Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 33

سورة النجم

اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۳﴾

Have you seen the one who turned away

کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے منہ موڑ لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Chastising Those Who disobey Allah and stop giving Charity Allah the Exalted says, أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى Did you observe him who turned away (from Islam). Allah the Exalted chastises those who turn away from His obedience, فَلَ صَدَّقَ وَلاَ صَلَّى وَلَـكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى So he (the disbeliever) neither believed nor prayed! But on the contrary, he belied and turned away! (75:31-32) وَأَعْطَى قَلِيلًأ وَأَكْدَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ افرء یت الذی تولی :۔ اس سورت کا مضمون رسالت کا اثبات ، شرک اور بت پرستی کی تردید اور مشرکین مکہ کی مذمت ہے۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے پاک ہونے کے گمان اور دعویٰ سے منع فرمایا۔ قریش مکہ اپنے بارے میں کئی طرح کے گمان اور دعوے رکھتے تھے ، جنہوں نے انہیں دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ان کے وہ گمان ذکر فرمائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی برتری کا گمان تھا ، اللہ تعالیٰ کے تمام لوگوں کو مٹی سے ، پھر ماں کے شکم سے پیدا کرنے کا ذکر فرما کر تقویٰ کو معیار فضیلت قرار دیا ۔ ایک کام ان کا یہ تھا کہ انہوں نے عین کعبہ کے اندر ابراہیم ، اسماعیل (علیہ السلام) اور دوسرے بزرگوں کی صورتیں رکھ کر ان کی عبادت کر کے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہمارے یہ وکیل اور سفارشی بڑے زبردست ہیں کہ وہ اپنے نام لیواؤں کو ، خواہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں، اپنے دامن میں پناہ دیں گے۔ (دیکھئے : یونس : ١٨) ایک گمان ان کا یہ تھا کہ کفر کے باوجود انہیں جس طرح دنیا میں نعمتیں ملی ہوئی ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ملیں گی۔ ( دیکھئے مریم : ٧٧) اسی طرح وہ دوسروں کو یہ کہہ کر اسلام قبول کرنے سے روکنے تھے کہ تم ہماری راہ پر چلتے رہو، تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے۔ (دیکھئے عنکبوت : ١٢) ان سارے دعوؤں اور گمانوں کا نتیجہ یہ تھا کہ آخرت کے عذاب سے بےخوف ہونے کی وجہ سے ان میں دنیا کی شدید ہوس ، بخل اور کمینگی آچکی تھی ۔ وہ کچھ خرچ کرتے بھی تھے تو نام و نمود کی خاطر ، وہ بھی بس اتنا کہ نام ہوجائے ، اس سے آگے ان کے ہاتھ کھلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے اور اتنا خرچ کر کے بھی وہ اپنی سخاوت اور دریا دلی کی لاف زنی کرتے کہ میں نے یہ کردیا اور وہ کردیا ، جیسا کہ سورة ٔ بلد میں ہے ” یقول اھلکت ما لا لبدا “ (البلد : ٦) ” کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال برباد کر ڈالا “۔ اپنے آباؤ و اجداد، پیشواؤں ، وکیلوں اور سفارشیوں کے بل بوتے پر یہ کہہ کر گناہ کیے جاتے ہیں کہ ہمارے گناہ وہ اٹھا لیں گے ، جیسے نصرانیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام گناہوں کے کفارہ میں مسیح (علیہ السلام) سولی پر چڑھ گئے ہیں ، ہم ان کے نام لیواء ہیں ، ہمارے سارے گناہ انہوں نے اپنے ذمے لے کر بخشوا لیے ہیں اور جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ حسین (رض) نے شہادت پا کر اپنے نام لیواؤں کے سارے گناہ بخشوا لیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایسے تمام گمانوں اور دعوؤں کی تردید فرمائی ہے۔ ٢۔ واعطی قلیلاً واکذی :” اکدی “ کذیۃ سے ہے جس کا معنی چٹان ہے۔ کوئی شخص کنواں وغیرہ کھودنے لگے اور آگے چٹان یا پتھر آجانے کی وجہ سے کھودنے سے رک جائے تو کہا جاتا ہے :” اکدی الرجل “ یہاں ” الذی “ سے کوئی خاص شخص مراد نہیں ، بلکہ مقصود مشرک آدمی کی نفسیات اور طرز عمل کا تذکرہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے ، اگر کبھی دیتے بھی ہیں تو نام کے لیے ، وہ بھی تھوڑا سا ، پھر ان کے سامنے کنجوسی کی چٹان آجاتی ہے اور وہ رک جاتے ہیں ۔ خصوصاً جب انہیں اس سے شہرت یا دنیوی مفاد حاصل ہوتا دکھائی نہ دیتا ہو ۔ فرمایا : کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے قبول کرنے سے منہ موڑ لیا کچھ تھوڑا سا مال خرچ کیا اور رک گیا ۔ شاہ عبد القادر نے فرمایا :” یعنی تھوڑا سا ایمان لانے لگا ، پھر رک گیا “ ( موضح) اس معنی میں مراد وہ مشرک ہیں جنہوں نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن کی تعریف کی ، مگر اس کے بعد ایمان لانے سے رک گئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Background of Revelation Ad-Durr-ul-Manthur reports from Ibn Jarir that a person embraced Islam and one of his friends rebuked him for having abandoned his forefather&s religion. He responded that he fears Allah&s chastisement. The friend told him to make a certain payment to him, and he will take upon himself his punishment of the Hereafter. Thus he [ the new Muslim ] will be spared from the chastisement, and consequently he made the payment to him. The friend demanded more payment. After a scuffle, he made the additional payment to him, and for the balance a document was drawn up with signatures of witnesses. That person, according to Ruh-ul-Ma’ ani, was Walid Ibn Mughirah who was inclined towards Islam. But his friend reproached him and took the responsibility of punishment upon his own shoulders. أَفَرَ‌أَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ (Did you see the one who turned away,… 53:33 word tawalla literally means &to turn the face away&, and it connotes in this context a person who turns away from Allah&s obedience.

شان نزول در منثور میں بروایت ابن جریر یہ نقل کیا ہے کہ کوئی شخص اسلام لے آیا تھا، اس کے کسی ساتھی نے اس کو ملامت کی کہ تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑ دیا ؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہوں وہ بولا کہ تو مجھے کچھ دیدے تو میں آخرت کا تیرا عذاب اپنے سر پر رکھ لوں گا، تو عذاب سے بچ جائے گا، چناچہ اس نے کچھ دیدیا، اس نے اور مانگا تو کچھ کشا کشی کے بعد کچھ اور بھی دے دیا اور بقیہ کی دستاویز مع گواہوں کے لکھ دی، روح المعانی میں اس شخص کا نام ولید بن مغیرہ لکھا ہے، جس کا اسلام کی طرف میلان ہوگیا تھا، اس کے دوست نے ملامت کی اور عذاب کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ خلاصہ تفسیر (آپ نے نیکوں کی صفات تو سن لیں) تو بھلا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا جس نے (دین حق سے) روگردانی کی (یعنی اسلام سے ہٹ گیا) اور تھوڑا مال دیا اور (پھر) بند کردیا (یعنی جس شخص سے مال دینے کا وعدہ اپنے مطلب کے واسطے کیا تھا، وہ بھی پورا نہ دیا اور اسی سے مفہوم ہوا کہ ایسا شخص دوسروں کی نفع رسانی کے لئے کیا خرچ کرے گا جب اپنے ہی مطلب کے لئے پورا خرچ نہ کرسکا جس کا حاصل اس کا بخیل ہونا ہے) کیا اس شخص کے پاس ( کسی صحیح ذریعہ سے) علم غیب ہے کہ اس کو دیکھ رہا ہے ( جس کے ذریعہ سے معلوم ہوگیا کہ فلاں شخص میری طرف سے میرے گناہوں کا عذاب اپنے سر لے کر مجھے عذاب سے بچا دے گا) کیا اس کو اس مضمون کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں ہے (اور حسب روایت در منثور در تفسیر سورة اعلیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کے یہ دس صحیفے علاوہ توریت کے ہیں) اور نیز ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں ہے وسیاتی فی سورة الاعلیٰ ) جنہوں نے احکام کی پوری بجا آوری کی (اور وہ مضمون) یہ (ہے) کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر (ایسے طور سے) نہیں لے سکتا ( کہ گناہ کرنے والا بری ہوجاوے، پھر یہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ میرا سارا گناہ یہ شخص اپنے سر رکھ لے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کو (ایمان کے بارے میں) صرف اپنی ہی کمائی ملے گی (یعنی کسی دوسرے کا ایمان اس کے کام نہ آوے گا، پس اگر اس ملامت کرنے والے شخص کے پاس ایمان ہوتا تب بھی اس شخص کے کام نہ آتا، چہ جائے کہ وہاں بھی ایمان ندارد ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کی سعی بہت جلد دیکھی جائے گی پھر اس کو پورا بدلہ دیا جاوے گا (باوجود اس کے یہ شخص اپنی فلاح کی سعی سے کیسے غافل ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ (سب کو) آپ کے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے (پھر وہ شخص کیسے نڈر ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے اور یہ کہ وہی دونوں قسم یعنی نر اور مادہ کو نطفہ سے بناتا ہے جب (وہ رحم میں) ڈالا جاتا ہے (یعنی مالک تمام تصرفات کا خدا ہی ہے، دوسرا نہیں، پھر وہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ قیامت کے روز یہ تصرف کہ مجھ کو عذاب سے بچا لے کسی دوسرے کے قبضہ میں ہوجاوے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ دوبارہ پیدا کرنا (حسب وعدہ) اس کے ذمہ ہے (یعنی ایسا ضروری ہونے والا ہے جیسے کسی کے ذمہ ہو تو اس شخص کے نڈر ہونے کی وجہ یہ بھی نہ ہونا چاہئے کہ قیامت نہ آوے گی) اور یہ (مضمون ہے) کہ وہی غنی کرتا ہے (یعنی سرمایہ دیتا ہے) اور سرمایہ (دے کر محفوظ اور) باقی رکھتا ہے اور یہ کہ وہی مالک ہے ستارہ شعریٰ کا بھی (جس کی عبادت جاہلیت میں بعض لوگ کرتے تھے، یعنی ان تصرفات و اشیاء کا مالک بھی وہی ہے جیسے پہلے تصرفات کا مالک وہی ہے اور اوپر کے تصرفات خود انسان کے وجود میں ہیں اور بعد کے تصرفات متعلقات انسان میں ہیں، چناچہ مال اور ستارہ دونوں خارج ہیں اور شاید ان دو کے ذکر میں اشارہ ہو کہ جس کو تم اپنا مددگار سمجھتے ہو اس کے رب بھی ہم ہی ہیں، پھر دوسرے کو قیامت میں اس شخص کے گمان کے موافق کیا تصرف پہنچ سکتا ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ اس نے قدیم قوم عاد کو (اس کے کفر کی وجہ سے) ہلاک کیا اور ثمود کو بھی کہ ( ان میں سے) کسی کو باقی نہ چھوڑا اور ان سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کو (ہلاک کیا) بیشک وہ سب سے بڑھ کر ظالم اور شریر تھے (کہ ساڑھے نو سو برس کی دعوت میں بھی راہ پر نہ آئے) اور (قوم لوط (علیہ السلام) کی) الٹی ہوئی بستیوں کو بھی پھینک مارا تھا، پھر ان بستیوں کو گھیر لیا جس چیز نے کہ گھیر لیا (یعنی اوپر سے پتھر برسنا شروع ہوئے، پس یہ شخص اگر ان قصوں میں غور کرتا تو عذاب کفر سے ڈرتا اور بےفکر نہ ہوتا، آگے ان سب مضامین پر تفریع فرماتے ہیں کہ اے انسان جب ایسے ایسے مضامین سے تجھ کو آگاہ کیا جاتا ہے جو بوجہ ہدایت ہونے کے ہر مضمون بجائے خود ایک نعمت ربانی ہے) تو تو اپنے رب کی کون کونسی نعمت میں شک (و انکار) کرتا رہے گا (اور ان مضامین کی تصدیق کر کے منتفع نہ ہوگا) یہ (پیغمبر) بھی پہلے پیغمبروں کی طرح ایک پیغمبر ہیں (ان کو مان لو کیونکہ) وہ جلدی آنے والی چیز قریب آپہنچی ہے (مراد قیامت ہے اور جب وہ آوے گی تو) کوئی غیر اللہ اس کا ہٹانے والا نہیں (پس کسی کے بھروسہ بےفکری کی گنجائش ہی نہیں) سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کر بھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے اور (استہزاءً ) ہنستے ہو اور (خوف عذاب سے) روتے نہیں ہو اور تم (اطاعت سے) تکبر کرتے ہو سو (اس کبر و غفلت سے باز آؤ اور حسب تعلیم ان پیغمبر کے) اللہ کی اطاعت کرو اور (اس کی بلا شرکت) عبادت کرو (تاکہ تم کو نجات ہو ) معارف و مسائل اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى، تولی کے لفظی معنی منہ پھیر لینے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ پھیرے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى۝ ٣٣ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٤) بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اصحاب محمد میں جو غرباء ہیں ان پر خرچ کرنے سے منہ موڑا اور اللہ تعالیٰ کے رستہ میں بہت تھوڑا مال دیا اور پھر وہ بھی بند کردیا۔ شان نزول : اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى (الخ) اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم جہاد میں تشریف لے چلے تو ایک شخص اس راہ سے آیا کہ اسے کوئی سوار کرالے پر اس کے سوار ہونے کے لیے کوئی چیز نہ ملی اتنے میں اس کا دوست ملا تو اس شخص نے اپنے دوست سے کہا کہ مجھے بھی کچھ دو ، وہ کہنے لگا میں اپنی یہ سواری دیتا ہوں اس شرط پر کہ میرے گناہوں کا بوجھ تو اٹھا لے تو اس نے اپنے دوست سے کہا کہ منظور ہے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اور ابن جریر نے ابن زید سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص مشرف بااسلام ہوگیا تو اسے بعض عار دلانے والے ملے اور کہنے لگا کہ کیا تو نے بزرگوں کے دین کو چھوڑ دیا اور ان کو گمراہ قرار دیا اور تو سمجھتا ہے کہ وہ دوزخ میں ہیں۔ یہ مسلمان کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تو وہ شخص کہنے لگا کہ مجھے کچھ دو تو جو بھی تم پر عذاب ہوگا میں اسے اپنے ذمہ لے لیتا ہوں تو اس نے کچھ دے دیا وہ کہنے لگا اور دو تو اس نے دینے میں تنگی کی یہاں تک کہ اسے کچھ اور دے دیا اور اس معاہدہ پر ایک دستاویز لکھوا کر گواہ لے لیے اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی یعنی تو بھلا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا جس نے روگردانی کی۔ (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣{ اَفَرَئَ یْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰی ۔ } ” پھر (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے پیٹھ موڑ لی ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٣۔ ٤١۔ تفسیر مقاتل تفسیر ابن جریر ٣ ؎ تفسیر خازن وغیرہ میں جو مجاہد وغیرہ سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص ولید بن مغیرہ اسلام کی طرف مائل ہوگیا تھا اس کا یہ حال دیکھ کر مشرکین مکہ نے اس کو طرح طرح سے بہکایا اور ان میں سے ایک شخص نے ولید سے یہ بھی کہا کہ تو مجھ کو اتنے روپے دے دے اور اسلام سے پھر جا۔ اگر قیامت سچ ہوئی اور اسلام سے پھرجانے کے بدلہ میں تیرے اوپر کچھ عذاب ہوا تو وہ عذاب میں اپنے ذمہ لے لوں گا اس بہکانے سے ولید اسلام سے پھر گیا اور اس بہکانے والے شخص سے جس قدر روپے ٹھہرے تھے اس میں سے کچھ تو اس شخص کو دیئے اور کچھ روک رکھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ اور پہلے تو ولید کے حق میں فرمایا اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے اس شخص کا حال دیکھنے کے قابل ہے کہ یہ راہ راست پر آ کر اپنی بےوقوفی سے اس سے پھر گیا اور پھر وہ بیوقوفی بھی ادھوری چھوڑ دی کہ اس جھوٹے قرار داد کے روپے بھی پورے ادا نہیں کئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس قرار داد کی رو سے بھی اس نے اپنے آپ کو عذاب سے پورا سبکدوش نہیں کیا اس کے بعد اس بہکانے والے شخص کے حق میں فرمایا کہ کیا اس کو علم غیب ہے کہ ایک شخص کا عذاب دوسرا شخص اپنے ذمہ لے لے تو یہ ذمہ داری صحیح ہوجاتی ہے۔ شریعت محمدی کے تو اہل مکہ منکر تھے لیکن سوائے شریعت محمدی کے اہل مکہ کے نزدیک اس زمانہ میں دو شریعتیں مشہور تھی ایک تو توارۃ کے موافق شریعت موسوی دوسرے مشرکین مکہ برائے نام اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے اس لئے فرمایا کہ ان دونوں مشہور شریعتوں میں بھی اس طرح کی ذمہ داری کے صحیح ہونے کا کہیں پتا نہیں ہے بلکہ اس کے برخلاف ان دونوں شریعتوں میں یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کے گناہوں کا بوجھ دوسرا نہ اٹھائے گا۔ ہر شخص اپنا کیا خود بھگتے گا اور اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری پوری پوری کی۔ اس لئے ابراھیم الذی ونی فرمایا۔ ابوجعفر ابن ١ ؎ جریر نے دنی کے یہی معنی قتادہ وغیرہ کی روایت سے بیان کئے ہیں جن کا ذکر کیا گیا۔ مفسروں نے وان لیس للانسان الا ما سعی کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں کافر انسان مقصود ہے۔ کلمہ گو گناہ گاروں کی شفاعت کے باب میں جو صحیح حدیثیں ہیں ان سے اور اس قسم کی اور آیات اور حدیثوں سے اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے۔ اس لئے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس تفسیر سے تمام آیات اور احادیث میں مطابقت اچھی طرح ہوجاتی ہے مثلاً اس آیت اور حدیث ابوہریرہ سے جو سب ٢ ؎ صحاح کی کتابوں میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی اور استغفار کی اجازت نہیں دی اور آیت والذین جاء وا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان اور حدیث بریدہ جو صحیح ٣ ؎ مسلم مسند امام احمد اور ابن ماجہ میں ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو قبرستان کی زیارت کے وقت اہل ایمان صاحب قبور کے لئے مغفرت کی دعا کی اجازت دی ہے ان سب آیات اور حدیثوں کو ایک جگہ کیا جائے تو ان میں ایک طرح کا اختلاف پیدا ہوجاتا ہے لیکن مغفرت کی دعا کی آیات اور حدیثیں اہل اسلام کے حق میں اور ممانعت کی آیات اور حدیثیں غیر اہل اسلام کے حق میں سمجھی جائیں تو پھر یہ اختلاف رفع ہوجاتا ہے اور سب آیات اور احادیث میں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے اور حاصل مطلب یہ ٹھہرتا ہے کہ اہل اسلام کو مرنے کے بعد دوسرے شخص کے نیک عمل کا فائدہ پہنچتا ہے غیر اہل اسلام کو نہیں پہنچتا کیونکہ اس کے کفر کے سب سے خود اس کی ذات کے نیک عمل کا نہ کچھ ثواب اس کو ملتا ہے نہ دوسرے شخص کے عمل کا۔ چناچہ سورة فرقان میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن اہل کفر اور ریا کاروں کے عمل کچھ کام نہ آئیں گے۔ (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٢٩ ج ٦۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٢٩ ج ٦۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم فصل فی جواز زیارۃ جواز زیارۃ قبور المشرکین الخ ص ٣١٤ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم فصل فی جواز زیارۃ جواز زیارۃ قبور المشرکین الخ ص ٣١٤ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:33) افرایت استفہام تعجبی ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کیا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا۔ الذی تولی : الذی اسم موصول واحد مذکر ہے۔ تولی ماضی کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ تولی (تفعل) مصدر سے۔ اس نے منہ موڑا۔ اس نے پیٹھ پھیر دی۔ وہ پھر گیا۔ جس نے حق کی طرف سے پشت پھیرلی۔ فائدہ : (1) جمہور کے نزدیک اس شخص سے مراد ولید بن مغیرہ ہے، ولید نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا متبع ہوگیا تھا لیکن بعض مشرکوں نے اس کا عار دلائی اور کہا کہ تم نے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا۔ اور ان کو گمراہ سمجھنے لگا۔ ولید نے کہا کہ مجھے اللہ کے عذاب سے ڈر لگتا ہے ۔ ایک شخص بولا۔ گر تم باب دادا کے مذہب کی طرف لوٹ آؤ تو میں تم کو اتنا مال دوں گا۔ اور اگر اللہ کا عذاب تم پر آیا تو تمہاری جگہ میں اس کو اپنے اوپر برداشت کرلوں گا۔ ولید شرک کی طرف لوٹ گیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ دیا۔ (2) ابن جریر نے بحوالہ ابن زید بیان کیا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہوگیا کسی نے اس کو غیرت دلائی کہ تو نے بزرگوں کے دین کو چھوڑ دیا۔ اور ان کو گمراہ سمجھا اور وہ دوزخی قرار دیا۔ مسلمان ہونے والے نے کہا کہ مجھے اللہ کے عذاب کا ڈر ہے۔ غیرت دلانے والے نے کہا کہ تو مجھے کچھ مال دیدے تجھ پر جو عذاب آئے گا میں برداشت کرلوں گا۔ اس شخص نے اس کو کچھ مال دے دیا۔ اس شخص نے کچھ اور مانگا اس نے کچھ اور بڑھا دیا۔ مانگنے والے نے ایک تحریر لکھ دی۔ اور گواہی بھی اس پر ثبت کردی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (3) سدی کا بیان ہے کہ یہ آیت عاص بن دائل سہمی کے حق میں نازل ہوئی جو بعض باتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موافق تھا اور بعض امور میں مخالف۔ (4) محمد بن کعب قرضی کا قول ہے کہ :۔ اس آیت کا نزول ابو جہل کے بارے میں ہوا۔ ابوجہل نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس قول کے باوجود ایمان نہ لایا۔ تھوڑا سینے کا یہی مطلب ہے کہ کسی قدرحق کا اس نے اقرار کیا۔ اور اکدی سے مراد ہے ایمان نہ لانا۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٣ تا ٦٢۔ اسرار ومعارف۔ ایسے لوگ جسے آپ دیکھا جس نے دین حق سے منہ پھیرلیا اور کچھ تھوڑا بہت مال خرچ کرکے پھر اس سے بھی بہت سختی سے رک گیا اس طرح مال دے کر عذاب سے بچ جائے گا عجیب رسم کہ تھوڑا سامال عذاب سے بچ جائے گا۔ اہل مکہ میں سے ایک شخص ایمان لایا تو کسی دوسرے مشرک نے ملامت کی کہا عذاب سے ڈرتا ہوں اس نے کہا مجھے کچھ دوتو تمہارا عذاب میں اپنے سرلیتا ہوں اور تم اسلام چھوڑ دو ۔ اس معاملے میں بھی اس نے تھوڑا بہت دیایوں سمجھ بیٹھا کہ اب میں فارغ ہوں آج کے دور میں لوگوں نے اسلام کا دعوی کرکے اس رسم کو اپنارکھا ہے کہ عملی زندگی میں فرائض چھوڑ دیے سودلے کر کھاتے ہیں اور کبھی کوئی دیگ پکادی یا سال بعد نام نہاد پیروں کو نذرانہ دے دیایا کسی مزار پر چڑھاوا چڑھاکرفارغ ہوگئے اور یوں سمجھا کہ اب مجھے کسی بات کی فکر نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ کیا ایسے آدمی کے پاس علم غیب ہے کہ اس نے نتائج کو دیکھ رکھا ہے یا اسے صحف موسیٰ اور پہلی منزل من اللہ کتابوں کا علم بھی نہیں پہنچا اور حضرت ابراہیم کی بات بھی نہیں سنی کہ انہوں نے کس طرح اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ اطاعت وفا کیا ، سب پہلے ادیان کا حاصل بھی یہی ہے اور آپ بھی بتا رہے ہیں کہ کوئی دوسرا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہر آدمی کو اس کے اپنے عمل اور اپنی محنت کا پھل ملے گا اور ہر آدمی کی محنت بہت جلد دیکھی جائے گی ہر انسان کا عمل سامنے آجائے گا اور اس کے مطابق اسے پورا پورا بدلہ دیاجائے گا۔ ایصال ثواب۔ یہاں یہ نہ سمجھا کہ ایصال ثواب درست نہیں بلکہ یہ سلسلہ شفاعت کی طرح سے ہے کہ کسی کی سفارش کام نہ آئے گی ہاں مگر جن لوگوں کے لیے اللہ نے اجازت دی ہویہاں بھی جمہور کے نزدیک نفلی عبادات کا ثواب کسی کو بھی دیاجاسکتا ہے مگر شرط وہی ہے کہ محل شفاعت ہو یعنی وہ مومن ہو جبکہ یہ شخص جو سرے سے اسلام کی تعلیمات اور عقائد ونظریات سے لے کر فرائض وواجبات تک کو غیرضروری جان کرچھوربیٹھتا ہے یہ تو مسلمان بھی نہ رہا اس کی شفاعت کیسی۔ بالآخر سب بات عظمت پروردگار پر ہی ختم ہوتی ہے تمام امور کی تحقیق کی جائے یا انسان کے تمام علوم کی حد بھی ، انجام کار اللہ کی ذات پر ہی پہنچ کر ختم ہوتی ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ یقینا سب خوشی اور غم اسی کی طرف سے ہے کسی کو ہنسی نصیب ہو تو اس کے اسباب بھی وہی پیدا کرتا ہے اور اگر کوئی دکھی ہوکرروتا ہے تورونے کے اسباب بھی اللہ رب العزت ک پیدا کردہ ہیں کہ وہی حیات آفرین ہے زندگی عطا کرتا ہے اور موت بھی دیتا ہے وہ ا ایساقادر ہے کہ اس نے نرومادہ کے جوڑے بنادیے محض نطفہ سے جب وہ رحم میں ڈالاجاتا ہے یعنی کوئی نہیں کہ وہاں بنارہا ہے اسوائے اللہ کے وہ ایساقادر ہے کہ جو پیدا کرنا چاہے نریامادہ اسی کے مطابق نفطہ کو ملاتا ہے اور پروان چڑھا کر بنادیتا ہے یہ بجائے خود بہت بڑی دلیل ہے ذرات سے پھر دوبارہ زندہ کردے گ اور ایساضرور ہونے والا ہے لہذا لوگوں کو راست بازی سے اطاعت کرنا ضروری ہے کہ حیلے حوالے سے نہ چلیں گے۔ اگر کسی کے پاس دولت کے خزانے بھی ہوں تو وہ سرمایہ اسے اللہ نے ہی دیا ہے نہ یہ کہ سرمائے سے وہ اس کے فیصلوں کو خرید لے گا اور شعری ستارہ جسے مشرک معبود سمجھ بیٹھے ہیں بھی اس کی مخلوق ہے اور وہی اس کا بنانے اور باقی رکھنے والا ہے یعنی معبودان باطلہ خود اس کی مخلوق اور محتاج ہیں اس کے مقابلے پہ کام نہ آئیں گے۔ نافرمانی کا انجام دنیا میں بھی تباہی کی صورت ہی ظاہر ہوا اور آخرت میں تو ہے ہی دنیا میں اس عاد اولی کو ہلاک کردیا اور پھر ثمود کو ان کی نافرمانی پہ ایسا تباہ کیا کہ کچھ بھی باقی نہ بچا جو مشرکین حال سے بہت طاقتور اور مالدار قومیں تھیں نہ ان کا مال عذاب سے بچا سکا نہ طاقت وتدبیر کام آئی اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا حال دیکھ لیں کہ ساڑھے نوسوسال مہلت ملی تبلیغ سنتے رہے اور مان کر نہ دیاپھروہ بھی تباہ ہوگئے اور بستیوں والے یعنی لوط (علیہ السلام) کی قوم جن کی بستیاں ہی الٹا کرپٹخ دی گئیں ، اور ان پر پتھروں کی بارش نے بستیاں الٹنے قبل انہیں دفن کردیا تھا ان سب واقعات میں غورکرو تو تمہیں صداقت رسول واضح ہوجائے اور جان لو کہ یہ نعمت عظمی ہے اور اس کے طفیل تم پر بیشمار نعمتیں ہیں کہ جان مال اولاد سب بچا ہوا ہے ورنہ ان قوموں کی طرح ہلاک کردیے جاتے پھر بھلا ان نعمتوں کا انکار کیوں کرتے ہو آپ بھی پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی طرح اعمال کے نتائج سے بروقت آگاہ فرمانے والے ہیں اور قیامت تو سر پر کھڑی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں روک کر رکھے کہ یہ آخری امت ہے اور اس کے بعد قیامت کب تک یہ اللہ کے دست قدرت میں جب تک وہ لوگوں کو مہلت دے ورنہ کوئی نہیں جو اسے روکے گا تمہیں ان باتوں میں حیرت ہوتی ہے اور قرآن حکیم کے حقائق پر غور کرکے اپنے کردار کو دیکھ کر روتے نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہو اور غفلت میں ڈوبے ہوئے ہو اور راگ رنگ میں محو ہو حق تو یہ ہے کہ پورے خلوص اور خشوع خضوع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاؤ اسی کی عبادت کرو اور اس کی اطاعت کو شعار بناؤ ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 33 تا 62 اکدی وہ رک گیا۔ لم ینبئا مطلع نہیں کیا گیا۔ وزراخری دو سے کا بوجھ۔ سعی اس نے کوشش کی۔ جدوجہ دیک۔ سوف یری بہت جلد وہ دیکھ لے گا۔ اضحک اس نے ہنسایا۔ ابکی اس نے رلایا۔ اقنی مال دار کیا۔ الموتفکۃ اوندھی کی گئیں (بستیاں) عشی اوپر سے گرا تتماری تو شک کرے گا۔ ۔ ازقت الازقۃ آنے والی گھڑی قریب آگئی۔ سامدون کھیلنے والے اعبدوا تم بندگی کرو۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 62 سورۃ النجم کی یہ اٹھارہ آیات جن پر اس سورت کو ختم کیا گیا ہے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو حق و صداقت کی روشنی کو دیکھ کر اس کی طرف آن ی کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب ان پر دنیا کے مفادات کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ پھر سے ان ہی اندھیروں کی طرف پلٹ جاتے ہیں جہاں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرما دیا ہے کہ ہر شخص اپنے کئے ہوئے ہر عمل کا پوری طرح ذمہ داری ہے۔ وہ اس دنیا میں رہ کر جو کچھ کرے گا اس کا اچھا یا برا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اس کے ایک ایک عمل کی جانچ پڑتال کی جائے گی ” جیسا کرے گا ویسا بھرے گا “ کوئی شخص اپنے عمل کے انجام سے نہ تو بچ سکتا ہے اور نہ کوئی دوسرا شخص اس کو بچا سکتا ہے۔ اللہ کے تمام پیغمبر اسی تعلیم کو لے کر آتے رہے اور پوری یکسانیت اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک ہی بات کو کہتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے دین کی سچائی کو دیکھنے کے باوجود اس سے منہ پھیرلیا، دل چاہا کچھ دے دیا دل نہ چاہا تو اس کو روک لیا۔ فرمایا کہ وہ شخص جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے کوئی اس کو دیکھنے، سننے والا نہیں ہے اور اس کی بیٹھے بٹھائے یوں ہی نجات ہوجائے گی کیا اس نے پردہ غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے جسے دیکھ کر وہ اس قدر مطمئن اور خوش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کیا اس کو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی تعلیمات نہیں پہنچیں جن میں صاف صاف فرما دیا گیا ہے کہ 1- کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا یعنی اگر کوئی شخص گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوا ہے۔ گناہوں کے بوجھ سے تنگ آ کر وہ کسی سے کہے کہ میرا بوجھ بھی تم اٹھا لو تو کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کا بوجھ اٹھا لے۔ 2- انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی اس نے سعی ، جدوجہد اور بھاگ دوڑ کی ہے۔ یعنی اس نے جو بویا ہے وہی کاٹے گا یہ نہیں ہوگا کہ کانٹے بونے کے بعد وہ پھولوں کی سیج پر آرام کرے گا بلکہ اس آخرت کی ہمیشہ کی زندگی میں اسے انہیں کانٹوں پر بسر کرنا ہوگا۔ اس کے ایک ایک عمل کی جانچ پڑتال کے بعد اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا۔ 3- فرمایا کہ بیشک انسان اپنی جدوجہد کو بہت جلد (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان یہ نہ سمجھے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کو دیھنے والا کوئی نہیں ہے بلکہ انسان کے ہر عمل اور زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لظ کا ریکارڈ موجود ہے جو اس کو پیش کیا جائے گا اور اگر وہ اس کا انکار کرے گا تو اس کے بدن کا ہر عضو کے گناہوں کی شہادت و گواہی پیش کرے گا۔ فرمایا کہ وہی ایک اللہ ہے جو انسان کو رلاتا ہے وہی اس کو ہنساتا بھی ہے۔ اسی کے ہاتھ میں زندگی ہے، وہی موت دیتا ہے، اسی نے نر اور مادہ کو ایک حقیر نطفہ کے ذریعہ پیدائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ وہی دوسری زندگی عطا کرتا ہے وہی مال اور جائیداد دیتا ہے ، وہی شعری (ستارہ جس کی کفار عبادت کرتے اور ہر اچھائی اور برائی کا سبب سمجھتے تھے) کا پروردگار رہے۔ اسی اللہ نے عاد اولیٰ (یعنی قدیم عاد جن کی طرف حضرت ہود کو بھیجا گیا تھا) ان کے برے اعمال کے سبب ہلاک اور برباد کیا۔ اسی نے ثمود جیسی ترقی یافتہ قوم کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا کہ ان میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ اسی نے قوم نوح کے ظالم و جابر اور سرکش لوگوں کو پانی میں غرق کردیا۔ اسی نے قوم لوط کی بستیوں کو اٹھا کر زمین پر دے مارا۔ ان پر بارش کی طرح پتھر برسائے گئیا ور پھر ان بستیوں پر سمندر کا پانی اس طرح چھا گیا کہ آج بھی وہ بستیاں سمندر کی تہہ میں عبرت کا نشان بنی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے مخاطب تو اللہ کی کس کس نعمت میں شک و شبہ کرتا رہے گا۔ فرمایا کہ جس طرح اللہ نے اپنے بہت سے پیغمبر بھیجے اور وہ اپنی قوم کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لئے آتے رہے جب انکار کرنے والے سمجھانے کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو کر ہا اور وہ اپنے برے انجام سے نہ بچ سکے اسی طرح اب اللہ نے اپنے آخری نبی اور رسول کو بھیجا ہے جن کے بعد قیامت کا ہولناک دن تو ہے جو کسی طرح ٹلنے والا نہیں ہے لیکن ان کے بعد نہ تو کوئی نبی ہے اور نہ رسول اور نہ کوئی نئی کتاب لہٰذا اس میں تعجب کرنے کے بجائے اس کو مان لینے ہی میں عافیت ہے۔ یہ مذاق اڑانے یا ہنسنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اپنا تکبر اور غرور چھوڑ کر اپنے برے اعمال پر رونے کا مقام ہے۔ لہٰذا اس قرآن کریم کو مان کر صرف اسی ایک اللہ کی بندگی اور عبادت کی جائے اور اسی کے سامنے سجدہ کیا جائے۔ اس سورت کو آیت سجدہ پر ختم کیا گیا ہے۔ سورة النجم وہ پہلی سورت ہے جسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے اس مجمع میں تلاوت فرمایا جہاں اہل ایمان کے علاوہ کفار و مشرکین بھی موجود تھے۔ اس آیت سجدہ کے آتے ہی آپ نے اور اہل ایمان نے اللہ کو سجدہ کیا۔ حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ کفار و مشرکین ان آیات کی کیفیات میں اس طرح گم ہوگئے تھے کہ جیسے ہی آپ نے سجدہ کیا تو کفار و مشرکین بھی سجدہ میں گر پڑے۔ زیر مطالعہ آیات کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو ابھی بیان کیا گیا ہے لیکن بعض مفسرین نے ان آیات کے پس منظر میں ولید ابن مغیرہ کا واقعہ نقل کیا ہے۔ ولید قریشی سردار تھا اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کو قبول کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ جب اس کے کسی مشرک دوست کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے کہا کہ تم اپنے باپ دادا کے دین کو نہ چھوڑو۔ اگر تمہیں یہ ڈر ہے کہ تم آخرت میں عذاب میں مبتلا کئے جائو گے تو مجھے اتنی اتنی رقم دے دو میں تمہارے بدلہ میں وہاں عذاب بھگت لوں گا اور تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ ولید اس بات کو مان گیا اور اس نے جو رقم دینے کا وعدہ کیا تھا اس میں سے کچھ رقم تو دیدی باقی گول کر گیا۔ ممکن ہے ولید کی فطری کنجوسی آڑے آگئی ہو اور سا نے بقیہ رقم دینے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شاید ولید جیسے لوگوں کو حضرت ابراہیم جیسے دین کے وفادار شخص جنہوں نے اپنی پوری زنگدی اسی وفا کی نظر کردی اور حضرت موسیٰ جنہوں نے حق و صداقت کے لئے فرعون جیسے متکبر اور ظالم، طاقت ور سے ٹ کرلی تھی واقعات نہیں پہنچے ؟ کیونکہ ان کے صحیفوں میں یہ بات صاف صاف لکھ دی گئی ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کے (گناہوں کا) بوجھ نہ اٹھائے گا۔ انسان کو صرف وہی ملے گا جس کی اس نے (اپنے اعمال کے ذریعہ) جدوجہد کی ہے اور انسان کی ہر کوشش اور جدوجہد اللہ کے ریکارڈ پر موجود ہے وہ اس کو آدمی کے سامنے رکھ دے گا ۔ فرمایا کہ اسی نے قوم عاد، قوم ثمود، قوم نوح، قوم فرعون اور قوم لوط کی مسلسل نافرمانیوں اور انبیاء کرام کی بات نہ ماننے کی وجہ سے اس قدر شدید عذاب میں مبتلا کیا کہ آج ان کی زندگیاں قصے کہانیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ فرمایا کہ ان تمام کفار و مشرکین کے لئے یہ ایک آخری موقع ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کر کے اپنی آخرت بنا لی جائے۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوسرا کوئی ایسا موقع نہ ملے گا جب ان جیسے لوگوں کی اصلاح ہو سکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ آیات اکا ایک تو عام مفہوم ہے جس کو بیان کیا گیا ہے اور دوسرا مفہوم وہ بھی ہو سکتا ہے جو ایک خاص شخص (ولید بن مغیرہ) سے متعلق ہے۔ بہرحال عام مفہوم ہو یا شخص واحد سے متعلق دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ اب ساری دنیا کے لوگوں کے لئے یہ ایک آخری موقع ہے کہ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن رحمت سے وابستگی اختیار کرلی جائے۔ اسی میں ساری انسانیت کا فائدہ ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا تو موجودہ دنیا ہزاروں ترقیات کے بعد پھر اللہ کے عذاب سے دو چار ہو سکتی ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ بخشش فرمانے والا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس کی بخشش سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ جو شخص کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے چھوٹے گناہوں کو ازخود معاف کردیتا ہے۔ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے جو توبہ کے بغیرجائے اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی بات اہل مکہ کو سمجھاتے تھے لیکن وہ لوگ اسے سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس کے لیے وہ مختلف قسم کے بہانے پیش کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ ہمارے بزرگ ہمیں قیامت کے دن چھڑا لیں گے۔ کبھی کہتے کہ جو دنیا میں خوشحال ہے وہ آخرت میں بھی بہتر اور خوشحال ہوگا۔ اسی زعم کے پیش نظر ولید بن مغیرہ کے ساتھ ایک شخص کا اس بات پر سودا ہوگیا کہ اگر تو مجھے اتنا مال دے۔ تو میں تیری قیامت کی ذمہ داری اٹھاتا ہوں۔ بڑے بڑے مفسرین نے ان آیات کا یہی شان نزول بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ابوجہل سے پہلے ولید بن مغیرہ ہی اہل مکہ کا سردار سمجھا جاتا ہے یہ زیرک اور سمجھدار انسان تھا، قریب تھا کہ مسلمان ہوجاتا۔ اس کے مشرک دوست کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ولید کے پاس آکر کہنے لگے کہ جس آخرت سے ڈر کر تو مسلمان ہونا چاہتا ہے اس کا فکر نہ کر۔ میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں بشرطیکہ تو اتنا مال مجھے دے۔ ولید نے اس سے معاملہ طے کرلیا کہ میں تجھے اتنا مال دوں گا اور تو میری آخرت کا ذمہ دار ہوگا۔ معاملہ طے ہونے کے بعد ولیدنے اسے کچھ مال دیا۔ اس اثناء میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ جب ولید کے دوست نے باقی مال کا مطالبہ کیا تو ولید نے انکار کردیا۔ اس پر یہ فرمان جاری ہوا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے قیامت کا انکار کیا اور تھوڑا سامال دیا پھر باقی دینے سے منحرف ہوگیا۔ کیا آخرت کی ذمہ داری لینے والے کے پاس غیب کا علم ہے ؟ جس بنا پر اس نے یہ ذمہ داری لی۔ انہیں اور سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات صرف قرآن میں نہیں بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تورات اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف میں کھول کر بیان کی ہے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تورات اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا اس لیے نام لیا ہے کہ اہل مکہ کا ایمان تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) نبی تھے اور ان کی کتب کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا دو مقام پر ذکر ہوا ہے۔ ایک اس مقام پر اور دوسرا سورة الاعلیٰ کی آیت ١٩ میں بیان ہوا۔ دونوں مقامات پر آخرت کے ذکر کے بعد موسیٰ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا نام آیا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی شخصیات اور ان کی جدوجہد کا تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) سے زیادہ ذکر ہوا ہے۔ یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کا ذکر ہے وہ قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات سے کہیں زیادہ بیان ہوئی ہیں۔ ” جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کرلے گا۔ جو اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بدبخت ہوگا۔ وہ دھکتی آگ میں میں داخل کیا جائے گا۔ پھر نہ اس میں نہ موت آئے گی اور نہ زندگی ہوگی۔ فلاح پا گیا وہ شخص جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ یہی بات پہلے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔ “ (الاعلیٰ : ١٠ تا ١٩) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں جانتا۔ ٢۔ کسی کو معلوم نہیں کہ قیامت کے دن اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ٤۔ تورات اور صُحُف ابراہیم میں بھی قیامت پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا ہے، اور ان میں بتایا گیا ہے کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا : ١۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ : ١٣٤) ٢۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٣۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر : ١٨) ٤۔ روز محشر دوست کام نہیں آئیں گے۔ (البقرہ : ٢٥٤) ٥۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن : ٣٩) ٦۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٧۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کون ہے یہ شخص۔ الذی ............ واکدی (٣٥ : ٤٣) ” جو راہ خدا سے پھر گیا اور تھوڑا سا دے کر رک گیا “ اور اللہ تعالیٰاس کی روش کو تعجب انگیز قرار دیتا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ایک متعین شخص تھا جس نے اللہ کی راہ میں تھوڑا سا خرچ کیا اس کے بعد وہ خرچ کرنے سے رک گیا۔ اس لئے کہ وہ فقیر نہ ہوجائے۔ کشاف میں علامہ زمحشری نے اس کا تعین کیا ہے کہ یہ حضرت عثمان ابن عفان (رض) ہیں لیکن حضرت عثمان (رض) کا جو مقام و مرتبہ تھا اور انہوں نے تحریک اسلامی کی راہ میں جو کچھ خرچ کیا ، بغیر کسی توقف اور بغیر کسی حساب کے وہ معلوم ہے اور ان کا جو عقیدہ تھا وہ بھی معلوم ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور کوئی دوسرا شخص ذمہ داری نہیں لے سکتا اور جس روایت کا علامہ زمخشری نے ذکر کیا ہے وہ اسلام کے اس بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ روایت یہ ہے کہ حضرت عثمان کار خیر میں خرچ کرتے تھے۔ عبداللہ ابن سعد ابن ابو سرح نے کہا جس طرح تم خرچ کررہے ہو اسی طرح تو تمہارے پاس کچھ نہ رہے گا۔ یہ حضرت عثمان کے رضاعی بھائی تھے۔ حضرت عثمان نے کہا کہ میں نے بہت گناہ کئے ہیں اور میں اللہ کی راہ میں خرچ کرکے معافی چاہتا ہوں تو عبداللہ نے کہا مجھے اپنی نافہ اس کے کجادے کے ساتھ دے دو اور میں تمہارے تمام گناہ اپنے سر لیتا ہوں چناچہ اس کو انہوں نے ناقہ دے دی اس سودے پر انہوں نے گہواہ بھی ٹھہرائے اور حضرت عثمان انفاق سے رک گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ روایت ظاہرا باطل ہے کیونکہ یہ قرآنی اصول کے خلاف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک متعین شخص ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے مراد ہو لوگوں کا ایک نمونہ جو اس قسم کے ہوتے ہیں مثلاً وہ لوگ جو اسلامی نظریہ حیات کی راہ میں خرچ کریں اور پھر رک جائیں تو اللہ کے نزدیک ایسا شخص قابل تعجب ہے۔ ایسے شخص کی طرف اشارہ کرکے قرآن مجید صحیح تصورات کی توضیح کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافر دھوکہ میں ہیں کہ قیامت کے دن کسی کا کام یا عمل کام آجائے گا روح المعانی صفحہ ٦٥: ج ٢٧ میں حضرت مجاہد تابعی (رح) سے نقل کیا ہے کہ ولید بن مغیرہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات سنی تو متاثر ہوا اور اسلام کے قریب ہوگیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کے اسلام کے قبول کرنے کی امید بندھ گئی پھر اسے مشرکین میں سے ایک شخص نے ملامت کی اور کہا کیا تو اپنے باپ دادوں کے دین سے ہٹ رہا ہے تو سمجھتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین قبول نہ کیا تو موت کے بعد عذاب میں مبتلا ہوگا ایسا کر تو اپنے دین پر واپس آجا اور تجھے جو عذاب کا ڈر ہے تیری طرف سے برداشت کرلوں گا مگر یوں ہی مفت میں نہیں شرط یہ ہے کہ تو مجھے اتنا مال دیدے۔ ولید اس پر راضی ہوگیا اور جو کچھ تھوڑابہت ارادہ اسلام قبول کرنے کا کرلیا تھا اس سے باز آگیا اور جس شخص نے اس سے یہ بات کہی تھی اسے کچھ مال دیدیا ابھی اتنا مال نہیں دیا تھا جتنے مال کی بات ہوئی تھی کہ کنجوسی سوار ہوگئی اور باقی مال جس کا وعدہ کیا تھا وہ روک لیا، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیات کریمہ نازل فرمائیں۔ ﴿اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰىۙ٠٠٣٣﴾ (اے مخاطب کیا تو نے اسے دیکھا جس نے روگردانی کی) ﴿ وَ اَعْطٰى قَلِيْلًا وَّ اَكْدٰى٠٠٣٤﴾ (اور تھوڑا مال دیا اور بند کردیا) ﴿ اَعِنْدَهٗ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرٰى ٠٠٣٥﴾ (کیا اس کے پاس علم غیب ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے) یعنی اس کو کیسے پتہ چلا کہ قیامت کے دن کوئی شخص کسی کا عذاب اپنے سر لے سکتا ہے اور کافروں نے جو کفر اور شرک کا جرم کیا ہے اس کے بجائے دوسرے شخص کو عذاب دے دے گا ان کے پاس علم غیب تو ہے نہیں پھر قیامت کے دن کے فیصلہ کا انہیں کیسے علم ہوا ؟ نہ انہیں علم غیب ہے نہ وہاں ایسا ہونے والا ہے اپنے پاس سے باتیں بناتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ ہم جس طرح چاہیں گے اس طرح ہوجائے گا۔ (العیاذ باللہ) ﴿اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ٠٠٣٦ وَ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤىۙ٠٠٣٧ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ٠٠٣٨ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ٠٠٣٩ وَ اَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى۪٠٠٤٠ ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى ۙ٠٠٤١ ﴾ (کیا اسے ان مضامین کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں اور جو ابراہیم کے صحیفوں میں ہیں جس نے پوری بجا آوری کردی کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی جو کچھ اس نے کمایا اور یہ کہ اسی کی سعی عنقریب دیکھ لی جائے گی پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا) مشرکین مکہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) کی اولاد تھے اور مدینہ منورہ میں جو یہودی تھے وہ اپنے کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر بتاتے تھے دونوں قوموں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کیا لہٰذا ان دونوں حضرات کے صحیفوں کا تذکرہ فرمایا کہ ان کے صحیفوں میں تو یہ لکھا ہے کہ ہر شخص اپنا بوجھ خود اٹھائے گا دوسرا کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہر شخص کو اپنے ایمان اور کفر کی جزا سزا ملے گی۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے عذاب بھگتنے کو تیار نہ ہوگا ﴿وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ﴾ اور نہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں یہ بات ہے کہ کسی ایک شخص کو دوسرے شخص کے بدلہ عذاب دیدیا جائے جو شخص جیسا کرے گا ویسا بھرے گا، مومن ایمان کا پھل پائے گا اور کافر کو کفر کی سزا ملے گی، ہر شخص کی محنت اور سعی سامنے آجائے گی لہٰذا اس بل بوتہ پر کفر پر جما رہنا کہ میں دنیا میں کسی کو مال دے دیتا ہوں وہ میری طرف سے عذاب بھگت لے گا یا کسی سے یوں کہہ دینا کہ میں تیری طرف سے عذاب بھگت لوں گا قانون الٰہی کے خلاف ہے، دنیا میں بیٹھ کر باتیں بنالینے اور خود ہی فیصلے کرلینے سے عذاب آخرت سے چھٹکارا نہ ہوگا۔ اس مضمون کی تفصیل کے لیے سورة النحل رکوع ٣ اور سورة العنکبوت رکوع ١ کی تفسیر کی مراجعت کرلی جائے۔ یہ جو فرمایا ہے ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ٠٠٣٩ ی﴾ (کہ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی) اس پر جو یہ اشکال ہوتا ہے کہ پھر ایصال ثواب کا کوئی فائدہ نہ رہا کیونکہ جو شخص عمل کرتا ہے آیت کریمہ کی رو سے اس کا ثواب صرف اسی کو پہنچنا چاہے نہ کہ کسی دوسرے شخص کو۔ اس اشکال کو حل کرنے کے لیے بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ میں جو ﴿ اِلَّا مَا سَعٰى ﴾ فرمایا ہے اس سے ایمان مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے ہی ایمان کا ثواب ملے گا اس بات کو سامنے رکھ کر ایصال ثواب کا اشکال ختم ہوجاتا ہے کیونکہ کسی شخص کا ایمان کسی ایسے شخص کو فائدہ نہیں دے سکتا جو کافر ہو اور کافر کو ایصال کرنے سے بھی ثواب نہیں پہنچتا۔ ذریت کو جو آباء کے ایمان کا ثواب پہنچے گا (جس کا سورة طور میں ذکر ہے اور حضرت ابن عباس (رض) کی توجیہہ میں آرہا ہے) اس میں ﴿ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ ﴾ کے ساتھ بایمان بھی مذکورہ ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت کا مفہوم عام نہیں ہے بلکہ عام مخصوص منہ البعض ہے کیونکہ احادیث شریفہ میں حج بدل کرنے کا ذکر ہے اور حج بدل دوسرے شخص کا عمل ہے پھر بھی اس کا حج ادا ہوجاوے گا جس کی طرف سے حج ادا کیا ہے اور بعض احادیث میں (جو سند کے اعتبار سے صحیح ہیں) دوسرے کی طرف سے صدقہ کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص ذکر یا تلاوت کا ثواب پہنچائے جبکہ ذکر و تلاوت محض اللہ کی رضا کے لیے ہو کسی طرح کا پڑھنے والے کو مالی لالچ نہ ہو تو اس میں ائمہ کرام علیہم الرحمہ کا اختلاف ہے حضرت حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک بدنی عبادات کا ثواب بھی پہنچتا ہے اور حضرت شوافع اور مالکیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا، جن حضرات کے نزدیک ثواب پہنچتا ہے وہ حج بدل اور صدقات پر قیاس کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت ابوہریرہ (رض) کا ارشاد بھی مروی ہے : فقد روی ابوداوٗد بسندہ عن ابی ھریرة (رض) قال من یضمن لی منکم ان یضمن لی فی مسجد العشار رکعتین او اربعا ویقول ھذا لابی ہریرہ سمعت خلیلی ابا القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول ان اللہ یبعث من مسجد العشار یوم القیامة شھداء لا یقوم مع شھداء بدر غیر ھم قال ابوداوٗد ھذا المسجد ممایلی النھرـ (ای القرات صفحہ ٢٣٦ ج ٢) قال فی الدر المختار الاصل ان کل من اتی بعبادة مالہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عندالفعل لنفسہ لظاھر الادلة واما قولہ تعالیٰ (وان لیس للانسان الاماسعی) ای الا اذا وھبہ لہ (انتھی) قال الشامی فی ردالمحتار (قولہ لہ جعلی ثوابھا لغیرہ) خلافا للمعتزلة فی کل العبادات والمالک والشافعی فی العبادات البدنیة المحضة کالصلوٰة والتلاوة فلا یقولان بوصولھا بخلاف غیرھا کالصدقة والحج، ولیس الخلاف فی ان لہ ذلک اولا کما ھو ظاھر اللفظ بل فی انہ یجعل بالجعل اولا بل یلغو جعلہ افادہ فی الفتح ای الخلاف فی وصول الثواب وعدمہ (قولہ لغیرہ) ای من الاحیاء والاموات (بحر عن البدائع) (صفحہ ٢٣٦: ج ٢) وقد اطال الکلام فی ذلک الحافظ ابن تیمیة فی فتاواہ (صفحہ ٣٠٦ الی صفحہ ٣٢٤: ج ٢٤) وقال یصل الی المیت قرأة اھلہ تسبیحھم وتکبیر ھم وسائر ذکر ھم للہ تعالیٰ واجاب عن استدلال المانعین وصول الثواب بآیة سورة النجم ثم اطال الکلام فی ذلک صاحبہ ابن القیم فی کتاب الروح (من صفحہ ١٥٦ الی صفحہ ١٩٢) والیک ماذکر فی فتاوی الحافظ ابن تیمیة فی آخر البحث، وسئل ھل القرأة تصل الی المیت من الولد اولا ؟ علی مذھب الشافعی ـ فاجاب : اماوصول ثواب العبادات البدنیة : کالقرأة، والصلاة، والصوم ـ فھذھب احمد، وابی حنیفة، وطائفة من اصحاب مالک، والشافعی، الی انھا تصل، وذھب اکثر اصحاب مالک، والشافعی، الی انھالاتصل، واللّٰہ اعلم وسئل : عن قرأة اھل المیت تصل الیہ ؟ والتسبیح والتحمید، والتھلیل والتکبیر، اذا اھداہ الی المیت یصل الیہ ثوابھا ام لا ؟ فاجاب : یصل الی المیت قراة اھلہ، وتسبیحھم، وتکبیر ھم، وسائر ذکر ھم اللہ، اذا اھدوہ الی المیت، وصل الیہ، واللہ اعلم (صفحہ ٣٢٤: ج ٢٤) وقال ابن القیم فی آخر البحث (صفحہ ١٩٢) وسرا المسالة ان الثواب ملک للعامل فاذا تبرع بہ واھداہ الی اخیہ المسلم او صلہ اللہ الیہ، فما الذی خص من ھذا ثواب قرأة القرآن وحجر علی العبدان یوصلہ الی اخیہ وھذا عمل الناس حتی المنکرین فی سائر الاعصار والامصار من غیر نکیر من العلماء حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ آیت کریمہ کا عموم منسوخ ہے کیونکہ دوسری آیت میں ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ﴾ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آباء کے ایمان کا ان کی ذریت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ والئی خراساں نے حضرت حسین بن الفضل سے دریافت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ فرمایا ہے اور دوسری طرف ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ٠٠٣٩﴾ فرمایا ہے دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے حضرت حسین بن الفضل نے فرمایا کہ سورة نجم کی آیت میں عدل الٰہی کا تذکرہ ہے کہ جو بھی کوئی اچھا عمل کرے اسے بقدر عمل ضروری اجر ملے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اس کا استحقاق ہے اس کے اجر کو ضائع نہیں فرمائے گا اور ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ میں فصل کا بیان ہے وہ جسے جتنا چاہے زیادہ سے زیادہ دیدے اسے اختیار ہے۔ والئی خراساں کو یہ جواب پسند آیا اور حضرت حسین بن الفضل کا سر چوم لیا صاحب روح المعانی نے بھی اس جواب کو پسند کیا پھر فرمایا ہے کہ حضرت ابن عطیہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ٠٠٣٩﴾ صرف گناہ کے ساتھ مخصوص ہے نیکی کا ثواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوب بڑھا چڑھا کردیا جائے گا جس کی تفصیلات حدیثوں میں آئی ہیں اور قرآن مجید میں جو ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ اعمال صالحہ سے متعلق ہے جو شخص گناہ کرے گا اسکا گناہ اتنا ہی لکھاجائے گا جتنا اس نے کیا ہے اور اسی پر مواخذہ ہوگا گناہ بڑھا کر نہیں لکھا جاتا۔ (وہذاتوجیہ حسن) ۔ صاحب معالم التنزیل نے حضرت عکرمہ (رض) سے ایک جواب یوں نقل کیا ہے سورة النجم کی آیت حضرت ابراہیم اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں ہے کیونکہ یہ مضمون بھی ان حضرات کے صحیفوں میں ہے ان کی قوموں کو صرف اپنے ہی کیے ہوئے عمل کا فائدہ پہنچتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت پر اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی فرمایا کہ کوئی دوسرا مسلمان ثواب پہنچانا چاہے تو وہ بھی اسے پہنچ جائے گا۔ لیکن اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے اور مومنین کے لیے جو ان کے گھر میں داخل ہوں مغفرت کی دعا کی جیسا کہ سورة نوح کی آخری آیت میں مذکور ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کے لیے اور اپنی قوم کے لیے مغفرت کی دعا کی جو سورة اعراف رکوع ١٨ میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امم سابقہ میں ایک دوسرے کے لیے دعاء قبول ہوتی تھی (ہاں اگر دعائے مغفرت کو مستثنیٰ کیا جائے تو یہ دوسری بات ہے) ۔ یہ جو حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے اور تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے (١) صدقہ جاریہ (٢) وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو (٣) وہ صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ (اور بعض روایات میں سات چیزوں کا ذکر ہے) ان کا ثواب پہنچنے سے کوئی اشکال نہیں ہوتا کیونکہ یہ مرنے والے کے اپنے کیے ہوئے کام ہیں، اولاد صالح جو دعاء کرتی ہے اس میں والد کا بڑا دخل ہے کیونکہ اسی کی کوششوں سے اولاد نیک بنی اور دعاء کرنے کے لائق ہوئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” افرایت۔ تا۔ یری “ یہ معاندین کے لیے زجر ہے۔ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی۔ شروع میں وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھتا اور وعظ و نصیحت سنتا تھا اور اسلام سے متاثر ہوچلا تھا۔ قرآن کی تعریف بھی کرتا تھا۔ بعض، مشرکین نے اس کو حق گوئی اور اسلام میں رغبت کا طعنہ دیا اور کہا اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر انہیں گمراہ قرار دیتا ہے اس نے جواب دیا میں تو اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہوں اس پر اس مشرک نے کہا عذاب سے تمہیں بچانے کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ چناچہ وہ پھر گیا اور زبان سے جو حق بات کہتا تھا اس سے رک گیا۔ کان الولید مدح القران ثم امسک عنہ فنزل (واعطی قلیلا) ای من الخیر بلسانہ (واکدی) ای قطع ذلک وامسک عنہ (قرطبی ج 17 ص 111) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے دین حق سے روگردانی کی۔