Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 1
سورة النجم
وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ۙ﴿۱﴾
By the star when it descends,
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے ۔
وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ۙ﴿۱﴾
By the star when it descends,
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے ۔
Allah swears the Messenger is True and His Words are a Revelation from Him Ibn Abi Hatim recorded that Ash-Sha`bi and others stated that the Creator swears by whatever He wills among His creation, but the created only vow by the Creator. Allah said, وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى By the star when it goes down. Ibn Abi Najih reported that Mujahid said, "The star refers to... Pleiades when it sets at Fajr." Ad-Dahhak said "When the Shayatin are shot with it." And this Ayah is like Allah's saying; فَلَ أُقْسِمُ بِمَوَقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌ فِى كِتَـبٍ مَّكْنُونٍ لااَّ يَمَسُّهُ إِلااَّ الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَـلَمِينَ So, I swear by the setting of the stars. And verily, that is indeed a great oath, if you but know. That is indeed an honorable recitation. In a Book well-guarded. Which none can touch but the pure. A revelation from the Lord of all that exists. (56:75-80) Allah said; مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى Show more
حضرت شعبی فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا لے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی ( ابن ابی حاتم ) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا کے ستارے کا غائب ہونا ہے ۔ بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیط... ان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہو سکتی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے ۔ اس آیت جیسی ہی آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75ۙ ) 56- الواقعة:75 ) ہے ۔ پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں وہ بےعلمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں ۔ آپ گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں ۔ آپ کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپکا راستہ سیدھا آپ عظیم الشان شریعت کے شارع ، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم ۔ آپ کا کوئی قول کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپکو حکم الہٰی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ۔ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر اس پر ایک شخص نے کہا کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا یہ حدیث ابو داؤد اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا ۔ Show more
حافظ عماد الدین ابن کثیر۔
نام نسب : اسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب : عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے
سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی
آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
ولادت و تعلیم و تربیت : آپ کی ولادت ٧٠٠ ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ، ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے ٧٠٣ ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی ٧٠٦ ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی ٧٢٩ ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی ، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چناچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی ٤٧٦ ھ کو حفظ کرکے ٧١٨ ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی ٧٤٦ ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی ٧٤٩ ھ سے پڑھی تھیں۔
فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی ، علامہ سیوطی ، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں ۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علماء سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علماء نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں (١) عیسیٰ بن المعطعم ّ (٢) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی ٧٢٣ ھ (٣) عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی المتوفی ٧٢٥ ھ (٤) محمد بن زراد (٥) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی ٧١١ ھ (٦) ابن الرضی (٧) حافظ مزی (٨) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (٩) حافظ ذہبی (١٠) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی ٧٤٩ ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی ٧٤٢ ھ ہیں ۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بناء پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا ۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کردیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذ کی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے ، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی
چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی ، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
منزلت علمی : امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ، تفسیر ، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا ، چناچہ علامہ ابن العماد حنبلی ، ابن حبیب سے ناقل ہیں ۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر (ان پر تاریخ ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہوگئی۔
درس وافتاء ، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی ۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے ) میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ، بڑے ذاکر شاغل تھے ، چناچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی ۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے ، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق : اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا ، جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں ، چناچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں
'' کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ و اتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی ''۔
ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چناچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اور ستائے گئے۔
وفات :
اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ ھ میں وفات پائی (رحمتہ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کئے گئے ، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں
لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر
ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر
ترجمہ (شائقین علوم تمہارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں ، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمہارے لئے تھوڑے تھے)
پسماندگان
پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ، ایک زین الدین عبدالرحمن جن کی وفات ٧٩٢ ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں ۔ انہوں نے ٨٠٣ ھ میں بمقام رملہ وفات پائی ، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
تصنیفات :
آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اور ان کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے ، ذہبی لکھتے ہیں ، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔
'' سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ''
ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔
آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
(١) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
(٢) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہوچکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
(٣) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل :
(٤) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
(٥) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہاء شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
(٦) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
(٧) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
(٨) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب ، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
(٩) شرح صحیح بخاری ک : اسکی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی ' کشف الطنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٠) الاحکام الکبیر : یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی ' مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے ' مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
(١١) اختصار علوم الحدیث : نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے ' یہ علامہ ابن صلاح المتوفی ٦٤٣ ھ کی مشہور کتاب '' علوم الحدیث '' معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے ' اختصار ہے ' مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کئے ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد (اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔ )
(١٢) مسند الشیخین : اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے جو حدیثیں مروی ہیں انکو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر (رض) کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ مستقل علیحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
(١٣) السیرۃ النبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
(١٤) الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول : یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے ۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورة احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے ۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
(١٥) کتاب المقدمات : اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٦) مختصر کتاب المدخل للبیہقی : اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
(١٧) الاجتہاد فی طلب الجہاد : جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیا اس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لئے لکھا ' یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔
(١٨) رسالتہ فی فضائل القرآن : یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہوچکا ہے۔
(١٩) مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور اسکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسند سے زوائد بھی درج کئے تھے ۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں ' عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔
یہ پہلی سورت ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے مجمع عام میں تلاوت کیا، تلاوت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے جتنے لوگ تھے، سب نے سجدہ کیا، ماسوائے امیہ بن خلف کے، اس نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا۔ چناچہ یہ کفر کی حالت م... یں ہی مارا گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورة نجم) بعض طریق میں اس شخص کا نام عتبہ بن ربیعہ بتلایا گیا ہے (تفسیر ابن کثیر) واللہ اعلم۔ حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس سورت کی تلاوت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سجدہ نہیں کیا (صحیح بخاری، باب مذکور) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سجدہ کرنا مستحب ہے، فرض نہیں۔ اگر کبھی چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے۔ 1۔ 1 بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لئے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔ Show more
مقدمہ
ازقلم معالی اشیخ صالح بن عبدالعزیزبن محمد آل الشیخ
وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت وارشاد
نگران اعلٰی مجمع الملک فہد
خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الہٰی کی خدمت کے سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ، وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
وزارۃالشؤون الاسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والارشاد
کی نظرمیں عربی زبان سے ناواقف مسلمانوں کےلئےقرآن فہمی کی راہ ہموارکرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونےکےلئےجورسول اکرم ﷺ کےارشادگرامی : بلغوا عنی ولوآیۃ : (میری جانب سے لوگوں تک پنچاؤخواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) میں بیان کی گئی ہے، دنیا کے تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطا لب کو منتقل کیا جانا انتہائ ضروری ہے۔
[١] بعض علماء نے (ألْنَّجْمُ ) سے مراد زہرہ لیا ہے بعض نے ثریا اور بعض نے اس سے مراد ستاروں کی جنس لی ہے۔ یعنی اس وقت کی قسم جب ستارے غائب ہوجاتے ہیں اور دن کی روشنی پھیل جاتی ہے۔ یا ان ستاروں کی قسم جو اپنی مقررہ راہ ہی پر چلتے رہتے ہیں کبھی ادھر ادھر نہیں ہٹتے۔
مفسر مرحوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح)
مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے انہوں نے گھر اور باہر جب بھی انہیں دیکھا سفید لباس میں دیکھا سفید لباس ' تہبند اور قمیص پر مشتمل ہو یا شلوار قمیض پر سر پر ہمیشہ سفید رومال رکھتے اور بازار جاتے وقت سیاہ رنگ کی جناح کیپ استعمال کرتے لکھنے کے لئے ہمیشہ کوئی بھی معمولی سا قلم اور سواری کے لئے سائیکل ہی استعمال کی۔ مالی طور پر خوب مستحکم تھے مگر اس کے باوجود کبھی تصنع یا بڑائی کا اظہار نہیں کیا ۔
والد مرحوم چار بھائی تھے۔ ان چار بھائیوں میں چار چار سال کا فرق تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے تینوں بھائی اسی ترتیب سے چار چار سال وقفے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔
محترم ابا جان نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔ حالانکہ محکمہ نے انہیں پر وموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیزیں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔
استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ١٩٤٧ ء سے ١٩٦٥ ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔ ١٩٦٥ ے میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔ غالبا ٥٠ کے قریب قرآن مجید کی کتابت کی سعادت حاصل کی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال (مسجد حرام ) میں بیٹھ کر کی اور مدنی سورتوں کی کتابت مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر بیٹھ کر کی ۔ الحمد للہ اس تفسیر میں قرآن مجید کی اسی بابرکت کتابت کو ہی بطور متن قرآن شائع کیا جارہا ہے۔ (ایں سعادت بزور بازو نیست ! )
١٩٨٠ ء کے بعد جب انہیں فکر معاش سے قدرے آزادی نصیب ہوئی تو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس میدان میں بھی ماشاء اللہ علماء و مصنفین حضرات کی صف میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات ' روح ' عذاب قبر اور سماع موتی ' احکام ستر و حجاب ' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔ انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کرچکے تھے ۔ ان میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔ '' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل ' بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔
آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔ انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے '' تیسیرالقرآن '' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤ جلدوں میں ہے۔
محترم ابا جان نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے '' اصلاح معاشرہ '' اور '' پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
١٨ دسمبر ١٩٩٥ ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دئیے۔ جاکر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ساتھ والے نمازی نے اپنی نماز توڑ کر انکو پانی پلانے کی کوشش کی ۔ مگر بےسود۔۔۔۔۔ ایسی پرسکون ' اطمینان بخش موت کہ جس کی ہر مسلمان بجا طور تمنا کرسکتا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی
( تفسیر تیسیر القرآن مفصل کو مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم کے چاروں بیٹوں اور چاروں بیٹوں اور ان کی دوسری زوجہ محترمہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہم CD پر لا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اور ان کی پہلی زوجہ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
اس تفسیر کو محترم والد صاحب ، والدہ صاحبہ، اور ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری دوسری والدہ محترمہ کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ عامۃ الناس کے لئے اس تفسیر کو نافع بنائے۔ آمین )
(١) والنجم اذا ھویٰ :” النجم “ ستارہ۔” الف لام “ تعریف کیلئے ہو تو مراد ” ثریا “ ہے کیونکہ عرب کے ہاں ” النجم “ بول کر ” ثریا “ مراد لینا معروف ہے اور اگر ” الف لام “ جنس کے لئے ہو تو ستاروں کی جنس مراد ہے، خواہ کوئی ہوں اور یہاں جنس مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ “” ھوی یھوی ھویاً “ (ض ) کا معنی جکرنا ا... ور غروب ہونا بھی آتا ہے اور چڑھنا اور طلوع ہونا بھی اور ” ھوی یھوی ھوی “ (س) کا معنی ہے محبت کرنا۔ (٢) قرآن مجید کی قسمیں اپنے جواب قسم کی شہادت کے طور پر لائی جاتی ہیں اورق سم اور جواب قسم میں معنوی طور پر مناسب ہوتی ہے۔ یہاں ” والنجم اذا ھویٰ “ میں مذکور قسم بعد کی آیت ” ماضل صاحبکم وما غوی “ کے دعویٰ کی شہادت کے طور پر لائی گی ہے اور دونوں میں معنوی مناسبت ہے۔ مفسرین نے اس مناسبت کی تقریر کئی طرح سے فرمائی ہے، ان میں سب سے واضح دو تقریریں یہاں درج کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ” النجم “ سے مراد عام ستارے ہیں، یعنی جس طرح تمام ستارے اپنے اپنے مدار میں چلتے ہیں، اپنی مقررہ جگہ سے طلوع ہوتے اور مقررہ جگہ غروب ہوتے ہیں اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چل رہے ہیں، اس سے ذرہ برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے، حتیٰ کہ وحی الٰہی کے بغیر بولتے بھی نہیں اور ستاروں کے احوال میں سے غروب کا وقت خاص طور پر ذکر کرنے کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ عظیم مخلوق مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے۔ اپنی تمام تر وسعت، روشنی اور چمک کے باوجود اس کی مجالس نہیں کہ غروب ہونے اور ڈوبنے سے انکار کرسکے۔ (واللہ اعلم) اس تقریر کی مزید تفصیل سورة تکویر کی آیات (١٥ تا ١٩) :(فلا اقسم بالخنس …انہ لقول رسول کریم) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسری تقریر یہ ہے کہ ستاروں سے مراد شہاب ثاقب ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجی جانے والی وحی کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام کر رکھا ہے کہ اگر کوئی شیطان آسمان کے نیچے جا کر اسے سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر ہر طرف سے شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں جو اسے جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں۔ دیکھیے سورة صافات (٦ تا ١٠) اور سورة جن (٨، ٩) ۔ حفاظت کا یہ زبردست انتظام شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے سیھے راستے پر قائم ہیں اور ان پر نازل ہونے والی وحی الٰہی میں کسی قسم کی مداخلت یا کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہی بات سورة واقعہ کی آیت (٧٥):(فلا اقسم بموقع النجوم) میں بیان فرمائی گئی ہے۔ Show more
ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم
تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی
مصنف کا تعارف :
حافظ عبدالسلام علوم القرآن اور علوم الحدیث میں ایک مقام کے حامل ہیں۔ موصوف کا مکمل نام ابوعبدالرحمن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ہے۔ حافظ صاحب اگست 1946 کو گوہڑ چک نمبر 8 ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم :
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی علوم دینیہ کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر آپ نے میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ موصوف نے میٹرک کے بعد درس نظامی، فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل طب کی تعلیم حاصل کی۔
اساتذہ :
مترجم نے ابتدائی و اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ مثلاً محمد گوندلوی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا صادق خلیل، قاری اسلم اور مولانا شریف اللہ سواتی وغیر۔ حافظ صاحب نے ترجمہ قرآن کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھیں ہیں۔ مثلاً ایک دین چار مذہب۔ چوری کے متعلق قانون الہی، مقالات طیبہ۔ احکام زکوۃ و عشر و صدقہ فطر۔ ترجمۃ القرآن الکریم۔ شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرا۔ شرح کتاب الجامع من بلوغ المرا وغیرہ۔
حافظ صاحب نے 17 سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1966 سے 1992 تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھایا۔ اس وقت سے لے کر تاحال تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںَ
خصوصیات ترجمہ وتفسیر :
1 ۔ تاکید کے الفاظ کا ترجمہ بھی تاکید سے کیا گیا ہے۔
2 ۔ مبالغہ کے صیغوں کا ترجمہ بھی اضافہ سے کیا گیا ہے۔
3 ۔ صیغوں کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
4 ترجمہ کمی و بیشی کے بغیر بامحاورہ اردو زبان میں ہے۔
5 ۔ آسان فہم اور رائج اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
6 ۔ صرف و نحو کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں استعمال ہونے والے حروف ربط، حروف جر، وغیرہ کا بھی موقع کی مناسبت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
Characteristics of Surah An-Najm Surah An-Najm is the first chapter that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) proclaimed in Makkah (` Abdullah Ibn Masud (رض) has transmitted it - as in Qurtubi) and this is the first Surah in which a verse of sajdah (prostration) is revealed. The Holy Prophet recited it and prostrated. A strange thing happened on this occasion: When the Holy Prophet finished ... reciting the Surah before a mixed gathering of Muslims and disbelievers, and, along with his followers, he prostrated himself on the ground. The disbelievers too prostrated, except one proud and arrogant man (regarding whose name there is a difference of opinion (Tr.) ) who took a handful of soil and, having applied it on his forehead, said, &this is enough&. ` Abdullah Ibn Masud (رض) ، [ the transmitter of the Tradition ] said that he saw this man lying dead in the state of disbelief [ kufr ]. (Bukhari, Muslim and other compilers of Sunan - Ibn-Kathir [ condensed ]) At the outset of this Surah, the truth of the Qur&anic revelation and of the Divine claim is sought to be established. In a very exquisite and forceful style, it is stated that the Holy Prophet is a true Messenger of Allah, and there is no room for any doubt about this. Allah Swears that the Messenger is True وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ (By the star when it goes down to set,.... 53:1) The word najm means a star, and as a common noun every star is referred to as najm, and in that case the plural is nujum. There are however occasions when najm specifically refers to thurayya. In this case it is used as a proper noun and it signifies |"the Pleiades|" which is a loose cluster of many (hundred) stars, (six of which are visible to ordinary sight). In this context, some scholars, taking the word as a proper noun, interpret najm as thurayya. Farra& and Hasan Basri prefer the first interpretation, and take the word as a common noun (Qurtubi). This is the interpretation that is adopted in the translation. The verb hawa means to fall or plunge. When stars fall, they set. In this verse Allah swears an oath to show that the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is true, and his words are a revelation from Allah, in which there is no room for any doubt. In Surah As-Saffat it has been explained in detail that the Creator, for various wise reasons, swears by whatever He wills among His creation, but His created beings only swear by the Creator. They are not allowed to swear by anything else. Here Allah has sworn an oath by the stars. Probably, the underlying wisdom in this is that as the Arabs are used to determine the course and direction of, and are guided in their travels by the movements of the stars in the sandy waste of Arabia, so they would now be led to the goal and end of their spiritual journey by the star par excellence, that is, by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Show more
خلاصہ تفسیر قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے ( یعنی کوئی بھی ستارہ ہو اور اس قسم میں مضمون جواب قسم مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے، یعنی جس طرح ستارہ طلوع سے غروب تک اس تمام تر مسافت میں اپنی باقاعدہ رفتار سے ادھر ادھر نہیں ہوا اسی طرح آپ اپنی عمر بھر ضلال وغوایت سے... محفوظ ہیں اور نیز اشارہ ہے اس طرف کہ جیسے نجم سے ہدایت ہوتی ہے، اسی طرح آپ سے بھی بوجہ عدم ضلال و عدم غوایت کے ہدایت ہوتی ہے اور چونکہ ستاروں کے وسط سماء میں ہونے کے وقت کسی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لئے اس وقت ستارے سے راستہ کا پتہ نہیں لگتا، اس لئے اس میں قید لگائی غروب کے وقت کی اور گو قرب من الافق طلوع کے وقت بھی ہوتا ہے لیکن غروب میں یہ بات زیادہ ہے کہ اس وقت طالبان اہتداء اس کو غنیمت سمجھتے ہیں اس خیال سے کہ اگر استدلال میں ذرا توقف کیا پھر غائب ہوجاوے گا، بخلاف طلوع کے کہ اس میں بےفکری رہتی ہے پس اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہدایت حاصل کرلینے کو غنیمت سمجھو اور شوق سے دوڑو، آگے جواب قسم ہے کہ) یہ تمہارے (ہمہ وقت) ساتھ کے ( اور سامنے) رہنے والے (پیغمبر جن کے عام احوال و افعال تم کو معلوم ہیں جن سے بشرط انصاف ان کی راستی اور حقانیت پر استدلال کرسکتے ہو یہ پیغمبر) نہ راہ (حق) سے بھٹکے اور نہ غلط راستے ہو لئے (ضلال یہ کہ بالکل راستہ بھول کر کھڑا رہ جاوے اور غوایت یہ کہ غیر راہ کو راہ سمجھ کر غلط سمت میں چلتا رہے کذا فی الخازن، یعنی تم جو ان کو دعوائے نبوت و دعوت الی الاسلام میں بےراہ سمجھتے ہو یہ بات نہیں ہے، بلکہ آپ نبی برحق ہیں) اور نہ آپ اپنی نفسیانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں ( جیسا تم لوگ کہتے ہو افتراہ بلکہ) ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے ( خواہ الفاظ کی بھی وحی ہو جو قرآن کہلاتا ہے خواہ صرف معافی کی ہو جو سنت کہلاتی ہے اور خواہ وحی جزئی ہو یا کسی قاعدہ کلیہ کی وحی ہو، جس سے اجتہاد فرماتے ہوں، پس اس سے نفی اجتہاد کی نہیں ہوتی اور اصل مقصود مقام نفی ہے کفار کے اس خیال کی کہ آپ خدا کی طرف غلط بات کی نسبت فرماتے ہیں، آگے وحی آنے کا واسطہ بتلاتے ہیں کہ) ان کو ایک فرشتہ ( اس وحی کی منجانب اللہ) تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے ( اور وہ اپنی کوشش و محنت سے طاقتور نہیں ہوا بلکہ) پیدائشی طاقتور ہے ( جیسا کہ ایک روایت میں خود جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنی طاقت کا بیان فرمایا کہ میں نے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان کے قریب اس کو لے جا کر چھوڑ دیا (رواہ فی تفسیر سورة التکویر من الدر المنثور) مطلب یہ کہ یہ کلام کسی شیطان کے ذریعہ سے آپ تک نہیں پہنچا کہ کاہن ہونے کا احتمال ہو بلکہ فرشتہ کے ذریعہ سے آیا اور شاید شدید القوی کا ذکر فرمانے میں یہ مقصود ہو کہ اس کا احتمال بھی نہ کیا جاوے کہ شاید اصل میں فرشتہ ہی لے کر چلا ہو مگر درمیان میں کوئی شیطانی تصرف ہوگیا ہو اس میں اشارہ ہوگیا جواب کی طرف کہ وہ نہایت شدید القویٰ ہیں شیطان کی مجال نہیں کہ ان کے پاس پھٹک سکے، پھر ختم وحی کے بعد خود حق تعالیٰ نے اس کے بعینہ ادا کردینے کا وعدہ فرمایا ہے اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه آگے اس شبہ کا جواب ہے کہ اس وحی لانے والے کا فرشتہ اور جبریل ہونا اس وقت معلوم ہوسکتا ہے، جب آپ ان کو پہچانتے ہوں اور پوزی صحیح پہچان موقوف ہے اصل صورت میں دیکھنے پر تو کیا آپ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اپنی اصلی صورت پر دیکھا ہے اس کی نسبت فرماتے ہیں کہ ہاں یہ بھی ہوا ہے، جس کی کیفیت یہ ہے کہ چند بار تو دوسری صورت میں دیکھا) پھر ( ایک بار ایسا بھی ہوا کہ) وہ فرشتہ (اپنی) اصلی صورت پر (آپ کے روبرو) نمودار ہوا ایسی حالت میں کہ وہ (آسمان کے) بلند کنارہ پر تھا ( ایک روایت میں افق شرقی سے اس کی تفسیر آئی ہے، کما فی الدر المنثور، اور افق میں دکھلا دینے کی غالباً یہ حکمت ہے کہ وسط سماء میں دیکھنا خالی از مشقت و تکلف نہیں اور اعلیٰ میں غالباً یہ حکمت تھی کہ باکل نیچے افق پر بھی پوری چیز نظر نہیں آتی، اس لئے ذرا اونچے پر نظر آئے اور اس دیکھنے کا قصہ یہ ہوا تھا کہ ایک بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) سے خواہش کی کہ مجھ کو اپنی اصلی صورت دکھلا دو ، انہوں نے حرا کے پاس وحسب روایت ترمذی محلہ جیاد میں وعدہ ٹھہرایا، آپ وہاں تشریف لے گئے تو ان کو افق مشرق میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ہیں اور اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ افق غربی تک گھیر رکھا ہے، آپ بیہوش ہو کر گر پڑے، اس وقت جبرئیل (علیہ السلام) بصورت بشر ہو کر آپ کے پاس تسکین کے لئے اتر آئے جس کا آگے ذکر ہے کذا فی الجلالین، حاصل یہ کہ وہ فرشتہ اول صورت اصلیہ میں افق اعلیٰ پر نمو دار ہوا) پھر ( جب آپ بےہوش ہوگئے تو) وہ فرشتہ ( آپ کے) نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا سو (قرب کی وجہ سے) دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ (غایت قرب کی وجہ سے) اور بھی کم (فاصلہ رہ گیا، مطلب دو کمانوں کا یہ ہے کہ عرب کی عادت تھی کہ جب دو شخص باہم غایت درجہ کا اتفاق و اتحاد کرنا چاہتے تھے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں لے کر ان کے چلے یعنی تانت کو باہم متصل کردیتے اور اس صفت میں بھی بعض اجزاء کے اعتبار سے کچھ فصل ضروری رہتا ہے، پس اس محاورہ کی وجہ سے یہ کنایہ ہوگیا قرب و اتحاد سے اور چونکہ یہ محض اتفاق صوری کی علامت تھی تو اگر روحانی و قلبی اتفاق بھی ہو تو وہاں اَو اَدنیٰ بھی صادق آسکتا ہے، پس اَو اَدنیٰ کے بڑھا دینے میں اشارہ ہوگیا کہ مجاورت صوریہ کے علاوہ آپ میں اور جبرئیل (علیہ السلام) میں روحانی مناسبت بھی تھی جو مدار اعظم ہے معرفت تامہ اور حفظ صورت کا، غرض یہ کہ ان کی تسکین سے آپ کو تسکین ہوئی اور افاقہ ہوا) پھر (افاقہ کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ( اس فرشتہ کے ذریعہ سے) اپنے بندہ ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمانا تھی ( جس کی تعیین بالتخصیص معلوم نہیں اور نہ معلوم ہونے کی حاجت اور باوجودیکہ اصل مقصود اس وقت وحی نازل کرنا نہیں بلکہ جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں دکھلا کر ان کی پوری معرفت آپ کو عطا کرنی تھی مگر اس وقت اور بھی وحی نازل فرمانا شاید اس لئے ہو کہ یہ معرفت میں اور زیادہ معین ہو، کیونکہ اس وقت کی وحی کو جس کا منجانب اللہ ہونا جبرئیل (علیہ السلام) کی اصل صورت میں ہونے کی وجہ سے قطعی اور یقینی ہے اور دوسرے اوقات کی وحی جو بواسطہ صورت بشریہ ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کو ایک شان پر دیکھیں گے تو زیادہ سے زیادہ یقین میں قوت ہوگی کہ دونوں حالتوں میں وحی لانے والا واسطہ یعنی فرشتہ ایک ہی ہے، جیسا کہ کسی شخص کی آواز کے لب و لہجہ اور طرز کلام سے خوب آگاہ ہوں تو اگر کبھی وہ صورت بدل کر بھی بولتا ہے تو صاف پہچانا جاتا ہے، آگے اس دیکھنے کے متعلق ایک شبہ کا جواب ہے وہ شبہ یہ ہے کہ صورت اصلیہ میں دیکھنے کے باوجود یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ قلب کے ادراک و احساس میں غلطی ہوجائے جیسا کہ احساسات میں غلطی ہوجانا اکثر مشاہدہ کیا جاتا ہے، مجنون باوجود سلامت جس کے بعض اوقات پہچانے ہوئے لوگوں کو دوسرا شخص بتلانے لگتا ہے، پس یہ رویت صحیحہ تھی یا نہیں، آگے اس شبہ کا جواب ہے یعنی وہ رویت صحیحہ تھی کہ اس کے دیکھنے کے وقت) قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی ( رہا یہ کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ قلب نے غلطی نہیں کی سو بات یہ ہے کہ اگر مطلقاً ایسے احتمالات قابل التفات ہوا کریں تو محسوسات کا کبھی اعتبار نہ رہے، پھر تو ساری دنیا کے معاملات ہی مختلف ہوجاویں، ہاں کسی کے پاس کوئی منشا شبہ کا معتدبہ موجود ہو تو اس پر غور کیا جاتا ہے اور احتمال خطائے قلبی کا منشاء یہ ہوسکتا ہے کہ ادراک کرنے والا مختل العقل ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحیح العقل، فطین و ذہین، صاحب فراست ہونا مشاہد اور ظاہر تھا، چونکہ باوجود اس اثبات بلیغ کے پھر بھی معاندین جدال و خلاف سے باز نہ آتے تھے اسی لئے آگے بطور توبیخ و تعجیب کے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم نے ایسے شافی کافی بیان سے معرفت و رویت کا ثبوت سن لیا) تو کیا ان (پیغمبر) سے ان کی دیکھی (بھالی) ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو (یعنی جن چیزوں کا علم و ادراک انسان کو ہوتا ہے ان میں محسوسات جیسی چیزیں شک و شبہ سے بالاتر ہوتی ہیں، غضب کی بات ہے کہ تم حیات میں بھی اختلاف کرتے ہو، پھر یوں تو تمہاری حسیات میں بھی ہزاروں خدشے نکل سکتے ہیں) اور ( اگر یہ مہل خدشہ ہو کہ جس چیز کو ایک ہی بار دیکھا ہو تو اس کی پہچان کیسے ہو سکتی ہے تو جواب یہ ہے کہ اول تو یہ ضروری نہیں کہ ایک بار دیکھنے سے پہچان نہ ہو اور اگر علیٰ سبیل التنزل شناخت کے لئے تکرار مشاہدہ ہی کی ضروری ہے تو) انہوں نے (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) اس فرشتہ کو ایک اور دفعہ بھی (صورت اصلیہ میں) دیکھا ہے (پس اب تو وہ تو ہم بھی مدفوع ہوگیا، کیونکہ تطابق صورتین سے پوری تعیین ہوگئی کہ ہاں جبرئیل (علیہ السلام) یہی ہیں، آگے اس دوبارہ دیکھنے کی جگہ بتلاتے ہیں کہ کہاں دیکھا یعنی شب معراج میں دیکھا ہے) سدرة المنتہیٰ کے پاس (سدرہ کہتے ہیں بیری کے درخت کو اور منتہیٰ کے معنی ہیں انتہا کی جگہ، حدیث میں آیا ہے کہ یہ ایک درخت ہے بیری کا، ساتویں آسمان میں عالم بالا سے جو احکام و ارزاق وغیرہ آتے ہیں وہ اول سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے ملائکہ زمین پر لاتے ہیں، اسی طرح یہاں سے جو اعمال صعود کرتے ہیں وہ بھی سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے اوپر اٹھا لئے جاتے ہیں، دنیا میں اس کی مثال ڈاک خانہ کی سی ہے کہ آمد و برآمد خطوط وہاں سے ہوتی ہے اور عند سدرة المنتہیٰ میں تو امکان رویت بتلایا تھا، آگے اس مکان کا شرف بتلاتے ہیں کہ) اس (سدرة المنتہیٰ ) کے قریب جنت الماوی ہے (ماویٰ کے معنی رہنے کی جگہ چونکہ جنت نیک بندوں کے رہنے کی جگہ ہے اس لئے جنت الماویٰ کہتے ہیں، حاصل یہ کہ وہ سدرة المنتہیٰ ایک ممتاز موقع پر ہے، اب بعد تعیین مکان رویت کے رویت کا زمانہ بتلاتے ہیں کہ رویت کب ہوئی، پس فرماتے ہیں کہ) جب اس سدرة المنتہیٰ کو لپٹ رہی تھیں جو چیزیں لپٹ رہی تھیں ( ایک روایت میں ہے کہ سونے کے پروانے تھے، یعنی صورت پروانہ کی سی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ وہ فرشتے تھے یعنی حقیقت ان کی یہ تھی اور ایک روایت میں ہے کہ ملائکہ نے حق تعالیٰ سے اجازت چاہی تھی کہ ہم بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کریں ان کو اجازت ہوگئی، وہ اس سدرہ پر جمع ہوگئے تھے، (الروایات کلہا فی الدر المنثور) اس میں بھی اشارہ ہوسکتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معزز و مکرم ہونے کی طرف اور باقی وہی تقریر ہے جو تقیید سابق میں بیان کی گئی، اب ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی حیرت انگیز چیزیں دیکھ کر نگاہ چکرا جاتی ہے پوری طرح ادراک پر قدرت نہیں رہتی، پس اس صورت میں جبرئیل (علیہ السلام) کی صورت کا کیا ادراک ہوگا، جب یہ ادراک ثانی معتبر نہ ہوا تو پھر اس خدشہ مذکورہ کا جو جواب لقدراہ نزلتہ اخری سے دیا گیا ہے وہ کافی نہ ہوا اس احتمال کے رفع کے لئے فرماتے ہیں کہ آپ ان عجائب کو دیکھ کر ذرا نہیں چکرائے اور بالکل متحیر نہیں ہوئے، چناچہ جن چیزوں کی رویت کا حکم تھا ان کی طرف نظر کرنے سے آپ کی) نگاہ نہ تو ہٹی (بلکہ ان چیزوں کو خوب دیکھا) اور ( جن چیزوں کے دیکھنے کا حکم جب تک نہ ہوا) نہ ( ان کی طرف دیکھنے کو آپ کی نگاہ) بڑھی (یعنی قبل اذن نہیں دیکھا، کذا فی المدارک فی الفرق بین زاغ وطغی، یہ دلیل ہے آپ کے غایت استقلال کی، کیونکہ عجیب چیزوں میں آ کر آدمی یہی دو حرکتیں کیا کرتا ہے جن چیزوں کے دیکھنے کو کہا جاتا ہے ان کو تو دیکھتا نہیں اور جن کے لئے نہیں کہا گیا ان کو تکتا ہے، غرض اس میں انضباط نہیں رہتا، آگے آپ کے استقلال کی قوت بیان کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ) انہوں نے (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) اپنے پروردگار (کی قدرت) کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے ( مگر ہر چیز کے دیکھنے میں آپ کی یہی شان رہی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى، وہ عجائبات احادیث معراج میں آئے ہیں، انبیاء (علیہم السلام) کو دیکھنا ارواح کو دیکھنا جنت وغیرہ کو دیکھنا، پس ثابت ہوا کہ آپ میں غایت استقلال ہے، پس متحیر ہوجانے کا احتمال نہیں پس خدشہ کا جو جواب وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں مذکور تھا وہ سالم رہا، غرض تمام تر تقریر سے رویت و معرفت جبرئیل کے متعلق شبہ مندفع ہو کر امر سالت ثابت اور متحقق ہوگیا جو کہ مقصود مقام تھا) معارف و مسائل سورة نجم کی خصوصیات : سورة نجم پہلی سورت ہے جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں اعلان فرمایا ( رواہ عبداللہ بن مسعود قرطبی) اور یہی سب سے پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ تلاوت کیا اور اس سجدہ میں ایک عجیب صورت یہ پیش آئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سورت مجمع عام میں تلاوت فرمائی، جس میں مسلمان اور کفار سب شریک تھے، جب آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ ادا کیا تو مسلمان تو آپ کے اتباع میں سجدہ کرتے ہی، سب نے حضور کے ساتھ سجدہ کیا، تعجب کی چیز یہ پیش آئی کہ جتنے کفار و مشرکین موجود تھے وہ بھی سب سجدہ میں گر گئے، صرف ایک متکبر شخص جس کے نام میں اختلاف ہے، ایسا رہا جس نے سجدہ نہیں کیا، مگر زمین سے ایک مٹھی مٹی کی اٹھا کر پیشانی سے لگالی اور کہنے لگا کہ بس یہی کافی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود راوی حدیث فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو کفر کی حالت میں مرا ہوا دیکھا ہے (رواہ البخاری و مسلم و اصحاب السنن، ابن کثیر ملخصاً ) اس سورت کے شروع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے اور آپ پر نازل ہونے والی وحی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہونے کا بیان ہے۔ وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى، لفظ نجم ستارے کے معنی میں آتا ہے، ہر ایک ستارے کو نجم اور جمع نجوم بولی جاتی ہے اور کبھی یہ لفظ خاص طور سے ثریا ستارے کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو چند ستاروں کا مجموعہ ہے، اس آیت میں بھی بعض حضرات نے نجم کی تفسیر ثریا سے کی ہے، فرا اور حضرت حسن بصری نے پہلی تفسیر یعنی مطلق ستارے کو ترجیح دی ہے (قرطبی) اسی کو اوپر خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا ہے۔ اِذَا هَوٰى لفظ ہوٰی، ساقط ہونے اور گرنے کے معنی میں آتا ہے، ستارے کا گرنا اس کا غروب ہونا ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی کا حق و صحیح و شکوک سے بالاتر ہونا بیان فرمایا ہے، سورة صافات میں مفصل گزر چکا ہے کہ حق تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ خاص مصالح اور حکمتوں کے لئے اپنی خاص خاص مخلوقات کی قسم کھاتے ہیں، دوسروں کو اس کی اجازت نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھائے، یہاں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھائی جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ستارے اندھیری رات میں سمتیں اور راستے بتانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان سے سمت مقصود کی طرف ہدایت ہوتی ہے، ایسے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے راستے کی طرف ہدایت ہوتی ہے۔ Show more
نام : معارف القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
تفسیر کا تعارف :
معارف القرآن جو پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چناچہ لکھتے ہیں :
" ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کرسکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کرلیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کرکے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے "۔
پھر آگے لکھتے ہیں :
" اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرادی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے "۔
لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آچکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیزبعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف ومشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسندباتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کرکے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ومحبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہوجائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن وحدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل واحکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔
مصنف کا تعارف :
مفتی محمد شفیع صاحب (رح) ۔ مصنف معار ف القرآن
ولادت : 25 جنوری 1897، دیوبند (موجودہ یو۔ پی) بھارت
وفات : 6 اکتوبر 1976 ۔ کراچی پاکستان
مکمل تعلیم دیوبند میں حاصل کی
خدمات :
مفتی صاحب برصغیر پاک وہند کے متاز سنی حنفی دیوبندی عالم تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کراچی تشریف لے آئے اور ایک عظیم الشان مدرسہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم کیا
مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے ۔ جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے ، آپ ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰى ١ ۙ نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والق... َرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ ھویٰ ماضی واحد مذکر غائب ھ و ی مادہ سے مصدر۔ ھوی ھ کی فتح سے باب ضرب سے بمعنی ( ستارہ کا طلوع ہونا۔ اور مصدر ھوی ( ھ کے ضمیر سے) باب ضرب سے بمعنی ( ستارہ کا) غروب ہونا۔ مستعمل ہے ۔ چونکہ ہر دو مصادر میں ھوی یھوی ( ماضی اور مضارع) کی ایک ہی صورت ہے لہٰذا ھوی بمعنی ( ستارہ کا) طولع ہونا یا غروب ہونا ہر دو طرح جائز ہے اور دونوں معانی بھی ایک ہی صیغہ میں لئے جاسکتے ہیں یعنی ( ستارہ کا) طلوع و غروب ہونا۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ Show more
نام : مفردات القرآن فی غریب القرآن
مصنف : امام راغب اصفہانی
اردو مترجم : مولانا محمد عبدہ فیروز پوری
مطبوعہ : اسلامی اکیڈیمی، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور
کتاب اور مصنف کا تعارف :
مفردات القرآن ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی (متوفی 502 ھ - 1108 ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام " المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن " ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر " المفردات فی غریب القرآن " کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے " مفردات القرآن " سے شہرت ہے۔
مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔
یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی ہے اور قرآن میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے ۔
طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کئے جاتے ہیں پھر انہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کیلئے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہوجاتے ہیں۔
بہت سے مصنفین اور آئمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
مصنف کا تعارف :
یہ کتاب امام راغب اصفہانی (رح) کی تصنیف ہے، امام راغب پانچویں اور چھٹی صدی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔۔
ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اور راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں،
امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے، اور ادب و فلسفہ ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
علامہ ذہبی (رح) نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی (رح) ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب ، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔
امام راغب کی وفات 502 ہجری میں ہوئی۔
تالیفات :
امام راغب کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :
1 ۔ محاضرات الادباء :
2 ۔ حل متشابہات القرآن
3 ۔ حل متشابہات القرآن
4 ۔ الذریعہ الی مکارم الشریعہ
5 ۔ درۃ التاویل فی غرۃ التنزیل
6 ۔ تحقیق البیان فی تاویل القرآن
7 ۔ افانین البلاغۃ۔
8 ۔ کتاب الایمان والکفر
9 ۔ تفصیل النشاتین :
10 ۔ المفردات فی غریب القرآن
11 ۔ کتاب المعانی الاکبر
12 ۔ کتاب احتجاج القراء۔
مترجم کا تعارف۔
امام راغب افہانی کی مفردات القرآن اصل کتاب عربی میں ہے ۔ جبکہ ایزی قرآن و حدیث میں اس کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔
مترجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہٗ فیروز پوری ہیں۔ جو عبدہ الفلاح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ جولائی 1917 کو موضع وٹواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ وٹو برادری سے تعلق تھا۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڈھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔ فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ ، اوڈانوالہ ، اوکاڑہ ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ خصوصاًجامعہ سلفہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کردیتے۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصا نیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔ آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا ا نتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی مستعفی ہوگئے۔ لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کا وظیفہ برابر جاری رکھا ۔ حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نز د تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
احکام القرآن للجصاص
نام و کنیت
نام احمد بن على الرازى اوركنيت الجصاص: ابوبكراحمد بن على الرازى الجصاص سے مشہور ہیں۔
ولاد ت
امام جصاص کی ولادت رے شہر میں ہو ئی اسی نسبت سے رازى کہلاتے ہیں ولادت کا سال 305ھ بمطابق 917ء بیس سال کی عمر میں بغداد منتقل ہو گئے۔
علمی سفر
ابوبکر جصاص نے بہت سے علمی سفر کئےاور اکابر علماء سے علم حاصل کیابالخصوص علمائے احناف سے بہت استفادہ کیا اہواز نیشاپورکے سفر کئے اور اس علمی سفر کی انتہاء بغداد میں ہوئی امام کرخی کے پاس نیشا پور میں تھے کہ ان کا انتقال ہوا۔
شيوخ
ان کے مشائخ میں
ابو الحسن الكرخی جن سے زہد و ورع حاصل کیا
ابو سہل الزجاج
عبد الباقی بن قانع حديث کا علم حاصل کیا
ابوحاتم الرازی
ابوسعيد الدارمی عثمان بن سعيد الدارمي صاحب المسند
تصنیفات
شرح الجامع الكبير محمد بن الحسن الشيبانی
شرح الجامع الصغير محمد بن الحسن الشيبانى
شرح المناسك لمحمد بن الحسن الشيبانى
شرح مختصر الفقہ للطحاوی
شرح آثار الطحاوى
مختصر اختلاف الفقہاء طحاوى
شرح ادب القاضی خصاف
شرح مختصر الكرخی
شرح الاسماء الحسنى
جوابات المسائل
احكام القرآن
الفصول فی الاصول
وفات
انکی وفات 370ھ بمطابق 980ء میں بغداد میں ہوئ
(١۔ ٢) اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی قسم کھا کر فرماتا ہے جب کہ قرآن حکیم کو بذریعہ جبریل امین رسول اکرم پر قسط وار ایک ایک دو دو تین تین اور چار چار آیتیں کر کے پورے بیس سال میں نازل فرمایا جب آیت نازل ہوئی تو عتبہ بن ابی لہب نے سنا کہ محمد قرآن حکیم کے حصوں کی قسم کھاتے ہیں تو اس نے کہا کہ محمد کو یہ ب... ات پہنچا دو کہ میں قرآن کریم کے حصوں کا انکار کرتا ہوں، جبکہ ان لوگوں نے آپ کو یہ بات پہنچائی تو آپ نے فرمایا الہ العالمین اپنے درندوں میں سے کوئی درندہ اس پر مسلط کردے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حران کے قریب ایک شیر کو اس پر مسلط کردیا تو اس شیر نے اسے اس کے ساتھیوں میں سے نکال کر قریب ہی سر سے لے کر پیر تک پھاڑ دیا اور شیر نے اس کی نجاست کی وجہ سے اسے چکھا بھی نہیں اور رسول اکرم کی بددعا کی وجہ سے جیسا وہ تھا اسی طرح اس کو چھوڑ دیا۔ یا یہ مطلب ہے کہ قسم ہے مطلق ستاروں کی جبکہ وہ غروب ہونے لگیں کہ محمد جو تم سے بیان کرتے ہیں اس میں نہ وہ راہ حق سے بھٹکے اور نہ غلطی پر ہوئے۔ Show more
تفسیر ابن عباس (تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس)
تعارف کتاب و امتیازی خصوصیات :
یہ تفسیر در اصل ایک عربی تفسیر " تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس " کا اردو ترجمہ ہے :
اصل عربی تفسیر کے مصنف ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن بن ابراہیم نجد الدین الشیرازی الشافعی ہیں۔ اور یہ تفسیر تفسیر قرآن سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی روایات کا مجموعہ ہے :
ہمارے سوفٹ ویئر " ایزی قرآن و حدیث " میں اس تفسیر کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ کا کام پر وفسیر حافظ محمد سعید احمد عاطف نے سر انجام دیا ہے۔ اور ہمارے سوفٹ ویئر میں جو نسخہ شامل کیا گیا ہے وہ " مکی دار الکتب " 37 مزنگ روڈ بک سٹریٹ، لاہور، پاکستان سے طبع شدہ ہے۔
ذیل میں ، اس کتاب کا مختصر تعارف، پیش ہے :
عربی تفسیر " تنویر المقب اس "
اس تفسیر " تنویر المقب اس " کے حوالے سے اسلاف کی آراء مختلف فیہ ہیں۔ اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث مثلا : مسند احمد بن حنبل، مسند ابی داود الطیالسی، مسند الشافعی، مسند الحمیدی، معجم طبرانی، المنتقی لابن جارود، سنن دارمی، سنن الدارقطنی میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کے اقوال و آثار بھی ہیں۔ لغتِ عرب، تاریخ عرب، ایام العرب سے استشہاد و استناد بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے مزین ہیں۔ ان تمام شواہد اور قرائن کی موجودگی میں اس مجموعہ روایات ابن عباس سے بےاعتنائی، قرینِ انصاف نہیں۔ پھر یہ تفسیر ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں میں زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے اور اہل علم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ابن عباس (رض) جیسے مفسر اعظم کی تفسیری آراء کا اس کے علاوہ کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر 1314 ھ کو امام سیوطی کی تفسیر در منثور کے حواشی پر مصر سے شائع ہوئی اور مستقل طور پر 1316 ھ کو مصر سے چھپی اور برصغیر میں کئی مرتبہ شائع ہوئی، 1285 ھ کو شاہ ولی اللہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ اور پھر شاہ رفیع الدین کے اردو ترجمہ کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ۔ اردو ترجمہ پہلی بار 1926 ء میں آگرہ سے شائع ہوا اور 1970 میں مولانا عابد الرحمن صدیقی کے ترجمہ کو کلام کمپنی کراچی نے شائع کیا۔
تعارف مفسر :
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ، ابوالعباس کنیت تھا۔ آپ کے والد کا نام حضرت عباس (رض) اور والدہ کا نام امالفضل لبابہ (رض) عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کے والد حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم تھے۔ آپ (رض) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ (رض) کی والدہ ام الفضل (رض) اور حضرت میمونہ (رض) حقیقی بہنیں تھیں۔
پیدائش
حضرت عبداللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس (رض) آپ کے بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
قبولِ اسلام
آپ کے والد محترم حضرت عباس (رض) نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل (رض) نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
ہجرت
حضرت عباس (رض) 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول
آپ کی مصاحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومینین حضرت میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھی اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر انے خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی دفع رات میں انکے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح انکو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
” ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کرلیا۔ “
آپ کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا
اسی طرح ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے بیدار ہوئے تو آپ (رض) نے وضو کے لئے پنی لا کر رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو سے فراخت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ حضرت میمونہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر یہ دعا دی۔
” اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا “
وفات : آپ (رض) کی وفات : 68 ہجری بمطابق 687 ء میں ہوئی۔
تعارف مصنف :
1. اس تفسیری مجموعہ کے مؤلف و مرتب کا مکمل نام ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین بن الشیرازی الشافعی ہے۔
پیدائش : آپ شیراز شہر کے قریب ایک گاؤں " کا زشرون " میں 749 ہجری بمطابق 1339 ء کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم :
آپ کی تعلیم کا علاقہ اور اساتذہ کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ابتداء شیراز ہی سے تعلیم حاصل بعد ازیں بغداد کا رخ کیا جو اس وقت علم و فن کا مرکز تھا۔ ازاں بعد امام ابن قیم اور امام السبکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر بیت المقدس تشریف لے گئے اور تقریبا دس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ بیت المقدس میں قریباً دس سال تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ نے حرمین شریفین، ترکی، قاہری اور ہندوستان کے شیوخ و اکابر سے بھی علم حاصل کیا۔
مقام ومرتبہ : آپ اپنے وقت کے جلیل القدر، مفسر، محدث، ماہر لغت اور اعلی پائے کے ادیب تھے۔ شخصی اعتبار سے بڑے غیرت مند، خود دار اور متقی تھے۔ زندگی کا انداز سادہ و پروقار تھا۔ ۔
آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس
بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز کے نام سے آپ نے قرآن مجید کی چھ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر قاہرہ و بیرت سے بار ہا چھپ چکی ہے۔
علامہ زمخشری کی کشات کے خطبہ کی ایک مستقل شرح لکھی۔
سیرت النبی پر مختصر کتاب سفر السعادۃ یا الصراط المستقیم کے نام سے لکھی۔
بخاری شریف کی ایک شرح بھی لکھی۔
آپ کی اہم اور مشہور ترین تالیف، القاموس، ہے۔ یہ جامع ترین عربی لغات میں شمار ہوتی ہے۔
البلغہ فی تاریخ ائمۃ اللغۃ۔
کتاب تحبیر الموشین فیما نقال بالسین والشین۔
آیت ١{ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی ۔ } ” قسم ہے ستارے کی جبکہ وہ گرتا ہے۔ “ ھَوٰی یَھْوِیْ ھَوِیًّا کا اصل معنی ہے اوپر سے نیچے گرنا۔ یہاں اس سے ستاروں کا افق سے غائب ہونا ‘ ڈوب جانا یا فنا ہوجانا مراد ہوسکتا ہے۔ (اس پر قدرے تفصیلی بحث سورة الواقعہ میں ” مَوَاقِعِ النُّجُوْم “ کے ضمن میں آئے گی۔ ) الْ... ھَوِیَّۃ گہرے کنویں کو اور ھَاوِیَۃ دوزخ کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسی مادہ سے ھَوِیَ یَھْوٰی ھَوًی کا معنی ہے خواہش کرنا۔ یہ لفظ (الھَوٰی) آگے آیت ٣ میں آ رہا ہے۔ Show more
1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
تعلیمی پس منظر
قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
سیاسی زندگی[ترمیم ]
دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
بحیثیت اسلامی اسکالر
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
وفات
ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
1 In the original the word "an-najm"has been used. Ibn `Abbas, Mujahid and Sufyan Thauri opine that it implies the Pleides. Ibn Jarir and Zamakhshari have held this same interpretation as preferable, for in Arabic when the word an -najm is used absolutely it usually implies the Pleides. Suddi says that it implies Venus; and Abu `Ubaidah, the grammarian, holds that here the word an-najm has been us... ed generically so as to express this idea: "When the day dawned, and the stars set." In view of the context we are of the opinion that this last interpretation is more preferable. Show more
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :1 اصل میں لفظ النّجم استعمال ہوا ہے ۔ ابن عباس ، مجاہد اور سُفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا ( Pleiades ) ہے ۔ ابن جریر اور زمخشری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے ، کیونکہ عربی زبان میں جب مطلقاً النجم کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً اس سے ثریا ہی مراد لیا جات... ا ہے ۔ سدی کہتے ہیں کہ اس سے مراد زہرہ ( Venus ) ہے ۔ اور ابو عبیدہ نجوی کا قول ہے کہ یہاں النجم بول کر جنس نجوم مراد لی گئی ہے ، یعنی مطلب یہ ہے کہ جب صبح ہوئی اور سب ستارے غروب ہو گئے ۔ موقع و محل کے لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ آخری قول زیادہ قابل ترجیح ہے ۔ Show more
1. ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن
تفہیم القرآن
یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ١٩٤٩ ء میں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے ؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے : " اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ، میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔
مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چناچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص و واقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔
بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں رقمطراز ہیں :
" جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا "۔
(تفہیم القرآن : ٤/٣٢٧)
اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
تعارف مصنف :
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش :1903 ء، انتقال :1979 ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903 ء بمطابق 1321 ھ میں اور نگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اور نگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔
1914 ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اور نگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
1: ستارے کے گرنے سے مراد اُس کا غائب ہونا ہے۔ جیسا کہ سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، اس سورت کا اصل موضوع حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی رسالت کو ثابت کرنا ہے، اس لئے سورت کے شروع میں آپ پر نازل ہونے والی وحی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد فرشتہ آپ کے پاس لے کر آتا ہے۔ شروع ... میں ستارے کی قسم کھانے سے اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح ستارہ روشنی کی ایک علامت ہے، اور عرب کے لوگ اُس سے صحیح راستے کا پتہ لگاتے تھے، اسی طرح حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت کا پیکر ہیں۔ اس کے علاوہ ستارے کے سفر کے لئے اﷲ تعالیٰ نے جو راستہ مقرّر فرمایا ہے، وہ اُس سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا، اور نہ اُس سے بھٹکتا ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ وہ نہ راستہ بھولے ہیں، نہ بھٹکے ہیں۔ پھر جب ستارہ غائب ہونے والا ہوتا ہے تو اُس کے ذریعے راستہ زیادہ آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ مسافروں کو اُس کا زبانِ حال سے یہ پیغام ہوتا ہے کہ میں رُخصت ہونے والا ہوں، مجھ سے راستہ معلوم کرنے میں جلدی کرو۔ اسی طرح حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دُنیا میں زیادہ عرصے مقیم نہیں رہیں گے، اس لئے آپ سے ہدایت حاصل کرنے والوں کو جلدی کرنی چاہئیے۔ Show more
نام : توضیح القرآن ترجمہ آسان قرآن
مترجم و مفسر : مولانا مفتی تقی عثمانی
ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی
زیر نظر نسخہ : طبع جدید جمادی الاول 1430 ۔ مئی 2009 ء
مختصر تعارف :
مصنف تفسیر ھذا کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :
آج سے چند سال پہلے تک میرا خیال یہ تھا کہ اردو میں مستند علمائے کرام کے اتنے ترجمے موجود ہیں کہ ان کے بعد کسی نئے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ جب کچھ حضرات مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کرتے تو اس خدمت کو عظیم سعادت سمجھنے کے باوجود اول تو اپنی نااہلی کا احساس آڑے آتا، اور دوسرے کسی نئے ترجمے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
لیکن پھر مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا، اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو بذات خود ایک عظیم معجزہ ہے، اس لیے اس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ جو قرآن کریم کی بلاغت اور اس کے بےمثال اسلوب اور تاثیر کو کسی دوسری زبان میں منتقل کردے، بالکل ناممکن ہے۔ لیکن اپنی بساط کی حد تک بندہ نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا مطلب آسان، بامحاورہ اور رواں انداز میں واضح ہوجائے۔ یہ ترجمہ بالکل لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے، اور اتنا آزاد بھی نہیں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ سے دور چلا جائے۔ وضاحت کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الوسع قرآن کریم کے الفاظ سے بھی قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور جہاں قرآن کریم کے الفاظ میں ایک سے زیادہ تفسیروں کا احتمال ہے، وہاں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے کے الفاظ میں بھی وہ احتمالات باقی رہیں۔ اور جہاں ایسا ممکن نہ ہوسکا، وہاں سلف کے مطابق جو تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوئی، اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
تشریحی حواشی میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے والے کو جہاں مطلب سمجھنے میں کچھ دشواری ہو، وہاں وہ حاشیہ کی تشریح سے مدد لے سکے، لمبے تفسیری مباحث اور علمی تحقیقات کو نہیں چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ مفصل تفسیریں موجود ہیں۔ البہ ان مختصر حواشی میں چھنی چھنائی بات عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔
تعارف مصنف :
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کررہے ہیں۔
•
پیدائش
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
تعلیم
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
اجازت
آپ نے اپنے وقت کے تقریبا تمام جید علماء سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود انکے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔
تصوف و معرفت
مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی کے انتقال کے بعد آپ انکے خلیفہ مجاز ہیں۔
تدریس
مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
رکن اسلامی نطریاتی کونسل
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
بحثیت جج
مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لئے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہوگئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ بحثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
اسلامی بینکاری
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔
اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اور گنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
ملی و سیاسی کردار
مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبه اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے زریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمری کہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹیوی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
کتابیں
• آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
• آسان نیکیاں
• اندلس میں چند روز
• اسلام اور سیاست حاضره
• اسلام اور جدت پسندی
• اکابر دیوبند کیا تھے
• تقلید کی شرعی حیثیت
• پرنور دین
• تراشے
• بائبل کیا ہے
• جہاں دیدہ
• دنیا میرے آگے
• حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
• حجت حدیث
• حضور نے فرمایا
• فرد کی اصلاح
• علوم القرآن
• ہمارا معاشی نظام
• نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
• عدالتی فیصلے
• عیسائیت کیا ہے
• درسِ ترمذی
١۔ ٣٠۔ تاروں کے ڈوبنے کے وقت کی قسم میں جو کچھ قدرت کا بھید ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے لیکن اتنا تو ظاہر ہے کہ جس طرح انسان کا سونا جاگنا ‘ ہر سال کھیتیکا کٹ جانا اور اسی بیج سے دوسرے سال پھر پیداوار کا ہوجانا وغیرہ ‘ جہاں یہ سب چیزیں اللہ کی قدرت اور حشر کا نمونہ ہیں اسی طرح تاروں کا وقت م... قررہ پر نکلنا اور وقت مقررہ پر چھپ جانا یہ بھی اسی کی قدرت اور حشر کا ایک نمونہ ہے۔ چناچہ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی نمونہ سے اللہ تعالیٰ کو پہنچانا۔ ضال وہ شخص ہے جو جہل کے سبب سی بہکا ہوا ہو بےراہ وہ جو جان بوجھ کے حق بات کو چھوڑ دے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہی اہل مکہ میں پلے ‘ بڑے ہوئے اور نبوت سے پہلے اہل مکہ آپ پر دیوانگی یا جھوٹ کا کوئی الزام نہیں لگاتے تھے۔ اسی واسطے فرمایا کہ ہی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تم لوگوں کے ہمیشہ کے رفیق ہیں اور تم کو ان کا حال ہر طرح سے خوف معلوم ہے۔ نہ وہ دیوانے ہیں نہ ملت ابراہیمی سے کچھ بےراہ ہوئے ہیں نہ اپنی ذاتی غرض سے انہوں نے خود یہ قرآن بنایا ہے بلکہ آسمانی وحی کے ذریعہ سے اللہ کا جو حکم ان کو پہنچا ہے وہی تم کو وہ سنا دیتے ہیں۔ اب بعد اس کے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا حال فرمایا کہ وہ بڑے صاحب قوت ہیں۔ ان کی قوت کے سبب سے وحی کے لانے اور اللہ کے رسول تک پہنانے میں شیطان کا کچھ دخل نہیں ہے کیونکہ جبرئیل (علیہ السلام) کی قوت سے شیطان ڈرتا ہے۔ چناچہ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ بدر کی لڑائی کے وقت پہلے تو شیطان سراقہ بن مالک کی صورت میں مشرکین کے لشکر میں موجود رہا۔ جب لشکر اسلام کی مدد کو فرشتے آئے اور شیطان نے جبرئیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانا تو بھاگ گیا۔ قوم لوط کے قصے میں حضرت جبرئیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (علیہ السلام) کی قوت کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہوں نے قوم لوط کے لاکھوں آدمیوں کے رہنے کی چار بستیاں اپنے ایک پر پر اٹھا کر آسمان تک ان کو بلند کیا اور پھر ان کو الٹ دیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے۔ ایک دفعہ شروع نبوت میں جو وحی کے رک جانے کا زمانہ تھا اور دوسری دفعہ معراج کی رات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ان دونوں دفعہ کا ذکر ان آیتوں میں ہے پہلی دفعہ کے دیکھنے اور دوسری دفعہ کے دیکھنے میں دس برس کے قریب کا آگا پیچھا ہے۔ اذا الشمس کورت معراج سے پہلے نازل ہوئی ہے اسی لئے اس میں فقط پہلی دفعہ کے دیکھنے کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اقراء کی اول آیتیں مالم یعلم تک نازل ہونے کے بعد تین برس کے قریب تک وحی بند رہی جس کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا رنج تھا۔ اس رنج کے زمانہ میں آپ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں آسمان کے مشرقی کنارے پر دیکھا۔ مشرقی کنارہ آسمان کا وہ ہے جہاں سے سورج نکلتا ہے۔ یہ کنارہ اس کنارے سے بلند ہے جہاں سورج غروب ہوتا ہے اس لئے اس کو اونچا کنارہ فرمایا۔ صحیح ١ ؎ مسلم میں جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے رک جانے کے تذکرہ میں فرمایا کہ اسی زمانہ میں پہلے جو فرشتہ میرے پاس مقام حرا میں آیا تھا اسی کو میں نے زمین اور آسمان کے مابین میں ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا جس سے میں ڈر کر زمین پر گر پڑا۔ ایک دفعہ دو تین دن کے لئے وحی اور بھی رک گئی ہے جس کے بعد سورة والضحیٰ نازل ہوئی ہے وہ وحی کا رکاؤ اس کے علاوہ ہے بعض راویوں کو ان دونوں رکاؤ میں دھوکا ہوگیا ہے۔ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا تو حضرت جبرئیل کے چھ سو پر تھے۔ فاستویٰ وھو بالافق الاعلیٰ کا مطلب وہی ہے جو جابر بن عبد اللہ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین و آبمان کے مابین میں آسمان کے مشرقی کنارہ پر جبرئیل (علیہ السلام) کو ایک کرسی پر سیدھا بیٹھے دیکھا۔ ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین ادادنی فاوحی الی عبدہ ما اوحی کا مطلب قتادہ وغیرہ مفسرین ٣ ؎ کے مشہور قول کے موافق یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) آدمی کی صورت میں اس آسمان کے مشرقی کنارہ سے اتر آئے اور زمین پر اتر کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے نزدیک آگئے کہ فقط دو گز یا اس سے بھی کم کا فرق رہ گیا اور پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق وحی پہنچائی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق جس کو ابن مردویہ ١ ؎ نے اپنی تفسیر میں معتبر سند سے روایت کیا ہے۔ یہاں قاب کے معنی مقدار کے ہیں اور قوس کے معنی گزر کے۔ بعض مفسروں نے آیت کی تفسیر یوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا نزدیک ہوا کہ فقط دو گز یا اس سے بھی کم کا فرق رہ گیا۔ یہ تفسیر ابن مالک کی اس حدیث کی بنا پر ہے۔ جو صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں شریک بن عبد اللہ کی روایت سے ہے لیکن زہری قتادہ وغیرہ ثقہ لوگوں نے انس بن مالک کی شریک بن عبد اللہ کی روایت کے برخلاف روایت کیا ہے اس لئے شریک بن عبد اللہ کی روایت کی صحت میں علماء کو کلام ہے ماکذب الفواد مارای کا مطلب حضرت ٣ ؎ عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظاہری آنکھوں سے دو دفعہ جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ایک قوت بصارت جو پیدا کی تھی اس دل کی بصارت سے آپ نے اللہ تعالیٰ کو دو دفعہ دیکھا اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ معراج سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا اس کا اور معراج کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کی تنبیہ فرمائی کہ بیت المقدس کی جن چیزوں کا حال تم لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول نے وہ سب حال تم سے صحیح صحیح بیان کردیا جس کو تم لوگ جھٹلا نہ سکے۔ پھر اللہ کے رسول اللہ کی قدرت سے عادت کے خلاف جس طرح ایک دم میں بیت المقدس پہنچ گئے اور بیت المقدس کی سب چیزوں کو دیکھا اسی طرح اس رات میں آسمان کے عجائبات بھی انہوں نے دیکھے۔ ان کی دیکھی ہوئی چیزوں کو اوپری باتوں کے جھگڑے نکال کر جو تم لوگ جھٹلاتے ہو یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بیت المقدس کی حالت نے تمہاری سب اوپری باتوں کی جڑ اوکھیڑ دی ہے اب تمہارا کیا منہ ہے کہ تم دیکھی ہوئی باتوں کے مقابلہ میں اوپری باتوں سے جھگڑا نکال سکو صحیح مسلم ٤ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا معراج کی اور باتوں کی تصدیق کے لئے اپنی دیکھی ہوئی بیت المقدس کی چند چیزوں کا حال جب قریش نے مجھ سے پوچھا تو مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ صرف معراج کی رات ایک ہی دفعہ میں نے بیت المقدس کو دیکھا ہے اور یہ لوگ بارہا ادھر کا سفر کرچکے ہیں ایسا نہ ہو کہ میری یاد میں اور ان کے دیکھنے میں اختلاف پڑجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس وقت بیت المقدس کو مرنی نظروں کے سامنے کردیا اور میں نے قریش کی سب باتوں کا جواب اس طرح دے دیا کہ وہ کسی بات کو جھٹلا نہ سکے۔ اس آیت میں قریش کے قائل کرنے کا مختصر جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ بیت المقدس کی حالت کی تصدیق کے بعد اہل مکہ کو معراج کی باتوں کے جھٹلانے کا موقع باقی نہ رہا تھا اس لئے معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں جو دیکھا تھا اس کا ذکر فرمایا تاکہ اہل مکہ جان لیں کہ جس طرح معراج کی رات کا جبرئیل (علیہ السلام) کا دیکھنا ہے ویسا ہی اس سے پہلے کا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کا یہ نام پرلی حد کی بیری اس لئے قرار پایا کہ اس بیری کی پرلی طرف کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ فرشتوں کی معلومات کی یہ بیری کا پیڑ گویا حد ہے اکثر روایتوں کے موافق یہ بیری کا پیڑ ساتویں آسمان پر ہے۔ بعضی روایتوں میں چھٹے آسمان پر جو اس کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے تو اس کو راوی کا سہو بتایا ہے۔ بعضوں نے دونوں روایتوں میں یوں مطابقت کی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور ٹہنیاں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ماویٰ رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جو جنت ہے وہ جبرئیل (علیہ السلام) کے رہنے کی جگہ ہے اور شہیدوں کی روحیں بھی اسی میں رہتی ہیں اس لئے اس جنت کا نام جنت الماوی ہے اس بیری کے پیڑ پر طرح طرح کے رنگ تھے ان کو تو آپ نے فرمایا مجھے معلوم نہیں وہ کیا رنگ اور کس چیز کے تھے۔ اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ ایک طرح کے سنہری جانور اور فرشتے تھے پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جن چیزوں نے اس بیری کے درخت کو ڈھانک رکھا ہے اور اس ڈھانکنے سے جو زینت اور خوبی اس بیری کے پیڑ میں پیدا ہوگئی ہے اس کا بیان کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے یہ سب باتیں اس بیری کے متعلق صحیح ١ ؎ حدیثوں میں ہیں اور وہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں آگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استقلال کا ذکر فرمایا ہے کہ اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمانوں پر جنت و دوزخ اور بہت سے عجائبات دیکھے مگر اصلی خیال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رسالت کے کام کی طرف متوجہ رہا۔ اس لئے ان عجائبات کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر زیادہ مائل نہیں ہوئی۔ چناچہ جو توجہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٤٥ نمازوں کے معاف کرانے میں حضرت موسیٰ کے مشورہ کے موافق مصروف کی وہ توجہ عجائبات کے دیکھنے میں نہیں کی اب جن مفسروں نے یہ لکھا ہے کہ معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا ‘ یہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت اس کے مخالف ہے وہ یہ فرماتے ہیں کہ اس سورة میں خود اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا ذکر ہے۔ امام نووی ١ ؎ اور امام حافظ ابن حزیمہ (رض) وغیرہ نے حضرت عائشہ (رض) کے قول پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے کوئی مرفوع حدیث اس باب میں اپنے قول کی تائید میں ذکر نہیں کی۔ اسی واسطے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے مقابلہ میں حضرت عائشہ (رض) کا قول مقبول نہیں ہوسکتا کیونکہ تفسیر کے باب میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کا زیادہ اعتبار ہے۔ حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں امام نووی کے اس اعتراض پر بڑا تعجب ظاہر کیا ہے اور حقیقت میں تعجب کی بات ہے کہ خود صحیح مسلم میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت کی مرفوع حدیث موجود ہے اور امام نووی نے اس حدیث کی شرح بھی کی ہے جس حدیث کا حاصل ٣ ؎ یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں امت کے سب لوگوں سے پہلے میں نے ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مسئلہ کو پوچھا اور آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل کو جو میں نے اصلی صورت میں دیکھا سورة نجم میں اسی کا ذکر ہے پھر باوجود اس کے امام نووی نے حضرت عائشہ (رض) کے قول پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت عائشہ سے کوئی مرفوع روایت اس باب میں نہیں ہے۔ یہی وجہ حافظ ابن حجر کے تعجب کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے قولوں کے اخلاف کو یوں رفع کردیا ہے کہ صحیح ٤ ؎ مسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے جو روایتیں ہیں۔ ان میں انہوں نے صاف بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ایک قوت بصارت پیدا کی تھی اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی معمولی آنکھوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ کے نہ دیکھنے میں حضرت عائشہ (رض) اور عبد اللہ بن عباس (رض) دونوں متفق ہیں۔ رہا خاص معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ‘ یہ اکثر سلف کی روایتوں سے نہیں پایا جاتا۔ حافظ ابن قیم نے زادا المعاد میں اس مسئلہ کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سورة میں جبرئیل (علیہ السلام) کی قربت اور رویت کا ذکر ہے لیکن معراج کی حدیثوں میں اللہ تعالیٰ کی قربت اور رویت کا ذکر ہے۔ معراج کی حدیثیں سورة بنی اسرائیل میں گزر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے معراج کا اور معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرح طرح کی نشانیاں جو دیکھیں اس کا ذکر فرمایا اور پھر قریش میں کے بت پرست لوگوں کی بتوں کی مذمت فرمائی اور فرمایا اللہ کے رسول جو نصیحت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور اللہ کے حکم کے موافق ہے۔ اللہ کے حکم میں کہیں بت پرستی کی اجازت نہیں ہے۔ شیطان کے بہکانے سے ان بت پرستوں نے یہ بت پرستی اپنی طرف سے تراش لی ہے۔ پھر آخر کو نتیجہ کے طور پر یہ فرمایا کہ ان لوگوں کی دانائی کا یہ حال ہے کہ اللہ کے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں اور جس خدا نے سب کچھ پیدا کیا اس خدا کی عبادت میں اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے بتوں کو شریک کرتے ہیں اور اگرچہ آسمانوں کا حال ان کو معلوم نہیں لیکن جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تفصیلی حال معراج اور آسمانوں کا بیان کیا تھا تو ان کو عقل دوڑانی چاہئے تھی کہ بغیر تائید غیبی کے اس طرح غیب کا حال کون بیان کرسکتا ہے لیکن بجائے اس عقل دوڑانے کے انہوں نے یہ کیا کہ ملک شام اور مسجدیت المقدس کی جو چیزیں ان لوگوں کی دیکھی ہوئی تھیں اور اللہ کے رسول نے معراج کے سفر میں سے ان چیزوں کا مفصل حال ان لوگوں سے بیان کردیا جب بھی ان لوگوں نے نافہمی سے معراج کو سچا نہ جانا اور طرح طرح کے وہم اور گمان کے شبہات اس میں نکالتے رہے آخر کو فرمایا کہ راہ پر آنے والوں کو اور گمراہ ہونے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے یہ لچھن ان لوگوں کی گمراہی کے ہیں۔ اے رسول اللہ کے تم کو ان لوگوں کی باتوں کا کچھ خیال نہ کرنا چاہئے۔ یوں تو مکہ میں کچھ اوپر تین سو بت تھے جن کی پوجا ہوتی تھی لیکن جن تین بتوں کا نام ان آیتوں میں ہے یہ زیادہ مشہور تھے اس لئے ان ہی کا ذکر فرمایا جس میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ کی قدرت کی تو سینکڑوں نشانیاں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمانوں پر معراج میں دیکھیں اور ہزاروں نشانیاں زمین پر سب کی آنکھوں پر سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ان بتوں نے کیا پیدا کیا جو یہ بت پرست لوگ ان بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اول تو مشرکین مکہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے لیکن قیامت کا قدیم ہونا فرضی طور پر مان کر یہ کہتے تھے کہ اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو جن بتوں کو ہم پوجتے ہیں یہ نیک لوگوں کی مورتیں ہیں وہ نیک لوگ ہماری شفاعت کرکے ہم کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان تو انسان اللہ کے فرشتے جو ہر وقت اللہ کی جناب میں حاضر رہتے ہیں ‘ وہ بھی مشرک کی شفاعت نہیں کرسکتے کیونکہ شفاعت کے لئے اللہ کی اجازت ضروری ہے۔ مشرک کی شفاعت کے لئے اللہ کی اجازت ممکن نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صاف فرما چکا ہے کہ جو مشرک بغیر توبہ کے مرجائے گا اس کی بخشش نہ ہوگی۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب بدا الوحی الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٩٠ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری الخ ص ٩٧ ج ١ و صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص ٧٣٠ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٤٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٢٣ ج ٦۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ وکلم اللہ موسیٰ تکلیما ص ١١٢٠ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٤٩ ج ٤ و صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخریٰ ص ٩٨ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب الاسرا برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ ص ٩٦ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب الاسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٩١ ج ١ و باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص ١٩٧ ج ١ و صحیح بخاری باب المعراج ص ٥٤٩ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی ص ٩٧ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص ٩٨ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص ٩٨ ج ١۔ ) Show more
احسن التفاسیر
احسن التفاسیر تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ١٣٣٨ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ١٣٢٠ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔
سید احمد حسن احسن التفاسیر کی تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قرآن شریف عربی زبان میں ہے۔ اور ہر شخص کو عربی زبان کے سمجھنے کی طاقت نہیں، اس واسطے شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم کے عام فہم اردو کے ترجمہ کے زیادہ عام فہم ہوجانے کی غرض سے اسی ترجمہ کی سلیس اردو کے ڈھنگ پر پہلے چیدہ چیدہ آیتوں کے فوائد احسن الفوائد کے نام سے تین ترجمے کے قرآن مطبوعہ مطبع فاروقی کے حاشیہ پر چھاپ دیے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان فوائد سے مسلمان بھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا جس کے سبب سے اس قرآنی ترجمہ مع فوائد کے اب بہت لوگ خواہش مند ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ملتا۔ ان فوائد میں چیدہ چیدہ آیتوں کا مطلب تھا، اس واسطے ان فوائد سے پورے قرآن شریف کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا تھا، اسی لیے ان فوائد کا یہ نقصان رفع کردینے کی غرض جسے شاہ عبدالقادر مرحوم کے ترجمہ کا یہ قرآن اس ڈھنگ سے چھاپا گیا کہ اوپر قرآن شریف کی آیتیں اور ان کا ترجمہ ہے اور نیچے احسن التفاسیر کے طور پر تمام قرآن شریف کی مختصر صحیح تفسیر ہے تاکہ ترجمہ اور اس تفسیر کی مدد سے اردو دان مسلمان مرد اور عورتیں قرآن شریف کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
مصنف کے احوال :
مؤلف احسن التفاسیر اللہ تعالیٰ
١٢٥٨۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٨ ھ
مولدومسکن : آپ کا خاندان قدیم الایام سے دہلی کا رہنے والا تھا۔ ١٢٥٨ ھ میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے قلعہ معلّٰی میں اچھے حاصے خاندانی تعلقات کے باعث بچپن قلعہ معلّٰی میں گذرا۔
حفظ قرآن : وہی قاری امیدعلی صاحب سے جن کا وطن ڈھا کہ تھا لیکن عرصہ دراز سے دہلی میں رہ رہے تھے۔ قرآن مجید حفظ شروع کیا۔ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
فارسی کی ابتدائی کتابیں : چودہ سال کی عمر تک اس قدر پڑھ ڈالیں کہ فارسی کی عبارت سمجھنے کی اچھی استعداد پیدا ہوگئی۔ عام قابلیت بھی اتنی ہوچکی تھی کہ وہ خط و کتابت بخوبی کرسکتے تھے۔
ترک وطن : انہی ایام میں ١٨٥٧ ء کا ہنگامہ ہوگیا۔ اس طوفانِ رست خیز میں آپ کے والد بال بچوں سمیت پٹیالہ (حال مشرقی پنجاب ) چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کے والد ماجدنے فارسی کتابوں کی خود تعلیم دینی شروع کی، نیز آپ کو مرزرا احمد بیگ کے بھی سپرد کردیا گیا۔ غالباً اس لئے کہ دفتر کاموں کی واقفیت پیدا ہو سکے۔ چناچہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں فارسی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دفتری امور میں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ جو حید آباد کی ملازمت کے دوران میں خوب کام آئی۔
علوم آلیہ کی تحصیل : بعدہٗ ٹونک چلے گئے جو ان دنوں صرف و نحود وغیرہ کامرکز تھا۔ صرف دنحو کی تمام کتابوں کی تکمیل یہاں کرلی اتنے میں دہلی ک حالت معمول پر آئی تو آپ کے والد ماجد پٹیالہ سے دہلی واپس آگئے۔
آپ بھی والدین کی اوقات کے لئے ٹونک سے دہلی آئے اور والد کے اصرار پر ٹونک کا ارادہ ترک کر کے دہلی میں ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ایک ہم سبق مولوی عبد الغفور ١ جو بڑے لائق اور قابل آدمی تھے۔ کی معیت میں جناب مولانا محمد حسین ٢ خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا فیض تدریس نحبی طور پر خواجہ ضلع بلند شہر (ہند) میں جاری تھا اور علوم میں اعلیٰ قابلیت کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں صرف ونحو کو اچھی طرح ضبط کرنے کے علاوہ منطق کی ابتدائی اور وفقہ و ا صولِ فقہ کی کتابیں خوب پڑھیں۔
اس کے بعد علی گڑھ جا کر مولانا فیض الحسن صاحب سہارن پوری سے اکتسابِ علوم کیا فقہ و اصول اور منطق وغیرہ کی بقیہ کتابوں کے ساتھ ہی تفسیر بھی ان سے پڑھی۔
تفسیر و حدیث کی تکمیل : پھر واپس آکر حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث قدس اللہ سرہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا اور حضرت سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں تفسیر و صحاح کی تکمیل کر ڈالی۔ چناچہ حضرت میاں صاحب a نے سند حدیث عنایت فرمائی ۔
طب : تکمیل علوم شرعیہ کے بعد حکیم امام الدین صاحب مرحوم سے پوری طب پڑھی اور حکیم حسام الدین خاں صاحب مرحوم (عرف منجھلے میاں) کے مطب میں ایک عرصے تک بفرض تجربہ حاضر رہ کر طبابت کی بھی سند حاصل کرلی۔
سند فراغت کے بعد : حضرت میاں صاحب کی خدمت میں کچھ م دت تدریس و فتویٰ میں مصروف رہے پھر حضرت ہی کے مشورہ سے جناب مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم ۔ مصنف ترجمۃ القرآن کے ہاں شادی قرار پائی۔
ان دنوں ڈپی نذیر احمد صاحب (رح) کا گورکھ پور (ہند) میں قیام تھا۔ شادی وہیں عمل میں آئی۔ پھر ٹونک چلے گئے لیکن کچھ مدت بعد ڈپٹی صاحب موصوف آپ کو حیدر آباد دکن لے گئے اور ضلع نانذیر میں آٹھ سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوایا۔ جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی۔
١٣٠٨ ھ میں حج بیت اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ وہاں آپ کو بھی حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا مگر آپ نے بخندہ پیشانی ان سب کو جھیلا اور ١٣٩٠ ھ کو بخیریت واپس تشریف لائے۔
علمی شغف : علمی ذوق کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت کے دوران میں آپ نے تین ترجموں والا قرآن مجید مرتب کیا پہلا ترجمہ فارسی فتح الرحمن از شاہ ولی اللہ صاحب (رح) دوسراؔ اردو تحت اللفظ از شاہ رفیع الدین ، تیسیرا اردو با محاورہ از شاہ عبد القادر صاحب۔ پھر اس پر ” احسن الفوائد “ کے نام سے بہترین ملحض تفسیر ی حواشی خود لکھے۔ اس قرآن مجید کو آپ نے اپنے خرچ پر طبع کرایا۔
تصانیف : احسن ١ الفوئد (اردو تفسیر ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ دو دفعہ دہلی میں طبع ہوا۔ (با ر اوّل ١٣١٥ ھ بار دوم ١٣٤٧ ھ) ٢ تفسیر احسن التفاسیر (اردوض ہزاروں صفحات پر مشتمل بہترین اردو تفسیر ١٣٢٥ ھ میں مطبع فاروق دہلی سے سات بڑی جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر بڑی قابلیت سے مرتب کی گئی ہے جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان اور عام فہم انداز میں کردیا گیا ہے۔
٣ مقدمہ تفسیر احسن التفاسیر جو اعلیٰ تفسیری فوائد اور علمی نکات و مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ١٣٣٠ ھ ، ١٩١٢ ء میں طبع ہوا۔
٤ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) صرف سورة بقرہ کا حصہ کانفرنس اہلحدیث دہلی نے شائع کیا تھا، پور ی ہوجاتی، تو اردو میں آیات احکام کی تفسیر میں اپنی نظیر آپ ہوتی۔ ٤٢٤ صفحات پر ١٩٢١ ء میں بمقام دہلی طبع ہوئی۔
٥ حاشیہ بلوغ المرام (عربی ) فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ ، متن کے ساتھ کم و بیش ٥٠ ٣ صفحات پر مطبع فاروقی دہلی سے ١٣٢٥ ھ میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٧٨ ء میں سرگودھا سے شائع ہوا۔
٦ تنفتح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ کامل محدثانہ طریق پر مشکوٰۃ کا جامع اور بےنظیر حاشیہ ، پہلی جلد خود لکھی باقی اپنی نگرانی میں اور ہدایت کے تحت استاد محترم مولانا محمد شرف الدین محدث دہلوی (متوفی ٰ ١٣٨١ ھ ) سے لکھوائی۔ پہلا ربع ١٣٢٥ ھ میں مطب انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع ١٣٣٣ ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ دوسرا نصف مجتبائی والوں ک سر د مہری کی نذر ہوگیا تھ ا۔ تا ہم تلاش بسیار کے بعد مبطع مجتبائی والوں کے ورثاء سے اس کا کرم خوردو مسودہ دستیاب ہوگیا اور اس کا تیسیرا ربع راقم کی تصحیح و تحقیق اورا ضافوں کے ساتھ ١٤٠٤ ھ میں دار لدعوۃ السلفیہ لاہور کے اہتمام میں چھپا اور آخری ربع (جو بہت زیادہ خرا بکو کرم خوردہ ہے ) اس کی تصحیح و تحقیق اور استدراکات کا کام جاری ہے۔
٧ بحر ذخار بجوا انتصار ، مولانا انتشار حسین رام پوری نے حضرت میاں صاحب (رح) کی معرکۃ الآرا کتاب ” معیار الحق “ کے جواب میں ” انتصار الحق “ بڑی ضخیم کتاب لکھی ” بخر زخار “ کم بیش تین سوصفحات پر مشتمل اسی کتا ب کا مدلل ، معقول اور سنجیدہ جواب ہے۔
٨ صراط الاھتداء فی بیان الاقتدارء اہلحدیث کے امتیازی مسائل کی تحقیق اور اہل حدیث کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز میں مدلل یہ کتاب ١٢٨٩ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی۔
٩ عمر کے آخری دور میں مسند احمد کی احادیث کی تخریج شروع کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کتنا کیا تھا ؟ اور وہ کہیں محفوظ ہے یا نہیں ؟
وفات : ١٧؍جمادی الاولیٰ ١٣٣٨ ھ (٩ مارچ ١٩٢٠ ء ) تقریباً اسی ٨٠ اسی سال کی عمر میں انتقال فرمایا :
(53:1) والنجم : واؤ قسمیہ ہے۔ اذا۔ جب ، جس وقت، ناگہاں۔ ظرف زمان ہے زمانہ مستقبل پر بھی دلالت کرتا ہے کبھی زمانہ ماضی کے لئے بھی آتا ہے جیسے واذاراوا تجارۃ اولہوا ن انفضوا الیہا (62:11) اور جب ان لوگوں نے سودا بکتا یا سودا ہوتے دیکھا تو جھٹک کر ادھر ادھر چل دئیے۔ اور اگر اذا قسم کے بعد واقع ہو تو ... پھر زمانہ حال کے لئے آتا ہے جیسا کہ آیت زیر غور میں ہے۔ والنجم اذا ھوی (53:1) اور قسم ہے تارے کی جب وہ گرنے لگے۔ جب وہ غائب ہوجائے۔ ھویٰ ماضی واحد مذکر غائب ھ و ی مادہ سے مصدر۔ ھوی ھ کی فتح سے باب ضرب سے بمعنی (ستارہ کا طلوع ہونا۔ اور مصدر ھوی ( ھ کے ضمیر سے) باب ضرب سے بمعنی (ستارہ کا) غروب ہونا۔ مستعمل ہے ۔ چونکہ ہر دو مصادر میں ھوی یھوی (ماضی اور مضارع) کی ایک ہی صورت ہے لہٰذا ھوی بمعنی (ستارہ کا) طولع ہونا یا غروب ہونا ہر دو طرح جائز ہے اور دونوں معانی بھی ایک ہی صیغہ میں لئے جاسکتے ہیں یعنی (ستارہ کا) طلوع و غروب ہونا۔ الھوی (باب سمع) کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفسانی خواہش میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہہ دیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف و منزلت کے مقام سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہے۔ والنجم اذا ھوی : قسم ہے تارے کی جب وہ طلوع ہو یا غروب ہوجائے، النجم مقسم بہٖ ہے۔ النجم کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) جمہور کا قول ہے کہ اس سے مراد ستارہ ہے پھر اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ 1 بعض کے نزدیک یہ کہ کوئی خاص ستارہ نہیں بلکہ جنس مراد ہے یعنی ہر ایک ستارہ۔ 2 بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا ستارہ ہے کلام عرب میں النجم بول کر یہی مراد لیتے ہیں۔ 3 بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد شعریٰ ستارہ ہے قرآن مجید میں ہے وانہ ھو رب الشعری (54:49) اور یہ کہ وہی شعریٰ کا مالک ہے۔ 4 بعض کہتے ہیں کہ اس سے زہرہ مراد ہے۔ بہرکیف ایک ستارہ خاص ہو یا عام مگر ستارہ مراد لینا ایک قول ہے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد زمین پر پھیلنے والی بیلیں ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے والنجم والشجر یسجدان (55:6) اور بیلیں اور درخت (ہر دو ) سجدہ کر رہے ہیں ۔ (3) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کو ظلمات عالم میں روشنی دینے کے سبب بطور استعارہ کے ستارہ کہنا بہت ہی ٹھیک ہے۔ (4) چوتھا قول یہ ہے کہ : النجم سے مراد قرآن شریف ہے تنجیم کے معنی ہیں تفریق اور قرآن مجید ٹکڑے ٹکڑے یعنی تھوڑا تھوڑا ہوکر نازل ہوا ہے۔ اب نجم کے کوئی معنی ہی لے لو مگر اذا ھوی (جب کہ وہ جھکے) سے اسی کے مناسب معنی مراد لئے جائیں گے۔ ستاروں کا جھکنا طلوع و غروب جو خدا کی شان جبروت بتاتا ہے۔ زمین کی وہ بوٹیاں جن کو درخت نہیں کہتے ان کا جھکنا وہی جھکنا ہے جو ہوا سے سربسجود ہوکر اس کی شان یکتائی بتایا کرتی ہیں۔ قرآن کا جھکنا اس کا اوپر سے نازل ہونا ہے۔ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ وسلم کا جھکنا رکوع و سجود کرنا ہے جو خدا کے نزدیک ایک عمدہ حالت ہے اور آپ کا جھکنا ذات باری تعالیٰ کی طرف منازل قربت طے کرنا ہے۔ (5) پانچواں قول یہ ہے کہ بعض عرفاء (صوفیہ) کے نزدیک النجم کے معنی بندہ کا دل ہے جو ظلمات ہیولانیہ میں خدا تعالیٰ کا چمکتا ستارہ ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس میں اور بھی روشنی آجاتی ہے جس سے وہ حق اور باطل میں تمیز کرنے پر بخوبی قادر ہوجاتا ہے۔ (تفسیر حقانی) Show more
یہ کتاب قرآن حکیم کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے خواہشمند ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب نحوی میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ ربط الفاظ و آیات میں بھی معاونت کرے گی۔
عام لغات (ڈکشنری) کی کتابوں میں الفاظ کے مواخذ و معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان کے صرفی و نحوی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے اس طرح طالب علم، نہج عبارت اور نشست الفاظ کی اصولی وجوہ سے ناواقف رہ جاتا ہے، بقول مولانا محمد نذیر عرشی مصنف مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم :
" ترکیب نحوی نہ جاننے والے لوگوں کی زباندانی کی مثال اس کوتاہ نظر راہرو کی سی ہے جس کی نظر پگڈنڈی کے صرف اتنے ہی حصے پر ہے جو اس کے پاؤں کے سامنے ہے اور وہ اس تسلسل نظر کے ساتھ اپنی مسافت طے کرتا جارہا ہے بخلاف اس شخص کے جو جانتا ہے کہ یہ کلمہ فعل ہے یہ فاعل ہے یہ اسم موصول ہے یہ جملہ اس کا صلہ ہے ، یہ کلمہ مقدم آنا واجب ہے اور یہ موخر ہونا چاہیے اس کلمہ میں ضمیر کا ہونا ضروری ہے اس کا مرجع یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر عبارت کا مطلب و مدعا خود بخود آئینہ ہوجاتا ہے اور جب وہ عبارت کا ترجمہ کرتا ہے تو ایک مبصر کی حیثیت سے کرتا ہے اس کی مثال اس وسیع النظر اور دور بین راہرو کی سی ہے جس نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے نقشہ کے ذریعہ، سفر ناموں کے مطالعہ سے اور واقفان راہ سے گفتگو کر کے تمام منازل سفر پر نظر ڈال لی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس کا سفر خطرات سے محفوظ ہوگا "۔
ایسی ہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری الفاظ، جملوں اور آیات کی صرفی و نحوی لحاظ سے وضاحت کردی گئی ہے اس طرح اصطلاحا یہ کتاب نہ تو ایک لغات ( ڈکشنری) ہے نہ تفسیر نہ ترجمہ، اسی بناء پر اس کا نام " انوار البیان فی حل لغۃ القرآن " رکھا گیا ہے ۔
سورت اور اس کی آیات کو یا آیات میں مندرجہ جملوں یا الفاظ کو اس ترتیب سے لکھا گیا ہے کہ پہلے سورت کا نمبر دیا ہے اس کے بعد آیت کا نمبر ہے ۔ ازاں بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ ہے ۔ مثلا ١١٩: ٣ میں ٣ سورة آل عمران کو ظاہر کرتا ہے اور ١١٩ سورة آل عمران کی آیت ١١٩ کو، اور اس آیت میں مندرج مشکل الفاظ کو اس آیت کے محاظ درج کیا ہے ۔
چونکہ اس کتاب میں صرف مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ہر سورة یا ہر پارہ اس کے انہی الفاظ سے شروع ہو جو قرآن میں ہیں۔
کتاب ہذا کا مقصد طالب علم کو قرآن حکیم کے سمجھنے میں معاونت کرنا ہے لہذا ان کتب سے دل کھول کر مدد لی گئی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کو اپنی کوتاہی علم کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا کتاب ہذا میں جو محاسن نظر آئیں ان کے لئے سزاوار تحسین وہ ہستیاں ہیں جن کے گلستان تصنیف سے خوشہ چینی کی گئی ہے البتہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے لئے ذمہ دار وہ خود مؤلف ہے جس کے لئے وہ بارگاہ ایزدی سے معافی کا خواستگار ہے۔
ف 9 یعنی غروب ہونے کیلئے جھکے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے قرآن مراد ہے کیونکہ وہ بھی منجماً (تھوڑا تھوڑا کر کے) نازل ہوا ہے۔
نام : اشرف الحواشی
ترجمہ اول : حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی (رح)
ترجمہ دوم : نواب وحید الزمان خان حیدر آبادی
مرتب و مؤلف : ابوالقاسم محمد عبدہ الفلاح
ناشر : شیخ محمد اشرف ناشران قرآن مجید و تاجران کتب
مختصر تعارف و خصوصیات :
مؤلف اور ناشر تفسیر کے اخیر میں لکھتے ہیں :
1 ۔ تاریخ کے ہر دور میں علماء نے قرآن کی تشریح و تفسیر کا فریضہ ادا کیا۔ اور علماء کی ان خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انکا احصاء ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ برصغیر میں خاندان ولی اللہی کی خدمات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں شاہ رفیع الدین دہلوی (رح) کا ترجمہ اپنی سہولت اور اختصار کے سبب نہایت مقبول ہے اور یہ ترجمہ جو مسلک سلف کا مظہر ہے۔ اس پر خود حضرت النواب نے تفسیری حواشی مرتب فرمائے مگر وہ نہایت مختصر تھے۔ اس بناء پر کسی ایسے تفسیری حواشی کی ضرورت عرصہ سے محسوس ہورہی تھی جو اس ترجمہ سے ہم آہنگ ہو، اور احادیث صحیحہ، دورِ آثار صحابہ و تابعین پر حاوی ہو تاکہ سلف کے طرز پر قرآن سمجھنے والے اس سے اپنا شوق پورا کرسکیں۔ ان تفسیری حواشی میں مندرجہ ذیل اصول کو سامنے رکھا گیا ہے۔
2 ۔ کتب تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اور فتح البیان کو اصل قرار دیا گیا ہے اور ان سے تفسیر بالماثور کا حصہ نہایت اختصار کے ساتھ اخذ کیا گیا ہے۔
3 ۔ بلا واسطہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور ان کے شروح کو سامنے رکھا گیا ہے۔
4 ۔ جن عقل پسندوں نے قرآن کی ترجمانی کے زعم میں بعض صحیح احادیث کا انکار کیا ہے، فوائد میں ان پر بھی بالاختصار تنقید کردی گئی ہے۔
5 ۔ اس تفسیر میں دوترمے ہیں۔ پہلا ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ علامہ نواب وحید الزماں کا۔ نواب صاحب مشہور عالم اور صحاح ستہ کے مترجم ہیں۔ حواشی میں اس امر کا خاص طور پر التزام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث درج کی جائے جو مضمون آیات کے عین مطابق ہو۔ حواشی کو اشرف الحواشی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جسے آپ تفسیر قرآن بالحدیث کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
آیات ١ تا ٢٥۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب ہونے لگے یعنی ستاروں کا اپنے اپنے مقررہ راستوں پر وقت غروب تک ایسے چلنا کہ لوگ ان سے راستہ پاتے ہیں اس بات پر گواہ ہے کہ جس رب کے ستارے تک نہیں بھٹکتے بھلا ا اس کا رسول کیسے بھٹک سکتا ہے اور یہ تو تمہارے درمیان بسنے والی ہستی ہے وہ ہستی جس کا سا... راوقت تمہارے ساتھ بسراہو اور جس کی صداقت وامانت کے تم خود گواہ ہو۔ صاحبکم۔ اور دوسری نعمت صاحبکم میں یہ رکھی ہے کہ آپ کا دامن شفقت تو سب کے لیے پھیلا ہوا ہے آپ کی برکات سے وہی بےنصیب محروم ہے جو خود کو الگ کرلے کہ یہ ہستی ہمیشہ صراط مستقیم کی ضامن ہے۔ آپ نہ کبھی راہ حق سے بھولے کہ غلطی سے بھٹک جائیں اور نہ کبھی بھٹکنے کے غلط راستے کو صحیح جان لیں بلکہ یہ تو وہ ہستی ہے جو اپنی خواہش سے کلام تک نہیں فرماتی صرف وہ فرماتی ہے جو اللہ کی طرف سے وحی کیا جائے۔ اقسام وحی۔ وحی کی تین اقسام ہیں قرآن کریم۔ حدیث پاک۔ اور سنت اور کبھی کوئی قاعدہ بتادیاجاتا ہے جس میں نبی (علیہ السلام) اجتہاد فرما کر فیصلہ فرماتے پہلی دو صورتیں توقطعی ہوگئیں رہا اجتہاد تو اس میں نبی کو غلطی لگنے کا احتمال ہوتا ہے مگر فورا بذریعہ وحی اصلاح کردی جاتی ہے لہذا اس کا شبہ بھی رہا ہاں مجتہد کو غلطی کا امکان ہے مگر اس پر بھی اسے اجر ملنے کا وعدہ ہے کہ دینی کام میں محنت کرکے خلوص کی ساتھ ایک فیصلہ تک پہنچا اور وحی لانے والے میں بھی کسی کوتاہی یا کسی شیطانی مداخلت کا امکان نہیں کہ آپ تک وحی لانے والا فرشتہ بہت قوت کا مالک اور ایسا طاقتور ہے کہ نہ تو اللہ کی وحی میں بھولتا ہے نہ کوئی اسے بھلاسکتا ہے اور نہ شیطان اس کے قریب پھٹک سکتا ہے نیز آپ کا اس سے رابطہ بھی کوئی محض خیالی نہیں بلکہ آپ نے اسے اس کی اصلی صورت پر بھی دیکھا جب وہ افق اعلی پر بیٹھا ہوا تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) کودیکھنا۔ اس کا ذکر حدیث شریف میں ہے آپ مکہ میں کہی تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا جبرائیل امین کرسی پر بیٹھے ہیں اور آسمان تک فضا کو ان کے وجود نے بھردیا ہے یہ ان کی اصلی صورت تھی ورنہ توہروحی کے وقت وہ شرف ملاقات پاتے تھے پھر اور قریب ہوئے اپنی جگہ سے نیچے آئے اور دوکمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم پر آگئے کہ روایات میں ملتا ہے کہ پھر جبرائیل امین انسانی شکل میں آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں اقرار کیا جیسے عرب دوستی کا اقرار کرنے کے لیے اپنی کمانیں آگے کردیتے کہ ان کی تانت مل جاتے وہ محاورہ استعمال ہوا اور یوں رب جلیل نے اس مضبوط اور طاقتور فرشتے کے ذریعے جسے نبی (علیہ السلام) کی خدمت عالی میں بھی ایک مقام قرب حاصل تھا اپنی وحی جو پہنچانا چاہتا تھا اپنے رسول تک پہنچائی ۔ یہ دیکھنا سر کی آنکھوں سے تھا۔ اور پھر آپ نے دیکھا آپ کے قلب اطہر نے بھی اس کی تصدیق کی یعنی آپ نے آنکھوں سے دیکھا اور دل نے بھی تصدیق فرمائی تو تم لوگ اس بات پر آپ سے جھگڑتے ہو جس کو آپ نے اتنے مضبوط طریقے سے مشاہدہ فرمایا ہے اور آپ نے دوسری بار جبرائیل امین کو ان کی اصلی صورت پر شب معراج دیکھا سدرۃ المنتہی کے پاس اترتے ہوئے۔ سدرۃ المنتہی۔ حدیث شریف کے مطابق یہ بیری کا درخت ہے جس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں اور اس پر ملائکہ کے دفاتر ہیں کہ عالم بالا سے نازل ہونے والے احکام یہاں پہنچ کر متعلقہ فرشتوں کو تقسیم ہوتے ہیں اور زمین سے جانے والے اعمال یہاں پہنچ کر عالم بالا کو جاتے ہیں جس کے پاس جنت ہے جو اللہ کے بندوں کا گھر ہے ۔ جنت و دوزخ۔ جنت و دوزخ فی الوقت موجود ہیں اور مفسرین کرام کے مطابق ساتواں آسمان فرش اور عرش عظیم جنت کی چھت ہے اور آثار میں ہے کہ دوزخ زمین کے اندر موجود ہے جس کو ایک سخت غلاف نے ڈھانپ رکھا ہے روز حشر پھٹے گا توسمندوں کوکھولاکربھانپ بنادے گا (واللہ اعلم بحقیقۃ ھالہ) جب سدرہ کو بیشمار ملائکہ نے ڈھانپ رکھا تھا حدیث شریف کے مطابق جو سب آپ کے استقبال کو حاضر ہوئے تھے اور پھر اس سے آگے جہاں تک اللہ نے چاہا لے گیا اور جو چاہا دکھایا ۔ دیدار باری تعالی۔ اور جو کچھ بھی دیکھا حضور اکرم نے صحیح صحیح دیکھا نہ آپ کی نگاہ بھٹکی کہ کسی اور طرف دیکھنے لگے اور نہ یہ ہوا کہ حد سے بڑھ جائے اس میں دو آراء ہیں یہ کہ سب جبرائیل امین کی زیارت کی بات ہورہی ہے یا دیدار الٰہی کی فقیر کی دانست میں جو بات رازمذش قرآن حکیم سے بےغبار سمجھ میں آتی ہے وہ سدرۃ المنتہی تک بات جبرائیل امین کی ہے اور سدرہ کے بعد واقع معراج شریف اور دیدار باری تعالیٰ کا واقعہ ارشاد ہوا ہے یوں تو ذات باری ہر آن ہرجاموجود ہے انسان کی نظر دیکھنے سے عاری ہے اور جمہور کا اتفاق ہے کہ آخرت میں نگاہ قوی ہوکردیکھنے کے لائق ہوگی اور اہل جنت کو زیارت باری نصیب ہوگی جبکہ یہاں جنت سدرۃ المنتہی کے پاس رہ گئی اور آپ کن بلندیوں اور قرب کی کن منزلوں میں تشریف لے گئے یہاں زیارت باری میں کوئی مانع نہیں اور نگاہ مصطفیٰ پھر نگاہ مصطفیٰ ہے آپ کی شان کہ آپ وجود یاجود کے ساتھ تشریف لے گئے اور بچشم سردیدار فرمایا ورنہ نگاہ قلب سے تجلیات باری تعالیٰ تو صدیوں بعد بھی آپ کے غلاموں اور اہل اللہ کو بھی نصیب ہوتی ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی محدود نہیں ہر کوئی اپنی شان کے مطابق دیکھے گا لہذا آپ نے اپنی شان کے لائق دیکھا اور پھر اپنے رب عظیم کی بیشمار نشانیاں ملاحظہ فرمائیں۔ برزخ اس کے حالات عذاب وثواب اور جنت دوزخ سب حقیقتیں ذاتی طور پر تشریف لے جاکردیکھیں سبحان اللہ وبحمدہ۔ تفاسیر میں بہت وضاحت سے سب واقعات درج ہیں یہاں مختصرا لکھا گیا ہے اے کفار تم نے بھی لات وعزی اور تیسرے بڑے بت مناۃ کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے کبھی ان کے بارے میں تحقیق وتصدیق کا تکلف کیا ہے اگر کرتے تو ان کی حقیقت جان کر انہیں چھوڑ دیتے۔ بھلایہ تمہارا دین ہے کہ تمہارے لیے بیٹے ہوں اور اللہ کو بیٹیاں ملیں یہ تو عقلا بھی تقسیم ہی بہت نامناسب ہے جبکہ اس کی کوئی بنیاد نہیں اللہ ان باتوں سے پاک ہے اور یہ صرف تم نے کہانیاں گھڑ رکھی ہیں اور کچھ نام ہیں جو تم لوگوں نے رکھ لیے ہیں اور تمہارے باپ دادا بھی اسی گمراہی میں تباہ ہوئے اللہ نے ان باتوں پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی تم لوگ محض اپنے لیے بےبنیاد گمان اور وہم کی پیروی کرتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی غلامی کے علاوہ تمہارے پاس کچھ نہیں حالانکہ اللہ ایسا کریم ہے کہ اس نے تمہارے پاس بھی ہدایت کا سامان اپنا نبی اور اپنی کتاب بھیجی ہے اور ایسے لوگوں کو بھی محروم نہیں رکھا اور اگر آدمی خواہشات کے ہی پیچھے لگے تو دین سے محروم تو ہوگا کہ نظام قدرت میں تو وہ ہوتا ہے جو اللہ چاہے بھلا انسان کی ہر خواہش تو پوری ہونے سے رہی کہ نظام اس کی خواہشات کے تابع نہیں اور دنیا ہو یا آخرت سب کچھ اللہ ہی کے تابع اور اس کے حکم کا پابند ہے لہذا انسان بھی تب ہی ہدایت پاسکتا ہے جب اپنی خواہشات کی بجائے اس کے احکام کو اختیار کرے۔ Show more
مصنف : امیر محمد اکرم اعوان
۔۔۔
امیر محمد اکرم اعوان مفسر قرآن اور مذہبی پیشوا ہیں جو تنظیم الاخوان کے امیر ہیں۔
آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے ہے آپ نے علاّمہ مو لانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن کر نکلے۔ حضرت العلاّم مولانا اللہ یار خان نوّر اللہ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے سینے میں برکاتِ نبوّت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےکراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا شیخ نامزد فرمایا۔
حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں ۔ آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے ارشاد السالکین ، کنز الطّالبین، طریقِ نسبتِ اویسیہ، رموزِدلِ ، کنوزِ دل جیسی قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی " مسائل السلو ک من کلام الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں
آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔ مختلف کو رسز کے ذریعے لوگ قرآن حدیث ، فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔ جن میں ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ معاشیات، عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی تربیت کا نتظام ہے۔ " الا خوات " کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔ شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ ہوئی۔
آپ مفسِّر قرآن ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو علم لَدُنّی سے نوازا ہے۔ اور قرآن پاک کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔ یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر " اسرار التنزیل " تحریر فرمائی ہے۔ جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز کو آشکار کیا ہے ۔ یہ تفسیر صاحب دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیوں سے آراستہ اور خاص و عا م میں پسندیدہ ہے۔ آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر " اکرم التفاسیر " ہے جو نصف سے زا ئد یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر " وَلَقَد یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ " آسان قرآن " کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔ آسان زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔ آپ کی ایک اور پنجابی تفسیر " رب دیاں گلاّں " " اپنا ٹیوی چینل سے ٹیلی کا سٹ ہوتی رہی ہے۔ اس کی سی ڈی اور ڈیوی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاء اللہ طباعت کے بعد منظر عام پر آ جائے گی۔
آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔ آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ " اکرم التراجم " قدرت اللہ کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں، مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے اور اپنی روانی، سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول ہے۔
آپ صوفی شاعر، محقق اور اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں تو گردسفر، دیدۂ تر، متاعِ فقیر، نشانِ منزل، آس جزیرہ، کونسی ایسی بات ہوئی ہے اور دِل دروازہجی سے مجموعہ ہائے کلام معرض وجود میں آئے۔
آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو، وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔ سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔ کتب کے علاوہ بیشمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اور شمالی علاقہ جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ صقارہ اکیڈمی جس کا افتتاح صدر جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کا حسین امتزاج ہے۔
العلم علمان : علم الادیان وعلم الابدان کے مصداق spirtual ، نارمیٹو سائنسز کے علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
اس اکیڈمی کا " راولپنڈی بورڈ " میں ایک خاص مقام ہے۔ اکیڈمی کے تعلیم و تربیت یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل تقلید نمونہ کے حامل ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 18 ھوی نیچے اترا، غائب ہوا۔ عوی راہ بھٹک گیا۔ ماینطق وہ نہیں بولتا۔ شدید القوی بڑی طاقتوں والا۔ ذومرۃ زور دار۔ الافق الاعلی بلند کنارا۔ دنا قریب ہوا۔ تدلی وہ آگے بڑھا، لٹک گیا۔ قاب مقدار۔ قوسین دو کمانیں۔ تمرون تم جھگڑتے ہو۔ نزلۃ اترنا۔ سدرۃ بیری کا درخت۔ یغشی وہ ڈھانپ لیتا... ہے۔ مازاغ نہیں لڑا۔ ماطغی حد سے نہ بڑھا۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 18 ستارے غائب ہوجانے کے بعد جب سورج نکلتا ہے تو ہر طرف اس کی کرنوں سے دنیا جگمگا اٹھتی ہے۔ درختوں پر ایک پھبن اور ہر چیز پر رونق آجاتی ہے۔ اندھیرے سمٹ جاتے ہیں اور سورج کی روشنی کے سامنے ہر روشنی ماند پڑجاتی ہے۔ اسی طرح کفر اور ظلم کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ کے پیغمبر آتے رہے اور توحید و رسالت کی تعلیمات اور اللہ کے دین کی روشنی سے دنیا کو منور کرتے رہے لیکن جب اللہ نے اپنے آخری نبی اور آخری محبوب رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تو اس روشنی کی تکمیل ہوگئی اور ساری دنیا کے روحانی اندھیرے دور ہوگئے اور اب یہ شمع رسالت قیامت تک اسی طرح اپنی روشنی بکھیرتی رہے گی۔ فرمایا کہ ستارے کی قسم جس طرح یہ ستارے چاند اور سورج اپنی جگہ پر قا اعدے طریقے سے چلتے ہیں اور ان کی رفتار میں نکلنے اور ڈوبنے میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا اور وہ اپنی مستعدی سے اپنی جگہ جم کر چلتے ہیں اسی طرح ہمارے رسول بھی پوری مستعدی اور شان سے اللہ کے احکامات کو پوری دیانت داری سے ساری دنیا تک پہنچا رہے ہیں انہوں نے شب معراج اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور سنا وہ سورج کی روشنی کی طرف صاف اور واضح تھا جس کے دیکھنے میں نہ تو وہ بھٹکے اور نہ انہوں نے کوئی غلطی کی۔ ۔ فرمایا کہ ہمارے مبحوب نبی پر جو فرشتہ وحی لے کر اترتا ہے (جبرئیل امین) وہ بڑی قوت و طاقت والا، مضبوط و توانا، زور آور، جسمانی اور روحانی طاقتوں کا مالک ہے جس کے چھ سو بازو ہیں۔ اگر وہ اپنی اصلی آواز نکالیں تو لوگوں کے کلیجے پھٹ جائیں۔ ان کی طاقت وق وت کا یہ حال ہے کہ جب انہوں نے اللہ کے حکم سے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان تک بلند کیا اور پھر اس قوم کو زمین پر پٹک دیا تو وہ قوم اور اس کی بستیاں اس طرح برباد ہوگئیں کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر آگیا اور پھر سمندر کا پانی ان پر چڑھ دوڑا اور ان کی بستیوں کو سمندر میں غرق کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کے لئے فرمایا ہے کہ وہ کریم ہیں عزت و قوت والے ہیں جن کا اللہ کے ہاں ایک اعلیٰ مقام ہے۔ سب فرشتوں کے مقابلے میں ان کو اللہ کی بارگاہ میں زیادہ قرب اور پہنچ ہے۔ وہ مطاع ہیں یعنی آسمان کے فرشتے بھی ان کی بات ماننے پر مجبور ہیں اور ان کا حکم تسلیم کرتے ہیں جن کے امین اور معتبر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اللہ کے اس طاقت ور فرشتے کے سامنے شیطان کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے لہٰذا یہ اللہ کا کلام کسی شیطان کے ذریعہ نہیں پہنچا کہ آپ کو کاہن کہا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتھی کے پاس ۔ ابتدائے وحی کے قویب ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا کہ وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت آسمان ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ان کے وجود سے بھرا ہوا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےہوش ہو کر گر پڑے۔ اس وقت حضرت جبرئیل آپ کے پاس عام انسانی شکل میں آئے تاکہ آپ کو تسلی دے سکیں چناچہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اٹھایا، تسلی دی اور اتنے قریب ہوگئے کہ حضرت جبرئیل اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ رہا۔ پھر انہوں نے اللہ کے حکم سے جو اس نے چاہا آپ پر وحی نازل کی۔ دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرۃ المنتھی کے پاس آپ نے حضرت جبرئیل کو دیکھا کہ وہ رفرف کے لباس میں ہیں اور زمین و آسمان کی فضا کو ان کے وجود نے بھر رکھا تھا۔ ان کے وجود کا پھیلائو چھٹے آسمان سے ساتویں آسمان تک تھا۔ پھر وہ عام شکل میں قریب آئے اور اتنے قریب ہوئے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شب معراج میں اللہ کی نشانیاں دکھائی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ نے اس رات کو جو کچھ دیکھا نہ آپ کی آنکھ نے دھوکا کھایا اور نہ آپ کی آنکھ بھٹکی اس طرح اللہ نے اپنی بہت سی نشانیاں دکھا کر ختم نبوت کا تاج آپ کے سر پر رکھ دیا۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتوں کی وضاحت پیش خدمت ہے۔ (1) اس جگہ اللہ نے ” النجم “ (ستارہ) کی قسم کھا کر نبی کریم کی شان رسالت کو بیان کیا ہے۔ یہ کون سا ستارہ ہے اس سلسلہ میں مفسرین کرام نے مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ٭… اس سے صرف ایک ستارہ نہیں بلکہ ستاروں کی جنس مراد ہے یعنی ستاروں کا جھرمٹ، کہکشاں ٭… اس سے شہاب ثاقب مراد ہیں جن کے ذریعہ ان شیاطین کو مار کر بھگایا جاتا ہے جو آسمانوں پر مستقبل کی باتیں سننے کی کو ششک رتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت سے پہلے یہ شیاطین آسمانوں پر جا کر فرشتوں کی گفتگو سن لیتے اور پھر آ کر کاہنوں کو بتا دیتے تھے وہ کاہن جنات و شیاطین کی باتوں کو سن کر اور کچھ خود سے گھڑ کر لوگوں کے سامنے مستقبل کی پیشین گوئیاں کردیتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد اللہ نے جنات و شیاطین پر پابندی لگا دی اور اگر کوئی جن یا شیطان آسمان کی طرف بلند ہو کر سننے کی کوشش کرتا تو اس کے پیچھے شہاب ثاقب یعنی آسمانی انگارے برسائے جاتے تھے۔ ٭… بعض مفسرین نے ” النجم “ سے مراد قرآن کریم کی آیتوں اور سورتوں کو لیا ہے۔ ٭… بہرحال ” النجم “ سے ستارے مراد ہوں یا شہاب ثاقب اللہ نے ساتروں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جب یہ ستارے ڈوب جاتے ہیں تب ہی صبح ہوتی ہے اور اس سے رات کے اندھیرے سمٹ جاتے ہیں اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد اور قرآن کریم کی آیتوں کے نازل ہونے کے بعد اگر کہیں روشنی ہے تو وہ صرف خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے لائے ہوئے دین ہی کی ہے۔ (2) اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم “ فرمایا یعنی تمہارے رفیق تمہارے ساتھی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اس دین اسلام کو لے کر آئے ہیں وہ کہیں اور سے نہیں آئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمری کے ایک ایک لمحے سے مکہ کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جن کو صادق و امین اور معتبر سمجھا جاتا تھا۔ آج اعلان نبوت کے بعد ان جیسی عظیم ہستی کے متعلق طرح طرح کی نامناسب باتیں کرنا ان کو زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے معراج میں جو کچھ دیکھا وہ اللہ کی نشانیاں تھیں۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھا اس میں نہ وہ گمراہ ہیں اور نہ راستے سے بھٹکے ہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور جو کچھ عطا کیا گیا وہ برحق تھا۔ آپ کی شان یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی کہتے ہیں جب تک اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتی آپ بیان نہیں فرماتے۔ (3) سورة النجم وہ سب سے پہلی سورت ہے جس کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا۔ آپ نے اس کی تلاوت فرمائی۔ اس مجمع میں میں اہل ایمان کے علاوہ کفار و مشرکین بھی تھے جب آیت سجدہ آئی تو آپ نے اور تمام مسلمانوں نے سجدہ آئی تو آپ نے اور تمام مسلمانوں نے سجدہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تمام کفار و مشرکین نے بھی اللہ کے سامنے سجدہ کیا۔ (4) عربوں میں باہمی دوستی کے دو طریقفے تھے ایک تو یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دوستی کرتے تھے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ وہ دونوں شخص اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی تو اپنی طرف کرلیتے اور کمان کی ڈور دوسرے کی طرف۔ اس طرح جب دونوں کمانوں کی ڈور مل جاتیں تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ دو دشمنوں میں محبت اور قربت ہوگئی ۔ اس قرب کے وقت ان دونوں میں دونوں ” قوسوں “ کے ماپ کا فاصلہ رہتا تھا یعنی تقریباً دو ہاتھ (ایک گز) اس کے بعد ” ادنی “ کہہ کر بتا دیا کہ یہ اس سے بھی زیادہ قریب اور ملا ہوا تھا۔ (5) ساتویں آسمان پر عرش کے نیچے ایک درخت ہے جس کو ” سدرہ المنتھی ‘ کہتے ہیں۔ عربی میں ” سدرہ “ بیری کے درخت کو کہتے ہیں جس کی کیفیت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو بھی احکامات یا رزق نازل ہوتے ہیں ان کا فیصلہ سدرہ تک پہنچتا ہے وہاں سے جن ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے وہ اس کو لے کر زمین کی طرف لاتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں جتنے انساین اعمال ہیں وہ سدرہ تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اسی سدرہ کے پاس وہ جنت بھی ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے رہنے کی باعزت جگہ ہے اس کو ” جنت الماوی “ فرمایا گیا ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب معراج تشریف لائے تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہم بھی اس رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ نے ان کو اجازت دے دی اور وہ تمام فرشتے سدرہ کے درخت اور اس کے ہر پتے پر اس طرح آپ کا انتظار کرنے لگے کہ ان کی جگمگاہٹ سے ایسا لگتا تھا جیسے سونے کے پروانے ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت جبرئیل جیسے مقرب فرشتے نے بھی اگٓے جانے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اس سے آگے ایک قدم بھی جاؤں گا تو اللہ کی تجلی سے میرے پر جل جائیں گے۔ اس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی بہت سی نشانیاں دیکھیں جن کے دیکھنے میں نہ تو آپ کی آنکھ نے دھوکا کھایا اور نہ وہ حد سے آگے بڑھی۔ Show more
نام : بصیرت قرآن
مترجم و مفسر : مولانا محمد آصف قاسمی
ناشر : مکتبہ بصیرت قرآن کراچی
مختصر تعارف :
زیر نظر تفسیر مولانا محمد آصف قاسمی مدظلہ کی تصنیف ہے، مولانا محمد آصف قاسمی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) کے پڑپوتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اور یہ تفسیری مجموعہ در اصل ان کے دروس قرآن ہیں۔ جنہیں بعد ازیں کیسٹوں سے سن کر تحریری شکل دی گئی۔ تفسیر کی خصوصیات خود مصنف کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :
تفسیر بصیرت قرآن کی چند خصوصیات
1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے لکھنے میں میرا بنیادی جذبہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائیں اور اس کے صدقے میں میری مغفرت فرما دیں۔ اس سلسلہ میں میری حیثیت اس بڑھیا جیسی ہے جو مصر کے بازار میں سوت کا ایک گولہ لے کر اس جذبہ کے ساتھ آ گئی تھی کہ اس کا نام بھی یوسف کے خریداروں میں آجائے۔ کیا خبر کہ میری یہ ادنی سی کاوش و کوشش کل قیامت کے دن جب صحابہ کرام، علماء عظام اور بزرگان دین اپنا اپنا انعام حاصل کرے رہے ہوں تو ان کے صدقے میں مجھے بھی مغفرت و نجات کا پروانہ مل جائے۔
2 ۔ اس پوری تفسیر میں لفظ " خدا " نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خدا کہنے میں اللہ کی طرف سے کسی اجر و ثواب کا وعدہ نہیں ہے جب کہ لفظ اللہ قرآن کریم کا لفظ ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے پوری تفسیر میں لفظ خدا لکھنے سے گریز کیا ہے۔
3 ۔ تفسیر میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آسان زبان میں بات کو سمجھایا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کو شکوہ یہ ہے کہ تفسیروں میں اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے سمجھنے میں بڑی دشواری ور مشکل پیش آتی ہے لہذا میں نے زیادہ سے زیادہ سادہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔
4 ۔ اس بات کی ممکن حد تک کوشش کی گئی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق بیان کیا جائے کیونکہ جب ہم مختلف فقہا کا مسلک بیان کرتے ہیں تو آسان پسند لوگ ہر فقہ سے اپنے مطلب کے مسائل نکال کر خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس کی وجہ سے کافی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے میں نے عام طور پر اسی قول کو نقل کیا ہے جو فقہ حنفی کے مطابق ہے۔
5 ۔ تفسیر کرنے میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ جو آیت سامنے ہے اس کے مفہوم کو واضح کرکے بتادیا جائے تا کہ بات مختصر بھی ہو اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
6 ۔ ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن کا الگ الگ ترجمہ بھی کردیا ہے تاکہ جو شخص قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ خود بھی ترجمہ سیکھنا چاہتا ہو وہ لغات القرآن اور تفسیر کے مطالعہ سے قرآن کریم کو با ترجمہ سیکھ سکے۔
7 ۔ پوری تفسیر میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی رائے سے کوئی بات نہ لکھوں جہاں کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے اس میں مختلف مفسرین کی رائے پیش کردیتا ہوں کیونکہ ہمارے اکابر نے پوری زندگیاں لگا کر حق و صداقت کی باتوں پر تحقیق فرمائی ہے اور اس کو امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے بھی ان ہی بزرگوں کے فیض سے روشنی حاصل کرکے ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین۔
ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
سوفٹ وئیر میں شامل نسخہ تاج کمپنی کا ہی ہے۔
یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ١٩٤٣ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ١٩٠٨ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بعد ازاں انڈ و پاک میں لا تعداد مکاتب نے شائع کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا نام کم سے کم برصغیر میں کسی صاحب علم کے لیے محتاجِ تعارف نہیں، آپ بلند پایہ فقہیہ، حدیث کے ذوق آشنا اور تصوف میں اپنے عہد کے گویا امام تھے، ایک خلقت کی اللہ نے آپ کے ذریعہ اصلاح فرمائی اور بڑے بڑے اہل علم وفضل آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے، یہ تفسیر آپ ہی کی ہے اور آپ کی عمیق فکرونظر اور گہری بصیرت کی شاہد عدل ہے، آپ نے احباب کے بہت اصرار پر یہ تفسیر لکھی، جو تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار ١٣٢٦ ھ میں " اشرف المطابع " تھا نہ بھون سے طبع ہوئی، اس تفسیر کی خصوصیات یہ ہیں : قرآن مجید کا نسبۃ آسان اور سلیس ترجمہ کیا ہے جو بامحاورہ ہونے کے باوجود الفاظِ قرآنی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے، دوسرے یہ کہ ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کئے گئے ہیں؛ کیونکہ محاورات ہر جگہ ومقام کے الگ الگ ہوتے ہیں، ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کے ترجمہ کے قریب ہے، تیسرے یہ کہ نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون پر توضیح کی ضرورت تھی یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے بظاہر پیدا ہوتا ہے اس جگہ " ف " بناکر اس کی تحقیق و وضاحت کردی گئی ہے، لطائف ونکات یاطویل وعریض حکایات وفضائل اور فقہی احکام کی تفصیلات سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا ہے، چوتھے جس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین کے ہیں، ان میں جس کو ترجیح معلوم ہوئی صرف اس کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں خلافیات کی تفسیر میں صرف مذہب حنفی کو لیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب بشرط ضرورت حاشیہ میں لکھ دیئے گئے ہیں، چھٹے نفعِ عوام کے ساتھ افادہ خواص کا خیال کرتے ہوئے ایک حاشیہ عربی میں بڑھادیا گیا ہے، جس میں غیر مشہور لغات، وجوہ بلاغت، مغلق تراکیب، خفی استنباط، فقہیات وکلامیات اور اسباب نزول وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، یہ نہایت ہی عالمانہ تفسیر ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے؛ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو کی " جلالین " ہے۔
مصنف کا تعارف :
نام نامی ولقب گرامی
نام نامی ” اشرف علی “ ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ أپ کالقب ” حکیم الامت “ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔
شرف نسب
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام ” عبدالحق “ تھا، آپ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ، صاحب نقد و جائیدا د تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز ان کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔
وطن مالوف
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھا نہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام ” تھا نہ بھیم “ تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھا نہ تھا، کثرت استعمال سے تھا نہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ” فتح محمد “ کے نام سے اس کا نام ” محمد پور “ رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام ” تھا نہ بھون “ ہی مشہور ہے۔
ولادت باسعادت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280 ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
بچپن کے حالات
حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب ، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے ، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
تحصیل علوم
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔
ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھی، پھر تھا نہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانافتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے استاد کامل تھے۔ تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لیے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
اساتذہ کرام
آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے ، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قراءت کی مشق شہرہ آفاق قاری ، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
درس و تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315 ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14 سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھا نہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
تلامذہ
قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے ، سب کا استقصا تو ممکن نہیں ، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں : مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفیٰ صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمھم اللہ کے علاوہ پاک ہند کے بیشمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
1301 ھ میں حضرت حج کے لیے تشریف لیے گئے تو آپ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ؛نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا : ” میاں اشرف علی ! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی “ ،” ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء “․
تھانہ بھون میں مستقل قیام
1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھا نہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : ” بہتر ہوا آپ تھا نہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے “۔
چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خدا کو مستفید فرمانے لگے۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
(1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ (3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ (6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ (9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ (13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کا کو روی رحمة اللہ علیہ (15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ (16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ (17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ (18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ (19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔
علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
وفات وتدفین
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جو لاائی 1943 ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھا نہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ” قبرستان عشق بازاں “ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !
فہم القرآن ربط سورت : سورة الطور کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ جب ستارے غروب ہونے کے وقت ہو تو اپنے رب کو یاد کیا کرو۔ اس مناسبت سے سورة النجم کا آغاز ستارے کی قسم سے ہورہا ہے۔ عربی زبان میں حرف واؤ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اسے قسم کے معنٰی میں استعمال کیا گیا ہے۔ رب ذوالجلال کا ارشاد ہے ... کہ مجھے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم۔ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی بھٹکا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اہل مکہ یہ پراپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ آپ صحیح راستے سے بہک گئے ہیں، کچھ لوگ کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گمراہ ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ اہل لغت راستہ بھول جانے والے مسافر کے لیے ضلّ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جو شخص اپنے نفس کی پیروی میں یعنی جان بوجھ کر صحیح راستے سے ہٹ جائے اس کے لیے ” غَوٰی “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ رب ذوالجلال نے ان الزمات کی تردید کرنے سے پہلے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہے۔ صاحب سے مراد نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ” کُمْ “ کی ضمیر کے مخاطب اہل مکہ ہیں۔ عربی زبان میں عام طور پر صاحب کا لفظ پرانے ساتھی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صاحب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رشتے، ناطے اور رہن سہن کے حوالے سے تمہارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزارا ہے تم اس کے حسب ونسب، بچپن، جوانی اور اس کی جلوت اور خلوت سے پوری طرح واقف ہو۔ اعلان نبوت سے پہلے اور اب تک اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی اور نہ ہوگی کہ جس بنا پر انہیں بہکا ہوا یا بھٹکا ہوا کہا جائے۔ ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ان لوگوں کی بھی نفی کی گئی ہے جو سمجھتے تھے کہ انسان کی قسمت میں ستاروں کا عمل دخل بھی ہوا کرتا ہے۔ ستارے کے ڈوبنے کا ذکر فرما کر واضح کیا ہے کہ جو ڈوب جائے وہ کسی کی بگڑی نہیں بنا سکتا ہے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمائی تھی کہ ڈوبنے والے معبود یعنی مشکل کشا نہیں ہوتے۔ (الانعام : ٧٦ تا ٨٠) مسائل ١۔ اللہ کے رسول کو مشرکین بہکا ہوا کہتے تھے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم اٹھا کر فرمائی ہے۔ Show more
فہم القرآن
ہمارے سوفٹ وئیر میں ایک تفسیر " فہم القرآن " بھی شامل ہے جو ابوہریرہ اکیڈمی 37 ۔ کمرشل کریم بلاک اقبال ٹاؤن لاہور والوں کی شائع کردہ ہے اور اس کے مصنف میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم ہیں۔ تفسیر کا مختصر تعارف پیش ہے۔۔
مصنف تفسیر کے آغاز میں " فہم القران اور اعتراف حقیقت " کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :
رسولِ محترم e کی بعثت کے مقاصد میں سے مرکزی مقصد یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کے مطابق لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں اور اپنی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر فرمائیں۔ جس کو صحابہ کرام y نے آپ سے براہ راست سیکھا ‘ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس w کو قرآن فہمی کی دعا سے سرفراز فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس w اور صحابہ کرام y نے اپنی اولاد اور شاگردوں کو قرآن پڑھایا اور سمجھایا۔ اس طرح قرآن مجید کی تبلیغ تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے نسل در نسل جاری رہی تاآنکہ 270 ہجری میں جامع البیان کے نام پر علامہ ابو جعفر بن جریر طبری نے چالیس سال کی جدوجہد سے کتبات ‘ مسوّدات اور مختلف اہل علم سے استفادہ فرما کر تیس جلدوں پر محیط تفسیر جامع البیان لکھی جو تفسیر ابن جریر کے نام سے معروف ہے۔ ان کے بعد حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر المعروف امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر رقم فرمائی جو تمام مسالک کے نزدیک ممتاز اور منفرد تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر دور اور ہر زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں تراجم اور تفاسیر کا بیشمار ذخیرہ اردو زبان میں پیش کیا گیا جو علمی اور اسنادی اعتبار سے عربی کے سوا تمام زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر پر حاوی ہے۔ ماضی قریب میں تفہیم القرآن ‘ تدبر قرآن ‘ معارف القرآن ‘ تفسیر ثنائی ‘ تیسیرالقرآن ‘ ضیاء القرآن کے مؤلفین نے اپنے اپنے انداز اور نقطۂ نگاہ سے فرقانِ حمید کی تفسیریں لکھیں جو اردو زبان میں ممتاز تفاسیر شمار ہوتی ہیں۔
فہم القرآن اور اعترافِ حقیقت
تفسیر کا نام سورة الانبیاء کی آیت 79{ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنَ } سے لیا گیا ہے ۔ میں اس سچائی کا محض روایتی اور عاجزانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اعتراف کرتا ہوں کہ خدمت قرآن کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مجھ سے کم علم آدمی کوئی نہیں گزرا ہوگا کہ جس نے قرآن مجدی کے کسی پہلو پر قلم اٹھایا ہو۔ میں نے بزرگوں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے کام میں حسن و خوبی کا کوئی پہلو دکھائی دے تو وہ اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ اور متقدمین کی پر خلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ کوتاہی اور کمزوری کو میری کم علمی اور کوتاہ فہمی تصور کرتے ہوئے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی تصحیح کی جائے ۔ اپنے مختصر تدریسی تجربہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چند باتوں کی ضرورت محسوس کی جس بنا پر ضروری سمجھا کہ اگر درج ذیل باتیں تفسیر میں جمع کردی جائیں تو عوام الناس ‘ طلبہ اور مبتدی خطباء کے لیے نہایت مفید اور بہتر ہوگا۔
(١) ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ (٢) ربطِ کلام (٣) ۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کا بیان
(٤) ۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے سے ہر آیت کے مرکزی مضمون سے متعلقہ چند آیات جمع کرنا۔
اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کے شرف سے نوازے اور تعاون کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
نوٹ : (قاری حضرات سے گزارش ہے کہ وہ لفظی ترجمہ کی بجائے رواں ترجمہ سے استفادہ کریں کیونکہ لفظی ترجمہ میں باہم ربط نہ ہونے کی وجہ سے الجھن پیش آسکتی ہے ۔ لفظی ترجمہ تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ )
مفسّر کا تعارف
میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم گوہڑ چک 8 پتو کی (قصور) اپریل 1947 ء آرائیں فیملی میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن اور سکول کی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی۔ تجویدِ قرآن جامعہ محمدیہ اور درس نظامی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے پائی بعد ازاں وفاق المدارس کیا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات اور فاضل اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراغت ِ تعلیم کے بعد لاہور میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جون 1986 ء میں جامع مسجد ابوہریرہ (رض) کی بنیاد کریم بلاک اقبال ٹائون میں رکھی اور اعزازی خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1997 ء میں ابوہریرہ (رض) شریعہ کالج کا آغاز کیا جو اب تک ملک میں واحد ادارہ ہے جس میں طلبہ کو چار سال میں درس نظامی اور بی ۔ اے (Compulsoy) کروایا جاتا ہے۔ 1987 ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات اور 1996 ء سے لے کر 2002 تک مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سیکرٹری شپ کا دوسرا ٹینور پورا ہونے پر آئندہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کی اور اپنے آپ کو تعلیم و تصنیف کے لیے وقف کیا۔ دیگر کتب تحریک کے بارے میں تالیف کرنے کے بعد 2005 ء میں تفسیر فہم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ ہر سال پانچ پاروں پر مشتمل منظر عام پر منظر عام پر آتی رہی اور الحمدللہ 6 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔ اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
١۔ تفسیر رازی، ابن کثیر ، تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اس کے علاوہ دیگر عربی تفاسیر کے اہم نکات پر مشتمل ہے۔
٢۔ لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ سلیس بامحاورہ ترجمہ جو دل میں اتر جائے۔
٣۔ علم وادب کا مرقع اور ہر آیت کی تفسیر حدیث رسول e کے ساتھ ہے۔
٤۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کی نشاندہی جو ذہن پر منقش ہوجائیں۔
٥۔ آیت کے مرکزی مضمون کی تفسیر دیگر آیات کے ساتھ ایک مکمل تقریر جو علماء اور لیکچرار حضرات کے لیے عظیم تحفہ ہے۔
اس پیراگراف میں ہم نہایت ہی بلند روشن اور پھڑپھڑانے والے افق پر ہیں جہاں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک نے چند خوبصورت اور نورانی لمحات عالم بالا کے ساتھ گزارے۔ ایک نہایت ہی نرم ، دھیمی موجوں پر مشتمل اور ترکیب پانے والے ترنم ہیں۔ ہم ان پر کیف لمحات کے رنگ ڈھنگ اور اشارات سنتے ہیں۔... الفاظ ان کی موسیقیت اور ماحول سب ہی پر کیف ہیں۔ یہ واردات قلب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ وہ لمحات ہیں جن میں آپ کی نظروں کے سامنے سے تمام حجابات ہٹا دیئے گئے ہیں اور آپ عالم بالا سے ہدایات اور وحی لے رہے ہیں ، دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ آپ کا قلب حفظ کررہا ہے۔ یہ لمحات کیسے تھے اس کا صحیح احساس تو صیقل شدہ قلب محمد ہی کو ہوگا لیکن اللہ کا کرم کہ اس نے ہم بندوں کے لئے اس واردات کو الفاظ میں بیان کردیا۔ نہایت ہی موثر انداز میں ایسی موسیقی کے ساتھ جو پانی کی طرح بہتی ہے جس میں تلمیحات کے رنگ ڈھنگ اور ماحول اور اشارات کو ہماری طرف منتقل کیا گیا ہے۔ یہ اس صیقل شدہ دل کا سفر تھا اور عالم بالا کی وسعتوں میں تھا۔ ایک ایک قدم کی تصویر ہماری نظروں میں آرہی ہے۔ ایک ایک منظر ، ایک ایک قدم اور اس انداز میں کہ گویا ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔ آغاز ایک قسم سے ہوتا ہے۔ والنجم اذا ھوی (٣٥ : ٧) ” قسم ہے تارے کی جب غروب ہو “ ستارہ غروب ہوتا ہے زمین کے قریب ہو کر اس کی قسم ہے اور جس بات پر قسم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل یوں تھے۔ وھو بالافق ........ ما اوحی (٣٥ : ٠١) ” جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ فاصلے پر رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اس نے پہنچائی “ تو ستارے کی حرکت اور حضرت جبرائیل کی حرکت کے درمیان نہایت ہم آہنگی اور یکرنگی ہے۔ یوں اس منظر میں ماحول ، حرکت اور موزونیت ابتدا ہی سے چلتی ہیں۔ والنجم اذاھوی (٣٥ : ١) ” قسم ہے ستارے کی جب غروب ہوا “ کی تفسیر میں مختلف تفسیریں نقل کی گئی ہیں۔ زیادہ فریب الفہم یہ تفسیر ہے کہ اس سے شعریٰ ستارہ مراد ہے کیونکہ بعض عرب اسے پوجتے تھے اور بعد میں اس سورة میں اس کا ذکر بھی آیا ہے۔ وانہ ھو ........ الشعری (٣٥ : ٩٤) ” اور وہی شعری کا رب ہے “ پرانے لوگ شعری ستارے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یہ مشہور ہے کہ پرانے مصری یہ کہتے تھے کہ جب شعری اعلی افلاک کو عبور کرے تو نیل میں پانی کا طوفان آجاتا تھا۔ اس لئے وہ شعری کو دیکھتے رہتے تھے اور اس کی حرکت کو نوٹ کرتے تھے۔ ایرانیوں اور عربوں دونوں کی روایات میں اس کے بیشمار افسانے مشہور ہیں۔ لہٰذا یہاں ستارے سے مراد یہی شعری ہے اور یہاں قسم اور مقسم علیہ کے درمیان ہم رنگی بھی مقصود ہے جو اس ستارے کے غروب سے ظاہر ہے۔ پھر یہاں یہ اشارہ بھی دینا مقصود ہے کہ ستارہ اگر بہت بڑا ہی کیوں نہ ہو ، وہ غروب اور غائب ہونے والا ہے۔ معبود تو وہ ہونا چاہئے جسے زوال و غروب نہ ہو۔ یہ تو تھی قسم جس بات پر قسم اٹھالی گئی ہے وہ یہ ہے۔ Show more
مصنف کے حالات :
سید قطب 1902 ء میں مصر کے ایک صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشاء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ دونوں عربی النسل تھے۔ سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
آپ نے ثانوی تعلیم تجہیزیہ دار العلوم نامی ایک اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول میں طلباء کو دار العلوم میں داخلہ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے فارغ ہوکر آپ 1929 میں قاہرہ کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔ 1933 میں آپ نے بی۔ اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور 1952 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران 1954 ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ اور 2 جولائی 1954 ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبار الاخوان المسلمون کا ایڈیٹر مقرر کیا۔
شہید اسلام سید قطب 1954 سے لے کر 1964 تک جیل میں رہے اور اگست 1964 ء میں مرحوم عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔ چناچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ چناچہ آپ کو ایک سال بعد اگست 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد 29 اگست 1966 ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔ اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیح راہ پر ہیں، اپنی خواہش سے کچھ نہیں فرماتے، وحی کے مطابق اللہ کا کلام پیش کرتے ہیں، آپ نے جبرائیل کو دو بار ان کی اصلی صورت میں دیکھا یہاں سے سورة النجم شروع ہے اس کے پہلے رکوع کے اکثر حصہ میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور وحی کی... حفاظت اور وحی لانے والے فرشتے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی قوت اور ان کی رؤیت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ﴿ وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ٠٠١﴾ (قسم ہے ستارہ کی جب غروب ہونے لگے) ۔ ﴿ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ٠٠٢﴾ (تمہارا ساتھی نہ راہ سے بھٹکا ہے اور نہ غلط راستہ پر پڑا ہے) ۔ ﴿وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ٠٠٣﴾ (اور وہ اپنی نفسانی خواہش سے بات نہیں کرتا) ۔ ﴿اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۙ٠٠٤﴾ (وہ نہیں ہے مگر جو وحی کی جاتی ہے) ۔ آیت شریفہ میں جو لفظ النجم وارد ہوا ہے بظاہر یہ صیغہ مفرد کا ہے لیکن چونکہ اسم جمع ہے اس لیے تمام ستارے مراد ہیں اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے ثریا مراد ہے جو سات ستاروں کا مجموعہ ہے، ستارے چونکہ روشنی دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ لوگ ہدایت پاتے ہیں اس لیے ان کی قسم کھا کر نبوت اور رسالت اور وحی کو ثابت فرمایا ہے کیونکہ یہ چیزیں قلوب کے منور ہونے کا ذریعہ ہیں، رسوال اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کبھی بھی مشرک نہ تھے نبوت سے پہلے بھی موحد تھے اور نبوت کے بعد بھی آپ کا موحد ہونا توحید کی دعوت دینا قریش کو ناگوار تھا اور وہ یوں کہتے تھے کہ انہوں نے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے صحیح راہ سے بھٹک گئے ہیں اور آپ کو کاہن یا ساحر یا شاعر کہتے تھے، ستارہ کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تمہارے ساتھی یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ بتاتے ہیں اور جو دعوت دیتے ہیں وہ سب حق ہے ان کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ راہ سے بھٹک گئے اور غیر راہ پر پڑگئے ان کا دعوائے نبوت اور توحید کی دعوت اور وہ تمام امور جن کی دعوت دیتے ہیں یہ سب حق ہیں سراپا ہدایت ہیں ان میں کہیں سے کہیں تک بھی راہ حق سے ہٹنے کانہ کوئی احتمال ہے اور نہ یہ بات ہے کہ انہوں نے یہ باتیں اپنی خواہش نفسانی کی بنیاد پر کہی ہوں، ان کا یہ سب باتیں بتانا صرف وحی سے ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ان پر وحی کی گئی ہے اسی کے مطابق سب باتیں بتا رہے ہیں ان کا فرمانا سب سچ ہے جو انہیں اللہ کی طرف سے بطریقہ وحی بتایا گیا ہے اور چونکہ ستاروں کے غروب ہونے سے صحیح سمت معلوم ہوجاتی ہے اس لیے وَ النَّجْمِ کے ساتھ اِذَا هَوٰى بھی فرمایا، یعنی جس طرح ستارہ ہدایت بھی دیتا ہے اور صحیح سمت بھی بتاتا ہے اسی طرح تمہارے ساتھی یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا اور سمجھایا حق ہے اور راہ حق کے مطابق ہے۔ ان کا اتباع کرو گے تو صحیح سمت پر چلتے رہو گے یہ شخص تمہارا ساتھی ہے بچپن سے اس کو جانتے ہو اور اس کے اعمال صادقہ اور احوال شریفہ سے واقف ہو ہمیشہ اس نے سچ بولا ہے جانتے پہچانتے ہوئے اس کی تکذیب کیوں کرتے ہو (جس نے مخلوق سے کبھی جھوٹی باتیں نہیں کیں وہ خالق تعالیٰ شانہٗ پر کیسے تہمت رکھے گا) ۔ Show more
نام : انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی مہاجر مدنی (رح)
ناشر : نوید احمد خاں۔ مکتبہ زکریا۔ رحمان پلازہ مچھلی منڈی اردو بازار لاہور۔
زیر نظر نسخہ : اشاعت اول۔ 2009 ء۔ 1430 ھ
کتاب کا مختصر تعارف :
" ایزی قرآن و حدیث " میں شامل چھ جلدوں پر مشتمل ایک اہم اردو تفسیر حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری (رح) کی بھی ہے۔ اس کا مختصر تعارف ، امتیازی خصوصیات اور سبب تالیف انہی کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے :
" اما بعد ! 1374 ھ یا 1375 ھ کی بات ہے کہ راقم الحروف کلکتہ میں مقیم تھا۔ وہاں میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور شدت تکلیف کے باعث ایک رات ایسی گزری کہ صبح تک زندہ رہ جانے کی امید نہ تھی، میں نے اللہ جل شانہ سے ناز کے انداز میں عرض کردیا کہ اے اللہ ! میں ابھی مر رہا ہوں حالانکہ میں نے ابھی تفسیر بھی نہیں لکھی، اللہ جل شانہ کا فضل ہوا کہ میں اچھا ہوگیا، اور اس کے بعد سے کبھی شدید بیماری میں بھی مبتلا نہیں ہوا، لیکن تدریسی مشاگل کے باعث اور دوسری چھوٹی موٹی تالیفات میں لگنے کی وجہ سے تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں آیا، اب جبکہ عمر ستر سال کے قریب پہنچ گئی تو موت کا ڈر لاحق ہوا، اور ساتھ یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ تفسیر لکھنے کا وعدہ جو اللہ جل شانہ سے کیا تھا وہ پورا کرنا چاہیے، تفسیر لکھنا شروع کردیا، مجھے علم بھی زیادہ نہیں ہے، جگہ جگہ مشکلات پیش آئیں اللہ جل شانہ سے دعائیں کی، مشکلات حل ہوتی گئیں اور برابر شرح صدر ہوتا گیا اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اردو میں اکابر کی متعدد تفسیریں موجود ہیں تجھے نئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں البتہ مجھے اپنے طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ میری عمر کے آخری چند سال قرآن کریم کی خدمت میں خرچ ہوگئے، عام فہم اردو زبان میں شرح اور بسط کے ساتھ قرآن مجید کے معانی اور مطالب بیان کردئیے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو جگہ جگہ جھنجھوڑا بھی ہے کہ قرآن مجید کا تم سے کیا مطالبہ ہے اور تمہاری اجتماعی وانفرادی زندگی کس رخ پر ہے، کوشش کی ہے کہ تفسیر و حدیث کے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے، اور تفسیر القرآن بالقرآن، اور تفسیر القرآن بالحدیث کو اختیار کیا جائے۔ یہ تفسیر انشاء اللہ ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔ سبب نزول لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو اور بامحاورہ بھی، میری کوشش انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہ سے امید کرتا ہوں کہ اس تفسیر کو شرف قبولیت بخشے، اور اپنے بندوں میں بھی قبولیت عامہ عطا فرمائے ۔ آمین
کچھ مصنف کے بارے میں
حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی ، اتر پر دیش، انڈیا کے ایک شہر بلند شہر میں ، 1343 ھجری میں پیدا ہوئے ۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ مرادآباد اور جامی مسجد علی گڑھ میں مکمل کی۔
مکمل دینی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے حاصل کی۔
آپ نے مدرسہ حیات العلوم فیروز پور اور کلکتہ کے کئی مدارس میں تدریس کی خدمت سر انجام دی۔
بعد ازاں ، مفتی محمد شفیع (رح) کی درخواست پر دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے ۔ اور یہاں کئی سال تک شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر کے طور پر تدریس کی، اور دارالافتاء میں بھی نمایاں کام کیا۔
چند سال بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے ۔
آپ کی وفات 1999 میں ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے مشہور کتب ۔ انوار البیان، زاد الطالبین ، فوائد الثنیہ فی شرح علوم النبویہ اور تسہیل الضروری شرح قدوری ہیں۔
2:۔ ” والنجم۔ تا۔ الکبری “ یہ تمہید ہے برائے اثبات و صداقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ” ما ضل “ جواب قسم ہے۔ ” ضلال “ یعنی راستہ نہ ملنا اور ” غوایۃ “ راستہ ملنے کے بعد بھٹک جانا۔ الضلال ضد الھدایۃ والھی ضد الرشد یعنی ھو مھتد راشد (مظہری ج 9 ص 104) ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ نیچے گرتا ہے یعن... ی غروب ہوتا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلط راہ پر نہیں ہیں، بلکہ راہ راست پر قائم ہیں۔ یعنی ستارے کا نیچے آنا شاہد ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آسمان سے فرشتہ اترتا اور وحی لاتا ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ مجھ پر وحی آتی ہے غلط نہیں اور نہ بعید از قیاس ہے۔ Show more
حضرت مولانا غلام اللہ خان
حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔
نام : کشف الرحمن فی تفسیر القرآن
مصنف : حضرت مولانا احمد سعید دہلوی (رح)
ناشر : مکتبہ رشیدیہ۔ کراچی
یہ تفسیر مصنف کی اٹھارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے مصنف پاک و ہند کے مشہور عالم سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (رح) ہیں۔ ترجمہ کا نام کشف الرحمن اور تفسیر کا نام تیسیر القرآن ہے۔ موصوف کی یہ تفسیر شستہ زبان، عام فہم طرز اداء اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے، اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے اس ترجمہ اور تفسیر کی تالیف میں بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی معتبر کتابوں کی زمانہ دراز تک ورق گردانی کرکے یہ ذخیرہ جمع کیا ہے اور اس کو ایسے طریقے پر مرتب کیا ہے کہ ہر طقبہ کے لوگ اس سے مستفید ہوسکیں، یہ اہل علم کے لیے بھی مفید ہے اور عوام کے لیے بھی، بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ زبان کو آسان اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ سلفِ صالحین کے مسلک کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور زبان کی شگفتگی کو بھی برقرار رکھا۔
مصنف کا تعارف :
سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ربیع الثانی 1306 ہجری بمطابق دسمبر 1888 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مولانا عبدالمجید مصطفیٰ آبادی مرحوم سے حاصل کی، اور تکمیل حفظِ قرآن کی دستار بندی مدرسہ حسینیہ دلی میں ہوئی۔
اعلی تعلیم مدرسہ امینیہ میں حاصل کی۔ اور اس کے بعد مدرسہ امینیہ میں کئی برس تک تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اور دین کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔
آپ جمعیت العلماء ہند کے صدر ، عالم دین اور ایک محب وطن شخصیت تھے۔
1920 ء سے قومی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور آٹھ مرتبہ جیل گئے۔ خوش بیان مقرر تھے اور سبحان الہند کہلاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جمعیت العلماء ہند کے صدر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ اس جماعت کے ناظم اعلٰی تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں یادگار چھوڑیں۔
آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ١۔ کشف الرحمن فی ترجمۃ القرآن۔ ٢۔ تقاریر سیرت۔ ٣۔ خدا کی باتیں۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں۔ ٥، معجزاتِ رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
آپ کو وفات 3 جمادی الثانی 1379 ہجری بمطابق دسمبر 1959 ء میں ہوئی۔