Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 39

سورة الرحمن

فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُسۡئَلُ عَنۡ ذَنۡۢبِہٖۤ اِنۡسٌ وَّ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۳۹﴾

Then on that Day none will be asked about his sin among men or jinn.

اس دن کسی انسان اور کسی جن سے اس کے گناہوں کی پرسش نہ کی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So on that Day he will not be questioned about his sins, (neither) human nor Jinn. this is similar to His saying; هَـذَا يَوْمُ لاَ يَنطِقُونَ وَلاَ يُوْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ That will be a Day when they shall not speak, and they will not be permitted to put forth any excuse. (77:35-36) This is the case at the time, then all the creatures will be questioned ab... out their deeds. Allah said; فَوَرَبِّكَ لَنَسْـَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ So, by your Lord, We shall certainly call all of them to account. For all that they used to do. (15:92-93) Qatadah said, "On that they will be questioned and then their mouths will be sealed and their hands and feet will reveal what they used to do." فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی جس وقت وہ قبروں سے باہر نکلیں گے۔ ورنہ بعد میں موقف حساب میں ان سے باز پرس کی جائے گی، بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ گناہوں کی بابت نہیں پوچھا جائے گا، کیونکہ انکا تو پورا ریکارڈ فرشتوں کے پاس بھی ہوگا اور اللہ کے علم میں بھی۔ البتہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیے ؟ ، یا یہ مطلب ... ہے، ان سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ انسانی اعضا خود بول کر بتلائیں گے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] قیامت کے دن مختلف مواقع پر مجرموں سے مختلف قسم کا سلوک ہوگا۔ ایک موقع پر ان سے ٹھیک طرح باز پرس ہوگی جیسے فرمایا : (فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ 92 ۝ ۙ ) 15 ۔ الحجر :92) اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مجرم اپنے گناہوں سے مکر جائیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ مجرموں سے نہیں پوچھے گا... ۔ بلکہ ان کی زبانوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں اور جلدوں کو بولنے کا حکم دے گا۔ وہ ان اثرات کو بیان کریں گے جو اس جرم کے دوران ان پر مرتب ہوئے تھے۔ اس طرح ان کے خلاف شہادت قائم ہوجائے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسَئَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنِسٌ وَّلَا جَآنٌّ : یعنی اس دن یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کون مجرم ہے اور اس نے کیا گناہ کیا ہے ، کسی انسان یا جن سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ، کیونکہ تمام مجرم اپنی علامت ہی سے پہچانے جائیں گے ، جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے :(یعرف المجرمون بسمھم) ” مجرم...  اپنی علامت سے پہچانے جائیں گے “۔ اور جیسا کہ سورة ٔ قصص میں فرمایا :(وَلَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ) (القصص : ٧٨)” اور مجرموں سے انکے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا ۔ “ ہاں ڈانٹنے ، ذلیل کرنے اور ملامت کرنے کے لیے ضرورپوچھا جائے گا : جیسا کہ فرمایا :(فَوَ رَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) الحجر : ٩٢، ٩٣)” سو تیرے رب کی قسم ہے ! یقینا ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے ۔ اس کے بارے میں جو وہ کیا کرتے تھے “۔ اور فرمایا :(وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ( الصافات : ٢٤)” اور انہیں ٹھہراؤ ، بیشک یہ سوال کیے جانے والے ہیں “۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Horrors of the Day of Resurrection فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْأَلُ عَن ذَنبِهِ إِنسٌ وَلَا جَانٌّ (On that day, neither a man will be questioned about his sin, nor a Jinn...55:39) One interpretation of this verse is that no one will be asked whether or not he had committed the sin, because it will have already been recorded by the angels in the ledger of deeds, and Allah has the Pre-Eternal knowle... dge of it. The question will be &why& did they commit the sin? This is the interpretation of Ibn ` Abbas (رض) . Mujahid (رح) interprets it as follows: There will be no need for the angels of punishment to question the criminals whether or not they committed the sin. They will be known by their special marks [ See verse (41) below ] clearly showing on their faces. The angels will be able to recognize them by the their distinguishing marks and hurl them into the Hellfire according to the type of misdeeds they might have committed. A composite interpretation of the two explanations is as follows: This event will take place when people will have given account of their deeds, and judgment will have been passed against the criminals to go to Hell on the Day of Reckoning. They will not be questioned nor will any negotiation be held about their sins at that stage. Their characteristic signs will be seen on their faces, and accordingly they will be hurled into Hell. Qatadah (رح) says that the verse refers to a stage after they will have been questioned about their sins, but they will have refused under oath. Then their mouths and tongues will be sealed, and their hands and feet will be asked to bear witness. At that stage no more questions will be asked from them. Ibn Kathir notes all three explanations. They are close to each other, and thus there is no conflict.  Show more

فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ، یعنی اس دن کسی انسان یا جن سے اس کا گناہ نہ پوچھا جائے گا، اس کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے قیامت میں یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے فلاں جرم کیا ہے یا نہیں، وہ تو فرشتوں کے لکھے ہوئے اعمالناموں...  میں محفوظ اور اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں اس سے پہلے سے موجود ہے، بلکہ سوال یہ ہوگا کہ فلاں جرم تم نے کیوں کیا، یہ تفسیر ابن عباس کی ہے، اور مجاہد نے فرمایا کہ فرشتے جو مجرمین کے عذاب پر مامور ہیں ان کو مجرمین سے پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ تم نے یہ جرم کیا ہے یا نہیں بلکہ ہر جرم کی ایک خاص نشانی مجرمین کے چہروں سے ظاہر ہوگی، فرشتے وہ نشانی دیکھ کر ان کو جہنم میں دھکیل دیں گے، اگلی آیت میں یہی مضمون آیا ہے (يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰهُمْ ) ان دونوں تفسیروں کا حاصل یہ ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ محشر میں حساب کتاب کے بعد مجرمین کے جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ ہوچکے گا، تو اب ان سے ان کے گناہوں کے بارے میں کوئی گفتگو نہ ہوگی وہ علامت سے پہچان کر جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ یہ اس وقت کا حال ہے جب ایک مرتبہ ان سے ان کے جرائم کی پرسش ہوچکے گی اور وہ انکار کردیں گے، قسمیں اٹھالیں گے، تو ان کے مونہوں اور زبانوں پر مہر کردی جائے گی، ہاتھوں، پاؤں کی گواہی لی جائے گی، یہ تینوں تفسیریں ابن کثیر نے نقل کی ہیں، تینوں متقارب ہیں کوئی اختلاف نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذَنْۢبِہٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ۝ ٣٩ ۚ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ...  ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ جان وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] ، قيل : ضرب من الحيّات . اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩۔ ٤٠) اور قیامت کے دن حساب کے بعد کسی انسان اور جن سے اس کے عمل کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا کیونکہ مومن خودبخود اپنے سفید چمکدار چہرے سے پہچانا جائے گا یا یہ کہ کسی انسان اور جن سے اس کے جرم کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩{ فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْئَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَآنٌّ ۔ } ” تو اس روز پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی ‘ نہ کسی جن سے اور نہ انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں۔ “ اگرچہ سوال و جواب بھی ہوں گے اور ایک ایک عمل کا حساب بھی ہوگا ‘ لیکن چونکہ ہر انسان اپنے اندرونی احوال کو خوب سمجھتا ہے : { ب... َلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۔ } (القیامۃ) اس لیے میدانِ حشر میں ہر شخص کا چہرہ ہی گویا اس کے انجام کی خبر دے رہا ہوگا۔ اس کیفیت کا نقشہ قرآن میں جابجا دکھایا گیا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے ‘ جبکہ کچھ چہروں پر مردنی چھارہی ہوگی۔ اس کیفیت کی عملی مثال ہمارے ہاں اسکولوں کے سالانہ نتائج کے اعلان کے موقع پر دیکھنے میں آتی ہے۔ چونکہ ہر طالب علم کو امتحان کے دوران اپنی کارکردگی کے بارے میں پہلے سے معلوم ہوتا ہے ‘ اس لیے نتائج کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی ہر ایک کا نتیجہ اس کے چہرے پر سے پڑھا جاسکتا ہے ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 This is being explained by the subsequent sentence: "The culprits there shall be recognized by their faces." It means that in that great assembly where aII the former and the latter generations will have gathered together, there will be no need to ask as to who are the culprits, nor will any man or jinn need be asked whether he is a culprit or not. The dejected faces of the culprits, their terr... or-stricken eyes, their disturbed and alarmed countenances will themselves be enough to expose the secret that they are the culprits. When a crowd comprising both the guilty and the innocent people, is encircled by the police, the calm and tranquil of the innocent people and the bewildered and disturbed state of the guilty ones tell at one glance as to who in the crowd is the culprit and who is innocent. This general rule is in most cases belied in the world, because the worldly police do not enjoy the reputation of being fair and just, rather on many an occasion they have turned out to be more bothersome for the gentle and innocent people than for the culprits. Therefore, here it is possible that when encircled by the police the gentle and innocent people might become even more terror-stricken than the criminals, but in the Hereafter, when every noble person will have complete faith in the justice of AIlah, bewilderment will afflict only those whose conscience will be conscious of their being the culprits themselves, and who on their very arrival in the Court of God will become certain of their doom, which they had regarded as impossible or doubtful in the world and so had been committing every heinous sin and crime.  Show more

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :36 اس کی تشریح آگے کا یہ فقرہ کر رہا ہے کہ مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس عظیم الشان مجمع میں جہاں تمام اولین و آخرین اکٹھے ہوں گے ، یہ پوچھتے پھرنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ کون کون لوگ مجرم ہیں ۔ نہ کسی انسان یا جن سے یہ دریافت کرنے کی ... ضرورت پیش آئے گی کہ وہ مجرم ہے یا نہیں ۔ مجرموں کے اترے ہوئے چہرے اور ان کی خوف زدہ آنکھیں اور ان کی گھبرائی ہوئی صورتیں اور ان کے چھوٹتے ہوئے پسینے خود ہی یہ راز فاش کر دینے کے لیے کافی ہوں گے کہ وہ مجرم ہیں ۔ پولیس کے گھیرے میں اگر ایک ایسا مجمع آ جائے جس میں بے گناہ اور مجرم ، دونوں قسم کے لوگ ہوں ، تو بے گناہوں کے چہرے کا اطمینان اور مجرموں کے چہروں کا اضطراب بیک نظر بتا دیتا ہے کہ اس مجمع میں مجرم کون ہے اور بے گناہ کون ۔ دنیا میں یہ کلیہ بسا اوقات اس لیے غلط ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی پولیس کے لیے بے لاگ انصاف پسند ہونے پر لوگوں کو بھروسا نہیں ہوتا ، بلکہ بار ہا اس کے ہاتھوں مجرموں کی بہ نسبت شریف لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں ، اس لیے یہاں یہ ممکن ہے کہ اس پولیس کے گھیرے میں آ کر شریف لوگ مجرموں سے بھی زیادہ خوف زدہ ہو جائیں ۔ مگر آخرت میں ، جہاں ہر شریف آدمی کو اللہ تعالیٰ کے انصاف پر کامل اعتماد ہو گا ، یہ گھبراہٹ صرف ایک ان ہی لوگوں پر طاری ہو گی جن کے ضمیر خود اپنے مجرم ہونے سے آگاہ ہونگے اور جنہیں میدان حشر میں پہنچتے ہی یقین ہو جائے گا کہ اب ان کی وہ شامت آ گئی ہے جسے ناممکن یا مشتبہ سمجھ کر وہ دنیا میں جرائم کرتے رہے تھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: یعنی سوال وجواب اور حساب و کتاب کا مرحلہ تو اس وقت گزرچکا ہوگا جس میں ان لوگوں سے حجت قائم کرنے کے لئے سوالات بھی کئے گئے تھے، لیکن اب ان کو دوزخ میں ڈالنے کے لئے نہ تو اللہ تعالیٰ کو کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہوگی کہ اس نے کیا گناہ کیا تھا، کیونکہ اسے خود ہی معلوم ہے، اور نہ فرشتوں کو ضرورت ہوگی...  کیونکہ جیسا اگلی آیت میں آرہا ہے، مجرم لوگ اپنے چہرے کی علامتوں ہی سے پہچان لئے جائیں گے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:39) فیومئذ : ای یوم اذ تنشق السماء جسما ذکر : یعنی جس دن حسب ذکر بالا آسمان پھٹ جائے گا۔ لایسئل عن ذنبہ انس ولا جان۔ (اس روز) کسی انسان و جن سے اس کے جرم کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) اپنی تفسیر مظہری میں اس آیت کی شرح میں لکھتے ہیں :۔ یعنی یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ...  تم نے یہ کام کیا تھا یا نہیں کیا تھا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو پہلے ہی اس کا علم ہوگا۔ اور اعمال ناموں والے فرشتے اعمال لکھ ہی چکے ہوں گے اور عذاب والے فرشتے دیکھتے ہی پہچان لیں گے۔ ہاں اعمال کی باز پرس ہوگی یعنی یہ پوچھا جائے گا کہ جب تم کو ممانعت کردی گئی تھی تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اور جب کرنے کا حکم دیدیا گیا تھا تو ایسا کیوں نہیں کیا۔ اس وضاحت کے بعد اس آیت میں اور آیت فوربک لنسئلنہم اجمعین عما کانوا یعملون (15:9293) میں تضاد پیدا نہیں ہوتا۔ ترجمہ : تیرے پروردگار کی قسم ہم ان سے ضرور باز پرس کریں گے ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی ان سے گناہوں کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے۔ قیامت کے دن متعدد مواقع ہوں گے۔ یہ ایک موقع کا ذکر ہے دوسرا موقع وہ ہوگا جب ان سے سوال کیا جائیگا جیسا کہ فرمایا فوربک لنسئلنھم اجمعین اور تیرے رب کی قسم ہم ان سے ضر... ور باز پرس کرینگے۔ (حجر 92) یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز ان سے جو سوال ہوگا وہ گناہوں کی دریافت کے لئے نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو خود ہی تمام گاہوں کا علم ہے بلکہ اس لئے ہوگا کہ گنہگاروں کو ملامت کی جائے واللہ اعلم (قرطبی ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے یعنی ھساب اس غرض سے نہ ہوگا بلکہ خود ان کو معلوم کرانے اور جتلانے کے لئے سوال اور حساب ہوگا اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فیومئذ ................ ولاجان فبای الا ربکما تکذبن (٠ 4) (44: ٩٣۔ ٠ 4) ” اسی روز کسی انسان اور کسی جن سے اس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی ، پھر (دیکھ لیا جائے گا کہ) تم دونوں گروہ اپنے رب کے کن کن احسانات کا انکار کرتے ہو۔ “ قیامت کے مقامات میں سے یہ بھی ایک مقام ہوگا اور اس میں مختلف مقامات ہو... ں گے۔ بعض جگہ بندوں سے ان کے کام کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ بعض مقامات میں کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ بعض جگہ مجرم اپنے بارے میں جھگڑ رہے ہوں گے اور اپنے کرتوتوں کی ذمہ داری شرکاء پر ڈالیں گے۔ بعض مقامات ایسے ہوں گے کہ وہاں بولنے کی کوئی اجازت نہ ہوگی۔ نہ جھگڑنے کی اجازت ہوگی۔ قیامت کا دن طویل ہوگا اور اس میں طرح طرح کے موقف ہوں گے۔ ایک موقف یہ ہوگا کہ اس میں کسی سے کچھ بات نہ پوچھی جائے گی جبکہ لوگوں کی صفات اور اعمال بالکل واضح ہوں گے اور ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور طے ہوگا کہ جہنمی ہے اور بعض کے چہرے سفید ہوں گے اور طے ہوگا کہ گرین چینل والا ہے اور یہ صفات ان کے چہروں اور حالات سے عیاں ہوں گی۔ کیا اس وقف کا کوئی انکار کرسکتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” فیومئذ۔ الایۃ “ ظرفف یعرف سے متعلق ہے اور اصل میں فاء یعرف پر تھی، ظرف کو مقدم کیا گیا تو فاء اس پر رکھ دی گئی (رضی) حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن مجرم جنوں اور انسان سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھنے کی ضروری ہی نہیوں ہوگی بلکہ مجرمین اپنی مخصوص علامات سے پہچان لیے جائیں گے اور ان کو پیشانی کے ... بالوں اور پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائیگا ایک فرشتہ بالوں سے اور دوسرا پاؤں سے پکڑے گا جیسا کہ سورة ق میں ارشاد ہے۔ القیا فی جہنم۔ الایۃ “ صیغہ تثنیہ دو پر دلالت کرتا ہے اور حقیقت پر محمول ہے تثنیہ سے تکرار مراد نہیں۔ ” سیماھم “ ان کے چہروں پر اہل جہنم کی مخصوص علامات ہوں گی جن سے وہ پہچانے جائیں گے مثلا چہروں کی سیاہی آنکھوں کا نیلا پن اور حزن و ملال کے آثار وغیرہ۔ وسیماھم علی ماروی عن الحسن سواد الوجوہ وزرقۃ العیون وقیل ما یعلوھم من الکابۃ والحزن (روح ج 27 ص 114) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) پھر اس دن کسی انسان سے اور کسی جن سے اس کے گناہوں کو معلوم کرنے کی غرض سے دریافت نہیں کیا جائے گا۔ یعنی جو سوال گناہوں سے ہوگا اس کی غرض یہ نہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کو مجرم کے گناہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوگی بلکہ مجرم پر جرم ثابت کرنے اور ان گناہوں کا اقرار کرانے کی غرض سے ہوگا۔ جیسا کہ فرمایا فورب... ک لنئلنھم اجمعین یعنی سوال تو ضرور ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کو بتانے اور معلوم کرانے کی غرض سے نہیں ہوگا بلکہ جرم ثابت کرنے کی غرض سے ہوگا اور زجرتوبیخ کی غرض سے ہوگا۔  Show more