Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 55
سورة النجم
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ﴿۵۵﴾
Then which of the favors of your Lord do you doubt?
پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں جھگڑے گا؟
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ﴿۵۵﴾
Then which of the favors of your Lord do you doubt?
پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں جھگڑے گا؟
Then which of the graces of your Lord will you doubt1 meaning, `which of Allah's favors for you, O man, do you doubt,' according to Qatadah. Ibn Jurayj said that the Ayah, فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكَ تَتَمَارَى (Then which of the graces of your Lord will you doubt!), is directed towards the Prophet saying: "O Muhammad!" However, the first explanation is better, and it is the meaning that Ibn Jarir preferred.
55۔ 1 یا شک کرے گا اور ان کو جھٹلائے گا، جب کہ وہ اتنی عام اور واضح ہیں کہ ان کا انکار ممکن ہے اور نہ چھپانا ہی۔
[٣٧] ظالم قوموں کی تباہی بھی بنی نوع انسان کے لئے نعمت ہے :۔ اللہ کی بنی نوع انسان پر سب بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ ظالم اور سرکش قوموں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دے۔ تاکہ باقی لوگوں کو ان کے ظلم و ستم سے نجات ملے اور وہ بھی دنیا میں چین سے زندگی بسر کرسکیں۔ گویا سب ظالم قوموں کی تباہی بھی اللہ کی نعمتیں تھیں اور انسانیت پر احسانات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا ذکر ایک دوسرے مقام پر بڑے واشگاف الفاظ میں یوں بیان فرمایا : (وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ٢٥١۔ ) 2 ۔ البقرة :251) [٣٨] تَتَمَارٰی کے معنی شک کرنا بھی ہے اور جھگڑا کرنا بھی۔ یعنی تاریخ سے اتنی مثالیں پیش کرنے کے بعد بھی تجھے اس بات میں کچھ شک رہ جاتا ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے اکڑ دکھائی اسے آخر تباہی سے دو چار ہونا پڑا ؟ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جیسے وہ لوگ اپنے نبیوں سے جھگڑا کرتے رہے کیا تو بھی انہیں باتوں میں جھگڑا کرے گا۔
فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ” تمری یتماری تماریا “ (تفاعل) شک کرنا ۔ ” الائ “” الی “ ( جو اصل میں ” الی “ تھا) کی جمع ہے ، نعمتیں ، جیسا کہ ” معی “ کی جمع ” امعائ “ ہے ، انتڑیاں ۔ یہاں سوال ہے کہ ان اقوام کی ہلاکت کے ذکر میں کون سی نعمت بیان ہوئی ہے جس میں شک کی گنجائش ہی نہیں ۔ استاد محمد عبدہٗ لکھتے ہیں : ” سیاق کلام کی بناء پر یہاں نعمت سے مراد ظالم و سرکش قوم کی تباہی ہے ، معلوم ہوا کہ کسی ظالم و سرکش قوم کو تباہ کرنا بھی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے “ ( اشرف الحوشی) ایک جواب اس کا یہ ہے کہ ظلم اور سرکشی کے انجام سے آگاہ کردینا بھی بہت بڑا انعام ہے، جیسا کہ سورة ٔ رحمن میں مجرموں کے لیے جہنم کا عذاب بیان کرنے کے بعد فرمایا :(فبای الاء ربکما تکذبن) (الرحمن : ٤٥) ” تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے “۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ (Then, which of your Lord&s bounties would you dispute?....53:55). Tamara means to dispute and oppose. According to Ibn ` Abbas (رض) ، the verse is addressed to every human being. After seeing so many and so clear and invincible arguments in the preceding verses and the Signs in the scriptures of Musa and Ibrahim (علیہما السلام) that support and substantiate the claims of the Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the truth of his revelation, the verse says to the obstinate disbelievers: How long will you continue to deny the truth and wander in the wilderness of disbelief? The verse further makes it abundantly clear for those who think and deliberate that there should be no room for any doubt in the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، his revelation and his teachings. Having heard about the stories of destruction and punishment of past nations, this is an opportune occasion for them to straighten out. This well-timed occasion is a favour of Allah. They should take advantage of it instead of fighting and opposing it.
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكَ تَتَـمَارٰى، تماری کے معنی جھگڑا اور مخالفت کرنا ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ خطاب ہر انسان کو ہے، کہ سابقہ آیات اور صحف موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) میں آئی ہوئی آیات ربانی میں کوئی ذرا بھی غور و فکر کرے تو اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی وحی اور تعلیمات کے حق ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی اور اقوام سابقہ کی ہلاکت و عذاب کے واقعات سن کر مخالفت سے باز آجانے کا اچھا موقع ملتا ہے جو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اس کے باوجود تم اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت میں جھگڑا اور خلاف کرتے رہو گے۔
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكَ تَتَـمَارٰى ٥٥ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ الاء جمع ہے الی کی۔ جس کے معنی نعمت کے ہیں۔ الاء نعمتیں۔ احسانات۔ مری المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود/ 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة/ 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت/ 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب . ( م ر ی) المریۃ کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے
(٥٥۔ ٥٨) اے انسان تو اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرتا رہے گا کہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں رسول اکرم بھی پہلے رسولوں کی طرح جن کو ہم نے ان کی قوموں کی طرف بھیجا ایک ڈرانے والے رسول ہیں یا یہ کہ یہ بھی پہلے رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں۔ جن کے بارے میں لوح محفوظ میں یہ چیز لکھی ہوئی ہے کہ ان کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا ہے قیامت قریب آپہنچی ہے کوئی غیر اللہ اس کے قیام اور اس کے وقت کو ہٹانے والا نہیں۔
آیت ٥٥{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ۔ } ” تو تم اپنے رب کی کون کون سی قدرتوں کے بارے میں شک کرو گے ؟ “
47 According to some commentators this sentence also is a part of the resume of the Books of the Prophets Abraham and Moses, and according to others it ended with Fa ghashsha-ha ma ghashsha, and with this begins a new theme. According to the context, however, the first view seems to be preferable, for the following words "This is a warning of the warnings already given," point out that the whole preceding passage is "of the warnings already given", which had been sent down in the Books of the Prophets Abraham and Moses. 48 The word tatamara, as used in the Text, means both to doubt and to wrangle. The address is directed to every listener. To every person who may be listening to this discourse, it is being said: Even after witnessing what has been the fate in human history of denying the bounties of Allah and of wrangling with the Prophets concerning them, will you still commit the same folly? What the former peoples had doubted was whether the bounties and blessings they were enjoying in the world, had been bestowed by One God, or by other associates of His, or by no one, but had become available by themselves. On account of this they wrangled with the Prophets. The Prophets asserted that all these blessings had been granted to them by God, and by One God alone; therefore, they should be grateful to Him and should serve Him alone; but the people did not believe this and wrangled with the Prophets on this very count. Now, O man: "Don't you see in history what fate these nations met for entertaining this doubt and for their wrangling ? Will you entertain the same doubt and indulge in the same wrangling as proved disastrous for others?" In this connection, one should also bear in mind that the 'Ad and the Thamud and the people of Noah had passed long before the Prophet Abraham, and the people of Lot had met with the torment during his own lifetime. Therefore, there can be no difficulty in regarding this passage as a part of the resume of the Prophet Abraham's Books.
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :47 بعض مفسرین کے نزدیک یہ فقرہ بھی صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ کی عبادت کا ایک حصہ ہے ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ فَغَشّٰھَا مَا غَشّٰی پر وہ عبارت ختم ہو گئی ، یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ بعد کی یہ عبارت کہ یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے ، اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس سے پہلے کی تمام عبارت پچھلی تنبیہات میں سے ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں ارشاد ہوئی تھیں ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :48 اصل میں لفظ تَتَمَاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی شک کرنے کے بھی ہیں اور جھگڑنے کے بھی خطاب ہر سامع سے ہے ۔ جو شخص بھی اس کلام کو سن رہا ہو اس کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں پیغمبروں سے جھگڑا کرنے کا جو انجام انسانی تاریخ میں ہو چکا ہے ، کیا اس کے بعد بھی تو اسی حماقت کا ارتکاب کرے گا ؟ پچھلی قوموں نے یہی تو شک کیا تھا کہ جن نعمتوں سے ہم اس دنیا میں مستفید ہو رہے ہیں یہ خدائے واحد کی نعمتیں ہیں ، یا کوئی اور بھی ان کے مہیا کرنے میں شریک ہے ، یا یہ کسی کی فراہم کی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ فراہم ہو گئی ہیں ۔ اسی شک کی بنا پر انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے جھگڑا کیا تھا ۔ انبیاء ان سے کہتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں تمہیں خدا نے ، اور اکیلے ایک ہی خدا نے عطا کی ہیں ، اس لیے اسی کا تمہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اسی کی تم کو بندگی بجا لانی چاہیے ۔ مگر وہ لوگ اس کو نہیں مانتے تھے اور اسی بات پر انبیاء سے جھگڑتے تھے ۔ اب کیا تجھے تاریخ میں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ قومیں اپنے اس شک اور اس جھگڑے کا کیا انجام دیکھ چکی ہیں؟ کیا تو بھی وہی شک اور وہی جھگڑا کرے گا جو دوسروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو چکا ہے ؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح کے لوگ حضرت ابراہیم سے پہلے گزر چکے تھے اور قوم لوط خود حضرت ابراہیم کے زمانے میں مبتلائے عذاب ہوئی تھی ۔ اس لیے اس عبارت کے صحف ابراہیم کا ایک حصہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
25: یعنی اے انسان ! اللہ تعالیٰ نے تجھے ان عذابوں سے بچا کر جن نعمتوں میں رکھا ہوا ہے، پھر تیری ہدایت کے لئے یہ قرآن کریم جن مختلف طریقوں سے تجھے متنبہ کررہا ہے اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس محبت سے تجھے سمجھاکر تجھے عذاب سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں، ان عظیم نعمتوں میں سے کس کس نعمت میں شک کرے گا۔
(53:55) فبای میں ف عاطفہ سببیہ ہے۔ ای استفہامیہ انکاریہ ہے۔ کونسی، کس کس۔ الاء جمع ہے الی کی۔ جس کے معنی نعمت کے ہیں۔ الا نعمتیں۔ احسانات۔ تتماری۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ تتماری (تفعل) مصدر سے۔ تو شک کرتا ہے یا کریگا۔ تو جھٹلاتا ہے یا جھٹلائے گا۔ تو جگڑا کرتا ہے یا کرے گا۔ تتماری صیغہ واحد مذکر حاضر میں خطاب کس کو ہے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد تمام عوام الناس ہیں۔ (2) یہ خطاب ہر شخص سے ہے۔ اے سننے والے تو اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائے گا۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ آیت میں مخاطب ولید بن مغیرہ ہے (ملاحظہ ہو آیات 33 تا 37 متذکرہ الصدر) مطلب یہ کہ اے انسان ! اقوام عاد وثمود، ونوح کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک و برباد کردیا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں شک کرتے تھے۔ کہ یہ صرف اللہ رب العالمین کی عطا کردہ نہیں بلکہ ان کی عطاء میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ اسی لئے جب پیغمبران الٰہی نے ان کی اس غلط فیمی کو دور کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے پیغمبروں سے جھگڑا شروع کردیا۔ تو کیا اے سامع تو بھی اسی کوتاہ نظری کا شکار ہوگیا اور اپنے لئے وہی انجام چاہے گا جو اقوال مذکورہ بالا کا ہوا۔
ف 7 سیاق کلام کی بنا پر یہاں نعمت سے مراد ظالم و سرکش قوم کی تباہی ہے۔ معلوم ہوا کہ کہ کسی ظالم و سرکش قوم کو تباہ کرنا بھی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام ہے۔
فبای ............ تتماری (٣٥ : ٥٥) ” اپنے رب کی کن نعمتوں میں تو شک کرے گا “ کیا یہ تباہیاں اللہ کے انعامات تھے ؟ تو یہ اللہ کا فضل وکرم تھا کہ اس نے شر اور برائی کو برباد کردیا۔ حق کو باطل پر گرایا اور اس کا بھیجا نکالا اور وہ ختم ہوگیا۔ کیا بعد میں آنے والوں کے لئے اس میں عبرت نہیں ؟ وہی فضل وکرم ہے اور اس میں شک نہیں ہے اور نہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ خطاب ہر شخص کو ہے ۔ ہر دل کو ہے۔ یہ اس شخص کے لئے جو اللہ کے کاموں پر غور کرتا ہے تو اسے مصیبتوں میں بھی اللہ کا فضل وکرم نظر آتا ہے۔ انفس وآفاق کے دلائل و شواہد گنوانے کے بعد اور انسانی تاریخ کے اہم عبرت آموز واقعات کی طرف سرسری اشارہ کرنے کے بعد آخری ضرب ، عقل وخرد کے ناروں پر ، آخری مضراب لیکن ذرا سخت گویا یہ ایک سخت پکار ہے ، چلا کر کہ خطرہ قریب ہے خبردار۔
﴿ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى ٠٠٥٥﴾ (سو اے انسان تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں میں شک کرے گا) اللہ تعالیٰ نے تجھے پیدا کیا مرد اور عورت کے جوڑے بنائے ہنسایا اور رلایا، موت دی پھر زندہ فرمائے گا اس نے مال دیا ذخیرہ رکھنے کی چیزیں دیں اور سابقہ امتوں کی بربادی سے باخبر فرمایا اب بھی تو اس کی نعمتوں میں شک کرتا ہے اور عبرت حاصل نہیں کرتا۔ قال القرطبی : ای فبای نعم ربک تشک والمخاطبة للانسان المکذب۔ فائدہ : قوم عاد کی صفت بیان کرتے ہوئے ﴿الاولی﴾ فرمایا۔ صاحب روح المعانی نے ﴿الاولی﴾ کا ترجمہ القدماء کیا ہے اور یوں فرمایا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بعد چونکہ قوم عاد ہلاک ہونے میں بعد میں آنے والی امتوں سے پہلے ہلاک کی گئی اس لیے صفت الاولی لائی گئی پھر مفسر طبری سے نقل کیا ہے کہ قبائل سابقہ میں ایک دوسرا قبیلہ تھا، اسے بھی عاد کہا جاتا تھا یہ قبیلہ مکہ مکرمہ میں عمالیق کے ساتھ مقیم تھا، پھر مبرد سے نقل کیا ہے کہ عاد اولیٰ ثمود کے مقابلہ میں لایا گیا ہے کیونکہ قوم ثمود عاد اخری تھی۔
ٖ 29:۔ ” فبای آلاء۔ الایۃ “ تخویف دنیوی۔ یہ خطاب ہر سرکش اور مکذب سے ہے تو اللہ کی کونسی نعمت میں شک کرتا ہے اور اسے اللہ کی طرف سے نہیں سمجھتا اور غیر اللہ کو پکارتا ہے۔ ” ھذا نذیر۔ الایۃ “ اشارہ قرآن یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گذشتہ ڈرانے والے پیغمبروں کے قافلے کے آخری رکن ہیں۔ جس طرح گذشتہ سرکش قوموں نے اپنے اپنے زمانے کے پیغمبروں کو جھٹلایا اور تباہ و برباد ہوئیں اے مشرکین مکہ ! سن لو ! ہمارے آخری پیغمبر (علیہ السلام) کو جھٹلانے والو ! اگر تم ضد وعناد سے باز نہ آئے تو تمہارا حشر بھی انہی قوموں کا سا ہوگا۔