Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 40

سورة النجم

وَ اَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی ﴿۪۴۰﴾

And that his effort is going to be seen -

اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And that his deeds will be seen. meaning, on the Day of Resurrection, وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُوْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَـلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَـدَةِ فَيُنَبِّيُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ And say: "Do deeds! Allah will see your deeds, and (so will) His Messenger and the believers. And you will be brought back to the All-Knower of the unseen and the seen. Then He will inform you of what you used to do." (9:105), Then Allah will remind you of your actions and recompense you for them in the best manner, good for good and evil for evil. Allah's statement here, ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاء الاَْوْفَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی دنیا میں اس نے اچھا یا برا جو بھی کیا، چھپ کر کیا یا اعلانیہ کیا، قیامت والے دن سامنے آجائے گا اور اس پر اسے پوری جزا دی جائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] معذور لوگوں کے متعلق اشتراکی نظریہ :۔ یعنی جو کام اس نے خود دنیوی زندگی میں سرانجام دیئے اور جن کاموں کے اثرات چھوڑے سب اس کی سعی میں داخل ہیں اور ان سب کو اعمال کی ترازو میں رکھ کر دیکھا جائے گا۔ بعض کمیونسٹ ذہن کے لوگ (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 39؀ۙ ) 53 ۔ النجم :39) اس مادی دنیا پر منطبق کرکے اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ بوڑھے اور معذور قسم کے لوگ جو کوئی محنت کر ہی نہیں سکتے ان کو مار کر ختم کردینا چاہئے تاکہ وہ معاشرہ پر معاشی بوجھ نہ بنیں۔ جب وہ کما ہی نہیں سکتے تو انہیں کچھ ملنا بھی نہیں چاہیے۔ ظاہر ہے یہ مطلب سیاق وسباق سے قطع نظر کرکے لیا گیا ہے۔ نیز یہ نظریہ اسلام کے نظام صدقات و زکوٰۃ کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام ایسے معذور اور نادار لوگوں کی بھرپور امداد کرکے انہیں زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ لہذا اشتراکیوں کا یہ نظریہ اسلامی نکتہ نگاہ سے باطل & لغو اور فساد فی الارض کے مترادف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وان سعیہٗ سوف یریٰ :” یرٰی “ ” رای یریٰ رویۃ “ (ف) سے بھی فعل مجہول ہوسکتا ہے ( اسی کی کوشش دیکھی جائے گی) اور ” اری یری اراء ۃ “ ( افعال) سے بھی ( اس کی کوشش اس کی دکھائی جائے گی) ۔ تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ بنی اسرائیل (١٣، ١٤) اور سورة ٔ کہف (٩ ٤)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَ‌ىٰ (and that his effort will soon be seen...53:40) In other words, outer actions of a person are not sufficient. Allah will take into account the real, inner motive and driving force behind them whether they were performed with the sincerity of purpose, or they were done with some ulterior motive. The Holy Prophet t is reported to have said: اِنَّمَا الاَعمَال بِالنِّیَّاتِ |"Actions shall be judged only by the intentions.|" That is, the outer aspect of actions is not sufficient. The inner aspect is also necessary. Actions must be performed purely for the good pleasure of Allah and in compliance with His command.

وَاَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى، یعنی صرف ہر شخص کی ظاہری سعی کافی نہیں، اللہ تعالیٰ کے دربار میں سعی کی اصل حقیقت بھی دیکھی جائے گی کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے کی ہے یا دوسری اغراض دنیویہ اس میں شامل ہیں، جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے انما الاعمال بالنیات، یعنی صرف صورت عمل کافی نہیں، عمل میں نیت خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور تعمیل حکم کی ہونا ضروری ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنَّ سَعْيَہٗ سَوْفَ يُرٰى۝ ٤٠ ۠ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠{ وَاَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی ۔ } ” اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب اسے دکھا دی جائے گی۔ “ سورة الزلزال میں اس مضمون کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے : { فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ۔ } ” تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ‘ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 That is, ° In the Hereafter the people's deeds shall be examined and judged in order to see what provisions they have brought with them. " As this sentence occurs immediately after the preceding sentence, it by itself indicates that the preceding sentence relates to the rewards and punishments of the Hereafter, and the view of those who present it as an economic principle relating to this world is not correct. To interpret a verse of the Qur'an in a way as is irrelevant to the context as well as clashes with the other ordinances of the Qur'an cannot be right.

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :39 یعنی آخرت میں لوگوں کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ کون کیا کر کے آیا ہے ۔ یہ فقرہ چونکہ پہلے فقرے کے معاً بعد ارشاد ہوا ہے اس لیے اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ پہلے فقرے کا تعلق آخرت کی جزا و سزا ہی سے ہے اور ان لوگوں کی بات صحیح نہیں ہے جو اسے اس دنیا کے لیے ایک معاشی اصول بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ قرآن مجید کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو سیاق و سباق کے بھی خلاف ہو ، اور قرآن کی دوسری تصریحات سے بھی متصادم ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:40) (3) وان سعیہ سوف یری اور یہ کہ بیشک انسان کی کوشش جلدی دیکھی جائے گی۔ سعیہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی سعی۔ اس کی کوشش۔ سعی یسعی اس نے ارادہ کیا۔ اس نے قصد کیا۔ وہ دوڑا۔ اس نے کوشش کی۔ اس نے نیت کی، سوف عنقریب، یری مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ وہ دیکھا جائے گا۔ یعنی اس کے عمل کا مقصد معلوم ہوجائے گا (کیونکہ اعمال کے بارآور ہونے کی اولین شرط خلوص نیت ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان ............ الاوفی (٣٥ : ١٤) ” اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی پھر اس کی پوری جزا اسے دی جائے گی “ لہٰذا کسی انسان کی سعی ، اس کے کسی عمل اور کسب کو ضائع نہ کیا جائے گا اور کوئی چیز اللہ کے علم اور اس کے ترازو سے چھوٹ نہ جائے گی۔ ہر شخص کو اس کی جدوجہد کا پورا پورا اجر دیا جائے گا نہ کمی ہوگی اور نہ ظلم ہوگا۔ یوں انفرادی ذمہ داری کا اصول طے کردیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ یقین دہانی بھی کردی جاتی ہے کہ مکمل انصاف ہوگا۔ یوں انسان کے لئے انسانی قیمت متعین ہوگی کہ وہ ایک عقلمند ، ذمہ دار ، قابل اعتماد مخلوق ہے اور خود مختار ہے۔ یہ ایک مکرم مخلوق ہے۔ اس کے لئے عمل کی فرصت فراہم ہوگی اور پھر وہ اس موقعہ پر جو عمل کرے گا اس پر اسے جزا وسزا ہوگی اور اسی جزاء سزا میں مکمل انصاف ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ مطلق انصاف ہوگا اس میں کسی کی خواہش نفس کا دخل نہ ہوگا اور نہ کسی جہالت کی وجہ سے کوئی حقیقت شمار سے رہ جائے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) اور یہ کہ آدمی کی سعی اور کمائی عنقریب دیکھی جائے گی۔