Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 41

سورة الرحمن

یُعۡرَفُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ بِسِیۡمٰہُمۡ فَیُؤۡخَذُ بِالنَّوَاصِیۡ وَ الۡاَقۡدَامِ ﴿ۚ۴۱﴾

The criminals will be known by their marks, and they will be seized by the forelocks and the feet.

گناہگار صرف حلیہ سے ہی پہچان لیے جائیں گے اور ان کی پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ ... The criminals will be known by their marks, i.e., by special marks that distinguish them. Al-Hasan and Qatadah said, "They will be known by their dark faces and their blue eyes." I say that this contrasts to the marks that will distinguish the believers, such as the light that will appear on the parts of the body that they used to wash while performing ablution. Allah said, ... فَيُوْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالاَْقْدَامِ and they will be seized by their foreheads and feet. meaning, the angels of punishment will bend their heads down to their feet and throw them like this into the Hellfire. Al-A`mash said that Ibn Abbas said, "He will be taken by his forehead and his feet and be broken just as a stick is broken to be thrown into an oven." فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 یعنی جس طرح اہل ایمان کی علامت ہوگی کہ ان کے اعضائے وضو چمکتے ہونگے، اسی طرح گنہگاروں کے چہرے سیاہ، آنکھیں نیلگوں اور وہ دہشت زدہ ہونگے۔ 41۔ 2 فرشتے ان کی پیشانیاں اور ان کے قدموں کے ساتھ ملا کر پکڑیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے، یا کبھی پیشانیوں سے اور کبھی قدموں سے انہیں پکڑیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] ان کی خوف زدہ آنکھیں، گبھرائے ہوئے اور اترے ہوئے چہرے، دبی ہوئی آوازیں اور انہیں چھوٹتے ہوئے پسینے اس بات کی پہچان کے لیے کافی ہوں گے کہ یہ مجرم ہیں خواہ وہ جن ہوں یا انسان۔ ہر شخص ان کے چہرے پر مایوسی کے آثار اور چھائی ہوئی مردنی سے انہیں شناخت کرلے گا فرشتے ان کی پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ کر انہیں گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے ان کی پیشانی اور قدموں کو اس طرح چلا دیں گے کہ ان کی ہڈی پسلی چور چور ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰہُمْ ۔۔۔ (٥٦) یعنی ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ، جیسا کہ فرمایا (یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج) (آل عمران : ١٠٦) ” جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے “۔ آنکھیں نیلی ہوں گی ، جیسا کہ فرمایا :(وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ زُرْقًا ) طہٰ : ١٠٢) ” اور ہم مجرموں کو ان دن اس حال میں اکٹھا کریں گے کہ نیلی آنکھوں والے ہوں گے “۔ اور اعمال نامے پیٹھ کے پیچھے بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھے ہوں گے ۔ دیکھئے سورة ٔ انشقاق (١٠) اور سورة ٔ حاقہ (٢٥) ۔ ٢۔ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ : یعنی ہر مجرم کو پیشانی کے بالوں اور قدموں سے پکڑ کر جہنم میں پھنک دیا جائے گا ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يُعْرَ‌فُ الْمُجْرِ‌مُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ (The guilty ones will be recognized [ by the angels ] by their marks and will be seized by foreheads and feet...55:41). The word sima means &a sign&. Hasan Basri (رح) says that the day when sentence will be passed against the guilty to go to Hell, the following will be their signs: They will be known by their dark faces and their blue eyes. Through grief their faces will turn pale. The angels will recognize the guilty by these signs and seize them. The word نَّوَاصِي nawasi is the plural of نَاصِیۃُ nasiyah, and means &forelock&. Some will be dragged by their forelocks, and others will be dragged by their feet. Or it could mean that sometimes they will be dragged by their forelocks and at other times they will be dragged by their feet. The third explanation could be that the angels of punishment will bend their foreheads down to their feet and tie the forelocks to the feet, and throw them into the Hellfire. Allah knows best!

يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰهُمْ فَيُؤْخَذُ بالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَامِ ، سیماء کے معنی علامت کے ہیں، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس روز مجرمین جن کو جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ ہوگا ان کی علامت یہ ہوگی کہ چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں ہوں گی، رنج و غم سے چہرے فق ہوں گے، فرشتے اسی علامت کے ذریعہ ان کو پکڑیں گے۔ نواصی ناصیتہ کی جمع ہے پیشانی کے بالوں کو کہا جاتا ہے نواصی اور اقدام سے پکڑنے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو سر کے بال پکڑ کر گھسیٹا جائے گا، کسی کا ٹانگیں پکڑ کر یا کبھی اس طرح کبھی اس طرح گھسیٹا جائے گا اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پیشانی کے بالوں اور ٹانگوں کو ایک جگہ جکڑ دیا جائے گا (کذا قالہ الضحاک، روح) واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰہُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَامِ۝ ٤١ ۚ عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ وسم الوَسْمُ : التأثير، والسِّمَةُ : الأثرُ. يقال : وَسَمْتُ الشیءَ وَسْماً : إذا أثّرت فيه بِسِمَةٍ ، قال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح/ 29] ، وقال : تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة/ 273] ، وقوله : إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر/ 75] ، أي : للمعتبرین العارفین المتّعظین، وهذا التَّوَسُّمُ هو الذي سمّاه قوم الزَّكانةَ ، وقوم الفراسة، وقوم الفطنة . قال عليه الصلاة والسلام : «اتّقوا فراسة المؤمن فإنّه ينظر بنور الله» وقال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم/ 16] ، أي : نعلّمه بعلامة يعرف بها کقوله : تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] ، والوَسْمِيُّ : ما يَسِمُ من المطر الأوّل بالنّبات . ( وس م ) الوسم ( ض ) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ وسمت الشئی وسما میں نے اس پر نشان لگایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم/ 16] ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ؛ یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہو سکے گی ۔ جیسا کہ مو منین کے متعلق فرمایا : ۔ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لوگے ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح/ 29] کثرت سجود گے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة/ 273] اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے ۔ التوسم کے معنی آثار وقرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر نا کے ہیں اور اسے علم ذکانت فراصت اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر/ 75] بیشک اس ( قصے ) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں ۔ یعنی ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے نشا نات ہیں الوسمی ۔ موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ نوص ناص إلى كذا : التجأ إليه، وناص عنه : ارتدّ ، يَنُوصُ نَوْصاً ، والمناص : الملجأ . قال تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] . ( ن وص ) ناص الیٰ کذا کے معنی کسي کے پاس پناہ لینے کے ہیں اور ناص عنہ ینوص نوصا کے معنی کسی کام سے پیچھے ہٹ جانا اور اس سے پھرجانا کے ہیں ۔ اور مناص جائے پناہ کو کہتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] نواصی جمع ہے اس کا واحد ناصیۃ ہے۔ پیشانیاں، پیشانیوں کے بال قدم ( پاؤں) القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، ( ق د م ) القدم انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اور مجرم اپنے حلیہ سے پہچانے جائیں گے کیونکہ مشرکین کی سیاہ صورتیں اور نیکی آنکھیں ہوں گی سو ان کے سر کے بال اور پاؤں پکڑ لیے جائیں گے اور ان کو گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١{ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰہُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ ۔ } ” پہچان لیے جائیں گے مجرم اپنے چہروں سے ‘ پھر ان کو پکڑ اجائے گا پیشانی (کے بالوں) سے اور پائوں سے۔ “ اس دن مجرمین کے اترے ہوئے چہرے ہی ان کی پہچان ہوں گے۔ چناچہ فرشتے انہیں ٹانگوں اور پیشانی کے بالوں سے پکڑ پکڑ کر جہنم کی طرف اچھالتے جائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:41) یعرف المجرمون : یعرف : مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ عرفان (باب ضرب) مصدر۔ المجرمون : اسم فاعل جمع مذکر اجرام (افعال) مصدر۔ جرم کرنے والے ۔ گناہ کرنے والے۔ نائب فاعل ۔ گنہگار لوگ پہچانے جائیں گے۔ بسیمہم : ب حرف جر۔ سیماہم مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور۔ سیما کے معنی نشانی۔ اور علامت کے ہیں۔ یہ اصل میں وسعی تھا۔ واؤ کا فاء کلمہ کی بجائے ع کلمہ کی جگہ رکھا گیا۔ تو سومی ہوا۔ پھر واؤ ماقبل مکسور واؤ کو یاء کرلیا گیا اور سیمی ہوگیا۔ ان کا چہرہ ۔ ان کی نشانی۔ اس صورت میں اس کا مادہ و س م ہے۔ مادہ س و م سے السیماء کے معنی علامت کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے :۔ سیماہم فی وجوھہم من اثر السجود (48:29) کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ فیؤخذ بالنواصی والاقدام : ف ترتیب کا ہے یؤخذ فعل مضارع مجہول واحد مذکر غائب ۔ اخذ (باب نصر) مصدر۔ ب تعدیہ کی ہے۔ اخذ ب کے ساتھ اور بغیر ب کے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اخذت الخطام واخذت بالخطام : میں نے نکیل سے (اونٹ) کر پکڑا۔ نواصی جمع ہے اس کا واحد ناصیۃ ہے۔ پیشانیاں، پیشانیوں کے بال ۔ واؤ عاطفہ ہے الاقدام معطوف جس کا عطف نواصی پر ہے۔ اقدام جمع ہے قدم کی بمعنی پاؤں۔ ترجمہ : گنہگار ان کے چہروں سے پہچانے جائیں گے پھر ان کی پیشانی کے بالوں سے اور ٹانگوں سے پکڑ لیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ جس روز کچھ چہرے سفید ہونگے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔ (آل عمران :106 اور یہ کہ ونحشر المجرمین یومئذ زرقا اور اس روز ہم مجرموں کو جمع کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلگوں ہوں گی۔ (طہ 102) 13 یعنی ایک زنجیر سے پیشانی اور پائوں دونوں کس کر جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے یا کبھی فرشتے انہیں مشانی کے اوپر کے بال پکڑ کر گھسیٹیں اور کبھی پائوں پکڑ کر۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یہ پہچان موقوف علیہ تعیین مجرمین کی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کسی حکمت سے اسی طرح واقع کردیں گے، اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعرف ................ تکذبن (٣ 4) (55: ١ 4 ۔ ٢ 4) ” مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پاؤں پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔ اس وقت تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے۔ “ یہ ایک سخت منظر ہے اور توہین آمیز بھی کہ جب ماتھوں اور پیشانی کے بالوں سے اور پاؤں سے پکڑکر کھینچے جائیں گے یعنی ماتھے اور پاؤں اکٹھے ہوں گے اور اس حالت میں جہنم رسید۔ کیا ایسے حالات میں تکذیب ہوگی۔ یہ منظر پیش نظر ہے۔ لوگوں کو پاؤں اور سر کے بالوں سے پکڑ پکڑ کر جہنم میں پھینکا جارہا ہے اور جو لوگ اس منظر کو دیکھ رہے ہیں وہ بھی گویا جہنم کے کنارے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔ ان سے بھی کہا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) گناہگار اپنے چہرے کی علامت اور حلیے سے پہچانے جائیں گے پھر اس گناہ گار کو اس کی پیشانی کے بال اور اس کے پائوں ملا کر پکڑا جائے گا۔ یعنی سیاہ چہ رہے اور نیلی نیلی آنکھوں سے پہچانے جائیں گے اور جہنم میں ڈالتے وقت پیشانی کے بال اور ان کے پائوں پکڑ کر ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔