Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 32

سورة النجم

اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾  6

Those who avoid the major sins and immoralities, only [committing] slight ones. Indeed, your Lord is vast in forgiveness. He was most knowing of you when He produced you from the earth and when you were fetuses in the wombs of your mothers. So do not claim yourselves to be pure; He is most knowing of who fears Him.

ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے سے گناہ کے بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے ، وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو ۔ وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَايِرَ الاِْثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلاَّ اللَّمَمَ ... Those who avoid great sins and Al-Fawahish (immoral sins) except Al-Lamam, Al-Lamam means, small faults and minor errors. Imam Ahmad recorded that Ibn Abbas said, "I have not seen anything that resembles Al-Lamam better than the Hadith that Abu Hurayrah narrated from the Prophet... , إِنَّ اللهَ تَعَالَى كَتَبَ عَلَى ابْنِ ادَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذلِكَ لاَ مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ النُّطْقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يُصِدِّقُ ذلِكَ أَوْ يُكَذِّبُه Verily, Allah the Exalted has decreed for the Son of Adam his share of Zina and he will certainly earn his share. The Zina of the eye is by looking, the Zina of the tongue is by talking and the heart wishes and lusts, but the sexual organ either substantiates all this or not." This Hadith is recorded in the Two Sahihs. Ibn Jarir recorded that Ibn Mas`ud said, "The eyes commit Zina by looking, the lips by kissing, the hands by transgressing, the feet by walking, and the sexual organ either materializes all of this or not. When one commits sexual intercourse, he will be someone who committed Zina. Otherwise, it is Al-Lamam." Masruq and Ash-Sha`bi also held the same view. Abdur-Rahman bin Nafi`, who is also known as Ibn Lubabah At-Ta'ifi, said, "I asked Abu Hurayrah about Allah's statement, إِلاَّ اللَّمَمَ (except the Lamam), and he said, `It pertains to kissing, winking one's eye, looking and embracing. When the sexual organ meets the sexual organ in intercourse then Ghusl is obligatory, and that is Zina." Encouraging Repentance and forbidding Claims of Purity for Oneself Allah's statement, ... إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ... verily, your Lord is of vast forgiveness. asserts that His Mercy encompasses everything, and His forgiveness entails every type of sin, if one repents, قُلْ يعِبَادِىَ الَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُواْ مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ Say: "O My servants who have transgressed against them- selves! Despair not of the mercy of Allah: verily, Allah forgives all sins. Truly, He is Oft-Forgiving, Most Merciful." (39:53) Allah said, ... هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الاَْرْضِ ... He knows you well when He created you from the earth, Allah says, `He was and still is the All-Knowing Whose knowledge encompasses your affairs, statements and all of the actions that will be committed by you, even when He created your father Adam from the earth and took his offspring from his loin, as small as ants. He then divided them into two groups, a group destined for Paradise and a group to Hellfire,' ... وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ... and when you were fetuses in your mothers' wombs. when He commanded the angel to record one's provisions, age, actions and if he would be among the miserable or the happy. Allah said, ... فَلَ تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ... So, ascribe not purity to yourselves. forbidding one from ascribing purity and praising himself and thinking highly of his actions, ... هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى He knows best him who has Taqwa. Allah said in another Ayah, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّى مَن يَشَأءُ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلً Have you not seen those who claim sanctity for themselves. Nay, but Allah sanctifies whom He wills, and they will not be dealt with unjustly, even equal to the extent of a Fatil. (4:49) In his Sahih, Muslim recorded that Muhammad bin `Amr bin `Ata said, "I called my daughter, Barrah (the pious one), and Zaynab bint Abu Salamah said to me, `The Messenger of Allah forbade using this name. I was originally called Barrah and he said, لاَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْبِرِّ مِنْكُم Do not ascribe purity to yourselves; Allah knows best who the pious people among you are,' They said, `What should we call her?' He said, سَمُّوهَا زَيْنَب (Call her Zaynab)." Imam Ahmad recorded a Hadith from Abdur-Rahman bin Abi Bakrah, from his father who said, "A man praised another man before the Prophet . The Messenger of Allah said, وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مرارًا إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لاَ مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَنًا وَاللهُ حَسِيبُهُ وَلاَ أُزَكِّي عَلَى اللهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذلِك Woe to you, you have cut off the neck of your friend! (He repeated this), If one of you must praise a friend of his, let him say, "I think that so-and-so is this and that; Allah knows best about him and I will never purify anyone before Allah," if he knows his friend to be as he is describing him." Al-Bukhari, Muslim, Abu Dawud and Ibn Majah collected this Hadith. Imam Ahmad recorded that Hammam bin Al-Harith said, "A man came before Uthman bin Affan and praised him. Al-Miqdad bin Al-Aswad started throwing sand in the face of that man, saying, `The Messenger of Allah ordered us to throw sand in their faces when we see those who praise."' Muslim and Abu Dawud also collected this Hadith.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 کبائر، کبیرت کی جمع ہے۔ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ زیادہ اہل علم کے نزدیک ہر وہ گناہ کبرہ ہے جس پر جہنم کی وعید ہے، یا جس کے مرتکب کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے اور اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ چھوٹے گناہ پر اصرار و دوام بھی اسی کبیرہ گناہ بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے معنی اور ما... ہیت کی تحقیق میں اختلاف کی طرح، اس کی تعداد میں بھی اختلاف ہے، بعض علماء نے انہیں کتابوں میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے کتاب الکبائر للذہبی اور الزواجر وغیرہ۔ فواحش، فاحشت کی جمع ہے، بےحیائی کے مظاہر چونکہ بہت عام ہوگئے ہیں، اس لیے بےحیائی کو، تہذیب، سمجھ لیا گیا، حتی کہ اب مسلمانوں نے بہی اس، تہذیب بےحیائی، کو اپنا لیا ہے۔ چناچہ گھروں میں ٹیوی، وی سی آر وغیرہ عام ہیں، عورتوں نے نہ صرف پردے کو خیرباد کہہ دیا، بلکہ بن سنور کر اور حسن وجمال کا مجسم اشتہار بن کر باہر نکلنے کو اپنا شعار اور وطیرہ بنالیا ہے۔ مخلوط تعلیم، مخلوط ادارے، مخلوط مجلسیں اور دیگر بہت سے موقعوں پر مرد و زن کا بےباکانہ اختلاط اور بےمحابا گفتگو روز افزوں ہے، دراں حالیکہ یہ سب، فواحش، میں داخل ہیں، جن کی بابت یہاں بتلایا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی مغفرت ہونی ہے، وہ کبائر فواحش سے اجتناب کرنے والے ہوں گے نہ کہ ان میں مبتلا۔ (2) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بڑے گناہ کے آغاز کا ارتکاب، لیکن بڑے گناہ سے پرہیز کرنا یا کسی گناہ کا ایک دو مرتبہ کرنا پھر ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ دینا، یا کسی گناہ کا محض دل میں خیال کرنا لیکن عملاً اس کے قریب نہ جانا، یہ سارے صغیرہ گناہ ہوں گے، جو اللہ تعالیٰ کبائر سے اجتناب کی برکت سے معاف فرمادے گا۔ (3) جنین کی جمع ہے جو پیٹ کے بچے کو کہا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ لوگوں کی نظروں سے مستور ہوتا ہے۔ (3) یعنی اس سے جب تمہاری کوئی کیفیت اور حرکت مخفی نہیں، حتی کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے، جہاں تمہیں کوئی دیکھنے پر قادر نہیں تھا، وہاں بھی تمہارے تمام احوال سے واقف تھا، تو بھر اپنی پاکیزگی بیان کرنے کی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کیا ضرورت ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ ایسا نہ کرو۔ تاکہ ریاکاری سے تم بچو۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] اس فقرہ کی تشریح و تفسیر کے لیے سورة نساء کی آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ ٥١، ٥٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [٢٣] یعنی یہ اس کی مغفرت کی وسعت ہی کا نتیجہ ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہے تو وہ ان گناہوں سے متعلق تمہارے خیالات، ابتدائی اقدامات تمہاری لغزشیں اور آلودگیاں سب کچھ معاف فرما دے گا۔ حالانکہ ان کی...  تعداد بڑے گناہوں کی نسبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ [٢٤] اپنے منہ میاں مٹھو بننا کیوں غلط ہے ؟۔ یعنی کسی بھی شخص کو اپنے تقویٰ اور نیک اعمال پر ناز اور فخر نہیں کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور بزرگ نہ سمجھنا چاہئے بلکہ اسے ابتدائ ً اپنی پیدائش پر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کن کن حالتوں سے گزر کر اس مقام تک آیا ہے اور کیا وہ حالتیں اس قابل ہیں کہ ان پر فخر کیا جاسکے۔ مٹی کے بعد اس کی پیدائش پانی کے ایک غلیظ اور حقیر قطرہ سے ہوئی پھر وہ ایک مدت اپنی ماں کے پیٹ کی غلاظتوں میں پرورش پاتا رہا۔ اور اب اگر وہ ایمان لے آیا ہے یا کچھ نیک عمل بجا لاچکا ہے تو اسے اپنے منہ میاں مٹھو بننا کیونکر زیب دیتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی معلوم نہیں اور نہ ہی یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کس قسم کے اعمال کرکے مرنے والا ہے کیونکہ زیادہ تر اعتبار تو انہی اعمال کا ہوسکتا ہے جو اس نے اپنی آخری زندگی میں انجام دیئے ہوں اور اس کے ایسے ہی اعمال پر اس کی اخروی جزا و سزا یا فلاح کا انحصار ہوگا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور آپ سچے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو وعدہ کیا گیا وہ بھی سچا تھا : && تم میں سے ہر ایک کا مادہ (نطفہ) اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس روز جمع کیا جاتا ہے۔ پھر چالیس دن تک وہ خون کی پھٹکی رہتا ہے۔ پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے اور اسے چار باتیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے اعمال کیسے ہوں گے ؟ رزق کتنا ہوگا ؟ عمر کتنی ہوگی ؟ اور آیا وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت ؟ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر (دنیا میں آنے کے بعد) تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو زندگی بھر نیک کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ بہشت اس سے ایک ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جاتی ہے۔ پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب آتا ہے تو وہ کوئی دوزخیوں کا سا کام کر بیٹھتا ہے اور کوئی بندہ زندگی بھر برے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ دوزخ اس سے ایک ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جاتی ہے پھر تقدیر کا لکھا غالب آتا ہے اور وہ بہشتیوں کا سا کام کرتا ہے && (اور وہ بہشت میں چلا جاتا ہے۔ ) (بخاری، کتاب بدء الخلق۔ باب ذکر الملائکۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم جنگ خیبر میں موجود تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک ساتھی (قزمان) کے حق میں فرمایا جو اسلام کا دعویٰ کرتا تھا (لیکن حقیقتاً منافق تھا) کہ یہ شخص دوزخی ہے && یہ شخص خوب جم کر لڑا اور زخمی ہوا حتیٰ کہ بعض لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد مبارک سے متعلق شک پیدا ہونے لگا۔ پھر لوگوں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ جب اسے زخموں سے زیادہ تکلیف ہوئی تو اس نے اپنی ترکش میں ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکالا اور اس سے اپنی گردن کو زخمی کرکے خودکشی کرلی۔ یہ صورت حال دیکھ کر کئی صحابہ کرام (رض) آپ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا : && یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سچی کی۔ اس شخص نے خود کشی سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے فرمایا : && اٹھ اور لوگوں میں منادی کر دے کہ && بہشت میں وہی جائے گا جو مومن ہوگا اور اللہ کی قدرت یہ ہے کہ وہ بدکار آدمی سے بھی اپنے دین کی مدد کرا دیتا ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) الذین یجتنبون کبیر الاثم و الفواحشن …: اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة شوریٰ (٣٧) کی تفسیر۔ (٢) الا اللم :” الالمام “ اور ” اللم “ کا اصل معنی ” کسیج گہ تھوڑی دیر کے لئے اترنا “ ہے۔ ” الم فلان بالمکان “ جب کبیرہ و گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں، مگر کبھی کسی وقت ان سے کوئی گناہ ہوجائے تو وہ اس پر ا... صرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے اس سے نکل جاتے ہیں۔ گناہ سیا ن کی آلودگی تھوڑی دیر کے لئے ہوتی ہے۔ (دیکھیے نسائ : ١٧، ١٨) طبری نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا :” اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی فاحشہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر توبہ کر لیات ہے۔ “” اللم “ کا معنی ” قریب ہونا “ بھی ہے، ” الم بالشیء اذا قاربہ ولم یخالطہ “ جب کوئی شخص کسی کام کے قریب ہوا ہو، مگر اس نے وہ کام نہ کیا ہو۔ اس لئے اکثر سلف نے ” اللمم “ سے مراد صغیرہ گناہ لئے ہیں۔ چناچہ ابن عباس (رض) نے فرمایا :” میں نے ” اللم ‘ کے مشابہ اس سے زیادہ کوئی یچز نہیں دیکھی جو ابوہریرہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ تکب علی ابن آدم حظہ من الزنا ، ادرک ذلک لا محالۃ ، فرنا العین النظر و زنا اللسان المنطق و النفس تمنی وتشتھی والفرج یصدق ذلک کلہ و یکدبہ) (بخاری، الاستذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ٦٢٣٣)” اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے لامحالہ اس نے پانا ہی پانا ہے۔ سو آنکھ کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا کرتا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس سب کو سچا کر دکھاتی ہے یا جھوٹا۔ “ مزید دیکھیے سورة نسائ (٣١) کی تفسیر۔ (٣) ان ربک واسع المغفرۃ : اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ” رب “ کا ذکر کر کے فرمایا کہ تیرا رب وسیع بخشش والا ہے، یعنی اس کی ربوبنیت کا نتیجہ ہے کہ وہ بندوں کے گناہں پر پردہ ڈلاتا ہے اور انہیں معاف فرماتا ہے ، ورنہ اگر وہ ہر چھوٹے بڑے گناہ پر گرفت فرمائے تو زمین پر کوئی متنفس باقی نہ چھوڑے۔ اس کی مغفرت اتنی وسیع ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کا ہر گناہ حتی کہ کفر و شرک بھی معاف کردیتا ہے اور جسے چاہے کفر و شرک کے سوا توبہ کے بغیر بھی سب کچھ معاف کردیتا ہے۔ (٤) ھوا اعلم بکم اذا نشآ کم من الارض …:” اجنۃ “ ” خنبین “ کی جمع ہے، بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں رہے کیونکہ وہ وہاں چھپا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی اس کی مغفرت کی یہ وسعت اس کے علم کی وسعت کی وجہ سے ہے، وہ تم سے بھی زیادہ تمہارا علم رکھتا ہے، اسے تمہارا اس وقت کا حال بھی معلوم ہے جب تم اس قابل ہی نہیں تھے کہ کچھ جان سکو۔ چناچہ وہ تمہارے اس وقت کا بھی علم رکھتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور سا وقت کا بھی جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی حالت میں تھے۔ اسے تمہاری کمزوری اور گناہ کی طرف رغبت خوب معلوم ہے، اس لئے وہ چھوٹے موٹے گناہوں کو ویسے ہی معاف کردیتا ہے۔ (٥) فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی : اس لئے اگر تمہیں کسی اچھے کام کی توفیق مل جائے تو نہ اس پر فخر کرو اور نہ اپنے آپ جکو پاک قرار دو ۔ ہمیشہ اپنی ابتدا پر نظر رکھو اور اپنی انتہا پر بھی، کیونکہ تمہارا انجام اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اچھا ہے یا برا۔ وہی جانتا ہے کہ حقیقی متقی کون ہے، جس کا خاتمہ تقویٰ پر ہوگا، تو جب تمہیں اپنا انجام ہی معلوم نہیں تو اپنے آپ ہونے کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہو ؟ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے سورة نساء کی آیت (٤٩) کی تفسیر۔ (٦) اس حکم کی دھڑلے کے ساتھ مخالفت سب سے زیادہ بعض صوفی حضرات نے کی۔ اس کی واضح دلیل ان کا ” وحدت الوجود “ کا عقیدہ ہے ، بھلا جو شخص مردہ مٹی سے بنا، پھر رحم کی تین ظلموتوں میں غلیظ خون کے ساتھ پرورش پاتا رہا اور پیشاب کے راستوں سے دو دفعہ گزر کر وجود میں آیا، جسے اپنے انجام تک کا علم نہیں کہ جنت ہے یا جہنم، اسے خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے حیا نہیں آتی۔ ان لوگوں نے اپنی ” انا ربکم الاعلی “ کی فرعونیت کی زہد و تقدس کے پردے میں چھپا رکھا ہے۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے ::” سبحانی، ما اعظم شانی “” میں پاک ہوں، میری شان کس قدر عظیمہے۔ “ کوئی کہتا ہے :” ملکی اعظم من ملک اللہ “ میرا ملک اللہ کے ملک سے بڑا ہے۔ “ کوئی کہتا ہے :” میرا دل چاہتا ہے دوزخ کو بجھا دوں، جنت کو جلا دوں۔ “ غرض اپنی پاکبازی کے دعوے کے ساتھ جو لاف زنی اور بےہودہ گوئی یہ لوگ کرتے ہیں آپ کو اور کسی جگہ مشکل سے ملے گی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Allah Forgives the Small Faults, Al-Lamam الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ‌ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ (those who abstain from the major sins and from shameful acts, except minor involvements....53:32) The preceding verse praises those who follow the right guidance of Allah and do good deeds. In the present verse, it is stated that the good-doers are those who avoid major sins and... , especially immoral sins and shameful deeds. There is one exception made by the expression lamam [ which will be elaborated upon later ].It means that they sometimes do commit minor sins [ lamam ] but that does not exclude them from the category of being muhsinin [ good-doers ]. The Companions and their followers interpret the word لَمَم lamam in two different ways: [ 1] Some commentators are of the view that it refers to small faults and minor errors which in Surah An-Nisa& has been described as sayyi&at: إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ‌ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ‌ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ |" (if you abstain from the major (sins) out of what you have been forbidden from We shall write off your minor sins - 4:31|". Ibn-Kathir has reported this from Sayyidna Ibn ` Abbas and Abu Hurairah (رض) [ 2] Some other scholars have held that lamam means, a sin that a person commits incidentally and then repents. After repentance, he never repeats it. Ibn Kathir has reported a narration from Ibn Jarir, first through Sayyidna Mujahid, and again through Sayyidna ` Ata&, from Ibn ` Abbas (رض) and through Hasan Basri (رح) from Sayyidna Abu Hurairah (رض) . The gist of that narration too is that even if a person were to commit a major sin incidentally and repents, he will not be excluded from the ranks of the God-fearing people. Verse [ 135] of Surah &Al-` Imran: [ 3] وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُ‌وا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُ‌وا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ‌ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّ‌وا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ And those who, when they happen to commit a shameful act or wrong themselves, remember Allah, then, seek forgiveness for their sins - and who is there to forgive sins except Allah? - and do not persist in what they have done, knowingly. [ 3:135] It should be noted that overwhelming majority of scholars concur that if a person persists in a minor sin and continues to do it in a determined way so that it becomes a habit, it will no longer be a minor sin, but will turn into a major sin. Therefore, Maulana Ashraf ` Ali Thanawi (رح) has explained the word lamam as those small sins in which the doer does not persist. Definition of Major and Minor Sins This subject is taken up in full detail in Surah An-Nisa& in this book Vol. 2/pp 404-410, under verse [ 31] إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ‌ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ |"If you abstain from major [ sins ] out of what you have been forbidden from, We shall write off your minor sins...|" , [ q.v.]. هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْ‌ضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ (He knows you more than anyone else [ from a time ] when He created you from the earth and when you were embryos in the wombs of your mothers...53:32) The word ajinnatun is the plural of janin which means embryo or foetus. This verse purports to say that man does not have knowledge of himself as much as Allah knows him. When he went through the various phases of his creation in his mother&s womb, he did not have any knowledge or sense. But his Creator knows fully well how wisely He was creating him. Thus he is made aware of his inability and lack of sufficient knowledge. Having said this, he is further made aware of the fact that any good he does is not his personal accomplishment. The ultimate source of his achievement is Allah: It is Allah who has given him limbs, organs and other parts of the body to perform the righteous deeds; it is He who has equipped him with the ability to move his limbs; then He has created the urge, will and determination to perform righteous actions. Hence, not even the greatest righteous, pious and God-fearing person has the right to pride upon his works and behave arrogantly. Besides, no one yet knows what the end result of his activities will be. Yet the end result is the most important factor in our life. Therefore, pride and arrogance is meaningless. The concluding part of the verse puts it thus: فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ So, do not claim purity [ from faults ] for your selves. He knows best who is God-fearing... (53:32). In other words, the merit of a person lies not only in his outer actions, but in taqwa in one&s heart and in his inner moral excellence and uprightness which endures till his death. Only Allah knows who is perfect in this quality. Sayyidah Zainab bint Abi Salamah (رض) was named by her parents as Barrah which means &righteous or upright&. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited the concluding part of this verse فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ (Do not claim purity for your selves.) and suggested the name be changed. Therefore, they changed her name to &Zainab&. Imam Ahmad records on the authority of ` Abdur-Rahman Ibn Abi Bakrah (رض) that a person praised another person in the presence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He stopped him and said |"If you have to praise a person, then say, &according to my knowledge the person appears to be upright and God-fearing وَلَا اُزَکِّی عَلَی اللہِ - and I cannot say that he is so` in the sight of Allah as well&.  Show more

اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ، اس آیت میں ہدایت ربانی کی پیروی کرنے والے محسنین (نیک لوگوں) کا ذکر مقام مدح میں فرما کر ان کی پہچان یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں سے عموماً اور فحش و بےحیائی کے کاموں سے بالخصوص دور رہتے ہیں، اس میں ایک استثناء... ، بلفظ لمم فرمایا گیا ہے (جس کی تشریح آگے آتی ہے) اور حاصل استثناء کا وہی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا کہ ان لوگوں کو جو محسن یعنی نیکوں کار کا خطاب دیا گیا ہے، لمم میں ابتلاء ان کو اس خطاب سے محروم نہیں کرتا۔ لَمَمَ کی تفسیر میں صحابہ وتابعین سے دو قول منقول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جن کو سورة نساء کی آیت میں سیئات سے تعبیر فرمایا ہے، اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ ، یہ قول حضرت ابن عباس و ابوہریرہ سے ابن کثیر نے نقل کیا ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ گناہ ہے جو انسان سے اتفاقی طور پر کبھی سرزد ہوگیا، پھر اس سے توبہ کرلی، اور توبہ کے بعد اس کے پاس نہیں گیا، یہ قول بھی ابن کثیر نے بروایت ابن جریر اول حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے اور پھر ابن جریر ہی کی دوسری روایات میں یہ قول بواسطہ عطاء حضرت ابن عباس سے اور بروایت حضرت حسن بصری حضرت ابوہریرہ بھی نقل کیا ہے، اس کا بھی حاصل یہ ہے کہ کسی نیک آدمی سے کبھی اتفاقاً گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوگیا اور اس نے توبہ کرلی تو یہ شخص بھی صالحین اور متقین کی فہرست سے خارج نہیں ہوگا، سورة آل عمران کی ایک آیت میں یہی مضمون بالکل واضح اور صریح آیا ہے، وہ یہ ہے کہ متقین کی صفات بیان کرنے کے ذیل میں فرمایا والَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ (یعنی وہ لوگ بھی متقین ہی میں داخل ہیں جن سے کوئی فحش کبیرہ گناہ سرزد ہوگیا یا وہ گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے تو فوراً ان کو اللہ کی یاد آئی اور اپنے گناہوں سے مغفرت مانگی اور اللہ کے سوا گناہوں کو معاف بھی کون کرسکتا ہے اور جو کچھ گناہ ہوگیا تھا اس پر جمے نہیں رہے) اور یہ بھی جمہور علماء کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ جس صغیرہ گناہ پر اصرار کیا جائے اور اس کی عادت ڈال لی جائے وہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے، اس لئے خلاصہ تفسیر مذکور میں لَمَمَ کی تفسیر ان صغیرہ گناہوں سے کی گئی ہے جس پر اصرار نہ کیا گیا ہو۔ صغیرہ اور کبیرہ گناہ کی تعریف : یہ مضمون پوری تفصیل کے ساتھ سورة نساء کی آیت اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ کی تفسیر میں معارف القرآن جلد دوم، ص 381 سے 386 تک لکھ دیا گیا ہے، وہاں ملاحظہ فرما لیا جائے۔ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ ، اجنہ جنین کی جمع ہے، بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہے اس کو جنین کہا جاتا ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے انسان کو اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ وہ خود اپنی جان کا بھی اتنا علم نہیں رکھتا، جتنا اس کے خالق سبحانہ کو ہے، کیونکہ ماں کے پیٹ میں جو تخلیق کے مختلف دور اس پر گزرے ہیں اس وقت وہ کوئی علم و شعور ہی نہ رکھتا تھا، مگر اس کا بنانے والا خوب جانتا تھا جس کی حکیمانہ تخلیق اس کو بنا رہی تھی، اس میں انسان کو عجز و کم علمی پر متنبہ کر کے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جو بھی کوئی اچھا اور نیک کام کرتا ہے وہ اس کا ذاتی کمال نہیں، خدا تعالیٰ کا بخشا ہوا انعام ہی ہے کہ کام کرنے کے لئے اعضاء وجوارح اس نے بنائے، ان میں حرکت کی قوت اس نے بخشی، پھر دل میں نیک کام کرنے کا داعیہ اور پھر اس پر عزم و عمل اسی کی توفیق سے ہوا، تو کسی بڑے سے بڑے نیک، صالح اور متقی و پرہیزگار انسان کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے عمل پر فخر کرے، اور اس عمل کو اپنا کمال قرار دے کر غرور میں مبتلا ہوجائے، اس کے علاوہ سب چیزوں کا مدار خاتمہ اور انجام پر ہے، ابھی اس کا حال معلوم نہیں کہ خاتمہ کس حال پر ہوتا ہے تو فخر و غرور کرنا کس بات پر، اس ہدایت کو اگلی آیت میں اس طرح بیان فرمایا :۔ فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى، یعنی تم اپنے نفس کی پاکی کا دعویٰ نہ کرو، کیونکہ اس کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کون کیسا ہے اور کس درجہ کا ہے، کیونکہ مدار فضیلت تقویٰ پر ہے، ظاہری اعمال پر نہیں اور تقویٰ بھی وہ معتبر ہے جو موت تک قائم رہے۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ کا نام ان کے والدین نے برہ رکھا تھا جس کے معنی ہیں نیکو کار، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت مذکورہ فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ تلاوت فرما کر اس نام سے منع کیا، کیونکہ اس میں اپنے نیک ہونے کا دعویٰ ہے اور نام بدل کر زینب رکھ دیا (رواہ مسلم فی صحیحہ، ابن کثیر) امام احمد نے عبدالرحمن بن بکرہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دوسرے آدمی کی مدح و تعریف کی، آپ نے منع فرمایا اور فرمایا کہ تمہیں کسی کی مدح وثناء کرنا ہی ہو تو ان الفاظ سے کرو کہ میرے علم میں یہ شخص نیک متقی ہے، ولا ازکی علی اللہ احداً یعنی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ ایسا ہی پاک صاف ہے جیسا میں سمجھ رہا ہوں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ۝ ٠ ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ۝ ٠ ۚ فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝ ٠ ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّق... ٰى۝ ٣٢ ۧ اجتناب ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه . الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔ كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة/ 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان/ 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر : 7- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم/ 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة/ 283] . وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما . وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم/ 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة/ 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة/ 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : { أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ } [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : { وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا } [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) |" تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : { فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا } [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : { آثِمٌ قَلْبُهُ } [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : { مُعْتَدٍ أَثِيمٍ } [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : { يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ } [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ لمَم تقول : لَمَمْتُ الشیء : جمعته وأصلحته، ومنه : لَمَمْتُ شعثه . قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ أَكْلًا لَمًّا[ الفجر/ 19] واللَّمَمُ : مقاربة المعصية، ويعبّر به عن الصّغيرة، ويقال : فلان يفعل کذا لَمَماً. أي : حينا بعد حين، وکذلک قوله : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] وهو من قولک : أَلْمَمْتُ بکذا . أي : نزلت به، وقاربته من غير مواقعة، ويقال : زيارته إِلْمَامٌ. أي : قلیلة . ( ل م م ) الممت الشئی کے معنی کسی معنی کو جمع کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ اسی سے لممت شعثہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کی پراگندہ حالت کو سنوارنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ أَكْلًا لَمًّا[ الفجر/ 19] اور میراث کے مال کو سمیٹ کر کھاجاتے ہو۔ اللمم کے اصل معنی معصیت ک قریب جانے کے ہیں کبھی اس سے صغیر گناہ بھی مراد لے لئے جاتے ہیں محاورہ ہے : فلان یفعل کذا لمما وہ کبھی کبھار یہ کام کرتا ہے ۔ اور ایت کریمہ : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو صغیرہ گناہوں کے سو ابڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ میں لمم کا لفظ الممت بکذا سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی کسی چیز کے قریب جانا کے ہیں یعنی ارادہ کرنا مگر مرتکب نہ ہونا ۔ نیز محاورہ ہے : زیارتہ المام یعنی اس کی زیارت مختصر ہوتی ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر/ 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو . ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی [ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ جنین والجنین : الولد ما دام في بطن أمه، وجمعه : أَجِنَّة . قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وذلک فعیل في معنی مفعول، والجنین القبر وذلک فعیل في معنی فاعل . الجنین ۔ بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں رہے اسے جنین کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع اجنۃ آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ اور یہ یعنی جنین بمعنی مفعول سے ہے یعنی چھپا ہوا ۔ الجنین قبر کو بھی کہتے ہیں ۔ فعیل بمعنی فاعل ہے یعنی چھپانے والی ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ہلکے گناہ کون سے ہیں ؟ قول باری ہے (الا اللھم مگر ہاں یہ کہ ہلکے ہلکے گناہ ہوجائیں) حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے لمم کے سلسلے میں اس سے بڑھ کر مناسب بات نہیں سنی جس کی روایت حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا : ” اللہ تع... الیٰ نے ابن آدم پر زنا کاری کی جو صورت لکھ دی ہے اس کا ارتکاب وہ لامحالہ کرکے رہے گا۔ آنکھوں کی زناکاری غلط نظ رہے اور زبان کی زنا کاری گفتگو ہے۔ انسان کا نفس تمنی کرتا ہے اور خواہش رکھتا ہے اور پھر اس کی شرمگاہ ان تمام باتوں کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔ “ حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ لمم سے مراد نظر بازی، آنکھوں سے اشارہ اور بوس وکنار ہے لیکن جب مرد وعورت کی شرمگاہیں ایک دوسرے کو مس کرلیں تو یہ زنکاری ہے اور اس سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ لمم نکاح کو کہتے ہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ لمہ (لم، مصدر کا اسم مرہ) زنا میں سے ہے۔ اس کا مرتکب توبہ کرلیتا ہے اور پھر کبھی یہ حرکت نہیں کرتا۔ ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت ہے کہ لمم دوحدوں کے درمیان ہے یعنی دنیا اور آخرت کی حدوں کے درمیان ۔ ان سے ایک اور روایت ہے کہ لمم سے وہ شخص مراد ہے جو عورت کے قریب جا پہنچتا ہے۔ عطاء کا قول ہے ہم بستری سے کم تمام باتیں لمم کہلاتی ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ لمم کا مفہوم یہ ہے کہ تم کسی گناہ کا ارتکاب کرو اور پھر توبہ کرلو۔ عمروبن دینار نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے (اللھم ان تغفرتغفر جما وای عبدلک لا السما ۔ اے اللہ ! اگر تو معاف کرے گا تو بہت زیادہ معاف کرے گا تیرا کون سا ایسا بندہ ہے جس سے چھوٹے موٹے گناہ سرزد نہ ہوئے ہوں) ایک قول ہے کہ لمم نفس کی خواہش کے تحت گناہ کے ارادے کا نام ہے جبکہ گناہ کا عزم ہو۔ ایک قول کے مطابق لمم کسی چیز کے قریب پہنچ جانے کو کہتے ہیں بغیر اس کے کہ اس میں داخلہ ہوجائے۔ جب انسان کسی چیز کے قریب جا پہنچے تو اس وقت یہ فقرہ کہا جاتا ہے ” الم بہ الماما ایک قول کے مطابق لمم چھوٹے موٹے گناہوں کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ قول باری ہے (ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم، اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے باز رہو گے جن سے تمہیں روکا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے موٹے) گناہوں کو معاف کردیں گے)  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اس طبقہ کے دنیوی اعمال کو بیان فرماتا ہے کہ وہ لوگ ایسے ہیں کہ شرک اور کبیرہ گناہوں اور زنا اور تمام سے بچتے ہیں۔ مگر ہلکے ہلکے گناہ کہ بےخیالی میں کسی پر نظر پڑگئی یا کسی کو ہاتھ لگ گیا اور پھر اس سے نفس کو ملامت کر کے توبہ کرلی یا یہ کہ شادی کے علاوہ وہ لوگ اور کچھ نہیں کرتے۔ بلا شبہ آپ کے پر... وردگار کی مغفرت بڑی وسیع ہے کہ صغائر و کبائر جو بھی توبہ کرے اس کو معاف فرما دیتا ہے۔ اور وہ تمہارے احوال کو تم سے زیادہ اس وقت سے اچھی طرح جانتا ہے جبکہ تمہیں کو آدم سے اور آدم کو مٹی سے اور مٹی کو زمین سے پیدا کیا تھا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے اسی وقت سے ہمیں تمہاری سب حالتوں کا علم ہے سو تم اپنے آپ کو گناہوں سے پاک مت سمجھا کرو بس گناہوں سے بچنے والوں اور نیکوکاروں کو وہی اچھی طرح جانتا ہے۔ شان نزول : هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ (الخ) واحدی طبرانی، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ثابت بن حارث انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا جب کوئی چھوٹا بچہ مرجاتا ہے تو وہ کہتے تھے کہ یہ صدیق ہے۔ رسول اکرم کو اس چیز کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا یہودی جھوٹے ہیں کوئی بچہ ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی ماں کے پیٹ میں پیدا کیا ہو مگر یہ کہ وہ شقی یا سعید نہ ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ یعنی وہ تمہیں خوب جانتا ہے جبکہ تمہیں زمین سے پیدا کیا تھا۔ (الخ)  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢{ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ } ” وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی سے بچتے ہیں سوائے کچھ آلودگی کے۔ “ یہاں پر لَـمَم سے مراد صغائر ہیں (١) ۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة النساء ‘ آیت ٣١ اور سورة الشوریٰ ‘ آیت ٣٧ میں بھی آچکا ہے اور اب یہاں ت... یسری مرتبہ آیا ہے۔ مذکورہ آیات کے ضمن میں اس مضمون کے مختلف پہلوئوں کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں بہت زیادہ متفکر ّ بھی نہ ہواجائے اور دوسروں سے درگزر سے بھی کام لیا جائے۔ یہاں اس حوالے سے میں آپ کی توجہ اس تلخ حقیقت کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ہر شخص کسی نہ کسی دلیل کے ساتھ ایک دو کبائر کو اپنے لیے ” جائز “ قرار دے لیتا ہے (اِلا ماشاء اللہ) ۔ فیکٹری کا مالک کہتا ہے کہ کیا کریں جی ! سود کے بغیر تو ہمارے ملک میں کاروبار کا کوئی تصور ہی نہیں۔ اب مجبوری ہے ‘ کیا کریں ! فیکٹری بند کر کے تو نہیں بیٹھ سکتے نا۔ سرکاری ملازم کہتا ہے کہ سکولوں کی فیسیں ‘ گھر کا کرایہ ‘ یوٹیلٹی بلز کہاں سے ادا کروں ؟ تنخواہ میں تو کسی طرح بھی گزارا ممکن نہیں۔ اب اگر رشوت نہیں لیں گے تو ظاہر ہے بھوکوں مریں گے ! غرض ہر شخص نے اپنے ضمیر کے سامنے اپنی مجبوری کا رونا رو کر کبائر میں سے کم از کم ایک گناہ کو اپنا لیا ہے اور ضمیر کی تسلی کے لیے اپنی تمام تر ترجیحات صغائر سے ” پرہیز “ کی طرف منتقل کردی ہیں۔ اس حوالے سے یہ لوگ صغائر سے متعلق مسائل بھی دریافت کرتے ہیں ‘ پھر ان مسائل پر بحثیں بھی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں دوسروں پر اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں ‘ بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑوں کی وجہ سے ” من دیگرم تو دیگری “ (میں اور ہوں ‘ تم اور ہو) کے فتوے بھی صادر کیے جاتے ہیں۔ اس معاملے میں کوئی بھی اللہ کا بندہ یہ نہیں سوچتا (الا ماشاء اللہ ! ) کہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ میں اس چند روزہ زندگی کی آسانیوں اور عیاشیوں کے بدلے اصل زندگی کو تو قربان نہ کروں۔ اگر ایک کام سے جائز طور پر گزارا نہیں ہوتا تو کوئی دوسرا کام کرلوں ‘ یا اپنی ضروریات کو سکیڑ کر کم وسائل کے ساتھ زندگی بسر کرلوں ‘ مگر حرام تو نہ کھائوں ! { اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ } ” یقینا آپ کا ربّ بہت ہی وسیع مغفرت والا ہے۔ “ اس کا دامن ِمغفرت بہت وسیع ہے۔ اہل ِایمان بندے اگر کبائر و فواحش سے اجتناب کرتے رہیں تو وہ ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر گرفت نہیں کرے گا اور اپنی رحمت بےپایاں کی وجہ سے ان کو معاف فرما دے گا۔ { ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ } ” وہ تمہیں خوب جانتا ہے ‘ جبکہ اس نے تمہیں زمین سے اٹھایا اور جب کہ تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں جنین کی شکل میں تھے۔ “ { فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْط ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ۔ } ” تو تم خود کو بہت پاکباز نہ ٹھہرائو۔ وہ اسے خوب جانتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ “ یعنی اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو ‘ وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعتا متقی کون ہے۔ دراصل اپنی پرہیزگاری کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت اس شخص کو ہی محسوس ہوتی ہے جس کا دل ” تھو تھا چنا باجے گھنا “ کے مصداق تقویٰ سے خالی ہو ۔ جہاں تقویٰ کی روح کو نظر انداز کیا جا رہا ہوگا وہاں سارا زور تقویٰ کے مظاہر پر ہوگا۔ اندر سے حرام خوری جاری ہوگی اور اس کو چھپانے کے لیے اوپر سے چھوٹی چھوٹی دینی علامات کو اپنا کر تقویٰ کا لبادہ اوڑھ رکھاہو گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 For explanation, see E.N. 53 of An-Nisa. 31 For explanation, sec E.N. 130 of AI-An'am and E.N. 89 of An-Nahl. 32 The word lamam as found in the original is used for a small quantity of something, or its slight effect, or its mere closeness, or its existence for a short time. This word is used to express the sense that a person did not commit an act but was very near to committing it. On the ... basis of its usages some commentators have taken the word lamam in the meaning of minor sins. Some others have taken it in the meaning that a person should practically reach very near a grave sin but -should desist from actually committing it. Still others take it in the sense of a person's remaining involved in a sin temporarily and then desisting from it. And according to some it implies that a person should think of, or wish, or intend to commit a sin but should rake no practical steps towards it. In this regard, the views of the Companions and their immediate followers are as follows: Zaid bin Aslam and Ibn Zaid opine, and a saying of Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas also is to the same effect, that it signifies those sins which the people had committed in the pre-Islamic days of ignorance, then alter embracing Islam they refrained from them.' Another view of Ibn `Abbas is, and the same is also the view of Hadrat Abu Hurairah, Hadrat 'Abdullah bin 'Amr bin 'As, Mujahid, Hasan Basri and Abu Salih, that it implies a person's being involved in a grave sin or indecency temporarily, or occasionally, and then giving it up. Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud, Masruq and Sha'bi say, and the same also has been reported from Hadrat Abu Hurairah and Hadrat 'Abdullah bin `Abbas in authentic traditions, that this implies a person's approaching the very point of a grave sin and crossing alI its preliminaries but then restraining himself at the final stage, e.g. a person goes out with the intention of stealing but refrains from it in the end, or has colse association with other women, but refrains from committing adultery. Hadrat 'Abdullah bin Zubair, `Ikrimah, Qatadah and Dahhak say that this signifies those minor sins for which no punishment has been prescribed in the world nor any threat of punishment held out in the Hereafter. Said bin al-Musayyab says that this implies one's thinking of a sin in the mind but restraining oneself from committing it practically . These arc the different explanations which have been reported in the traditions from the Companions and their immediate followers. The majority of the later commentators and doctors of law and jurists arc of the opinion that this verse and verse 31 of Surah An-Nisa classify sins into two main kinds: the major sins and the minor sins, and these two verses give man the hope that if he abstains from the major sins and open indecencies, AIlah will overlook his minor errors. Although some distinguished scholars have also opined that no sin is minor and the disobedience of Allah is by itself a major sin, yet as stated by Imam Ghazali the distinction between the major and the minor sins is something which cannot be denied, for the sources of knowledge of the Shari'ah values and injunctions aII point to this. As for the question, what is the distinction between the major and the minor sins, and what kinds of sins are major and what kinds of them minor ? we are satisfied that: "Every such act is a major sin which has been forbidden by a clear ordinance of the Divine Book and the Shari'ah of the Prophet, or for which AIIah and His Messenger have prescribed a punishment in the world, or have held out a threat of punishment in the Hereafter, or have cursed the one guilty of committing it, or given the news of infliction of punishment on those guilty of committing it. " Apart from this class of sins all other acts which are disapproved by the Shari'ah, come under the definition of minor sins. Likewise, the mere desire for a major sin, or an intention to commit it, also is not a major sin but a minor sin; so much so that even crossing all the preliminaries of a major sin does not constitute a major sin unless one has actually committed it. However, even a minor sin becomes a major sin in case it is committed with a feeling of contempt for religion and of arrogance against Allah, and the one guilty of it does not consider the Shari`ah that has declared it an evil worthy of any attention and reverence. 33 That is, "The forgiveness for the one guilty of minor sins is not for the reason that a minor sin is no sin, but for the reason that AIIah Almighty does not treat His servants narrow-mindedly and does not seize them on trifling faults; if the servants adopt piety and abstain from major sins and indecencies, He will not seize them for their minor errors and will forgive them magnanimously on account of His infinite mercy."  Show more

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء ، حاشیہ 53 ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :31 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حاشیہ 130 جلد دوم ، النحل حاشیہ 89 ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :32 اصل الفاظ ہیں اِلَّا اللَّمَمَ ۔...  عربی زبان میں لَمَم کا لفظ کسی چیز کی تھوڑی سی مقدار ، یا اس کے خفیف سے اثر ، یا اس کے محض قرب ، یا اس کے ذرا سی دیر رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثلاً کہتے ہیں اَلَمَّ بَالْمَکَانِ ، وہ شخص فلاں جگہ تھوڑی دیر ہی ٹھہرا ، یا تھوڑی دیر کے لیے ہی وہاں گیا ۔ اَلَمَّ بِالطَّعَامِ ، اس نے تھوڑا سا کھانا کھایا ۔ بِہ لَمَمٌم اس کا دماغ ذرا سا کھسکا ہوا ہے ، یا اس میں کچھ جنون کی لٹک ہے ۔ یہ لفظ اس معنی میں بولتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک فعل کا ارتکاب تو نہیں کیا مگر ارتکاب کے قریب تک پہنچ گیا ۔ فَرّاء کا قول ہے کہ میں نے عربوں کو اس طرح کے فقرے بولتے سنا ہے ضربہ مالمم القتل ، فلاں شخص نے اسے اتنا مارا کہ بس مار ڈالنے کی کسر رہ گئی ۔ اور اَلَمّ یفعل ، قریب تھا کہ فلاں شخص یہ فعل کر گزرتا ۔ شاعر کہتا ہے اَلَمت فحیّت ثم قَامت فودعت ، وہ بس ذرا کی ذرا آئی سلام کیا ، اٹھی اور رخصت ہو گئی ۔ ان استعمالات کی بنا پر اہل تفسیر میں بعض نے لمم سے مراد چھوٹے گناہ لیے ہیں ۔ بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آدمی عملاً کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جائے مگر اس کا ارتکاب نہ کرے ۔ بعض اسے کچھ دیر کے لیے گناہ میں مبتلا ہونے اور پھر اس سے باز آ جانے کے معنی میں لیتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی گناہ کا خیال ، یا اس کی خواہش ، یا اس کا ارادہ تو کرے مگر عملاً کوئی اقدام نہ کرے ۔ اس سلسلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال حسب ذیل ہیں : زید بن اسلم اور ابن زید کہتے ہیں ، اور حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ معاصی ہیں جن کا ارتکاب اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں لوگ کر چکے تھے ، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا ۔ ابن عباس کا دوسرا قول یہ ہے ، اور یہی حضرت ابوہریرہ ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاض ، مجاہد ، حسن بصری اور ابوصالح کا قول بھی ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ یا کسی فحش فعل میں کچھ دیر کے لیے ، یا احیاناً مبتلا ہو جانا اور پھر اسے چھوڑ دینا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور مسروق اور شعبی فرماتے ہیں اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی معتبر روایات میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جانا اور اس کے ابتدائی مدارج تک طے کر گزرنا مگر آخری مرحلے پر پہنچ کر رک جانا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص چوری کے لیے جائے ، مگر چرانے سے باز رہے ۔ یا اجنبیہ سے اختلاط کرے ، مگر زنا کا اقدام نہ کرے ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ، عِکرمہ ، قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کے لیے دنیا میں بھی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے اور آخرت میں بھی جن پر عذاب دینے کی کوئی وعید نہیں فرمائی گئی ہے ۔ سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے گناہ کا خیال دل میں آنا مگر عملاً اس کا ارتکاب نہ کرنا ۔ یہ حضرات صحابہ و تابعین کی مختلف تفسیریں ہیں جو روایات میں منقول ہوئی ہیں ۔ بعد کے مفسرین اور ائمہ و فقہاء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ یہ آیت اور سورہ نساء کی آیت 31 صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں ، ایک کبائر ، دوسرے صغائر ۔ اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے در گزر فرمائے گا ۔ اگرچہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجائے خود کبیرہ ہے ۔ لیکن جیسا کہ امام غزالی نے فرمایا ہے ، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس قسم کے گناہ صغیرہ اور کس قسم کے کبیرہ ہیں ، تو اس معاملہ میں جس بات پر ہمارا اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ فعل گناہ کبیرہ ہے جسے کتاب و سنت کی کسی نصّ صریح نے حرام قرار دیا ہو ، یا اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی ہو ، یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید سنائی ہو ، یا اس کے مرتکب پر لعنت کی ہو ، یا اس کے مرتکبین پر نزول عذاب کی خبر دی ہو ۔ اس نوعیت کے گناہوں کے ماسوا جتنے افعال بھی شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہیں وہ سب صغائر کی تعریف میں آتے ہیں ۔ اسی طرح کبیرہ کی محض خواہش یا اس کا ارادہ بھی کبیرہ نہیں بلکہ صغیرہ ہے ۔ حتیٰ کہ کسی بڑے گناہ کے ابتدائی مراحل طے کر جانا بھی اس وقت تک گناہ کبیرہ نہیں ہے جب تک آدمی اس کا ارتکاب نہ کر گزرے ۔ البتہ گناہ صغیرہ بھی ایسی حالت میں کبیرہ ہو جاتا ہے جبکہ وہ دین کے استحقاق اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں استکبار کے جذبہ سے کیا جائے ، اور اس کا مرتکب اس شریعت کو کسی اعتناء کے لائق نہ سمجھے جس نے اسے ایک برائی قرار دیا ہے ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :33 یعنی صغائر کے مرتکب کا معاف کر دیا جانا کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ صغیرہ گناہ ، گناہ نہیں ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ نظری اور خوردہ گیری کا معاملہ نہیں فرماتا ۔ بندے اگر نیکی اختیار کریں اور کبائر و فواحش سے اجتناب کرتے رہیں تو وہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفت نہ فرمائے گا اور اپنی رحمت بے پایاں کی وجہ سے ان کو ویسے ہی معاف کر دے گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’لَمَم‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے لفظی معنیٰ ہیں ’’تھوڑاسا‘‘، چنانچہ عام طور سے مفسرین نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ جو کبھی کبھار سرزد ہوجائیں۔ اور لَمَم کے معنیٰ قریب ہونے کے بھی ہوتے ہیں، اس لحاظ سے بعض مفسرین نے اس لفظ کی تشریح یہ کی ہے کہ اس سے مراد ی... ہ ہے کہ اِنسان کسی گناہ کے قریب چلاجائے، مگر اِس کا ارتکاب نہ کرے۔ 17: اس آیت میں اپنے آپ کو مقدس اور متقی سمجھنے اور اپنی تعریفیں کرتے رہنے سے منع کیا گیا ہے۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:32) یجتنبون مضارع جمع مذکر غائب اجتناب (افتعال) مصدر سے : وہ بچتے ہیں۔ وہ پرہیز کرتے ہیں۔ کبئر الاثم : مضاف مضاف الیہ۔ بڑے بڑے گناہ۔ یجتنبون کا مفعول ہے ۔ الفواحش : بےحیائی کی باتیں۔ ناشائستہ باتیں۔ فاحشۃ کی جمع۔ یجتنبون کا مفعول ثانی۔ گناہ کبیرہ کے بارے میں متعدد روایات ہیں جن کا خلاصہ یہ ہ... ے :۔ ہر وہ کام جس سے کتاب و سنت کی صریح نص سے منع کیا گیا ہو۔ یا اس کے لئے کوئی شرعی حد مقرر ہو یا جس کی سزا جہنم بتائی گئی ہو یا جس کے مرتکب کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہو۔ یا جس پر عذاب کے نزول کی خبر دی گئی ہو ایسی تمام باتیں گناہ کبیرہ ہیں۔ ان کے علاوہ جو دوسرے گناہ ہیں انہیں صغیرہ گناہ کہا جاتا ہے مگر یاد رہے کہ گناہ صغیرہ پر اصرار اور شریعت کے کسی فرمان کا استحقاف اور تحقیر کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے (ضیاء القرآن) الا اللمم : الا حرف استثناء لمم چھوٹے گناہ۔ وہ گناہ جن کا شازونادر ارتکاب ہو۔ مستثنیٰ ۔ امام راغب لکھتے ہیں : اللمم کے اصلی معنی ہیں معصیت کے قریب جانا۔ کبھی اس سے صغیرہ گناہ بھی مراد لئے جاتے ہیں۔ محاورہ ہے : فلان یفعل کذا لمما وہ کبھی کبھار یہ کام کرتا ہے آیت ہذا میں لفظ لمم مشتق ہے الممت بکذا سے۔ جس کے معنی کسی چیز کے قریب جانا کے ہیں۔ یعنی ارادہ کرنا مگر مرتکب نہ ہونا (مفردات راغب) لمم سے مراد وہ گناہ ہے جو آدمی سے کبھی کبھی صادر ہوجائے مگر وہ ان پر جما ہوا نہ رہے بلکہ توبہ کرلے۔ گناہ اس کا معمول نہ بن جائے۔ عادت نہ ہوجائے ۔ کبھی کبھی صادر ہوجائے (تفسیر مظہری) آیت الذین یجتنبون کبئر الاثم والفواحش الا اللمم۔ آیت الذین احسنوا ۔۔ کا بدل ہے۔ یا صفت ہے یا عطف بیان ہے۔ مضارع کا صیغہ اس لئے بیان کیا گیا ہے تاکہ اجتناب کے تجدد اور استمرار پر دلالت کرے، وہ ہمیشہ گناہوں سے اجتناب کرتے رہتے ہیں (ضیاء القرآن) الا اللمم استثناء متصل بھی ہوسکتا ہے اور استثناء منقطع بھی۔ (1) اگر لمم سے مراد چھوٹے گناہ لئے جائیں مثلاً نامحرم پر پہلی نظر۔ آنکھ کا اشارہ۔ بوسہ یعنی زنا سے کم درجہ کا گناہ۔ تو الا اللمم استثناء متصل ہوگا۔ (2) اگر لمم سے مراد بےارادہ نظر پڑجانا۔ گناہ کا خیال آنا۔ لیکن اس کے ارتکاب کے لئے عملی قدم نہ اٹھانا وغیرہ ہو تو یہ استثناء منقطع ہوگا۔ بیضاوی و کشاف و جلالین وغیرہ نے استثناء منقطع ہی لکھا ہے۔ واسع المغفرۃ : واسع اسم فاعل واحد مذکر۔ مضاف المغفرۃ مضاف الیہ۔ غفر یغفر (باب ضرب) کا مصدر۔ بمعنی کسی گناہ کا معاف کردینا۔ واسع المغفرۃ وسیع مغفرت والا۔ جس کے گناہ معاف کرنا چاہیگا بغیر توبہ کے بھی معاف کر دے گا خواہ وہ کبیرہ ہوں یا صغیرہ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شعر پڑھا تھا :۔ ان تغفر اللہم تغفر جما وای عبد لک لا الما اے اللہ اگر تو معاف کردے گا تو بہت گناہ معاف کر دے گا۔ تیرا کون سا بندہ گناہ پر نہیں اترا۔ (یعنی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا) اذ : اسم ظرف زمان ۔ جب انشاکم : اس نے تم کو پیدا کیا۔ اس نے تمہاری پرورش کی۔ انشا ماضی واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر انشاء (افعال) مصدر۔ اعلم۔ اگرچہ اسم تفضیل کا صیغہ ہے لیکن تفضیلی معنی مراد نہیں۔ یعنی یہ مطلب نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی تم کو پیش آنے والے واقعات و حالات سے واقف تھا مگر اللہ سب سے بڑھ کر واقف کار تھا۔ کیونکہ کوئی انسان بھی اپنی پیدائش سے پہلے اپنی زندگی کے احوال سے واقف نہیں ہوسکتا۔ اجنۃ : بچے جو پیٹ میں ہوں جنین کی جمع ہے، جنین پیت کے بچے کو کہتے ہیں۔ جنین بروزن فعل بمعنی مفعول ہے یعنی چھپا ہوا۔ الجنین قبر کا بھی کہتے ہیں۔ فعیل بمعنی فاعل چھپانے والی۔ لاترکوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ تزکیۃ (تفعیل) مصدر بمعنی مال کی زکوٰۃ لینا یاد ینا۔ خود ستائی کرنا۔ لاتزکوا (تم خود ستائی نہ کرو) ۔ نفس انسانی کے تزکیہ کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) بذریعہ فعل۔ یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے آپ کو درست کرلینا۔ یہ پسندیدہ اور محمود طریقہ ہے۔ قد افلح من تزکی (87:14) (وہ بامراد ہوا جس نے اپنے آپ کو سنوار لیا) میں اسی تزکیہ عملی کا ذکر ہے۔ یہاں تزکی باب تفعل سے بمعنی باب تفعیل اپنے آپ کو سنوارنے کے معنی میں آیا ہے۔ (2) بذریعہ قول۔ جیسے ایک عادل اور متقی شخص کا دوسرے شخص کا تزکیہ کرنا۔ اور اس کی خوبی کی شہادت دینا۔ لیکن یہی طریقہ اگر انسان خود اپنے حق میں برتے تو برا ہے۔ آیت ہذا فلا تزکوا انفسکم (سو مت بولو اپنی ستھرائیاں یعنی اپنی خودستائی مت کرو) میں اللہ جل شانہ نے اسی تزکیہ سے ممانعت فرمائی ہے کیونکہ اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا عقلاً شرعاً کسی بھی طرح زیبا نہیں ہے۔ اعلم۔ اوپر ملاحظہ ہو۔ من : موصولہ ہے۔ اتقی ماضی واحد مذکر غائب۔ اتقاء (افتعال) مصدر سے جو ڈرا۔ جس نے پرہیزگاری اختیار کی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 لم دراصل کسی چیز کی تھوڑی سی مقداریا اس میں تھوڑی دیر رہنے یا اس کے قریب پہنچ جانے مگر رک جانے کو کہتے ہیں۔ مثلاً الم بالمکان یعنی وہ اس میں تھوڑی دیر ٹھہرا۔ الم بکذا وہ قریب قریب اس تک پہنچ گیا وغیرہ اس بنا پر اکثر مفسرین نے اللمھ سے صغیرہ گناہ مراد لئے ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے ک... ہ تھوڑی دیر کے لئے گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن فوراً باز آجاتے ہیں۔ وغیر ذلک (ابن کثیر) 7 یعنی چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرماتا رہتا ہے۔ اگر انسان بڑے گناہوں سے بچتا رہے اور توبہ کرلے تو بڑے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ 8 ۔ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا 9 یعنی اپنی تعریف مت کرو اور نہ دوسرے سے اپنے آپ کو بہتر سمجھو۔ کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے ” برۃ “ (نیک عورت) نام رکھنے سے منع کیا اور فرما ” اپنی پاکیزگی مت جتائو “ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے نیک کون ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ہلکے ہلکے گناہ اگر کبھی کبھار ہوجائیں تو جس نکو کاری کا یہاں ذکر ہے اس میں ان سے خلل نہیں آتا۔ (تنبیہ) استثناء کا یہ مطلب نہیں کہ صغائر کی اجازت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الذین ............ اللمم (٣٥ : ٢٣) ” جو بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہوجائے۔ “ بڑے گناہوں سے مراد بڑی نافرمانیاں ، فواحش سے مراد بھی بڑے گناہ ہیں لیکن خصوصاً وہ جن کے اندر فحاشی ہو۔ ” اللمم “ کے بارے میں مفسرین کے احوال مختلف ہیں۔ علامہ ابن کثیر...  فرماتے ہیں کہ یہ استثنا منقطع ہے۔ (استثنا منقطع وہ ہے جہاں استثنا کردہ چیز اس مجموعے کی فرد نہ ہو جس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ ) کیونکہ لمم چھوٹے گناہوں کو کہا جاتا ہے یعنی چھوٹے چھوٹے اعمال ، امام احمد نے روایت کی ہے ، عبدالرزاق سے انہوں نے معمر سے انہوں نے ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے لمم کے ساتھ زیادہ مشابہت کرنے والی کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں دیکھی جو حضرت ابوہریرہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ رسول اللہ فرماتے ہیں ” جب اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا کا جرم لکھ دیا تو وہ اسے پائے گا یعنی اس کی سزا اسے لازماً ملے گی ، آنکھ کا زنا نظر ہے زبان کا زنا بات ہے اور نفس کی تمنا اور اشتہا ہوتی ہے اور انسان کے اندام نہانی اس کی تصدیق کرتے ہیں یا تکذیب “ (صحیحیں) ابن جریر نے روایت کی ہے ، محمد ابن عبدالاعلی سے انہوں نے ابن ثور سے انہوں نے معمر سے انہوں نے اعمش سے انہوں نے الوالضحی سے کہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا ” آنکھ کا زنا نظر ہے ہونٹوں کا زنا بوسہ لینا ہے ، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے ، پاؤ کا زنا چل کر جانا ہے اور انسانی اعضا اس کی تکذیب کرتے ہیں یا تصدیق۔ اگر اس کا فرج آگے بڑھا تو یہ زانی ہو اور نہ لمم کا مرتکب۔ یہی بات مسروق اور شعبی نے کہی ہے۔ عبدالرحمن ابن نافع کہتے ہیں (ان کو ابن لبابہ طائفی بھی کہتے ہیں) میں نے ابوہریرہ سے ” لمم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا بوسہ دینا ، دیکھنا ، آنکھ سے اشارہ کرنا ، ہاتھ لگانا اور جب فریقین کے اعضائے نہانی باہم مل جائیں اور غسل واجب ہوجائے تو یہ زنا ہے۔ یہ تو ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملتے چلتے اقوال لمم کے بارے میں لیکن کچھ دوسرے اقوال بھی ہیں۔ علی ابن طلحہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے الااللمم یعنی ماسوائے اس کے جو گزر گیا یہی قول زید ابن اسلم کا ہے۔ علامہ ابن جریر روایت کرتے ہیں ابن مثنی سے وہ محمد ابن جعفر سے وہ شعبہ سے وہ منصور سے وہ مجاہد سے انہوں نے الااللمم کا معنی یہ کہا کہ وہ شخص جو گناہوں کا ارتکاب کرے اور پھر چھوڑ دے۔ ابن جریر نے روایت کی ہے سلیمان ابن جبار سے انہوں نے ابو عاصم سے انہوں نے زکریا سے انہوں نے ابن اسحاق سے انہوں نے عمر ابن دینار سے انہوں نے عطا سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے۔ الذین ............ اللمم (٣٥ : ٢٣) ” وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ قصور ان سے سر زد ہوجائیں ” انہوں نے کہا اس سے مراد وہ شخص ہے جو فحاشی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر توبہ کرلیتا ہے اور رسول اللہ نے فرمایا۔ ان تعغفرالھم تغفر جما وای عبدلک ما الما ” اے اللہ اگر آپ معاف کریں تو سب کچھ معاف کردیں اور آپ کا کون سا ایسا بندہ ہے جس نے کوئی قصور نہیں کیا “ اس طرح امام ترمذی نے روایت کی ہے احمد ابن عثمان بصری سے انہوں نے ابو عاصم النبیل سے اور اس کے بعد انہوں نے کہا یہ حدیث صحیح حسن اور غریب ہے اور صرف زکریا ابن اسحاق کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہے۔ بزاز نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث متصل صرف اس سند کے ساتھ ہے۔ ابن جریر نے روایت کی ، محمد ابن عبداللہ ابن بزیع سے انہوں نے یزید ابن ذریع سے انہوں نے یونس سے انہوں نے حسن سے انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے (میں سمجھتا ہوں اس نے اس روایت کو حضور تک پہنچایا) اس آیت کے بارے میں۔ الذین ............ اللمم (٣٥ : ٢٣) ” جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہوجائے) یہاں مراد یہ ہے کہ وہ زنا کا مرتکب ہوجائے اور پھر توبہ کرے اور چھوڑ دے یا وہ چوریاں کرے اور پھر چھوڑ دے اور وہ شراب پیئے اور ترک کردے تو اسکے بعد کہا کہ یہ ہے المام اور ارتکاب۔ اس قسم کی روایت حسن سے بھی مروی ہے لیکن موقوف روایت ہے .... غرض یہ روایات کا دوسرا مجموعہ ہے او یہ لمم کا بالکل ایک دوسرا مفہوم بتاتا ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق یہ آخری رائے اس کے بعد آنے والی آیت کے زیادہ مناسب ہے۔ ان ربک واسع المغفرة (٣٥ : ٢٣) ” بیشک تیرے رب کا دامن مغفرت بہت ہی وسیع ہے “ اللہ کے مغفرت کے دامن کی وسعت کے ذکر کے ساتھ مناسب یہی ہے کہ لمم سے مراد گناہ کبیرہ اور فواحش کا ارتکاب ہو۔ پھر توبہ ہوجائے اور استثنا متصل ہو اور محسنین ہی وہ لوگ ہوں جنہوں نے کبائر گناہوں کا ارتکاب کیا ہو یا فواحش کا ارتکاب کرلیا ہو اور اس کے بعد وہ جلدی سے توبہ کرکے تائب ہوگئے ہوں اور انہوں نے اصرار نہ کیا ہو جیسا دوسری جگہ آتا ہے۔ والذین ............ یعلمون (٣ : ٥٣١) ” اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معا اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو اور وہ کبھی دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے۔ “ اور ان لوگوں کو قرآن کریم نے متقین کہا اور ان کے ساتھ مغفرت اور جنت کا وعدہ فرمایا جن کی وسعت زمین اور آسمانوں سے زیادہ ہے لہٰذا یہ مفہوم اللہ کی رحمت اور مغفرت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ اللہ وسیع المغفرت ہے۔ اور خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اللہ کی منصفانہ جزا و سزا اللہ کے وسیع علم پر مبنی ہے۔ ھو اعلم ............ امھتکم (٣٥ : ٢٣) ” اور وہ تمہیں اس وقت سے خوب جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے۔ “ تمہارے تمام ظاہری اعمال کو جانتا ہے۔ یہ علم ہر ثابت حقیقت کے ساتھ وابستہ ہے جسے یہ لوگ نہیں جانتے اور اللہ ہی ہے جو اپنی مخلوق کے بارے میں جانتا ہے۔ اللہ اس وقت بھی جانتا تھا جب یہ نہ تھے اور وہ ان کو زمین سے پیدا کررہا تھا۔ پھر جب یہ ماؤں کے پیٹوں میں جنین تھے اور اس دنیا میں انہوں نے آنکھ ہی نہ کھولی تھی۔ اللہ ظاہری علم سے پہلے حقیقی علم بھی رکھتا تھا عملاً ان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے۔ جس ذات کے علم کی نوعیت یہ ہو تو انسان اگر اس ذات کو اپنے بارے میں کوئی معلومات دیتا ہے تو یہ نہایت گستاخی ہے کیونکہ یہ گویا اللہ کو اپنی حقیقت دکھاتا ہے اور اللہ کے سامنے یہ ہوں اور یوں۔ فلا تزکوا ............ اتقی (٣٥ : ٢٣) ” پس اپنے نفسوں کی پاکی نہ بیان کرو وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔ “ اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اللہ کو اپنے نفوس کے بارے میں اطلاع کرو یا اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا مول تول کرو ، اللہ کا علم کامل ہے اس کی جزا وسزا منصفانہ ہے۔ اللہ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اب آخری پیراگراف آتا ہے۔ یہ پیرا نہایت ہی نغمہ بیز ہے اور یہ پہلے پیراگراف کے مماثل ہے۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کے اساسی عناصر کو بیان کرتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسلامی نظریہ حیات اور دین حنیف کے لئے طے کئے تھے۔ اس میں انسانوں کا تعارف خالق تعالیٰ سے کرایا جاتا ہے او یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی میثت تمہاری زندگی میں فعال ہے۔ تخلیق کررہی ہے اور نہایت ہی موثر ہے اور اللہ کی مشیت کے آثار ایک ایک کرکے گنوائے جاتے ہیں اور نہایت ہی موثر انداز میں جو انسانی وجدان کے ساتھ پیوست ہوجاتے ہیں اور انسان اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ کانپ اٹھتا ہے۔ جب یہ پیرا آخر میں پہنچتا ہے تو پڑھنے والے کے احساسات پوری طرح متاثر ہوتے ہیں اور انسان پر کپکپ کی طاری ہوتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ سرشار ہوکر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آیت شریفہ میں کبیرہ گناہوں سے اور فواحش سے بچنے والوں کو ﴿ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا ﴾ کا مصداق بتایا ہے۔ کبیرہ گناہ کون سے ہیں ان کی تفصیل سورة نساء کی آیت ﴿ اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ ﴾ کے ذیل میں لکھ چکے ہیں۔ بڑے گناہوں سے بچنے کے ساتھ فواحش سے بچنے کا بھی تذکرہ فرمایا۔ فوا... حش سے بچنا بھی اچھے بندوں کی صفت ہے اور فواحش بھی كَبٰٓىِٕرَ الْاِثْمِ میں داخل ہیں لیکن الگ سے بھی ان کا تذکرہ فرما دیا تاکہ ان کبیرہ گناہ سے بھی بچیں جو بےحیائی اختیار کرنے کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں سے جو بےحیائی کے اعمال صادر ہوتے ہیں لفظ الفواحش ان سب کو شامل ہے دیگر گناہوں کے ساتھ بےحیائی والے اعمال سے بچنے کا خاص اہتمام کریں۔ كبائر اور فواحش کے تذکرہ کے ساتھ ﴿ اِلَّا اللَّمَمَ ﴾ بھی فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور کبھی کبھی ان سے گناہ صغیرہ سرزد ہوجائے تو اس کی وجہ سے ﴿ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا ﴾ کی صفت میں خلل نہیں آتا جو لوگ گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں ان سے کبھی کبھی صغیرہ گناہوں کا صدور ہوجاتا ہے۔ چونکہ ان کا دینی مزاج ہوتا ہے اور دل پر خوف و خشیت کا غلبہ رہتا ہے اس لیے جلد ہی توبہ و استغفار بھی کرلیتے ہیں اور گناہ پر اصرار بھی نہیں کرتے اور چھوٹے گناہ نیکیوں سے بھی معاف ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ سورة ہود میں ﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ فرمایا ہے۔ صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں مطلب اسثناء کا یہ ہے کہ ﴿ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا ﴾ کی جو محبوبیت یہاں بقرینہ مقام مدح مذکور ہے اس کا مصداق بننے کے لیے کبائر سے بچنا تو شرط ہے لیکن صغائر کا احیاناً صدور اس کے لیے موقوف علیہ نہیں البتہ عدم اصرار شرط ہے اور استثناء کا یہ مطلب نہیں کہ صغائر کی اجازت ہے اور نہ اشتراط کا یہ مطلب ہے کہ الذین احسنوا کا مجزی بالحسنی ہونا موقوف ہے اجتناب عن الکبائر پر کیونکہ مرتکب کبائر بھی جو حسنہ کرے گا اس کی جزا پائے گا لقولہ تعالیٰ ﴿ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ٠٠٧﴾ پس اشتراط کا معنی یجزیٰ کے اعتبار سے نہیں بلکہ تلقیب بالمحسن اور محبویت خاصہ کے اعتبار سے ہے جس پر عنوان احسنوا دال ہے۔ اھ بیان القرآن میں یہ جو فرمایا کہ استثناء جو فرمایا ہے اس میں صغیرہ گناہوں کی اجازت نہیں دی گئی یہ تنبیہ واقعی ضروری ہے، صغیرہ گناہ اگرچہ صغیرہ ہیں اور نیکیوں کے ذریعہ معاف ہوجاتے ہیں پھر بھی صغیرہ گناہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کسی چھوٹے بڑے گناہ کی اجازت ہوجائے تو وہ گناہ ہی کہاں رہا۔ حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عائشہ ! حقیر گناہوں سے بھی بچنا کیونکہ اللہ کی طرف سے ان کے بارے میں بھی مطالبہ کرنے والے ہیں (یعنی اللہ کی طرف سے جو فرشتے اعمال لکھنے پر مامور ہیں وہ ان کو بھی لکھتے ہیں اور ان کے بارے میں محاسبہ اور مواخذہ ہوسکتا ہے) ۔ (رواہ ابن ماجہ والد ارمی والبیہقی فی شعب الایمان کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٤٨٥) ﴿ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ١ؕ﴾ (بلاشبہ آپ کا رب بڑی وسیع مغفرت والا ہے) جو لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں یوں نہ سمجھیں کہ بس عذاب میں جانا ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے بڑی مغفرت والا ہے اس کی طرف رجوع کریں توبہ استغفار کو لازم پکڑیں اور ضائع شدہ حقوق کی تلافی کریں۔ یہ بندہ کا کام ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جسے چاہے بغیر توبہ کے بھی معافی فرما دے لیکن کفروشرک معاف نہیں ہوگا۔ ﴿ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ ﴾ (وہ تمہیں خوب اچھی طرح جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں تھے۔ ) یہ بنی آدم کی ابتدائی تخلیق تھی اس کے بعد نسل در نسل انسان پیدا ہوتے رہے بڑھتے رہے پھر ہر انسان کی انفرادی تخلیق کو بھی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے مردو عورت جو اپنی ماؤں کے پیٹوں میں مختلف اطوار سے گزرتے ہیں ان کی ان حالتوں کا بھی اللہ تعالیٰ کو علم ہے۔ اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت : ﴿فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ ١ؕ﴾ (لہٰذا تم اپنے نفسوں کو پاکباز نہ بتاؤ) ﴿ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (رح) ٠٠٣٢﴾ (جو لوگ شرک اور کفر سے بچتے ہیں وہ انہیں خوب جانتا ہے جسے تمہارے تخلیق سے پہلے تمہارے حالات کا علم ہے ہر شخص کا اور ہر شخص کے اعمال کا علم ہے اور اعمال کی خوبی اور اچھائی اور اعمال کے کھوٹ اور نقص کا بھی علم ہے، وہ ہر شخص کو اپنے علم کے مطابق اس کے عمل کے موافق جزا دے دے گا یہ کہتے پھرنے کی کیا ضرورت ہے کہ میں نے ایسا ایسا عمل کیا اتنے روزے رکھے اتنی نمازیں پڑھیں اور اتنے حج کیے اور فلاں موقع پر حرام سے بچا، بندہ جیسا بھی عمل کرلے وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہو ہی نہیں سکتا، عموماً جو متقی اور صالح بندے عمل کرتے ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ لچک خرابی اور کھوٹ کی ملاوٹ رہتی ہی ہے پھر اپنی تعریف کرنے کا کسی کو کیا مقام ہے ؟ حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں ؎ بندہ ہماں بہ کہ بتقصیر خویش عذر بدرگاہ خدا آورد ورنہ سزاوار خداوندیش كس نتواند کہ بجا آورد اپنا تزکیہ کرنا اور اپنی تعریف کرنا یعنی اپنے اعمال کو اچھا بتانا اور اپنے اعمال کو بیان کرکے دوسروں کو معتقد بنانا یا اپنے اعمال پر اترانا اور فخر کرنا آیت شریفہ سے ان سب کی ممانعت معلوم ہوگئی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا نام رکھنا بھی پسند نہ تھا جس سے اپنی بڑائی اور خوبی کی طرف اشارہ ہوتا ہو، سیّدہ زینب بنت ابی سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ میرا نام برہ تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی جانوں کا تزکیہ نہ کرو یعنی یوں نہ کہو کہ میں نیک ہوں اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم میں نیکی والے کون ہیں اس کا نام زینب رکھ دو ۔ (رواہ مسلم صفحہ ٢٠٨: ج ٢) مطلب یہ ہے کہ کسی کا نام برہ (نیک عورت) ہوگا تو اس سے جب پوچھا جائے گا کہ تو کون ہے تو وہ کہے گی کہ انا برۃ یعنی میں نیک عورت ہوں اس میں بظاہر صورتاً خود اپنی زبان سے نیک ہونے کا دعویٰ ہوجاتا ہے لہٰذا اس سے منع فرما دیا۔ یاد رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طرح ایک لڑکی کا نام زینب رکھ دیا جس کا پہلا نام ” برہ “ تھا اسی طرح آپ نے ایک لڑکی کا نام جمیلہ رکھ دیا جس کا پہلا نام عاصیہ (گناہگار) تھا۔ (رواہ مسلم) معلوم ہوا کہ اپنی نیکی کا ڈھنڈورا بھی نہ پیٹے اور اپنا نام اور لقب بھی ایسا اختیار نہ کرے جس سے گناہ گاری ٹپکتی ہو مومن نیک ہوتا ہے لیکن نیکی کو بگھارتا نہیں پھرتا اور کبھی گناہ ہوجاتا ہے تو توبہ کرلیتا ہے نیز اپنی ذات کے لیے کوئی ایسا نام و لقب بھی تجویز نہیں کرتا جس سے گناہ گاری کی طرف منسوب ہوتا ہو۔ بہت سے لوگ تواضع میں اپنے نام کے ساتھ العبد العاصی یا عاصی پر معاصی لکھتے ہیں یہ طریقہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات سے جوڑ نہیں کھاتا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) وہ بھلے لوگ وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائی کی باتوں سے بچتے اور اجتناب کرتے ہیں الا یہ کہ کوئی معمولی اور صغیرہ گناہ جو اتفاقیہ واقع ہوجائے بلا شبہ آپ کے پروردگار کی مغفرت اور بخشش بہت وسیع ہے وہ تم کو اس وقت سے خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا تھا اور جب تم اپنی مائوں کے پیٹ...  میں بچے اور جنین تھے لہٰذا تم خود ستائی اور خود اپنی پاکیزگی بیان نہ کیا کرو اور اپنے کو مقدس نہ سمجھا کرو وہ اللہ تعالیٰ ہی تقوے والوں کو خوب جانتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے اس کو جو پرہیزگار ہے۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہر گمراہ اور ہدایت یافتہ کو خوب جانتا ہے تو اب یہ بات فرمائی کہ وہ مالک الملک ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو سزا اور جزا بھی دے گا ورنہ نیکی اور بدی بےکار اور عبث ہوکر رہ جائے گی۔ اس لئے فرمایا کہ وہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس سب کا مالک ہے اس لئے انجام کار یہ ہوگا کہ ہر برائی کے مرتکب کو اس کی برائی کا بدلہ اور جزا دی جائے گی اور جو محسن اور نکوکار ہیں ان کا اچھا صلہ یعنی جنت ملے گی۔ بعض حضرات نے لیجزی کا تعلق ان ربک ھواعلم من ضل عن سبیلہ ھوا اعلم بمن اھتدی سے بیان کیا ہے اور وللہ مافی السموت ومافی الارض کو جملہ معترضہ بنایا ہے۔ اس تقدیر پر مطلب بالکل صاف ہے اور اس تقدیر پر لیجزی کے لام کو لام عاقبت رہے کی ضرورت نہ ہوگی آگے محسنین کا مزید وضاحت اور ان کا وصف بیان فرمایا کہ وہ لوگ کبائر سے بچتے اور اجتناب کرتے ہیں یعنی کبیرہ گناہ اور خاص طور پر ان کبیرہ گناہوں میں سے جو فواہش اور بےحیائی کے کام ہیں اس سے بچتے ہیں یا تو کبیرہ گناہ کا ارتکاب ہی نہیں کرتے اور اگر ہوجائے تو فوری طور پر توبہ اور ندامت سے اس کا تدارک کرتے ہیں وقوع گناہ پر لاپروائی نہیں کرتے الا اللھم میں بھی دو قول ہیں اگر استثنا منقطع ہو تو مطلب یہ ہے کہ معمولی اور صغیرہ گناہ اگر کبھی اتفاقیہ ہوجائے تو وہ گزر ہوجاتے ہیں بشرطیکہ ان پر اصرار نہ ہو اور ان پر دوام نہ ہو کہ ہمیشہ لاپروائی کے ساتھ صغیرہ گناہ کرتا رہے کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ بھی مل کر ایک دن بڑا گناہ ہوجاتا ہے۔ بہرحال بعض متقدمین نے استثنا کو متصل کہا ہے اس تقدیر پر کبائر سے استثنا ہوگا یعنی اگر کبھی کسی گناہ میں گرفتار ہوجاتے ہیں تو توبہ کرتے ہیں اور دوبارہ وہ گناہ نہیں کرتے۔ چونکہ مفسرین کے کئی قول ہیں اس لئے ہم نے ان کی جانب اشارہ کردیا ہے اور استثنا منقطع لیا جائے تو مطلب صاف ہے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ الذین احسنوا کا جو وصف الذین یجتنبون میں بیان کیا گیا ہے اس میں کبیرہ کے مرتکب کو حسنیٰ یا کوئی صلہ ہی نہیں ملے گا۔ آیت کا یہ مطلب نہیں بلکہ نیک کاموں کا بدلہ ضرور دیا جائے گا اور حسنیٰ ان کو ضرور ملے گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ کچھ تاخیر سے ملے یہ نہیں کہ کسی گناہ کی وجہ سے نیکوں کا اجر ہی ختم کردیاجائے۔ بہرحال اب مطلب بالکل واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ جو مالک الملک ہے اس کے لئے ہر نیک وبد کو جزا اور مکافات اور اجر وثواب عطا کرنا کچھ مشکل نہیں وہ بدوں کو بدی کی مکافات دے گا اور نیکوں کو صلہ یعنی حسنیٰ دے گا۔ یہ حسنیٰ کے مستحن اولین وہ محسن ہوں گے جو کبائر سے اجتناب کرتے ہیں مگر ہاں کوئی معمول گناہ اور آلودگی کبھی ہوجائے تو وہ درگزر ہوجاتی ہے کیونکہ آپ کا پروردگار بڑا وسیع المغفرت اور بڑی بخشش کرنے والا ہے وہ معمولی لغزشوں کو درگزر کرتا ہے اور کبائر سے وبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالیتا ہے آگے ایک اور اخلاقی اور بلند بات فرمائی کہ محسنین اور نکوکاروں کو اپنی نیکی پر فخر وعجب اور تکبر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ نیکیوں میں کوئی ایسی کوتاہی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں یا کوئی پوشیدہ برائی اس نیکی میں شامل ہوجاتی ہے جس سے وہ نیکی نیکی نہیں رہتی اس لئے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد کرنا چاہیے کہ کون نیک ہے اور کون متقی ہے اور کسی کی نیکیاں مقبول ہیں کیونکہ وہ تم کو اس وقت بھی جانتا تھا جب تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا تھا اور ابتداء میں ان کو مٹی سے بنایا تھا پھر جب توالد تناسل کا سلسلہ شروع ہوا تو جب تم ماں کے پیٹ میں تھے اس وقت بھی تم کو جانتا تھا اور تمہارے احوال اور تمہاری حالت سے واقف تھا لہٰذا اس واقف کار کو اپنے محسن اور نیک ہونے کا معاملہ سپرد کردو اور اپنی خوبیاں اور اپنی پاکیزگی خود اپنی زبان سے بیان نہ کیا کرو اور اپنے کو پاکباز اور متقی نہ سمجھو بیٹھو۔ جو متقی اور پرہیزگار ہے اس کو وہی خوب جانتا ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ خود ستائی اور اپنی پاکبازی بیان نہ کیا کرو حقیقت حال ازابتداتا انتہا اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیزگار اور تقوی کا اہل ہے۔ حضرت حسن (رض) نے خوب فرمایا ہے۔ علم اللہ من کل نفس ماھی صانعۃ والی ماھی صائرۃ فلا تزکوا انفسکم ولا تطھروھا …من الاثام ولا تمدحوھا بحسن الاعمال۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہر شخص کو جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والا ہے اور اس کا کیا ہونے والا ہے تم اپنے کو پاکباز نہ سمجھو بیٹھو اور اپنے کو گناہوں سے پاک نہ ظاہر کرو اور نہ اپنے اعمال کی بھلائی پر اپنی تعریف کرو۔ نیک بندوں کا ذکر فرمانے کے بعد اب بعض کافروں کا ذکر فرماتے ہیں۔  Show more