Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 25

سورة الطور

وَ اَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ یَّتَسَآءَلُوۡنَ ﴿۲۵﴾

And they will approach one another, inquiring of each other.

اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And some of them draw near to others, questioning. meaning, the believers will draw near to each other talking and remembering their actions and conditions in this life, just as people in this life talk while drinking, especially when they become intoxicated, قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 ایک دوسرے سے دنیا کے حالات پوچھیں گے کہ دنیا میں وہ کن حالات میں زندگی گزارتے اور ایمان و عمل کے تقاضے کس طرح پورے کرتے رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(واقبل بعضھم علی بعض یتسآء لون : یعنی اہل جنت ان نعمتوں سے جن کا ذکر اوپر گزرا شاد کام ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ ان میں سے ہر ایک پوچھنے والا بھی ہوگا اور دوسرے کو واب دینے والا بھی کہ سناؤ دنیا میں تم پر کیا کچھ گزرا ؟ پھر اس کی مصیبتوں اور فتنوں سے بچتے بچاتے یہاں جنت میں کیسے پہنچے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ انہیں گزشتہ تمام واقعات یادہوں گے ، چناچہ وہ اپنی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہیں گے۔ ایک دوسرے سے اس سوال و جواب میں ان کے ابٓاء اور ان کی اولاد کی گفتگو بھی شامل ہے جو ایک درجے میں اکٹھے ہوں گے۔ تو خوشی سے ایک دوسرے سے گزرے ہوئے احوال کے متعلق سوال کریں گے اور موجودہ حالت کے بارے میں بیھ کہ اللہ تعالیٰ نے ہم جیسے گناہگ اورں پر اتنا بڑا انعام کیسے کردیا کہ ہمیں جنت میں داخل فرمایا اور پھر ہم سے بعض کے عمل کی کوتاہی کے باوجود سب کو یکجا کردیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ۝ ٢٥ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥{ وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّـتَسَآئَ لُوْنَ ۔ } ” اور وہ (اہل جنت) ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے باہم سوال کریں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:25) اقبل : ماضی (بمعنی مستبقل) واحد مذکر غائباقبال (افعال) مصدر۔ وہ متوجہ ہوگا وہ رخ کرے گا۔ یتساء لون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ تساول (تفاعل) مصدر۔ باہم ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ دنیا میں جو خوف اور دکھ تھا باہم اس کا تذکرہ کریں گے (ابن عباس)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اپٓس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں گے کہ جنت کی زندگی کیونکہ گزر رہی ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنتی کی آپس میں گفتگو اور اظہار تشکر۔ جنتی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور آپس میں خوش گپیاں کرنے کے باوجود ہر دم اس بات کا خیال رکھیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل نہ کرتا تو ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح جہنم کے عذاب میں جل رہے ہوتے۔ رب کریم کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں جہنم کے جلادینے والے عذاب سے بچا کر جنت میں داخل فرمایا۔ ہم دنیا میں اپنے اہل خانہ میں بیٹھے ہوئے بھی اپنے رب سے ڈرا کرتے اور اس سے اس کی رحمت مانگا کرتے تھے۔ اس نے ہماری دعاؤں کو قبول کیا، ہم پر مہربانی فرمائی اور ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل فرمایا کیونکہ وہ بہت ہی احسان فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے۔ جنتی دل کی گہرائی اور زبان کی سچائی سے اس حقیقت کا اعتراف کریں گے کہ جنت کا داخلہ ہماری نیکیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہے۔ جنتی کی گفتگو کا حوالہ دے کر یہ بتلایا گیا ہے کہ جنت میں جانے والے لوگ لوگوں کے سامنے صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ حقیقتاً نیک ہوتے ہیں۔ جس وجہ سے ان کے گھروں کا ماحول دینی اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ وہ خود بھی اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی خدا خوفی کا سبق دیتے ہیں۔ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کو خدا خوفی کا درس دیتے رہیں۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِيْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِيْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِيْ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو ! اپنے لیے کچھ کرلو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے لیکن میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ “ (یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلَاءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُون اللّٰہَ لَا یَعْصُون اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) (التحریم : ٦) ” اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے۔ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ نیک لوگ جلوت اور خلوت میں اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ ٢۔ نیک لوگوں کے گھر کا ماحول بھی دینی اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ ٣۔ نیک لوگ اپنے رب سے جنت مانگنے کے ساتھ جہنم کے عذاب سے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے : ١۔ اللہ ہی رحم کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٢۔ مہربانی کرنا اللہ نے اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٣۔ میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردیں کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) ٤۔ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکالتا ہے کیونکہ وہ رحم فرمانے والا ہے۔ (الاحزاب : ٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واقبل ........ الرحیم (٨٢) (٢٥ : ٥٢ تا ٨٢) ” یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے) حالات پوچھیں گے۔ یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔ یہ پچھلی زندگی میں اس سے دعائیں مانگتے تھے۔ وہ واقعی بڑا ہی محسن اور رحیم ہے۔ “ راز یہ ہے کہ انہوں نے اس دن سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی۔ وہ اللہ کی ملاقات سے ڈرتے تھے۔ اللہ کے سامنے حساب و کتاب کا انہیں ڈر تھا۔ وہ اپنے اہل و عیال میں تھے لیکن ڈرتے تھے۔ بظاہر وہ اس دنیا کے جھوٹے امن و عافیت میں تھے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو دھوکہ نہ دیا۔ اس جہاں میں لہو ولعب کا مشغلہ جاری تھا مگر وہ اس میں شریک نہ ہوئے۔ اللہ نے ان پر احسان کیا اور ان کو سخت گرم ہوا کے عذاب سے بچایا۔ اس ہوا کو السموم اس لئے کہا گیا کہ یہ سم اور زہر کی طرح جسم میں حرارت داخل کرتی تھی جو نیش زن تھی اور اس عذاب سے اللہ نے ان کو محض اپنے فضل وکرم سے بچایا کیونکہ اللہ نے جان لیا کہ یہ لوگ ڈرنے والے ، محتاط اور خضوع وخشوع والے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ یہ ان کی صفات میں اور وہ جانتے ہیں کہ عمل کے ذریعے کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر اس کے ساتھ اللہ کا فضل وکرم نہ ہو کیونکہ عمل تو صرف یہ شہادت ہے کہ صاحب عمل نے جدوجہد کی اور اللہ کے ہاں جو انعامات ہیں ان کی خواہش کی۔ یہ بات اللہ کے فضل کی اہلیت ہے اور اللہ سے ڈرنے اور خائف ہونے کے ساتھ وہ اپنی مشکلات میں اللہ ہی کو پکارتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” واقبل بعضہم “ یہ اہل جنت کی باہمی گفتگو ہے جس میں وہ اللہ کے انعام و اکرام کا اعتراف اور اس کے احسان کا شکر کریں گے۔ ” یتساءلون “ آپس میں گفتگو کریں گے اور دنیا کے بعض احوال کا ذکر کریں گے۔ وہ کہیں گے دنیا میں تو ہم بہت ہی خائف تھے اور ہمیں ڈر تھا کہ ہم بڑے گنہگار ہیں، اللہ کے عذاب سے کس طرح بچیں گے۔ ” فمن اللہ۔ الایۃ “ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم گنہگاروں پر کتنا بڑا احسان فرمایا کہ محض اپنی رحمت سے ہمارے گناہ معاف فرما دئیے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) وہ اہل جنت آپس میں ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہوکر گفتگو اور پوچھ گچھ کرتے ہوں گے۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کے واقعات دریافت کریں گے۔