Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 1

سورة النجم

وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ۙ﴿۱﴾

By the star when it descends,

قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah swears the Messenger is True and His Words are a Revelation from Him Ibn Abi Hatim recorded that Ash-Sha`bi and others stated that the Creator swears by whatever He wills among His creation, but the created only vow by the Creator. Allah said, وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى By the star when it goes down. Ibn Abi Najih reported that Mujahid said, "The star refers to...  Pleiades when it sets at Fajr." Ad-Dahhak said "When the Shayatin are shot with it." And this Ayah is like Allah's saying; فَلَ أُقْسِمُ بِمَوَقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌ فِى كِتَـبٍ مَّكْنُونٍ لااَّ يَمَسُّهُ إِلااَّ الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَـلَمِينَ So, I swear by the setting of the stars. And verily, that is indeed a great oath, if you but know. That is indeed an honorable recitation. In a Book well-guarded. Which none can touch but the pure. A revelation from the Lord of all that exists. (56:75-80) Allah said; مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى   Show more

حضرت شعبی فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا لے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی ( ابن ابی حاتم ) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا کے ستارے کا غائب ہونا ہے ۔ بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیط... ان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہو سکتی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے ۔ اس آیت جیسی ہی آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75۝ۙ ) 56- الواقعة:75 ) ہے ۔ پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں وہ بےعلمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں ۔ آپ گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں ۔ آپ کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپکا راستہ سیدھا آپ عظیم الشان شریعت کے شارع ، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم ۔ آپ کا کوئی قول کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپکو حکم الہٰی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ۔ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر اس پر ایک شخص نے کہا کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا یہ حدیث ابو داؤد اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یہ پہلی سورت ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے مجمع عام میں تلاوت کیا، تلاوت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے جتنے لوگ تھے، سب نے سجدہ کیا، ماسوائے امیہ بن خلف کے، اس نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا۔ چناچہ یہ کفر کی حالت م... یں ہی مارا گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورة نجم) بعض طریق میں اس شخص کا نام عتبہ بن ربیعہ بتلایا گیا ہے (تفسیر ابن کثیر) واللہ اعلم۔ حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس سورت کی تلاوت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سجدہ نہیں کیا (صحیح بخاری، باب مذکور) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سجدہ کرنا مستحب ہے، فرض نہیں۔ اگر کبھی چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے۔ 1۔ 1 بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لئے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] بعض علماء نے (ألْنَّجْمُ ) سے مراد زہرہ لیا ہے بعض نے ثریا اور بعض نے اس سے مراد ستاروں کی جنس لی ہے۔ یعنی اس وقت کی قسم جب ستارے غائب ہوجاتے ہیں اور دن کی روشنی پھیل جاتی ہے۔ یا ان ستاروں کی قسم جو اپنی مقررہ راہ ہی پر چلتے رہتے ہیں کبھی ادھر ادھر نہیں ہٹتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والنجم اذا ھویٰ :” النجم “ ستارہ۔” الف لام “ تعریف کیلئے ہو تو مراد ” ثریا “ ہے کیونکہ عرب کے ہاں ” النجم “ بول کر ” ثریا “ مراد لینا معروف ہے اور اگر ” الف لام “ جنس کے لئے ہو تو ستاروں کی جنس مراد ہے، خواہ کوئی ہوں اور یہاں جنس مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ “” ھوی یھوی ھویاً “ (ض ) کا معنی جکرنا ا... ور غروب ہونا بھی آتا ہے اور چڑھنا اور طلوع ہونا بھی اور ” ھوی یھوی ھوی “ (س) کا معنی ہے محبت کرنا۔ (٢) قرآن مجید کی قسمیں اپنے جواب قسم کی شہادت کے طور پر لائی جاتی ہیں اورق سم اور جواب قسم میں معنوی طور پر مناسب ہوتی ہے۔ یہاں ” والنجم اذا ھویٰ “ میں مذکور قسم بعد کی آیت ” ماضل صاحبکم وما غوی “ کے دعویٰ کی شہادت کے طور پر لائی گی ہے اور دونوں میں معنوی مناسبت ہے۔ مفسرین نے اس مناسبت کی تقریر کئی طرح سے فرمائی ہے، ان میں سب سے واضح دو تقریریں یہاں درج کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ” النجم “ سے مراد عام ستارے ہیں، یعنی جس طرح تمام ستارے اپنے اپنے مدار میں چلتے ہیں، اپنی مقررہ جگہ سے طلوع ہوتے اور مقررہ جگہ غروب ہوتے ہیں اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چل رہے ہیں، اس سے ذرہ برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے، حتیٰ کہ وحی الٰہی کے بغیر بولتے بھی نہیں اور ستاروں کے احوال میں سے غروب کا وقت خاص طور پر ذکر کرنے کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ عظیم مخلوق مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے۔ اپنی تمام تر وسعت، روشنی اور چمک کے باوجود اس کی مجالس نہیں کہ غروب ہونے اور ڈوبنے سے انکار کرسکے۔ (واللہ اعلم) اس تقریر کی مزید تفصیل سورة تکویر کی آیات (١٥ تا ١٩) :(فلا اقسم بالخنس …انہ لقول رسول کریم) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسری تقریر یہ ہے کہ ستاروں سے مراد شہاب ثاقب ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجی جانے والی وحی کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام کر رکھا ہے کہ اگر کوئی شیطان آسمان کے نیچے جا کر اسے سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر ہر طرف سے شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں جو اسے جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں۔ دیکھیے سورة صافات (٦ تا ١٠) اور سورة جن (٨، ٩) ۔ حفاظت کا یہ زبردست انتظام شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے سیھے راستے پر قائم ہیں اور ان پر نازل ہونے والی وحی الٰہی میں کسی قسم کی مداخلت یا کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہی بات سورة واقعہ کی آیت (٧٥):(فلا اقسم بموقع النجوم) میں بیان فرمائی گئی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Characteristics of Surah An-Najm Surah An-Najm is the first chapter that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) proclaimed in Makkah (` Abdullah Ibn Masud (رض) has transmitted it - as in Qurtubi) and this is the first Surah in which a verse of sajdah (prostration) is revealed. The Holy Prophet recited it and prostrated. A strange thing happened on this occasion: When the Holy Prophet finished ... reciting the Surah before a mixed gathering of Muslims and disbelievers, and, along with his followers, he prostrated himself on the ground. The disbelievers too prostrated, except one proud and arrogant man (regarding whose name there is a difference of opinion (Tr.) ) who took a handful of soil and, having applied it on his forehead, said, &this is enough&. ` Abdullah Ibn Masud (رض) ، [ the transmitter of the Tradition ] said that he saw this man lying dead in the state of disbelief [ kufr ]. (Bukhari, Muslim and other compilers of Sunan - Ibn-Kathir [ condensed ]) At the outset of this Surah, the truth of the Qur&anic revelation and of the Divine claim is sought to be established. In a very exquisite and forceful style, it is stated that the Holy Prophet is a true Messenger of Allah, and there is no room for any doubt about this. Allah Swears that the Messenger is True وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ (By the star when it goes down to set,.... 53:1) The word najm means a star, and as a common noun every star is referred to as najm, and in that case the plural is nujum. There are however occasions when najm specifically refers to thurayya. In this case it is used as a proper noun and it signifies |"the Pleiades|" which is a loose cluster of many (hundred) stars, (six of which are visible to ordinary sight). In this context, some scholars, taking the word as a proper noun, interpret najm as thurayya. Farra& and Hasan Basri prefer the first interpretation, and take the word as a common noun (Qurtubi). This is the interpretation that is adopted in the translation. The verb hawa means to fall or plunge. When stars fall, they set. In this verse Allah swears an oath to show that the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is true, and his words are a revelation from Allah, in which there is no room for any doubt. In Surah As-Saffat it has been explained in detail that the Creator, for various wise reasons, swears by whatever He wills among His creation, but His created beings only swear by the Creator. They are not allowed to swear by anything else. Here Allah has sworn an oath by the stars. Probably, the underlying wisdom in this is that as the Arabs are used to determine the course and direction of, and are guided in their travels by the movements of the stars in the sandy waste of Arabia, so they would now be led to the goal and end of their spiritual journey by the star par excellence, that is, by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .  Show more

خلاصہ تفسیر قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے ( یعنی کوئی بھی ستارہ ہو اور اس قسم میں مضمون جواب قسم مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے، یعنی جس طرح ستارہ طلوع سے غروب تک اس تمام تر مسافت میں اپنی باقاعدہ رفتار سے ادھر ادھر نہیں ہوا اسی طرح آپ اپنی عمر بھر ضلال وغوایت سے...  محفوظ ہیں اور نیز اشارہ ہے اس طرف کہ جیسے نجم سے ہدایت ہوتی ہے، اسی طرح آپ سے بھی بوجہ عدم ضلال و عدم غوایت کے ہدایت ہوتی ہے اور چونکہ ستاروں کے وسط سماء میں ہونے کے وقت کسی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لئے اس وقت ستارے سے راستہ کا پتہ نہیں لگتا، اس لئے اس میں قید لگائی غروب کے وقت کی اور گو قرب من الافق طلوع کے وقت بھی ہوتا ہے لیکن غروب میں یہ بات زیادہ ہے کہ اس وقت طالبان اہتداء اس کو غنیمت سمجھتے ہیں اس خیال سے کہ اگر استدلال میں ذرا توقف کیا پھر غائب ہوجاوے گا، بخلاف طلوع کے کہ اس میں بےفکری رہتی ہے پس اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہدایت حاصل کرلینے کو غنیمت سمجھو اور شوق سے دوڑو، آگے جواب قسم ہے کہ) یہ تمہارے (ہمہ وقت) ساتھ کے ( اور سامنے) رہنے والے (پیغمبر جن کے عام احوال و افعال تم کو معلوم ہیں جن سے بشرط انصاف ان کی راستی اور حقانیت پر استدلال کرسکتے ہو یہ پیغمبر) نہ راہ (حق) سے بھٹکے اور نہ غلط راستے ہو لئے (ضلال یہ کہ بالکل راستہ بھول کر کھڑا رہ جاوے اور غوایت یہ کہ غیر راہ کو راہ سمجھ کر غلط سمت میں چلتا رہے کذا فی الخازن، یعنی تم جو ان کو دعوائے نبوت و دعوت الی الاسلام میں بےراہ سمجھتے ہو یہ بات نہیں ہے، بلکہ آپ نبی برحق ہیں) اور نہ آپ اپنی نفسیانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں ( جیسا تم لوگ کہتے ہو افتراہ بلکہ) ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے ( خواہ الفاظ کی بھی وحی ہو جو قرآن کہلاتا ہے خواہ صرف معافی کی ہو جو سنت کہلاتی ہے اور خواہ وحی جزئی ہو یا کسی قاعدہ کلیہ کی وحی ہو، جس سے اجتہاد فرماتے ہوں، پس اس سے نفی اجتہاد کی نہیں ہوتی اور اصل مقصود مقام نفی ہے کفار کے اس خیال کی کہ آپ خدا کی طرف غلط بات کی نسبت فرماتے ہیں، آگے وحی آنے کا واسطہ بتلاتے ہیں کہ) ان کو ایک فرشتہ ( اس وحی کی منجانب اللہ) تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے ( اور وہ اپنی کوشش و محنت سے طاقتور نہیں ہوا بلکہ) پیدائشی طاقتور ہے ( جیسا کہ ایک روایت میں خود جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنی طاقت کا بیان فرمایا کہ میں نے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان کے قریب اس کو لے جا کر چھوڑ دیا (رواہ فی تفسیر سورة التکویر من الدر المنثور) مطلب یہ کہ یہ کلام کسی شیطان کے ذریعہ سے آپ تک نہیں پہنچا کہ کاہن ہونے کا احتمال ہو بلکہ فرشتہ کے ذریعہ سے آیا اور شاید شدید القوی کا ذکر فرمانے میں یہ مقصود ہو کہ اس کا احتمال بھی نہ کیا جاوے کہ شاید اصل میں فرشتہ ہی لے کر چلا ہو مگر درمیان میں کوئی شیطانی تصرف ہوگیا ہو اس میں اشارہ ہوگیا جواب کی طرف کہ وہ نہایت شدید القویٰ ہیں شیطان کی مجال نہیں کہ ان کے پاس پھٹک سکے، پھر ختم وحی کے بعد خود حق تعالیٰ نے اس کے بعینہ ادا کردینے کا وعدہ فرمایا ہے اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه آگے اس شبہ کا جواب ہے کہ اس وحی لانے والے کا فرشتہ اور جبریل ہونا اس وقت معلوم ہوسکتا ہے، جب آپ ان کو پہچانتے ہوں اور پوزی صحیح پہچان موقوف ہے اصل صورت میں دیکھنے پر تو کیا آپ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اپنی اصلی صورت پر دیکھا ہے اس کی نسبت فرماتے ہیں کہ ہاں یہ بھی ہوا ہے، جس کی کیفیت یہ ہے کہ چند بار تو دوسری صورت میں دیکھا) پھر ( ایک بار ایسا بھی ہوا کہ) وہ فرشتہ (اپنی) اصلی صورت پر (آپ کے روبرو) نمودار ہوا ایسی حالت میں کہ وہ (آسمان کے) بلند کنارہ پر تھا ( ایک روایت میں افق شرقی سے اس کی تفسیر آئی ہے، کما فی الدر المنثور، اور افق میں دکھلا دینے کی غالباً یہ حکمت ہے کہ وسط سماء میں دیکھنا خالی از مشقت و تکلف نہیں اور اعلیٰ میں غالباً یہ حکمت تھی کہ باکل نیچے افق پر بھی پوری چیز نظر نہیں آتی، اس لئے ذرا اونچے پر نظر آئے اور اس دیکھنے کا قصہ یہ ہوا تھا کہ ایک بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) سے خواہش کی کہ مجھ کو اپنی اصلی صورت دکھلا دو ، انہوں نے حرا کے پاس وحسب روایت ترمذی محلہ جیاد میں وعدہ ٹھہرایا، آپ وہاں تشریف لے گئے تو ان کو افق مشرق میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ہیں اور اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ افق غربی تک گھیر رکھا ہے، آپ بیہوش ہو کر گر پڑے، اس وقت جبرئیل (علیہ السلام) بصورت بشر ہو کر آپ کے پاس تسکین کے لئے اتر آئے جس کا آگے ذکر ہے کذا فی الجلالین، حاصل یہ کہ وہ فرشتہ اول صورت اصلیہ میں افق اعلیٰ پر نمو دار ہوا) پھر ( جب آپ بےہوش ہوگئے تو) وہ فرشتہ ( آپ کے) نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا سو (قرب کی وجہ سے) دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ (غایت قرب کی وجہ سے) اور بھی کم (فاصلہ رہ گیا، مطلب دو کمانوں کا یہ ہے کہ عرب کی عادت تھی کہ جب دو شخص باہم غایت درجہ کا اتفاق و اتحاد کرنا چاہتے تھے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں لے کر ان کے چلے یعنی تانت کو باہم متصل کردیتے اور اس صفت میں بھی بعض اجزاء کے اعتبار سے کچھ فصل ضروری رہتا ہے، پس اس محاورہ کی وجہ سے یہ کنایہ ہوگیا قرب و اتحاد سے اور چونکہ یہ محض اتفاق صوری کی علامت تھی تو اگر روحانی و قلبی اتفاق بھی ہو تو وہاں اَو اَدنیٰ بھی صادق آسکتا ہے، پس اَو اَدنیٰ کے بڑھا دینے میں اشارہ ہوگیا کہ مجاورت صوریہ کے علاوہ آپ میں اور جبرئیل (علیہ السلام) میں روحانی مناسبت بھی تھی جو مدار اعظم ہے معرفت تامہ اور حفظ صورت کا، غرض یہ کہ ان کی تسکین سے آپ کو تسکین ہوئی اور افاقہ ہوا) پھر (افاقہ کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ( اس فرشتہ کے ذریعہ سے) اپنے بندہ ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمانا تھی ( جس کی تعیین بالتخصیص معلوم نہیں اور نہ معلوم ہونے کی حاجت اور باوجودیکہ اصل مقصود اس وقت وحی نازل کرنا نہیں بلکہ جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں دکھلا کر ان کی پوری معرفت آپ کو عطا کرنی تھی مگر اس وقت اور بھی وحی نازل فرمانا شاید اس لئے ہو کہ یہ معرفت میں اور زیادہ معین ہو، کیونکہ اس وقت کی وحی کو جس کا منجانب اللہ ہونا جبرئیل (علیہ السلام) کی اصل صورت میں ہونے کی وجہ سے قطعی اور یقینی ہے اور دوسرے اوقات کی وحی جو بواسطہ صورت بشریہ ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کو ایک شان پر دیکھیں گے تو زیادہ سے زیادہ یقین میں قوت ہوگی کہ دونوں حالتوں میں وحی لانے والا واسطہ یعنی فرشتہ ایک ہی ہے، جیسا کہ کسی شخص کی آواز کے لب و لہجہ اور طرز کلام سے خوب آگاہ ہوں تو اگر کبھی وہ صورت بدل کر بھی بولتا ہے تو صاف پہچانا جاتا ہے، آگے اس دیکھنے کے متعلق ایک شبہ کا جواب ہے وہ شبہ یہ ہے کہ صورت اصلیہ میں دیکھنے کے باوجود یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ قلب کے ادراک و احساس میں غلطی ہوجائے جیسا کہ احساسات میں غلطی ہوجانا اکثر مشاہدہ کیا جاتا ہے، مجنون باوجود سلامت جس کے بعض اوقات پہچانے ہوئے لوگوں کو دوسرا شخص بتلانے لگتا ہے، پس یہ رویت صحیحہ تھی یا نہیں، آگے اس شبہ کا جواب ہے یعنی وہ رویت صحیحہ تھی کہ اس کے دیکھنے کے وقت) قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی ( رہا یہ کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ قلب نے غلطی نہیں کی سو بات یہ ہے کہ اگر مطلقاً ایسے احتمالات قابل التفات ہوا کریں تو محسوسات کا کبھی اعتبار نہ رہے، پھر تو ساری دنیا کے معاملات ہی مختلف ہوجاویں، ہاں کسی کے پاس کوئی منشا شبہ کا معتدبہ موجود ہو تو اس پر غور کیا جاتا ہے اور احتمال خطائے قلبی کا منشاء یہ ہوسکتا ہے کہ ادراک کرنے والا مختل العقل ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحیح العقل، فطین و ذہین، صاحب فراست ہونا مشاہد اور ظاہر تھا، چونکہ باوجود اس اثبات بلیغ کے پھر بھی معاندین جدال و خلاف سے باز نہ آتے تھے اسی لئے آگے بطور توبیخ و تعجیب کے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم نے ایسے شافی کافی بیان سے معرفت و رویت کا ثبوت سن لیا) تو کیا ان (پیغمبر) سے ان کی دیکھی (بھالی) ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو (یعنی جن چیزوں کا علم و ادراک انسان کو ہوتا ہے ان میں محسوسات جیسی چیزیں شک و شبہ سے بالاتر ہوتی ہیں، غضب کی بات ہے کہ تم حیات میں بھی اختلاف کرتے ہو، پھر یوں تو تمہاری حسیات میں بھی ہزاروں خدشے نکل سکتے ہیں) اور ( اگر یہ مہل خدشہ ہو کہ جس چیز کو ایک ہی بار دیکھا ہو تو اس کی پہچان کیسے ہو سکتی ہے تو جواب یہ ہے کہ اول تو یہ ضروری نہیں کہ ایک بار دیکھنے سے پہچان نہ ہو اور اگر علیٰ سبیل التنزل شناخت کے لئے تکرار مشاہدہ ہی کی ضروری ہے تو) انہوں نے (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) اس فرشتہ کو ایک اور دفعہ بھی (صورت اصلیہ میں) دیکھا ہے (پس اب تو وہ تو ہم بھی مدفوع ہوگیا، کیونکہ تطابق صورتین سے پوری تعیین ہوگئی کہ ہاں جبرئیل (علیہ السلام) یہی ہیں، آگے اس دوبارہ دیکھنے کی جگہ بتلاتے ہیں کہ کہاں دیکھا یعنی شب معراج میں دیکھا ہے) سدرة المنتہیٰ کے پاس (سدرہ کہتے ہیں بیری کے درخت کو اور منتہیٰ کے معنی ہیں انتہا کی جگہ، حدیث میں آیا ہے کہ یہ ایک درخت ہے بیری کا، ساتویں آسمان میں عالم بالا سے جو احکام و ارزاق وغیرہ آتے ہیں وہ اول سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے ملائکہ زمین پر لاتے ہیں، اسی طرح یہاں سے جو اعمال صعود کرتے ہیں وہ بھی سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے اوپر اٹھا لئے جاتے ہیں، دنیا میں اس کی مثال ڈاک خانہ کی سی ہے کہ آمد و برآمد خطوط وہاں سے ہوتی ہے اور عند سدرة المنتہیٰ میں تو امکان رویت بتلایا تھا، آگے اس مکان کا شرف بتلاتے ہیں کہ) اس (سدرة المنتہیٰ ) کے قریب جنت الماوی ہے (ماویٰ کے معنی رہنے کی جگہ چونکہ جنت نیک بندوں کے رہنے کی جگہ ہے اس لئے جنت الماویٰ کہتے ہیں، حاصل یہ کہ وہ سدرة المنتہیٰ ایک ممتاز موقع پر ہے، اب بعد تعیین مکان رویت کے رویت کا زمانہ بتلاتے ہیں کہ رویت کب ہوئی، پس فرماتے ہیں کہ) جب اس سدرة المنتہیٰ کو لپٹ رہی تھیں جو چیزیں لپٹ رہی تھیں ( ایک روایت میں ہے کہ سونے کے پروانے تھے، یعنی صورت پروانہ کی سی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ وہ فرشتے تھے یعنی حقیقت ان کی یہ تھی اور ایک روایت میں ہے کہ ملائکہ نے حق تعالیٰ سے اجازت چاہی تھی کہ ہم بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کریں ان کو اجازت ہوگئی، وہ اس سدرہ پر جمع ہوگئے تھے، (الروایات کلہا فی الدر المنثور) اس میں بھی اشارہ ہوسکتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معزز و مکرم ہونے کی طرف اور باقی وہی تقریر ہے جو تقیید سابق میں بیان کی گئی، اب ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی حیرت انگیز چیزیں دیکھ کر نگاہ چکرا جاتی ہے پوری طرح ادراک پر قدرت نہیں رہتی، پس اس صورت میں جبرئیل (علیہ السلام) کی صورت کا کیا ادراک ہوگا، جب یہ ادراک ثانی معتبر نہ ہوا تو پھر اس خدشہ مذکورہ کا جو جواب لقدراہ نزلتہ اخری سے دیا گیا ہے وہ کافی نہ ہوا اس احتمال کے رفع کے لئے فرماتے ہیں کہ آپ ان عجائب کو دیکھ کر ذرا نہیں چکرائے اور بالکل متحیر نہیں ہوئے، چناچہ جن چیزوں کی رویت کا حکم تھا ان کی طرف نظر کرنے سے آپ کی) نگاہ نہ تو ہٹی (بلکہ ان چیزوں کو خوب دیکھا) اور ( جن چیزوں کے دیکھنے کا حکم جب تک نہ ہوا) نہ ( ان کی طرف دیکھنے کو آپ کی نگاہ) بڑھی (یعنی قبل اذن نہیں دیکھا، کذا فی المدارک فی الفرق بین زاغ وطغی، یہ دلیل ہے آپ کے غایت استقلال کی، کیونکہ عجیب چیزوں میں آ کر آدمی یہی دو حرکتیں کیا کرتا ہے جن چیزوں کے دیکھنے کو کہا جاتا ہے ان کو تو دیکھتا نہیں اور جن کے لئے نہیں کہا گیا ان کو تکتا ہے، غرض اس میں انضباط نہیں رہتا، آگے آپ کے استقلال کی قوت بیان کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ) انہوں نے (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) اپنے پروردگار (کی قدرت) کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے ( مگر ہر چیز کے دیکھنے میں آپ کی یہی شان رہی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى، وہ عجائبات احادیث معراج میں آئے ہیں، انبیاء (علیہم السلام) کو دیکھنا ارواح کو دیکھنا جنت وغیرہ کو دیکھنا، پس ثابت ہوا کہ آپ میں غایت استقلال ہے، پس متحیر ہوجانے کا احتمال نہیں پس خدشہ کا جو جواب وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں مذکور تھا وہ سالم رہا، غرض تمام تر تقریر سے رویت و معرفت جبرئیل کے متعلق شبہ مندفع ہو کر امر سالت ثابت اور متحقق ہوگیا جو کہ مقصود مقام تھا) معارف و مسائل سورة نجم کی خصوصیات : سورة نجم پہلی سورت ہے جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں اعلان فرمایا ( رواہ عبداللہ بن مسعود قرطبی) اور یہی سب سے پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ تلاوت کیا اور اس سجدہ میں ایک عجیب صورت یہ پیش آئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سورت مجمع عام میں تلاوت فرمائی، جس میں مسلمان اور کفار سب شریک تھے، جب آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ ادا کیا تو مسلمان تو آپ کے اتباع میں سجدہ کرتے ہی، سب نے حضور کے ساتھ سجدہ کیا، تعجب کی چیز یہ پیش آئی کہ جتنے کفار و مشرکین موجود تھے وہ بھی سب سجدہ میں گر گئے، صرف ایک متکبر شخص جس کے نام میں اختلاف ہے، ایسا رہا جس نے سجدہ نہیں کیا، مگر زمین سے ایک مٹھی مٹی کی اٹھا کر پیشانی سے لگالی اور کہنے لگا کہ بس یہی کافی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود راوی حدیث فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو کفر کی حالت میں مرا ہوا دیکھا ہے (رواہ البخاری و مسلم و اصحاب السنن، ابن کثیر ملخصاً ) اس سورت کے شروع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے اور آپ پر نازل ہونے والی وحی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہونے کا بیان ہے۔ وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى، لفظ نجم ستارے کے معنی میں آتا ہے، ہر ایک ستارے کو نجم اور جمع نجوم بولی جاتی ہے اور کبھی یہ لفظ خاص طور سے ثریا ستارے کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو چند ستاروں کا مجموعہ ہے، اس آیت میں بھی بعض حضرات نے نجم کی تفسیر ثریا سے کی ہے، فرا اور حضرت حسن بصری نے پہلی تفسیر یعنی مطلق ستارے کو ترجیح دی ہے (قرطبی) اسی کو اوپر خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا ہے۔ اِذَا هَوٰى لفظ ہوٰی، ساقط ہونے اور گرنے کے معنی میں آتا ہے، ستارے کا گرنا اس کا غروب ہونا ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی کا حق و صحیح و شکوک سے بالاتر ہونا بیان فرمایا ہے، سورة صافات میں مفصل گزر چکا ہے کہ حق تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ خاص مصالح اور حکمتوں کے لئے اپنی خاص خاص مخلوقات کی قسم کھاتے ہیں، دوسروں کو اس کی اجازت نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھائے، یہاں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھائی جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ستارے اندھیری رات میں سمتیں اور راستے بتانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان سے سمت مقصود کی طرف ہدایت ہوتی ہے، ایسے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے راستے کی طرف ہدایت ہوتی ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰى۝ ١ ۙ نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والق... َرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ ھویٰ ماضی واحد مذکر غائب ھ و ی مادہ سے مصدر۔ ھوی ھ کی فتح سے باب ضرب سے بمعنی ( ستارہ کا طلوع ہونا۔ اور مصدر ھوی ( ھ کے ضمیر سے) باب ضرب سے بمعنی ( ستارہ کا) غروب ہونا۔ مستعمل ہے ۔ چونکہ ہر دو مصادر میں ھوی یھوی ( ماضی اور مضارع) کی ایک ہی صورت ہے لہٰذا ھوی بمعنی ( ستارہ کا) طولع ہونا یا غروب ہونا ہر دو طرح جائز ہے اور دونوں معانی بھی ایک ہی صیغہ میں لئے جاسکتے ہیں یعنی ( ستارہ کا) طلوع و غروب ہونا۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی قسم کھا کر فرماتا ہے جب کہ قرآن حکیم کو بذریعہ جبریل امین رسول اکرم پر قسط وار ایک ایک دو دو تین تین اور چار چار آیتیں کر کے پورے بیس سال میں نازل فرمایا جب آیت نازل ہوئی تو عتبہ بن ابی لہب نے سنا کہ محمد قرآن حکیم کے حصوں کی قسم کھاتے ہیں تو اس نے کہا کہ محمد کو یہ ب... ات پہنچا دو کہ میں قرآن کریم کے حصوں کا انکار کرتا ہوں، جبکہ ان لوگوں نے آپ کو یہ بات پہنچائی تو آپ نے فرمایا الہ العالمین اپنے درندوں میں سے کوئی درندہ اس پر مسلط کردے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حران کے قریب ایک شیر کو اس پر مسلط کردیا تو اس شیر نے اسے اس کے ساتھیوں میں سے نکال کر قریب ہی سر سے لے کر پیر تک پھاڑ دیا اور شیر نے اس کی نجاست کی وجہ سے اسے چکھا بھی نہیں اور رسول اکرم کی بددعا کی وجہ سے جیسا وہ تھا اسی طرح اس کو چھوڑ دیا۔ یا یہ مطلب ہے کہ قسم ہے مطلق ستاروں کی جبکہ وہ غروب ہونے لگیں کہ محمد جو تم سے بیان کرتے ہیں اس میں نہ وہ راہ حق سے بھٹکے اور نہ غلطی پر ہوئے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی ۔ } ” قسم ہے ستارے کی جبکہ وہ گرتا ہے۔ “ ھَوٰی یَھْوِیْ ھَوِیًّا کا اصل معنی ہے اوپر سے نیچے گرنا۔ یہاں اس سے ستاروں کا افق سے غائب ہونا ‘ ڈوب جانا یا فنا ہوجانا مراد ہوسکتا ہے۔ (اس پر قدرے تفصیلی بحث سورة الواقعہ میں ” مَوَاقِعِ النُّجُوْم “ کے ضمن میں آئے گی۔ ) الْ... ھَوِیَّۃ گہرے کنویں کو اور ھَاوِیَۃ دوزخ کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسی مادہ سے ھَوِیَ یَھْوٰی ھَوًی کا معنی ہے خواہش کرنا۔ یہ لفظ (الھَوٰی) آگے آیت ٣ میں آ رہا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 In the original the word "an-najm"has been used. Ibn `Abbas, Mujahid and Sufyan Thauri opine that it implies the Pleides. Ibn Jarir and Zamakhshari have held this same interpretation as preferable, for in Arabic when the word an -najm is used absolutely it usually implies the Pleides. Suddi says that it implies Venus; and Abu `Ubaidah, the grammarian, holds that here the word an-najm has been us... ed generically so as to express this idea: "When the day dawned, and the stars set." In view of the context we are of the opinion that this last interpretation is more preferable.  Show more

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :1 اصل میں لفظ النّجم استعمال ہوا ہے ۔ ابن عباس ، مجاہد اور سُفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا ( Pleiades ) ہے ۔ ابن جریر اور زمخشری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے ، کیونکہ عربی زبان میں جب مطلقاً النجم کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً اس سے ثریا ہی مراد لیا جات... ا ہے ۔ سدی کہتے ہیں کہ اس سے مراد زہرہ ( Venus ) ہے ۔ اور ابو عبیدہ نجوی کا قول ہے کہ یہاں النجم بول کر جنس نجوم مراد لی گئی ہے ، یعنی مطلب یہ ہے کہ جب صبح ہوئی اور سب ستارے غروب ہو گئے ۔ موقع و محل کے لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ آخری قول زیادہ قابل ترجیح ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: ستارے کے گرنے سے مراد اُس کا غائب ہونا ہے۔ جیسا کہ سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، اس سورت کا اصل موضوع حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی رسالت کو ثابت کرنا ہے، اس لئے سورت کے شروع میں آپ پر نازل ہونے والی وحی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد فرشتہ آپ کے پاس لے کر آتا ہے۔ شروع ... میں ستارے کی قسم کھانے سے اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح ستارہ روشنی کی ایک علامت ہے، اور عرب کے لوگ اُس سے صحیح راستے کا پتہ لگاتے تھے، اسی طرح حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت کا پیکر ہیں۔ اس کے علاوہ ستارے کے سفر کے لئے اﷲ تعالیٰ نے جو راستہ مقرّر فرمایا ہے، وہ اُس سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا، اور نہ اُس سے بھٹکتا ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ وہ نہ راستہ بھولے ہیں، نہ بھٹکے ہیں۔ پھر جب ستارہ غائب ہونے والا ہوتا ہے تو اُس کے ذریعے راستہ زیادہ آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ مسافروں کو اُس کا زبانِ حال سے یہ پیغام ہوتا ہے کہ میں رُخصت ہونے والا ہوں، مجھ سے راستہ معلوم کرنے میں جلدی کرو۔ اسی طرح حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دُنیا میں زیادہ عرصے مقیم نہیں رہیں گے، اس لئے آپ سے ہدایت حاصل کرنے والوں کو جلدی کرنی چاہئیے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٣٠۔ تاروں کے ڈوبنے کے وقت کی قسم میں جو کچھ قدرت کا بھید ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے لیکن اتنا تو ظاہر ہے کہ جس طرح انسان کا سونا جاگنا ‘ ہر سال کھیتیکا کٹ جانا اور اسی بیج سے دوسرے سال پھر پیداوار کا ہوجانا وغیرہ ‘ جہاں یہ سب چیزیں اللہ کی قدرت اور حشر کا نمونہ ہیں اسی طرح تاروں کا وقت م... قررہ پر نکلنا اور وقت مقررہ پر چھپ جانا یہ بھی اسی کی قدرت اور حشر کا ایک نمونہ ہے۔ چناچہ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی نمونہ سے اللہ تعالیٰ کو پہنچانا۔ ضال وہ شخص ہے جو جہل کے سبب سی بہکا ہوا ہو بےراہ وہ جو جان بوجھ کے حق بات کو چھوڑ دے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہی اہل مکہ میں پلے ‘ بڑے ہوئے اور نبوت سے پہلے اہل مکہ آپ پر دیوانگی یا جھوٹ کا کوئی الزام نہیں لگاتے تھے۔ اسی واسطے فرمایا کہ ہی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تم لوگوں کے ہمیشہ کے رفیق ہیں اور تم کو ان کا حال ہر طرح سے خوف معلوم ہے۔ نہ وہ دیوانے ہیں نہ ملت ابراہیمی سے کچھ بےراہ ہوئے ہیں نہ اپنی ذاتی غرض سے انہوں نے خود یہ قرآن بنایا ہے بلکہ آسمانی وحی کے ذریعہ سے اللہ کا جو حکم ان کو پہنچا ہے وہی تم کو وہ سنا دیتے ہیں۔ اب بعد اس کے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا حال فرمایا کہ وہ بڑے صاحب قوت ہیں۔ ان کی قوت کے سبب سے وحی کے لانے اور اللہ کے رسول تک پہنانے میں شیطان کا کچھ دخل نہیں ہے کیونکہ جبرئیل (علیہ السلام) کی قوت سے شیطان ڈرتا ہے۔ چناچہ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ بدر کی لڑائی کے وقت پہلے تو شیطان سراقہ بن مالک کی صورت میں مشرکین کے لشکر میں موجود رہا۔ جب لشکر اسلام کی مدد کو فرشتے آئے اور شیطان نے جبرئیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانا تو بھاگ گیا۔ قوم لوط کے قصے میں حضرت جبرئیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (علیہ السلام) کی قوت کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہوں نے قوم لوط کے لاکھوں آدمیوں کے رہنے کی چار بستیاں اپنے ایک پر پر اٹھا کر آسمان تک ان کو بلند کیا اور پھر ان کو الٹ دیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے۔ ایک دفعہ شروع نبوت میں جو وحی کے رک جانے کا زمانہ تھا اور دوسری دفعہ معراج کی رات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ان دونوں دفعہ کا ذکر ان آیتوں میں ہے پہلی دفعہ کے دیکھنے اور دوسری دفعہ کے دیکھنے میں دس برس کے قریب کا آگا پیچھا ہے۔ اذا الشمس کورت معراج سے پہلے نازل ہوئی ہے اسی لئے اس میں فقط پہلی دفعہ کے دیکھنے کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اقراء کی اول آیتیں مالم یعلم تک نازل ہونے کے بعد تین برس کے قریب تک وحی بند رہی جس کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا رنج تھا۔ اس رنج کے زمانہ میں آپ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں آسمان کے مشرقی کنارے پر دیکھا۔ مشرقی کنارہ آسمان کا وہ ہے جہاں سے سورج نکلتا ہے۔ یہ کنارہ اس کنارے سے بلند ہے جہاں سورج غروب ہوتا ہے اس لئے اس کو اونچا کنارہ فرمایا۔ صحیح ١ ؎ مسلم میں جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے رک جانے کے تذکرہ میں فرمایا کہ اسی زمانہ میں پہلے جو فرشتہ میرے پاس مقام حرا میں آیا تھا اسی کو میں نے زمین اور آسمان کے مابین میں ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا جس سے میں ڈر کر زمین پر گر پڑا۔ ایک دفعہ دو تین دن کے لئے وحی اور بھی رک گئی ہے جس کے بعد سورة والضحیٰ نازل ہوئی ہے وہ وحی کا رکاؤ اس کے علاوہ ہے بعض راویوں کو ان دونوں رکاؤ میں دھوکا ہوگیا ہے۔ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا تو حضرت جبرئیل کے چھ سو پر تھے۔ فاستویٰ وھو بالافق الاعلیٰ کا مطلب وہی ہے جو جابر بن عبد اللہ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین و آبمان کے مابین میں آسمان کے مشرقی کنارہ پر جبرئیل (علیہ السلام) کو ایک کرسی پر سیدھا بیٹھے دیکھا۔ ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین ادادنی فاوحی الی عبدہ ما اوحی کا مطلب قتادہ وغیرہ مفسرین ٣ ؎ کے مشہور قول کے موافق یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) آدمی کی صورت میں اس آسمان کے مشرقی کنارہ سے اتر آئے اور زمین پر اتر کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے نزدیک آگئے کہ فقط دو گز یا اس سے بھی کم کا فرق رہ گیا اور پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق وحی پہنچائی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق جس کو ابن مردویہ ١ ؎ نے اپنی تفسیر میں معتبر سند سے روایت کیا ہے۔ یہاں قاب کے معنی مقدار کے ہیں اور قوس کے معنی گزر کے۔ بعض مفسروں نے آیت کی تفسیر یوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا نزدیک ہوا کہ فقط دو گز یا اس سے بھی کم کا فرق رہ گیا۔ یہ تفسیر ابن مالک کی اس حدیث کی بنا پر ہے۔ جو صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں شریک بن عبد اللہ کی روایت سے ہے لیکن زہری قتادہ وغیرہ ثقہ لوگوں نے انس بن مالک کی شریک بن عبد اللہ کی روایت کے برخلاف روایت کیا ہے اس لئے شریک بن عبد اللہ کی روایت کی صحت میں علماء کو کلام ہے ماکذب الفواد مارای کا مطلب حضرت ٣ ؎ عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظاہری آنکھوں سے دو دفعہ جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ایک قوت بصارت جو پیدا کی تھی اس دل کی بصارت سے آپ نے اللہ تعالیٰ کو دو دفعہ دیکھا اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ معراج سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا اس کا اور معراج کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کی تنبیہ فرمائی کہ بیت المقدس کی جن چیزوں کا حال تم لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول نے وہ سب حال تم سے صحیح صحیح بیان کردیا جس کو تم لوگ جھٹلا نہ سکے۔ پھر اللہ کے رسول اللہ کی قدرت سے عادت کے خلاف جس طرح ایک دم میں بیت المقدس پہنچ گئے اور بیت المقدس کی سب چیزوں کو دیکھا اسی طرح اس رات میں آسمان کے عجائبات بھی انہوں نے دیکھے۔ ان کی دیکھی ہوئی چیزوں کو اوپری باتوں کے جھگڑے نکال کر جو تم لوگ جھٹلاتے ہو یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بیت المقدس کی حالت نے تمہاری سب اوپری باتوں کی جڑ اوکھیڑ دی ہے اب تمہارا کیا منہ ہے کہ تم دیکھی ہوئی باتوں کے مقابلہ میں اوپری باتوں سے جھگڑا نکال سکو صحیح مسلم ٤ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا معراج کی اور باتوں کی تصدیق کے لئے اپنی دیکھی ہوئی بیت المقدس کی چند چیزوں کا حال جب قریش نے مجھ سے پوچھا تو مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ صرف معراج کی رات ایک ہی دفعہ میں نے بیت المقدس کو دیکھا ہے اور یہ لوگ بارہا ادھر کا سفر کرچکے ہیں ایسا نہ ہو کہ میری یاد میں اور ان کے دیکھنے میں اختلاف پڑجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس وقت بیت المقدس کو مرنی نظروں کے سامنے کردیا اور میں نے قریش کی سب باتوں کا جواب اس طرح دے دیا کہ وہ کسی بات کو جھٹلا نہ سکے۔ اس آیت میں قریش کے قائل کرنے کا مختصر جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ بیت المقدس کی حالت کی تصدیق کے بعد اہل مکہ کو معراج کی باتوں کے جھٹلانے کا موقع باقی نہ رہا تھا اس لئے معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں جو دیکھا تھا اس کا ذکر فرمایا تاکہ اہل مکہ جان لیں کہ جس طرح معراج کی رات کا جبرئیل (علیہ السلام) کا دیکھنا ہے ویسا ہی اس سے پہلے کا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کا یہ نام پرلی حد کی بیری اس لئے قرار پایا کہ اس بیری کی پرلی طرف کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ فرشتوں کی معلومات کی یہ بیری کا پیڑ گویا حد ہے اکثر روایتوں کے موافق یہ بیری کا پیڑ ساتویں آسمان پر ہے۔ بعضی روایتوں میں چھٹے آسمان پر جو اس کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے تو اس کو راوی کا سہو بتایا ہے۔ بعضوں نے دونوں روایتوں میں یوں مطابقت کی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور ٹہنیاں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ماویٰ رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جو جنت ہے وہ جبرئیل (علیہ السلام) کے رہنے کی جگہ ہے اور شہیدوں کی روحیں بھی اسی میں رہتی ہیں اس لئے اس جنت کا نام جنت الماوی ہے اس بیری کے پیڑ پر طرح طرح کے رنگ تھے ان کو تو آپ نے فرمایا مجھے معلوم نہیں وہ کیا رنگ اور کس چیز کے تھے۔ اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ ایک طرح کے سنہری جانور اور فرشتے تھے پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جن چیزوں نے اس بیری کے درخت کو ڈھانک رکھا ہے اور اس ڈھانکنے سے جو زینت اور خوبی اس بیری کے پیڑ میں پیدا ہوگئی ہے اس کا بیان کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے یہ سب باتیں اس بیری کے متعلق صحیح ١ ؎ حدیثوں میں ہیں اور وہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں آگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استقلال کا ذکر فرمایا ہے کہ اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمانوں پر جنت و دوزخ اور بہت سے عجائبات دیکھے مگر اصلی خیال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رسالت کے کام کی طرف متوجہ رہا۔ اس لئے ان عجائبات کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر زیادہ مائل نہیں ہوئی۔ چناچہ جو توجہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٤٥ نمازوں کے معاف کرانے میں حضرت موسیٰ کے مشورہ کے موافق مصروف کی وہ توجہ عجائبات کے دیکھنے میں نہیں کی اب جن مفسروں نے یہ لکھا ہے کہ معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا ‘ یہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت اس کے مخالف ہے وہ یہ فرماتے ہیں کہ اس سورة میں خود اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا ذکر ہے۔ امام نووی ١ ؎ اور امام حافظ ابن حزیمہ (رض) وغیرہ نے حضرت عائشہ (رض) کے قول پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے کوئی مرفوع حدیث اس باب میں اپنے قول کی تائید میں ذکر نہیں کی۔ اسی واسطے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے مقابلہ میں حضرت عائشہ (رض) کا قول مقبول نہیں ہوسکتا کیونکہ تفسیر کے باب میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کا زیادہ اعتبار ہے۔ حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں امام نووی کے اس اعتراض پر بڑا تعجب ظاہر کیا ہے اور حقیقت میں تعجب کی بات ہے کہ خود صحیح مسلم میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت کی مرفوع حدیث موجود ہے اور امام نووی نے اس حدیث کی شرح بھی کی ہے جس حدیث کا حاصل ٣ ؎ یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں امت کے سب لوگوں سے پہلے میں نے ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مسئلہ کو پوچھا اور آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل کو جو میں نے اصلی صورت میں دیکھا سورة نجم میں اسی کا ذکر ہے پھر باوجود اس کے امام نووی نے حضرت عائشہ (رض) کے قول پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت عائشہ سے کوئی مرفوع روایت اس باب میں نہیں ہے۔ یہی وجہ حافظ ابن حجر کے تعجب کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے قولوں کے اخلاف کو یوں رفع کردیا ہے کہ صحیح ٤ ؎ مسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے جو روایتیں ہیں۔ ان میں انہوں نے صاف بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ایک قوت بصارت پیدا کی تھی اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی معمولی آنکھوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ کے نہ دیکھنے میں حضرت عائشہ (رض) اور عبد اللہ بن عباس (رض) دونوں متفق ہیں۔ رہا خاص معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ‘ یہ اکثر سلف کی روایتوں سے نہیں پایا جاتا۔ حافظ ابن قیم نے زادا المعاد میں اس مسئلہ کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سورة میں جبرئیل (علیہ السلام) کی قربت اور رویت کا ذکر ہے لیکن معراج کی حدیثوں میں اللہ تعالیٰ کی قربت اور رویت کا ذکر ہے۔ معراج کی حدیثیں سورة بنی اسرائیل میں گزر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے معراج کا اور معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرح طرح کی نشانیاں جو دیکھیں اس کا ذکر فرمایا اور پھر قریش میں کے بت پرست لوگوں کی بتوں کی مذمت فرمائی اور فرمایا اللہ کے رسول جو نصیحت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور اللہ کے حکم کے موافق ہے۔ اللہ کے حکم میں کہیں بت پرستی کی اجازت نہیں ہے۔ شیطان کے بہکانے سے ان بت پرستوں نے یہ بت پرستی اپنی طرف سے تراش لی ہے۔ پھر آخر کو نتیجہ کے طور پر یہ فرمایا کہ ان لوگوں کی دانائی کا یہ حال ہے کہ اللہ کے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں اور جس خدا نے سب کچھ پیدا کیا اس خدا کی عبادت میں اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے بتوں کو شریک کرتے ہیں اور اگرچہ آسمانوں کا حال ان کو معلوم نہیں لیکن جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تفصیلی حال معراج اور آسمانوں کا بیان کیا تھا تو ان کو عقل دوڑانی چاہئے تھی کہ بغیر تائید غیبی کے اس طرح غیب کا حال کون بیان کرسکتا ہے لیکن بجائے اس عقل دوڑانے کے انہوں نے یہ کیا کہ ملک شام اور مسجدیت المقدس کی جو چیزیں ان لوگوں کی دیکھی ہوئی تھیں اور اللہ کے رسول نے معراج کے سفر میں سے ان چیزوں کا مفصل حال ان لوگوں سے بیان کردیا جب بھی ان لوگوں نے نافہمی سے معراج کو سچا نہ جانا اور طرح طرح کے وہم اور گمان کے شبہات اس میں نکالتے رہے آخر کو فرمایا کہ راہ پر آنے والوں کو اور گمراہ ہونے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے یہ لچھن ان لوگوں کی گمراہی کے ہیں۔ اے رسول اللہ کے تم کو ان لوگوں کی باتوں کا کچھ خیال نہ کرنا چاہئے۔ یوں تو مکہ میں کچھ اوپر تین سو بت تھے جن کی پوجا ہوتی تھی لیکن جن تین بتوں کا نام ان آیتوں میں ہے یہ زیادہ مشہور تھے اس لئے ان ہی کا ذکر فرمایا جس میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ کی قدرت کی تو سینکڑوں نشانیاں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمانوں پر معراج میں دیکھیں اور ہزاروں نشانیاں زمین پر سب کی آنکھوں پر سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ان بتوں نے کیا پیدا کیا جو یہ بت پرست لوگ ان بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اول تو مشرکین مکہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے لیکن قیامت کا قدیم ہونا فرضی طور پر مان کر یہ کہتے تھے کہ اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو جن بتوں کو ہم پوجتے ہیں یہ نیک لوگوں کی مورتیں ہیں وہ نیک لوگ ہماری شفاعت کرکے ہم کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان تو انسان اللہ کے فرشتے جو ہر وقت اللہ کی جناب میں حاضر رہتے ہیں ‘ وہ بھی مشرک کی شفاعت نہیں کرسکتے کیونکہ شفاعت کے لئے اللہ کی اجازت ضروری ہے۔ مشرک کی شفاعت کے لئے اللہ کی اجازت ممکن نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صاف فرما چکا ہے کہ جو مشرک بغیر توبہ کے مرجائے گا اس کی بخشش نہ ہوگی۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب بدا الوحی الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٩٠ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری الخ ص ٩٧ ج ١ و صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص ٧٣٠ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٤٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٢٣ ج ٦۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ وکلم اللہ موسیٰ تکلیما ص ١١٢٠ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٤٩ ج ٤ و صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخریٰ ص ٩٨ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب الاسرا برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ ص ٩٦ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب الاسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٩١ ج ١ و باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص ١٩٧ ج ١ و صحیح بخاری باب المعراج ص ٥٤٩ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی ص ٩٧ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص ٩٨ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص ٩٨ ج ١۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:1) والنجم : واؤ قسمیہ ہے۔ اذا۔ جب ، جس وقت، ناگہاں۔ ظرف زمان ہے زمانہ مستقبل پر بھی دلالت کرتا ہے کبھی زمانہ ماضی کے لئے بھی آتا ہے جیسے واذاراوا تجارۃ اولہوا ن انفضوا الیہا (62:11) اور جب ان لوگوں نے سودا بکتا یا سودا ہوتے دیکھا تو جھٹک کر ادھر ادھر چل دئیے۔ اور اگر اذا قسم کے بعد واقع ہو تو ... پھر زمانہ حال کے لئے آتا ہے جیسا کہ آیت زیر غور میں ہے۔ والنجم اذا ھوی (53:1) اور قسم ہے تارے کی جب وہ گرنے لگے۔ جب وہ غائب ہوجائے۔ ھویٰ ماضی واحد مذکر غائب ھ و ی مادہ سے مصدر۔ ھوی ھ کی فتح سے باب ضرب سے بمعنی (ستارہ کا طلوع ہونا۔ اور مصدر ھوی ( ھ کے ضمیر سے) باب ضرب سے بمعنی (ستارہ کا) غروب ہونا۔ مستعمل ہے ۔ چونکہ ہر دو مصادر میں ھوی یھوی (ماضی اور مضارع) کی ایک ہی صورت ہے لہٰذا ھوی بمعنی (ستارہ کا) طولع ہونا یا غروب ہونا ہر دو طرح جائز ہے اور دونوں معانی بھی ایک ہی صیغہ میں لئے جاسکتے ہیں یعنی (ستارہ کا) طلوع و غروب ہونا۔ الھوی (باب سمع) کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفسانی خواہش میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہہ دیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف و منزلت کے مقام سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہے۔ والنجم اذا ھوی : قسم ہے تارے کی جب وہ طلوع ہو یا غروب ہوجائے، النجم مقسم بہٖ ہے۔ النجم کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) جمہور کا قول ہے کہ اس سے مراد ستارہ ہے پھر اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ 1 بعض کے نزدیک یہ کہ کوئی خاص ستارہ نہیں بلکہ جنس مراد ہے یعنی ہر ایک ستارہ۔ 2 بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا ستارہ ہے کلام عرب میں النجم بول کر یہی مراد لیتے ہیں۔ 3 بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد شعریٰ ستارہ ہے قرآن مجید میں ہے وانہ ھو رب الشعری (54:49) اور یہ کہ وہی شعریٰ کا مالک ہے۔ 4 بعض کہتے ہیں کہ اس سے زہرہ مراد ہے۔ بہرکیف ایک ستارہ خاص ہو یا عام مگر ستارہ مراد لینا ایک قول ہے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد زمین پر پھیلنے والی بیلیں ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے والنجم والشجر یسجدان (55:6) اور بیلیں اور درخت (ہر دو ) سجدہ کر رہے ہیں ۔ (3) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کو ظلمات عالم میں روشنی دینے کے سبب بطور استعارہ کے ستارہ کہنا بہت ہی ٹھیک ہے۔ (4) چوتھا قول یہ ہے کہ : النجم سے مراد قرآن شریف ہے تنجیم کے معنی ہیں تفریق اور قرآن مجید ٹکڑے ٹکڑے یعنی تھوڑا تھوڑا ہوکر نازل ہوا ہے۔ اب نجم کے کوئی معنی ہی لے لو مگر اذا ھوی (جب کہ وہ جھکے) سے اسی کے مناسب معنی مراد لئے جائیں گے۔ ستاروں کا جھکنا طلوع و غروب جو خدا کی شان جبروت بتاتا ہے۔ زمین کی وہ بوٹیاں جن کو درخت نہیں کہتے ان کا جھکنا وہی جھکنا ہے جو ہوا سے سربسجود ہوکر اس کی شان یکتائی بتایا کرتی ہیں۔ قرآن کا جھکنا اس کا اوپر سے نازل ہونا ہے۔ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ وسلم کا جھکنا رکوع و سجود کرنا ہے جو خدا کے نزدیک ایک عمدہ حالت ہے اور آپ کا جھکنا ذات باری تعالیٰ کی طرف منازل قربت طے کرنا ہے۔ (5) پانچواں قول یہ ہے کہ بعض عرفاء (صوفیہ) کے نزدیک النجم کے معنی بندہ کا دل ہے جو ظلمات ہیولانیہ میں خدا تعالیٰ کا چمکتا ستارہ ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس میں اور بھی روشنی آجاتی ہے جس سے وہ حق اور باطل میں تمیز کرنے پر بخوبی قادر ہوجاتا ہے۔ (تفسیر حقانی)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی غروب ہونے کیلئے جھکے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے قرآن مراد ہے کیونکہ وہ بھی منجماً (تھوڑا تھوڑا کر کے) نازل ہوا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١ تا ٢٥۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب ہونے لگے یعنی ستاروں کا اپنے اپنے مقررہ راستوں پر وقت غروب تک ایسے چلنا کہ لوگ ان سے راستہ پاتے ہیں اس بات پر گواہ ہے کہ جس رب کے ستارے تک نہیں بھٹکتے بھلا ا اس کا رسول کیسے بھٹک سکتا ہے اور یہ تو تمہارے درمیان بسنے والی ہستی ہے وہ ہستی جس کا سا... راوقت تمہارے ساتھ بسراہو اور جس کی صداقت وامانت کے تم خود گواہ ہو۔ صاحبکم۔ اور دوسری نعمت صاحبکم میں یہ رکھی ہے کہ آپ کا دامن شفقت تو سب کے لیے پھیلا ہوا ہے آپ کی برکات سے وہی بےنصیب محروم ہے جو خود کو الگ کرلے کہ یہ ہستی ہمیشہ صراط مستقیم کی ضامن ہے۔ آپ نہ کبھی راہ حق سے بھولے کہ غلطی سے بھٹک جائیں اور نہ کبھی بھٹکنے کے غلط راستے کو صحیح جان لیں بلکہ یہ تو وہ ہستی ہے جو اپنی خواہش سے کلام تک نہیں فرماتی صرف وہ فرماتی ہے جو اللہ کی طرف سے وحی کیا جائے۔ اقسام وحی۔ وحی کی تین اقسام ہیں قرآن کریم۔ حدیث پاک۔ اور سنت اور کبھی کوئی قاعدہ بتادیاجاتا ہے جس میں نبی (علیہ السلام) اجتہاد فرما کر فیصلہ فرماتے پہلی دو صورتیں توقطعی ہوگئیں رہا اجتہاد تو اس میں نبی کو غلطی لگنے کا احتمال ہوتا ہے مگر فورا بذریعہ وحی اصلاح کردی جاتی ہے لہذا اس کا شبہ بھی رہا ہاں مجتہد کو غلطی کا امکان ہے مگر اس پر بھی اسے اجر ملنے کا وعدہ ہے کہ دینی کام میں محنت کرکے خلوص کی ساتھ ایک فیصلہ تک پہنچا اور وحی لانے والے میں بھی کسی کوتاہی یا کسی شیطانی مداخلت کا امکان نہیں کہ آپ تک وحی لانے والا فرشتہ بہت قوت کا مالک اور ایسا طاقتور ہے کہ نہ تو اللہ کی وحی میں بھولتا ہے نہ کوئی اسے بھلاسکتا ہے اور نہ شیطان اس کے قریب پھٹک سکتا ہے نیز آپ کا اس سے رابطہ بھی کوئی محض خیالی نہیں بلکہ آپ نے اسے اس کی اصلی صورت پر بھی دیکھا جب وہ افق اعلی پر بیٹھا ہوا تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) کودیکھنا۔ اس کا ذکر حدیث شریف میں ہے آپ مکہ میں کہی تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا جبرائیل امین کرسی پر بیٹھے ہیں اور آسمان تک فضا کو ان کے وجود نے بھردیا ہے یہ ان کی اصلی صورت تھی ورنہ توہروحی کے وقت وہ شرف ملاقات پاتے تھے پھر اور قریب ہوئے اپنی جگہ سے نیچے آئے اور دوکمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم پر آگئے کہ روایات میں ملتا ہے کہ پھر جبرائیل امین انسانی شکل میں آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں اقرار کیا جیسے عرب دوستی کا اقرار کرنے کے لیے اپنی کمانیں آگے کردیتے کہ ان کی تانت مل جاتے وہ محاورہ استعمال ہوا اور یوں رب جلیل نے اس مضبوط اور طاقتور فرشتے کے ذریعے جسے نبی (علیہ السلام) کی خدمت عالی میں بھی ایک مقام قرب حاصل تھا اپنی وحی جو پہنچانا چاہتا تھا اپنے رسول تک پہنچائی ۔ یہ دیکھنا سر کی آنکھوں سے تھا۔ اور پھر آپ نے دیکھا آپ کے قلب اطہر نے بھی اس کی تصدیق کی یعنی آپ نے آنکھوں سے دیکھا اور دل نے بھی تصدیق فرمائی تو تم لوگ اس بات پر آپ سے جھگڑتے ہو جس کو آپ نے اتنے مضبوط طریقے سے مشاہدہ فرمایا ہے اور آپ نے دوسری بار جبرائیل امین کو ان کی اصلی صورت پر شب معراج دیکھا سدرۃ المنتہی کے پاس اترتے ہوئے۔ سدرۃ المنتہی۔ حدیث شریف کے مطابق یہ بیری کا درخت ہے جس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں اور اس پر ملائکہ کے دفاتر ہیں کہ عالم بالا سے نازل ہونے والے احکام یہاں پہنچ کر متعلقہ فرشتوں کو تقسیم ہوتے ہیں اور زمین سے جانے والے اعمال یہاں پہنچ کر عالم بالا کو جاتے ہیں جس کے پاس جنت ہے جو اللہ کے بندوں کا گھر ہے ۔ جنت و دوزخ۔ جنت و دوزخ فی الوقت موجود ہیں اور مفسرین کرام کے مطابق ساتواں آسمان فرش اور عرش عظیم جنت کی چھت ہے اور آثار میں ہے کہ دوزخ زمین کے اندر موجود ہے جس کو ایک سخت غلاف نے ڈھانپ رکھا ہے روز حشر پھٹے گا توسمندوں کوکھولاکربھانپ بنادے گا (واللہ اعلم بحقیقۃ ھالہ) جب سدرہ کو بیشمار ملائکہ نے ڈھانپ رکھا تھا حدیث شریف کے مطابق جو سب آپ کے استقبال کو حاضر ہوئے تھے اور پھر اس سے آگے جہاں تک اللہ نے چاہا لے گیا اور جو چاہا دکھایا ۔ دیدار باری تعالی۔ اور جو کچھ بھی دیکھا حضور اکرم نے صحیح صحیح دیکھا نہ آپ کی نگاہ بھٹکی کہ کسی اور طرف دیکھنے لگے اور نہ یہ ہوا کہ حد سے بڑھ جائے اس میں دو آراء ہیں یہ کہ سب جبرائیل امین کی زیارت کی بات ہورہی ہے یا دیدار الٰہی کی فقیر کی دانست میں جو بات رازمذش قرآن حکیم سے بےغبار سمجھ میں آتی ہے وہ سدرۃ المنتہی تک بات جبرائیل امین کی ہے اور سدرہ کے بعد واقع معراج شریف اور دیدار باری تعالیٰ کا واقعہ ارشاد ہوا ہے یوں تو ذات باری ہر آن ہرجاموجود ہے انسان کی نظر دیکھنے سے عاری ہے اور جمہور کا اتفاق ہے کہ آخرت میں نگاہ قوی ہوکردیکھنے کے لائق ہوگی اور اہل جنت کو زیارت باری نصیب ہوگی جبکہ یہاں جنت سدرۃ المنتہی کے پاس رہ گئی اور آپ کن بلندیوں اور قرب کی کن منزلوں میں تشریف لے گئے یہاں زیارت باری میں کوئی مانع نہیں اور نگاہ مصطفیٰ پھر نگاہ مصطفیٰ ہے آپ کی شان کہ آپ وجود یاجود کے ساتھ تشریف لے گئے اور بچشم سردیدار فرمایا ورنہ نگاہ قلب سے تجلیات باری تعالیٰ تو صدیوں بعد بھی آپ کے غلاموں اور اہل اللہ کو بھی نصیب ہوتی ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی محدود نہیں ہر کوئی اپنی شان کے مطابق دیکھے گا لہذا آپ نے اپنی شان کے لائق دیکھا اور پھر اپنے رب عظیم کی بیشمار نشانیاں ملاحظہ فرمائیں۔ برزخ اس کے حالات عذاب وثواب اور جنت دوزخ سب حقیقتیں ذاتی طور پر تشریف لے جاکردیکھیں سبحان اللہ وبحمدہ۔ تفاسیر میں بہت وضاحت سے سب واقعات درج ہیں یہاں مختصرا لکھا گیا ہے اے کفار تم نے بھی لات وعزی اور تیسرے بڑے بت مناۃ کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے کبھی ان کے بارے میں تحقیق وتصدیق کا تکلف کیا ہے اگر کرتے تو ان کی حقیقت جان کر انہیں چھوڑ دیتے۔ بھلایہ تمہارا دین ہے کہ تمہارے لیے بیٹے ہوں اور اللہ کو بیٹیاں ملیں یہ تو عقلا بھی تقسیم ہی بہت نامناسب ہے جبکہ اس کی کوئی بنیاد نہیں اللہ ان باتوں سے پاک ہے اور یہ صرف تم نے کہانیاں گھڑ رکھی ہیں اور کچھ نام ہیں جو تم لوگوں نے رکھ لیے ہیں اور تمہارے باپ دادا بھی اسی گمراہی میں تباہ ہوئے اللہ نے ان باتوں پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی تم لوگ محض اپنے لیے بےبنیاد گمان اور وہم کی پیروی کرتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی غلامی کے علاوہ تمہارے پاس کچھ نہیں حالانکہ اللہ ایسا کریم ہے کہ اس نے تمہارے پاس بھی ہدایت کا سامان اپنا نبی اور اپنی کتاب بھیجی ہے اور ایسے لوگوں کو بھی محروم نہیں رکھا اور اگر آدمی خواہشات کے ہی پیچھے لگے تو دین سے محروم تو ہوگا کہ نظام قدرت میں تو وہ ہوتا ہے جو اللہ چاہے بھلا انسان کی ہر خواہش تو پوری ہونے سے رہی کہ نظام اس کی خواہشات کے تابع نہیں اور دنیا ہو یا آخرت سب کچھ اللہ ہی کے تابع اور اس کے حکم کا پابند ہے لہذا انسان بھی تب ہی ہدایت پاسکتا ہے جب اپنی خواہشات کی بجائے اس کے احکام کو اختیار کرے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 18 ھوی نیچے اترا، غائب ہوا۔ عوی راہ بھٹک گیا۔ ماینطق وہ نہیں بولتا۔ شدید القوی بڑی طاقتوں والا۔ ذومرۃ زور دار۔ الافق الاعلی بلند کنارا۔ دنا قریب ہوا۔ تدلی وہ آگے بڑھا، لٹک گیا۔ قاب مقدار۔ قوسین دو کمانیں۔ تمرون تم جھگڑتے ہو۔ نزلۃ اترنا۔ سدرۃ بیری کا درخت۔ یغشی وہ ڈھانپ لیتا...  ہے۔ مازاغ نہیں لڑا۔ ماطغی حد سے نہ بڑھا۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 18 ستارے غائب ہوجانے کے بعد جب سورج نکلتا ہے تو ہر طرف اس کی کرنوں سے دنیا جگمگا اٹھتی ہے۔ درختوں پر ایک پھبن اور ہر چیز پر رونق آجاتی ہے۔ اندھیرے سمٹ جاتے ہیں اور سورج کی روشنی کے سامنے ہر روشنی ماند پڑجاتی ہے۔ اسی طرح کفر اور ظلم کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ کے پیغمبر آتے رہے اور توحید و رسالت کی تعلیمات اور اللہ کے دین کی روشنی سے دنیا کو منور کرتے رہے لیکن جب اللہ نے اپنے آخری نبی اور آخری محبوب رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تو اس روشنی کی تکمیل ہوگئی اور ساری دنیا کے روحانی اندھیرے دور ہوگئے اور اب یہ شمع رسالت قیامت تک اسی طرح اپنی روشنی بکھیرتی رہے گی۔ فرمایا کہ ستارے کی قسم جس طرح یہ ستارے چاند اور سورج اپنی جگہ پر قا اعدے طریقے سے چلتے ہیں اور ان کی رفتار میں نکلنے اور ڈوبنے میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا اور وہ اپنی مستعدی سے اپنی جگہ جم کر چلتے ہیں اسی طرح ہمارے رسول بھی پوری مستعدی اور شان سے اللہ کے احکامات کو پوری دیانت داری سے ساری دنیا تک پہنچا رہے ہیں انہوں نے شب معراج اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور سنا وہ سورج کی روشنی کی طرف صاف اور واضح تھا جس کے دیکھنے میں نہ تو وہ بھٹکے اور نہ انہوں نے کوئی غلطی کی۔ ۔ فرمایا کہ ہمارے مبحوب نبی پر جو فرشتہ وحی لے کر اترتا ہے (جبرئیل امین) وہ بڑی قوت و طاقت والا، مضبوط و توانا، زور آور، جسمانی اور روحانی طاقتوں کا مالک ہے جس کے چھ سو بازو ہیں۔ اگر وہ اپنی اصلی آواز نکالیں تو لوگوں کے کلیجے پھٹ جائیں۔ ان کی طاقت وق وت کا یہ حال ہے کہ جب انہوں نے اللہ کے حکم سے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان تک بلند کیا اور پھر اس قوم کو زمین پر پٹک دیا تو وہ قوم اور اس کی بستیاں اس طرح برباد ہوگئیں کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر آگیا اور پھر سمندر کا پانی ان پر چڑھ دوڑا اور ان کی بستیوں کو سمندر میں غرق کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کے لئے فرمایا ہے کہ وہ کریم ہیں عزت و قوت والے ہیں جن کا اللہ کے ہاں ایک اعلیٰ مقام ہے۔ سب فرشتوں کے مقابلے میں ان کو اللہ کی بارگاہ میں زیادہ قرب اور پہنچ ہے۔ وہ مطاع ہیں یعنی آسمان کے فرشتے بھی ان کی بات ماننے پر مجبور ہیں اور ان کا حکم تسلیم کرتے ہیں جن کے امین اور معتبر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اللہ کے اس طاقت ور فرشتے کے سامنے شیطان کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے لہٰذا یہ اللہ کا کلام کسی شیطان کے ذریعہ نہیں پہنچا کہ آپ کو کاہن کہا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتھی کے پاس ۔ ابتدائے وحی کے قویب ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا کہ وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت آسمان ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ان کے وجود سے بھرا ہوا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےہوش ہو کر گر پڑے۔ اس وقت حضرت جبرئیل آپ کے پاس عام انسانی شکل میں آئے تاکہ آپ کو تسلی دے سکیں چناچہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اٹھایا، تسلی دی اور اتنے قریب ہوگئے کہ حضرت جبرئیل اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ رہا۔ پھر انہوں نے اللہ کے حکم سے جو اس نے چاہا آپ پر وحی نازل کی۔ دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرۃ المنتھی کے پاس آپ نے حضرت جبرئیل کو دیکھا کہ وہ رفرف کے لباس میں ہیں اور زمین و آسمان کی فضا کو ان کے وجود نے بھر رکھا تھا۔ ان کے وجود کا پھیلائو چھٹے آسمان سے ساتویں آسمان تک تھا۔ پھر وہ عام شکل میں قریب آئے اور اتنے قریب ہوئے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شب معراج میں اللہ کی نشانیاں دکھائی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ نے اس رات کو جو کچھ دیکھا نہ آپ کی آنکھ نے دھوکا کھایا اور نہ آپ کی آنکھ بھٹکی اس طرح اللہ نے اپنی بہت سی نشانیاں دکھا کر ختم نبوت کا تاج آپ کے سر پر رکھ دیا۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتوں کی وضاحت پیش خدمت ہے۔ (1) اس جگہ اللہ نے ” النجم “ (ستارہ) کی قسم کھا کر نبی کریم کی شان رسالت کو بیان کیا ہے۔ یہ کون سا ستارہ ہے اس سلسلہ میں مفسرین کرام نے مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ٭… اس سے صرف ایک ستارہ نہیں بلکہ ستاروں کی جنس مراد ہے یعنی ستاروں کا جھرمٹ، کہکشاں ٭… اس سے شہاب ثاقب مراد ہیں جن کے ذریعہ ان شیاطین کو مار کر بھگایا جاتا ہے جو آسمانوں پر مستقبل کی باتیں سننے کی کو ششک رتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت سے پہلے یہ شیاطین آسمانوں پر جا کر فرشتوں کی گفتگو سن لیتے اور پھر آ کر کاہنوں کو بتا دیتے تھے وہ کاہن جنات و شیاطین کی باتوں کو سن کر اور کچھ خود سے گھڑ کر لوگوں کے سامنے مستقبل کی پیشین گوئیاں کردیتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد اللہ نے جنات و شیاطین پر پابندی لگا دی اور اگر کوئی جن یا شیطان آسمان کی طرف بلند ہو کر سننے کی کوشش کرتا تو اس کے پیچھے شہاب ثاقب یعنی آسمانی انگارے برسائے جاتے تھے۔ ٭… بعض مفسرین نے ” النجم “ سے مراد قرآن کریم کی آیتوں اور سورتوں کو لیا ہے۔ ٭… بہرحال ” النجم “ سے ستارے مراد ہوں یا شہاب ثاقب اللہ نے ساتروں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جب یہ ستارے ڈوب جاتے ہیں تب ہی صبح ہوتی ہے اور اس سے رات کے اندھیرے سمٹ جاتے ہیں اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد اور قرآن کریم کی آیتوں کے نازل ہونے کے بعد اگر کہیں روشنی ہے تو وہ صرف خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے لائے ہوئے دین ہی کی ہے۔ (2) اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم “ فرمایا یعنی تمہارے رفیق تمہارے ساتھی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اس دین اسلام کو لے کر آئے ہیں وہ کہیں اور سے نہیں آئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمری کے ایک ایک لمحے سے مکہ کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جن کو صادق و امین اور معتبر سمجھا جاتا تھا۔ آج اعلان نبوت کے بعد ان جیسی عظیم ہستی کے متعلق طرح طرح کی نامناسب باتیں کرنا ان کو زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے معراج میں جو کچھ دیکھا وہ اللہ کی نشانیاں تھیں۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھا اس میں نہ وہ گمراہ ہیں اور نہ راستے سے بھٹکے ہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور جو کچھ عطا کیا گیا وہ برحق تھا۔ آپ کی شان یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی کہتے ہیں جب تک اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتی آپ بیان نہیں فرماتے۔ (3) سورة النجم وہ سب سے پہلی سورت ہے جس کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا۔ آپ نے اس کی تلاوت فرمائی۔ اس مجمع میں میں اہل ایمان کے علاوہ کفار و مشرکین بھی تھے جب آیت سجدہ آئی تو آپ نے اور تمام مسلمانوں نے سجدہ آئی تو آپ نے اور تمام مسلمانوں نے سجدہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تمام کفار و مشرکین نے بھی اللہ کے سامنے سجدہ کیا۔ (4) عربوں میں باہمی دوستی کے دو طریقفے تھے ایک تو یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دوستی کرتے تھے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ وہ دونوں شخص اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی تو اپنی طرف کرلیتے اور کمان کی ڈور دوسرے کی طرف۔ اس طرح جب دونوں کمانوں کی ڈور مل جاتیں تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ دو دشمنوں میں محبت اور قربت ہوگئی ۔ اس قرب کے وقت ان دونوں میں دونوں ” قوسوں “ کے ماپ کا فاصلہ رہتا تھا یعنی تقریباً دو ہاتھ (ایک گز) اس کے بعد ” ادنی “ کہہ کر بتا دیا کہ یہ اس سے بھی زیادہ قریب اور ملا ہوا تھا۔ (5) ساتویں آسمان پر عرش کے نیچے ایک درخت ہے جس کو ” سدرہ المنتھی ‘ کہتے ہیں۔ عربی میں ” سدرہ “ بیری کے درخت کو کہتے ہیں جس کی کیفیت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو بھی احکامات یا رزق نازل ہوتے ہیں ان کا فیصلہ سدرہ تک پہنچتا ہے وہاں سے جن ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے وہ اس کو لے کر زمین کی طرف لاتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں جتنے انساین اعمال ہیں وہ سدرہ تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اسی سدرہ کے پاس وہ جنت بھی ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے رہنے کی باعزت جگہ ہے اس کو ” جنت الماوی “ فرمایا گیا ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب معراج تشریف لائے تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہم بھی اس رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ نے ان کو اجازت دے دی اور وہ تمام فرشتے سدرہ کے درخت اور اس کے ہر پتے پر اس طرح آپ کا انتظار کرنے لگے کہ ان کی جگمگاہٹ سے ایسا لگتا تھا جیسے سونے کے پروانے ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت جبرئیل جیسے مقرب فرشتے نے بھی اگٓے جانے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اس سے آگے ایک قدم بھی جاؤں گا تو اللہ کی تجلی سے میرے پر جل جائیں گے۔ اس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی بہت سی نشانیاں دیکھیں جن کے دیکھنے میں نہ تو آپ کی آنکھ نے دھوکا کھایا اور نہ وہ حد سے آگے بڑھی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة الطور کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ جب ستارے غروب ہونے کے وقت ہو تو اپنے رب کو یاد کیا کرو۔ اس مناسبت سے سورة النجم کا آغاز ستارے کی قسم سے ہورہا ہے۔ عربی زبان میں حرف واؤ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اسے قسم کے معنٰی میں استعمال کیا گیا ہے۔ رب ذوالجلال کا ارشاد ہے ... کہ مجھے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم۔ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی بھٹکا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اہل مکہ یہ پراپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ آپ صحیح راستے سے بہک گئے ہیں، کچھ لوگ کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گمراہ ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ اہل لغت راستہ بھول جانے والے مسافر کے لیے ضلّ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جو شخص اپنے نفس کی پیروی میں یعنی جان بوجھ کر صحیح راستے سے ہٹ جائے اس کے لیے ” غَوٰی “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ رب ذوالجلال نے ان الزمات کی تردید کرنے سے پہلے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہے۔ صاحب سے مراد نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ” کُمْ “ کی ضمیر کے مخاطب اہل مکہ ہیں۔ عربی زبان میں عام طور پر صاحب کا لفظ پرانے ساتھی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صاحب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رشتے، ناطے اور رہن سہن کے حوالے سے تمہارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزارا ہے تم اس کے حسب ونسب، بچپن، جوانی اور اس کی جلوت اور خلوت سے پوری طرح واقف ہو۔ اعلان نبوت سے پہلے اور اب تک اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی اور نہ ہوگی کہ جس بنا پر انہیں بہکا ہوا یا بھٹکا ہوا کہا جائے۔ ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ان لوگوں کی بھی نفی کی گئی ہے جو سمجھتے تھے کہ انسان کی قسمت میں ستاروں کا عمل دخل بھی ہوا کرتا ہے۔ ستارے کے ڈوبنے کا ذکر فرما کر واضح کیا ہے کہ جو ڈوب جائے وہ کسی کی بگڑی نہیں بنا سکتا ہے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمائی تھی کہ ڈوبنے والے معبود یعنی مشکل کشا نہیں ہوتے۔ (الانعام : ٧٦ تا ٨٠) مسائل ١۔ اللہ کے رسول کو مشرکین بہکا ہوا کہتے تھے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم اٹھا کر فرمائی ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس پیراگراف میں ہم نہایت ہی بلند روشن اور پھڑپھڑانے والے افق پر ہیں جہاں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک نے چند خوبصورت اور نورانی لمحات عالم بالا کے ساتھ گزارے۔ ایک نہایت ہی نرم ، دھیمی موجوں پر مشتمل اور ترکیب پانے والے ترنم ہیں۔ ہم ان پر کیف لمحات کے رنگ ڈھنگ اور اشارات سنتے ہیں۔...  الفاظ ان کی موسیقیت اور ماحول سب ہی پر کیف ہیں۔ یہ واردات قلب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ وہ لمحات ہیں جن میں آپ کی نظروں کے سامنے سے تمام حجابات ہٹا دیئے گئے ہیں اور آپ عالم بالا سے ہدایات اور وحی لے رہے ہیں ، دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ آپ کا قلب حفظ کررہا ہے۔ یہ لمحات کیسے تھے اس کا صحیح احساس تو صیقل شدہ قلب محمد ہی کو ہوگا لیکن اللہ کا کرم کہ اس نے ہم بندوں کے لئے اس واردات کو الفاظ میں بیان کردیا۔ نہایت ہی موثر انداز میں ایسی موسیقی کے ساتھ جو پانی کی طرح بہتی ہے جس میں تلمیحات کے رنگ ڈھنگ اور ماحول اور اشارات کو ہماری طرف منتقل کیا گیا ہے۔ یہ اس صیقل شدہ دل کا سفر تھا اور عالم بالا کی وسعتوں میں تھا۔ ایک ایک قدم کی تصویر ہماری نظروں میں آرہی ہے۔ ایک ایک منظر ، ایک ایک قدم اور اس انداز میں کہ گویا ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔ آغاز ایک قسم سے ہوتا ہے۔ والنجم اذا ھوی (٣٥ : ٧) ” قسم ہے تارے کی جب غروب ہو “ ستارہ غروب ہوتا ہے زمین کے قریب ہو کر اس کی قسم ہے اور جس بات پر قسم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل یوں تھے۔ وھو بالافق ........ ما اوحی (٣٥ : ٠١) ” جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ فاصلے پر رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اس نے پہنچائی “ تو ستارے کی حرکت اور حضرت جبرائیل کی حرکت کے درمیان نہایت ہم آہنگی اور یکرنگی ہے۔ یوں اس منظر میں ماحول ، حرکت اور موزونیت ابتدا ہی سے چلتی ہیں۔ والنجم اذاھوی (٣٥ : ١) ” قسم ہے ستارے کی جب غروب ہوا “ کی تفسیر میں مختلف تفسیریں نقل کی گئی ہیں۔ زیادہ فریب الفہم یہ تفسیر ہے کہ اس سے شعریٰ ستارہ مراد ہے کیونکہ بعض عرب اسے پوجتے تھے اور بعد میں اس سورة میں اس کا ذکر بھی آیا ہے۔ وانہ ھو ........ الشعری (٣٥ : ٩٤) ” اور وہی شعری کا رب ہے “ پرانے لوگ شعری ستارے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یہ مشہور ہے کہ پرانے مصری یہ کہتے تھے کہ جب شعری اعلی افلاک کو عبور کرے تو نیل میں پانی کا طوفان آجاتا تھا۔ اس لئے وہ شعری کو دیکھتے رہتے تھے اور اس کی حرکت کو نوٹ کرتے تھے۔ ایرانیوں اور عربوں دونوں کی روایات میں اس کے بیشمار افسانے مشہور ہیں۔ لہٰذا یہاں ستارے سے مراد یہی شعری ہے اور یہاں قسم اور مقسم علیہ کے درمیان ہم رنگی بھی مقصود ہے جو اس ستارے کے غروب سے ظاہر ہے۔ پھر یہاں یہ اشارہ بھی دینا مقصود ہے کہ ستارہ اگر بہت بڑا ہی کیوں نہ ہو ، وہ غروب اور غائب ہونے والا ہے۔ معبود تو وہ ہونا چاہئے جسے زوال و غروب نہ ہو۔ یہ تو تھی قسم جس بات پر قسم اٹھالی گئی ہے وہ یہ ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیح راہ پر ہیں، اپنی خواہش سے کچھ نہیں فرماتے، وحی کے مطابق اللہ کا کلام پیش کرتے ہیں، آپ نے جبرائیل کو دو بار ان کی اصلی صورت میں دیکھا یہاں سے سورة النجم شروع ہے اس کے پہلے رکوع کے اکثر حصہ میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور وحی کی...  حفاظت اور وحی لانے والے فرشتے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی قوت اور ان کی رؤیت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ﴿ وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ٠٠١﴾ (قسم ہے ستارہ کی جب غروب ہونے لگے) ۔ ﴿ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ٠٠٢﴾ (تمہارا ساتھی نہ راہ سے بھٹکا ہے اور نہ غلط راستہ پر پڑا ہے) ۔ ﴿وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ٠٠٣﴾ (اور وہ اپنی نفسانی خواہش سے بات نہیں کرتا) ۔ ﴿اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۙ٠٠٤﴾ (وہ نہیں ہے مگر جو وحی کی جاتی ہے) ۔ آیت شریفہ میں جو لفظ النجم وارد ہوا ہے بظاہر یہ صیغہ مفرد کا ہے لیکن چونکہ اسم جمع ہے اس لیے تمام ستارے مراد ہیں اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے ثریا مراد ہے جو سات ستاروں کا مجموعہ ہے، ستارے چونکہ روشنی دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ لوگ ہدایت پاتے ہیں اس لیے ان کی قسم کھا کر نبوت اور رسالت اور وحی کو ثابت فرمایا ہے کیونکہ یہ چیزیں قلوب کے منور ہونے کا ذریعہ ہیں، رسوال اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کبھی بھی مشرک نہ تھے نبوت سے پہلے بھی موحد تھے اور نبوت کے بعد بھی آپ کا موحد ہونا توحید کی دعوت دینا قریش کو ناگوار تھا اور وہ یوں کہتے تھے کہ انہوں نے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے صحیح راہ سے بھٹک گئے ہیں اور آپ کو کاہن یا ساحر یا شاعر کہتے تھے، ستارہ کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تمہارے ساتھی یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ بتاتے ہیں اور جو دعوت دیتے ہیں وہ سب حق ہے ان کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ راہ سے بھٹک گئے اور غیر راہ پر پڑگئے ان کا دعوائے نبوت اور توحید کی دعوت اور وہ تمام امور جن کی دعوت دیتے ہیں یہ سب حق ہیں سراپا ہدایت ہیں ان میں کہیں سے کہیں تک بھی راہ حق سے ہٹنے کانہ کوئی احتمال ہے اور نہ یہ بات ہے کہ انہوں نے یہ باتیں اپنی خواہش نفسانی کی بنیاد پر کہی ہوں، ان کا یہ سب باتیں بتانا صرف وحی سے ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ان پر وحی کی گئی ہے اسی کے مطابق سب باتیں بتا رہے ہیں ان کا فرمانا سب سچ ہے جو انہیں اللہ کی طرف سے بطریقہ وحی بتایا گیا ہے اور چونکہ ستاروں کے غروب ہونے سے صحیح سمت معلوم ہوجاتی ہے اس لیے وَ النَّجْمِ کے ساتھ اِذَا هَوٰى بھی فرمایا، یعنی جس طرح ستارہ ہدایت بھی دیتا ہے اور صحیح سمت بھی بتاتا ہے اسی طرح تمہارے ساتھی یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا اور سمجھایا حق ہے اور راہ حق کے مطابق ہے۔ ان کا اتباع کرو گے تو صحیح سمت پر چلتے رہو گے یہ شخص تمہارا ساتھی ہے بچپن سے اس کو جانتے ہو اور اس کے اعمال صادقہ اور احوال شریفہ سے واقف ہو ہمیشہ اس نے سچ بولا ہے جانتے پہچانتے ہوئے اس کی تکذیب کیوں کرتے ہو (جس نے مخلوق سے کبھی جھوٹی باتیں نہیں کیں وہ خالق تعالیٰ شانہٗ پر کیسے تہمت رکھے گا) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” والنجم۔ تا۔ الکبری “ یہ تمہید ہے برائے اثبات و صداقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ” ما ضل “ جواب قسم ہے۔ ” ضلال “ یعنی راستہ نہ ملنا اور ” غوایۃ “ راستہ ملنے کے بعد بھٹک جانا۔ الضلال ضد الھدایۃ والھی ضد الرشد یعنی ھو مھتد راشد (مظہری ج 9 ص 104) ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ نیچے گرتا ہے یعن... ی غروب ہوتا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلط راہ پر نہیں ہیں، بلکہ راہ راست پر قائم ہیں۔ یعنی ستارے کا نیچے آنا شاہد ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آسمان سے فرشتہ اترتا اور وحی لاتا ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ مجھ پر وحی آتی ہے غلط نہیں اور نہ بعید از قیاس ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہونے لگے۔