Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 4
سورة النجم
اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾
It is not but a revelation revealed,
وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔
اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾
It is not but a revelation revealed,
وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔
It is only a revelation revealed, means, he only conveys to the people what he was commanded to convey, in its entirety without additions or deletions. Imam Ahmad recorded that Abu Umamah said that he heard the Messenger of Allah say, لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ لَيْسَ بِنَبِيَ مِثْلُ الْحَيَّيْنِ أَوْ مِثْلُ أَحَدِ الْحَيَّيْنِ رَبِيعَةَ وَمُضَر Verily, numbers similar to the two tribes, or one of them, Rabi`ah and Mudar, will enter Paradise on account of the intercession of one man, who is not a Prophet. A man asked, "O Allah's Messenger! Is not Rabi`ah a subtribe of Mudar." The Prophet said, إِنَّمَا أَقُولُ مَا أَقُول I said what I said. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr said, "I used to record everything I heard from the Messenger of Allah so it would be preserved. The Quraysh discouraged me from this, saying, `You record everything you hear from the Messenger of Allah, even though he is human and sometimes speaks when he is angry.' I stopped recording the Hadiths for a while, but later mentioned what they said to the Messenger of Allah, who said, اكْتُبْ فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا خَرَجَ مِنِّي إِلاَّ الْحَق Write! By He in Whose Hand is my soul, every word that comes out of me is the Truth." Abu Dawud also collected this Hadith.
[٣] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کی شرعی حیثیت اور منکرین حدیث :۔ ان آیات کے اولین مخاطب تو کفار مکہ ہیں۔ مگر یہ آیتیں چونکہ آپ کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں لہذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر جاکر اپنی کسی زوجہ سے یہ کہتے کہ && میرا جوتا لاؤ && تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی ؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آگئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا۔ اور آپ کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں وہ قابل اتباع نہیں ہیں && اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرہ حدیث کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابل اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بےکار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں تقسیم میں کردیا۔ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلم، مفسر اور شارح بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو جو تعلیم، تفسیر اور تشریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہوگئے۔ مختصراً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے : ١۔ تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو تقریباً سات سو بار آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے۔ کتنی نمازیں ہوں۔ ان کے صحیح اوقات کیا ہیں۔ ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے ؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوٰۃ کتنی وصول کی جائے ؟ قضایا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کے لیے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے۔ یا نکاح میں عورت کی رضامندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ کے اقوال و افعال سے بےنیاز ہو کر انہیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں کیا حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ کا تاکیدی حکم تھا کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ ایسے تمام امور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے خواہ یہ وحی بذریعہ القاء ہو یا جبرئیل کے بصورت انسان سامنے آکر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں وحی خفی کہا جاتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسی تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔ ٢۔ تدبیری امور : ایسے امور میں آپ کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ مثلاً جنگ کے لیے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے ؟ نظام حکومت کو کیسے چلایا جائے گویا ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی الا یہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کردی جاتی تھی۔ جیسے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔ ٣۔ اجتہادی امور : سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمدہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہر علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے تاہم آپ اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور مرگیا ہے۔ کیا میں اب اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && بھلا دیکھو ! اگر اس کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں ؟ && اس عورت نے کہا :&& ضرور کرتی && تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :&& تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے && آپ کے ایسے اجتہادات اور استنباطات کی فہرست بھی طویل ہے تاہم اس سلسلہ میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کردی گئی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوہریرہ (رض) نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا : یارسول اللہ ! بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں۔ درآنحالیکہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں۔ تو کیا اللہ میرے سب گناہ معاف کردے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا && ہاں && وہ شخص چلا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا && مگر قرضہ معاف نہ ہوگا۔ جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب ماوعدہ اللہ تعالیٰ للمجاہد فی الجنۃ) یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو جنت کی بشارت دے دی۔ کیونکہ شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حقدار بن جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔ ٤۔ طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آجاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے۔ لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو۔ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے چاہے تو سبزی کھائے اور چاہے تو دال کھائے لیکن وہ صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدایت ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لیے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا وہ پابند ہے وہ اپنا کاروبار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام کاروبار نہیں کرسکتا نہ جائز کاروبار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بےنیاز ہے۔ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں لہذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ (وَمَا یَنْطِقُ ) کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے ؟ اور اس نظریہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔
(١) ان ھو الا وحی یوحی :” ھو “ سے مراد یا تو قرآن مجید اور دین ہے جس کے متعلق مشرکین کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے پاس سے بنا لیا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ام یقولون افترہ بل ھو الحق من ربک) (السجدۃ : ٣)” یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ تیرے رب کی طرف سے حق ہی ہے۔ “ اس لئے قرآن اور دین کے متعلق فرمایا کہ وہ وحی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا :(فانھم لایکذبونک ولکن الظلمین بایت اللہ یجحدون) (الانعام : ٣٣)” تو بلاشبہ وہ تجھے جھوٹا نہیں کہتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ “ یا اس ” ھو “ سے مراد ” ینطق “ کے ضمن میں پایا جانے والا ” منطوق بہ “ ہے، یعنی وہ بات جو وہ بولتا ہے وحی کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر بات وحی کے بعد ہی کرتے تھے ؟ اگر ہاں کہا جائے تو ان متعدد باتوں کے متعلق کیا کہا جائے گا جن کی اللہ تعالیٰ نے اصلاح فرمائی ؟ مثلاً فرمایا :(عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) (التوبۃ : ٣٣) ” اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انہیں کیوں اجازت دی۔ “ اور فرمایا :(ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی ینحن فی الارض ) (الانفال : ٦٨)” کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے۔ “ اور فرمایا :(مان کان للنبی و الذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین) (التوبہ : ١١٣)” اس نبی اور ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش کی دعا کریں۔ “ اور فرمایا :(یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) (التحریم ١)” اے نبی ! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ہے ؟ “ عالوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحباہ (رض) کے ساتھ مشورے کا حکم دیا، فرمایا :(وشاورھم فی الامر) (آل عمران : ١٥٩)” اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ “ جب کہ وحی کے بعد نہ مشورے کی ضرورت ہے نہ اجازت کی ۔ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ یہاں ان باتوں کو وحی قرار دیا جا رہا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے قرآن مجید یا شریعت کے حکم کے طور پرب یان فرماتے تھے۔ مفسر ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” ان ھو الا وحی یوحی “ ای انما یقول ما امر بہ یبلغہ الی النسا کاملاً موفراً من غیر زیادۃ ولا نقصان “” یعنی ” ان ھو الا وحی یوحی “ کام طلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی بات کہتے تھے جس کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا تھا کہ کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری پوری لوگوں تک پہنچا دیں۔ “ اس وحی میں قرآن مجدید بھی شامل ہے اور حدیث بھی۔ عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما باین کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ سنتا اسے حفظک رنے کے ارادے سے لکھ لیتا تھا، تو قریش نے مجھے منع کیا اور کہا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بھی سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لایک بشر ہیں، جو کبھی غصے میں بات کرتے ہیں اور کبھی خوشی میں، تو میں نے لکھنا ترک کردیا۔ پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دہن مبارک کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :(اکتب فو الذی نفسی بیدہ ! مایخرج منہ الا حق ) (ابو داؤد، العلم، باب کتابۃ العلم : ٠٣٦٣٦ وقال الالبانی صحیح)” لکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس (منہ) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انی لا اقول الا حقا)” میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ “ نکلتا۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انی لا اقول الا حقا)” میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ “ تو آپ کے کسی صحابی نے کہا :” یا رسول اللہ ! آپ تو ہم سے خوش طبعی بھی کرلیتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انی لا اقول الاحقا)” بلاشبہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ “ (مسند احمد : ٢/٣٣٠، ح : ٨٣٨١) مسند احمد کے محقق نے فرمایا۔” اسنادہ قوی “ کہ اس کی سند قوی ہے۔ (٢) اس مقام پر مفسر عبدالرحمن کیلانی نے ” تیسیرا القرآن “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال کی حیثیت کے متعلق بہت مفید بحث لکھی ہے جس میں منکرین حدیث کے مغالطوں کا جواب بھی آگیا ہے۔ فوائد کے پیش نظر وہ بحث یہاں درج کی جاتی ہے :” ان آیات کے اولین مخاطب تو کافر مکہ ہیں، مگر یہ آیتیں چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں، لہٰذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر جا کر اپنی کسی زوج سے یہ کہتے ہیں کہ ” میرا جوتا لاؤ “ تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی ؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آگئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں، وہ قابل اتباع نہیں ہیں۔ اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرہ حدیث کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابل اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بےکار ثابت کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں میں قسیم کردیا، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلم، مفسر اور شارع بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی جو تعلیم، تفسیر اور تشطریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہوگئے۔ مختصراً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے : (١) تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو بہت دفعہ آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے، کتنی نمازیں ہوں، ان کے صحیح اوقات کیا ہیں، ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے ؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوۃ کتنی وصول کی جائے ؟ قضا یا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کیلئے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے، یا نکاح میں عورت کی رضا مندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال سے بےنیاز ہو کر انہیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں جاننے کا واحد ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کبیھ مشورہ نہیں کیا، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشروے کا تاکیدی حکم تھا، کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔ ایسے تمام امور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائیج اتے تھے۔ خواہ یہ وحی بذریعہ القا ہو یا جبرئیل (علیہ السلام) کے بصورت انسان سامنے آکر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں ” وحی خفی “ کہا جاتا ہیا ور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسے تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔ (٢) تدبیری امور : ایسے امور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، مثلاً جنگ کے لئے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا اجئے، نظام حکومت کیسے چلایا جائے ؟ گویا یہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی، الایہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کردی جاتی ہے، جیسے غزوہ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔ (٣) اجتہادی امور : اس سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمد ہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہ علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے، تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور وہ مرگیا ہے، کیا میں اب اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بھلا دیکھو ! اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی ؟ “ اس عورت نے ” ضرور کرتی۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ “ (بخاری، جزاء الصید، باب الحج والنذور …: ١٨٥٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے اجتہادات اور اسنباطات کی فہرست بھی طویل ہے، تاہم اس سلسلے میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کردی گئی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوقتادہ (رض) نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا :” یا رسول اللہ ! بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، درآں حالیہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں، تو کیا اللہم یرے سب گناہ معاف کر دے گا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہاں ! “ وہ شخص چلا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا :” مگر قرضہ معاف نہ ہوگا، جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے ۔ “ (نسائی، الجھاد، باب من قاتل فی سبیل اللہ تعالیٰ و علیۃ دین : ٣١٥٨۔ مسلم : ١٨٨٥) یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو جنت کی بشارت دے دی، کیونک شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حق دار بن جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔ (٤) طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آجاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو ؟ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے چاہے تو سبزی کھائیا ور چاہے تو دال کھائے، لیکن وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدیات ہے کہ کھانے سے پہلے ” بسم اللہ ‘ ‘ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لئے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا پابند ہے۔ وہ اپنا ک اور بار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام ک اور بار نہیں کرسکتا، نہ جائز ک اور بار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ماپ تول میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بےنیاز ہے۔ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں، لہٰذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ” وما ینطق “ کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے ؟ اور اس نظریے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔ “ (تیسیرا القرآن)
اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ٤ ۙ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے
(٤۔ ٥) ان کا یہ ارشاد یعنی قرآن کریم اللہ کی طرف سے ایک وحی ہے جو بذریعہ جبریل امین ان کے پاس بھیجی جاتی ہے کہ وہ ان کے پاس آتا ہے اور ان کو پڑھ کر سناتا ہے آپ کو اس وحی کی جبریل امین تعلیم کرتے جو بدن کے اعتبار سے بڑے طاقتور ہیں اور یہ طاقت و قوت ان کی پیدایشی ہے۔ اور ان کی طاقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے جب انہوں نے لوط کی بستیوں کے نیچے ہاتھ دیا اور ان کو سیاہ پانی پر سے اکھاڑ کر آسمان پر لے جاکر پھر زمین پر الٹا چھوڑ دیا۔ اور اسکی سختی کا اندازہ اس سے کیجیے جبکہ انہوں نے انطاکیہ کے دروازہ کی چوکھٹ پکڑ کر ایک چیخ ماری جس سے اس میں جو بھی مخلوق تھی سب مرگئی۔ اور کہا گیا ہے کہ ان کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جس وقت ابلیس ملعون بیت المقدس کی ایک چوکھٹ پر اپنا پر مارا تو انہوں نے اس کو اٹھا کر منتہائے ہند پر پھینک دیا۔
آیت ٤ { اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ۔ } ” یہ تو صرف وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ “ اگلی آیات میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر ہے جنہوں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کلام کی تعلیم دی۔ یہ مضمون دوسری مرتبہ ٣٠ ویں پارے کی سورة التَّکوِیر میں آیا ہے۔ دونوں عبارتوں میں ایک خوبصورت مماثلت یہ ہے کہ وہاں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر صَاحِبُـکُمْ کے لفظ سے کیا گیا ہے : { وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ۔ وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ ۔ وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ ۔ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ۔ } (التکویر) ” اور (مکے والو) تمہارے یہ رفیق دیوانے نہیں ہیں۔ بیشک انہوں نے اس (جبرائیل) کو کھلے افق پر دیکھا ہے۔ اور وہ غیب کے معاملے میں بخیل نہیں ہیں۔ اور یہ ہرگز کسی شیطان رجیم کا قول نہیں ہے۔ “ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر نہیں آتے تھے اور نہ ہی وحی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کانوں سے سن سکتے تھے ۔ فرشتے اور وحی دونوں کا تعلق چونکہ عالم امر سے ہے اس لیے ان کا نزول بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت کے اس حصے پر ہوتا تھا جو عالم امر سے متعلق تھا ‘ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک ۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ انسانی روح کا مسکن چونکہ قلب انسانی ہے اس لیے وحی کا نزول براہ راست حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ہوتا تھا : ؎ نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو رُوح سنے اور روح سنائے ! تاہم حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس انسانی شکل میں آنا بھی ثابت ہے۔ روایات میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب انسانی شکل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تو عموماً خوبصورت نوجوان صحابی حضرت دحیہ کلبی (رض) کی شکل میں آتے جو بہت عظیم انسان تھے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ انسانی شکل میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو گفتگو ہوتی وہ ” وحی متلو “ یعنی قرآن میں شامل نہیں ہے۔ مثلاً ” حدیث جبریل (علیہ السلام) “ میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکالمے کی تفصیل درج ہے۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) انسانی شکل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین کے بارے میں چند بنیادی سوالات پوچھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سوالات کے جوابات دیے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو بتایا کہ یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ اس حدیث کا مضمون اس قدر اہم ہے کہ محدثین نے اسے ” اُمُّ السُّنَّہ “ قرار دیا ہے ‘ لیکن اس حدیث کے مندرجات قرآن میں شامل نہیں۔ البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں بھی دیکھا ہے۔ پہلی مرتبہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں آغاز نبوت کے زمانے میں دیکھا تھا۔ یہ واقعہ ” فترتِ وحی “ کے دنوں میں پیش آیا۔ (پہلی وحی کے بعد وحی کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے منقطع رہا ‘ اس وقفے کو ” فترتِ وحی “ کہا جاتا ہے۔ ) ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غارِ حرا سے اتر رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آواز سنی ” یامحمد ! “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ادھر ادھر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمجھا کہ شاید مجھے دھوکہ ہوا ہے ‘ لیکن دوسرے ہی لمحے وہی آواز پھر سنائی دی۔ اس مرتبہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی انسان دکھائی نہ دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ خوف محسوس ہوا۔ تیسری مرتبہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر وہی آواز سنی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اوپر دیکھنے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اپنی اصلی ملکوتی شکل میں اس طرح نظر آئے کہ پورا افق بھرا ہوا تھا۔ دوسری مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو معراج کے موقع پر سدرۃ المنتہیٰ کے قریب دیکھا۔ آئندہ آیات میں اسی مشاہدے کا ذکر ہے ۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر معراج پر لے جانے کے لیے آئے تو وہ انسانی شکل میں تھے اور آپ (علیہ السلام) کے لیے جو سواری (براق) وہ لے کر آئے تھے وہ بھی کوئی محسوس و مرئی قسم کی مخلوق تھی۔ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو وہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اصل ملکوتی شکل میں ظاہر ہوئے ۔ اس مقام پر انہوں نے آگے جانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں یہاں سے آگے بڑھوں گا تو میرے َپر جل جائیں گے : ؎ اگر یک سر ِموئے برتر قدم فروغِ تجلی بسوزد پرم اس مضمون کے حوالے سے یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی اصل ملکوتی شکل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرانے اور پھر اس ملاقات کا قرآن مجید میں ذکر کرنے کا مقصد نزول وحی کے سلسلے کے درمیانی رابطے (link) کی سند فراہم کرنا ہے۔ اس نکتہ لطیف کو ” اصولِ حدیث “ کے حوالے سے سمجھنا چاہیے۔ محدثین نے احادیث کی صحت (authenticity) کی تحقیق کے لیے جو اصول وضع کیے ہیں ان میں ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ جس شخص کی کسی دوسری شخصیت سے روایت منقول ہے اس کی اس شخصیت سے شعور کی عمر اور شعور کی کیفیت میں ملاقات بھی ثابت ہونا ضروری ہے ۔ اگر ایسی ملاقات ثابت نہ ہو سکے تو متعلقہ راوی کی روایت قابل قبول نہیں سمجھی جاتی۔ مثلاً اگر ایک تابعی (رح) (رح) کی کسی صحابی (رض) سے کوئی روایت منقول ہے مگر حقائق ثابت کرتے ہیں کہ جب وہ صحابی (رض) فوت ہوئے تو متعلقہ تابعی کی عمر صرف چھ سال تھی ‘ یعنی اس وقت ان کی عمر ایسی نہ تھی کہ وہ بات کو سمجھ کر کسی دوسرے کو بتاسکتے ‘ تو ایسی صورت میں متعلقہ تابعی کی وہ روایت محدثین کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ چناچہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحت (authenticity) کے لیے اگر متعلقہ راویوں کی ملاقات کا ثابت ہونا ضروری ہے تو ایسا ہی ثبوت اللہ تعالیٰ کی حدیث (اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سورة الزمر کی آیت ٢٣ میں اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ قراردیا ہے) کی روایت کے حوالے سے بھی دستیاب ہونا چاہیے ۔ - ۔ چناچہ قرآن مجید کی روایت کی تصدیق و توثیق یوں ہوگی : قرآن کیا ہے ؟ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ سے اس کا کلام کس نے سنا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے سنا۔ جبرائیل (علیہ السلام) سے کس نے سنا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا ۔ تو کیا جبرائیل (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات ثابت ہے ؟ جی ہاں ! ان کے درمیان دو مرتبہ کی ملاقات قرآن سے ثابت ہے ۔ - ۔ چناچہ وحی کی ” روایت “ کا درمیانی رابطہ (link) ثابت کرنے کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے اصل ملکوتی شکل میں ملاقات کی ” سند “ انتہائی اہم ہے جو یہ آیات فراہم کر رہی ہیں۔
4 It means this: "The things for which you accuse him of having gone astray or been misled and deceived, have neither been fabricated by himself nor motivated by any selfish desire on his part, but they have been sent down, and are being sent down, to him by God. He did not intend to become a Prophet of his own desire so that he might have laid a claim to Prophet hood in order to satisfy his desire, but when Allah appointed him to that office through Revelation, then only did he rise to preach his mission and to tell you that he had been appointed God's Messenger to you. Likewise, this invitation to Islam, this teaching of the doctrine of Tauhid, this news about the gathering together of all mankind on the Day of Resurrection and their accountability, the truths that he is presenting about the Universe and Man and the principles of leading a pure life, are not a philosophy propounded by himself, but the knowledge of all this has been bestowed on him by Revelation. Likewise, this Qur'an that he recites before you, is also not of his own composition but it is Divine Word which is sent down to him by Revelation." Here, the question arises: To which of the words spoken by the Holy Prophet do Allah's Words: "He does not speak of his own desire; it is only a Revelation which is sent down to him," apply? Do they apply to everything that he spoke, or to sonic of his words and not to others? The answer is: As far as the Qur'an is concerned, the Divine Words apply to it most completely. As for the other words, apart from the Qur'an, which the Holy Prophet (upon whom be peace) spoke, they could inevitably be of three kinds: First, those words which he employed for preaching religion and inviting others to Allah, and for explaining the themes, teachings and commands of the Qur'an, or for giving admonition and instruction to the people to fulfil the object for which the Qur'an was revealed. In this regard, obviously nobody can have the doubt that, God forbid, he fabricated these things from his own mind. In these matters, his position, in fact, was of the official interpreter of the Qur'an and of Allah's authorised representative. Although these things were not revealed to him literally as the Qur'an was revealed; yet these were necessarily based on the same knowledge that he had been given by Revelation. The only difference between the Qur'an and these was that the Qur'an, both in word and in meaning, was entirely from Allah, and in these other things the meanings were those taught by AIIah and the words those which he himself employed to express those meanings. On the basis of this very distinction, the Qur'an has been described as wahi-jali (manifest Revelation) and the Holy Prophet's other sayings as wahi-khafi (concealed Revelation). The second kind of the words were those which the Holy Prophet spoke in connection with the struggle of raising Allah's Word and his services for establishing Islam. In this regard, he had to perform countless duties of different kinds as the leader and guide of the Muslim community. In this many a time he took counsel with his Companions as well, and followed their advice instead of his own view. On being asked he sometimes told them that he was expressing a particular view not under Allah's command but as his personal opinion, and on several occasions it so happened that he said something on the basis of his own opinion and later. an instruction came down against it from Allah. None of the things of this nature that he said or did could be based on a selfish motive. As for the question whether these sayings were based on Divine inspiration, the answer is that except for the things in regard to which he made it explicit that they were not based on Divine command, or about which he took counsel with his Companions and accepted their advice, or with regard to a thing against which AIlah sent down an instruction after he had said or done something on the basis of his personal judgment, all other things were based on concealed Revelation (wahi khafi) just like the things of the first kind. For the office of the leader and guide of the Islamic Movement and the chief of the believing community and the ruler of the Islamic State, which he held, was not self-invented or bestowed by the people, but he had been appointed to it by Allah, and whatever he said and did in carrying out the duties of this office, his position in it was of the representative of Divine, Will. In this matter, whatever he said on the basis of his personal judgment, his judgment in those matters was approved by Allah, and was, derived from the light of the knowledge which Allah had blessed him with. That is why whenever his personal judgment was even slightly turned away from Allah's pleasure, it was immediately rectified by manifest Revelation (wahi jali; ). This rectification of some of his personal judgments is itself a proof that all the rest of his religious judgments and interpretations were precisely in accordance with Divine Will. The third kind of the things were those he said concerning common matters of life as a man, which had nothing to do with the duties of Prophet hood, which he said before being appointed a Prophet as well as continued saying even after having been appointed a Prophet. About this kind of the Things it should be understood at the outset that there was no dispute with the disbelievers concerning them. They had not accused him of being a misled and misguided person because of these but because of the first two kinds of the things. These things were not disputed and therefore could not become the cause of a verse from Allah. But although they were not the subject of any dispute, yet the fact is that in this private aspect of his life also never did the Holy Prophet (upon whom be peace) utter a word that was opposed to the truth, but at alI times, under all conditions, his words and deeds remained within the bounds that Allah had prescribed for living his life as a Prophet and righteous man. Therefore, the light of Revelation shone in that sphere as well. This same thing has been reported from the Holy Prophet (upon whom be peace) in some authentic Ahadith. In Musnad Ahmad a Tradition has been related on the authority of Hadrat Abu Hurairah, saying that the Holy Prophet once said: "I never say anything but what is true and right. " A Companion said, "O Messenger of Allah, you say things sometimes in jest also.' The Holy Prophet replied: "Indeed, I never say anything but the truth. " According to Musnad Ahmad and Abu Da'ud, Hadrat `Abdullah bin `Amr bin 'As is reported to have said: "I used to write down whatever I heard from the sacred tongue of the Holy Prophet (upon whom be peace) so as to preserve it. The people of the Quraish forbade me to do this, saying: 'You arc writing down everything whereas the Holy Prophet is a man: he sometimes says things in the state of anger too'. At this I gave up writing. Afterwards when I mentioned this before the Holy Prophet, he said: 'You should continue writing: By Him in Whose hand is my life, never have I said anything but the truth'." (For a complete discussion of this question, see my book Tafhimat vol. I, Article: Prophethood and Its Injunctions).
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :4 مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے تم اس پر یہ الزام لگاتے ہو کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گیا ہے ، وہ اس نے اپنے دل سے نہیں گھڑ لی ہیں ، نہ ان کی محرک اس کی اپنی خواہش نفس ہے ، بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس پر وحی کے ذریعہ سے نازل کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں ۔ اس کا خود نبی بننے کو جی نہیں چاہا تھا کہ اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے اس نے دعوائے نبوت کر دیا ہو ، بلکہ خدا نے جب وحی کے ذریعہ سے اس کو اس منصب پر مامور کیا تب وہ تمہارے درمیان تبلیغ رسالت کے لیے اٹھا اور اس نے تم سے کہا کہ میں تمہارے لیے خدا کا نبی ہوں ۔ اسی طرح اسلام کی یہ دعوت ، توحید کی یہ تعلیم ، آخرت اور حشر و نشر اور جزائے اعمال کی یہ خبریں ، کائنات و انسان کے متعلق یہ حقائق ، اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے یہ اصول ، جو وہ پیش کر رہا ہے ، یہ سب کچھ بھی اس کا اپنا بنایا ہوا کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ خدا نے وحی کے ذریعہ سے اس کو ان باتوں کا علم عطا کیا ہے ۔ اسی طرح یہ قرآن جو وہ تمہیں سناتا ہے ، یہ بھی اس کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے ، بلکہ یہ خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعہ سے اس پر نازل ہوتا ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ جو کچھ آپ کہتے ہیں وہ ایک وحی ہے جو آپ پر نازل کی جاتی ہے ، آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والی کن کن باتوں سے متعلق ہے ؟ آیا اس کا اطلاق ان ساری باتوں پر ہوتا ہے جو آپ بولتے تھے ، یا بعض باتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض باتوں پر نہیں ہوتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس پر تو اس ارشاد کا اطلاق بدرجہ اَولیٰ ہوتا ہے ۔ رہیں وہ دوسری باتیں جو قرآن کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوتی تھیں تو وہ لا محالہ تین ہی قسموں کی ہو سکتی تھیں ۔ ایک قِسم کی باتیں وہ جو آپ تبلیغ دین اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے کرتے تھے ، یا قرآن مجید کے مضامین اس کی تعلیمات اور اس کے احکام و ہدایات کی تشریح کے طور پر کرتے تھے ، یا قرآن ہی کے مقصد و مدعا کو پورا کرنے کے لیے وعظ و نصیحت فرماتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے تھے ۔ ان کے متعلق ظاہر ہے کہ یہ شبہ کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ باتیں معاذاللہ ، آپ اپنے دل سے گھڑتے تھے ۔ ان امور میں تو آپ کی حیثیت در حقیقت قرآن کے سرکاری ترجمان ، اور اللہ تعالیٰ کے نمائندہ مجاز کی تھی ۔ یہ باتیں اگرچہ اس طرح لفظاً لفظاً آپ پر نازل نہیں کی جاتی تھیں جس طرح قرآن آپ پر نازل کیا جاتا تھا ، مگر یہ لازماً تھیں اسی علم پر مبنی جو وحی کے ذریعہ سے آپ کو دیا گیا تھا ان میں اور قرآن میں فرق صرف یہ تھا کہ قرآن کے الفاظ اور معانی سب کچھ اللہ کی طرف سے تھے ، اور ان دوسری باتوں میں معانی و مطالب وہ تھے جو اللہ نے آپ کو سکھائے تھے اور ان کو ادا آپ اپنے الفاظ میں کرتے تھے ۔ اسی فرق کی بنا پر قرآن کو وحی جَلی ، اور آپ کے ان دوسرے ارشادات کو وحی خَفِی کہا جاتا ہے ۔ دوسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور اقامت دین کی خدمات کے سلسلے میں کرتے تھے ۔ اس کام میں آپ کو مسلمانوں کی جماعت کے قائد و رہنما کی حیثیت سے مختلف نوعیت کے بے شمار فرائض انجام دینے ہوتے تھے جن میں بسا اوقات آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ بھی لیا ہے ، اپنی رائے چھوڑ کر ان کی رائے بھی مانی ہے ، ان کے دریافت کرنے پر کبھی کبھی یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ بات میں خدا کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی رائے کے طور پر کہہ رہا ہوں ، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اجتہاد سے کوئی بات کی ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف ہدایت آ گئی ہے ۔ اس نوعیت کی جتنی باتیں بھی آپ نے کی ہیں ، ان میں سے بھی کوئی ایسی نہ تھی اور قطعاً نہ ہو سکتی تھی جو خواہش نفس پر مبنی ہو ۔ رہا یہ سوال کہ کیا وہ وحی پر مبنی تھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بجز ان باتوں کے جن میں آپ نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے نہیں ہیں ، یا جن میں آپ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا ہے اور ان کی رائے قبول فرمائی ہے ، یا جن میں آپ سے کوئی قول و فعل صادر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف ہدایت نازل فرما دی ہے ، باقی تمام باتیں اسی طرح وحی خفی پر مبنی تھیں جس طرح پہلی نوعیت کی باتیں ۔ اس لیے کہ دعوت اسلامی کے قائد و رہنما اور جماعت مومنین کے سردار اور حکومت اسلامی کے فرمانروا کا جو منصب آپ کو حاصل تھا وہ آپ کا خود ساختہ یا لوگوں کا عطا کردہ نہ تھا بلکہ اس پر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے تھے ، اور اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں آپ جو کچھ کہتے اور کرتے تھے اسمیں آپ کی حیثیت مرضی الٰہی کے نمائندے کی تھی ۔ اس معاملے میں آپ نے جو باتیں اپنے اجتہاد سے کی ہیں ان میں بھی آپ کا اجتہاد اللہ کو پسند تھا اور علم کی اس روشنی سے ماخوذ تھا جو اللہ نے آپ کو دی تھی ۔ اسی لیے جہاں آپ کا اجتہاد ذرا بھی اللہ کی پسند سے ہٹا ہے وہاں فوراً وحی جلی سے اس کی اصلاح کر دی گئی ہے ۔ آپ کے بعض اجتہادات کی یہ اصلاح بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے باقی تمام اجتہادات عین مرضی الٰہی کے مطابق تھے ۔ تیسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کے عام معاملات میں کرتے تھے ، جن کا تعلق فرائض نبوت سے نہ تھا ، جو آپ نبی ہونے سے پہلے بھی کرتے تھے اور نبی ہونے کے بعد بھی کرتے رہے ۔ اس نوعیت کی باتوں کے متعلق سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے بارے میں کفار سے کوئی جھگڑا نہ تھا ۔ کفار نے ان کی بنا پر آپ کو گمراہ اور بد راہ نہیں کہا تھا بلکہ پہلی دو قِسم کی باتوں پر وہ یہ الزام لگاتے تھے ۔ اس لیے وہ سرے سے زیر بحث ہی نہ تھیں کہ اللہ تعالیٰ انکے بارے میں یہ آیت ارشاد فرماتا ۔ لیکن اس مقام پر ان کے خارج از بحث ہونے کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کوئی بات اپنی زندگی کے اس نجی پہلو میں بھی کبھی خلاف حق نہیں نکلتی تھی ، بلکہ ہر وقت ہر حال میں آپ کے اقوال و افعال ان حدود کے اندر محدود رہتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبرانہ اور متقیانہ زندگی کے لیے آپ کو بتا دی تھیں ۔ اس لیے در حقیقت وحی کا نور ان میں بھی کار فرما تھا ۔ یہی بات ہے جو بعض صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئی ہے ۔ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر حضور نے فرمایا لا اقول اِلّا حقّاً ، میں کبھی حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا ۔ کسی صحابی نے عرض کیا فانّک تُداعبُنا یا رسول اللہ ، یا رسول اللہ ، کبھی کبھی آپ ہم لوگوں سے ہنسی مذاق بھی تو کر لیتے ہیں ۔ فرمایا انی لا اقول الا حقّا ، فی الواقع میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ۔ مسند احمد اور ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنتا تھا وہ لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کر لوں ۔ قریش کے لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہنے لگے تم ہر بات لکھتے چلے جاتے ہو ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں ، کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرما دیتے ہیں ۔ اس پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا ۔ بعد میں اس بات کا ذکر میں نے حضور سے کیا تو آپ نے فرمایا : اکتب فو الذی نفسی بیدہ ما خرج منّی الّا الحق ، تم لکھے جاؤ ، اس ذات کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلی ہے ۔ ( اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب تفہیمات ، حصہ اوّل ، مضمون رسالت اور اس کے احکام ) ۔
(53:4) ان ھو : میں ان نافیہ ہے ھو ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع قرآن ہے۔ الا حرف استثناء وحی ای وحی الہی موصوف یوحی مضارع مجہول سابقہ ما ینطق عن الھویٰ کی تاکید کے لئے ہے۔ جملہ کا مطلب :۔ ما القران او الذی ینطق بہ الاوحی یوحیہ اللہ الیہ۔ قرآن یا جو ارشاد فرماتے ہیں وہ ماسوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے اور کچھ نہیں (بیضاوی) علامہ پانی پتی (رح) اس آیت کا مطلب فرماتے ہیں :۔ ان کا ارشاد خالص وحی ہے جو ان کو بھیجی جاتی ہے۔ آگے چل کر فرماتے ہیں۔ اس جملہ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو یہ ثابت کرتا ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اپنے اجتہاد سے کلام نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ ما ینطق عن الھوی کی تائید اس جملہ سے ہو رہی ہے۔ فائدہ : بعض کے نزدیک ھو کا مرجع صرف قرآن مجید ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ جو بات بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی زبان مبارک سے نکلتی ہے وہ سب وحی ہے اور وحی کی دو قسمیں ہیں :۔ (1) جب معانی اور کلمات سب منزل من اللہ ہوں اسے وحی جلی کہتے ہیں۔ جو کہ قرآن مجید کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے (اسے وحی ناطق بھی کہتے ہیں) ۔ (2) اور جب معانی کا نزول تو منجانب اللہ ہو لیکن ان کو الفاظ کا جامہ حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے خود پہنا یا ہو اسے وحی خفی یا غیر متلو کہا جاتا ہے جیسے احادیث طیبہ (ضیاء القرآن)
ف 1 چاہے وہ قرآن کی کوئی آیت ہو یا حدیث پاک 2 یعنی دین کے باب میں جو کچھ فرماتے ہیں وہ وحی کے بغیر نہیں فرماتے۔ معلوم ہوا کہ حدیث بھی قرآن کی طرح وحی ہے اور واجب الاتباع ہونے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ علماء نے قرآن کو وحی متلو اور حدیث کو وحی غیر متلو کہا ہے : والبحث یطول
6۔ خواہ الفاظ کی بھی وحی ہو جو قرآن کہلاتا ہے، خواہ صرف معانی کی جو سنت کہلاتی ہے، اور خواہ وحی جزئی ہو یا کسی قاعدہ کلیہ کی وحی ہو جس سے اجتہاد فرماتے ہیں، پس اس سے نفی اجتہاد کی نہیں ہوتی اور اصل مقصود مقام کا نفی ہے زعم کفار کی، یعنی خدا کی طرف غلط بات کی نسبت نہیں فرماتے۔
(4) ان کا ہر فرمان اور ان کا ہر ارشاد تو صرف وحی ہے جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ یعنی انسانی ہدایت کے بارے میں ان کا ہر کلام اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو وحی ان کی جانب بھیجی جاتی ہے……وہ وحی متلو یعنی قرآن ہو یا غیر متلو یعنی حدیث ہو، غرض شریعت اور دین کے بارے میں وہ کوئی بات اپنی جائو اور اپنی خواہش سے نہیں کہتے اور نہیں بولتے۔