Allah knows Every Matter, whether Small or Big, and He rewards Each according to His or Her Deeds
Allah says,
وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَْرْضِ
...
And to Allah belongs all that is in the heavens and all that is on the earth,
Allah asserts that He is the King and Owner of the heavens and earth and that He is independent of the need for anyone. He is the authority over His creation and rules them with justice. He created the creation in truth,
...
لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاوُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى
that He may requite those who do evil with that which they have done, and reward those who do good, with what is best.
He recompenses each according to his or her deeds, good for good and evil for evil.
Qualities of the Good-doers; Allah forgives the Small Faults
Allah stated that the good doers are those who avoid major sins and immoral sins. They sometimes commit minor sins, but they will be forgiven these minor sins and covered from exposure, as Allah mentioned in another Ayah;
إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَأيِرَ مَا تُنهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّيَـتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلً كَرِيماً
If you avoid the great sins which you are forbidden to do, We shall expiate from you your (small) sins, and admit you to a Noble Entrance. (4:31)
Allah said here,
گناہ اور ضابطہ الہٰی
مالک آسمان و زمین بےپرواہ مطلق شہنشاہ حقیقی عادل خالق حق و حق کار اللہ تعالیٰ ہی ہے ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے والا نیکی پر نیک جزا اور بدی پر بری سزا دہی دے گا اس کے نزدیک بھلے لوگ وہ ہیں جو اس کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں سے بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں و نالائقیوں سے الگ رہیں ان سے بہ تقاضائے بشریت اگر کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو پروردگار پردہ پوشی کرتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا 31 ) 4- النسآء:31 ) اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے ، یہاں بھی فرمایا مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں لم کی تفسیر میرے خیال میں حضرت ابو ہریرہ کی بیان کردہ اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ یقینا پا کر ہی رہے گا آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے زبان کا زنا بولنا ہے دل امنگ اور آرزو کرتا ہے ، اب شرمگاہ خواہ اسے سچا کر دکھائے یا جھوٹا ( بخاری و مسلم ) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں آنکھوں کا زنا نظر کرنا ہے اور ہونٹوں کا بوسہ لینا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا چلنا ہے اور شرمگاہ اسے سچا کرتی ہے یا جھوٹا کر دیتی ہے یعنی اگر شرمگاہ کو نہ روک سکا اور بدکاری کر بیٹھا تو سب اعضاء کا زنا ثابت اور اگر اپنے اس عضو کو روک لیا تو وہ سب لم میں داخل ہے ، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ لم بوسہ لینا چھڑنا دیکھنا مس کرنا ہے اور جب شرمگاہیں مل گئیں تو غسل واجب ہو گیا اور زناکاری کا گناہ ثابت ہو گیا ، حضرت ابن عباس سے اس جملہ کی تفسیر یہی مروی ہے یعنی جو پہلے گذر چکا ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں گناہ سے آلودگی ہو پھر چھوڑ دے تو لم میں داخل ہے ، شاعر کہتا ہے
ان تغفر اللھم تغفر جما ، وای عبد لک ما الما
اے اللہ جبکہ تو معاف فرماتا ہے تو سب کچھ ہی معاف فرما دے ورنہ یوں آلودہ عصیاں تو ہر انسان ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں اہل جاہلیت اپنے طواف میں عموماً اس شعر کو پڑھا کرتے تھے ۔ ابن جریر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شعر کو پڑھنا بھی مروی ہے ترمذی میں بھی یہ مروی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں ، بزار فرماتے ہیں ہمیں اس کی اور سند معلوم نہیں صرف اسی سند سے مرفوعاً مروی ہے ابن ابی حاتم اور بغوی نے بھی اسے نقل کیا ہے بغوی نے اسے سورہ تنزیل میں روایت کیا ہے لیکن اس مرفوع کی صحت میں نظر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مراد یہ ہے کہ زنا سے نزدیکی ہونے کے بعد توبہ کرے اور پھر نہ لوٹے چوری کے قریب ہو جانے کے بعد چوری نہ کی اور توبہ کرکے لوٹ آیا اسی طرح شراب پینے کے قریب ہو کر شراب نہ پی اور توبہ کر کے لوٹ گیا یہ سب المام ہیں جو ایک مومن کو معاف ہیں ، حضرت حسن سے بھی یہی مروی ہے ایک روایت میں ہے صحابہ سے عمومًا اس کا مروی ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں ۔ ابن زبیر فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی ۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہ ہے جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53 ) 39- الزمر:53 ) اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے پھر فرمایا وہ تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر حال کا علم رکھنے والا اور تمہارے ہر کلام کو سننے والا اور تمہارے تمام تر اعمال سے واقف ہے جبکہ اس نے تمہارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکالی جو چیونٹیوں کی طرح پھیل گئی پھر ان کی تقسیم کر کے دو گروہ بنا دئیے ایک جنت کے لئے اور ایک جہنم کے لئے اور جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے اس کی مقرر کردہ فرشتے نے روزی عمر عمل نیکی بدی لکھ لی بہت سے بچے پیٹ سے ہی گر جاتے ہیں ۔ بہت سے دودھ پینے کی حالت میں فوت ہو جاتے ہیں ، بہت سے دودھ چھٹنے کے بعد بلوغت سے پہلے ہی چل بستے ہیں بہت سے عین جوانی میں دار دنیا خالی کر جاتے ہیں ، اب جبکہ ہم تمام منازل کو طے کر چکے اور بڑھاپے میں آگئے جس کے بعد کوئی منزل موت کے سوا نہیں اب بھی اگر ہم نہ سنبھلیں تو ہم سے بڑھ کر غافل کون ہے ؟ خبردار تم اپنے نفس کو پاک نہ کہو اپنے نیک اعمال کی تعریفیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اپنے آپ سراہنے نہ لگو جس کے دل میں رب کا ڈر ہے اسے رب ہی خوب جانتا ہے اور آیت میں ہے ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا 49 ) 4- النسآء:49 ) کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا ۔ محمد بن عمرو بن عطا فرماتے ہیں میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے حضرت زینت بنت ابو سلمہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ نے فرمایا تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا زینب نام رکھو مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ نے فرمایا افسوس تو نے اس کی گردن ماری کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں گمان فلاں کی طرف سے ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ ۔ ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر حضرت مقداد بن اسود اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔