Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 48

سورة الطور

وَ اصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ ﴿ۙ۴۸﴾

And be patient, [O Muhammad], for the decision of your Lord, for indeed, you are in Our eyes. And exalt [ Allah ] with praise of your Lord when you arise.

تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے ، بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ صبح کو جب تو اٹھے اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ... So wait patiently for the decision of your Lord, for verily, you are under Our Eyes; meaning, `be patient in the face of their annoyance and do not be concerned about it, for you are under Our Eyes and Protection, and We will surely protect you from the people,' ... وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ and glorify the praises of your Lord when you get up. Ad-Dahhak said, "Meaning to stand for the Salah (and say): "Glorious are You and with Your praise, Hallowed be Your Name, Exalted be Your majesty, and there is no God (worthy of worship) except You." In his Sahih, Muslim recorded that Umar used to recite this supplication when he began Salah. Ahmad and the Sunan compilers recorded this Hadith from Abu Sa`id and other Companions, who stated that the Prophet used to say that. Abu Al-Jawza' commented on the Ayah; وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ (and glorify the praises of your Lord when you get up). "From your sleep, from your bed." And this is the view chosen by Ibn Jarir. Supporting this view is the Hadith that Imam Ahmad recorded that Ubadah bin As-Samit said that the Messenger of Allah said, مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَقَالَ لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ للهِ وَلاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ ثُمَّ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي أو قال ثُمَّ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِنْ عَزَمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى قُبِلَتْ صَلَتُه Whoever gets up at night and says: `La ilaha illallah, He is One without partners. For Him is the kingdom and all praise is due to Him. He has power over all things. Glory be to Allah, and all praise is due to Allah, and La illaha illallah and Allah is Greater. There is neither might nor power except Allah.' And then says, `O Lord! Forgive me.' Or invokes (Allah), he will be responded to it, and if he intends and performs ablution and prays, his prayer will be accepted. Al-Bukhari and the Sunan compilers also recorded this Hadith. Ibn Abi Najih reported that Mujahid commented on the Ayah, وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ (and glorify the praises of your Lord when you get up), saying, "From every gathering you sit in." Ath-Thawri said that Abu Ishaq narrated that Abu Al-Ahwas said that, وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ (and glorify the praises of your Lord when you get up), "When a person wants to stand from a gathering, he says: `Glory be to You, O Allah, and with Your praise."' Abu Hurayrah narrated that the Prophet said, مَنْ جَلَسَ فِي مَجْلِسٍ فَكَثُرَ فِيهِ لَغَطُهُ فَقَالَ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ مِنْ مَجْلِسِهِ سُبْحَانَكَ اللْهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ إِلاَّ غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا كَانَ فِي مَجْلِسِهِ ذلِك Whoever sits in a gathering in which he speaks idle excessively, but says before he stands up to depart that gathering, `Glory be to You O Allah, and with Your praise, I testify that there is no God (worthy of worship) except You, I seek Your forgiveness, and I repent to You.' Then, Allah will forgive him what he has said in that gathering. This was recorded by At-Tirmidhi, and this is his wording, and it was also recorded by An-Nasa'i in (`Amal) Al-Yawm wal-Laylah. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." It was also recorded by Al-Hakim in his Mustadrak, and he said, "Its chain meets the criteria of Muslim." Allah the Exalted said;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 اس کھڑے ہونے سے کونسا کھڑا ہونا مراد ہے ؟ بعض کہتے ہیں جب نماز کے لئے کھڑے ہوں جیسے آغاز نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ پڑھی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس میں کھڑے ہوں جیسے حدیث میں آتا ہے جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو یہ اسکی مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت أستغفرک واتوب الیک۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے کہ ان نامساعد حالات سے نجات کے لیے جب تک اللہ کا حکم آ نہیں جاتا۔ آپ صبر کیجئے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پروردگار کے جو احکام اب تک آپ کو مل چکے ہیں ان کی تعمیل اور بجاآوری میں صبر و استقامت سے ڈٹے رہیے۔ [٤١] ہم آپ کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑیں گے اور جب ہماری حکمت کا تقاضا ہوا آپ کو نجات کی راہ بتادیں گے اور ان کافروں کی تمام سازشوں اور تدبیروں کو ناکام بنادیں گے۔ [٤٢] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جب آپ نیند سے بیدار ہوں تو اللہ کی حمد و تسبیح بیان کی جائے۔ دوسرا یہ کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو حمد و تسبیح بیان کیجئے۔ تیسرا یہ کہ جب آپ تبلیغ اور خطاب کے لیے کھڑے ہوں تو اس کا افتتاح حمد و تسبیح سے کیا کیجئے اور چوتھا یہ کہ جب آپ کسی مجلس سے اٹھنے لگیں تو اس وقت اللہ کی حمد و تسبیح بیان کیجئے اور ایسے تمام مواقع پر رسول اللہ حمد و تسبیح بیان فرمایا کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) واصبر لحکم ربک : یہاں ” لام “ ” علی “ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کے حکم پر عمل کرنے میں صبر و استقامت اختیار کرو اور دعوت کا کام جاری رکھو، جیسے فرمایا :(واصبر علی مایقولون) المزمل : ١٠) ” اور اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں۔ “ اور اگر ” الی “ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک صبر کرو، جیسا کہ فرمایا :(واصبر حتی یحکم اللہ) (یونس : ١٠٩)” اور صبر کر یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے۔ “ اس مقام پر حرف ” لام “ لانے سے ایسا جامع مفہوم پیدا ہو رہا ہے جو کوئی اور حرف لانے سے پیدا نہیں ہوتا۔” واصبر لحکمنا “ (اور ہمارے حکم پر صبر کر) کے بجائے فرمایا :(واصبر لحکم ربک) (اور اپنے رب کے حکم پر صبر کر) مطل یہ ہے کہ اس کے رب ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ تیری نگہداشت اور حفاظت کرے۔ (٢) فانک باعینا : کیونکہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، ہم ہر وقت تھے دیھک رہے ہیں اور تیری نگراین اور حفاظت کر رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ تجھے نقصان پہنچا سکے۔ مزید دیکھیے سورة ہود (٣٧) ۔ (٢) وسبح بحمد ربک : صبر کے ساتھ تسبیح و تحمید یعنی نماز کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا :(واستعینوا بالصبر وا لصلوۃ) (البقرہ : ٣٥)” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ “ (٤) ” سبح بحمد ربک “ کا لفظی معنی اگرچہ یہ ہے کہ ” اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر “ مگر اس سے مراد نماز ہے۔ دلیل اور تفصیل کے لئے دیکھیے سورة طہ (١٣٠) کی تفسیر۔ (٥) حین تقوم : اکثر مفسرین نے ” سبح بحمد ربک “ سے ” سبحان اللہ “ اور ” الحمد للہ “ کہنا مراد لیا ہے اور ” حین تقوم “ سے مراد بعض نے یہ لیا ہے کہ نیند کے بعد بستر سے اٹھتے وقت ” سبحان اللہ ، الحمد للہ “ کہو۔ بعض نے اس سے مجلس سے اٹھتے وقت کفارہ مجلس کی دعا ” سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت استغفرک و اثوب الیک مراد لی ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت ” سبحانک اللھم وبحمدک “ (دعائے استفاح) ہے۔ بعض نے کہا کہ ہر خطاب کے لئے کھڑے ہوتے وقت تسبیح و تحمید کرنا مراد ہے۔ مگر انھی مفسرین نے اگلی آیت ” ومن الیل فسبحہ “ میں تسبیح سے مراد نماز تہجد اور ” ادبار النجوم “ سے مراد نماز فجر لی ہے۔ حق یہ ہے کہ ” سبح “ کا جو معنی ” من الیل “ اور ” ادبار النجوم “ کے ساتھ کیا گیا ہے وہی معنی ” حین تقوم “ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ طبری نے یہاں پہلے دو قول ذکر فرمائے ہیں، ایک یہ کہ نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید کرے، دوسرا یہ کہ جب فرض نماز کے لئے کھڑا ہو تو ” سبحانک اللھم و بحمدک…“ دعا پڑھے۔ پھر فرمایا :” صواب کے سب سے زیادہ قریب ان کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ ” سبح بحمد ربک کا معنی ہے ” صل بحمد ربک حین تقوم من منامک و ذلک نوم القائلۃ وانما عنی صلاۃ الظھر “ یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ نماز پڑھ جب تو اپنی نیند سے اٹھے۔ نیند سے مراد دوپہر کی نیند ہے اور نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ “ فرماتے ہیں :” ہم نے اس قول کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ نماز شروع کرتے وقت ” سبحانک اللھم “ پڑھنا کسی کے نزدیک بھی فرض نہیں اور ہم نے دوپہر کی نیند سے اٹھنا اسلئے مراد لیا ہے کہ لوگوں کا معروف نیند سے اٹھنا یا تورات کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نماز فجر کا وقت ہے یا دوپہر کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نماز ظہر کا وقت ہے۔ تو جب ” سبح بحمد ربک حین تقوم “ کے بعد ” ادبار النجوم “ کے وقت تسبیح کا حکم دیا جو رتا کی نیند سے اٹھ کر نماز فجر کی دو رکعتیں ہیں، تو معلوم ہوا کہ ” حین تقوم “ سے مراد وہ نماز ہے جو رات کی نیند سے اٹھنے کے علاوہ ہے او وہ نماز ظہر ہے۔ “ (طبری) بعض حضرت ا نے لکھا ہے کہ طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ ’ حین تقوم “ سے مراد نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید ہے، لیکن اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ طبری کی ترجیح یہ نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا (...you are before Our Eyes....) The hostility of the enemies towards, and their opposition to, and rejection of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) depressed him. At the conclusion of the chapter, the Qur&an says &You are before Our eyes&, that is, under Our care and We shall protect you from every evil. Do not be anxious about it. On another occasion, the Qur&an says, وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ &And Allah shall protect you from the people&. Then the verse goes on to say, وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ حِينَ تَقُومُ (And proclaim the purity of your Lord along with His praise when you stand [ in Prayer ]... 48]. To proclaim the purity and praise of Allah is the real purpose of life, and also the real cure of every calamity. Thus the Qur&an enjoins it upon the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . &When you stand& could mean to stand up for the Salah or to arise or get up from sleep or bed. The latter meaning is preferred by Ibn Jarir. This view is supported by the Tradition recorded in the Musnad of Imam Ahmad Ibn Hanbal (رح) on the authority of Sayyidna ` Ubadah Ibn Samit (رض) who reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Whoever gets up at night and recites: لَا اِلٰہَ ِالّا اللہُ وَحدَہُ ، لَا شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ المُلک وَ لَہُ الحَمدُ وھُوَ علیٰ کُلِّ شیٔ قَدِیر، سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ للہِ وَ لا إلہ إلا اللہُ و اللہُ اَکبَر وَلَاحولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ &There is no God except Allah. He is One without partners. For Him is the kingdom and all praise is due to Him. He has power over all things. Glory be to Allah and all praise is due to Allah, and there is no God except Allah, and Allah is the Greatest. There is neither might nor power except with Allah.& Then, if he intends to pray, and performs prayer after ablution, the prayers will be accepted. (Ibn Kathir) Kaffarat-ul-Majlis : A recitation at the end of a meeting that expiates sins Sayyidna Mujahid, Abul Ahwas and other leading authorities on Tafsir have interpreted |"when you stand|" in this verse to mean that when a person wants to stand from a gathering or a meeting, he should recite: سُبحَانکَ اللَّھُمَّ وَ بِحَمدِکَ &I proclaim Your Purity, 0 Allah, along with Your praise&. Sayyidna ` Ata& Ibn Abi Rabah, interpreting this verse, has said: |"When you stand from a gathering, proclaim the purity and praise of Allah. If you have done any good work, your good work will be increased and enhanced. If you had done any bad deed, these words of proclamation will serve as an expiation and atonement|". On the authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: |"Whoever sits in a gathering in which he speaks idle excessively, but says before he stands up to depart that gathering, سُبحَانَکَ اللَّھُمِّ وَبِحَمدِکَ اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ اَستَغفِرُکَ وَ اَتُوبُ اِلَیکَ (&I proclaim Your Purity, 0 Allah, along with Your Praise&, I testify that there is no God except You, I seek Your forgiveness, I repent to You.& ) Allah will forgive him what he has said in that gathering |".

معارف و مسائل فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا، دشمنوں کی دشمنی اور مخالفت و تکذیب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے آخر سورت میں پہلے تو یہ فرمایا کہ |" آپ ہماری نظروں میں ہیں |" یعنی ہماری حفاظت میں ہیں ہم آپ کو ان کے ہر شر سے بچائیں گے، آپ ان کی کسی بات کی پروا نہ کریں، جیسا کہ دوسری ایک آیت میں ارشاد ہے ( ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) اللہ تعالیٰ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرما دیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیع وتحمید میں لگ جانے کا حکم فرمایا جو اصل مقصد زندگی بھی ہے اور ہر مصیبت سے بچنے کا اصلی علاج بھی فرمایا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَـقُوْمُ ، یعنی اللہ کی حمد کی تسبیح کیا کریں جبکہ آپ کھڑے ہوں، کھڑے ہونے سے مراد سو کر اٹھنا بھی ہوسکتا ہے، ابن جریر نے اسی کو اختیار کیا ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام احمد نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ |" جو شخص رات کو بیدار ہوا اور اس نے یہ کلمات پڑھے تو جو دعا کرے گا قبول کی جائے گی وہ کلمات یہ ہیں : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر، سبحان اللہ والحمد للہ ولآ الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ، پھر اگر اس نے نماز پڑھنے کا رادہ کیا اور وضو کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز قبول کی جائے گی ( ابن کثیر) کفارہ مجلس : اور حضرت مجاہد اور ابو الاحوص وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ حین تقوم سے مراد یہ ہے کہ جب آدمی اپنی کسی مجلس سے اٹھے تو یہ کہے کہ سبحانک اللھم وبحمدک، حضرت عطاء بن ابی رباح نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ جب تم اپنی مجلس سے اٹھو تو تسبیح وتحمید کرو، اگر تم نے اس مجلس میں کوئی نیک کام کیا ہے تو اس کی نیکی میں زیادتی اور برکت حاصل ہوگی اور اگر کوئی غلط کام کیا ہے تو یہ کلمات اس کا کفارہ ہوجائیں گے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اچھی بری باتیں ہوں تو اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے اگر وہ یہ کلمات پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی سب خطاؤں کو جو اس مجلس میں ہوتی ہیں معاف فرما دیں گے، وہ کلمات یہ ہیں : سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک، رواہ الترمذی۔ وھذا لفظہ و النسائی فی الیوم و اللیلة و قال الترمذی حدیث حسن صحیح (از ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَـقُوْمُ۝ ٤٨ ۙ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کو رہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

خدا کی حمدوثنا کہاں کہاں اور کیسے کیے ہو ؟ قول باری ہے (وسبح بحمد ربک حین تقوم، اور آپ جب اٹھا کیجئے تو اپنے رب کی حمدوتسبیح کیا کیجئے) حضرت ابن مسعود (رض) ، ابوالاحوص اور مجاہد کا قول ہے۔ جس وقت آپ کسی بھی جگہ سے اٹھ کھڑے تو یہ دعا پڑھیں۔ (سبحانک وبحمدک الا الہ الا انت استفرک واتوب الیک) علی بن ہاشم نے روایت کی ہے کہ اعمش سے پوچھا گیا کہ آیا ابراہیم نخعی جب نشست سے کھڑے ہوتے تو وہ یہ دعا پڑھنا پسند کرتے تھے۔ ” سبحانک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔ “ اعمش نے جواب دیا کہ ابراہیم کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ اس سنت کا درجہ دے دیا جائے۔ ضحاک نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ اس سے نماز کا افتتاح مراد ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کی اس سے مراد یہ دعا ہے۔ ” سبحانک اللہ وبحمدک و تبارک اسمک الی اخرہ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ تکیہ تحریمہ کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ ابوالجوزاء کا قول ہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ ” جب آپ نیند سے بیدار ہوکر اٹھیں۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کی جتنی تاویلیں کی گئی ہیں ان تمام کے لئے عموم کا جواز موجود ہے۔ قول باری (وادبار النجوم۔ اور ستاروں کے پیچھے بھی) صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ اس سے فجر کی دو رکعتیں مراد ہیں۔ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایتیں منقول ہیں۔ سعد بن ہشام نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (رکعتا الفجر خیر من الدنیا ومافیھا۔ فجر کی دو رکعتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہے) عبید بن عمیر نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی نفل نماز کی ادائیگی کے لئے اور نہ ہی مال غنیمت کی تقسیم کے لئے اس قدر سرعت سے کام لیتے دیکھا جس قدر آپ فجر کی دو رکعتیں ادا کرنے میں سرعت سے کام لیتے تھے۔ ایوب نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الرکعتان قبل صلوٰۃ الفجر واجبتان علی کل مسلم، ہر مسلمان پر فجر کے فرض سے پہلے دو رکعتیں واجب ہیں) یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ان دو رکعتوں کو ہرگز نہ چھوڑ و کیونکہ ان میں رغائب موجود ہیں۔ “ یعنی ان کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے انعامات ملیں گے۔ “ یہ بھی فرمایا : ” ان دو رکعتوں کو نہ چھوڑو خواہ تم پر گھوڑ سواروں کا دستہ کیوں نہ حملہ آور ہوجائے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨۔ ٤٩) اور آپ اپنے پروردگار کے احکام کی تبلیغ پر جمے رہیے یا یہ کہ اطاعت خداوندی میں جو آپ کو ان کفار کی طرف سے تکالیف پہنچیں آپ ان پر صبر سے بیٹھے رہیے، کیونکہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں اور سونے سے اٹھتے وقت اپنے پروردگار کی نماز پڑھتے رہیے۔ مثلا صبح سے رات تک بھی اور رات کے آنے کے بعد بھی نماز پڑھتے رہیے یعنی ظہر عصر مغرب اور ستاروں کے غائب ہونے کے بعد بھی یعنی صبح کی دو سنتیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨{ وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ } ” (اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے ربّ کے فیصلے کا انتظار کیجیے۔ “ ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں یہ حکم بار بار آیا ہے ۔ خصوصاً زیر مطالعہ گروپ کی سورتوں اور ٢٩ ویں پارے کی سورتوں میں تو فَاصْبِرْ یا وَاصْبِرْکے صیغے کی بہت تکرار ملتی ہے۔ سورة النحل میں فرمایا گیا : { وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلاَّ بِاللّٰہِ } (آیت ١٢٧) ” آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے “۔ سورة الاحقاف میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا گیا : { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ } (آیت ٣٥) ” پس آپ بھی صبر کیجیے جیسے ہمارے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا “۔ مثلاً حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کی زیادتیاں برداشت کیں۔ سورة المزمل میں ارشاد ہوا : { وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَـقُوْلُوْنَ } (آیت ١٠) ” اور اس پر صبر کیجیے جو یہ لوگ آپ کے خلاف باتیں بنا رہے ہیں “۔ سورة المدثر میں فرمایا گیا : { وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ۔ } ” اور آپ اپنے رب کے لیے صبر کریں “۔ غرض ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست مخاطب کر کے بار بار ہدایت کی جاتی رہی کہ آپ صبر کا دامن مضبوطی سے تھا میں رہیں۔ عربی میں ” صبر “ کے بعد اگر ” ل “ آجائے جیسے کہ آیت زیر مطالعہ میں ہے ‘ تو اس کے معنی انتظار کرنے کے ہوتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا ترجمہ اسی مفہوم کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ { فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا } ” بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل ہماری نظروں کے سامنے ہیں ‘ ہم آپ کے حالات سے پوری طرح باخبر ہیں ۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگہبانی کر رہے ہیں ‘ آپ کو آپ کے حال پر نہیں چھوڑ دیا۔ بالکل یہی مضمون سورة یونس کی آیت ٦١ میں بھی آیا ہے : { وَمَا تَـکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) نہیں ہوتے آپ کسی بھی کیفیت میں اور نہیں پڑھ رہے ہوتے آپ قرآن میں سے کچھ اور (اے مسلمانو ! ) تم نہیں کر رہے ہوتے کوئی بھی (اچھا) عمل مگر یہ کہ ہم تمہارے پاس موجود ہوتے ہیں جب تم اس میں مصروف ہوتے ہو۔ “ { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔ } ” اور آپ تسبیح کرتے رہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ جب آپ کھڑے ہوں۔ “ اس بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تہجد کی نماز کی طرف اشارہ ہے ‘ کیونکہ آغاز میں تو وہی ایک نماز تھی۔ جیسا کہ سورة المزمل کی ان آیات میں قیام اللیل کا ذکر ہے : { یٰٓــاَیـُّـھَا الْمُزَمِّلُ ۔ قُمِ الَّــیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا ۔ نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا ۔ اَوْ زِدْ عَلَـیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ۔ } ” اے کپڑا اوڑھنے والے ! رات کو قیام کیا کرو مگر (ساری رات نہیں بلکہ) کم۔ (یعنی) نصف رات یا اس سے کچھ کم کرلو۔ یا اس پر کچھ زیادہ کرلو ‘ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 Another meaning can be: Remain firm and steadfast in carrying out the Command of your Lord." 39 That is, "We are watching over you and have not left you alone." implied:

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :38 دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :39 یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :40 اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں ۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد ، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ کے واسطے سے حضور کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیل و قال ہوئی ہو ، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک ، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت ، استغفرک و اتوب الیک ۔ خداوندا ، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستر سے اٹھو تو اپنے رب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو ۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر ۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الا اللہ ، واللہ اکبر ، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ( مسند احمد ، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت ) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو ۔ اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جائے سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک ۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو ۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔ مفسر ابن جریر نے اس کا ایک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو ، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یہ بڑی پیار بھری تسلی ہے جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی جا رہی ہے کہ آپ اپنے کام میں لگے رہئے، ہم ہر آن آپ کی نگرانی اور حفاظت کر رہے ہیں۔ 16: اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب آپ تہجد کے لیے اٹھیں، اس وقت تسبیح فرمائیں اور یہ بھی کہ جب آپ اپنی کسی مجلس سے اٹھیں تو تسبیح پر اس کا اختتام ہونا چاہئے، چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مجلس کے آخر میں اگر سبحانک اللہم و بحمدک لا الہ الا انت استغفرک و اتوب الیک۔ پڑھ لیا جائے تو یہ اس مجلس کا کفارہ ہوجاتا ہے (ابو داود، حدیث نمبر :4216) یعنی اگر اس مجلس میں دینی اعتبار سے کوئی بھول چوک یا غلطی ہوگئی ہو، تو اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ ٤٩۔ ابوجعفر بن جریرنے کھڑے ہونے کی تفسیر سوتے سے اٹھنے کے وقت کی کی ہے اور اس تفسیر کی تائید ان صحیح حدیثوں سے ہوتی ہے جو صحاح ٤ ؎ میں ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے سے اٹھ کر اکثر اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی سوتے سے اٹھ کر اللہ کی توحید بیان کرے اور پھر دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا قبول فرماتا ہے۔ سفیان ٥ ؎ ثوری اور سلف نے کھڑے ہونے کی تفسیر کسی مجلس سے اٹھنے کی کی ہے اور دعا کفارۃ المجلس کی حدیث جو ترمذی ٦ ؎ وغیرہ میں ہے۔ اس تفسیر کی تائید میں پیش کی ہے جس کو ترمذی نے صحیح کہا ہے لیکن حقیقت میں بات یہ ہے کہ آیت کا مطلب عام ہے اور دونوں قسم کی حدیثیں آیت کی تفسیر قرار پا سکتی ہیں۔ رات کی تسبیح کی تفسیر اکثر مفسروں نے تہجد کی اور تاروں کے ڈوبنے کے وقت کی تسبیح کی تفسیر صبح کی دو سنت رکعتوں کی کی ہے۔ صحیحین ٧ ؎ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نفل نمازوں میں سب سے زیادہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبح کی دو سنتوں کا خیال رہتا تھا۔ فقہ حنبلی میں یہ لکھا ہے کہ یہ دونوں رکعتیں واجب ہیں۔ اس پر اور علماء نے صحاح کی اس حدیث کے مضمون کے موافق اعتراض کیا ہے جس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص کو آپ نے رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا اس شخص نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کوئی نماز نہ پڑھوں گا آپ نے فرمایا اس سے زیادہ نفلی نماز ہے جس کے پڑھنے نہ پڑھنے کا تجھ کو اختیار ہے اس حدیث سے علماء نے وتر کے واجب ہونے کے قول کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ (٥ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٤٥ ج ٤۔ ) (٦ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی القوم یجلسون ولایذکرون اللہ ص ١٩٦ ج ٢۔ ) (٧ ؎ صححش بخاری باب تعاھد رکعتی الفجر الخ ص ١٥٦ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب فضل من تقار من اللیل فصلی ص ١٥٥ ج ١ و تفسیر ابن کثیر ص ٢٤٥ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:48) اصبر امر واحد مذکر حاضر۔ صبر (باب ضرب) مصدر۔ تو صبر کر تو استقلال سے رہ۔ تو اپنے آپ کو روکے رکھ۔ لحکم ربک : میں لام تعلیل کی ہے تو اپنے رب کے حکم کے لئے صبر کر۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) آپ اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کریں۔ یعنی صبر کے ساتھ انتظار کرو۔ (2) آپ کے رب نے جو آپ کو حکم دے رکھا ہے صبر و استقامت کے ساتھ اس پر ڈٹے رہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کفار کے ساتھ معاملہ میں آپ کو بڑی محنت کرنا پڑے گی یا کہ پڑ رہی ہے بڑے دکھ سہنے پڑیں گے۔ بڑی مصیبتیں برداشت کرنا ہوں گی مگر آپ صبر و استقامت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اپنا کام پوری دلجمی سے سرانجام دیتے رہیں آخر کار فتح و کامرانی آپ ہی کی ہوگی اور آپ بغیر کسی گزند کے فتحیاب ہوں گے کیونکہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ (3) بعض علماء کے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ہم نے ان کے عذاب کا حکم دے رکھا ہے آپ وقوع عذاب تک صبر کریں۔ فانک باعیننا : ای فی حفظنا۔ ہماری حفاظت میں، ہماری نگہداشت میں ۔ زجاج (رح) نے کہا ہے کہ : آپ ایسے مقام پر ہیں کہ ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اور آپ کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ خلاصہ یہ کہ آپ ہماری حافظت میں ہیں۔ اعین، عین کی جمع ہے نا جمع متکلم کی ضمیر اظہار عظمت کے لئے ہے اور جمع متکلم کے لحاظ سے اعین کو بھی بصیغہ جمع استعمال کیا۔ یا یوں کہا جائے کہ اعین کو بصورت جمع مبالغہ کے لئے ذکر کیا اور یہ بتایا ہے کہ ہمارے پاس آپ کی حفاظت کے بہت سے اسباب ہیں (تفسیر مظہری) حین : وقت، زمانہ، مدت۔ اس کی جمع احیان ہے۔ تقوم مضارع واحد مذکر حاضر۔ قیام (باب نصر) مصدر۔ تو کھڑا ہو وے۔ تو اٹھے ۔ تو کھڑا ہوتا ہے۔ تو اٹھتا ہے۔ حین تقوم جس وقت تو اٹھے۔ حین تقوم : ای من ای مکان قمت او من منامک : او الی الصلوٰۃ (جب بھی) جس کسی مجلس میں سے یا کسی بھی مقام سے تو اٹھے یا اپنی نیند سے (بیدار ہو) یا نماز کے لئے کھڑا ہو۔ (بیضاوی) مطلب یہ کہ آپ جب بھی کسی کام کے لئے کھڑے ہوں یا کسی مجلس سے اٹھیں تو اپنے رب کی پاکی بیان کیا کریں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ارشاد ہے۔ جسے ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے :۔ من جلس فی مجلس وکثر فیہ لغطہ فقال قبل ان یقوم من مجلسہ سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرون واتوب الیک (جو کسی مجلس میں بیٹھتا ہے اور خوب گپیں ہانکتا ہے لیکن اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ کہتا ہے سبحن اللہم ۔۔ الخ اللہ تعالیٰ اس مجلس میں جو اس سے گناہ ہوئے بخش دیتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 حدیث میں ہے کہ آنحضرت جب کسی مجلس سے اٹھتے تو فرماتے : سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیہ اور فرماتے کہ یہ دعا ان تمام باتوں کا کفارہ ہے جو آدمی مجلس میں کرتا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کو عذاب کی دھمکی دینے کے بعد نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے کی تلقین۔ توحید کے دلائل دینے اور کفار کو عذاب کا انتباہ کرنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی گئی کہ آپ حوصلہ اور مستقل مزاجی سے کام لیں اور ہر حال میں یقین رکھیں کہ آپ کا رب آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے وہی انداز اور الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے استعمال کیے گئے۔ قوم کے بارے میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا قبول ہوئی تو انہیں حکم ہوا کہ آپ ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے سامنے کشتی تیار کریں کیونکہ عنقریب آپ کی قوم کو تباہ کردیا جائے گا۔ (ھود : ٣٧) حضرت موسیٰ اور ہ اورن کو فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ تم فرعون کے پاس جاؤ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں البتہ میری یاد کو نہ بھولنا۔ (طٰہٰ : ٤٢ تا ٤٦) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی انہی الفاظ میں تسلی دی گئی ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق حوصلہ رکھیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ قیام اور ذکر : اس سورت کے آخر میں حکم ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اٹھیں تو اپنے رب کو یاد کریں۔ اہل علم نے اٹھنے سے مراد پانچ قسم کا اٹھنا لیا ہے۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوں اور وہاں سے اٹھیں تو اپنے رب کی تسبیح کریں۔ اس فرمان کی روشنی میں آپ نے اس بات کو مجلس کے آداب میں شامل فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص مجلس سے اٹھے تو اسے یہ کلمات پڑھنے چاہئیں جس سے مجلس میں کی گئی سطحی باتوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ ( سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ أَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ ) (رواہ الترمذی : باب مایقول اذا قام من المجلس، قال الشیخ البانی صحیح) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” حِیْنَ تَقُوْم “ پر اس طرح بھی عمل کیا اور اپنی امت کو تعلیم دی کہ جب کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ قَال باسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْیَا وَإِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ.) (رواہ البخاری : باب مَا یَقُولُ إِذَا نَامَ ) ” حضرت حذیفہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے کا ارادہ فرماتے ہیں تو یہ دعا پڑھتے۔ ” میں تیرے نام سے ہی مرتا ہوں اور تیرے نام ہی سے جیتا ہوں۔ “ اور جب سو کر اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔” میں اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس نے مجھے مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ “ ٣۔ جب اللہ کی دعوت دینے کے لیے اٹھو تو سب سے پہلے حمدو ثناء بیان کیا کرو۔ ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطاب شروع کرنے سے پہلے اللہ کی حمدوثناء پڑھتے۔ “ (رواہ البخاری : باب المکاتب) ٤۔ اٹھنے سے مراد نماز کے لیے اٹھنا ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے آغاز میں یہ کلمات پڑھتے تھے۔ (سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اْسمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ.) ( رواہ مسلم : باب حُجَّۃِ مَنْ قَالَ لاَ یَجْہَرُ بالْبَسْمَلَۃِ ) ٥۔ جب کسی کام کا آغاز کیا جائے تو اس کی ابتداء ” اللہ “ کے نام سے کی جائے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَذْکُرْ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَإِنْ نَسِیَ أَنْ یَذْکُرَ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی أَوَّلِہٖ فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ ) (رواہ ابوداؤد والترمذی : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ بلاشبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ پڑھے اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ کہے اللہ کے نام سے ہی ابتدا اور انتہا کرتا ہوں۔ “ ٦۔ امام ابن جریر نے ” حِیْنَ تَقُوْم “ کا یہ مفہوم بھی لیا ہے کہ جب دوپہر کا قیلولہ کرکے اٹھو تو ظہر کی نماز ادا کرو۔ بعض اہل علم نے رات کی نماز سے مراد مغرب، عشاء اور رتہجد کی نماز لی ہے۔ (وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسآی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) (بنی اسرائیل : ٧٩) ” اور رات کے کچھ حصے میں آپ تہجد پڑھیں اس حال میں کہ آپ کے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واصبرالحکم ربک (٢٥ : ٨٤) ” آپ اپنے رب کے فیصلے تک صبر کریں “ لیکن صبر کے حکم کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک زبانی اعزاز بھی دیا جاتا ہے۔ اللہ کی عنایت کے لئے آپ مستحق قرار پاتے ہیں۔ آپ کو ایسی محبت دی جاتی ہے کہ اس دست محبت سے آپ کے تمام الم اور تھکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں اور یہ فرمایا جاتا ہے کہ مشکلات پر صبر اللہ کے نزدیک بہت ہی محبوب اور پسندیدہ امر ہے اور یہی اس اعزاز کا ذریعہ اور نسبت ہے۔ واصبر لحکم ربک فانک باعیننا (٢٥ : ٨٤) ” اے نبی اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو ، تم ہماری نگاہ میں ہو “ کیا ہی خوبصورت تعبیر ہے اور کیا ہی بہترین تصویر ہے اور کس قدر بڑا اعزاز ہے۔ یہ وہ مقام اعزاز ہے جس تک کوئی انسان نہیں پہنچ سکا۔ پورے قرآن میں اس مقام کو اس قدر خوبصورت انداز میں نہیں دکھایا گیا یہاں تک کہ دوسرے نبیوں کے لئے ایسی ہی ہدایات کے موقع پر بھی کوئی ایسی خوبصورت تعبیر نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ ﴾ (اور آپ اپنے رب کی تجویز پر صبر کیجئے) ان کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل دی جا رہی ہے اس پر صبر کیجئے، انتقام کے لیے جلدی نہ کیجئے، وقت معین پر مبتلائے عذاب ہو گے ﴿ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا ﴾ (سو بیشک آپ ہماری حفاظت میں ہیں) آپ کے خلاف ان کی تدبیریں کامیاب نہ ہوں گی۔ ﴿ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُۙ٠٠٤٨﴾ (اور آپ اپنے رب کی تسبیح بیان کیجئے جس کے ساتھ حمد بھی ہو جس وقت آپ کھڑے ہوں) ۔ صاحب روح المعانی نے حضرت عطاء اور مجاہد اور ابن جریج سے اس کا یہ معنی نقل کیا ہے کہ جب بھی کسی مجلس سے کھڑے ہوں اللہ کی تسبیح وتحمید بیان کیجئے اس موقعہ پر ایک حدیث بھی نقل کی ہے جو حضرت ابوبرزہ اسلمی (رض) سے مروی ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس سے کھڑے ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے : سبحنک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استعفرک واتوب الیک۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ وہ کلمات ادا فرماتے ہیں جو اس سے پہلے آپ کے معمول میں نہیں تھے آپ نے فرمایا کہ یہ کلمات ان سب باتوں کا کفارہ ہیں جو مجلس میں ہوئی ہوں۔ (رواہ ابوداؤد)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” واصبر لحکم ربک۔ الایۃ “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دوسری بار تسلی کا ذکر ہے آپ ان کی ایذاؤں پر صبر کریں اور ان کی پرواہ نہ کریں اور اللہ کے فیصلے کے مطابق ان پر آنے والے عذاب کا انتظار کریں وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، کیونکہ آپ ہماری حفاظت اور نگرانی میں ہیں۔ ای اصبر علی اذاھم ولا تبا لھم فانک بمرای منا وتحت کلاتنا واللہ یعصمک من الناس (ابن کثیر ج 4 ص 245) ۔ ” حین تقوم “ یعنی جب دن کو اٹھو دن بھر حسب اوقات فرصت اللہ کی تسبیح وتحمید کرو۔ اور شرک سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کرو۔ ” ومن اللیل “ اور پھر اگلی رات میں بھی۔ ” وادبار النجوم “ اور اس کے بعد آنے والے دن میں بھی الغرض ہر وقت اللہ کی یاد اور اس کی تسبیح وتحمید میں مصروف رہو۔ وہی آپ کا ناصر و حامی ہے دشمن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ وہ خود عنقریب ہی اللہ کی گرفت میں آنے والے ہیں۔ ” ادبار النجوم “ سے دوسرا دن مراد ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ وھو الذی یتوفاکم باللیل و یعلم ما جرحتم بالنھار ثم یبعثکم فیہ (انعام رکوع 7) ۔ یہاں ” فیہ “ سے دوسرا دن مراد ہے۔ سورة والطور میں آیات توحید 1 ۔ ” ام لھم الہ غیر اللہ “ (رکوع 2) ۔ نفی شرک ہر قسم 2 ۔ ” وسبح بحمد ربک حین تقوم و من اللیل فسبحہ وادبار النجوم “ نفی شرک ہر قسم سورة والطور ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) اور اے پیغمبر آپ اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لیجئے بیشک آپ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری حفاظت ونگران میں ہیں اور جس وقت آپ اٹھا کریں تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کیا کیجئے۔