ اختیار نہ رہا تھا ۔ جب معاملات میں ان سے ضمیر اور عقیدے کے خلاف کوئی بات سرزد ہوجاتی تو وہ کھلے طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دیتے ‘ اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردیتے ۔ جب ان سے غلطی ہوتی تو ان پر حد نافذ ہوجاتی ۔ تحریم شراب کا حکم آتا ہے ‘ شراب سے بھرے ہوئے جام ان کے ہاتھوں میں ہیں اور اللہ کا حکم حائل ہوجاتا ہے اور وہ ہونٹوں تک نہیں جاتے ۔ ہونٹ خشک اور جگر پیاسے رہ جاتے ہیں ۔ شراب کے مٹکے توڑ دیئے جاتے ہیں اور شراب مدینہ کی گلیوں میں سیلاب کی طرف بہ نکلتی ہے ۔ “ لیکن اس کے باوجود تحریم شراب اور اس کے ساتھ دوسری اشیاء کی تحریم کوئی اچانک کام نہ تھا ۔ اس آخری تحریم سے پہلے اس عام اور نہایت ہی گہری بیماری کا علاج بڑی تدریج کے ساتھ کیا گیا ‘ اس لئے کہ لوگ اس کے رسیا تھے اور یہ ان کے لئے ایک نہایت ہی عادی نشہ تھا ۔ اس کے ساتھ ان کے معاشرتی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہے ۔ شراب کی یہ آخری حرمت تیسرے یا چوتھے مرحلے میں نازل ہوئی ۔ پہلے مرحلے میں محض اس سمت میں ایک تیر پھینکا گیا جس کی طرف اسلامی نظام کا رجحان تھا سورة نحل کی ایک آیت میں کہا گیا : (آیت) ” ومن ثمرت النخیل والاعناب تتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا “۔ (١٦ : ٦٧) ” کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے جن سے تم شراب اور رزق حسن حاصل کرتے ہو۔ “ یہاں سکر یعنی مسکرات کو رزق حسن کے مقابلے میں رکھا گیا جس سے یہ اشارہ مطلوب تھا کہ مسکرات رزق حسن کی تعریف میں نہیں آتے ۔ گویا مسکرات کوئی اور چیز ہے اور رزق حسن کوئی اور چیز ہے ۔ اس کے بعد سورة بقرہ میں مسلمانوں کی دینی وجدان کو شراب کے خلاف ایک قانونی اور منطقی استدلال کے ذریعے جگایا گیا ۔ (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما “۔ (٢ : ٢١٩) ” لوگ آپ سے شراب اور جوائے کے بارے میں پوچھتے ہیں ؟ کہہ دیں ان میں گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لئے منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ انکے منافع سے بہت بڑا ہے ۔ “ اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا کہ جب ان سے ان کا گناہ بڑا ہے تو قلیل منافع کو نظر انداز کرکے ان کو ترک کرنا ہی اولی ہے ۔ اس لئے کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے ۔ البتہ حلال اور حرام ہونے کا دارومدار اکثریت پر ہوتا ہے ۔ نفع اور نقصان کا غلبہ دیکھا جاتا ہے ۔ تیسرا اقدام یہ کیا گیا کہ شراب نوشی کی عادت میں اوقات کی کمی کردی گئی اور شراب نوشی کو حالت صلوۃ کے منافی قرار دیا گیا ۔ سورة نساء کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی : (آیت) ”(یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون “۔ (٤ : ٤٣) (اے ایمان لانے والوجب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم جو کچھ کہو اسے سمجھو “۔ ) ۔ اب پانچ وقت کی نمازیں چونکہ اکثر باہم بہت ہی قریب ہیں اور ان کے درمیان اس قدر وقفہ نہیں ہوتا کہ کوئی شراب پئے اور نشے میں ہو کر پھر اسے افاقہ ہوجائے ‘ چناچہ ان اوقات کے اندر عملا شراب نوشی کا امکان ہی نہ رہا اور اس عمل کے لئے دائرہ تنگ ہوگیا ۔ خصوصا (صبوح) صبح کے وقت کی شراب اور ” غبوق “ یعنی بعد عصر اور بعد مغرب کی شراب کے لئے اوقات تنگ ہوگئے اس لئے کہ دور جاہلیت میں انہیں اوقات میں شراب پی جاتی تھی اور اس اسکیم کے ذریعے شریعت نے نشے کے اوقات میں خواہش کو توڑ دیا ۔ ایک مسلمان کے لئے یہ ایک بہترین تدبیر ثابت ہوئی اس لئے کہ اس وقت کسی مسلم کے بارے میں یہ سوچا بھی نہ جاسکتا تھا کہ وہ نماز چھوڑ کر شراب نوشی کرے گا ۔ اس وقت ہر مسلمان اپنے وقت پر نماز ادا کرتا تھا ۔ اس طرح شراب کا نشہ ٹوٹ جاتا ۔ اس کے بعد چوتھا اور آخری اقدام اس آیت کے ذریعے کیا گیا ۔ اب اس آخر وار کے لئے فضا تیار تھی ‘ لوگوں کے نفوس تیار تھے ‘ چناچہ حکم آتے ہیں لوگوں نے یقین کیا اور تعمیل کر ڈالی حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہا انہوں نے کہا اے اللہ ہمارے لئے شراب کے سلسلے میں کافی اور شافی بیان دے دے ۔ اس پر سورة بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما “۔ (٢ : ٢١٩) ” لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں ؟ کہہ دیں ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ انکے نفع سے بہت زیادہ ہے ۔ “ حضرت عمر (رض) کو بلایا گیا اور ان پر یہ آیت پڑھی گئی اس پر انہوں نے دوبارہ کہا اے اللہ ہمارے لئے شراب کے بارے میں کافی وشافی بیان نازل فرما ۔ اس پر سورة نساء کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ”(یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون “۔ (٤ : ٤٣) (اے ایمان لانے والو نماز کے قریب مت جاؤ جب تم نشے کی حالت میں ہو یہاں تک کہ تم جو کچھ کہو اسے سمجھو “۔ ) جب حضرت عمر (رض) کو یہ آیت سنائی گئی تو انہوں نے پھر سوال کیا کہ اے اللہ شراب کے بارے میں کافی وشافی بیان نازل فرما۔ اس پر سورة مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فھل انتم منتھون “۔ (٥ : ٩١) شیطان یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے ۔ پھر کیا تم اس سے باز رہو گے ؟ ) اس پر حضرت عمر (رض) کو بلایا گیا اور ان کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی تو انہوں نے کہا جی ہاں ہم رک گئے ‘ ہم رک گئے ۔ “ (اصحاب السنن) جب واقعہ احد کے بعد سن تین ہجری میں یہ آیات نازل ہوئیں تو اس کے سوا کسی اور اقدام کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ بس ایک منادی نے مدینہ میں اعلان کیا : ” اے قوم ! شراب حرام کردی گئی ۔ “ یہ سننا تھا کہ جس کے ہاتھ میں پیالہ تھا اس نے اسے توڑ دیا ‘ جس کے منہ گھونٹ تھا ‘ اس نے اسے تھوک دیا ‘ شراب کے مشکیزے پھاڑ ڈالے گئے اور شراب کے مٹکے توڑ دیئے گئے اور صورت حال میں اس طرح ہوگئی کہ گویا لوگوں نے نشے اور شراب کو کبھی دیکھا ہی نہ تھا ۔ اب ذرا قرآن کی آیات کی بناوٹ (Construction) دیکھئے اور وہ انداز تربیت دیکھئے جو قرآن نے اختیار فرمایا ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (90) إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ (91) وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَی رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ (92) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ یہ شراب جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو ‘ امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے ، پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے ؟ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو اور باز آجاؤ لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی ۔ آغاز اور لہجہ وہ معروف آواز ہے جس میں لوگوں کو ان کے محبوب لقب اہل ایمان سے پکارا جاتا ہے ۔ (آیت) ” (یایھا الذین امنوا) ۔ یوں مسلمانوں کے جذبہ ایمان کو جگایا جاتا ہے اور انہیں یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ ان کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آنے والے احکام کی مکمل اطاعت کریں ۔ اس کے بعد آیت کا انداز بیان نہایت ہی دو ٹوک اور حصر کے انداز میں آتا ہے ۔ (آیت) ” إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ ۔ ” یہ شراب جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں “ یہ گندے کام ہیں اور ان کاموں پر طیب کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ اور اللہ نے صرف طیبات کو حلال کیا ہے اور پھر یہ شیطانی اعمال ہیں اور شیطان انسان کا قدیمی دشمن ہے ۔ ایک مومن کے لئے تو بس یہی کافی ہے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ کوئی کام شیطانی ہے ‘ یہ سنتے ہی وہ اس سے بدکتا ہے ‘ اس کا پورا وجود کانپ اٹھتا ہے اور وہ ڈر کر اس سے دور ہوجاتا ہے ۔ ایسے حالات میں اب قطعی ممانعت صادر ہوجاتی ہے لیکن اس ممانعت کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس پر عمل سے تمہیں فلاح اخروی نصیب ہوگی ۔ یہ ایک دوسری جھلکی ہے ‘ جس کے ذریعے یہ دکھایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کس طرح انسانی نفسیات کی گہرائیوں تک احساسات اتار دیتا ہے ۔ (آیت) ” فاجتنبوہ لعلکم تفلحون “۔ اس سے مکمل اجتناب کرو تاکہ تم فلاح پاؤ “۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس گندگی کو جاری رکھ کر شیطان اپنے کیا مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے : ” شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے ۔ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے شیطان کا اصل منصوبہ اور یہ ہیں شیطان کے مقاصد جو وہ ان ناپاکیوں اور بداخلاقیوں کے ذریعے بروئے کار لانا چاہتا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی صفوں کے درمیان بغض وعداوت پھیل جائے اور یہ کام وہ شراب وکباب اور جوئے بازی کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ دوسرا مقصد اس سے وہ یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اہل ایمان کو یاد الہی اور صلوۃ سے روکتا ہے ‘ اس سے بڑی سازش اور کیا ہو سکتی ہے ؟ یہ شیطانی مقاصد جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں ‘ یہ تو وہ واقعی امور ہیں جنہیں مسلمان اپنی تاریخ میں اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں جبکہ قرآن کریم بذات خود سچا ہے اور اسے کسی تاریخی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس مسئلے پر کسی بحث اور تفتیش کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان کا یہ منصوبہ کس طرح کام کرتا ہے ۔ شراب نوشی سے انسان کا فہم اور ادراک ختم ہوجاتا ہے ۔ گوشت اور خون کا نقصان اور جذبات اور میلانات کا ہیجان اس کے فوری اثرات ہیں اور جوئے کی وجہ سے لوگوں کو جو مالی نقصان ہوتا ہے ‘ اس کی وجہ سے دلی بغض اور عداوت پیدا ہوتی ہے ‘ اس لئے کہ جوئے میں جو ہارتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ جیتنے والا اس کی دولت کو اس کی آنکھوں کے سامنے بطور مال غنیمت لے کر جارہا ہے جبکہ وہ شکست خوردہ اور دولت بریدہ ہے ۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے نتیجے میں بغض وعداوت کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے اگرچہ شرابی اور جوئے باز بظاہر یار اور دوست نظر آتے ہیں اور ایک ہی مجلس میں خوش وخرم نظر آتے ہیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور پختہ ہم نشین ہیں۔ دوسری برائی کہ یہ دونوں چیزیں ذکر الہی سے روکنے والی ہیں اور نماز سے روکتی ہیں تو یہ ایسی باتیں ہیں جن کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے ۔ شراب بےہوش کرتی ہے اور جو امدہوش کرتا ہے اور جوئے میں جس طرح مت ماری جاتی ہے وہ شراب نوشی کی بےہوشی سے کم نہیں ہے ۔ جوئے باز کی دنیا اور شراب خور کی دنیا ایک ہی دنیا ہے اور یہ شراب وکباب اور جام وسبو سے آگے نہیں ہے ۔ جب بات یہاں تک آپہنچتی ہے اور یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اس گندگی کے پھیلانے سے شیطان کے اصل مقاصد کیا ہیں تو ایک مومن کا دل جاگ اٹھتا ہے اور اس کا احساس تیز ہوجاتا ہے ۔ وہ فیصلہ کن اقدام کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے اور جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا تم اس سے باز آنے والے ہو ؟ تو ہر مومن کے دل میں وہی جواب تیار ہوچکا ہوتا ہے جو حضرت عمر (رض) نے دیا تھا ہاں ! بیشک ہم باز آگئے ‘ ہم باز آگئے ۔ اب بات مزید آگے بڑھتی ہے اور ایک آخری چوٹ لگائی جاتی ہے ۔ (آیت) ” وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَی رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ (92) ” اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو اور باز آجاؤ لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی ۔ “ یہ وہ اصول ہے جس کی طرف تمام معاملات لوٹتے ہیں ‘ اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور یہی ہے اسلام ۔ اسلام کے اندر اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےقید اطاعت کے علاوہ کسی اور چیز کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اگر کوئی اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے روگردانی کرے گا تو اس کے نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوگا ۔ (آیت) ” ْ فَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَی رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ (92) ” اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر بس صاف صاف حکم بتا دینے کے سوا کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے “۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اللہ کا پیغام بہت ہی اچھے طریقے سے پہنچا دیا ۔ اس صاف صاف بتا دینے کے بعد تمام تر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوگئی جو مخالفت کر رہے ہیں ۔ یہ بالواسطہ طور پر ایک سخت دھمکی ہے ۔ ایک مومن کا بدن کانپ اٹھتا ہے اس لئے کہ اہل ایمان اگر نافرمانی کرتے ہیں اور اللہ و رسول کی اطاعت نہیں کرتے تو گویا صرف اپنا ہی نقصان کرتے ہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو تبلیغ کردی اور اپنا فریضہ اچھی طرح ادا کردیا اور ان کے معاملے سے فارغ ہوگئے ‘ ہاتھ جھاڑ دیئے ۔ اب اگر وہ عذاب کے مستحق ہوتے ہیں تو رسول ان سے عذاب کو دفعہ نہیں کرسکتے ۔ خصوصا جبکہ انہوں نے ان کی نافرمانی کی اور آپ کی اطاعت نہ کی اور اللہ سرکشوں اور نافرمانوں کو سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے ۔ یہ اسلامی منہاج اصلاح ہے جو انسان کے دلوں میں اترتا ہے ‘ دلوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ‘ دلوں کے بند دروازے کھولتا ہے ۔ اس کے بعد پھر اس پر نہایت ہی خفیہ راستے اور نشیب و فراز کھلتے ہیں ۔ یہاں مناسب ہے کہ ہم ذرا اس شراب کی تفصیلات دے دیں جسے یہاں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ امام ابو داؤد نے حضرت ابن عباس (رض) سے اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے کہ ” ہر نشہ دلانے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ “ حضرت عمر (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر پر خطبہ دیا اور اس خطبے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی ایک جماعت موجود تھی ” اے لوگو ‘ شراب کی حرمت کا حکم جس وقت نازل ہوا تمہیں معلوم ہے ‘ شراب پانچ چیزوں سے ہے ۔ انگور سے ‘ کھجور سے ‘ شہد سے ‘ گندم سے اور جو سے اور شراب کی تعریف ہے ” وہ جو عقل کو ڈھانپ لے۔ “ ان دونوں روایات سے یہ معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز خمر کی تعریف میں آتی ہے جو بےہوش کرتی ہے ۔ خمر سے مراد شراب مسکر کی کوئی خاص قسم مراد نہیں ہے جو مشروب بےہوش کرتا ہو وہ خمر ہے ۔ کسی بھی نشہ آور چیز کے ذریعے انسان کی ہوش کا غائب ہونا ‘ اس دائمی بیداری کے ساتھ متضاد ہے جو اسلام نے ہر شخص کے لئے لازمی کردی ہے ۔ اسلام کی پالیسی یہ ہے کہ انسان بیدار رہے اور مسلسل اللہ کے ساتھ مربوط رہے ۔ ہر لحظہ وہ اللہ کی طرف دیکھتا رہے ۔ پھر اس مسلسل بیداری کی حالت میں وہ اس دنیا کی ترقی اور نشوونما میں لگا رہے ۔ کمزوری اور فساد سے اس زندگی کو بچاتا رہے اور اپنے نفس اپنے مال اور اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہرے ۔ جماعت مسلمہ کے امن وامان ‘ نیز اسلامی شریعت اور اسلامی نظام زندگی کا محافظ ہو تاکہ اس پر کوئی بھی دست درازی نہ کرسکے اس لئے کہ ایک مسلمان فرد صرف اپنی ذات اور اپنی لذتوں کے اندر غرق نہیں رہ سکتا ۔ اس پر اس قسم کے فرائض عائد کئے گئے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے اسے ہر وقت بیدار رہنا پڑتا ہے ۔ کچھ فرائض اس پر اس کے رب کی جانب سے ہیں ‘ کچھ فرائض اپنے نفس کی طرف سے ہیں ‘ کچھ فرائض اس کے اہل و عیال کی طرف سے ہیں ‘ کچھ فرائض اس اسلامی سوسائٹی کی طرف سے ہیں جس میں وہ رہ رہا ہے ۔ اس کے بعد پوری انسانیت کی جانب سے بھی اس پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں تاکہ وہ اسے اسلامی دعوت دے اور راہ ہدایت سکھائے ۔ اس وجہ سے اسلام اس سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر وقت بیدار رہے ۔ نیز جب وہ پاک چیزوں سے بھی استفادہ کر رہا ہو تو بھی اس سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ بیدار رہے ‘ خود دار رہے اور لذات اور شہوات کا بندہ اور غلام نہ بن جائے ، اسے چاہئے کہ وہ اپنی خواہشات اور رغبات کو لگام میں رکھے ۔ وہ اپنی خواہشات کا بندہ و غلام نہ ہو بلکہ مالک اور آقا ہو ۔ جو لوگ مدہوشی میں پناہ لے کر اس دنیا سے اوجھل ہونا چاہتے ہیں ‘ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ مذکورہ بالافرائض میں سے کوئی فریضہ بھی ادا نہیں کرسکتے ۔ پھر اپنے آپ کو عالم مدہوشی میں داخل کرنے کی حقیقت کیا ہے ۔ کچھ وقت کے لئے نشے باز اپنے آپ کو حقیقی دنیا سے علیحدہ کردیتا ہے اور وہ ایک طرح حقیقی زندگی سے فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ وہ ان تصورات کی دنیا میں پناہ لیتا ہے جو خمار اور نشے کی حالت میں ذہن میں آتے ہیں ۔ اسلام انسان کے لئے اس قسم کی موہوم دنیا اور خیالی تصورات میں گھومنے کو حرام قرار دیتا ہے ۔ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ حقائق کا مقابلہ کریں ‘ حقائق میں زندہ رہیں اور اپنی زندگی کو حقائق پر چلائیں ۔ ان کی زندگی محض ادہام اور تخیلات پر قائم نہ ہو ۔ جب انسان حقائق کا سامنا کرتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے عزم و ارادے کا کیا حال ہے ۔ رہا یہ طریق کار کہ کوئی حقائق سے فرار اختیار کر کے محض تخیلات اور ادہام کی زندگی میں جالے تو یہ ناقص اور بیمار انداز حیات ہے ۔ اس صورت میں عزم کمزور ہوتا ہے ‘ ارادہ تحلیل ہوجاتا ہے ۔ اسلام انسان کے ارادے کو بہت ہی بڑی اہمیت دیتا ہے ‘ اور اس کی پالیسی یہ ہے کہ اس کا ارادہ آزاد ہو اور اس کے اوپر کوئی جابر اور قاہر قوت نہ ہو ۔ مذکورہ بالا اسلامی پالیسیاں ہی اس بات کے لئے کافی ہیں کہ تمام نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا جائے اس لئے یہ ناپاک اور شیطانی اعمال ہیں اور ان سے انسانی زندگی میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا شراب تمام نجاستوں کی طرح نجس بھی ہے یا نہیں ہے ؟ یا صرف پینا حرام ہے ۔ پہلا قول کہ وہ نجس ہے یہ جمہور کا قول ہے اور دوسرا قول ربیعہ ‘ لیث ‘ مزنی (امام شافعی کے ساتھی) اور بعض متاخرین بغدادی علماء کا ہے ۔ بس ہمارے لئے اسی قدر ذکر کافی ہے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں شراب کو حرام کردیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ نجس ہے اور شیطانی عمل ہے اس وقت اسلامی سوسائٹی کے اندر دو سوال پیدا ہوئے ‘ ایک یہ کہ بعض نہایت ہی پاک فطرت اور محتاط صحابہ کرام کے یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے ان ساتھیوں کا کیا بنے گا جنہوں نے ایسے حالات میں انتقال کیا کہ وہ شراب پیتے تھے ۔ بعض نے یہ کہا کہ ان لوگوں کا کیا بنے گا کہ جو احد میں شہید ہوئے اور ان کے پیٹوں میں شراب تھی ۔ (اس وقت شراب حرام نہ تھی) اور جو لوگ اسلامی صفوں میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنا چاہتے تھے انہوں نے بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ۔ ان کا مقصد یہ تھا اسلام کے عمل قانون سازی کے اندر شبہات اور شکوک پھیلائیں ۔ یہ لوگ یہ اشارہ دیتے کہ جو لوگ پہلے فوت ہوئے ان کا ایمان ضائع ہوگیا اس لئے کہ وہ تو شراب پیتے تھے جو ناپاک ہے اور اعمال شیطانیہ میں سے ہے ۔ ان میں سے بعض لوگ اس حال میں فوت ہوئے کہ ان کے پیٹ میں یہ ناپاک شے موجود تھی ۔ ان دونوں قسم کے خدشات و اعتراضات کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” لَیْْسَ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّأَحْسَنُواْ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (93) جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا ‘ اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ ان چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں ‘ پھر جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں اور جو فرمان الہی ہو اسے مانیں ‘ پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں ۔ اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔ ‘ ‘ اس آیت میں فیصلہ یہ کیا گیا کہ جسے حرام نہ کیا گیا ہو ‘ وہ حرام نہیں ہے ۔ اور یہ کہ تحریم کا اطلاق حکم الہی کے بعد ہوتا ہے ۔ پہلے نہیں ہوتا اور یہ کہ تحریم موثر بماضی نہ ہوگی ‘ لہذا کوئی سزا اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کوئی نص وارد نہ ہو ‘ چاہے یہ سزا دنیا کی سزا ہو یا آخرت کی سزا ‘ اس لئے کہ اللہ کا کلام ہی وجود میں لاتا ہے ۔ جو لوگ مر گئے ‘ شراب پیتے رہے یا ان کے پیٹ میں شراب تھی اور اس وقت حرام نہ تھی تو ان پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ انہوں نے کوئی حرام چیز استعمال نہیں کی ۔ نہ انہوں نے کوئی نافرمانی کی ۔ وہ تو اللہ سے ڈرنے والے تھے ۔ معاصی سے بچنے والے تھے ‘ نیک کام کرتے تھے اور اللہ سے اچھے انجام کی امید رکھتے تھے ‘ ان کو اچھی طرح یقین تھا کہ اللہ ان کی نیتوں سے خوب واقف ہے ‘ ان کے اعمال کو جانتا ہے ۔ جن لوگوں کے حالات ایسے ہوں وہ محرمات کا ارتکاب کیسے کرسکتے ہیں اور وہ معصیت کا ارتکاب کیسے کرسکتے ہیں۔ ہم یہاں ان مباحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتے ‘ جو معتزلہ نے اس حکم کے بارے میں کیے ہیں۔ معتزلہ نے یہ بحثیں کیں کہ آیا شراب کے اندر نجاست ذاتی ہے یا اس کے اندر نجاست اللہ کی اس آیت کی وجہ سے پیدا ہوگئی ۔ نیز تمام محرمات کے اندر حرمت ذاتی ہے یا وارد حکم کی وجہ سے حرمت لاحق ہوجاتی ہے ۔ یہ بےنتیجہ بحث ہے اور اسلامی شعور اس بحث کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو حرام قرار دیتے ہیں ‘ تو یہ بات اللہ کے علم میں ہوتی ہے کہ اللہ اس چیز کو کیوں حرام قرار دے رہے ہیں چاہے اللہ حرمت کے سبب کی تصریح کرے یا نہ کرے ‘ چاہے حرمت اس لئے ہو کہ سبب حرام چیز کی ذات کے اندر ہو یا اس چیز کو استعمال کرنے والے کے اندر سبب حرمت ہو یا محض سوسائٹی کے مفادات کے لئے اسے حرام قرار دیا گیا ہو ‘ تمام چیزوں کا علمتو صرف اللہ ہی کو ہوتا ہے ۔ اللہ کے احکام کی اطاعت واجب ہے اور احکام آنے کے بعد اس قسم کے مباحث کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کا مزاج ہی واقعیت پسندانہ ہے لہذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اگر حرمت کسی ایسے سبب کی وجہ سے تھی جو محرم کی ذات میں تھی تو پھر حرمت سے پہلے وہ چیز حلال کیوں تھی ؟ اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ایسی مصلحت ہو جس کی وجہ سے اللہ نے کچھ عرصہ کے لئے اسے حرام قرار نہ دیا ہو ‘ ہر بات اللہ کے اختیار میں ہے ۔ یہی اس کی حاکمیت کا تقاضا ہے ۔ یہ بات نہیں ہے کہ انسان کسی چیز کو اچھا سمجھے تو اچھی ہے برا سمجھے تو بری ہے ۔ بعض اوقات انسان کسی چیز کو حکم کی علت سمجھتا ہے اور وہ علت نہیں ہوتی ۔ اللہ کی بارگاہ میں باادب طریقہ یہی ہے کہ حکم کو سنا جائے ‘ قبول کیا جائے اور نافذ کیا جائے ‘ چاہے کوئی اس کی علت اور حکمت کو سمجھے یا نہ سمجھے ۔ علت معلوم ہو یا خفی ہو ‘ اس کو اللہ ہی جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے ۔ اسلامی شریعت پر عمل کی بنیاد اللہ کی بندگی اور غلامی کے اصول پر ہے ۔ اللہ کی اطاعت اس لئے ہے کہ ہم اللہ کے غلام ہیں ‘ اور یہی ہے اسلام بمعنی سرتسلیم خم کرنا ۔ یہ تو اطاعت کے بعد کا درجہ ہے کہ کوئی عقلمند شریعت کی حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ اپنی سمجھ کے مطابق یہ کام وہ تمام اوامر ونواہی میں کرسکتا ہے ‘ چاہے وہ حکمتیں منصوص ہوں یامنصوص نہ ہوں ‘ اسے عقل انسانی سمجھ سکتی ہو یا نہ سمجھ سکتی ہو ۔ اس لئے کہ شریعت اسلامی کے متحقق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کنندہ انسان نہیں ہے ۔ یہ اللہ ہے جو یہ فیصلہ کرسکتا ہے ۔ جب اللہ نے حکم فرما دیا یا منع کردیا تو اطاعت لازم ہوگئی ۔ اگر اللہ اسلامی شریعت کے بارے میں آخری فیصلہ کنند عقل انسانی کو قرار دیدیتا تو عقل انسانی کا مقام اسلامی شریعت سے اونچا ہوجاتا ۔ اس صورت میں مقام الوہیت اور مقام عبودیت کے پھر فرق کیا رہ جاتا ۔ اب ذرا عربیت کے اعتبار سے اس آیت کی ترکیب (Construction) پر بات ہوجائے ۔ اس آیت میں تقوی کو تین مرتبہ دہرایا گیا ہے ۔ (آیت) ” اتقوا وامنوا وعملوا الصلحت “ یعنی تقوی ایمان اور عمل صالح ۔ پھر (اتقوا وامنوا “ ) تقوی اور ایمان فقط ۔ پھر (اتقوا واحسنوا) تقوی اور احسان کا ذکر کیا ہے ۔ اس عبارت میں اس انداز میں تقوی کی تکرار کیوں کی گئی ۔ اس سلسلے میں کسی مفسر کی توجیہ تشفی بخش نہیں رہی ہے ۔ اسی طرح فی ظلال القرآن کے پہلے ایڈیشن میں ‘ میں خود بھی کوئی تشفی بخش توجیہ نہیں کرسکا اور ابھی تک کوئی تسلی بخش بات سمجھ میں نہیں آئی ہے ۔ تفاسیر کی توجیہات میں سے دوسروں کے مقابلے میں جو بہتر توجیہ مجھے ملی ہے وہ ابن جریر کی ہے اگرچہ تشفی بخش نہیں ہے وہ کہتے ہیں : ” پہلے تقوی سے مراد یہ ہے کہ خدا ترسی کے ساتھ اللہ کے حکم کو قبول کیا جائے ‘ اس کی تصدیق کیا جائے اور اس پر دینداری کے ساتھ عمل کیا جائے ‘ دوسرے تقوی سے مراد یہ ہے کہ خدا خوفی سے اس پر ثابت قدم رہا جائے ‘ اور تیسرے سے مراد وہ خدا خوفی ہے جس میں احسان اور نوافل کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ۔ اس کتاب کے طبع اول میں خود میں نے جو کچھ کہا تھا ‘ وہ یہ تھا ۔ ” یہ مزید تفصیل دے کر تاکید کرنا ہے ۔ پہلے فقرے میں ایمان ‘ عمل صالح اور تقوی کا ذکر ہوا ہے ‘ دوسرے فقرے میں تقوی کا ذکر ایمان کے ساتھ ہوا اور تیسرے میں تقوی اور احسان یعنی عمل صالح کے ساتھ ذکر ہوا ۔ اس تاکید کا مقصد یہ ہے کہ تمام امور کا مدار تقوی پر ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اعمال کی اصل قدروقیمت اس باطنی شعور کی وجہ سے ہوتی ہے جو انکی پشت پر ہوتا ہے اور یہ باطنی شعور تقوی ہے ‘ جس کا اظہار خدا ترسی کے ذریعے ہوتا ہے اور اس شعور کی وجہ سے انسان اللہ کی ذات کے ساتھ ہر وقت جڑا رہتا ہے ۔ اللہ پر ایمان ‘ اس کے اوامر وانواہی کی تصدیق اور عمل صالح جو اس باطنی عقیدے اور خفیہ شعور کا ترجمان ہوتا ہے ۔ اس عمل صالح اور اس باطنی شعور کے درمیان ایک ربط ہوتا ہے ۔ یہ تمام باطنی شعور اور تقوی اصل مطلوب ہیں اور انہی پر مدار حکم ہے ۔ اعمال کی ظاہری اشکال وصور پر مدار حکم نہیں ہے ۔ یہ بات کہ اصل مدار نیت ‘ روح اور باطنی شعور پر ہے اس قدر اہم اور اصولی بات ہے کہ اس کے لئے بار بار تکرار کی ضرورت ہے ۔ ابھی تک میں خود اپنی بات سے بھی مطمئن نہیں ہوں لیکن اسکے سوا کوئی اور بات بھی میری سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ واللہ ھو المستعان۔ آگے بات بھی حلال و حرام کے موضوع پر ہی جاری ہے ۔ حالت احرام میں شکار کے مسئلے پر بات ہو رہی ہے ۔ شکار کے قتل کا کفارہ ‘ یہ حکمت کہ اللہ تعالیٰ کے بیت ‘ اشہر حرام ‘ ہدی اور پٹے ڈالے ہوئے جانوروں کا احترام کیوں فرض کیا ہے ؟ اور اس سورة کے آغاز میں ان چیزوں کو چھیڑنے سے منع کیا گیا ہے ۔ آخر میں ایک فرد مسلم اور ایک اسلامی سوسائٹی کے لئے ایک عام اصول اور پیمانے کا ذکر کردیا جاتا ہے ۔ ایسا پیمانہ کہ اس میں پاک چیز کی قدرو قیمت زیادہ ہے اگرچہ قلیل ہو اور ناپاک چیز اگرچہ بہت ہی زیادہ ہو اس کی کوئی قدر نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

خمر اور میسر اور انصاب و ازلام ناپاک ہیں ان آیات میں شراب اور جوئے اور بت اور جوا کھیلنے کے تیروں کو گندی چیزیں بتایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ چیزیں شیطان کے کاموں میں سے ہیں۔ عرب کے لوگ بت پوجا کرتے تھے، اور بتوں کے پجاریوں کے پاس تیر رکھ دیتے تھے ان تیروں کے ذریعہ جوا کھیلتے تھے جس کی تشریح سورة مائدہ کی آیت نمبر ٣ کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ سورة بقرہ میں فرمایا (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ للنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا) (اور آپ سے سوال کرتے ہیں شراب اور جوئے کے بارے میں ! آپ فرما دیجئے ! کہ ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں اور ان کا گناہ ان کے منافع سے زیادہ بڑا ہے) اس سے واضح ہوا کہ شراب اور جوئے میں اگرچہ کچھ نفع بھی ہے مگر ان کا جو گناہ ہے وہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیز کے جائز ہونے کے لئے یہی کافی نہیں ہے کہ وہ نفع مند ہو بہت سے لوگ جوئے اور شراب اور سود وغیرہ کے صرف منافع کو دیکھتے ہیں اور شریعت اسلامیہ میں جو ان کی حرمت بیان کی گئی ہے اس کی طرف دھیان نہیں کرتے اور نفع کی شق کو دیکھ کر حلال قرار دے دینے کی بےجا جسارت کرتے ہیں۔ یہ ملحدوں اور زندیقوں کا طریقہ ہے۔ شراب کی حرمت ایک صاحب نے اپنے ایک ملنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ دھڑلے سے شراب پیتا اور کہتا ہے کہ بتاؤ قرآن میں شراب کو کہاں حرام فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن چیزوں کی ممانعت صریح قرآن مجید میں نہیں ہے بلکہ احادیث شریفہ میں آئی ہے یا جس چیز کی ممانعت فرماتے ہوئے لفظ حرام استعمال نہیں فرمایا اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی جہالت اور گمراہی ہے۔ ایسے ہی قرآن کے ماننے والے ہیں تو قرآن ہی سے یہ ثابت کردیں کہ قرآن نے جس چیز کی ممانعت کے لئے لفظ حرام استعمال کیا ہے بس وہی حرام ہے قرآن مجید میں بہت سی چیزوں سے منع فرمایا گیا ہے لیکن ان کے ساتھ لفظ حرام استعمال نہیں فرمایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرما نبرداری اور آپ کے اتباع کا بھی حکم دیا ہے اور آپ کی صفات بیان کرتے ہوئے سورة اعراف میں (یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبَاتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَآءِثَ ) فرمایا ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی چیز کو حرام قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو۔ سات وجوہ سے شراب اور جوئے کی حرمت سورۂ مائدہ کی آیت بالا میں شراب اور جوئے کو ” رجس “ یعنی گندی چیز بتایا ہے اور پھر سورة اعراف میں (یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَآءِثَ ) فرمایا ہے اس کی تصریح کے ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص شراب اور جوئے کو حرام نہ سمجھے تو اس کے بےدین ہونے میں کیا شک ہے ایسا شخص ملحد اور بےدین اور کافر ہے پھر یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگرچہ قرآن مجید میں شراب کے لئے لفظ حرام استعمال نہیں فرمایا لیکن اس کی حرمت کی وجوہ بتادی ہیں اور سات باتیں ذکر فرمائی ہیں۔ جن کے ذکر سے واضح طور پر حرمت کا اعلان بار بار فرمایا دیا۔ (١) اول تو یہ فرمایا کہ شراب اور جوا ” رجس “ یعنی گندی چیزیں ہیں (٢) پھر فرمایا (مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ) کہ یہ شیطانی کاموں میں سے ہیں (٣) پھر فرمایا فاجْتَنِبُوْہُکہ اس سے بچو (٤) فرمایا (لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ معلوم ہوا کہ جوئے اور شراب میں مشغول ہونا ناکامی کا سبب ہے۔ جو دنیا اور آخرت میں سامنے آئے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

152 یہ دوسرے مسئلے کا بیان ہے یعنی غیر اللہ کی نذر و نیاز حرام اور نجس ہے اَلْمَیْسِرُ یعنی جوا۔ اس سے جوئے کی کوئی بھی مخصوص صورت مراد نہیں بلکہ وہ تمام صورتیں اور شرطیں مراد ہیں۔ جن پر جوئے کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ مثلا لاٹری، ریس پر بازی لگانا وغیر۔ اَلْاَنْصَابُ ، نُصُبٌ کی جمع ہے یعنی بڑے بڑے بت، مراد ان کے نام پر دی جانے والی نذریں ہیں والْاَزْلَام اس سے تیروں کے ذریعے تقسیم مراد ہے۔ ان تمام چیزوں کو ناپاک اور شیطانی فعل قرار دیا اور فرمایا ان سے اجتناب کرو اور دور رہو اسی میں تمہاری کامیابی اور فلاح کا راز مضمر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

90 اے اہل ایمان ! سوائے اس کے نہیں کہ شراب اور جوا اور معبود ان باطلہ کے نشانات یعنی بت اور ان کے تھان وغیرہ اور قرعہ اندازی اور فال لینے کے نیز یہ سب گندی اور گھنائونی چیزیں ہیں جو شیطان کے کاموں میں سے ہیں اور اعمال شیطانی ہیں لہٰذا تم ان ناپاک باتوں میں سے ہر ایک ایک بات سے بچتے رہا کرو تاکہ تم فلاح پائو اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو۔