Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 31

سورة النجم

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۙ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَسَآءُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَ یَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا بِالۡحُسۡنٰی ﴿ۚ۳۱﴾

And to Allah belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth - that He may recompense those who do evil with [the penalty of] what they have done and recompense those who do good with the best [reward] -

اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ اللہ تعالٰی برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah knows Every Matter, whether Small or Big, and He rewards Each according to His or Her Deeds Allah says, وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَْرْضِ ... And to Allah belongs all that is in the heavens and all that is on the earth, Allah asserts that He is the King and Owner of the heavens and earth and that He is independent of the need for anyone. He is the authority over His creation and rules them with justice. He created the creation in truth, ... لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاوُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى that He may requite those who do evil with that which they have done, and reward those who do good, with what is best. He recompenses each according to his or her deeds, good for good and evil for evil. Qualities of the Good-doers; Allah forgives the Small Faults Allah stated that the good doers are those who avoid major sins and immoral sins. They sometimes commit minor sins, but they will be forgiven these minor sins and covered from exposure, as Allah mentioned in another Ayah; إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَأيِرَ مَا تُنهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّيَـتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلً كَرِيماً If you avoid the great sins which you are forbidden to do, We shall expiate from you your (small) sins, and admit you to a Noble Entrance. (4:31) Allah said here,

گناہ اور ضابطہ الہٰی مالک آسمان و زمین بےپرواہ مطلق شہنشاہ حقیقی عادل خالق حق و حق کار اللہ تعالیٰ ہی ہے ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے والا نیکی پر نیک جزا اور بدی پر بری سزا دہی دے گا اس کے نزدیک بھلے لوگ وہ ہیں جو اس کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں سے بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں و نالائقیوں سے الگ رہیں ان سے بہ تقاضائے بشریت اگر کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو پروردگار پردہ پوشی کرتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا 31؀ ) 4- النسآء:31 ) اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے ، یہاں بھی فرمایا مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں لم کی تفسیر میرے خیال میں حضرت ابو ہریرہ کی بیان کردہ اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ یقینا پا کر ہی رہے گا آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے زبان کا زنا بولنا ہے دل امنگ اور آرزو کرتا ہے ، اب شرمگاہ خواہ اسے سچا کر دکھائے یا جھوٹا ( بخاری و مسلم ) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں آنکھوں کا زنا نظر کرنا ہے اور ہونٹوں کا بوسہ لینا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا چلنا ہے اور شرمگاہ اسے سچا کرتی ہے یا جھوٹا کر دیتی ہے یعنی اگر شرمگاہ کو نہ روک سکا اور بدکاری کر بیٹھا تو سب اعضاء کا زنا ثابت اور اگر اپنے اس عضو کو روک لیا تو وہ سب لم میں داخل ہے ، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ لم بوسہ لینا چھڑنا دیکھنا مس کرنا ہے اور جب شرمگاہیں مل گئیں تو غسل واجب ہو گیا اور زناکاری کا گناہ ثابت ہو گیا ، حضرت ابن عباس سے اس جملہ کی تفسیر یہی مروی ہے یعنی جو پہلے گذر چکا ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں گناہ سے آلودگی ہو پھر چھوڑ دے تو لم میں داخل ہے ، شاعر کہتا ہے ان تغفر اللھم تغفر جما ، وای عبد لک ما الما اے اللہ جبکہ تو معاف فرماتا ہے تو سب کچھ ہی معاف فرما دے ورنہ یوں آلودہ عصیاں تو ہر انسان ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں اہل جاہلیت اپنے طواف میں عموماً اس شعر کو پڑھا کرتے تھے ۔ ابن جریر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شعر کو پڑھنا بھی مروی ہے ترمذی میں بھی یہ مروی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں ، بزار فرماتے ہیں ہمیں اس کی اور سند معلوم نہیں صرف اسی سند سے مرفوعاً مروی ہے ابن ابی حاتم اور بغوی نے بھی اسے نقل کیا ہے بغوی نے اسے سورہ تنزیل میں روایت کیا ہے لیکن اس مرفوع کی صحت میں نظر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مراد یہ ہے کہ زنا سے نزدیکی ہونے کے بعد توبہ کرے اور پھر نہ لوٹے چوری کے قریب ہو جانے کے بعد چوری نہ کی اور توبہ کرکے لوٹ آیا اسی طرح شراب پینے کے قریب ہو کر شراب نہ پی اور توبہ کر کے لوٹ گیا یہ سب المام ہیں جو ایک مومن کو معاف ہیں ، حضرت حسن سے بھی یہی مروی ہے ایک روایت میں ہے صحابہ سے عمومًا اس کا مروی ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں ۔ ابن زبیر فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی ۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہ ہے جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے پھر فرمایا وہ تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر حال کا علم رکھنے والا اور تمہارے ہر کلام کو سننے والا اور تمہارے تمام تر اعمال سے واقف ہے جبکہ اس نے تمہارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکالی جو چیونٹیوں کی طرح پھیل گئی پھر ان کی تقسیم کر کے دو گروہ بنا دئیے ایک جنت کے لئے اور ایک جہنم کے لئے اور جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے اس کی مقرر کردہ فرشتے نے روزی عمر عمل نیکی بدی لکھ لی بہت سے بچے پیٹ سے ہی گر جاتے ہیں ۔ بہت سے دودھ پینے کی حالت میں فوت ہو جاتے ہیں ، بہت سے دودھ چھٹنے کے بعد بلوغت سے پہلے ہی چل بستے ہیں بہت سے عین جوانی میں دار دنیا خالی کر جاتے ہیں ، اب جبکہ ہم تمام منازل کو طے کر چکے اور بڑھاپے میں آگئے جس کے بعد کوئی منزل موت کے سوا نہیں اب بھی اگر ہم نہ سنبھلیں تو ہم سے بڑھ کر غافل کون ہے ؟ خبردار تم اپنے نفس کو پاک نہ کہو اپنے نیک اعمال کی تعریفیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اپنے آپ سراہنے نہ لگو جس کے دل میں رب کا ڈر ہے اسے رب ہی خوب جانتا ہے اور آیت میں ہے ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا 49؀ ) 4- النسآء:49 ) کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا ۔ محمد بن عمرو بن عطا فرماتے ہیں میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے حضرت زینت بنت ابو سلمہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ نے فرمایا تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا زینب نام رکھو مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ نے فرمایا افسوس تو نے اس کی گردن ماری کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں گمان فلاں کی طرف سے ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ ۔ ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر حضرت مقداد بن اسود اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یعنی ہدایت اور گمراہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے، گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے، تاکہ نیکوکار اس کی نیکیوں کا صلہ اور بدکار کو اس کی برائیوں کا بدلہ دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] اس آیت میں واضح طور پر آخرت، اس کی اہمیت اور اس کی حکمت بیان کی گئی ہے یعنی دنیا میں مشرک و موحد، نیک اور بد، متقی اور ظالم کے اعمال کا نتیجہ کبھی اتنا واضح طور پر نہیں نکلا کرتا جس سے انسان بھلائی کی راہ قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ دنیا صرف دارالعمل ہے دارالجزا اخروی زندگی ہے۔ وہاں برے اور بھلے مشرک اور موحد کا فرق اتنا واضح ہوگا جس کو ہر شخص دیکھ بھی لے گا اور عذاب وثواب اس پر واقع ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وللہ ما فی السموت وما فی الارض : لفظ ” للہ “ پہلے لانے سے حصر پیدا ہو رہا ہے۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے اختیار کے کمال کا ذکر ہے کہ ساری کائنات کی ہر چیز کا وہی مالک ہے۔ (٢) لیجزی الذین آساء وبما عملوا : تو جب وہ علم اور قدرت دونوں میں کامل ہے تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ وہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلا دے گا اور بھلائی کرنے والوں کو بھلائی کے ساتھ بدلا دے گا، ان میں سے کوئی بھی نہ کے علم سے اوجھل ہے نہ اس کی قدرت سے باہر ہے۔ اس میں برائی کرنے والوں کے لئے وعید اور بھلائی کرنے والوں کے لئے وعدہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۙ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝ ٣١ ۚ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آسمانوں اور زمین میں جس قدر مخلوق ہے وہ سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین کو ان کے شرک کی سزا دے گا اور موحدین کو ان کی توحید کے صلہ میں جنت عطا کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١{ وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ } ” اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے “ آسمانوں اور زمین کی ہرچیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ { لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآئُ وْا بِمَا عَمِلُوْا } ” تاکہ وہ بدلہ دے ان کو جنہوں نے برائیاں کمائی ہیں ان کے اعمال کا “ { وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰی ۔ } ” اور بدلہ دے ان کو جنہوں نے نیک کام کیے ہیں اچھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 In other words, neither the question whether a person is gone astray or is on right guidance, is to be decided in this world, nor has its decision been left to the judgement of the people of the world; the decision rests with Allah. He alone is the Master of the earth and heavens and He alone knows which way out of the different ways being followed by the people of the world, is the way of guidance and which of error and deviation. Therefore, you should least bother if the polytheistic Arabs and the Makkan disbelievers think you are deluded and misguided and regard their own ignorance as truth and guidance. Leave them alone if they wish to remain lost in their falsehood. You need not waste your time in disputing with them. 29 The theme is resumed here and connected as a continuous whole with verse 29. Without the parenthesis, it would read: 'Leave him alone so that AIlah may requite the evildoers for their evil deeds."

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :28 بالفاظ دیگر کسی آدمی کے گمراہ یا بر سر ہدایت ہونے کا فیصلہ نہ اس دنیا میں ہونا ہے نہ اس کا فیصلہ دنیا کے لوگوں کی رائے پر چھوڑا گیا ہے ۔ اس کا فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہی زمین و آسمان کا مالک ہے ، اور اسی کو یہ معلوم ہے کہ دنیا کے لوگ جن مختلف راہوں پر چل رہے ہیں ان میں سے ہدایت کی راہ کون سی ہے اور ضلالت کی راہ کون سی ۔ لہٰذا تم اس بات کی کوئی پروا نہ کرو کہ یہ مشرکین عرب اور یہ کفار مکہ تم کو بہکا اور بھٹکا ہوا آدمی قرار دے رہے ہیں اور اپنی جاہلیت ہی کو حق اور ہدایت سمجھ رہے ہیں ۔ یہ اگر اپنے اسی زعم باطل میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو انہیں مگن رہنے دو ۔ ان سے بحث و تکرار میں وقت ضائع کرنے اور سر کھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :29 یہاں سے پھر وہی سلسلہ کلام شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آ رہا تھا ۔ گویا جملہ معترضہ کو چھوڑ کر سلسلہ عبارت یوں ہے : اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣١۔ ٣٢۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمیان میں ہر طرح کی حکومت اور بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو بےفائدہ کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس جہان کے بعد پھر دوسرا جہان پیدا کیا جائے اور اس میں نیک و بد کی جزا و سزا کی جائے پھر نیکیوں کی نشانیاں بتائیں کہ وہ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ کبیرہ گناہ کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جس گناہ پر حد شرعی ہے یا عقبیٰ میں جس گناہ پر عذاب کا وعدہ آیا ہے وہ گناہ کبیرہ ١ ؎ ہے۔ جس کبیرہ گناہ کی شریعت میں مذمت زیادہ ہے وہ فاحشہ ہے۔ مثلاً ہمسایہ کی عورت سے بدکاری کرنا بہ نسبت عام بدرکاری کے اس کی مذمت شریعت میں زیادہ ہے غرض فاحشہ کو خاص قسم کے گناہوں میں منحصر کردینا اکثر علماء کے برخلاف ہے جمہور مفسرین نے لفظ لمم کے معنی صغیرہ گناہ کے لئے ہیں اور بعض مفسروں نے لمم کے معنی گناہ کے ارادہ اور قصد کے بھی کئے ہیں۔ اسی واسطے تینوں ترجموں میں یہاں اختلاف ہے۔ فارسی اور اردو کا مرادی ترجمہ جمہور کے قول کے موافق ہے اور اردو کا لفظی ترجمہ بعض مفسروں کے قول کے موافق ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے صغیرہ گناہ کی تعریف یہ کی ہے کہ جس گناہ پر حد شرعی دنیا میں اور عذاب کا وعدہ آخرت میں نہ ہو وہ گناہ صغیر ہے۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے رہیں گے اگر ان سے کچھ صغیرہ گناہ ہوا تو اور نیک عملوں کے طفیل سے وہ صغیرہ گناہ خود بخود معاف ہوجائیں گے۔ چناچہ فرمایا ان الحسنات یذھبن السیئات اور کبیرہ گناہ کرکے کوئی شخص دنیا میں توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور اس کی رحمت بہت بڑی ہے اور کبیرہ گناہ کرکے بغیر توبہ کے کوئی شخص مرجائے گا اور وہ کبیرہ گناہ شرک سے کم درجہ کا ہوگا تو بھی اللہ چاہے گا تو بخش دے گا غرض انسان کے دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے جب اولاد آدم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تھا۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ یہ گروہ جنتیوں کا ہے اور وہ گروہ دوزخیوں کا۔ اور ہر ایک انسان کا بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اسی وقت اس نیک و بد عمل اور خاتمہ کا حال اللہ کے حکم سے اللہ کا فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ اسی واسطے فرمایا کہ کسی کو اپنے متقی ہونے پر غرور نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جس کا انجام اور خاتمہ متقیوں کے ساتھ ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ کو ہی خوب معلوم ہے۔ صحیح ٣ ؎ مسلم میں زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک صحابی (رض) نے اپنی لڑکی کا نام نیکی رکھا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لڑکی کا نام بدل کر زینب رکھ دیا اور فرمایا جس کا انجام نیک ہونے والا ہے اس کا حال اللہ کو ہی خوب معلوم ہے۔ صحیح ١ ؎ بخاری ‘ صحیح مسلم ‘ مسنداحمد ‘ ابو دائود ‘ ابن ماجہ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی شخص کسی شخص کے نیک اور متقی ہونے کی تعریف کرے تو اس کو چاہئے کہ یہ کہہ دے کہ میں اپنے گمان میں اس شخص کو نیک اور متقی جانتا ہوں اور اصل حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ ترمذی ٢ ؎‘ ابوداؤد و موطا وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت جب جنتی ہونا اور دوزخی ہونا تقدیر الٰہی پر منحصر ہے تو عمل سے آخر کیا فائدہ ہے آپ نے فرمایا جو لوگ علم الٰہی میں جنتی ٹھہر چکے ہیں مرنے سے پہلے وہ بد عمل بھی کرلیں تو ممکن ہے لیکن خاتمہ ان لوگوں کا ضرور نیک حالت پر ہوتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں بیچ میں وہ لوگ کچھ نیک عمل بھی کرلیں تو ممکن ہے لیکن خاتمہ ایسے لوگوں کا ضرور بری حالت پر ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ شریعت میں خاتمہ کا بڑا اعتبار ہے اور خاتمہ ہی کو علم الٰہی کا نتیجہ شرع میں قرار دیا گیا ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خاتمہ سے پہلے متقی ہونے کے غرور سے منع فرمایا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کسی کو اپنا آخری وقت معلوم نہیں کہ موت کب اور کونسی گھڑی آجائے اس واسطے جہاں تک ہو سکے آدمی کو ہر وقت نیک کام میں لگا رہنا چاہئے تاکہ جب آخری وقت ایک دم کے دم میں آجائے وہ بھی نیک حالت کا ہو۔ (١ ؎ تفیرہ الدر المنثور ص ١٢٧ ج ٦۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب استحباب تغیبر الاسم القبیح الخ ٢٠٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی قول الرجل وینک ص ٩١٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء ان الاعمال بالخواتیم ص ٤٥ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:31) وللہ : میں واؤ عاطفہ ہے اور لام تخصیص کا ہے۔ اور اللہ ہی کا ہے۔ لیجزی لام تعلیل کا ہے یعنی اس نے پیدا کیا اس عالم کو جزاء اور سزاء دینے کی غرض سے۔ یجزی مضارع واحد مذکر غائب۔ منصوب بوجہ لام تعلیل۔ جزاء (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی جزاء دینا۔ بدلہ دینا۔ سزا دینا۔ وہ معاوضۃ یا بدلہ جو مقابلہ سے مستثنیٰ کردے۔ خیر کے بدلہ میں خیر شر کے بدلہ میں شر جزاء کہلاتا ہے۔ یہاں ترجمہ ہوگا :۔ تاکہ وہ سزا دے (برابر بدلہ دے) بدکار کو۔ الذین اسم موصول جمع مذکر اساء وا (جنہوں نے برا کام کیا) اساء وا ماضی جمع مذکر غائب۔ اساء ۃ (باب افعال) مصدر۔ انہوں نے برا کیا۔ بما میں ب سببیہ ہے ما موصولہ ہے عملوا اس کا صلہ۔ یہ سبب اس فعل کے جو انہوں نے کیا۔ احسنوا : ماضٰ جمع مذکر غائب احسان (افعال) مصدر۔ انہوں نے بھلائی کی انہوں نے نیک کام کیا۔ بالحسنی ب تعدیہ کا ہے۔ اچھا بدلہ۔ نیک بدلہ۔ عمدہ جزاء فعلی کے وزن پر حسن سے افعل التفضیل کا صیغہ واحد مؤنث ہے۔ اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کو عمدہ بدلہ دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی اب بطور نتیجہ ایسا ہونا ضروری ہے کہ …

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر شخص کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ہدایت کے راستے میں گامزن ہے یا گمراہی کے راستے کو اختیار کیے ہوئے ہے اس لیے کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کی سزا دے گا اور جو نیکی کو اچھے طریقے سے کرتے ہیں انہیں جزا دے گا۔ جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بےحیائی سے بچتے ہیں اگر وہ کسی چھوٹے گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ کیونکہ آپ کا رب بڑی بخشش والا ہے اور وہ تمہیں اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تمہاری اپنی ماؤں کے پیٹ میں ابتدا ہوتی ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اپنی پاکدامنی کا دعویٰ نہ کرے کیونکہ گناہوں سے بچنے والوں کو ” اللہ “ اچھی طرح جانتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور بخشش کی وسعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ گناہوں اور بےحیائی سے بچیں گے اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ چھوٹے گناہوں کے لیے ” اَللَّمَمَ “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مفسرین نے اس کے کئی معانی ذکر کیے ہیں جن کا خلاصہ چھوٹے گناہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان گناہوں کو یوں ہی معاف کردیتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آدمی وضو کرتا ہے تو وضو کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے گناہ ختم کردیئے جاتے ہیں۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے کبیرہ گناہوں کے سوا باقی گناہ بھی معاف کردیئے جاتے ہیں۔ گناہوں کی معافی کی خوشخبری دینے کے بعد حکم دیا ہے کہ اپنی پاک دامنی کا دعویٰ نہ کیا کرو۔ کیونکہ تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے۔ کبیرہ گناہوں کی تفصیل درج ذیل احادیث میں موجود ہے تاہم علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان گناہوں کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے۔ 1 جن کی حد مقرر کی گئی ہے۔ 2 جس گناہ پر اللہ اور اس کے رسول نے لعنت کی ہے۔ 3 وہ گناہ بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہوگا جس کے کرنے پر آدمی اصرار اور اس پر خوشی کا اظہار کرے۔ ” اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔ “ (النساء : ٣١) خود اپنی یا کسی کے سامنے کسی کی تعریف کرنا جائز نہیں : اپنی تعریف خود کرنا یا کسی کی تعریف اس کے سامنے کرنا کسی معاشرے میں بھی اسے مہذب نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ ایسی حرکت کرنے والا شخص سنجیدہ لوگوں کی نظروں میں گھٹیاتصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے تقویٰ کا اظہار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں فرمایا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ التَّقْوٰی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۔۔ ) (رواہ مسلم : باب تحریم ظلم المسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔۔ تقویٰ اس جگہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔۔ “ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ اأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ نَّحْثُوَ فِیْ أَفْوَاہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ ) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی کراھیۃ المدحۃ والمداحین قال ابو عیسیٰ ہذا حدیث غریب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم کسی کے منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالیں۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَبَآءِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ ) (رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر) ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔ “ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں ؟ جھوٹی گواہی دینا۔ “ (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَےْہِ ) (رواہ البخاری : باب تعدیل النساء بعضھن بعضا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ “ مسائل ١۔ زمین و آسمان اور ہر چیز اللہ کی ملک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بروں کو سزا دے گا اور نیک لوگوں کو جزا دے گا۔ ٣۔ کبیرہ گناہوں سے بچنے والے کے چھوٹے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا اور انتہا کو جانتا ہے۔ ٦۔ اپنی پاکدامنی کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون پرہیزگاری اختیار کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے : ١۔ ” اللہ “ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ ” اللہ “ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ ہر گرنے والا پتہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ ” اللہ “ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٦۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٧۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج : ٧٠) ٨۔ ” اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل : ٧٤) ٩۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی واقف ہے۔ ( البقرۃ : ٢٣٥) ١٠۔ ” اللہ “ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وللہ ............ بالحسنی (٣٥ : ١٣) ” اور زمین و آسمان کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا “ یہ کہ اللہ زمین و آسمانوں کی تمام چیزوں کا مالک ہے۔ اس سے آخرت کے عقیدے میں قوت اور تاثیر پیدا ہوتی ہے کیونکہ جس نے آخرت پر حساب و کتاب کو مقدر کیا ہے وہی مالک ہے زمین اور آسمانوں کا۔ لہٰذا وہ جزا وسزا پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ کام صرف اسی کا ہے اور وہی ان کے اسباب کا بھی مالک ہے اور اس حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مکمل اور عادلانہ جزاء وسزا دے۔ لیجزی ............ بالحسنی (٣٥ : ١٣) ” تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا “ اس کے بعد ان لوگوں کا تعین کردیا جاتا ہے جنہوں نے نیک عمل کئے اور جن کو جزائے حسن دی جانی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برے کام کرنے والوں کو ان کے اعمال کی سزا ملے گا اور محسنین کو اچھا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ﴾ اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے) اسی نے سب چیزوں کو پیدا فرمایا اسی مخلوق میں بنی آدم بھی ہیں جن کے لیے ہدایت بھیجی ہے ہدایت پہنچنے کے بعد دو فریق ہوگئے ایک فریق برے اعمال والا ہے دوسرا فریق اچھے اعمال والا ہے دونوں فریق کو اپنے اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا اس بات کو ﴿ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ يَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بالْحُسْنٰى ۚ٠٠٣١﴾ میں بیان فرمایا ہے پھر اچھے عمل کرنے والوں کی صفت بتاتے ہوئے ﴿اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىِٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ١ؕ﴾ فرمایا ہے اس میں نیک ہونے کی سلبی صفت بیان فرمادی اور یہ بتادیا کہ جیسے فرائض اور واجبات کا اہتمام کرنا اور دیگر اعمال صالحہ اور اخلاق عالیہ کا انجام دینا نیکیوں سے متصف ہونا نیک ہونے کی ایک صفت ہے اسی طرح اس کے مقابل بڑے گناہوں اور فحش کاموں کو چھوڑ دینا بھی اچھے بندوں کی صفت ہے، کوئی شخص نیک عمل کرتا رہے اور ساتھ ہی گناہ کبیرہ کا بھی ارتکاب کرے تو یہ شخص کامل طریقہ پر اچھے بندوں میں شمار نہیں ہوگا دونوں پہلو نیکی کا جزو ہیں جن کاموں کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل کرنا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے بچنا دونوں چیزیں مل جائیں توتب ایمان کا کمال حاصل ہوتا ہے اور بندہ ﴿ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا ﴾ کا مصداق بنتا ہے بہت سے لوگ نفلیں زیادہ پڑھتے ہیں لیکن گناہ چھوڑنے کی طرف توجہ نہیں کرتے حالانکہ گناہوں کو چھوڑنا بہت بڑی نیکی ہے بلکہ سب سے بڑی عبادت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ( اتق المحارم تکن اعبدالناس) (تو گناہوں سے بچ لوگوں میں سب سے بڑھ کر عبادت گزار ہوگا) (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٤٠) بات یہ ہے کہ نیکی کرنا بہ نسبت گناہ چھوڑنے کے آسان ہے اور بہت سے لوگ گناہوں سے بچنے میں کوئی خاص زیادہ ثواب نہیں سمجھتے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ گناہوں سے بچنا سب سے بڑی عبادت ہے جن گناہوں کی عادت پڑگئی ہے انہیں کرتے ہی رہتے ہیں نیکیوں کا اہتمام کرنے کے ساتھ ہی گناہوں کے چھوڑنے کا اہتمام کرنا بھی لازم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” وللہ ما فی السموات وما فی الارض “ یہ جملہ معترضہ برائے بیان توحید یہ ساری کائنات فرش سے لے کر عرش تک اللہ کی مخلوق و مملوک ہے وہی اس میں متصرف و مختار ہے اور تصرف و اختیار میں کوئی اس کا شریک نہیں، وہ اپنے ارادے اور اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے کرتا ہے، کسی کو اس کے آگے دم مارنے کی جرات نہیں اور نہ کوئی اس کی بارگاہ میں شفیع غالب ہے۔ 20:۔ ” لیجزی الذین “ لام عاقبت کیلئے ہے اور یہ اعلم بمن ضل کے ساتھ اور یجزی الذین احسنوا، اعلم بمن اھتدی کے ساتھ متعلق ہے بطریق لف و نشر مرتب۔ اللہ تعالیٰ گمراہوں کو اور ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے جس کا انجام یہ ہے کہ وہ گمراہوں اور برے لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا دے گا اور نیک لوگوں کو ان کے اچھے کاموں کی ضرور جزا دے گا۔ ” الذین یجتنبون۔ الایۃ “ یہ الذین احسنوا سے بدل ہے یا اس کی صفت ہے یعنی محسنین وہ لوگ ہیں جو کبیرہ گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے کلی اجتناب کرتے ہیں، لیکن صغائر اور معمولی لغزشیں ان سے سرزد ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش و رحمت اس قدرت وسیع ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے صغیرہ گناہوں کو محض اپنی مہربانی سے معاف فرما دیتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ شرک سے بچنے والوں کے چاہے تو کبائر بھی معاف فرما دے۔ ھو اعلم بکم۔ الایۃ “ اللہ تعالیٰ تم سب کو اس وقت سے جانتا ہے جب اس نے تمہارے جد اعلی آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تم اپنی ماؤں کے رحموں میں بصورت جنین ہوتے اس وقت بھی وہ تم کو جانتا ہے یعنی وہ تمہاری ساری حقیقت سے باخبر ہے اور تمہاری کوئی چیز اور تمہارا کوئی عمل اس سے پوشیدہ نہیں اس لیے تم خود اپنی بزرگی اور تقوی و طہارت کے دعوے نہ کرو۔ جو لوگ واقعی متقی ہیں اور اپنے اللہ کے احکام کی پابندی کر کے اپنے ظاہر و باطن کو رذائل و خبائث سے پاک کرچکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے اسے کسی کے بتانے کی ضرورت نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور اسی کے اختیار میں ہے تاکہ انجام کار ان لوگوں کو جنہوں نے برے عمل کئے ہیں اور برائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے کئے کا ان کا بدلا دے اور جنہوں نے بھلے کام کئے اور بھلائیاں کیں ان کو اچھا صلہ عنایت فرمائیے۔