Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 38

سورة الطور

اَمۡ لَہُمۡ سُلَّمٌ یَّسۡتَمِعُوۡنَ فِیۡہِ ۚ فَلۡیَاۡتِ مُسۡتَمِعُہُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ؕ۳۸﴾

Or have they a stairway [into the heaven] upon which they listen? Then let their listener produce a clear authority.

یا کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر سنتے ہیں؟ ( اگر ایسا ہے ) تو ان کا سننے والا کوئی روشن دلیل پیش کرے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ... Or have they a stairway, by means of which they listen. meaning, do they have a stairway to heaven (to the place where the angels are), ... فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ Then let their listener produce some manifest proof. meaning, let their listener produce evidence to the truth of their actions and statements. They will never be able to do so and therefore, they have nothing and have no evidence for their stance. Allah admonishes them regarding their claim that He has daughters and that the angels are females! The pagans chose for themselves male offspring and preferred them instead of females, and when one of them would be brought the good news of a daughter being born, his face would turn dark on account of his suppressed anger! Yet, they made the angels Allah's daughters and worshipped them besides Allah, أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 یعنی کیا ان کا دعویٰ ہے کہ سیڑھی کے ذریعے سے یہ بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح آسمانوں پر جاکر ملائکہ کی باتیں یا ان کی طرف جو وحی کی جاتی ہے، وہ سن آئے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] یعنی عالم بالا سے کوئی ایسی بات سن آئے ہیں کہ مکہ میں جو نبی پیدا ہوا ہے اسے ہم نے تو نہیں بھیجا تھا۔ اس نے از خود ہی کچھ کلام تالیف کرکے لوگوں سے کہہ رکھا ہے کہ یہ کلام مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوتا ہے ؟ اگر کوئی ایسی بات ہے تو اس کا ثبوت پیش کریں۔ پھر جب رسالت کی تردید کے لیے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تو وہ اس قدر ہٹ دھرمی اور سختی سے اس کا انکار کیسے کر رہے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ام لھم سلم یستعون فیہ …:) یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ عالم بالا کی طرف کان لگائے رکھتے ہیں اور وہاں سے سن آئے ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہی حق ہے اور یہ بھی سن آئے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول نہیں اور نہ اس نے انہیں بھیجا ہے، بلکہ انہوں نے قرآن خود ہی تصنیف کر کے اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگا دیا ہے۔ اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے تو وہ اس کی واضح دلیل پیش کرے، جس سے معلوم ہو کہ وہ واقعی آسمان تک گیا تھا اور وہاں اس نے واقعی اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی باتیں سنی ہیں۔ دیکھیے سورة احقاف (٤) اور سورة فاطر (٤٠) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے کے لئے کوئی نقلی دلیل بھی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

{ 1} It means that their arguments against Islam having failed on rational grounds, the only possibility was that they had a direct link with Allah whereby they have ensured that their faith was true, but no one could bring any proof of having such a link with Allah. (Muhammad Taqi Usmani) { 2} This points out to the demand of the pagans of Makkah that they would not believe in the Holy Prophet unless he brings some pieces of the sky falling down from above. (See 17:92 and 26:187 in the Qur an) The answer given is that even if Allah fulfils this absurd demand, they would still not believe and would seek other excuses like claiming that the mass they are seeing is nothing but a cloud. (Muhammad Taqi Usmani)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَہُمْ سُلَّمٌ يَّسْتَمِعُوْنَ فِيْہِ۝ ٠ ۚ فَلْيَاْتِ مُسْتَمِعُہُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۝ ٣٨ ۭ سُّلَّمُ سيڑهي والسُّلَّمُ : ما يتوصّل به إلى الأمكنة العالية، فيرجی به السّلامة، ثمّ جعل اسما لكلّ ما يتوصّل به إلى شيء رفیع کالسّبب، قال تعالی: أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ [ الطور/ 38] ، وقال : أَوْ سُلَّماً فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 35] ، وقال الشاعر : ولو نال أسباب السماء بسلّم والسَّلْمُ والسَّلَامُ : شجر عظیم، كأنه سمّي لاعتقادهم أنه سلیم من الآفات، والسِّلَامُ : الحجارة الصّلبة . السلم اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بلند مقامات پر چڑھا جاتا ہے ۔ تاکہ سلامتی حاصل ہو پھر سبب کی طرح ہر اس چیز کو مسلم کہا گیا ہے جو کسی بلند جگہ تک پہنچنے کا وسیلہ بنے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ [ الطور/ 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر ( چڑھ کر آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں أَوْ سُلَّماً فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 35] یا آسمان میں سیڑھی ( تلاش کرو ) اور شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 236 ) ولو نال أسباب السماء بسلّمگو سیڑھی لگا کر آسمان پر کیوں نہ چڑھ جائے ۔ اور سلم وسلام ایک قسم کے بڑے درخت کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہر قسم کی آفت سے محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔ السلام ایک قسم کا سخت پتھر ( اس کا واحد سلمۃ ہے ) اسْتِمَاعُ والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨{ اَمْ لَہُمْ سُلَّـمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْہِ ج } ” کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعے سے یہ آسمان کی خبریں سن لیتے ہیں ؟ “ { فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُہُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۔ } ” (اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا کوئی واضح دلیل لائے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: مشرکین مکہ بہت سے ایسے عقیدے رکھتے تھے جن کا تعلق عالم بالا سے تھا، مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کے لیے چھوٹے چھوٹے بہت سے خداؤں کو اختیار دے رکھا ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا، نیز یہ کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے اسی عقیدے کا حوالہ دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عالم بالا کی یہ باتیں آخر کہاں سے تمہیں معلوم ہوئی ہیں؟ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر تم وہاں کی یہ معلومات حاصل کرتے ہو؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:38) ام استفہام انکاری ہے۔ سلم سیڑھی۔ زینہ۔ سیٹھی کے ذریعہ چونکہ آدمی سلامتی کے ساتھ اوپر پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے اس کام سلم ہوا۔ اس کی جمع سلالم اور سلالیم ہے۔ یستمعون : مضارع جمع مذکر غائب۔ استماع (افتعال) مصدر ۔ سننا ۔ کان لگا کر سننا باب افتعال کے خواص میں سے تصرف کی خاصیت ہوتی ہے یعنی تحصیل ماخذ میں کوشش کرنا۔ سو یہاں اس کا مطلب ہوگا۔ وہ کان لگا کر یعنی کوشش کرکے سن آتے ہیں۔ (ملاء اعلیٰ کی باتیں۔ آسمان کی باتیں۔ کلام اللہ) فیہ : ای صاعدین فیہ۔ اس سیڑھی پر چڑھ کر یا چڑھتے ہوئے یہ پھر (محذوف) فاعل یستمعون سے حال ہے یستمعون کا مفعول محذوف ہے۔ ای کلام الملئکۃ۔ روح البیان میں یستمعون فیہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے :۔ فیہ متعلق محذوف ھو حال عن فاعل یستمعون۔ ای یستمعون صاعدین فی ذلک السلم ومفعول یستمعون محذوف ای الی کلام الملئکۃ فیہ۔ محذوف سے متعلق ہے جو یستمعون کے فاعل سے حال ہے یعنی اس سیڑھی پر چڑھتے ہوئے یا چڑھ کر کان لگا کر (چوری چھپے) سن لیتے ہیں۔ یستمعون کا مفعول محذوف ہے ای کلام الملئکۃ یعنی فرشتوں کا کلام۔ (یا آسمان کی باتیں یا اللہ کا کلام) ۔ ایسر التفاسیر میں ہے ام لہم سلم یستمعون فیہ ای الہم مرقی الی السماء یرقون فیہ فیسمعون کلام المئلکۃ فیأتون بہ ویعارضون الرسول فی کلامہ۔ کیا ان کے پاس آسمان پر جانے کی کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ فرشتوں کی باتیں سن لیتے ہیں۔ اور آکر رسول (مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی کلام کی مخالفت کرتے ہیں اور اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ فلیات ۔۔ یہ جملہ جواب شرط ہے اس سے قبل جملہ شرطیہ محذوف ہے یعنی اگر ایسا ہے (کہ ان کے پاس آسمانوں پر چڑھنے کے لئے کوئی زینہ ہے جس کے ذریعہ یہ اوپر چڑھ کر وہاں جو قضا و قدر کے فیصلے ہوتے ہیں انہیں سن پاتے ہیں تو فلیات مستمعہم بسلطن مبین۔ تو ان میں سے ایسی باتیں سن پالینے والا اس پر روشن اور واضح دلیل پیش کرے۔ ف جواب شرط کا ہے لیات ب امر کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ چاہیے کہ وہ لائے، اتیان (باب ضرب) مصدر۔ مستمعہم مضاف مضاف الیہ۔ مستمع اسم فاعل واحد مذکر استماع (افتعال) مصدر خوب سننے والا۔ مضاف ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ۔ سلطن مبین : موصوف و صفت۔ سلطان برہان، دلیل۔ سند۔ قوت۔ زور یہاں مراد سند ہے۔ مبین اسم فاعل واحد مذکر۔ ابانۃ (افعال) مصدر۔ کھلا ہوا۔ ظاہر ۔ ظاہر کرنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 17 یعنی کیا ان کی رسائی براہ راست فرشتوں بلکہ خدا تک ہوجاتی ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو پیغمبر کی رہنمائی سے آزاد سمجھتے ہیں۔ 18 کھلی سند سے مراد ایسی سند ہے جس سے معلوم ہو کہ وہ واقعی آسمان تک گیا تھا اور وہاں اس نے اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی باتیں سنی تھیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام لھم ........ مبین (٢٥ : ٨٣) ” کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہخے جس پر چڑھ کر یہ عالم بالا کی سن گن لیتے ہیں ؟ ان میں سے جس نے سن گن لی ہو وہ لائے کوئی کھلی دلیل۔ “ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور ان کی طرف وحی آتی ہے اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور یہ لوگ تکذیب کرتے ہیں۔ کیا ان کے پاس عالم بالا کی معلومات کا کوئی ذریعہ ہے ؟ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی نہیں کی جاتی اور سچائی اور ہے لہٰذا اس قسم کی سن گن رکھنے والا کوئی دلیل لے آئے۔ ایسی دلیل کہ وہ بذات خود اپنی قوت اپنے اندر رکھتی ہو جس کے نتیجے میں انسان تصدیق کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اس میں اشارہ ہے ان دلائل کی طرف جو قرآن دیتا ہے کہ یہ دلائل دراصل سلطان مبین ہیں اور دل و دماغ کو فوراً قبضے میں لیتے ہیں۔ اور ان کے مقابلے میں یہ لوگ عناد اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں۔ اب اللہ کے بارے میں ان کے اس قول کو لیا جاتا ہے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور یہ خطاب براہ راست مشرکین مکہ سے کیا جاتا ہے اور یہ ان کو زیادہ شرمندہ اور ذلیل کرنے کے لئے ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿ اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَّسْتَمِعُوْنَ فِيْهِ ﴾ (کیا ان کے پاس زینہ ہے جس میں وہ باتیں سنتے ہیں) ۔ ﴿ فَلْيَاْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍؕ٠٠٣٨﴾ (سو ان کا سننے والا کوئی واضح دلیل لے کر آئے) علامہ قرطبی لکھتے ہیں : ای حجۃ بینۃ ان ھذا الذی ھم علیہ حق مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پیش کرتے ہیں، اس کا کتاب اللہ ہونا تو اسی سے ثابت ہوگیا کہ تم اس جیسی کتاب بنا کر لانے سے عاجز ہو، اب تم اپنے دین کو حق ثابت کرو اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح دلیل ہونی لازمی ہے وہ کون سا زینہ ہے جس پر چڑھ کر تمہارا کوئی شخص اپنے دین کے حق ہونے کی حقانیت معلوم کرچکا ہے۔ جس طرح محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بطریق وحی کلام حاصل کرتے ہیں پھر تمہیں سناتے ہیں اور حق کی تبلیغ کرتے ہیں اور دلائل پیش کرتے ہیں تم بھی دلیل پیش کرو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر آسمان کی باتیں سن آتے ہیں اگر ایسا ہے تو ان میں سے جو سننے والا ہے وہ کوئی واضح دلیل پیش کرے۔ آسمانی باتوں کی دو ہی شکلیں میں یا تو وحی آئے یا صاحب وحی خود آسمان پر جائے وحی تو ان پر آتی نہیں اب یہ اگر مدعی ہیں تو کیا انہوں نے آسمان پر صعود کیا ہے وہاں سے سن کر آئے ہیں کہ فلاح شخص نبی نہیں ہے یا قرآن ہم نے نہیں اتارا تو اگر ان میں سے کوئی شخص سن کر آیا ہے تو اس کو چاہیے کہ واضح دلیل کے ساتھ اپنا صاحب وحی ہونا اور اپنی وحی کو بیان کرے اور پیش کرے جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشریف بہ وحی ہونا دلائل ظاہرہ سے ثابت ہے اسی طرح یہ آسمان پر چڑھنے والے بھی اپنے سن کر آنے کو ثابت کریں آگے مشرکوں کے ایک اور دعوے پر تنقید ہے۔