Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 26

سورة النجم

وَ کَمۡ مِّنۡ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغۡنِیۡ شَفَاعَتُہُمۡ شَیۡئًا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ یَّاۡذَنَ اللّٰہُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَرۡضٰی ﴿۲۶﴾

And how many angels there are in the heavens whose intercession will not avail at all except [only] after Allah has permitted [it] to whom He wills and approves.

اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لئے چاہے اجازت دے دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And there are many angels in the heavens, whose intercession will avail nothing except after Allah has given leave for whom He wills and is pleased with. As He said; مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ Who is he that can intercede with Him except with His permission, (2:255) and, وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ Intercess... ion with Him profits not except for him whom He permits. (34:23) `If this is the case with the angels who are close to Him, how can you, O ignorant ones, hope for Allah to grant you the intercession of the idols and rivals you worship with Him without having His permission or any divine legislation permitting you to worship them' Rather, Allah has forbidden idol worshipping by the tongues of all of His Messengers and He revealed this prohibition in all of His Books.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یعنی فرشتے، جو اللہ کے مقرب ترین مخلوق ہے ان کو بھی شفاعت کا حق صرف انہی لوگوں کے لئے ملے گا جن کے لئے اللہ پسند کرے گا، جب یہ بات ہے تو پھر یہ پتھر کی مورتیاں کس طرح کسی کی سفارش کرسکیں گی ؟ جن سے تم آس لگائے بیٹھے ہو، نیز اللہ تعالیٰ مشرکوں کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کا حق بھی کب دے گا، جب ... کہ شرک اس کے نزدیک ناقابل معافی ہے ؟  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] سفارش کا ضابطہ :۔ تمہارے ان معبودوں کی تو حیثیت ہی کچھ نہیں اگر آسمان کے سارے فرشتے مل کر بھی تمہاری سفارش کریں تو وہ تمہارے کسی کام نہ آسکے گی۔ وجہ یہ ہے کہ سفارش اسی کے حق میں مقبول ہو سکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور اللہ مشرکوں کے حق میں فیصلہ کرچکا ہے کہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا تو وہ ... تمہارے حق میں سفارش کیسے کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سفارش تو وہ کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی خواہ یہ انسان ہوں یا فرشتے۔ تمہارے ان پتھر کے معبودوں کی سفارش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جنہیں تم فرشتے اور اللہ کی بیٹیاں قرار دے رہے ہو۔ لہذا تمہاری یہ آرزوئیں کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وکم من ملک فی السموت لاتغنی شفاعتھم شیاً …: یعنی تمہارے یہ حاجت روا اور مشکل شکا اور فرشتوں کے ناموں پر بنائے ہوئے دیوی دیوتا تو محض تمہارے وہم و گمان کی پیداوار ہیں، حقیقت میں ان کا کہیں وجود ہی نہیں۔ یہاں تو حقیقی فرشتے جو آسمانوں میں رہتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے، ان کا بھی یہ حا... ل ہے کہ ان میں سے کسی کی سفارش کام نہیں آتی، سوائے اس کے جسے نص اجازت دے اور اسیک وف ائدہ دیتی ہے جس کے حق میں سفارش کو اللہ تعالیٰ پسند فرمائے اور اس کے حق میں سفارش کی اجازت دے۔ غرض سفاشر کا اختیار بھی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، فرمایا :(قل للہ الشفاعۃ جمیعاً ) (الزمر : ٣٣)” کہہ دے سفارش ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ “ پھر اسے چھوڑ کر تم کسی اور کو کیوں پکارتے اور پوجتے ہو ؟ شفاعت کے متعلق مزید دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٥):(من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ) (آیت الکرسی) اور سورة نبا (٣٨) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُہُمْ شَـيْــــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللہُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْضٰى۝ ٢٦ كم كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم ال... ذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن/ 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة . کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔ فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ أَذِنَ : والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء/ 64] أي : بإرادته وأمره، ( اذ ن) الاذن الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں موجود ہیں جن کے متعلق تمہارا یہ خیال ہے کہ معاذ اللہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں مگر ان کی سفارش ذرا بھی کسی کے لیے کام نہیں آسکتی مگر سوائے اس کے جس کے لیے اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے کا حکم دیں یعنی اہل ایمان میں سے جو اس چیز کا اہل ہو اور اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦{ وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا } ” اور کتنے ہی فرشتے ہیں آسمانوں میں جن کی شفاعت کسی کام نہیں آئے گی “ { اِلَّا مِنْم بَعْدِ اَنْ یَّـاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَرْضٰی ۔ } ” مگر اس کے بعد کہ اللہ جس کے لیے چاہے اجازت بخشے اور (سفارش) پسند کرے...  ۔ “ آسمانوں کے فرشتے اہل ایمان کے لیے تو دعا کرتے ہیں : { یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج } (المومن : ٧) کہ پروردگار ! تو اہل ایمان کی مغفرت فرما دے۔ لیکن ان مشرکین کے لیے نہ کوئی دعا کرے گا اور نہ ہی شفاعت۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 That is, "Even if all the angels together intercede for a person, it cannot be beneficial for him not to speak of the intercession by these invented deities of yours, which can do no one any good. AlI the powers of Godhead rest with AIIah. Even the angels cannot dare intercede for somebody before Him unless He permits it and is pleased to hear their intercession in his behalf."

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :21 یعنی تمام فرشتے مل کر بھی اگر کسی کی شفاعت کریں تو وہ اس کے حق میں نافع نہیں ہو سکتی ، کجا کہ تمہارے ان بناوٹی معبودوں کی شفاعت کسی کی بگڑی بنا سکے ۔ خدائی کے اختیارات سارے کے سارے بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ فرشتے بھی اس کے حضور کسی کی سفارش کرنے کی اس وقت تک جسا... رت نہیں کر سکتے جب تک وہ انہیں اس کی اجازت نہ دے اور کسی کے حق میں ان کی سفارش سننے پر راضی نہ ہو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: یعنی جب فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت اور مرضی کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتے تو یہ من گھڑت خدا کیسے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:26) کم اسم مبنی ہے اور صدر کلام میں آتا ہے۔ مبہم ہونے کی وجہ سے تمیز کا محتاج ہے یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور دو قسم پر ہے۔ استفہامیہ ۔ خبر یہ۔ استفہامیہ قرآن مجید میں نہیں آیا۔ استفہامیہ اگر آئے تو اس کا مابعد تمیز بن کر منصوب ہوتا ہے ۔ اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں جیسے ک... م رجلا ضربت : تو نے کتنے آدمیوں کو پیٹا۔ جب خبر یہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے۔ یعنی کتنے ہی۔ جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے مردوں کو پیٹا۔ اس میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے چناچہ قرآن مجید میں ہے : کم من قریۃ اہلکناھا (7:4) اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں ۔ اور کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ (2:249) بسا اوقات کتنی ہی چھوٹی جماعتوں نے بڑی جماعتوں پر خدا کے حکم سے فتح حاصل کی ہے۔ یا کم قصمنا من قریۃ کانت ظلمۃ (21:11) اور ہم نے بہت سی بستیاں جو کہ ستمگار تھیں ہلاک کر ڈالیں۔ کم من ملک فی السموت اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں (جن کی ۔۔ الآیۃ۔ لاتغنی مضارع واحد مؤنث غائب۔ اغناء (افعال) مصدر۔ وہ نفع نہیں دے سکے گی۔ وہ کام نہ آئے گی۔ شیئا : کبھی بھی۔ الا حرف استثنائ۔ ان یاذن اللہ میں ان مصدر یہ ہے۔ یاذن مضارع واحد مذکر غائب۔ منصوب بوجہ عمل ان۔ اذن (باب سمع) مصدر (مگر بعد اس کے ) کہ اللہ (شفاعت کی) اجازت دے۔ لمن یشاء : جس کیلئے وہ چاہے۔ یعنی جس فرشتے کو شفاعت کرنے کی یا جس آدمی کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت دے۔ ویرضی : واؤ عاطفہ، یرضی مضارع واحد مذکر غائب۔ رضی (باب سمع) مصدر۔ اور اس کے لئے شفاعت کر پسند کرے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 مطلب یہ ہے کہ جب فرشتوں کا یہ حال ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں تو تمہارے ان بتوں کی کیا مجال کہ کسی کی سفارش کرسکیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٦ تا ٣٢۔ اسرار ومعارف۔ ان کی رسومات اور معبودان باطلہ کیا سفارش کریں گے جبکہ وہ بارگاہ بہت عالی ہے اور کس قدر مقبولان بارگاہ فرشتے ہیں جو شفاعت نہیں کرسکتے ہاں خود اللہ کسی پر راضی ہوجائیں اور فرشتوں کو اس کی سفارش کی اجازت مرحمت فرمادیں کہ یہ بھی ایک انداز رضا وعطا ہے ورنہ کوئی بھی کسی حیلے ب... ہانے یازورطاقت سے وہاں دم نہیں مارسکتا۔ کفار کا یہ حال ہے کہ یہ سرے سے آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے لہذا جو ایمان نہیں رکھتا وہ آخرت کے لیے کوئی عمل بھی نہیں کرتا تو اسے وہاں بہتری کی کوئی امید نہیں ہوسکتی ، اور اپنی خرافات میں یہاں تک بڑھے کہ ملائکہ کو مونث پکارتے ہیں جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے یعنی جن سے اگر کوئی شفاعت کی امید رکھتے بھی ہیں اگرچہ بوجہ انکار آخرت خود ان میں وہ استطاعت نہیں کہ کوئی ان کی سفارش کرسکے اس کے باوجود یہ کم ازکم ملائکہ کی ذات کو جانتے تو ہوتے یہاں تو یہ بات بھی نہیں انہیں عورتیں سمجھ رکھا ہے محض اپنے زعم باطل سے اور اپنے اوہام باطلہ کی پیروی میں حالانکہ یہ حقیقت واضح ہے کہ وہم و گمان سے حقیقت وصداقت کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ ظن کا لغوی معنی اور اصطلاح شرعیت۔ ظن کا لغوی معنی بےبنیاد خیالات ہے اور یہاں وہی مراد بھی ہے اصطلاح شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں اول قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے حاصل شدہ بات ایسے احکام کو قطعیات یایقینیات کہا جاتا ہے اس کے مقابل عام روایات حدیث جو ثبوت کے اس درجہ کو نہ پہنچی ہوں ان سے ثابت شدہ مسائل کو ظنیات کہا جاتا ہے یہ ظن شرعی اعتبار سے اور قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں معبتر ہے آیہ مذکورہ میں پہلی قسم مراد ہے یعنی بےبنیاد خیالات ۔ آپ ایسے لوگوں سے قطعی طور پر توجہ ہٹالیجئے اور انہیں چھوڑ دیجئے جن لوگوں نے محض حصول دنیا اور مادی فوائد کی طلب میں ہماری یاد ہی سے منہ موڑ لیا ان بدنصیبوں کی ساری علم و دانش کی رسائی بس حصول دنیا تک ہے۔ نبی اکرم سے حصول برکات کا سلیقہ اور راستہ۔ آیہ مبارکہ میں عموم ہے اگرچہ یہ بات کفار کے اوصاف میں فرمائی جارہی ہے مگر جو بھی شخص یہ انداز اختیار کرے گا کہ وہ محض حصول دنیا کے لیے عمر کھپادے اور کبھی یاد الٰہی یا اتباع رسالت پناہی کا خیال نہ آئے تو وہ بھی اسی وعید کا مستحق ٹھہرے گا اس کی روشنی میں مسلمان کا حال عہد حاضر میں دیکھاجائے گا تو یہ نظرآتا ہے کہ حکومتی اداروں کے سارے وسائل صرف اور صرف مادی تعلیم اور مادی فوائد کے حصول کا طریقہ سکھانے پہ لگے ہیں اور لوگ بھی اپنی پوری محنت و کوشش صرف دنیا کے حصول پر لگائے بیٹھے ہیں حتی کہ نعت بھی پڑھیں گے تو اس میں دنیا کی طلب ہوگی اور نعت لکھنے والابھی نہ عملا اطاعت گزار ہوگا اور نہ نعت میں اطاعت گزاری کی بات ہی کرے گا ، الاماشاء اللہ ، بلکہ ہندوشعراء کی نعتیں میں نے آج کے اکثر مسلمان شعراء سے بہتر پائیں۔ یہاں یہ نہ سمجھاجائے کہ دنیا کے علوم حاصل نہ کیے جائیں ضرور کیے جائیں مگر ساتھ دین بھی سیکھاجائے اور دین کے احکام کے تابع دنیا کمانا بھی دین ہے ہاں دین کو قربان کرکے اور دین کو رسوا کرکے دنیا کا حصول کافرانہ فعل ہی نہیں ایساجرم بھی ہے جس کے سبب نبی (علیہ السلام) ایسے لوگوں سے رخ انور پھیر لیتے ہیں اور وہ دوعالم میں کہیں پناہ نہیں پاتا۔۔۔ بیٹھے کون دے ہے پھر اس کو ، جوتیرے آستان سے اٹھتا ہے ، نیز آپ کا پروردگار ہر طرح سے خوب جانتا ہے کہ کون شخص سیدھی راہ کو چھوڑ بیٹھا ہے اور محض دنیا طلبی کے لیے اپنی ساری توانائی وقف کیے ہوئے ہے اور ان لوگوں کے حال سے بھی واقف ہے جو ہدایت کی راہ پر ہیں کہ انہیں دنیا بھی اللہ ورسول کی اطاعت کی راہ سے درکار ہے اور جو بھی جس طرح کے اعمال کررہا ہے وہ اس کا بدلہ پائے گا کہ اللہ کے قبضہ قدرت میں یہ ارض وسما کا نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ بدکار اور نافرمانوں کو کفروبرائی کا مزہ چکھایاجائے اور کیے کی سزا پائیں جبکہ اطاعت اور نیکی کرنے والوں پر کرم کی بارش ہو اور انہیں بہترین اجر سے نوازاجائے گا۔ ایسے لوگوں جو بڑے بڑے گناہوں کے قریب نہیں پھٹکتے اور بےحیائی کے کاموں اور فحش کلامی سے اجتناب کرتے ہیں سوائے اس کے کہ بتقاضائے بشریت کوئی خطا کربیٹھیں۔ لمم۔ مفسرین کرام کے مطابق ، لمم ، وہ گناہ ہے جو انسان سے اتفاقا سرزد ہوجائے مگر وہ اس پہ نادم ہو اور توبہ کرلے پھر اس کے قریب نہ پھٹکے اکثر روایات کا حاصل یہ ہے کہ کسی نیک آدمی سے کبھی گناہ کبیرہ سرزد ہوگیا اور اس نے توبہ کرلی تو وہ صالحین کی فہرست سے خارج نہ ہوگا کہ آپ کا پروردگار بہت ہی وسیع بخشش رکھنے والا ہے۔ اور اس کے کرم کی بھی حد نہیں نیز نیکی کرنے والے کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اس کے حال سے تب بھی واقف تھا جب وہ محض خاکی ذرات تھا پھر اس نے وہ ذرات جمع کرکے غذانطفہ اور پھر انسان بنادیا اور ماں کے پیٹ میں بنایا جبکہ وہ اپنے حال سے واقف نہ تھا اللہ اس کو بنارہا تھا۔ اور اس سے خوب واقف تھا پھر اسے تمام خوبیاں عقل و شعور فکر ونظر قوت و طاقت اعضا جوارح عطا فرمائے کہ وہ اطاعت اور نیکی کرنے کے قابل ہوا لہذا کسی کو اپنے تقدس پہ ناز نہ کرنا چاہیے ، اور توفیق عمل کو اللہ رب العزت کا احسان ماننا چاہیے کہ یہ بات بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کون کس قدر متقی ہے کہ تقوی محض اعمال ظاہر ہی نہیں ایک کیفیت قلبی ہے وہ بھی تب کام آئے گی جب موت اور قبر تک ساتھ رہی اور یہ سب صرف اللہ جانتا ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دنیا اور آخرت کے معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس لیے کسی کے پاس اختیار نہیں کہ وہ قیامت کے دن بلا اجازت اپنے رب کے حضور کسی کی سفارش کرسکے۔ جس طرح مشرکین کا عقیدہ ہے کہ فوت شدگان قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے اسی طرح ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینے والوں کا عقیدہ ہے کہ...  ملائکہ ہماری سفارش کریں گے۔ جس طرح فوت شدگان کی سفارش کی نفی کی گئی ہے اسی طرح ہی ملائکہ کی سفارش کی نفی کی گئی ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ زمین و آسمانوں میں بیشمار ملائکہ ہیں جو سب مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ہاں وہ فرشتے اور نیک لوگ اپنے رب کے حضور سفارش کر پائیں گے جنہیں ان کا رب اجازت عطا فرمائے گا۔ فرشتے اور نیک لوگ اتنی ہی سفارش کریں گے جتنی انہیں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی۔ جو لوگ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں ان کا قیامت پر کوئی ایمان نہیں۔ ان کا قیامت پر صحیح ایمان ہوتا تو وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ کیونکہ ان کا قیامت پر ایمان نہیں اس لیے انہیں کسی قسم کی سفارش کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے عقائد کی بنیاد اپنے گمان اور سنی سنائی باتوں کے سوا کسی آسمانی علم پر نہیں۔ یہ صرف من ساختہ تصورات اور گمان پر یقین رکھتے ہیں۔ من ساختہ تصورات اور گمان حق بات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا اس شخص سے اعراض کریں جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نصیحت سے منہ پھیر لیتا ہے۔ وہ صرف دنیا کا طلب گار ہے اور ایسے لوگوں کا مبلغ علم اور کوشش صرف دنیا کے لیے ہی ہوا کرتی ہے۔ جس کا علم و عمل صرف دنیا کی ترقی اور حصول کے لیے ہو اسے ہدایت کس طرح نصیب ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ ہدایت کا طالب ہی نہیں۔ لہٰذا ان سے بحث و تکرار کرنے کی بجائے اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور جو اپنے رب کی ہدایت پر گامزن ہے۔ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں میں بیشمار ملائکہ ہیں ان میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا سفارش کرنے کی اجازت عنایت فرمائے گا۔ ٣۔ جو لوگ قیامت پر حقیقی ایمان نہیں رکھتے وہ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینے والے آسمانی علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے گمان کی بنیاد پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ ٥۔ وہم و خیال کسی حیثیت میں بھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٧۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت چھوڑ کر دنیا کا طالب بن جائے اس پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکم من ............ ویرضیٰ (٣٥ : ٦٢) ” آسمان میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں۔ ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے۔ “ لہٰذا ان کا دعویٰ بےبنیاد ہے اس سے پہلی آیت میں بھی ان کا بطلان ثابت کردیا گیا...  ہے اور عقائد کو ہر قسم کے شبہات اور ملاوٹ سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ صحیح عقیدہ یہ ہے کہ دنیا وآخرت دونوں میں فیصلے کا اختیار اللہ کو ہے اور انسان کی تمنائیں اور خواہشات حق میں تبدیلی نہیں لاسکتیں۔ سفارش کی اجازت اللہ کے اذن کے بغیر نہ ہوگی۔ لہٰذا آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس پیراگراف کے آخر میں مشرکین کے اوہام کو آخری بار رد کیا جاتا ہے کہ فرشتوں کے بارے میں مشرکین کے خیالات کسی اصل پر قائم نہیں ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کا خیال باطل کہ ہمارے معبود سفارش کردیں گے : مشرکین غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے ان معبودین میں بت بھی تھے اور فرشتے بھی۔ ان کا یہ خیال تھا کہ اللہ کے سواجن کی عبادت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارے سفارش کردیں ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے۔ یہ شیطان نے انہیں سمجھایا تھا، مطلب ان لوگوں کا یہ...  تھا کہ ہم شرک کرتے ہیں یہ اللہ کی رضا ہی کے لیے کرتے ہیں، قرآن مجید نے ان لوگوں کی تردید فرمائی بت تو بیچارے کیا سفارش کریں گے وہ تو خود ہی بےحس، بےروح اور بےجان ہیں اپنے نفع و ضرر ہی کو نہیں جانتے جو انہیں توڑنے لگے اسی سے بچاؤ نہیں کرسکتے وہ کیا سفارش کریں گے، فرشتے اور انبیائے کرام اور اللہ کے دوسرے نیک بندے اللہ کی بارگاہ میں شفاعت تو کردیں گے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو کہ فلاں فلاں کی سفارش کرسکتے ہو۔ آیت کریمہ ﴿ وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ ﴾ (الایۃ) میں اس مضمون کو بتایا ہے کہ آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں ان کی سفارش کچھ بھی کام نہیں آسکتی ہاں اللہ تعالیٰ جس کے لیے اجازت دے اور جس سے راضی ہو اس کی شفاعت سے فائدہ پہنچ سکے گا۔ اور چونکہ کافر اور مشرک کی بخشش ہی نہیں ہونی اس لیے ان کے لیے شفاعت کی اجازت ہونے کا کوئی تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ سورة الانبیاء میں ان لوگوں کی تردید فرمائی ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد بتاتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کی شفاعت کی امید رکھتے تھے۔ ارشاد فرمایا ﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ ١ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ٠٠٢٦ لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ ٠٠٢٧ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يَشْفَعُوْنَ ١ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَ هُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ ٠٠٢٨﴾ (اور وہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ ان کے اگلے پچھلے احوال کو جانتا ہے اور وہ سفارش نہیں کرسکتے مگر جس کے لیے وہ راضی ہوا اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” وکم من ملک۔ الایۃ “ یہ سورت کے دوسرے دعوے کا اعادہ ہے۔ اللہ کے بیشمار فرشتے جو آسمانوں میں رہتے ہیں اور ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف اور اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہیں، اس قرب و تقدس کے باوجود وہ بھی اللہ کے اذن کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتے، اس لیے وہ بھی شفیع قاہر نہیں ہیں بلکہ اللہ کے حک... م کے پابند ہیں۔ فرشتے صرف ان لوگوں کی شفاعت کریں گے جن کی شفاعت اللہ کو پسند ہوگی اور وہ صرف اہل توحید ہیں جن سے گناہ سردزد ہوئے۔ مشرکین کے حق تو فرشتوں کو شفاعت کی اجازت ہی نہیں ملے گی۔ لمن یشاء ویرضی ای من اھل التوحید (معالم و خازن ج 6 ص 264) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے موجود ہیں کہ ان کی سفارش اور شفاعت ذرا بھی نفع نہیں دے سکتی اور کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی مگر ہاں بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے شفاعت کرنے کا حکم اور اجازت دے دے اور اس کے لئے سفارش کو پسند کرے۔ یعنی اول تو فرشتے بلا اجازت کسی کی سفارش ہی نہیں کرسکتے اور ا... گر سب فرشتے مل کر بھی کسی کی شفاعت کریں تو نافع نہیں…ہاں صرف اس صورت میں نافع ہوسکتی ہے کہ اللہ جس کے لئے چاہے اذن دیدے اور اس کو پسند کرے یعنی اس کے حق میں سفارش کرنا اس کو پسندیدہ ہو یہ نہیں کہ جیسے دنیا میں بعض موقعہ پر محض دبائو سے یا لالچ سے کوئی کسی کی سفارش کرتا ہے یا کسی سے سفارش کرالیتا ہے۔  Show more