Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 62
سورة النجم
فَاسۡجُدُوۡا لِلّٰہِ وَ اعۡبُدُوۡا ﴿٪ٛ۶۲﴾ 7
So prostrate to Allah and worship [Him].
اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور ( اسی کی ) عبادت کرو ۔
فَاسۡجُدُوۡا لِلّٰہِ وَ اعۡبُدُوۡا ﴿٪ٛ۶۲﴾ 7
So prostrate to Allah and worship [Him].
اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور ( اسی کی ) عبادت کرو ۔
So fall you down in prostration to Allah and worship Him. meaning, with submission, sincerity, and Tawhid. Al-Bukhari recorded that Abu Ma`mar said that Abdul-Warith said that Ayyub said that Ikrimah said that, Ibn Abbas said, "The Prophet prostrated upon reciting An-Najam and the Muslims, idolators, Jinns and mankind who were present prostrated along with him." Only Muslim collected this Hadith. Imam Ahmad recorded that Al-Muttalib bin Abi Wada`ah said, "While in Makkah, the Messenger of Allah once recited Surah An-Najam, then prostrated along with all those who were with him at the time. I raised my head, however, and I refused to prostrate." Al-Muttalib had not embraced Islam yet, but ever since he became Muslim, he would never hear anyone recite this Surah until the end, without prostrating with whomever was prostrating after reciting it. An-Nasa'i also collected this Hadith in the Book of Al-Bukhari, excluding prayer in his Sunan. This is the end of the Tafsir of Surah An-Najm. All praise and thanks are due to Allah.
62۔ 1 یہ مشرکین اور مکذبین کی توبیخ کے لئے حکم دیا۔ یعنی جب ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ قرآن کو ماننے کی بجائے، اس کا مذاق و استخفاف کرتے ہیں اور ہمارے پیغمبر کے وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا ہے، تو اے مسلمانو ! تم اللہ کی بارگاہ میں جھک کر اور اس کی عبادت و اطاعت کا مظاہرہ کرکے قرآن کی تعظیم و توقیر کا اہتمام کرو۔ چناچہ اس حکم کی تعمیل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور صحابہ نے سجدہ کیا، حتی کہ اس وقت مجلس میں موجود کفار نے بھی سجدہ کیا۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔
[٤٣] مسلمانوں کے ساتھ کافروں کا بھی سجدہ ریز ہونا :۔ یہ سورت ابتدائی مکی سورتوں سے ہے اور یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی نیز یہی وہ پہلی سورت ہے جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع عام میں اور بعض روایات کے مطابق حرم میں کافروں اور مسلمانوں کے مشترکہ مجمع میں سنایا۔ قرآن کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا 62ڙ{ السجدہ }) 53 ۔ النجم :62) پڑھا تو مسلمانوں کے ساتھ کافر بھی بےاختیار سجدہ ریز ہوگئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو سجدہ والی سورت نازل ہوئی وہ سورة النجم تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورة میں سجدہ کیا اور آپ کے پیچھے جتنے لوگ بیٹھے تھے (خواہ مسلمان تھے یا مشرک) سب نے سجدہ کیا بجز ایک شخص امیہ بن خلف کے، اس نے مٹھی بھر مٹی لی (منہ سے قریب کی) پھر اس پر سجدہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے بعد یہ شخص کفر کی حالت میں (بدر کے دن) مارا گیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اسی موقعہ سے متعلق مشہور ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات پڑھیں ( اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى) 19ۙ ) 53 ۔ النجم :19-20) تو شیطان نے آپ کی آواز جیسی آواز میں آگے یہ الفاظ پڑھ دئیے۔ (تِلْکَ الغَرَانِیْقُ العُلٰی وَإنَّ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْجٰی) (یہ تینوں بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت متوقع ہے) اور بعض کے نزدیک یہ واقعہ یوں ہوا کہ جب قریشیوں نے بھی مسلمان کے ساتھ مل کر سجدہ کرلیا تو بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم سے یہ کیا حماقت سرزد ہوگئی تب انہوں نے یہ الفاظ اپنی طرف سے گھڑے اور کہہ دیا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے اور سمجھے کہ اب وہ بھی ہمارے دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے ان کے ساتھ مل کر سجدہ کیا تھا۔ یہ واقعہ جو کچھ بھی تھا، یہ خبر یا افواہ اتنی مشہور ہوئی کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں نے، جنہوں نے رجب ٥ نبوی میں ہجرت کی تھی۔ جب ایسی صلح یا سمجھوتے کی خبر سنی تو شوال ٥ نبوی میں مکہ واپس آگئے۔ مگر مکہ آکر انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو سب کچھ ایک افسانہ تھا۔ چناچہ وہ دوبارہ ہجرت کرکے حبشہ کی طرف واپس چلے گئے۔
١۔ فَاسْجُدُوْا ِﷲِ وَاعْبُدُوْا : یعنی رسول کے اس ڈرانے کا حق یہ ہے کہ تم اپنا تمام تر تکبر اور غفلت ترک کر کے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ اور اپنے بنائے ہوئے تمام شریکوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کور۔ ٢۔ یہ سورت مکہ میں نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں سے ہے اور پہلی سورت ہے جس میں سجدہ کی آیت نازل ہوئی ۔ اس کی تاثیر اور زور بیان کا یہ عالم ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے عام مجمع میں پڑھا ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ مشرکین بھی موجود تھے تو مسلمانوں کے ساتھ مشرکین بھی بےاختیار سجدے میں گرگئے۔ صحیح بخاری میں اس کے متعلق دو احادیث آئی ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتے ہیں :(ال سورة انزلت فیھا سجدۃ والنجم قال فسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و سجدہ من خلفہ ٗ الا رجلاً رایتہٗ اخذ کفا میں تراب سجدہ علیہ قرایتہٗ بعد ذک قتل کافرا و ھو امیۃ بن خلف) (بخاری ، التفسیر ، سورة النجم ، باب :( فاسجد واللہ واعبدوا : ٤٨٦٣)” پہلی سورت جس میں سجدہ کی آیت نازئی ہو ” والنجم “ تھی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ کیا اور آپ کے پیچھے جتنے لوگ تھے سب نے سجدہ کیا ، سوائے ایک آدمی کے ۔ میں نے اسے دیکھا کہ اس نے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور اس پر سجدہ کرلیا ۔ پھر میں نے بعد میں دیکھا کہ وہ کافر ہونے کی حالت میں قتل ہوا اور وہ امیہ بنی خلف تھا “۔ عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں :” سجد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالنجم وسجد معہٗ المسلمون والمشرکون والجن الانس “ ( بخاری ، التفسیر ، سورة لحم ، باب ( فاسجدواللہ واعبدوا : ٤٨٦٢)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة ٔ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں ، مشرکوں اور جن و انس نے سجدہ کیا۔ “ عبید اللہ بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے ابو واقد لیثی (رض) سے پوچھا :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید الاضحی اور عید الفطر میں کیا قرأت کرتے تھے ؟ “ انہوں نے کہا : ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں میں ” ق والقرآن المجید “ اور ” اقتریت الساعۃ واشق القمر “ کی قرأت کیا کرتے تھے۔ “ (مسلم ، صلاۃ العیدین ، باب ما یقرأ بہ فی صلاۃ العیدین : ٨٩١)
فَاسْجُدُوا لِلَّـهِ وَاعْبُدُوا۩ ﴿٦٢﴾ (Now, fall down in prostration and worship [ Allah ]... 53:62). It means that preceding verses have a lesson for everyone who considers them seriously that he should worship Allah and bow down before him in humbleness. It is recorded in Bukhari on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited this verse he prostrated, and all those around him also prostrated along with him-Muslims, pagans, Jinns and mankind. Another report from ` Abdullah Ibn Masud (رض) ، as recorded in Bukhari and Muslim, narrates that when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) finished reciting the Surah before a mixed gathering of Muslims and disbelievers, and, along with his followers, he prostrated himself on the ground, the disbelievers too prostrated, except one old Quraishi man who took a handful of soil and, having applied it on his forehead said, &This is enough for me.& ` Abdullah Ibn Masud (رض) said that he saw this man later on killed as a disbeliever. Following the example of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the Muslims were expected to prostrate. As far as the idolaters are concerned, having been profoundly impressed with the solemnity of the occasion and being overawed by the august recitation of the Qur&anic words, as well as by the Divine Majesty and Glory, might also have fallen in prostration. However, since this prostration was performed in the state of disbelief, it did not carry any reward, but it did leave a deep impression on them; and as a result of this impact, they all later on embraced the Islamic faith, except one person who died in the state of kufr, because he arrogantly refrained from performing the sajdah. Sahihain record a report from Sayyidna Zaid Ibn Thabit (رض) to the effect that he recited the entire Surah An-Najm in the presence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but he [ the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] did not perform the sajdah. It does not necessarily follow from this that the sajdah is not obligatory or compulsory. It is possible that at that particular moment, he did not have his ablution or there must have been some other legitimate reason for not performing the sajdah. In such situations, it is not obligatory to perform the sajdah forthwith. It can be delayed until the reason has ceased. And Allah, the Pure and Exalted, knows best! Surah An-Najm, through the help and grace of Allah, the Pure, the exalted, ended on Friday night 1st Rabi`-uth-Thani 1391, in one week. Allah willing, this chapter will be followed by Surah Al-Qamar. Allah grants success! Al-hamdulillah The Commentary on Surah An-Najm Ends here
فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا، یعنی پچھلی آیات جو غور کرنے والے انسان کو عبرت و موعظت کا سبق دیتی ہیں اس کا مقتضی یہ ہے کہ تم سب اللہ کے سامنے خشوع و تواضع کے ساتھ جھکو اور سجدہ کرو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ سورة نجم کی اس آیت پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ سب مسلمانوں اور مشرکوں نے اور تمام جن و انس نے سجدہ کیا اور بخاری و مسلم ہی کی دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم کی تلاوت فرمائی اور اس میں سجدہ تلاوت ادا کیا اور آپ کے ساتھ سب حاضرین مجلس (مؤمنین و مشرکین) نے سجدہ کیا بجز ایک قریشی بوڑھے کے جس نے زمین سے ایک مٹھی خاک اٹھا کر پیشانی سے لگا لی اور کہا کہ مجھے یہی کافی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ پھر میں نے اس شخص کو حالت کفر میں مقتول پڑا ہوا دیکھا ہے، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع میں مسلمانوں کو تو سجدہ کرنا تھا ہی، جو مشرکین اس وقت حاضر تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی کچھ ایسی حالت غالب کردی کہ سب سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے، گو اس وقت ان کا سجدہ بوجہ کفر کے کچھ ثواب نہ رکھتا تھا، مگر وہ بھی اپنا ایک اثر یہ چھوڑ گیا کہ بعد میں ان سب کو اسلام و ایمان کی توفیق ہوگئی، صرف ایک آدمی کفر پر مرا جس نے سجدہ سے گریز کیا تھا۔ اور صحیحین کی ایک حدیث میں جو حضرت زید بن ثابت کی روایت سے ہے یہ مذکور ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سورة نجم پوری پڑھی، مگر آپ نے سجدہ نہیں کیا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سجدہ واجب یا لازم نہیں، کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ اس وقت باوضو نہ ہوں، یا کوئی دوسرا عذر سجدہ کرنے سے مانع ہو، ایسی حالت میں فوری سجدہ کرنا ضروری نہیں، بعد میں بھی ہوسکتا ہے، واللہ سبحانہ، و تعالیٰ اعلم۔ تمت سورة النجم بعونہ وحمدہ سبحانہ و تعالیٰ لیلة الجمعة لغرة الربیع الثانی س 1391 ھ فی اسبوع واحد ویتلوہ تفسیر سورة القمر انشاء اللہ تعالیٰ وھو ولی التوفیق
فَاسْجُدُوْا لِلہِ وَاعْبُدُوْا ٦٢ ۧ۞ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللہ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔
آیت ٦٢{ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا ۔ } ” پس سجدہ کرو اللہ کے لیے اور اسی کی بندگی کرو ! “ روایات میں آتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی مرتبہ یہ سورت حرم کعبہ میں قریش کے ایک بڑے مجمع کے سامنے تلاوت فرمائی تھی۔ اس مجمع میں اہل ایمان بھی تھے اور مشرکین کے خواص و عوام بھی۔ اس کلام کی شدت تاثیر کا یہ عالم تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کی ہمت نہ ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آخری آیت تلاوت فرمانے کے بعد سجدہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسلم و کافر سبھی سجدہ میں گرگئے۔ بعد میں مشرکین کو سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم نے کیا کیا۔ آخر کار انہوں نے اپنے سجدے کے جواز میں یہ بات بتائی کہ ہم نے تو لات ‘ عزیٰ اور منات کے ذکر (آیت ١٩ اور ٢٠) کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ کلمات بھی سنے تھے : تلک الغرانِقَۃ العُلٰی ‘ وان شفَاعتُھُن لتُرٰجی (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ‘ اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے) ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کلمات سننے کے بعد ہم نے سمجھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری دیویوں کو بھی تسلیم کرلیا ہے ‘ لہٰذا اب ان کے ساتھ ہمارا جھگڑا ختم ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس پوری سورت کے سیاق وسباق میں ان فقروں کی کوئی جگہ ممکن ہی نہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین کے سجدہ میں گر جانے کا واقعہ کلام الٰہی کی غیر معمولی تاثیر اور خصوصی طور پر اس سورت کے ُ پرجلال اندازِ خطابت کے باعث پیش آیا تھا۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم کلام اللہ کے ادبی جمال ‘ اس کی فصاحت و بلاغت کی لطافتوں اور خطابت کی چاشنی کا صحیح ادراک نہیں کرسکتے۔ مگر اس کے اوّلین مخاطبین تو اہل زبان تھے۔ پھر نزول قرآن کے زمانے کے عرب معاشرے میں سخن گوئی اور سخن فہمی کا مجموعی ذوق بھی عروج پر تھا۔ وہ لوگ قرآن مجید کے ادبی و لسانی محاسن کو خوب سمجھتے تھے ‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے شعراء ‘ ادباء اور خطباء قرآن مجید کے اعجازِ بیان کے سامنے سرنگوں ہوچکے تھے۔ ظاہر ہے اچھے کلام کی تاثیر سے تو کسی کو بھی انکار نہیں۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً ) (١) (١) صحیح البخاری ‘ کتاب الادب ‘ باب ما یجوز من الشعر والرجز والحداء … وسنن الترمذی ‘ ابواب الادب ‘ باب ما جاء ان من الشعر حکمۃ۔ ” یقینا بہت سے اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں “۔ نیز فرمایا : (اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا) (٢) (٢) صحیح البخاری ‘ کتاب الطب ‘ باب ان من البیان سحراً ۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب الجمعۃ ‘ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ۔ ” یقینابہت سے خطبات جادو کی سی تاثیر رکھتے ہیں “۔ زورِ خطابت اور تاثیر کے اعتبار سے اگرچہ قرآن مجید کی ہر آیت ہی لاجواب ہے مگر سورة النجم اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ مندرجہ بالا حقائق کے تناظر میں مذکورہ واقعہ کی توجیہہ یہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کی تلاوت شروع کی تو تمام حاضرین مجمع دم بخود ہو کر سننے میں محو ہوگئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ ان کی روحوں کی گہرائیوں تک اترتا گیا۔ خصوصاً مشرکین کی کیفیت تو ایسی تھی کہ تلاوت کے اختتام تک وہ گویا مبہوت ہوچکے تھے ۔ چناچہ اختتامِ تلاوت پر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مجمع میں موجود اہل ِ ایمان سجدہ میں گئے تو { فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ } کے حکم کی تاثیر ‘ ہیبت اور جلالت کی تاب نہ لاتے ہوئے سب کے سب مشرکین بھی بےاختیار سجدے میں گرگئے ۔ گویا وہ اسی طرح سجدے میں گرا دیے گئے (واللہ اعلم ! ) جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں آئے ہوئے جادوگر سجدوں میں گرا دیے گئے تھے : { وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ ۔ } (الاعراف) ۔ واضح رہے کہ سورة الاعراف کی اس آیت میں فعل مجہول (اُ لْــقِیَ ) استعمال ہوا ہے۔ یعنی ایسے لگا جیسے انہیں کسی نے پکڑ کر سجدے میں گرا دیاہو۔
55 According to Imam Abu Hanifah, Imam Shafe`i and many other scholars it is obligatory to perform a sajdah on the recitation of this verse. Although Imam Malik himself used to perform a sajdah here (as cited by Qadi Abu Bakr ibn al-`Arabi in Ahkam al-Qur 'an), yet he held the view that it was not obligatory to perform a sajdah here, the basis of his view being this tradition of Hadrat Zaid bin Thabit: "I recited Surah an-Najm before the Holy Prophet, and he did not perfom a sajdah. ° (Bukhari, Muslim, Ahmad, Tirmidhi, Abu Da'ud, Nasa'i). But this Hadith dces not negate the incumbency of the prostration here, for it is likely that the Holy Prophet did not perform the sajdah then due to some reason but might have performed it later. Other traditions on the subject are explicit that the prostration was always performed on this verse. Hadrat `Abdullah bin Mas'ud, Ibn `Abbas and Muttalib bin Abi Wada`ah have unanimously stated that when the Holy Prophet recited this Surah for the first time in the Ka`bah, he had prostrated himself and along with him the whole assembly of the believers and the disbelievers also had fallen down prostrate. (Bukhari, Ahmad, Nasa'i) Ibn 'Umar has reported that the Holy Prophet recited Surah an-Najm in the Prayer and prostrated himself and lay long in that state. (Baihaqi, Ibn Marduyah). Saburat al- Juhani states that Hadrat 'Umar recited Surah an-Najm in the Fajr Prayer and performed a sajdah, then stood up, recited Surah al-Zilzal and performed the ruku'. (Sa'id bin Mansur). Imam Malik himself has related this act of Hadrat Umar in his Mu'watta (Bab Ma Ja `fi Sajud al-Qar en).
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :55 امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور اکثر اہل علم کے نزدیک اس آیت پر سجدہ کرنا لازم ہے ۔ امام مالک اگرچہ خود اس کی تلاوت کر کے سجدے کا التزام فرماتے تھے ( جیسا کہ قاضی ابو بکر ابن العربی نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے ) مگر ان کا مسلک یہ تھا کہ یہاں سجدہ کرنا لازم نہیں ہے ۔ ان کی اس رائے کی بنا حضرت زید بن ثابت کی یہ روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم پڑھی اور حضور نے سجدہ نہ کیا ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، ) ۔ لیکن یہ حدیث اس آیت پر سجدہ لازم ہونے کی نفی نہیں کرتی ، کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ حضور نے اس وقت کسی وجہ سے سجدہ نہ فرمایا ہو اور بعد میں کر لیا ہو ۔ دوسری روایات اس باب میں صریح ہیں کہ اس آیت پر التزاماً سجدہ کیا گیا ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، ابن عباس اور مطلب بن ابی وداعہ کی متفق علیہ روایات یہ ہیں کہ حضور نے جب پہلی مرتبہ حرم میں یہ سورت تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گر گئے ( بخاری ، احمد ، نسائی ) ابن عمر کی روایت ہے کہ حضور نے نماز میں سورہ نجم پڑھ کر سجدہ کیا اور دیر تک سجدے میں پڑے رہے ( بیہقی ، ابن مردویہ ) سبرۃ الجہنی کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فجر کی نماز میں سورہ نجم پڑھ کر سجدہ کیا اور پھر اٹھ کر سورہ زلزال پڑھی اور رکوع کیا ( سعید بن منصور ) ۔ خود امام مالک نے بھی مؤطا ، باب ماجاء فی سجود القرآن میں حضرت عمر کا یہ فعل نقل کیا ہے ۔
26: یہ سجدے کی آیت ہے، جو کوئی شخص عربی میں یہ آیت پڑھے یا سنے اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔
(53:62) فاسجدواللہ واعبدو ! ف ترتیب امر کے لئے ہے کلام ماقبل پر یہ امر ترتیب ہوا کہ تمام اہل ایمان اور اہل کفر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اس کی بندگی بجا لائیں۔ اسجدوا : فعل امر جمع مذکر حاضر، سجود (باب نصر) مصدر۔ تم سجدہ کرو۔ للہ میں لام حرف جر استحقاق کے لئے ہے۔ یا اختصاص کے لئے ہے۔ اللہ ہی کو ۔ واعبدوا : واؤ عاطفہ، اعبدوا فعل امر جمع مذکر حاضر، عبادۃ (باب نصر) مصدر۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ کا مرجع اللہ ہے ۔ محذوف ہے۔ اور اسی کی عبادت کرو۔
ف 11 اس مقام پر سجدہ کرنا مستحب ہے جیسا کہ سورة کے شروع میں بیان ہوچکا ہے۔
فاسجدواللہ واعبدوا (٣٥ : ٢٦) ع (السجدة) ” جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ “ یوں اس انداز میں یہ بلند آواز دی جاتی ہے اور ایک طویل تمہید کے بعد یہ چیخ ہے جس سے دل دہل جاتے ہیں اور سخت سے سخت اعصاب کے اندر بھی ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار نے اس کو سن کر سجدہ کرلیا۔ سجدہ ریز ہوگئے حالانکہ وہ مشرک تھے۔ وہ وحی میں شک کرتے تھے۔ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہر وقت وہ جھگڑتے رہتے تھے۔ انہوں نے ان حالات میں سجدہ کیا کہ وہ اس پوری سورت کے اندر خوفناک انجام کو سن چکے تھے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک پر سوز انداز میں تلاوت فرما رہے تھے۔ حرم میں مسلم اور مشرک سب بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے سجدہ کیا۔ مسلمانوں نے سجدہ کیا تو مشرکین بھی بےساختہ گر پڑے۔ وہ اس پر تاثیر کلام الٰہی کے مقابلے میں ٹھہر نہ سکے۔ شیطان بھی ان کو روک نہ سکا۔ جب ان پر سے یہ اثر ختم ہوا تو وہ اس اثر کو بھی بھول گئے اور اس بات کو بھی بھول گئے کہ انہوں نے سجدہ کیا ہے۔ روایات تواتر ہیں کہ اس سورت کو سن کر مشرکین نے سجدہ کیا۔ اس کے بعد لوگوں نے اس واقعہ کی تاویل اور تجزیہ اپنے اپنے خیال کے مطابق کیا ہے حالانکہ یہ عجیب واقعہ نہ تھا۔ یہ تو قرآن مجید کی تاثیر کا ایک نمونہ تھا جس کے سامنے ایک بار تو سخت سے سخت دل بھی گھائل ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ جس کے بارے میں روایات تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں ، مشرکین مکہ کے سجدے کا واقعہ ہے۔ میں بھی سمجھتا تھا کہ اس پر تبصرہ ضروری ہے اور اس کا تجزیہ کرنا چاہئے لیکن اس کے بعد مجھے اس واقعہ کا ایک شعوری تجربہ بھی ہوا اور میں نے اپنے دل میں اس پر غور کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ اس کا اصل سبب کیا تھا۔ اور میں نے اس سے قبل یہ ذیلی روایات پڑھ رکھی تھیں جو ” حدیث غرانیق “ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حدیث ابن سعد نے طبقات میں ، ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں اور بعض مفسرین نے آیت ٢٢ : ٢٥ کی تفسیر میں نقل کی ہے۔ وما ارسلنا ............ حکیم (٢٢ : ٢٥) ” اے نبی تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول بھیجا ہے نہ نبی کہ جب اس نے تمنا کی شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہوگیا۔ اس طرح شیطان جو کچھ خلل اندازیاں کرتا ہے اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور انہی آیات کو پختہ کردیتا ہے۔ اللہ علیم ہے اور حکیم ہے۔ “ ان روایات کے بارے میں علامہ ابن کثیر نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی روایت بھی سند صحیح کے ساتھ روایت نہیں ہوئی۔ ان میں سے مفصل ترین ، رسول اللہ پر افترا میں کمتریں اور خرافات میں کم سے کم آلودہ روایت ابن ابو خاتم کی روایت ہے۔ کہتے ہیں روایت بیان کی موسیٰ ابن الاموسیٰ کو فی نے ، محمد ابن اسحاق شیبی سے ، انہوں نے محمد ابن خلیج سے انہوں نے موسیٰ ابن عقیہ سے ، انہوں نے ابن شہاب سے ، وہ کہتے ہیں سورت النجم نازل ہوئی ۔ مشرکین ان دنوں کہتے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارے الٰہوں کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کردے تو ہم اسے اور اس کے ساتھیوں کو تسلیم کرلیں لیکن یہ شخص اپنے دین کے دوسرے مخالفوں کا مثلاً یہود ونصاریٰ کا ذکر ان الفاظ میں نہیں کرتا جن میں یہ ہمارے الٰہوں کا ذکر کرتا ہے۔ ہمیں تو یہ سب وشتم کرتا ہے۔ یہ وہ دور تھا کہ حضور اکرم اور آپ کے ساتھیوں کو سخت اذیتیں دی جارہی تھیں اور آپ ان کو گمراہی کی وجہ سے نہایت ہی پریشان رہتے تھے۔ تو آپ یہ تمنا کرتے تھے کہ یہ لوگ ہدایت پر آجائیں۔ جب اللہ نے سورت النجم نازل کی اور اس میں یہ آیت آئی۔ افرایت ........ تولی (٣٥ : ٣٣) واعطی ........ اکدی (٣٥ : ٤٣) تو شیطان نے ان آیات سے متصلا بعد اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کردیئے۔ انھن ............ لتریحی ” اور بیشک یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی سفارش کی توقع کی جاتی ہے۔ “ یہ شیطان نے اپنی جانب سے سجع ملایا تھا۔ یہ الفاظ مکہ میں ہر مشرک نے سن لئے اور ان کے دل میں بیٹھ گئے اور اس کی وجہ سے ان کی زبانیں خاموش ہوگئیں اور انہوں نے ان الفاظ کے آنے پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیں دیں اور یہ کہنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رجوع کرکے اپنے سابق دین پر آگیا ہے۔ جب رسول اللہ سورت کے آخر تک پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور محفل میں جو مسلم اور مشرک بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے سجدہ کرلیا۔ ولید ابن معتبرہ بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے زمین سے مٹی اٹھائی اور اس پر سجدہ کردیا۔ دونوں فریقوں نے تعجب کیا کہ حضور کے ساتھ تمام لوگ کس طرح سجدہ ریز ہوگئے۔ مسلمانوں کو تعجب یوں ہوا کہ مشرکین نے سجدہ کرلیا حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے تھے۔ بغیر ایمان وتصدیق کے سجدہ کرلیا۔ مسلمانوں نے وہ الفاظ نہ سنے تھے جو شیطان نے ادا کردیئے تھے اور جن کو مشرکین نے سن لیا تھا۔ تو مشرکین مطمئن ہوگئے کہ شیطان حضور کی تمنا میں یہ بات ڈال دی اور مشرکین کے کانوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ الفاظ حضور نے پڑھے ہیں تو انہوں نے اپنے الٰہوں کی تعظیم میں سجدہ کیا۔ یہ بات لوگوں کے اندر بہت ہی مشہور ہوگئی اور شیطان نے اسے یوں پھیلا دیا کہ حبشہ تک پہنچ گئی۔ جہاں بعض مومنین آباد تھے یعنی عثمان ابن مفعون اور ان کے ساتھی۔ ان کو بتایا گیا کہ اہل مکہ مسلمان ہوگئے ہیں اور انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور ان کو یہ بات بھی پہنچی کہ ولید ابن مغیرہ نے ہاتھ میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ اب مکہ میں مسلمان پر امن ہیں چناچہ حبشی مہاجرین جلدی سے لوٹے۔ اس دوران اللہ نے اس شیطانی حرکت کے (اثرات) کو منسوخ کردیا تھا اور اپنی آیات کو محکم کردیا تھا اور افترا سے بچا لیا تھا اور اللہ نے فرمایا۔ وما ارسلنا من قبلک ........ جب اللہ نے اپنا فیصلہ دیا اور شیطانی سجع کو منسوخ کردیا تو مشرکین بھی اپنی گمراہی اور دشمنی کی طرف لوٹ گئے اور انہوں نے پھر از سر نو مسلمانوں پر تشدد شروع کردیا۔ بعض روایات ایسی ہیں جن میں مذکورہ بالا عبارت (غرالفیق) کو حضور اکرم کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور یہ وجہ بیان کی ہے کہ (نعوذ باللہ) حضور چاہتے تھے کہ کسی طرح لوگ مسلمان ہوجائیں اور قریش کے ساتھ کسی طرح مصالحت ہوجائے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے پڑھتے ہی ان روایات کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کو تسلیم کرنے کے بعد عصمت انبیاء اور وحی کی حفاظت پر یقین نہیں رہ سکتا اور یہ روایات نہایت لغو ہیں اور قرآن مجید میں تحریف کے امکان کی راہ کھولتی ہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود سورت کی عبارت بھی ان الفاظ کے متحمل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے ان الفاظ کو شیطان کے الفاظ قرار دیا ہے وہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اس سورت کے الفاظ کے ساتھ ادا ہوئے ہوں اور مشرکین نے اس سے وہ تاثر لیا ہو جس کا ان روایات میں ذکر ہے کیونکہ مشرکین عرب تھے۔ وہ عربی زبان خوب سمجھتے تھے۔ جب انہوں نے (غرالفیق) والی عبارت سنی اور اس کے بعد پھر متصلا انہوں نے یہ آیت سنی۔ الکم ا ........ من سلطن (٣٥ : ٣٢) ” کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لئے ؟ یہ تو پھر بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئے۔ دراصل یہ کچھ نہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ “ کیا وہ اس عبارت کا مفہوم بھی نہ سمجھے اور اس کے بعد انہوں نے سنا۔ ان الذین ............ الحق شیئا (٣٥ : ٨٢) ” مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ فرشتوں کو دیویوں کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں حالن کہ اس معاملہ کا کوئی علم انہیں حاصل نہیں ہے۔ وہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ کام نہیں دے سکتا۔ “ اور اس سے قبل وہ یہ بھی سنتے ہیں۔ وکم ............ ویرضی (٣٥ : ٦٢) ” آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں ان کی شفاعت کچھ کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دیدے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے “ یہ مشرکین جو عرب تھے اور کلام کو اچھی طرح سمجھتے تھے وہ کس طرح رسول اللہ کے ساتھ سجدہ کرسکتے تھے کیونکہ اس صورت میں تو یہ کلام درست ہی نہیں رہتا۔ ان کے بتوں کی تعریف اور یہ کہ ان کی شفاعت قبول ہوگی۔ یہ تو تسلیم شدہ ہی نہیں رہتی۔ وہ اس قدر غبی تو تھے نہیں جس طرح یہ لوگ غبی تھے جنہوں نے یہ روایات نقل کی ہیں یا تصنیف کی ہیں جن کو آج کل مستشرقین ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں یا جہالت کی وجہ سے مطلب براری کے لئے۔ جہاں تک مشرکین کے سجدے کی بات ہے تو یہ درست ہے اور یہ کسی اور وجہ سے ہوا ہوگا۔ اس طرح مہاجرین بھی حبشہ سے کسی اور وجہ سے لوٹے ہوں گے۔ یہاں ہم مہاجرین کی واپسی کی تحقیق تو نہیں کرسکتے کہ وہ واپس آئے اور پھر دوبارہ حبشہ کو چلے گئے۔ ہاں یہاں مشرکین کے سجدے کی بات ضروری ہے۔ میں ایک عرصہ تک غور کرتا رہا کہ مشرکین نے یہ بےساختہ سجدہ کیوں کیا۔ میرے ذہن میں ایک احتمال یہ آتا ہے کہ ایسا ہوا ہوگا۔ روایات میں آتا ہے کہ مہاجرین حبشہ دو یا تین ماہ کے بعد حبشہ سے واپس آگئے تھے۔ یہ بھی محتاج تو جیہہ فعل ہے۔ بہرحال میں اس نکتے پر غور ہی کررہا تھا کہ مجھے ایک شعور اور عملی تجربے سے گزرنا پڑا جس کی طرف اس سے قبل میں نے اشارہ بھی کیا ہے ۔ ایک دفعہ ہم بعض دوستوں کے ساتھ رات کو گھوم رہے تھے کہ ہم نے قریب ہی ایک قاری کی قرات سنی۔ یہ سورت نجم پڑھ رہا تھا۔ ہم خاموش ہوگئے اور قرآن مجید سننے لگے۔ قاری کی آواز بھی بہت ہی خوبصورت تھی اور اس کی قرات بھی بہت ہی اچھی تھی۔ میں اس قاری کے ساتھ چلتا رہا۔ میرا تصور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عالم بالا کی سیر کرتا رہا۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) کی ملاقات جو ان فرشتوں کی اصل صورت میں تھی۔ یہ تجربہ بھی حضور اکرم کے لئے عجیب ہوگا۔ پھر ہم سدرة المنتہیٰ اور جنت المادی کی طرف گئے میں اور اپنے خیال اور تخیل کے ساتھ جارہا ہوں اور قاری صاحب تلاوت کررہے ہیں۔ یہ میرا سفر جاری ہے جہاں تک میرا تصور ، میرا خیال اور میرا شعور میرا ساتھ دے رہا ہے۔ اس کے بعد میرے احساسات ان تصورات پر مرکوز ہوگئے جو مشرکین فرشتوں کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کی بندگی ، ان کا خدا کی اولاد ہونا ، ان کی مونث ہونا پھر نطفے سے انسان کی تخلیق کا منظر ، ماؤں کے پیٹوں میں جنین کے مناظر اور اللہ کے علم کا احاطہ کا تصور جس قدر میرے لئے ممکن تھا۔ پھر آخری پیراگراف پڑھا گیا اور مجھ پر اثرات پے درپے تھے کہ وہ جہاں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے ایک وسیع کائنات ہے ، پھر حساب و کتاب کے مناظر ، پھر یہ منظر کہ انسان جو راہ بھی لے اس کی انتہا پر اللہ سے ملاقات ہوگی۔ اس کے بعد اس جہاں میں ہر طرف رونے والے روتے ہیں اور ساتھ ہی ہنسنے والے ہنستے ہیں۔ اربوں مخلوق زندہ ہوتی ہے تو اربوں فنا ہوتی ہے اور نطفہ یعنی مائیکرو سکوپی نقطہ کہاں سے چلتا ہے اور سفر کرتے کرتے کس طرح مذکر اور مونث کی شکل اختیار کرکے ایک قوی ہیکل انسان بن جاتا ہے پھر میرا خیال ان بستیوں میں جاتا ہے جو ہلاک کردی گئیں جو اٹھا دی گئیں اور ان پر ویرانی چھا جاتی ہے یا جو کچھ چھا جاتا ہے۔ اور پھر قاری آخری پکار تلاوت کرتا ہے۔ ھذا نذیر ............ کاشفة (٣٥ : ٨٥) ” یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے۔ آنے والی گھڑی قریب آلگی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی اس کا ہٹانے والا نہیں ہے۔ “ اور اس کے بعد آخری آواز آتی ہے اور میرا پورا بدن کانپ اٹھتا ہے اس خوفناک لاجوابی کے بعد افمن ھذا ............ سمدون (٣٥ : ١٦) ” کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم اظہار تعجب کرتے ہو ؟ ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اور گا بجا کر انہیں ٹالتے ہو۔ “ اور آخر میں جب میں نے قاری صاحب سے نا۔ فاسجدو اللہ واعبدو (٣٥ : ٢٦) (السجدة تلاوت) ” جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ۔ “ تو میرا دل کانپ اٹھا ۔ میرے اعصاب جواب دے گئے اور میری حالت ایسی ہوگئی کہ میں جسمانی اعتبار سے نڈھال ہوگیا اور میرے اوپر کپکپی طاری ہوگئی اور میرے لئے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور باوجود کوشش کے میں آنسو روک نہ سکا۔ اس وقت مجھے یقین ہوگیا کہ مشرکین مکہ نے جو بےساختہ سجدہ کیا وہ مجبور تھے کہ ایسا کریں۔ اور اس کا سبب قرآن مجید کا وہ اثر ہے جو ہر شخص پر ہوتا ہے اور کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس سورت کے اندر جو لفظی ترنم ہے اور جو معنوی سحر آفرینی ہے وہ جسم کے اندر زلزلہ پیدا کردیتی ہے۔ یہ پہلی بار نہ تھا کہ میں نے سورت نجم سنی ہو یا پڑھی ہو لیکن اس بار مجھ پر اس کا یہ اثر ہوا میرے اندر اس قدر رد عمل پیدا ہوا یہ ہے قرآن مجید کا راز۔ اس کے رد عمل میں کچھ لمحات ہوتے ہیں کہ ایک آیت یا سورت انسان سنتا ہے تو وہ فوراً لبیک کہتا ہے۔ یہ لمحات انتظار کرنے سے نہیں ملتے۔ کچھ لمحات ہوتے ہیں جن میں انسان قوت کے اصل سرچشمے سے مل جاتا ہے او اس وقت اس پر اثر ہوتا ہے اور وہ کیا سے کیا بن جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دن سامعین قرآن کو اس قسم کے لمحات نصیب ہوگئے تھے۔ پھر پڑھنے والے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ آپ نہایت گہرے خلوص سے پڑھتے تھے۔ آپ کی ذات ان حالات کے اندر خود شریک تھی جو اس سورت میں بیان ہوئیں۔ آپ کی ذات ، آپ کی تلاوت اور آپ کا خلوص اس کے اندر گھل مل گیا تھا۔ ان سب چیزوں کے اثر میں سامعین کے اعصاب جواب دے گئے اور ورہ سجدہ ریز ہوگئے اور جب آپ نے پڑھا۔ فاسجدو اللہ واعبدوا (٣٥ : ٢٦) (السجدة تلاوت) تو بےساختہ سب سجدے میں گر گئے۔ آپ بھی گر گئے ، مسلمان بھی گر گئے اور کفار بھی گر گئے۔ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ تم اپنا تجربہ اور اپنی واردات کو بیان کررہے اور تم تو مسلمان ہو۔ تم اس قرآن پر ایمان رکھتے ہو اور تمہارے دل میں قرآن کا ایک مقام واثر ہے۔ یہ مشرکین تو سرے سے مومن ہی نہ تھے اور قرآن کے منکر تھے تو انہوں نے کس طرح سجدہ کرلیا۔ لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن سے یہ شبہ دور ہوجاتا ہے ایک تو یہ کہ سورت کی تلاوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود فرما رہے تھے جنہوں نے اس قرآن کو براہ راست اس کے سرچشمے سے لیا تھا اور آپ کی زندگی قرآن سے عبارت تھی اور آپ کو قرآن کے ساتھ اس قدر لگاؤ تھا کہ اگر آپ کسی گھر سے قرآن کی آواز سنتے تو آپ کے قدم بوجھل ہوجاتے اور آپ سننے لگتے۔ اپنے گھر میں بھی اگر وہ سنتے تو درازے میں کھڑے ہوجاتے اور اندر تب جاتے جب تلاوت ختم ہوتی اور پھر اس سورت میں تو آپ کے وہ لمحات ذکر ہوئے جو آپ نے عالم بالا میں گزارے۔ روح الامین کے ساتھ گزارے اور آپ نے انہیں اپنی اصلی صورت میں دیکھا جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ایک قاری سے سن رہا تھا۔ اس لئے دونوں میں بہت بڑافرق ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان مشرکین کے دل قرآن کے عظیم تاثیرات سے کس طرح بچ سکتے تھے جبکہ وہ براہ راست حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ خدا کا کلام ہے البتہ وہ محض عناد میں مبتلا تھے اور یہ ضد اور عناد بھی مصنوعی تھے۔ آنے والے دو واقعات یہ بتائیں گے کہ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت ہی متاثر تھے۔ آپ کی روحانی اور اخلاقی قوتوں کے معترف تھے اس لئے ان کا متاثر ہوکر سجدے میں گر جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ابن عساکر نے عتبہ ابن ابواب کے حالات زندگی میں لکھا ہے محمد ابن اسحاق سے ، انہوں نے عثمان ابن عروہ سے ، انہوں نے ابن الزبیر سے ، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ہنادبن الاسود سے وہ کہتے ہیں ابولہب اور اس کے بیٹے عتبہ شام جانے کے لئے تیار ہوئے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ تیاری کی۔ ان کے بیٹے عتبہ نے کہا خدا کی قسم میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں گا اور اس کو اس کے رب کے بارے میں اذیت دوں گا۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” میں اس شخص کو تسلیم نہیں کرتا جو قریب ہوا اور لٹکا یہاں تک وہ دو کمانوں کے برابر تھا یا قریب تھا۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اے اللہ اس پر اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو مسلط فرمادے “ عتبہ واپس ہوا۔ باپ نے پوچھا کہ بیٹے تم نے اسے کیا کہا۔ اس نے واقعہ دہرایا تو اس نے پھر پوچھا کہ اس نے تمہیں کیا جواب دیا۔ تو اس نے بتایا کہ انہوں نے یہ بددعا کی کہ اے اللہ اس پر اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو مسلطً کردے تو ابولہب نے کہا بیٹا خدا کی قسم میں اس کی بددعا کے بارے میں تم سے بےفکر نہیں۔ بہرحال ہم چلے یہاں تک کہ ہم ابراہ میں اترے۔ یہ سدہ میں ہے۔ ہم ایک راہب کے گرجے میں جا کر اترے۔ اس نے کہا اہل عرب تم اس راستے سے کیوں آگئے ہو یہاں تو شیر اس طرح پھرتے ہیں جس طرح بھیڑ بکریاں پھرتی ہیں۔ ابو لہب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو میں بوڑھا ہوں اور میرا تم پر حق ہے اور اس شخص نے میرے بیٹے کے بارے میں اللہ کے ہاں بددعا کی ہے۔ میں اس سے بہت ڈرتا ہوں لہٰذا اپنے سامان کو اس گرجے میں جمع کرو اور میرے بیٹے کو سامان کے اوپر سلادو اور اس کے بعد سامان کے ارد گرد تم سوجاؤ۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ رات کو ایک شیر آیا۔ اس نے ہمارے منہ سونگھے۔ اس کو ایک شکار نہ ملا۔ یہ شیر چھلانگ لگا کر سامان کے اوپر چڑھ گیا۔ عتبہ کا منہ سونگھا اس کے بعد اسے خوب دبوچا۔ خوب دبوچا اور اس کے بعد اس کا سر پھوڑ دیا۔ ابولہب نے کہا میں نے بھی کہا تھا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے بچ نہیں سکتا۔ یہ واقعہ تو ابولہب کے ساتھ ہوا۔ کے ساتھ ہوا ، جو آپ کے شدید ترین مخالفین میں سے تھا اور مخالف ہی نہیں بلکہ مخالفین کا سرخیل تھا۔ آپ کے خلاف لوگوں کو جمع کرتا تھا۔ اور قرآن کریم میں بھی اس کے خلاف بددعا قیامت تک ثبت کردی گئی ہے۔ تبت یدا ........ مسد (٥) (١١١ : ١ تا ٥) ” ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور نامراد ہوگیا وہ ۔ اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ بار آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی جرو بھی لگائی بجھائی کرنے والی ، اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی “ اور یہ تھا اس کا حقیقی شعور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے وہ کس قدر کانپ گیا تھا اور اسے اپنے بیٹے کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تھی۔ دوسرا واقعہ عتبہ ابن ابوربیعہ کا ہے اس کو قریش نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں بھیجا کہ آپ سے بات کرے کہ اس تحریک سے باز آجائیں جس نے قریش کے اندر تفریق ڈال دی ہے اور آپ ان کے الٰہوں پر تنقید کرتے ہیں۔ قریش اس کے لئے تیار ہیں کہ اگر آپ سربراہی چاہیں ، مال چاہیں ، عورتیں چاہیں ، آپ کو دے دیں۔ جب عتبہ ابن ابو ربیعہ نے بات ختم کردی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تمہاری بات ختم ہوگئی تو اس نے کہا ہاں ختم ہوگئی تو حضور نے کہا پھر میری بات سنو ، تو اس نے کہا اچھا کرو تو آپ نے سورت تلاوت کی :۔ حم ........ یسمعون (١٤ : ٤) ” یہ خدائے رحمان ورحیم کی طرف سے نازل کردہ ایسی کتاب ہے جس کی آیت خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ عربی زبان کا قرآن ان لوگوں کے جو علم رکھتے ہیں بشارت دینے والی اور ڈرانے والی مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے مروگردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے “ آپ پڑھتے گئے یہاں تک کہ آپ نے پڑھا۔ فان ............ وثمود (١٤ : ٣١) ” اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اس طرح کے اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد وثمود پر نازل ہوا۔ “ اسی مقام پر عتبہ اٹھا اور حضور کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ بہت خوفزدہ ہوگیا اور حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اپنے بھائیوں پر رحم کرو۔ یہ قریش کے پاس واپس ہوا اور ان کے سامنے یہ پورا واقعہ بیان کیا اور ان سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بات کہتا ہے وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ اس لئے میں ڈر گیا تھا کہ تم پر عذاب نہ آجائے۔ یہ اس شخص کا حال تھا جس نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ اس کا خوف اور تاثر ظاہر ہے باوجود اس کے کہ یہ لوگ سخت ہٹ دھرمی اور ضد میں انکار پر تلے ہوئے تھے۔ یہی صورت اس وقت پیش آئی جب ان لوگوں نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ مبارک سے جب سورت نجم سنی تو وہ اس قدر متاثر ہوئے اور ایسے حال میں مبتلا ہوئے کہ وہ رک نہ سکے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوگئے کیونکہ بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ قرآن کا انسان پر زبردست اثر ہوتا ہے تو انہوں نے بےساختہ سجدہ کرلیا۔ اس میں نہ کوئی عرانیق کی بات تھی اور نہ کوئی اور بات تھی مثلاً شیطان کی دخل اندازی کی اور جو روایات بھی اس سلسلے میں ہیں وہ سب خود ساختہ ہیں۔
﴿ فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا (رح) ٠٠٦﴾ (سو اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو) ۔ یہ سورة نجم کی آخری آیت ہے مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے حقائق بیان کردیئے گئے اللہ تعالیٰ کی صفت خالیقت اور صفت علم اور صفت قدرت تمہیں بتادی گئی اور بعض اقوام سابقہ کی ہلاکت اور بربادی بیان کردی گئی اور یہ بتادیا گیا کہ قیامت آنی ہے اور ضرور آنی ہے تو ہر عقلمند کی عقل کا تقاضا یہ ہے کہ تکذیب اور انکار کو چھوڑے اور قرآن کریم کی دعوت کو تسلیم کرے، اور اپنے رب پر ایمان لائے لہٰذا تمام مخاطبین پر لازم ہے کہ اللہ ہی کے لیے سجدہ کریں اور اسی کی عبادت کریں۔ ایمان لانے کا سب سے بڑا تقاضا اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا اور اس کی عبادت کرنا ہی ہے۔ قال صاحب الروح واذا کان الامر کذلک فاسجدوا للّٰہ تعالیٰ الذی انزلہ واعبدوہ جل جلالہ بعض حضرات نے فاسجدوا کا ترجمہ اطیعوا کیا ہے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو۔ سورة النجم کی آخری آیت، آیت سجدہ ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس آیت کو پڑھ کر یا سن کر سجدہ کرنا واجب ہے۔ وقد انتھی تفسیر سورة النجم بفضل الملیک الحنان المنان والصلوٰة والسلام علی رسولہ سید الانسان والجان وعلی من تبعہ باحسان الی یوم یدخل فیہ المومنون الجنان ویجارون ویدخل الکفرة النیران
31:۔ ” فاسجدوا للہ وعبدوا۔ یہ آخر میں سورت کا خلاصہ ہے یعنی صرف اللہ ہی کو سجدہ اور صرف اسی کی عبادت کرو، مصائب و حاجات میں فرشوں لات و عزی اور منات وغیرہ کو مت پکارو اور نہ کسی کو اللہ کی بارگاہ میں شفیع قاہر سمجھو۔ فاسجدوا للہ خاصۃ واعبدوا للہ خاصۃ (الشیخ (رح) تعالی) ای اعبدوہ دون غیرہ (مظہری ج 9 ص 134) ۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین والصلوہ والسلام علی سید المرسلین وآلہ و اصحابہ اجمعین۔ سورة والنجم میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ افرایتم اللات والعزی، ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ (رکوع 1) نفی شرک فی التصرف۔ 2 ۔ ” الکم الذکر ولہ الانثی۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی “۔ نفی شفاعت قہریہ از ملائکہ علیہم السلام۔ 3 ۔ ” انھی الا اسماء سمیتموھا۔ تا۔ فللہ الاخرۃ والاولی “ نفی شرک اعتقادی و نفی شفاعت قہریہ از معبودان باطلہ۔ 4 ۔ ” وکمن من ملک فی السموات۔ تا۔ وان الظن لا یغنی من الحق شیئا “ (رکوع 2) ۔ نفی شفاعت قہریہ از ملائکہ کرام (علیہم السلام) 5 ۔ ” وانہ ھو اضحک وابکی۔ تا۔ فغشاھا ما غشی “ (رکوع 3) ۔ نفی شرک فی التصرف وبیان قدرت و تصرف و اختیار باری تعالی۔ 6 ۔ ” فاسجدوا للہ واعبدواہ “ نفی شرک ہر قسم وامر اخلاص عبادت برائے ذات حق جل شانہ۔ سورة والنجم ختم ہوئی
(62) پس اب اللہ کی جناب میں سجدہ ریز ہو اور عبادت کرو۔ سجدہ کرو یعنی اس کی اطاعت کرو اور اسی کی پرستش کیا کرو ۔ جب یہ سورت پڑھی گئی تو اس کا قدرتی اثر ایسا ہوا کہ جب اس کے ختم پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ کے ہمراہ مسلمانوں نے سجدہ کیا تو مشرکوں نے بھی سجدہ کیا البتہ ایک متعصب مشرک نے نہیں کیا بلکہ اس نے ایک خاک کی مٹھی اٹھا کر پیشانی سے لگالی۔ بہرحال یہ ایک وقت کی بات تھی اور فوری اثر کا کرشمہ تھا یا بقول حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (رح) کہ اس وقت غاشیہ الٰہی نے سب کو اس طرح گھیرا کہ کسی کو سجدہ نہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی سب نے ہی سجدہ کیا کسی نے اختیاری اور کسی نے غیر اختیاری اور بےساختہ۔ بعض مفسرین نے جو اس سجدے کے سلسلہ میں بہت سب باتیں نقل فرمائی ہیں ان کی اصل کا محققین نے انکار کیا ہے اس لئے ہم نے اسے بالکل ہی ترک کردیا۔ تم تفسیر سورة النجم