Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 30

سورة النجم

ذٰلِکَ مَبۡلَغُہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اہۡتَدٰی ﴿۳۰﴾ الرّبع

That is their sum of knowledge. Indeed, your Lord is most knowing of who strays from His way, and He is most knowing of who is guided.

یہی ان کے علم کی انتہا ہے ۔ آپ کا رب اس سے خوب واقف ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی خوب واقف ہے اس سے بھی جو راہ یافتہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ الْعِلْمِ ... That is what they could reach of knowledge. meaning, seeking this life and striving hard in its affairs is the best knowledge they have acquired. There is also the reported supplication: اللْهُمَّ لاَ تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا O Allah! Make not this life the greatest of our concerns, nor the best knowledge that we can attain. Allah's statement, ... إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى Verily, your Lord is He, Who knows best him who goes astray from His path, and He knows best him who receives guidance. meaning, He is the Creator of all creatures and He knows whatever benefits His servants. Allah is the One Who guides whom He wills and misguides whom He wills, and all of this indicates His power, knowledge and wisdom. Certainly, He is Just and never legislates or decrees unjustly.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] مشرکین مکہ کا مبلغ علم کیا تھا ؟ یعنی وہ اپنے دنیا کے مفادات سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔ ان کا تمام تر علم اسی مقصد میں صرف ہوتا ہے کہ دنیا میں وہ زیادہ مال و دولت کیسے کماسکتے ہیں۔ پھر بھی اگر وہ سمجھیں کہ وہی راہ حق پر ہیں تو یہ فیصلہ نہ ان کے اختیار میں ہے اور نہ ان کی صواب دید پر منحصر ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہی اپنی مخلوق کے حالات کو سب سے بہتر جان سکتا ہے لہذا آپ کو ان سے بحث و تکرار میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، نہ ہی انہیں راہ راست پر لاکر چھوڑنا آپ کی ذمہ داری ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ذلک مبلغھم من العلم : ” مبلغ “ ” بلغ یبلغ “ (ن) سے ظرف ہے پہنچنے کی جگہ۔” ذلک “ کا لفظ تحقیر کیلئے ہے کہ ان لوگوں کے علم کی پہنچ اور اتنہا اس حقیر حیات دنیا تک ہی ہے، جو آخرت کے مقابلے میں قلیل بھی ہے اور ناپائیدار بھی، اس سے آگے نہ انہیں کچھ علم ہے نہ وہ اس سے آگے جاننے یا سوچنے کے لئے تیار ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ایک دعا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ آئے ہیں :(ولاتجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا) (ترمذی، الدعوات، باب دعاء ” اللھم اقسم لنا…“ ، ٣٥٠٢، قال الالبانی حسن)” اور دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنانا اور نہ اسے ہمارے علم کی انتہا بنانا۔ “ (٢) ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ …: اس سے اللہ تعالیٰ کا کمال علم ثابت ہوتا ہے کہ اسے ان تمام لوگوں کا علم ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ان کا بھی جو اس کی راہ پر قائم ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝ ٠ ۙ وَہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدٰى۝ ٣٠ مبلغہم : مضاف مضاف الیہ۔ مبلغ بلوغ سے اسم ظرف پہنچنے کی جگہ۔ ان کی علمی انتہائ۔ ان کے علم کی آخری حد۔ ان کی انتہائی رسائی۔ بلوغ سے مصدر میمی بھی ہے۔ بمعنی پہنچنا۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ان لوگوں کے علم و عقل اور رائے کی حد بس یہی ہے کہ فرشتے اور بت اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور آخرت کی کوئی حقیقت نہیں۔ اے محمد آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اس کے رستے سے بھٹکا ہوا ہے یعنی ابوجہل اور اس کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر ہے، یعنی حضرت ابوبکر صدیق۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠{ ذٰلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ط } ” یہ ہے ان کے علم کی رسائی کی حد۔ “ ان کے علم کی رسائی بس دنیا تک ہی ہے اور وہ اسی میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ علم آخرت ان کے چھوٹے اور محدود ذہنوں کی پہنچ میں ہے ہی نہیں ۔ حالانکہ انسان کا ذہنی ظرف ذرا بھی وسیع ہو تو وہ اپنے غور و فکر سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے اس کی زندگی اتنی بےوقعت نہیں ہوسکتی کہ اسے ” چاردن “ کی زندگی کا عنوان دے کر فضول خواہشات کی نذر کردیا جائے ۔ بقول بہادر شاہ ظفر ؔ: ؎ عمر ِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں ! بہرحال یہ بات عقل اور منطق ہی کے خلاف ہے کہ انسان جیسی اشرف المخلوقات اور مسجودِ ملائک ہستی کی زندگی محض تیس ‘ چالیس یا پچاس برس کے دورانیے تک ہی محدود ہو۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کا فلسفہ بہت بصیرت افروز اور مبنی بر حقیقت ہے۔ علامہ کے نزدیک انسانی زندگی وقت کے ایسے جاودانی تسلسل کا نام ہے جسے پیمانہ امروز و فردا سے ناپنا ممکن ہی نہیں : ؎ تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی ! { اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ لا وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدٰی ۔ } ” یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ربّ خوب جانتا ہے ان کو بھی جو اس کی راہ سے بھٹک گئے ہیں اور وہ خوب جانتا ہے ان کو بھی جو ہدایت پر ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 This is a parenthetical sentence which has been inserted here as an explanation of the preceding verse. 27 That is, "These people neither know nor can think anything beyond the world and its immediate gains; therefore, it is futile merely to expend time and energy on them. "

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :27 یعنی یہ لوگ دنیا اور اس کے فوائد سے آ گے نہ کچھ جانتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں ، اس لیے ان پر محنت صرف کرنا لا حاصل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یہ ان لوگوں پر تبصرہ ہے جو بس اسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اور آخرت کا انہیں کوئی خیال ہی نہیں ہے کہ ان بیچاروں کی رسائی بس یہیں تک ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:30) مبلغہم : مضاف مضاف الیہ۔ مبلغ بلوغ سے اسم ظرف پہنچنے کی جگہ۔ ان کی علمی انتہائ۔ ان کے علم کی آخری حد۔ ان کی انتہائی رسائی۔ بلوغ سے مصدر میمی بھی ہے۔ بمعنی پہنچنا۔ بمن میں من موصولہ ہے ضل عن سبیلہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ربک کی طرف راجع ہے۔ یہ آیت امر بالاعراض کی تعلیل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی یہ لوگ صرف دنیا اور اس کے نفع و نقصان کو جانتے ہیں۔ مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟ اسے یہ لوگ نہیں جانتے اور نہ اس کے بارے میں کبھی غور فکر کرتے رہیں۔ 4 یعنی اللہ تعالیٰ کو ازل سے معلوم ہے کہ ان میں سے کو ایمان لائے گا اور کون کفر و شرک کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہے گا اور اللہ ہی ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے عمل کا بدلہ دے گا۔ لہٰذا ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑیئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ جب ان کی بد فہمی اور بےفکری کی نوبت یہاں تک پہنچی ہے تو ان کی فکر نہ کیجئے ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک ........ العلم (٣٥ : ٠٣) ” ان کا مبلغ علم بس یہی ہے “ یہ پہنچ بہت ہی معمولی ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ بہت بڑے پہنچ والے نظر آئیں۔ یہ کوتاہ دست ہیں۔ اگرچہ ان کے ہاتھ لمبے نظر آئیں وہ گمراہ ہیں اگرچہ تیزی سے فاصلے طے کررہے ہوں۔ اس لئے کہ جو شخص اپنے دل کے احساس اور عقل کے لحاظ سے اس دنیا میں قید ہو وہ کو لہو کے بیل کی طرح اس میں چکر کاٹے گا ، آگے نہیں بڑھ سکے گا حالانکہ ان کی نظروں کے سامنے یہ عظیم کائنات پڑی ہے۔ اس کائنات نے اپنے آپ کو پیدا نہیں کیا اور اس دنیا کا خود بخود وجود میں آنا ایک ایسا نظریہ ہے جو بداہتہً غلط ہے پھر یہ دنیا عبث بھی پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کا کوئی خالق ہے اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہی دنیا ہے اور یہی زندگی ہے تو اس طرح یہ تخلیق عبث ثابت ہوتی ہے لہٰذا اس دنیا پر جس حیثیت سے بھی غور کیا جائے۔ ایمان لانا لازمی قرار پاتا ہے اور ایمان کا یہ حصہ بھی لازمی قرار پاتا ہے کہ آخرت میں حشر ونشر لازمی ہے ورنہ یہ عظیم اور محیرالعقول کائنات کا عبث پیدا ہونا لازم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص ذکر الٰہی سے منہ موڑتا ہے اور صرف دنیا کے کاموں میں مشغول رہتا ہے اس کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔ یہ اعراض اس لئے ضروری ہے کہ اپنے اہتمام ، توجہ اور محنت کو بےمحل کاموں میں نہیں صرف کرنا چاہئے اور جن لوگوں کی دلچسپیاں صرف اس دنیا تک ہی محدود ہوں ان کی اہمت کو کم کرنے کے لئے بھی ان کی طرف سے منہ موڑنا ضروری ہے۔ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ایسے لوگوں سے منہ موڑ دو اس لئے ہمیں چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نظر انداز کردیں کیونکہ اطاعت امر ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہودیوں کی طرح ہم کہیں۔ سمعنا وعصینا اللہ ہمیں اس رویہ سے بچائے۔ ان ربک ............ اھتدی (٣٥ : ٠٣) ” یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے۔ “ اللہ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ ہیں۔ اس لئے اللہ نے نبی اور ان کے ساتھیوں کے لئے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ اپنے آپ کو گمراہ لوگوں کے ساتھ فضول مصروف رکھیں یا ان کے ہم محفل ہوں یا ان کے دوست بنیں نہ ان کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ جانتے بھی ہوں کہ یہ شخص گمراہ ہے اور اس کی سرگرمیاں صرف دنیا تک محدود ہیں۔ وہ حقیقت کا ادراک کرنے کی کوشش یا ارادہ نہیں کرتا اور جان بوجھ کر ایمان نہیں لاتا۔ آخرت پر ایمان نہیں لاتا اور اس کی تمام دلچسپیاں اس دنیا کی مختصر زندگی تک محدود ہیں۔ ایسے شخص پر محنت کریں۔ وہ علم جو ان کوتاہ بینوں اور گمراہوں کو حاصل ہوتا ہے وہ بظاہر عوام الناس کی نظروں میں بہت بڑا نظر آتا ہے وہ لوگ جن کا دل ، قوت مدرکہ اور احساس عامی ہوتا ہے اس لئے ان کو عملی زندگی میں وہ موثر نظر آتا ہے لیکن ان لوگوں کا یہ علم ان سے گمراہی کی صفت دور نہیں کرسکتا نہ ان سے صفت جہالت اور کوتاہ بینی کو دور کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اس کائنات اور اس کے خالق کے درمیان رابطہ اور انسانی عمل اور اس کی جزا وسزا کے درمیان رابطہ دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جو ہور علم کے لئے ضروری ہیں اور ان دونوں حقیقتوں سے خالی جو علم بھی ہوگا وہ سطحی ہوگا اور ورہ انسانی زندگی میں پوری طرح موثر نہ ہوگا نہ ہو اور اس کی وجہ سے ایک انسان اور انسان کے درمیان ادبی رابطہ قائم ہو۔ ورنہ تمام علوم صرف ٹیکنالوجی قرار پائیں گے۔ انسانیت کا تنزل شمار ہوں گے۔ علوم کا ٹیکنیکل پہلو جس قدر آگے بڑھتا ہے ان کا انسانی پہلو اس قدر گرتا ہے۔ انسان کا یہ شعور کہ اس کا ایک خالق ہے اور اس خالق نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کائنات کو بھی پیدا کیا ہے اور یہ انسان اور یہ کائنات ایک ہی انداز تخلیق رکھتے ہیں۔ انسان کے شعور حیات اور شعور ماحول کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ انسان کے وجود کی ایک قیمت ٹھہرتی ہے اور انسان کا مقصد وجود زیادہ جامع اور ارفع ہوجاتا ہے اور اس کا وجود اس کے محدود خاندان سے بلند ہوجاتا ہے۔ اس کا وجود اس کی قوم سے بڑا اور ارفع ہوجاتا ہے۔ اس کا وجود اس کے وطن سے زیادہ قیمتی ہوجاتا ہے۔ انسان طبقاتی کشمکش سے بالا ہوجاتا ہے اور اس قسم کی تمام تشکیلات اور اجتماعیتوں سے بالا ہوجاتا ہے۔ پھر انسان کا یہ شعور کہ اس کا خالق آخرت میں اس سے حساب لے گا اور اس کو جزا وسزا دے گا ، انسان کے جذبات ، انسان کے مقاصد ، انسان کے پیمانے اور قدریں بدل دیتا ہے۔ انسان کے تصورات کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ انسان کا انجام اس کے اخلاق کے ساتھ مربوط ہوجاتا ہے۔ یوں انسان کی قوت اور اس کی فعالیت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی ہلاکت یا اس کی نجات اس کی نیت اور عمل میں جواب دہی کے احساس پر موقوف ہوگا۔ یوں انسانی شخصیت کے اندر ” انسانیت “ قوی ہوگی کیونکہ انسان کے اندر یہ شعور ایک نگران کی طرح بیدار ہوتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ آخری حساب و کتاب ابھی باقی ہے۔ غرض اللہ پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا ایک بہت ہی اہم اور بڑا مسئلہ ہے اور انسانی زندگی میں اس کی بنیادی اہمیت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کے لئے یہ مسئلہ روٹی ، کپڑے اور مکان سے زیادہ اہم ہے۔ اگر یہ عقیدہ او شعور ہوگا تو یہ مخلوق ” انسان “ ہوگا اگر نہ ہوگا تو یہ محض جانور ہوگا۔ جب معیار بدل جائیں ، مقاصد بدل جائیں ، ہدف بدل جائے اور زندگی کے سب تصورات بدل جائیں تو پھر انسان اور انسان کے درمیان کوئی مابہ الاشتراک امر نہیں رہتا۔ باہم تعامل اور تعاون نہیں رہتا بلکہ باہم تعارف بھی نہیں رہتا اور لوگ ایک دوسرے کو سمجھ بھی نہیں سکتے ، چہ جائیکہ وہ باہمی انصاف کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مومن باللہ اور ایک خالص دنیا پرست ، مفاد پرست کے درمیان کوئی صحبت شرکت ، تعاون اور لین دین نہیں ہوسکتا۔ یہ تو ہے اصل اور حقیقت اس کے سوا اور جو بات بھی کوئی کرے گا وہ محض دکھاوا ہوگا اور امر الٰہی کے خلاف بات ہوگی۔ فاعرض ............ الدنیا (٣٥ : ٩٢) ” پس اے نبی جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں اسے اس کے حال پر چھوڑ دے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دعائیں کیا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ دعا بھی تھی : اللھم لاتجعل مصیبتنا فی دیننا ولا تجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا (اے ہمارے اللہ ہمارے دین میں کوئی مصیبت مت بھیج، اور دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر اور ہمارے علم کی پہنچ مت بنادے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢١٩) پھر فرمایا ﴿ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ١ۙ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدٰى ٠٠٣٠﴾ (بیشک آپ کا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ خوب جانتا ہے اس شخص کو جس نے ہدایت پائی دونوں فریقوں کا حال اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے وہ ہر ایک کے حال کے مطابق جزا سزا دیدے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” ان ربک “ یہ جملہ معترضہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ سب کو اچھی طرح جانتا ہے جو لوگ گمراہی پر مصر ہیں اور ہدایت کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ان کو بھی جانتا ہے اور وہ بھی اس کے علم میں جو ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ لوگ قبیل اول سے ہیں، اس لیے آپ ان کی خاطر اپنی جان نہ ماریں اور مشقت نہ اٹھائیں۔ ھو جل شانہ المبالغ فی العلم بمن لا یرعوی عن الضلال ابدا، وبمن یقبل الاھتداء فی الجملۃ لا غیرہ سبحانہ فلا تتعب نفسک فی دعوتہم ولا تبالغ فی الحرص علیہا فانہم من القبیل الاول (روح ج 27 ص 60) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) ان لوگوں کے فہم کی رسائی اور ان کے علم کی پہنچ بس یہیں تک ہے بیشک آپ کا پروردگار ہی اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہی اس سے خوب واقف ہے جس نے صحیح راہ پائی۔ ذکر سے مراد قرآن، یا ایمان، یا ذکر الٰہی اور خدا تعالیٰ کی یاد ہے ایسے لوگ جو ہمارے ذکر سے منہ پھیرتے ہیں اور کسی طرح نہیں مانتے آپ بھی ان سے بےتوجہی کا برتائو کیجئے کیو کہ ان کا مقصد صرف دنیوی زندگی کا عیش و آرام ہے اور ان کا مبلغ علم اور ان کے فہم کی رسائی اس سے آگے نہیں ہے یعنی عالم آخرت تک پہنچا ہی نہیں ان کے علم کی پہنچ اور رسائی کی حد یہیں تک ہے ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد اور حوالے کیجئے وہی جانتا ہے کہ گم کردہ راہ کون ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے۔