Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 40

سورة الطور

اَمۡ تَسۡئَلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ؕ۴۰﴾

Or do you, [O Muhammad], ask of them a payment, so they are by debt burdened down?

کیا تو ان سے کوئی اجرت طلب کرتا ہے کہ یہ اس کے تاوان سے بو جھل ہو رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا ... Or is it that you ask a wage from them? meaning, `as a remuneration for your preaching Allah's Message to them! Nay, you, do not ask them for a wage,' ... فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ so that they are burdened with a load of debt, meaning, for in this situation, one will complain of the least bothersome thing and feel it difficult and burdensome for him, أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی اس کی ادائیگی ان کے لئے مشکل ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] آپ کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے معاوضہ اور نذریں نیازیں طلب کرتے۔ جیسے عموماً مذہب کے ٹھیکیدار حضرات اپنے معتقدین اور مریدوں سے وصول کرتے اور اپنی دکانیں خوب چمکا لیتے ہیں۔ یہاں یہ معاملہ بھی نہیں کہ آپ ان سے نذرانے طلب کریں اور وہ اسے بوجھ سمجھ کر آپ سے پرے ہٹ جائیں۔ حالانکہ آپ کا معاملہ مذہبی ٹھیکیداروں کے بالکل برعکس تھا۔ آپ نے اپنا ذاتی سرمایا دین کے کاموں میں صرف کر ڈالا تھا۔ دین کی تبلیغ کی وجہ سے آپ کا کاروبار ٹھپ ہوچکا تھا۔ پھر آپ اس تبلیغ کے کام کا کسی صورت میں معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے۔ بلکہ بالکل بےلوث اور بےغرض ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ام تسلھم اجراً …:” الغرم و الغرامۃ و المغرم “ تاوان، چٹی، جو مال آدمی کو نہ چاہیے کے باوجود دینا پڑجائے۔ ” اجراً “ پر تنوین تنکیر کیلئے ہے، کسی بھی طرح کی اجرت۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے کسی طرح کی اجرت کا مطالبہ کرتے ہوں اور وہ تاوان سمجھ کر بوجھ بردشات کرنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ جب آپ ان سے کسی طرح کی اجرت یا معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اپنی مزدوری صرف اللہ تعالیٰ کے ذمے سمجھتے ہیں اور اپنی کمائی یا ک اور بار یک بھی پروانہ کرتے ہوئے ہر وقت ان کی خیر خواہی کے لئے ان کے پیچھے پھرتے ہیں تو پھر وہ آپ سے دور کیوں بھاگتے ہیں ؟ مزید دیکھیے سورة مومنون (٧٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ تَسْـَٔــلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۝ ٤٠ ۭ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ غرم الغُرْمُ : ما ينوب الإنسان في ماله من ضرر لغیر جناية منه، أو خيانة، يقال : غَرِمَ كذا غُرْماً ومَغْرَماً ، وأُغْرِمَ فلان غَرَامَةً. قال تعالی: إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66] ، فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] ، يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . والغَرِيمُ يقال لمن له الدّين، ولمن عليه الدّين . قال تعالی: وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] ، والغَرَامُ : ما ينوب الإنسان من شدّة ومصیبة، قال : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] ، من قولهم : هو مُغْرَمٌ بالنّساء، أي : يلازمهنّ ملازمة الْغَرِيمِ. قال الحسن : كلّ غَرِيمٍ مفارق غَرِيمَهُ إلا النّار «1» ، وقیل : معناه : مشغوفا بإهلاكه . ( غ ر م ) الغرم ( مفت کا تاوان یا جرمانہ ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت ( جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے غرم کذا غرما ومبغرما فلاں نے نقصان اٹھایا اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66]( کہ ہائے ) ہم مفت تاوان میں پھنس گئے ۔ فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں ۔ اور غریم کا لفظ مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] اور قرضداروں ( کے قرض ادا کرنے ) کے لئے اور خدا کی راہ میں ۔ اور جو تکلیف یا مصیبت انسان کی پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے ۔ یہ ھو مغرم باالنساء ( وہ عورتوں کا دلدا وہ ہے ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ شخص جو غریم ( قرض خواہ ) کی طرح عورتوں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو ۔ حسن فرماتے ہیں کل غریم مفارق غریمۃ الاالنار یعنی ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن آگ اپنے غرماء کو نہیں چھوڑے گی ۔ بعض نے عذاب جہنم کو غرام کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ عذاب ان کا اسی طرح پیچھا کرے گا ۔ گویا وہ انہیں ہلاک کرنے پر شیفتہ ہے ۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد کیا آپ ان سے اس دعوت ایمانی پر کچھ معاوضہ مانگتے ہیں کہ اس تاوان کا ادا کرنا ان کو گراں معلوم ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠{ اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ ۔ } ” کیا آپ ان لوگوں سے کوئی اجرت طلب کر رہے ہیں کہ یہ تاوان کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ؟ “ یہاں پر پے در پے سوالات کا انداز خصوصی تاثیر کا حامل ہے۔ یہ مقام زور خطابت ‘ فصاحت ‘ بلاغت ‘ ادبیت اور عذوبت کے حوالے سے گویا قرآن کی معراج ہے ۔ ظاہر بات ہے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 The question is actually directed to the disbelievers. It means: "If the Messenger had a selfish motive and had been exerting only for a personal gain from you, there would be a rational ground for you to avoid him. But you yourselves know that he is absolutely selfless in his invitation and is exerting himself only for your own benefit and well-being. Then, how is it that you are not even inclined to listen to him with a cool mind ?" There is also a subtle hint in this question. Like the self-styled guides and guardians of religious shrines of the world, the religious guides, priests and scholars of the polytheists of Arabia also were engaged in a religious business. In view of the same, this question was put before them: "On the one hand, these dealers in religion are openly receiving gifts and offerings and fees for every religious service from you; on the other, a person who has ruined his trading business, is trying to show you the right way with highly rational arguments, absolutely selflessly. Is it not sheer senselessness that you shun him but run after them?"

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :31 سوال کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رسول تم سے کوئی غرض رکھتا اور اپنی کسی ذاتی منفعت کے لیے یہ ساری دوڑ دھوپ کر رہا ہوتا تو اس سے تمہارے بھاگنے کی کم از کم ایک معقول وجہ ہوتی ۔ مگر تم خود جانتے ہو کہ وہ اپنی اس دعوت میں بالکل بے غرض ہے اور محض تمہاری بھلائی کے لیے اپنی جان کھپا رہا ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم ٹھنڈے دل سے اس کی بات سننے تک کے روادار نہیں ہو؟ اس سوال میں ایک لطیف تعریض بھی ہے ۔ ساری دنیا کے بناوٹی پیشوا اور مذہبی آستانوں کے مجاوروں کی طرح عرب میں بھی مشرکین کے پیشوا اور پنڈت اور پروہت کھلا کھلا مذہبی کاروبار چلا رہے تھے ۔ اس پر یہ سوال ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ایک طرف یہ مذہب کے تاجر ہیں جو علانیہ تم سے نذریں ، نیازیں ، اور ہر مذہبی خدمت کی اجرتیں وصول کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف ایک شخص کامل بے غرضی کے ساتھ ، بلکہ اپنے تجارتی کاروبار کو برباد کر کے تمہیں نہایت معقول دلائل سے دین کا سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اب یہ صریح بے عقلی نہیں تو اور کیا ہے کہ تم اس سے بھاگتے اور ان کی طرف دوڑتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:40) ام تسئلہم اجرا۔ یہاں پھر رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کی طرف رجوع ہے (آیت نمبر 31 کے بعد) اور کفار سے نفرت کی بناء پر مخاطب سے غائب کی طرف التفات ہے۔ (ملاحظہ ہو آیت نمبر 52:39 متذکرہ بالا) کیا تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے ان سے کسی اجر کا مطالبہ کیا ہے۔ ام یہاں بھء استفہامیہ انکار کے لئے ہے۔ فہم میں ف سببیہ ہے ای لاجل ذلک (اور) اس وجہ سے وہ ۔۔ مغرم۔ الغرم والغرامۃ سے مصدر میمی ہے۔ الغرم (مفت کا تاوان، جرمانہ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنابت (جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے۔ عزم کذا غرما ومغرما فلاں نے نقصان اٹھایا۔ اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا۔ قرآن مجید میں ہے ویتخذ ما ینفق مغرما (9:98) جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں۔ مثقلون۔ اسم مفعول جمع مذکر اثقال (افعال) مصدر۔ گراں بار۔ بوجھ سے دبے ہوئے۔ کہ وہ تاوان کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ” اس لئے آپ کی دعوت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین سے مزید سوالات۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں کہ جس کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ؟ کیا ان کے پاس کوئی غیب کی خبر آتی ہے جس کو یہ لکھ لیتے ہیں ؟ کیا یہ مزید مکر و فریب کرنا چاہتے ہیں ؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خود ہی اپنے مکر میں پھنس جائیں گے۔ کیا ان کا اللہ کے سوا کوئی اور معبود اور مشکل کشا ہے جس کے کھونٹے پر ناچتے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ جن کو تم شریک بناتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے مبرّا اور بےنیاز ہے۔ یہاں اہل مکہ اور ہر مشرک اور کافر کو مختلف قسم کے سوال کیے گئے ہیں تاکہ قیامت تک کے لیے انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کے پاس کفر و شرک کی کوئی علمی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔ اس موقع پر مشرکین سے جو مزید سوالات کیے گئے وہ یہ تھے۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کام کا ان سے صلہ مانگتے ہیں جس کا یہ بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ آدمی کی یہ طبعی کمزوری ہے کہ جب اس سے کوئی چیز مانگتا ہے تو بیشک وہ فیاض کیوں نہ ہو پھر بھی مانگنے والے کے سوال کو محسوس کرتا ہے۔ اگر سوال کرنے و الا باربار مانگتا ہے تو فیاض شخص بھی سوال کرنے والے کو دلی طور پر اچھا نہیں سمجھتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرما کر اہل مکہ کو شرم دلائی گئی ہے کہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی اعتبار سے بھی تم پر بوجھ نہیں لیکن پھر بھی تم آپ کی شخصیت اور دعوت کو بوجھ محسوس کرتے ہو۔ اہل مکہ سے نواں سوال یہ کیا گیا کہ کیا ان کے پاس غیب کی خبریں آتی ہیں ؟ جنہیں یہ اپنے پاس لکھ لیتے ہیں اور اس بنیاد پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرتے ہیں۔ آخری سوال یہ ہے کہ یہ کوئی مکرو فریب کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اس میں خود ہی پھنس کر رہ جائیں گے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہر سازش اور شرارت کو ناکام کیا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیاب فرمایا۔ اس بنا پر حکم ہوا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ مسائل سورة الطور کے دوسرے رکوع میں پندرہ مرتبہ ” اَمْ “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ سوال کرنے اور ” یا “ کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو کفار کے لیے بار بار استعمال کیا ہے تاکہ کافر سوچنے پر مجبور ہوں کہ سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرما رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ ١۔ کیا کافر آپ کو شاعر کہتے ہیں اور آپ کے بارے میں برے حالات کا انتظار کرتے ہیں۔ انہیں فرمائیں تم میرے بارے میں انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کرتا ہوں۔ ٢۔ کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھاتی ہیں۔ ٣۔ یا یہ لوگ سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں۔ ٤۔ کیا کافر کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن خود بنالیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر وہ اس الزام میں سچے ہیں تو انہیں قرآن کے چیلنج کا جواب قبول کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ معبود برحق ماننے کے لیے تیار نہیں کیا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؟ یا اپنے آپ پیدا ہوگئے ہیں۔ ٦۔ کیا انہوں نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ٧۔ کیا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے خزانوں کے مالک ہیں ؟ ٨۔ کیا وہ آپ کے رب کے خزانوں پر چوکیدار ہیں ؟ ٩۔ کیا ان کے پاس سیڑھی ہے کہ یہ آسمان کی باتیں سن لیتے ہیں۔ اگر سن لیتے ہیں تو انہیں اپنے حق میں کوئی واضح دلیل پیش کرنی چاہیے۔ ١٠۔ کافر کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ کیا ” اللہ “ کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ہیں ؟ ١١۔ کیا آپ ان سے اجر مانگتے ہیں جس کے بوجھ تلے یہ دبے جارہے ہیں۔ ١٢۔ کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں۔ ١٣۔ کیا یہ کوئی اور سازش کرنا چاہتے ہیں ؟ یہ اپنی سازش میں خود ہی پھنس جائیں گے۔ ١٤۔ کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی معبودِبرحق ہے ؟ انہیں بتلا دیں کہ اللہ ان کے بنائے ہوئے شریکوں سے مبرّاہے۔ تفسیر بالقرآن نبی (علیہ السلام) کفار کے الزامات سے مبرّا ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : (یٰس : ٦٩، الحاقہ : ٤١، القلم : ٢، القصص : ٨٨، النمل : ٦٠، النمل : ٦٢، النمل : ٦٣، النمل : ٦٤، القصص : ٧١، الفرقان : ٣، الانبیاء : ٩٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام تسئلھم ........ مثقلون (٢٥ : ٠٤) ” کیا تم ان سے کوئی اجر مانگتے ہو کہ یہ زبردستی پڑی ہوئی چٹی کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں “ یعنی یہ اس مالی بوجھ کو برداشت نہیں کرسکتے جو تم ان پر ڈال رہے ہو۔ تو اگر واقعہ یہ ہے کہ نہ تو اجرت طلب ہورہی ہے اور نہ تم پر کوئی بوجھ ڈالا جارہا ہے تو پھر تمہارا رویہ کس قدر قبیح اور ذلیلانہ ہے۔ تمہیں اپنے رویہ پر سوچ کر شرمندہ ہونا چاہئے ؟ اس کے بعد دوبارہ ان کے سامنے ان کے وجود اور اس کائنات میں ان کے حالات کو پیش کیا جاتا ہے کہ یہ بندے ہیں اور ان کے کچھ حدود ہیں۔ اس کائنات میں ان پر بہت ہی امور مخفی ہیں اور کچھ تھوڑے ہی امور ایسے ہیں جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں امور سب راز ہیں اور ان کو اس کائنات کا مالک ہی جانتا ہے۔ عالم غیب کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ اس کے اندر نہیں جاسکتے کیونکہ یہ بندے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿اَمْ تَسْـَٔلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَؕ٠٠٤٠﴾ (کیا آپ ان سے کسی معاوضہ کا سوال کرتے ہیں ان پر اس تاوان کی ادائیگی بھاری پڑ رہی ہے) اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان لے آئے تو کیا کچھ دینا پڑے گا تو یہ ان کا غلط خیال ہے ان کو دنیا سے ذرا سا بھی سوال نہیں اور ان کے آخرت کے نفع کے لیے ان کو ایمان و اعمال صالحہ کی دعوت دی جا رہی ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایمان سے منہ موڑیں۔ قال فی معالم التنزیل اثقلھم ذلک المغرم الذی تسالھم فمنعھم ذلک عن الاسلام۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) کیا آپ سے تبلیغ پر کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں کہ وہ اس تاوان میں دبے جاتے ہیں اور وہ تاوان ان کو گراں معلوم ہوتا ہے مغرم لازمی ٹیکس یا تاوان جس کو چٹی کہتے ہیں اور جب آپ ان سے کوئی مزدوری اور معاوضہ نہیں طلب کرتے تو پھر آپ کی نبوت کا ان پر کیا با رہے۔