Surat ur Rehman
Surah: 55
Verse: 26
سورة الرحمن
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿۲۶﴾ۚ ۖ
Everyone upon the earth will perish,
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿۲۶﴾ۚ ۖ
Everyone upon the earth will perish,
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔
Allah is the Ever Living, Free of all Need Allah states that: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ Whatsoever is on it (the earth) will perish. Allah states that all the residents of earth will perish and die. The residents of the heavens will die, except whomever Allah wills. Only Allah's Honorable Face will remain, because our Lord, the Exalted, the Blessed, is the Ever Living Who never dies. Qatadah said, "First, Allah mentioned His creatures and then He said that all of this will perish." And in the reported supplication: `O You the Ever Living Who sustains all that exists! O You Who created the heavens and the earth without precedence. O You, Who Owns the glory and the honor, none has the right to be worshipped except You. We seek refuge with Your mercy. Grant Us success in all of our matters. Please, do not abandon us to rely on ourselves even for an instant nor on any of Your creation." Ash-Sha`bi said, "When you have recited, كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (Whatsoever is on it (the earth) will perish), do not stop, continue reading, وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَلِ وَالاِْكْرَامِ
اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب فنا فرماتا ہے کہ زمین کی کل مخلوق فنا ہونے والی ہے ایک دن آئے گا کہ اس پر کچھ نہ ہو گا کل جاندار مخلوق کو موت آ جائے گی اسی طرح کل آسمان والے بھی موت کا مزہ چکھیں گے مگر جسے اللہ چاہے صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک ہے جو موت و فوت سے پاک ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولا تو پیدائش عالم کا ذکر فرمایا پھر ان کی فنا کا بیان کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک منقول دعا میں یہ بھی ہے ( یا حی یا قیوم یا بدیع السموات والارض یا ذا الجلال والاکرام لا الہ الا انت برحمتک نستغیث اصلح لنا شاننا کلہ ولا تکلنا الی انفسنا طرفتہ عین ولا الی احد من خلقک ) یعنی اے ہمیشہ جینے اور ابدالآباد تک باقی اور تمام قائم رہنے والے اللہ اے آسمان و زمین کے ابتدا پیدا کرنے والے ۔ اے رب جلال اور بزرگی والے پروردگار تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہم تیری رحمت ہی سے استغاثہ کرتے ہیں ہمارے تمام کام تو بنا دے اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تو ہماری طرف نہ سونپ اور نہ اپنی مخلوق میں سے کسی کی طرف ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں جب تو آیت ( کل من علیھا فان ) پڑھے تو ٹھہر نہیں اور ساتھ ہی آیت ( وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27ۚ ) 55- الرحمن:27 ) پڑھ لے ۔ اس آیت کا مضمون دوسری آیت میں ان الفاظ سے ہے آیت ( كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 88ۧ ) 28- القصص:88 ) سوائے ذات باری کے ہر چیز ناپید ہونے والی ہے پھر اپنے چہرے کی تعریف میں فرماتا ہے وہ ذوالجلال ہے یعنی اس قابل ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کا جاہ و جلال مانا جائے اور اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اور اس کے فرمان کی خلاف ورزی سے رکا جائے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ 28 ) 18- الكهف:28 ) ، جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اسی کی ذات کے مرید ہیں تو انہی کے ساتھ اپنے نفس کو وابستہ رکھ اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ نیک لوگ صدقہ دیتے وقت سمجھتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے پلاتے ہیں وہ کبریائی بڑائی عظمت اور جلال والا ہے پس اس بات کو بیان فرما کر کہ تمام اہل زمین فوت ہونے میں اور پھر اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش ہونے میں برابر ہیں اور اس دن وہ بزرگی والا اللہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکم فرمائے گا ساتھ ہی فرمایا اب تم اے جن و انس رب کی کونسی نعمت کا انکار کرتے ہو ؟ پھر فرماتا ہے کہ وہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور کل مخلوق اس کی یکسر محتاج ہے سب کے سب سائل ہیں وہ غنی ہے سب فقیر ہیں اور وہ سب کے سوال پورے کرنے والا ہے ہر مخلوق اپنے حال و قال سے اپنی حاجتیں اس کی بارگاہ میں لے جاتی ہے اور ان کے پورا ہونے کا سوال کرتی ہے ۔ وہ ہر دن نئی شان میں ہے اس کی شان ہے کہ ہر پکارنے والے کو جواب دے ۔ مانگنے والے کو عطا فرمائے تنگ حالوں کو کشادگی دے مصیبت و آفات والوں کو رہائی بخشے بیماروں کو تندرستی عنایت فرمائے غم و ہم دور کرے بےقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو قبول فرما کر اسے قرار اور آرام عنایت فرمائے ۔ گنہگاروں کے واویلا پر متوجہ ہو کر خطاؤں سے درگزر فرمائے گناہوں کو بخشے زندگی وہ دے موت وہ دے تمام زمین والے کل آسمان والے اس کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے اور دامن پھیلائے ہوئے ہیں چھوٹوں کو بڑا وہ کرتا ہے قیدیوں کو رہائی وہ دیتا ہے نیک لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ان کی پکار کا مدعا ان کے شکوے شکایت کا مرجع وہی ہے غلاموں کو آزاد کرنے کی رغبت وہی دلانے والا اور ان کو اپنی طرف سے عطیہ وہی عطا فرماتا ہے یہی اس کی شان ہے ابن جریر میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو صحابہ نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ شان کیا ہے ؟ فرمایا گناہوں کا بخشنا دکھ کو دور کرنا لوگوں کو ترقی اور تنزلی پر لانا ابن ابی حاتم میں اور ابن عساکر میں بھی اسی کے ہم معنی ایک حدیث ہے ۔ صحیح بخاری میں یہ روایت معلقاً حضرت ابو الدرداء کے قول سے مروی ہے بزار میں بھی کچھ کمی کے ساتھ مرفوعًا مروی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے دونوں تختے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا علم نوری ہے اس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے ۔ ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ اسے دیکھتا ہے ہر نگاہ پر کسی کو زندگی دیتا اور مارتا اور عزت و ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے ۔
کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ :” فان “ ” فنی یقنی فنا “ (س) سے اسم فاعل ہے۔ اس سے پہلے آیت (١٠) میں زمین کا تذکرہ فرمایا ہے ، اس کے بعد زمین پر موجود چیزوں کا ذکر فرمایا ، جس میں جن و انس بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نعمت کے رنگا رنگ نمونے بھی ۔ اس کے بعد بتایا کہ ان میں سے کسی کو بھی بقاو دوام حاصل نہیں ، سب فنا ہونے والے ہیں ۔ بقاو دوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لیے ہے۔ ( دیکھئے آل عمران : ١٨٥۔ فرقان : ٥٨) آیت کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ قصص (٨٨) کی تفسیر۔
Allah is the Ever-living, Free of all Need كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (Everyone who lives on it (the earth) has to perish, and your Lord&s Countenance will remain, full of majesty, full of honour...55:26-27). The attached pronoun [ it ] refers to اَلاَرض al-ard [ the earth ] which has been explicitly mentioned antecedently in verse [ 10] وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ (And the earth is placed by Him for creatures). Furthermore, &the earth& is one of those general things that can be referred to by a pronoun even if they are not mentioned explicitly as an antecedent. Verse [ 26] means that man and jinn that dwell on the earth are subject to decay and death. Jinn and man have specifically been singled out in this verse, because in this Surah these two species of Allah&s creation are mainly addressed. This, however, does not necessarily imply that the heaven and the celestial beings are not perishable. In fact, on another occasion in the Qur&an Allah has stated in general terms: كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ (Everything is going to perish except His Face). (28:88)
خلاصہ تفسیر (جتنی نعمتیں تم لوگوں نے سنی ہیں تم کو توحید و اطاعت سے ان کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کفر معصیت سے ناشکری نہ کرنا چاہئے کیونکہ اس عالم کے فنا کے بعد ایک دوسرا عالم آنے والا ہے، جہاں ایمان و کفر پر جزا و سزا واقع ہوگی، جس کا بیان آیات آئندہ کے ضمن میں ہے، پس ارشاد ہے کہ) جتنے (جن و انس) روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجائیں گے اور (صرف) آپ کے پروردگار کی ذات جو کہ عظمت (والی) اور (باوجود عظمت کے) احسان والی ہے باقی رہ جاوے گی (چونکہ مقصود تنبیہ کرنا ثقلین یعنی جن و انس کو ہے اور وہ سب زمین پر ہیں، اس لئے فنا میں اہل ارض کا ذکر کیا گیا، اس تخصیص ذکری سے دوسری چیزوں کی فنا کی نفی لازم نہیں آتی اور اس جگہ اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں عظمت و احسان اس لئے ذکر کی گئیں کہ ایک صفت ذاتی دوسری اضافی ہے، حاصل اس کا یہ ہے کہ اکثر اہل عظمت دوسروں کے حل پر توجہ نہیں کیا کرتے، مگر حق تعالیٰ باوجود اس عظمت کے وہ اپنے بندوں پر رحمت و فضل فرماتے ہیں اور چونکہ یہ فناء عالم اور اس کے بعد جزا وسزا کی خبر دینا انسان کو دولت ایمان بخشتا ہے، اس لئے یہ مجموعہ بھی ایک بڑی نعمت ہے اس لئے فرمایا) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کی منکر ہوجاؤ گے (آگے ایک خاص طور پر اس کی عظمت و اکرام کے متعلق مضمون ہے یعنی وہ ایسا باعظمت ہے کہ) اسی سے (اپنی اپنی حاجتیں) سب آسمان و زمین والے مانگتے ہیں (زمین والوں کی حاجتیں تو ظاہر ہیں اور آسمان والے گو کھانے پینے کے محتاج نہ ہوں، لیکن رحمت و عنایت کے تو سب محتاج ہیں، آگے اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو ایک دوسرے عنوان سے بیان کیا گیا ہے) وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے (یہ مطلب نہیں کہ صدور افعال اس کے لوازم ذات سے ہے، ورنہ قدیم ہونا حادث کا لازم آئے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جتنے تصرفات عالم میں واقع ہو رہے ہیں وہ اسی کے تصرفات ہیں، جن میں اس کے انعامات و احسانات بھی داخل ہیں، جیسے ایجاد و ابقاء جو رحمت عامہ ہے اور اعطاء رزق و اولاد جو سب دنیوی رحمتیں ہیں اور ہدایت و اعطاء علم و توفیق عمل جو دینی رحمتیں ہیں پس باوجود عظمت کے ایسا اکرام و احسان فرمانا یہ بھی ایک نعمت عظیمہ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ مضمون جلال و اکرام کا بقا خالق کے متعلق فرما کر آگے پھر فنا خلق کے متعلق ارشاد ہے کہ تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ پھر وہ فنا مستمر رہے گی اور عذاب وثواب نہ ہوگا، بلکہ ہم تم کو دوبارہ زندہ کریں گے اور جزا وسزا دیں گے اسی کو اس طرح فرماتے ہیں کہ) اے جن و انس ہم عنقریب تمہارے (حساب و کتاب کے) لئے خالی ہوئے جاتے ہیں (یعنی حساب و کتاب لینے والے ہیں، مجازاً و مبالغۃً اس کو خالی ہونے سے تعبیر فرما دیا اور مبالغہ اس طرح ہے کہ انسان جب سب کاموں سے خالی ہو کر کسی طرف متوجہ ہوتا ہے تو پوری توجہ سمجھی جاتی ہے، انسانی فہم کے مطابق یہ عنوان اختیار کیا گیا، ورنہ حق تعالیٰ کی اصل شان یہ ہے کہ اس کو ایک مشغولیت کسی دوسری مشغولیت سے مانع نہیں ہوتی اور اس کی جس طرف جس وقت توجہ ہوتی ہے تام اور کامل ہی ہوتی ہے، وہاں ناقص توجہ کا احتمال ہی نہیں اور مثل سابق آگے ارشاد ہے کہ یہ حساب کتاب کی خبر دینا بھی ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے تاکید وقوع حساب کے لئے یہ بتلاتے ہیں کہ اس وقت یہ بھی احتمال نہیں کہ کوئی کہیں بچ کر نکل جائے چناچہ ارشاد ہے کہ) اے گروہ جن اور انسانوں کے اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ تو (ہم بھی دیکھیں) نکلو (مگر) بدون زور کے نہیں نکل سکتے (اور زور ہے نہیں، پس نکلنے کا وقوع بھی ممکن نہیں اور یہی حالت بعینہ قیامت میں ہوگی بلکہ وہاں تو یہاں سے بھی زیادہ عجز ہوگا، غرض بھاگ نکلنے کا احتمال نہ رہا اور یہ بات بتلا دینا بھی موجب ہدایت و نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے بوقت عذاب انسان کے عجز کا ذکر فرماتے ہیں، جیسا اوپر حساب کے وقت اس کے عاجز ہونے کا ذکر تھا، یعنی اے جن و انس کے مجرمو ! ) تم دونوں پر (قیامت کے روز) آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم (اس کو) ہٹا نہ سکو گے (یہ شعلہ اور دھواں غالباً وہ ہے جن کا ذکر سورة والمرسلٰت میں ہے اِنْـطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ الیٰ قولہ اِنَّهَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ ۔ فالظل ھود خان والشرر ھو الشواظ، واللہ اعلم، اور اس کا بتلانا بھی وجہ ذریعہ ہدایت ہونے کے ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے غرض (جب ہمارا حساب لینا اور تمہارا حساب و عقاب کے وقت عاجز ہونا معلوم ہوگیا تو اس سے قیامت کے روز حساب و عقاب کا وقوع ثابت ہوگیا، جس کا بیان یہ ہے کہ) جب (قیامت آوے گی جس میں) آسمان پھٹ جاوے گا اور ایسا سرخ ہوجاوے گا جیسے سرخ نری (یعنی چمڑا، شاید یہ رنگ اس لئے ہو کہ علامت غضب کی ہے کہ غضب میں چہرہ سرخ ہوجاتا ہے اور یہ آسمان کا پھٹنا وہ ہے جو شروع پارہ وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ میں آیا ہے، فی قولہ تعالیٰ وَيَوْمَ تَشَقَّقُ الخ اور یہ خبر دینا بھی نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ تو حساب کا وقوع اور اس کا وقت بتلایا گیا آگے کیفیت حساب و طریق فیصلہ ارشاد فرماتے ہیں یعنی جس روز یہ واقعات ارسال شواظ و نحاس و انشقاق سماء وغیرہ ہوں گے) تو اس روز (اللہ تعالیٰ کے معلوم کرنے کے لئے) کسی انسان اور جن سے اس کے جرم کے متعلق نہ پوچھا جائے گا (کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے یعنی حساب اس غرض سے نہ ہوگا بلکہ خود ان کو معلوم کرانے اور جتلانے کے لئے سوال اور حساب ہوگا لقولہ تعالیٰ فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ تو حساب کی کیفیت ہوئی کہ بطور تحقیق نہ ہوگا بلکہ بطور توبیخ ہوگا، آگے یہ بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تو تعیین جرائم و مجرمین کی معلوم ہے، اس لئے تحقیق کی ضرورت نہ ہوگی لیکن فرشتوں کو مجرمین کی تعیین کیسے ہوگی، پس ارشاد فرماتے ہیں کہ) مجرم لوگ اپنے حلیہ سے (کہ چہرہ کی سیاہی اور آنکھوں کا نیلگوں ہونا ہے، کقولہ تعالیٰ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ۔ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا) پہچانے جاویں گے سو (ان کے) سر کے بال اور پاؤں پکڑ لئے جاویں گے (اور ان کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جاوے گا، یعنی کسی کا سر کسی کی ٹانگ حسب اعمال یا کبھی سر کبھی ٹانگ بغرض اجتماع انواع عذاب و نکال اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے) سوائے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے مزید عذاب بتلاتے ہیں) یہ ہے وہ جہنم جس کو مجرم لوگ (یعنی تم) جھٹلاتے تھے وہ لوگ دوزخ کے اور گرم کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر لگاتے ہوں گے (یعنی کبھی آگ کا عذاب ہوگا کبھی کھولتے ہوئے پانی کا جس کی تحقیق سورة مومن رکوع ہشتم میں گزر چکی ہے اور یہ خبر دینا بھی نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔ معارف و مسائل كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ، ښوَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ۔ علیہا کی ضمیر ارض کی طرف راجع ہے، جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے (وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلْاَنَامِ ) اس کے علاوہ زمین ان عام اشیاء میں سے ہے جس کی طرف ضمیر راجع کرنے کے لئے پہلے مرجع کا ذکر لازم نہیں ہے، معنی اس کے یہ ہوئے کہ جو جنات اور انسان زمین پر ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، اس میں جن و انس کے ذکر کی تحضیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس سورت میں مخاطب یہی دونوں ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آسمان اور آسمان والی مخلوقات فانی نہیں ہیں کیونکہ دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے عام لفظوں میں پوری مخلوقات کا فانی ہونا بھی واضح فرما دیا ہے كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْہَا فَانٍ ٢٦ ۚ ۖ فني وممّا فاته من المواد ولم يذكرها السمین مادة فني، وهو في قوله تعالی: كُلُّ مَنْ عَلَيْها فانٍ. فنی ( باب سمع) فنی ( باب فتح) وفناء مصدر فنا ہوجانا۔ معدوم ہوجانا۔ فان اصل میں فانی تھا۔ ی پر ضمہ دشوار تھا۔ اسے گرادیا اب ی اور تنوین دو ساکن اکٹھے ہوئے۔ ی اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی۔ فان ہوگیا ۔ فنا ہوجانے والا۔ معدوم ہوجانے والا۔ فان خبر ہے کل من کی۔ فَنِيَ ، كرضِيَ وسَعَى، فَنَاءً : عُدِمَ ، وأفْناهُ غَيْرُهُ ، وـ فُلانٌ: هَرِمَ. والفانِي : الشَّيْخُ الكَبيرُ. وتَفَانَوْا : أفْنَى بَعْضُهُمْ بَعْضاً. وفِناءُ الدارِ ، ككِساءٍ : ما اتَّسَعَ من أمامِها ج : أفْنِيَةٌ وفُنِيٌّ. وفاناهُ : دَاراهُ. وأرْضٌ مَفْناةٌ: موافِقَةٌ لِنَازِلِيها . والأفانِي : نَبْتٌ ، واحِدَتُها : كَثَمَانِيةٍ.( قاموس المحیط)
(٢٦۔ ٢٨) جتنے جن و انس روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجائیں گے یا یہ کہ جو بھی کام غیر اللہ کے لیے کیا جائے گا اس کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور آپ کے رب کی ذات جو کہ عظمت وقدرت والی اور احسان اور درگزر کرنے والی ہے باقی رہ جائے گی۔ یا یہ کہ جو نیکی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا جوئی کے لیے کی جائے گی وہ باقی رہ جائے گی سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٢٦{ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ۔ } ” جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ “
25 From hero to vane 30, the jinn and the men have been informed of two realities; First, 'Neither you arc immortal nor the provisions that you arc enjoying in this world everlasting. Immortal and Everlasting is the Being of the High and Supreme God alone Whose greatness this Universe testifies, and by Whose grace and kindness you have been favoured with these bounties. Now, if some one among you behaves arrogantly, it would be due to his own meanness. If a foolish person assumes haughtiness in his tiny sphere of authority, or becomes god of a sew helpless men who fall into his hand, this farce would not last long. A godhead that lag: for a mere score or two score years in a corner of the earth whose size in this limitless Universe is not even equal to a pea seed, and then becomes a legend of the past, is not something of which one may feel proud and arrogant. " The other important truth of which both these creations have been warned is: 'None of those whom you have set up as deities and removers of hardships and fulfiller: of needs, apart from AIlah, whether they are angels or prophets or the moon and the sun, or some other creation, can fulfil any of your needs. These lulpless creatures and things themselves stand in need of Allah's help for their needs and requirements. They themselves pray to Him for help; when they are not nble to remove their own hardships how wIll they remove your hardships? Whatever Is happening In this limitless Universe, from the earth to the heavens, Is happening under rite Command of One God alone, No one else has any sham In His Godhead; no one therefore can lunfluence anyone else's destiny In any way
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :25 یہاں سے آیت 30 تک جن و انس کو دو حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے : ایک یہ کہ نہ تم خود لافانی ہو اور نہ وہ سر و سامان لازوال ہے جس سے تم اس دنیا میں متمتع ہو رہے ہو ۔ لافانی اور لازوال تو صرف اس خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے جس کی عظمت پر یہ کائنات گواہی دے رہی ہے اور جس کے کرم سے تم کو یہ کچھ نعمتیں نصیب ہوئی ہیں ۔ اب اگر تم میں سے کوئی شخص ہم چومن دیگرے نیست کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ محض اس کی کم ظرفی ہے ۔ اپنے ذرا سے دائرہ اختیار میں کوئی بے وقوف کبریائی کے ڈنکے بجا لے ، یا چند بندے جو اس کے ہتھے چڑھیں ، ان کا خدا بن بیٹھے ، تو یہ دھوکے کی ٹٹی کتنی دیر کھڑی رہ سکتی ہے ۔ کائنات کی وسعتوں میں جس زمین کی حیثیت ایک مٹر کے دانے برابر بھی نہیں ہے ، اس کے ایک کونے میں دس بیس یا پچاس ساٹھ برس جو خدائی اور کبریائی ملے اور پھر قصہ ماضی بن کر رہ جائے ، وہ آخر کیا خدائی اور کیا کبریائی ہے جس پر کوئی پھولے ۔ دوسری اہم حقیقت جس پر ان دونوں مخلوقوں کو متنبہ کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا دوسری جن ہستیوں کو بھی تم معبود و مشکل کشا اور حاجت روا بناتے ہو ، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء و اولیاء ، یا چاند اور سورج ، یا اور کسی قسم کی مخلوق ، ان میں سے کوئی تمہاری کسی حاجت کو پورا نہیں کر سکتا ۔ وہ بیچارے تو خود اپنی حاجات و ضروریات کے لیے اللہ کے محتاج ہیں ۔ اس کے ہاتھ تو خود اس کے آگے پھیلے ہوئے ہیں ۔ وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی اپنے بل بوتے پر نہیں کر سکتے تو تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے ۔ زمین سے آسمانوں تک اس ناپیدا کنار کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے ، تنہا ایک خدا کے حکم سے ہو رہا ہے ۔ کار فرمائی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ کسی معاملہ میں کسی بندے کی قسمت پر اثر انداز ہو سکے ۔
٢٦۔ ٣٠۔ یہ تو سورة دخان میں گزر چکا ہے کہ ہر شب قدر کو سال بھر کے انتظام کی لوح محفوظ سے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو نقل اتروا دیتا ہے اس کے موافق سال بھر کا انتظام دنیا کا چلتا رہتا ہے۔ اس انتظام الٰہی کے سبب سے ہر روز دنیا میں ہزاروں باتیں ایسی پیش آتی رہتی ہیں جن سے روز اللہ تعالیٰ کی ایک نئی شان اور نئی قدرت معلوم ہوتی رہتی ہے کوئی چلتا پھرتا بھلا چنگا دم بھر میں مرجاتا ہے کوئی اس طرح کی بیماری سے کہ جس سے کسی طرح بچنے کی امید نہ تھی تندرست ہوجاتا ہے کوئی امیری سے غریبی کے حال کو پہنچ اتا ہے کوئی غریب سے امیر ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری ٢ ؎‘ ابن ماجہ ‘ طبرانی وغیرہ میں مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی۔ آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کسی کا گناہ بخشتا ہے کسی کی تکلیف دور کرتا ہے کسی کو امیر کرتا ہے کسی کو غریب کرتا ہے اسی طرح سب باتیں اللہ کی شان اور قدرت کی نشانیاں ہیں۔ زمین پر اللہ تعالیٰ کے روز مرہ طرح طرح کے انتظامات جو جاری ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی شان معلوم ہوتی ہے یہاں تک زمین پر کے ان زمین کے انتظامات کی تفسیر ہوئی۔ اب اسی طرح آسمان پر ہر گھڑی فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے طرح طرح کے احکامات سے اللہ تعالیٰ کی شان معلوم ہوتی رہتی ہے چناچہ طبرانی تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ہمیشہ پچھلی رات کو اللہ تعالیٰ لوح محفوظ پر نظر ڈالتا ہے اور بہت سے حکموں کو جو لوح محفوظ میں لکھے ہیں بحال رکھتا ہے اور بہت موقوف اور منسوخ فرما دیتا ہے اور اسی کے موافق ملائکہ کو طرح طرح کے حکم اللہ تعالیٰ ہر وقت دیتا ہے جس سے ملائکہ کو طرح طرح کی اللہ کی شان اور قدرت معلوم ہوتی رہتی ہے۔ صحابہ (رض) کے اس اختلاف کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ بعض صحابہ کے نزدیک نیک بختی اور بدبختی اور موت اور حیات کے احکام میں کچھ رد و بدل نہیں ہوتا۔ لیکن حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرہ اس کے مخالف ہیں۔ اور مسند ٢ ؎ امام احمد نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں کہ صلہ رحم سے عمر بڑھ جاتی ہے دعادعا کی اور قضا وقدر کے حکم کی لڑائی ہوتی ہے اور سواء دعا کے اور کوئی چیزایسی نہیں ہے جو قضا و قدر کے حکم کو پھیر دے۔ اور ترمذی ٣ ؎ ابو داؤود نسائی ابن ماجہ دارمی کی دعا قنوت کی روایت میں یہ ہے کہ قضاء و قدر کے مضر حکم سے یا اللہ مجھ کو بچا ان سب روایتوں سے ان صابہ کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جن کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوح محفوظ کے تمام حکموں میں رد بدل فرماتا ہے کسی حکم کی کچھ خصوصیت نہیں ہے لیکن علم الٰہی میں کچھ رد و بدل نہیں ہوتا بلکہ سال بھر کے انتظام کا نوشتہ جو فرشتوں کو دیا جاتا ہے علم الٰہی کے موافق صلہ رحمی یا دعا کے سبب سے اس میں رد و بدل ہوجاتا ہے جو رد و بدل علم الٰہی کا پورا نتیجہ ہے مثلاً ایک شخص کے لوح محفوظ کے چند سال کے حسابی اتارے میں بد عمل لکھے ہیں جس سے وہ شخص بدبخت معلوم ہوتا ہے لیکن چند سال کے بعد علم الٰہی کا یہ نتیجہ لکھا ہوا ہے کہ اس شخص کا خاتمہ بخیر ہوگا اس نتیجہ کے وقت سے پہلے فرشتوں کا علم اس رد و بدل سے قاصر ہے سورة رعد میں اس کی تفصیل زیادہ گزر چکی ہے۔ (٢ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الرحمن ص ٧٢٣ ج ٢ و تفسیر الدر المنثور ص ١٤٣ ج ٦۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف باب البرو الصلۃ فصل ثانی ص ٤١٩۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی القنوت فی الوتر ص ٨٦ و ٨٧ ج ١۔ )
(55:26) کل من : کل مضاف من موصولہ مضاف الیہ۔ ہر ایک ، ہو کرئی۔ علیہا : میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع والارض وضعھا للانام میں الارض ہے۔ (آیت نمبر 10) فان۔ اسم فاعل، واحد مذکر۔ فنی (باب سمع) فنی (باب فتح) وفناء مصدر فنا ہوجانا۔ معدوم ہوجانا۔ فان اصل میں فانی تھا۔ ی پر ضمہ دشوار تھا۔ اسے گرادیا اب ی اور تنوین دو ساکن اکٹھے ہوئے۔ ی اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی۔ فان ہوگیا ۔ فنا ہوجانے والا۔ معدوم ہوجانے والا۔ فان خبر ہے کل من کی۔
ف 2 یہاں فنا ہوجانے کو نعمت قرار دیا گیا ہے اور وہ اس لحاظ سے کہ فنا ہوجانے کے بعد سب دوبارہ زندہ ہوں گے اور سب کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے۔ قرطبی
آیات ٢٦ تا ٤٥۔ اسرار ومعارف۔ ارض وسماء میں جو کچھ بھی ہے اپنی ذات میں فانی ہے اور روز قیامت فنا ہوگا ہاں بقا اور ہمیشہ کا رہنا صرف ذات باری کے لیے ہے جو بہت عظمت کا مالک ہے کہ اپنی بقا میں اور اپنی ذات وصفات میں کسی کا محتاج نہیں اور صاحب اکرام ہے کہ ساری مخلوق پہ اس کا کرم و احسان عام ہے جو ساری ہی اس کی محتاج ہے اور اس کے سہارے قائم ہے تو بھلا اس کے احسانات کیسے بھلاپاؤ گے سب کی سب مخلوق زمینوں میں ہے یا آسمانوں میں ہرگھڑی اس کے دروزاے پر دست سوال دراز کیے کھڑی ہے۔ اور سب اس ذات سے ہر شے مانگ رہے ہیں اور ہر روز ہر آن اس کی عظمت کا اظہار کئی کئی شانوں سے ہورہا ہے اور اس کی عطا بٹ رہی ہیں بھلا اس کی ان مہربانیوں کو کیسے بھول جاؤ گے۔ اور پھر اے جن وانس ! کہ تم مکلف مخلوق ہوج نہیں حساب دینا ہے تو عنقریب یہ سارانظام ختم ہوجائے گا تمہارا مانگنا اور ہماری عطا سے دار دنیا کا قیام اور یہ سب کچھ تمام ہوگاپھرہم ہوں گے اور تم ہوگے کہ تمہارے کردار اور اعمال کو پرکھاجائے گا تو جب تمہیں اس جواب دہی کے لیے بھی یقینا حاضر ہونا ہے تو اس کی عظموں کو کیونکر جھٹلاؤ گے اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ تم اس کے بنائے ہوئے نظام سے نکل جاؤ گے یابھاگ کر آسمان و زمین کی حدود سے نکل جاؤ گے توکردیکھو کہ اگر نکل بھی جاؤ تو اس کی قدرت اور اس کے قبضے سے باہر تو نہ جاؤ گے مگر تم اس حد سے بھی نہیں نکل سکتے کہ اسے عبور کرنے کو بھی وہ قوت چاہیے جو اللہ عطا کرتا ہے کہ فرشتے آتے جاتے ہیں ، آپ معراج پر تشریف لے گئے نیک ارواح کو اٹھایاجاتا ہے تو یہ سب اس کے کام ہیں کوئی از خود یانافرمانی کرکے یہ کام نہیں کرسکتا ، تو پھر اس کی کن کن نعمتوں کا انکار کیے جاؤ گے کفر اور نافرمانی کی سزا میں تو کہیں شعلے ہی شعلے اور کہیں دھواں ہی دھواں کہ بدن جلتے بھی ہوں اور دم گھٹتے کا عذاب بھی مسلط کیے جائیں گے تو بھلا اس کے انعامات کو کیوں جھٹلاتے رہو گے ایک روز آسمان پھٹ جائے گا اور سرخ رنگ کا ہوجائے گا۔ جب ایسا وقت آنے والا ہے تو تم اپنے رب کی کتنی نعمتوں کی ناشکری کرو گے کہ اس روز وہ جن وانس سے یہ پوچھنے کا محتاج نہیں کہ اس نے کون کون سا گناہ کیا وہ جانتا ہے اور نامہ اعمال بھی ساتھ ہوگا ہاں پرستش ہوگی کہ ایسا کیوں کیا اللہ کریم اس سوال سے پناہ میں رکھے اور اپنی عفو و درگزر سے نوازے۔ (آمین) بھلا تم کتنی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے جن کو مجرم ٹھہرایاجائے گا ان کے چہرے مسخ ہو کر ایسے کردیے جائیں گے کہ دوزخ میں ڈالنے والے فرشتے ہر ایک کو دیکھ کر پتہ کرلیں گے کہ اسے دوزخ کے اندر کہاں پھینکنا ہے اور وہ کسی کو بالوں سے گھسیٹے ہوئے اور کسی کو ٹانگوں سے کھینچتے ہوئے جہنم میں پھینک دیں گے تو تم اللہ کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کرتے رہو گے کہاجائے گا کہ یہی وہ دوزخ ہے اے گناہ گار تم جسکے وجود کو ماننے سے انکار کرتے تھے اور دوزخی اس میں کبھی اس کی بھڑکتی آگ میں کبھی کھولتے پانیوں میں دھکے کھاتے پھر رہے ہوں گے ۔ اے گروہ جن وانس اپنے پروردگار کے کن کن احسانوں کو فراموش کرو گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 45 فان فنا ہونے والا ۔ وجہ چہرہ، ذات۔ ذوالجلا عزت و عظمت والا۔ یسئل سوال کرتا ہے۔ شان ضروری کام، شان ۔ الثقلن دو بڑی بھاری مخلوق۔ معشر گروہ، جماعت تنفذوا تم نکل بھاگو۔ اقطار کنارے۔ سلطان طاقت و قوت شواظ شعلے نحاس دھواں لاتنصران تم بدلہ نہ لے سکو گے انشقت پھٹ پڑی وردۃ سرخ الدھان رنگا ہوا سرخ چمڑا یعرف پہچان لیا گیا۔ النواصی پیشانیاں یطرفون وہ گھو میں گے۔ حمیم کھولتا وہا۔ ان بہت کھولتا ہوا گرم پانی۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 45 اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر سب سے بڑا کرم اور نعمت یہ ہے کہ اس نے قیامت قائم ہونے سے پہلے ہی انسانوں اور جنات کو اس بات سے پوری طرح آگاہ کردیا ہے کہ اس کے بندوں نے جو بھی نیکی اور بھلائی کی ہے وہ ضائع نہ ہوگی اور جس نے برے اعمال کئے ہوں گے اس کا حساب بھ اس کے پاس موجود ہے جو قیامت کے دن اس کے سامنے رکھ دیا جائے۔ نیک اعمال پر بوہترین اجر وثواب اور برے اعمال پر سخت سزا اور عذاب دیا جائے گا۔ قیامت قائم ہونے اور موت کے فرشتوں کے آنے سے پہلے پہلے جس نے اپنے کفر و شرک اور گناہوں سے توبہ کرلی اور اللہ و رسول کے احکامات کے مطابق حسن عمل پیش کیا اس کو جنت کی ابدی راحتیں عطا کی جائیں گی لیکن اگر کسی نے اپنی روش زندگی کو نہ بدلا اور وہ اپنے کفر و شرک اور گناہوں پر اڑا رہا تو پھر اس کو جنت کی ہوا تک نہ لگے گی۔ فرمایا کہ تم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ اس دنیا میں کسی چیز کو بقا نہیں ہے۔ ہر آن ٹوٹ پھوٹ اور فنا کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک چیز آج موجود ہے جو خوب پھل پھول رہی ہے لیکن کچھ دن کے بعد ہی چیزبوسیدہ اور کمزور ہو کر ختم ہوجاتی ہے پھر کوئی نئی چیز اس کی جگہ لے لیتی ہے فرمایا کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب اس پوری کائنات کو اور اس میں بسنے والی ہر ایک مخلوق کو فنا کردیا جائے گا۔ اللہ کی ذات کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہ گی ۔ اللہ کے غضب اور جلال سے آسمان کا رنگ سرخ ہوجائے گا۔ زمین و آسمان، چاند سورج اور ستارے سب کے سب ختم ہوجائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ جس مخلوق کو چاہیں گے دوبارہ زندگی عطا فرمائیں گے۔ وہ میدان حشر قائم ہوگا جس میں اولین و آخری ساری مخلوق کو جمع کیا جائے گا۔ میزان عدل قائم کی جائے اور پھر ہر شخص کو ان اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ ایک طرف کفار و مشرکین اور اللہ کے نافرمان گناہگار لوگ ہوں گے دوسری طرف زندگی بھر نیکی، تقویٰ اور پرہیز گاری سے وقت گذارنے والے ہوں گے۔ کفار و مشرکین جب اس میدان حشر میں اللہ کے عذاب کو دیکھیں گے تو اس سے نظریں چرائیں گے۔ ایک دوسرے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کریں گے لیکن ان سے کہہ دیا جائے گا کہ تم کہیں چھپ نہ سکو گے زمین و آسمان کے کنارے بھی تمہیں پناہ نہ دیں گے۔ جہاں بھی چھپو گے اللہ کے فرشتے تمہیں سر کے بالوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اللہ کے سامنے پیش کردیں گے۔ پھر تمہارے اعمال کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا۔ ان کفار و مجرمین پر عذاب الٰہی کو دیکھ کر ایسی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ طاری ہوگی کہ ان کے چہرے سیاہ پڑجائیں گے۔ بےرونق آنکھیں نیلی ہوجائیں گی۔ پیاس کی شدت سے بوکھلا کر پانی تلاش کریں گے۔ کو کھولتا ہوا پانی ملے گا جسے وہ بےقراری سے پی جائیں گے لیکن اس کھولنے پانی کے پینے سے ان کی آنتیں بھی باہر نکل پڑیں گی۔ (یہ محجرمین اپنے اعمال کے سبب پہچان لئے جائیں گے۔ ان کو پہچاننے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ وہ جھوٹے نے معبود جن کے سہارے کی ان کو امید ہوگی وہ ان سے یہ کہہ کر دامن چھڑا لیں گے کہ الٰہی ! ان لوگوں کو ہم نے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی گمراہی کی طرف بڑی تیزی سے دوڑ دوڑ کر آیا کرتے تھے۔ اگر انہوں نے ہماری بات مال لی ہے تو تو یہ ان کی فطرت کی خرابی تھی اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ اپنے معبودوں کو پکاریں گے مگر ان کو کوئی جواب نہ ملے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کفار و مشرکین کو سر کے بالوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ گھسیٹا جائے گا اور ان کو جہنم کی اس اگٓ میں جھونک دیا جائے گا جس سے کسی حال میں چھٹکا ارا نہ مل سکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم انکار کیا کرتے تھے۔ اس کے برخلاف جو لوگ نیکی، تقویٰ ، پرہیز گاری اور بھلائی کی زنگدی گذارتے رہے ہوں گے ان کو اس دن انتہائی عزت و احترام کا اعلیٰ مقام عطا کیا جائے گا۔ فرشتے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کریں گے۔ ان کو سلام کریں گے۔ اللہ کی طرف سے سلامتی کی خوش خبریاں دیں گے ان کا حساب کتاب ہونے کے بعد ان کو جنت کی ابدی راحتوں میں داخل کردیا جائے گا۔ ان جنتوں میں ہر طرف خوشی و مسرت، عزت و سربلندی ، سرسبزی و شادابی ہوگی، بہتے ہوئے چشمے، خوبصورت باغات دودھ اور شہد کی نہریں ہوگی، حسین خوبصورت حوریں اور ہر طرح کی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ وہ بھی خواہش کریں گے ان کی دلی خواہش اور تمنا اسی وقت پوری کردی جائے گی۔ ان جنتوں میں کس طرح کی لغو، فضول، باتیں ، دشمنیاں مخالف، بغض و حسد اور کسی طرح کے گناہ کا کوئی کام نہ ہوگا ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اللہ کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے۔ کیا یہ نعمت نہیں ہے کہ کفار (مشرکین اور ظالم جہنم میں تقویٰ و پرہیز گاری کی زندگی گذارنے والے جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار ہوچکے ہوں گے اگر زمین و آسمان اور چاند سورج ستارے فنا نہ کئے جاتے تو تمہیں جنت کی یہ راحتیں کیسے نصیب ہوتیں اور وہ کفار و مشرکین جنہوں نے پوری زندگی تمہاری مخلافت اور دشمنی میں گذاری ہے ان کو سزا کے لئے ملتی کائنات میں فنا اور بقاسب اللہ کی نعمتیں ہیں جو ان نے اس نے اپنے نیک بندوں کو عطا فرمائی ہیں اور گناہگاروں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچانے کا ذریعہ بنائی ہیں۔
2۔ چونکہ مقصود تنبیہ کرنا ثقلین کو ہے اور وہ سب اہل ارض ہیں، اس لئے فنا میں اہل ارض کا ذکر کیا گیا۔ اس تخصیص ذکری سے نفی فنا کی غیر اہل ارض سے لازم نہیں آتی۔
فہم القرآن ربط کلام : بڑی بڑی نعمتوں اور پوری کائنات کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو وسیع ترین فرش کے طور پر بنایا اور بچھایا ہے۔ اس کے اوپر اور اندر بیشمار مخلوقات پیدا فرمائیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان میں کچھ مخلوقات ایسی ہیں جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ بھی کبھی فنا ہوجائیں گی۔ ان میں ایک سمندر ہے جس کے بارے میں ارضیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ آسمان تلے ایک حصہ خشکی ہے اور تین حصے سمندر ہے۔ انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اتنا بڑا سمندر کبھی خشک اور ختم ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سمندر سمیت ہر چیز فنا اور ختم ہوجائے گی۔ صرف ایک ” اللہ “ کی ذات باقی رہے گی جو بڑا ذوالجلال اور عزت و عظمت والا ہے، اسی طرح پہاڑوں کے بارے میں کوئی سوچ نہیں سکتا کہ یہ مٹ جائیں گے۔ (وَاِِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ) (التکویر : ٦) اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے۔ “ (وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ ) (القارعہ : ٥) ” اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں۔ “ یہاں زمین کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو کچھ اس کے اوپر ہے وہ سب کا سب فنا ہوجائے گا۔ دوسرے مقام پر یہ فرمایا : اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک ہوجائے گی اسی کا حکم چلتا ہے اور اس کی طرف تم پلٹ کر جاؤ گے گویا کہ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے تباہ ہوجائے گا۔ ” اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے حکمرانی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جانے والے ہو۔ “ (القصص : ٨٨) قرآن مجید نے یہ بات بڑی تفصیل کے ساتھ بتلائی اور سمجھائی ہے کہ ہر ذی روح کو موت آنی ہے اور ہر چیز نے ختم ہونا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا پھر جنوں اور انسانوں حتیٰ کہ حیوانات کو بھی رب ذوالجلال کے حضور پیش کیا جائے گا اور سب کا حساب ہوگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حیوانات کو پیدا فرما کر ان سے ایک دوسرے کا بدلہ چکایاجائے گا اور اس کے ساتھ ان کا وجود ختم کردیا جائے گا۔ جنوں اور انسانوں کو اپنے کیے کی پوری پوری جزا اور سزادینے کے لیے نیک جنوں اور انسانوں کو جنت میں اور بروں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اور موجودہ زمین و آسمانوں کو ختم کرکے نئے زمین و آسمان پیدا کیے جائیں گے۔ (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ) (ابراہیم : ٤٨) ” جس دن اس زمین کو دوسری زمین کے ساتھ بدل دیا جائے گا اور آسمان بھی تبدیل کر دئیے جائیں گے اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا اور بڑا زبر دست ہے۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم وسفاک اور نخوت و غرور رکھنے والے آج کہاں ہیں ؟ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ۔ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) (رواہ مسلم : باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ ہر چیزفنا ہوجائے گی۔ ٢۔ رب ذوالجلال کے سوا کوئی چیز نہیں بچ پائے گی۔ تفسیر بالقرآن ہر ذی روح کو موت آئے گی اور ہر چیز فنا ہوجائے گی : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : ٢٦) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے اور ہوئے۔ (الزمر : ٣٠) ٦۔ جب اللہ کا حکم کسی چیز پر آجاتا ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ (یونس : ٢٤) ٧۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٨۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔ (القصص : ٨٨)
کل من ........ والاکرام (٧٢) فبای الاء ربکما تکذبن (55: ٨٢) ” ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ پس اے جن وانس ، تم اپنے رب کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے ؟ “ اس آیت کے سایہ میں انسان کی سانس رج جاتی ہے۔ آواز دھیمی ہوجاتی ہے اور انسان کے اعضا رک جاتے ہیں۔ پوری کائنات کی ہر زندہ چیز پر سایہ چھا جاتا ہے۔ ہر قسم کی حرکت بند ہوجاتی ہے۔ زمین و آسمان کی وسعتوں پر نور ربی چھا جاتا ہے۔ انسانی نفوس اور انسانی اعضاء پر جلال ربی کا انعکاس ہوجاتا ہے۔ زمان ومکان میں اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ہوتا اور پوری کائنات پر اللہ کا جلال ووقار چھا جاتا ہے۔ انسانی تعبیر اس صورت حال کے بیان سے عاجز ہے۔ قرآن نے جو کچھ کہہ دیا اس پر اضافہ ممکن نہیں ہے۔ یہ بات فضا پر ایسی خاموشی طاری کردیتی ہے جس میں خشوع اور ذات باری تعالیٰ کا خوف ہو ، اللہ کی جلالت کا سایہ ہو اور پوری فضا سہمی سہمی ہو۔ ایسی فضا جس پر فنا طاری ہو۔ موت کا سکوت ہو۔ کسی طرف کوئی حرکت نہ ہو۔ کوئی شور وشعب نہ ہو۔ حالانکہ ابھی ابھی یہ کائنات زندہ اور متحرک تھی۔ یہ آیت دائمی بقا کی تصویر کشی بھی کرتی ہے۔ یہ دائمی بقا کی ایک تصویر انسان کو دیتی ہے حالانکہ انسان دائمی بقا کے تجربے سے واقف نہیں ہے لیکن اس آیت میں اسے نہایت ہی گہری بقا بتائی جاتی ہے۔ یعنی بقائے ذوالجلال والاکرام۔
زمین پر جو کچھ ہے سب فنا ہونے والا ہے : ﴿ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍۚۖ٠٠٢٦﴾ زمین پر جو بھی کچھ ہے انسان اور جنات اور حیوانات اور ہر نفع یا ضرر کی چیز سمندر اور خشکی، بحار اور اشجار اور پہاڑ اور ان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے سب فنا ہونے والا ہے اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے رب کی ذات باقی رہنے والی ہے اس کی ذات ذوالجلال بھی ہے اور ذوالا کرام بھی۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں : الجلال عظمة اللہ وکبریاہٴ یعنی جلال سے اللہ کی عظمت اور بڑائی مراد ہے اور الاکرام کے بارے میں لکھا ہے کہ : ای ھواھل لان یکرم عمالا یلیق بہ من الشرک یعنی اللہ تعالیٰ اسکا مستحق ہے کہ اس کا اکرام کیا جائے اور اس کی ذات گرامی کے لائق جو چیزیں نہیں ہیں مثلاً شرک اس سے اس کی تنزیہ کی جائے۔ یہ ترجمہ اور تفسیر اس صورت میں ہے کہ اکرام مصدر مبنی للمجھول لیا جائے اور بعض حضرات نے اس کو مبنی للفاعل لیا ہے اور معنی یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس صفت سے متصف ہے کہ وہ انعام فرماتے ہیں یعنی اپنی مخلوق پر رحم اور کرم فرماتے ہیں یہ معنی سورة الفجر کی آیت ﴿ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ رَبِّيْۤ اَكْرَمَنِؕ٠٠١٥﴾ سے مفہوم ہو رہا ہے۔ سورۃ الفجر کی آیت میں اکرمہ بھی فرمایا اور نعمہ بھی فرمایا جو باب تفعیل سے ہے اور سورة الاسرا میں فرمایا ﴿ وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ﴾ اس میں باب افعال سے لفظ انعام وارد ہوا ہے۔ فیض القدیر صفحہ ١٦٠: ٢ شرح الجامع الصغیر میں لکھا ہے کہ اکرام انعام سے اخص ہے کیونکہ انعام کبھی گنہگاروں پر بھی ہوتا ہے اور اکرام صرف ان لوگوں کا ہوتا ہے جن سے کبھی نافرمانی نہ ہو۔ احقر کی سمجھ میں یوں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اعتبارات سے ہر انسان مکرم ہے انسان کا وجود ہی اس کے لیے بہت بڑی چیز ہے پھر انسان کو بہت سے اکرامات سے نوازا ہے جسے : ﴿ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ﴾ میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جو بھی نعمت ملے وہ انعام تو ہے ہی اکرام بھی ہے یہ بات الگ ہے کہ انسان کفر و فسق وفجور اختیار کرکے اس نعمت کو اپنے لیے اہانت کا ذریعہ بنالے یہ دنیا کا معاملہ ہے اور آخرت میں جو بھی نعمتیں ملیں گی وہ اہل ایمان ہی کو ملیں گی وہاں اہل ایمان ہی معزز و مکرم ہوں گے کافر کو تو موت کے وقت سے ذلت گھیر لیتی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ذلیل ہی رہے گا موت کے بعد اس کے لیے نہ انعام ہے نہ اکرام وہاں کا انعام و اکرام اہل ایمان ہی کے لیے مخصوص ہے۔
ٖف 11:۔ ” کل من علیہا فان “ یہ توحید کی آٹھویں عقلی دلیل ہے۔ یہ ساری مخلوق آخر فنا ہوجائیگی صرف اللہ اپنی شان بےنیازی اور صفت فضل و انعام کے ساتھ باقی رہے گا۔ فسر بعض المحققین (الجلال) بالاستفناء المطلق و (الاکرام) بالفضل التام (روح ج 27 ص 109) ۔ جو فانی ہیں وہ کسی طرح بھی مستحق ربوبیت نہیں ہوسکتے، اس لیے صرف اللہ تعالیٰ ہی کارساز اور برکات دہندہ ہے جو سب سے بےنیاز لیکن سب کا منعم و مربی ہے جس کی نعمتیں حدو حساب سے باہر ہیں۔