Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 43

سورة الطور

اَمۡ لَہُمۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۴۳﴾

Or have they a deity other than Allah ? Exalted is Allah above whatever they associate with Him.

کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی معبود ہے؟ ( ہرگز نہیں ) اللہ تعالٰی ان کے شرک سے پاک ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or have they a god other than Allah? Glorified be Allah from all that they ascribe as partners (to Him). This Ayah contains harsh refutation directed at the idolators for worshipping the idols and calling upon rivals along with Allah. Allah next glorifies His Most Honorable Self from what they ascribe to Him, their lies and idolatry, ... سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ Glorified be Allah from all that they ascribe as partners (to Him).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ام لہم الہ غیر اللہ : یا پھر اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی اور معبود ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہے۔ (٢) سبحن اللہ عما یشرکون :” ما “ موصولہ بھی ہوسکتا ہے اور مصدریہ بھی۔ موصولہ ہو تو معنی ہے ” پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ “ مصدر یہ ہو تو معنی ہے ” پاک ہے اللہ ان کے شریک بنانے سے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے اور بنائے ہوئے شریکوں سے پاک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ان لوگوں کے بنائے ہوئے معبودوں کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں، یہ محض اپنے وہم و گمان کی پوجا کر رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَہُمْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ۝ ٠ ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝ ٤٣ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ان کا اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود ہے جو ان کی عذاب الہی سے حفاظت کرسکے اس کی ذات ان کے بتوں کے شرک سے پاک ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣{ اَمْ لَہُمْ اِلٰـــہٌ غَیْرُ اللّٰہِ ط سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ } ” کیا ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ بھی ہے ؟ پاک ہے اللہ اس سے جو شرک یہ کر رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 That is, "The fact of the matter is that chose wham they have set up as deities, are not in fact the deities, and shirk is wholly an unreal thing. Therefore, the person who has risen with the message of Tauhid has the power of the truth with him; and those who are supporting shirk are indeed fighting for the imaginary. How will then shirk win in this conflict?"

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :35 یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ کن کو انہوں نے اِلٰہ بنا رکھا ہے و حقیقت میں اِلٰہ نہیں ہیں اور شرک سراسر ایک بے اصل چیز ہے ۔ اس لیے جو شخص توحید کی دعوت لے کر اٹھا ہے اس کے ساتھ سچائی کی طاقت ہے اور جو لوگ شرک کی حمایت کر رہے ہیں وہ ایک بے حقیقت چیز کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ اس لڑائی میں شرک آخر کیسے جیت جائے گا ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:43) ام لہم الہ غیر اللہ : ام استفہام انکاری کے لئے ہے۔ سبحان اللہ عما یشرکون : اس کی دو صورتیں ہیں :۔ اگر عما جو کہ عن اور ما سے مرکب ہے اس میں ما مصدریہ ہے تو ترجمہ ہوگا :۔ اللہ تعالیٰ اس کی شرکت سے پاک ہے جسے وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ایسی ہستی جس کا حکم مانا جائے چناچہ شاہ صاحب نے یہاں ” الہ “ کا ترجمہ ” حاکم “ کیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام لھم الہ غیر اللہ (٢٥ : ٣٤) ” کیا اللہ کے سوا یہ کوئی اور معبود رکھتے ہیں “ جو ان کو بچانے والا ہے اور اللہ کے عذاب سے وہ ان کو بچا لے گا۔ سبحن اللہ عما یشرکون (٢٥ : ٣٤) ” اللہ پاک ہے ، اس شرک سے جو یہ لوگ کررہے ہیں “ اللہ کے بارے میں وہ جو تصورات رکھتے ہیں وہ باطل ہیں۔ رد شرک پر اب یہ حملہ اختتام پذیر ہوتا ہے جو ایک منظم حملہ تھا اور جس کا ہر قدم دوسرے قدم پر منظم تھا جس کے ہر فقرے کا بہت بڑا اثر ہوا۔ اس حملے میں ان تمام شبہات تمام دلائل اور تمام خیالات کو رد کردیا گیا اور وہ بےبس کرکے رکھ دیئے گئے اور یہ بات ثابت کردی گئی کہ یہ لوگ حقیقت کا انکار کرنے والے ہیں ۔ عناد کرنے والے ہیں۔ واضح حق میں شک کرنے والے ہیں اور دور دراز کے شبہات کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ لوگ ہٹ دھرمی کررہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَمْ لَهُمْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ ١ؕ﴾ کیا ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی معبود ہے۔ ﴿ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ٠٠٤٣﴾ (اللہ اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” ام لھم الہ۔ الایۃ “ کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی اور کارساز ہے ؟ جو ان کو روزی دیتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے یا اللہ کے عذاب سے ان کو بچاتا ہے ؟ نہیں ! نہیں ! ! اللہ شرک سے پاک ہے اور اس کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ کوئی رازق، کوئی ناصر اور کوئی اس کے عذاب سے بچانے والا نہیں۔ ” وان یرو۔ الایۃ “ ان کے عناد و تعنت کا یہ حال ہے کہ اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا بغرض عذاب گرادیں تب بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اور اسے دیکھ کر کہیں گے یہ تو بادل آرہا ہے اور ابھی ہم پر بادل برسائے گا بارانِ رحمت۔ وہ اس کے نیچے دب کر ہلاک ہوجائیں گے لیکن ایمان نہیں لائیں گے۔ یعنی لو عذبناھم باسقاط بعض من السماء علیہم لم ینتھوا عن کفرھم حتی یہلکوا (مظہری ج 9 ص 100) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) کیا اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی اور معبود ہے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ یعنی کوئی ان کا معبود خدا کے سوا اور ہے جو ان کو رزق دیتا ہے یا ان کو رزق دیتا ہے یا ان کو عذاب سے بچائے گا آگے ان کو بدبختی اور شقاوت پر ایک اور مضمون فرمایا کہ یہ معجزات کو بھی مذاق اور دل لگی کے لئے طلب کرتے ہیں اور اسی طرح عذاب مانگنے میں بھی ان کا مقصد اشتہزا ہے چناچہ فرماتے ہیں۔