Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 43

سورة النجم

وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَضۡحَکَ وَ اَبۡکٰی ﴿ۙ۴۳﴾

And that it is He who makes [one] laugh and weep

اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And that it is He Who makes you laugh, and makes you weep. means that He created in His creatures the ability to laugh or weep and the causes for each of these opposites, وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] یعنی ہر شخص کا رنج و راحت، مسرت اور غم وغیرہ دونوں طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہ ہر شخص کی قسمت کو اتفاقاً بھی اور تدریجاً بھی بدل دینے کی قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وانہ ھو اضحک وابکی۔۔۔۔۔ اس سے پچھلی آیات میں ان معاملات کا ذکر تھا جو انسان کے اختیار میں ہیں ، اختیار کے باوجود ان میں انسان کی کوتاہی ایک مسلم امر ہے ، جیسا کہ فرمایا ( کَلاَّ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ ) (عبس : ٢٣)” ہرگز نہیں ، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا۔ “ پھر کسی کے پاس اپنے تزکیے کی کیا گنجائش ہے ؟ اب ان معاملات کا ذکر ہے جن میں انسان کا کچھ اختیار نہیں ، مثلاً ہنسنانا ، رلانا ، مارنا ، جلانا ( زندہ کرنا) ایک نطفہ سے کسی کو مرد اور کسی کو عورت بنادینا ، مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینا، غنی کردینا ، خزانے بخش دینا ، مشرکین جن ستاروں کو پوجتے ہیں ان سب کا ، خصوصاً ” شعریٰ “ کا رب ہونا اور بڑی بڑی قوت والی قوموں کو نافرمانی پر ہلاک کردینا ، یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ پھر جب انسان اس قادر مطلق کے سامنے اتنا بےبس ہے کہ اس کا رونا ، ہنسنا اور مرنا جینا بھی اس کے اختیار میں نہیں اور نہ اسے اگلے لمحے تک خبر ہے کہ اسے ہنسنا یا رونا ، جینا ہے یا مرنا ، تو وہ اپنا تزکیہ کس منہ سے کرتا ہے ؟ ٢۔ وانہ ھو اغنی واقنی۔۔۔۔ اقنی ” قنیۃ “ سے ہے جس کا معنی خزانہ ہے۔ یعنی اس نے جمع کرنے اور خزانہ بنانے کے لیے مال عطا فرمایا۔ آیت :(وانہ ھو اضحک وابکی) اور یہ آیت (وانہٗ ھو اغنی و اقنی) دونوں میں ” انہ “ کے بعد ” ھو “ ضمیر سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، یعنی وہی ہے جس نے ہنسایا اور رلایا۔۔۔۔۔ ٣۔ وانہٗ ھو رب الشعری : ہر چیز کا رب ہونے کے باوجود اس ستارے کا رب ہونے کا خاص طور پر ذکر اس لیے فرمایا کہ بعض عرب مثلاً خزاعہ وغیرہ اس کی پرستش کرتے تھے ، اس لیے فرمایا کہ تم جس ستارے کی پرست کرتے ہو تمہاری قسمتیں اس کے اختیار میں نہیں ، وہ تو خود اپنی قسمت کا مالک نہیں ، بلکہ اس کا رب بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ (and that He is the One who makes [ one ] laugh and makes [ him ] weep,...53:43) Mankind experiences happiness and grief, and consequently laughing and weeping. Man assigns this to the secondary causes [ which refer to every existent thing in this universe, and that is where he ends the matter. If we analyze carefully and profoundly, the whole system of cause and effect ends with Allah, the Primary and Supreme Cause. No secondary cause makes anyone happy or sad, nor does it make him to laugh or weep. Both of these things are created by Allah. He created the series of secondary causes and effects in our finite world. But as the Primary and Supreme Cause, He can at any moment make the laughing person weep, and make the weeping person laugh. How well it has been versified! بگوش گُل چہ سخن گفتہ کن خندان ست بعند لیب چہ فرسودہ کہ نالان ست What have You whispered to the ear of a flower (0 Allah) whereby it is smiling? And what have You said to the nightingale whereby it is weeping all the times?

وَاَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَاَبْكٰى، یعنی نوع انسان میں خوشی اور غم اور اس کے نتیجہ میں ہنسنے اور رونے کا سلسلہ ہر شخص دیکھتا ہے اور ان دونوں چیزوں کو ان کے ظاہری طور پر پیش آنے والے اسباب کی طرف منسوب کر کے معاملہ ختم کردیتا ہے، یہاں غور و فکر کی جگہ ہے، گہری نظر سے جو دیکھے گا کہ کسی کی خوشی یا غم اور ہنسنا یا رونا خود اس کے یا کسی دوسرے کے قبضہ میں نہیں، یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، وہ اسباب کو پیدا کرتا ہے وہی اسباب میں تاثیر دیتا ہے وہ جب چاہتا ہے تو رونے والوں کو ایک لمحہ میں ہنسا دیتا ہے، اور ہنسنے والوں کو ایک منٹ میں رلا دیتا ہے، ولنعم ما قیل بگوش گل چہ سخن گفتہ کہ خندان ست بعندلیب چہ فرمودہ کہ نالان ست

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنَّہٗ ہُوَاَضْحَكَ وَاَبْكٰى۝ ٤٣ ۙ ضحك الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل، ( ض ح ک ) الضحک ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے بكي بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] ( ب ک ی ) بکی یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣۔ ٤٤) اور وہی اہل جنت کو ایسی نعمتیں دیتا ہے جس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور وہی دوزخیوں کو ایسی ذلت دیتا ہے جو ان کے رنج و غم کا باعث ہوتی ہے اور یہ کہ وہی دنیا میں مارتا ہے اور آخرت میں جلاتا ہے یا یہ کہ آباء کو مارتا ہے اور اولاد کو زندہ کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣{ وَاَنَّـہٗ ہُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی ۔ } ” اور یہ کہ وہی ہے جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے۔ “ یعنی اچھے برے حالات ‘ خوشی ‘ غم ‘ تکلیف ‘ بیماری سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 That is, 'AIIah provides the means both for joy and for grief. He controls good and iII Iuck. There is no one else in the Universe, who may have anything to do with making or marring of destinies. "

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :40 یعنی خوشی اور غم ، دونوں کے اسباب اسی کی طرف سے ہیں ۔ اچھی اور بری قسمت کا سر رشتہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ کسی کو اگر راحت و مسرت نصیب ہوئی ہے تو اسی کے دینے سے ہوئی ہے ۔ اور کسی کو مصائب و آلام سے سابقہ پیش آیا ہے تو اسی کی مشیت سے پیش آیا ہے ۔ کوئی دوسری ہستی اس کائنات میں ایسی نہیں ہے جو قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے میں کسی قسم کا دخل رکھتی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:43) (5) اور یہ کہ بیشک وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے خوشیوں اور مسرتوں کو دے کر ہنسانا اور غم و اندوہ میں مبتلا کرکے رلانا اسی کے بس میں ہے۔ اضحک ماضی (بمعنی مستقبل) واحد مذکر غائب۔ اس نے ہنسایا، یا وہ ہنساتا ہے۔ اضحاک (افعال) مصدر سے۔ اور ابکی ماضی بمعنی مستقبل صیغہ واحد مذکر غائب ۔ ابکار (افعال) مصدر سے اس نے رلایا۔ وہ رلاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی راحت ہو یا مصیبت، خوشی ہو یا غم لذت ہو یا تکلیف دونوں کا خالق اور مسبب الاسباب وہی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانہ ............ وابکی (٣٥ : ٣٤) ” اور یہ کہ اس نے ہنسایا اور اسی نے رلایا “ اس آیت کے ضمن میں بہت ہی بڑے حقائق آتے ہیں اور اس آیت میں حکمت و دانش کے کئی رنگ ہیں کئی تصاویر ہیں۔ پہلا معنی تو یہ ہے کہ اللہ نے انسان کے اندر ہنسنے اور رونے کی صلاحیت رکھی۔ یہ دونوں صفات اسی انسان کی تخلیق کے رازوں میں سے راز ہیں۔ انسان کو معلوم نہیں کہ وہ کس طرح روتا ہے اور ہنستا ہے۔ انسان کی پیچیدہ تخلیق میں کس طرح ان دونوں متضاد صفات اور تاثرات کو ایک جگہ رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کی نفسیاتی پیچیدگیاں اس کی عضویاتی پیچیدگیوں سے کم نہیں ہیں اور اس کے اندر کی عضویاتی اور نفسیاتی جذبات اور موثرات ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں اور اس کے اعضاء اور نفسیاتی عمل رونے اور ہنسنے کے عمل میں باہم اشتراک سے کام کرتے ہیں۔ اس نے ہنسایا اور رلایا یعنی بیک وقت انسان روتا بھی ہے اور ہنستا بھی اور اللہ نے اسباب فراہم کردیے اور ان دونوں صفات کو ایک پیچیدہ راز قرار دیا کہ بعض اسباب پر انسان رونے لگتا ہے اور بعض پر ہنسنے لگتا ہے۔ آج ایک چیز اسے رلاتی ہے اور کل اسی کی وجہ سے وہ ہنستا ہے اور آج وہ ہنستا ہے اور کل اسی کی وجہ سے روتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اسے جنون لاحق ہوتا ہے نہ وہ بھول جاتا ہے بلکہ نفسیاتی حالات ایسے ہوتے ہیں۔ نفسیاتی حالات میں تبدیلی ہوتی ہے۔ بعض اقدار ، بعض اسباب ، بعض تقریبات اور بعض محرکات ایسے ہوتے ہیں جو کبھی رلاتے ہیں اور کبھی ہنساتے ہیں اور انسانی شعور ایک ہی حالت میں نہیں رہتا۔ یہ بھی ایک رنگ ہوتا ہے کہ ایک ہی واقعہ سے ایک فریق روتا ہے اور دوسرا اس واقعہ سے ہنستا ہے۔ ایک ہی واقعہ کا اثر دونوں پر الگ الگ ہوتا ہے۔ یہ ہوتے ہیں حالات موثرات اور کسی ایک واقعہ کے بارے میں نفسیاتی رد عمل۔ ایک ہی واقعہ پر ایک ہی شخص کبھی روتا ہے کبھی ہنستا ہے۔ آج کسی واقعہ پر وہ خوش ہے ہنستا ہے لیکن کل اسی واقعہ کے برے نتائج سامنے آتے ہیں تو روتا ہے۔ اس وقت اس کی تمنا ہوتی ہے کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو اس دنیا میں رات اور دن ہنستے ہیں اور قیامت میں روئیں گے۔ یہ ہیں مختلف نقشے ، مختلف حالات اور مختلف موسم اور اس آیت سے ہم ہزار ہا نفسیاتی کیفیات کا اخراج کرسکتے ہیں۔ یہ جس شعور کی بات ہے۔ جس قدر کوئی زیادہ نفسیاتی تجربے کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ ہر تجربے کے بعد جو نفسیاتی صورت حال پیدا ہوتی ہے اس سے انسان ہنستا ہے یا روتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ وہ چند الفاظ کے اندر ایک ایسا آئینہ پیش کرتا ہے کہ اس میں جو چاہے جہاں چاہے اپنی صورت دیکھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے ہی ہنسایا اور رلایا : ﴿وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰىۙ٠٠٤٣﴾ (اور بلاشبہ اسی نے ہنسایا اور رلایا) ہنسنا اور رونا اور اس کے اسباب سب اللہ تعالیٰ ہی پیدا فرماتا ہے۔ ﴿ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَمَاتَ وَ اَحْيَاۙ٠٠٤٤﴾ (اور بلاشبہ اسی نے موت دی اور زندہ کیا) زندگی بخشنے اور موت دینے کی صفات بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہیں اس کے علاوہ کوئی شحص کسی کو زندہ نہیں کرسکتا اور کسی کو موت نہیں دے سکتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” وانہ ھو “ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت شان اور اس کی قدرت کاملہ کا بیان ہے۔ ہر چیز اسی کے تصرف و اختیار میں اور اسی کے زیر اقتدار ہے ہنسانا اور رلانا اسی کے اختیار میں ہے جسے چاہتا ہے آرام و راحت اور خوشی عطاء کر کے ہنساتا ہے اور جسے چاہتا ہے مصائب وآلام میں مبتلا کر کے خون کے آنسو رلاتا ہے۔ موت وحیات بھی اسی کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ ” وانہ خلق الزوجین “ ” تمنیٰ “ یعنی نطفہ رحم مادہ میں ڈالا جاتا ہے۔ ای تدفع فی الرحم (روح) ۔ جب نر کا نفطہ رحم مادہ میں پہنچ جاتا ہے تو محض اپنی قدرت کاملہ سے وہ اسی نطفہ سے نر اور اسی سے مادہ کو پیدا فرما لیتا ہے۔ ” وان علیہ۔ الایۃ “ پھر قایمت کے دن دوبارہ زندہ کرنا بھی اسی کا کام ہے جس نے ایک نطفہ بےجان سے نر و مادہ کو پیدا کرلیا وہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ ” وانہ ھو اغنی واقنی “ پیدا بھی اسی نے کیا پھر زندگی میں دولت کی تقسیم بھی اسی کے ہاتھ میں ہے وہ اپنی حکمت بالغہ کے مطابق جسے چاہتا ہے غنی اور دولت مند کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے فقیر اور تنگدست کردیتا ہے۔ قالا الاخفش اقنی افقر (روح، قرطبی) ۔ قال ابن زید اغنی من شاء وافقر من شاء (قرطبی ج 17 ص 118، ابن کثیر ج 4 ص 259) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) اور یہ کہ وہی ہنساتا اور وہی رلاتا ہے۔ یعنی ہر قسم کی خوشی اور غم کا سامان اسی کے اختیار میں ہے۔