Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 3

سورة النجم

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾

Nor does he speak from [his own] inclination.

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nor does he speak of desire, asserting that nothing the Prophet utters is of his own desire or wish, إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وما ینطق عن الھویٰ : بھولنے یا جان بوجھ کر غلط راستے پر چلنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی صبح راستہ بتانے والے کے بجائے اپنے گمان یا خواہش نفس پر چل پڑتا ہے۔ مشرکین اور تمام گمراہ لوگوں کی گمراہی کا اصل باعث یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کے بجائے گمان اور اپنی خواہش نفس پر چلتے ہیں، جیس... ا کہ فرمایا :(ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس و لقد جآء ھم من ربھم الھدیٰ ) (النجم : ٢٣)” یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں اور بلاشبہ یقیا ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ “ ہمارا رسول ضلالت وغوایت سے اس لئے محفوظ ہے کہ وہ صرف ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے، اپنی خواہش اور مرضی سے کوئی کام نہیں کرتا ، حتیٰ کہ اپنی خواہش سے بولتا بھی نہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Holy Prophet&s Words are a Revelation from Allah وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (And he does not speak out of (his own) desire. It is not but revelation revealed [ to him ]....53:3-4]. The verses tell us that it is absolutely impossible for the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to forge lies and impute them to Allah. Nothing he utters is of his own wish or ... desire. He only conveys to the people what he was commanded to convey, in its entirety, without additions or deletions. An analysis of the various Traditions in Bukhari indicates that there are many categories or types of wahy [ inspiration or revelation ]. Type one is that in which the wordings and the meaning are both directly from Allah. This is called Qur&an. Type two is the one in which only the meaning comes from Allah, and the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) expresses the meaning in his own words. This is called Hadith or Sunnah [ Tradition ]. The subject of Hadith, which comes from Allah, sometimes lays down injunctions or rules of conduct in clear and express terms, and at other times it establishes a general principle from which the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) derives laws on the basis of ijtihad or analogy, and promulgates them. In this there does exist the possibility of mistake of judgment. But it is the characteristic of the Messenger صلی اللہ علیہ وسلم and other Prophets (علیہم السلام) that if they commit any error of judgment, Allah sends down a revelation to amend it, so that they do not unwittingly persist in their mistaken ijtihad. Unlike other scholars of ijtihad, who can persist in their erroneous conclusions. However, their error is not only forgiven, but they also receive one reward for exerting their utmost effort in comprehending the rule of religion to the fullest extent, as authentic and well-known Traditions bear testimony to this fact. The foregoing discussion also allays the following doubt: It seems, according to the above verses, that the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) does not speak of his own desire, but whatever he conveys to the people is a revelation from Allah. It follows from this that he does not exercise independent reasoning in any matter whatsoever, whereas authentic Traditions show otherwise. There are incidents recorded .that at the beginning, he promulgated one law, but, later on, revelation descended and the law was changed. This is an indication that the earlier law was not the law of Allah, but it was based on his ijtihad. The foregoing paragraph already responded to this objection: The second type of revelation establishes a general principle of law from which the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) derives laws on the basis of ijtihad, and promulgates them. Because the general principle has descended from Allah, all the laws are said to be the revelation from Allah. Allah knows best!   Show more

اس لئے آگے فرمایا : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کریں اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں، بلکہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کیا ہوا ہوتا ہے، وحی کی بہت سی اقسام احا... دیث بخاری سے ثابت ہیں، ان میں ایک قسم وہ ہے جس کے معنی اور الفاظ سب حق تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں، جس کا نام قرآن ہے، دوسری وہ کہ صرف معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معنی کو اپنے الفاظ میں ادا فرماتے ہیں اس کا نام حدیث اور سنت ہے، پھر حدیث میں جو مضمون حق تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے کبھی وہ کسی معاملہ کا صاف اور واضح فیصلہ اور حکم ہوتا ہے، کبھی کوئی قاعدہ کلیہ بتلایا جاتا ہے، جس سے احکام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اجتہاد سے نکالتے اور بیان کرتے ہیں، اس اجتہاد میں اس کا امکان رہتا ہے کہ کوئی غلطی ہوجائے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء کی یہ خصوصیت ہے کہ جو احکام وہ اپنے اجتہاد سے بیان فرماتے ہیں ان میں اگر کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی ہے وہ اپنے غلط اجتہاد پر قائم نہیں رہ سکتے، بخلاف دوسرے علماء مجتہدین کے کہ ان سے اجتہاد میں خطا ہوجائے تو وہ اس پر قائم رہ سکتے ہیں اور ان کی یہ خطا بھی عند اللہ صرف معاف ہی نہیں بلکہ دین کے سمجھنے میں جو اپنی پوری توانائی وہ خوچ کرتے ہیں اس پر بھی ان کو ایک ثواب ملتا ہے (کمافی الاحادیث الصحیحتہ المعروفتہ) اس تقریر سے آیت مذکورہ پر اس شبہ کا جواب بھی ہوگیا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب وحی من اللہ ہوتا ہے، تو اس سے لازم آتا ہے کہ آپ اپنی رائے اور اجتہاد سے کچھ نہیں فرماتے، حالانکہ احادیث صحیحہ میں متعدد واقعات ایسے مذکور ہیں کہ شروع میں آپ نے کوئی حکم دیا پھر بذریعہ وحی اس کو بدلا گیا، جو علامت اس کی ہے کہ یہ حکم اللہ کی طرف سے نہیں تھا، بلکہ آپ کی رائے اور اجتہاد سے تھا جواب اوپر آپ کا ہے کہ بعض اوقات وحی کسی قاعدہ کلیہ کی شکل میں آتی ہے، جس سے احکام کا استخراج کرنے میں پیغمبر کو اپنی رائے سے اجتہاد کرنا پڑتا ہے چونکہ یہ قاعدہ کلیہ اللہ کی طرف سے آیا ہے اس لئے ان سب احکام کو بھی وحی من اللہ کہا گیا ہے واللہ اعلم۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۝ ٣ ۭ نطق [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع . نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما...  له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر : 445- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ] «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا : هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل : حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر : 446- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه . ( ن ط ق ) عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

گفتہ پیغمبری وحی ہے قول باری ہے (وما ینطق عن الھویٰ اور نہ وہ اپنی خواہش نفسانی سے باتیں بناتے ہیں) اس آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو یہ جائز نہیں سمجھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش آنے والے نئے واقعات کے متعلق اپنی رائے اور اجتہاد سے کچھ کہیں کیونکہ قول باری ہے (ان ھو الا وحی یوحیٰ ۔ ... ان کا کلام تو تمام تروحی ہے جوان پر بھیجی جاتی ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بات اس طرح نہیں ہے طرح انہوں نے گمان کیا ہے۔ کیونکہ اجتہاد رائے کی بنیاد اگر وحی ہو تو اس کے موجب اور نتیجے کو اس کی طرف منسوب کرکے یہ کہنا جائز ہوگا کہ اس کا مصدر وحی ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور نہ آپ بذریعہ قرآن کریم اپنی نفسانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ۔ } ” اور یہ (جو کچھ کہہ رہے ہیں) اپنی خواہش نفس سے نہیں کہہ رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:3) ما ینطق مضارع منفی واحد مذکر غائب نطق (باب ضرب) مصدر۔ وہ نہیں بات کرتا ہے ۔ وہ نہیں کلام کرتا ہے۔ عن الھوی : عن حروف جار۔ الھوی مجرور۔ اسم ومصدر (باب سمع) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں۔ ناجائز نفسانی خواہش ، ناجائز رغبت۔ عن الھوی۔ اپنی ذاتی خواہش کی بناء پر۔ وما ینطق ع... ن الھوی۔ اور نہ وہ اپنی خواہش نفس سے کوئی بات کرتا ہے یہ جملہ مستانفہ ہے اور جملہ سابقہ کی دلیل ہے۔ اور تقدیر کلام یوں ہے وکیف یضل او یغوی وھو لا ینطق عن الھوی۔ وہ کیسے گمراہ ہوسکتا ہے یا بہک سکتا ہے جب کہ وہ اپنی خواہش نفس سے کوئی بات کرتا ہی نہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 بلکہ جیسا خدا کی طرف سے حکم ہوتا ہے سنا دیتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے الزامات کی تردید کرنے کے بعد بتلایا ہے کہ وحی کے بغیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بولتے۔ لہٰذا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرما رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر بھی قسم اٹھائی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی خو... اہش کے پیچھے چلنا تو درکنار آپ اپنی مرضی سے دین کے معاملہ میں لب کشائی نہیں کرتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرماتے اور کرتے ہیں وہ آپ پر وحی کی جاتی ہے۔ جو فرشتہ آپ کو وحی پہنچاتا ہے وہ جبرائیل امین ہے جو بڑا طاقت والا ہے۔ اس نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ آپ تک پہنچایا ہے وہ اللہ کے حکم سے پہنچایا : (اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر اتارا ہے۔ البقرۃ : ٩٧) اہل علم نے ” ذُوْمِرَّۃٍ “ کے تین معانی کیے ہیں۔ بڑا طاقتور، خوبصورت اور صاحب حکمت۔ حضرت جبرائیل میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ ) (مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب، حکمہ صحیح) ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خبردار بیشک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز عطا کی گئی ہے۔ خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز عطا کی گئی ہے۔ “ ” عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کچھ میں آپ سے سنتا ہوں لکھ لیا کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کبھی خوش ہوتے ہیں اور کبھی ناراضگی کی حالت میں۔ آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو ! کیونکہ میں حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔ “ (رواہ ابوبکر فی مسند البزار : باب ہَذَا مَا حَدَّثَ بِہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال البانی اسنادہ حسنٌ)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” وما ینطق۔ الایۃ “ اللہ کی طرف سے آپ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ اپنی رائے اور خواہش سے بنا کر نہیں لاتے، بلکہ اللہ کی طرف سے آپ پر اس کی باقاعدہ وحی ہوتی ہے۔ ای ما یصدر نطقہ فما اتاکم بہ من جھتہ عز وجل کالقران او من القران عن ھوی نفسہ ورایہ اصلا (روح ج 17 ص 46) ۔ ” ان ھو۔ الایۃ “ ھو سے مراد قرآن ہ... ے یعنی یہ قرآن وھی ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (بیضاوی، روح، وغیرہما) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور نہ وہ اپنی نفسانی خواہشات سے کوئی بات بنا کر کہتے ہیں۔ یعنی جیسا کہ م کہتے ہو کہ یہ قرآن اس نے خود بنالیا ہے یا اس نے کوئی نئی شریعت بنائی ہے حالانکہ جہاں تک انسانی ہدایت اور رہنمائی کا تعلق ہے ان کی کوئی بات بھی خود ساختہ اور اپنی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ۔