Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 47

سورة الطور

وَ اِنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا عَذَابًا دُوۡنَ ذٰلِکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۷﴾

And indeed, for those who have wronged is a punishment before that, but most of them do not know.

بیشک ظالموں کے لئے اس کے علاوہ اور عذاب بھی ہیں لیکن ان لوگوں میں سے اکثر بے علم ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ ... And verily, for those who do wrong, there is another punishment before this; meaning, that of being the torment in this world. Allah the Exalted said in another Ayah, وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الاٌّدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الاٌّكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ And verily, We will make them taste of the near torment prior to the supreme torment (in the Hereafter), in order that they may return. (32:21) Allah said; ... وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ but most of them know not. meaning, `We will torment them in the life of the world and test them with various hardships, so that they might go back and repent. However, they do not understand what is happening to them or why, because when the torment is removed, they revert to committing the worst of what they used to do before.' Ordering the Prophet to have Patience and to glorify Allah Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(1) یعنی دنیا میں، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 32 ۔ السجدہ :21) 47۔ 2 اس بات سے کہ دنیا کے یہ عذاب اور مصائب، اس لئے ہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کریں یہ نکتہ چونکہ نہیں سمجھتے اس لئے گناہوں سے تائب نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح ایک حدیث میں فرمایا کہ ' منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہوجاتا ہے تو اسکی مثال اونٹ کی سی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا۔ اور کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا ؟ (ابوداؤد کتاب الجنائز نمبر 3089)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] دنیا میں جو جو چھوٹے موٹے عذاب آتے ہیں وہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے آتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی بالا تر ہستی موجود ہے۔ لہذا وہ سنبھل جائیں۔ مگر لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو ایسے عذاب کو نہ عذاب سمجھتی ہے نہ تنبیہ بلکہ وہ اس عذاب کا کوئی طبعی سبب اور اپنے کفر پر جمے رہنے کا کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٤٧ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس دن یعنی قیامت کے ابوجہل وغیرہ کی تدبیریں عذاب الہی کے سامنے ان کے کچھ بھی کام نہ آئیں گی اور جس چیز کا ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا نہ یہ اس کو روک سکیں گے اور ان مشرکین مکہ پر دوزخ کے عذاب سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہونے والا ہے، لیکن ان میں سے ا کثر کو یہ معلوم نہیں اور نہ یہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧{ وَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِکَ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ } ” اور ان ظالموں کے لیے اس (آخرت کے عذاب) کے علاوہ بھی ایک عذاب ہے لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ “ اس عذاب سے یا تو قحط مکہ کا عذاب مراد ہے جس کا ذکر سورة الدخان میں ہے اور یا پھر غزوئہ بدر کے دن کا عذاب جس دن مکہ کے ستر سردار مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 This is a repetition of the same theme that has already occurred in As-Sajdah: 21 above: "Even in this world We shall make them taste (one or the other) lesser torment before that greater torment; maybe they desist (from their rebellious attitude)." That is, "We shall send down personal and national disasters from time to time in the world to remind that there is above them a superior power which is deciding their destinies and none has the power to change its decisions. But the people who are involved in ignorance have neither learnt any lesson from these events before not will learn any lesson in the future. They do not understand the meaning of the disasters and calamities occurring in the world. Therefore, they explain them away in every such way as takes than further and further away from the reality, and thou mind never turns to any' explanation, which might make the error of their atheism or polytheism manifest to them. This same thing has been explained by the Holy Prophet (upon whom be peace) in a Hadith, thus: "The example of a hypocrite who falls ill and then gets well, is of the camel whom the masters tied, but it did not understand why they had tied it, and when they untied it, it did not understand why they had untied it." (Abu Da'ud: Kitab al-.Jana'iz). For further explanation, see E.N. 45 of Al-Anbiya', E.N.,66 of An-Naml, E.N.'s 72. 73 of AI-'Ankabut).

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :37 یہ اسی مضمون کا اعادہ ہے جو سورہ السجدہ ، آیت 21 میں گزر چکا ہے کہ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آ جائیں ۔ یعنی دنیا میں وقتاً فوقتاً شخصی اور قومی مصیبتیں نازل کر کے ہم انہیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اوپر بالا تر طاقت ان کی قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے اور کوئی اس کے فیصلوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ مگر جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انہوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے نہ آئندہ کبھی لیں گے ۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی نہیں سمجھتے ، اس لیے ان کی ہر وہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کے فہم سے ان کو اور زیادہ دور لے جانے والی ہو ، اور کسی ایسی تاویل کی طرف ان کا ذہن کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہو جائے ۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے کہ : ان المنافق اذا مرض ثم اعفی کان کالبعیر عقلہ اھلہ ثم ارسلوہ فَلَمْ یدر لِمَ عقلوہ ولم یدر لِمَ ارسلوہO ( ابو داؤد ، کتاب الجنائز ) یعنی منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کہ کیوں کھول دیا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 45 ۔ النمل ، حاشیہ 66 ، ۔ العنکبوت ، حاشیہ 72 ۔ 73 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی آخرت کا جو عذاب ہونے والا ہے اس سے پہلے دنیا میں بھی کافروں کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چنانچہ ان میں سے بہت سے جنگ بدر وغیرہ میں مارے گئے، اور آخر کار جزیرۂ عرب میں ان کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں رہی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:47) للذین ظلموا سے عام ظالم مراد ہیں یا مخصوص افراد۔ دونوں قول صحیح ہیں ۔ عذابا دون ذلک یعنی مرنے سے پہلے دنیا میں یہی عذاب ان پر آجائے گا۔ جیسا کہ سورة السجدہ میں ہے والنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلہم یرجعون (32:21) اور ہم ان کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا عذاب دنیا کا مزہ بھی چکھائیں گے شاید کہ وہ (ہماری طرف) لوٹ آئیں۔ یوم یصعقون (آیت نمبر 45) کے بارے میں مختلف اقوال کے لحاظ سے آیت ہذا میں دون ذلک کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں۔ (1) مثلاً حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک اس سے مراد بدر کے دن کافروں کا مرادا جانا ہے۔ (2) مجاہد (رض) کے نزدیک بھوک اور ہفت سالہ قحط مراد ہے۔ (3) حضرت براء بن عازب (رض) نے فرمایا کہ اس سے عذاب قبر مراد ہے (تفسیر مظہری) ۔ ذلک کا اشارہ عذاب یوم فیہ یصعقون کی طرف ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس سے مراد وہ عذاب بھی ہے جو بدر کے دن قید و بند اور قتل کی صورت میں کفار مکہ پر نازل ہوا اور وہ قحط سالی کا عذاب بھی جس میں سات برس مبتلا رہے اور عذاب قبر بھی۔ حضرت ابن عباس نے خاص طور پر عذاب قبر مراد لیا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ اِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ ﴾ (اور جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے لیے اس سے پہلے عذاب ہے) اس عذاب سے کون سا عذاب مراد ہے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے یوم بدر مراد ہے اور حضرت مجاہد نے فرمایا کہ وہ قحط مراد ہے جو سات سال تک مکہ معظمہ کے مشرکین کو پیش آیا ﴿ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٠٠٤٧﴾ (اور لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے) کہ بطور وعید جس عذاب کا تذکرہ کیا جا رہا ہے محض دھمکی نہیں ہے بلکہ واقعی ہوجانے والی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ یعنی قیامت کے عذاب سے پہلے بھی عذاب دردناک ہے لیکن یہ جانتے نہیں اس سے جنگ بدر میں قتل و قید، قحط سالی اور قبر کا عذاب مراد ہے۔ وھو القتل ببدر والقحط سبع سنین و عذاب القبر (مدارک ج 4 ص 147، خازن ج 6 ص 254) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) اور بلا شبہ جو لوگ ظلم کا ارتکاب کررہے ہیں اور جو ظالم ہیں ان ظالموں کو اس مذکورہ قیامت کے عذاب سے قبل بھی اور اس سے درے بھی عذاب ہونے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر کو اور بہت سوں کو معلوم نہیں۔ یعنی قیامت کے دن تو جو کچھ ہونا ہے وہی ہوگا یہی لیککن اس سے پہلے بھی عذاب میں یہ ظالم مبتلا ہوں گے۔ ظالم اس لئے فرمایا کہ مشرک ہیں وہ عذاب مشرکین کا قتل ، قحط، جنگ بدر وغیرہ ہیں اکثر اس لئے فرمایا کہ اس عذاب دنیوی سے پہلے کچھ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں گے اور دین حق کو قبول کرلیں گے۔