Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 5

سورة الرحمن

اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ ﴿۪۵﴾

The sun and the moon [move] by precise calculation,

آفتاب اور مہتاب ( مقررہ ) حساب سے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The sun and the moon (run) on fixed courses. They move in their orbit in perfect succession, according to precise calculation that is never delayed nor disturbed, لااَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَأ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلااَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ It is not for the sun to overtake the moon, nor does the night outstrip the day. They all float, each in an orbit. (36:40), فَالِقُ الاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (He is the) Cleaver of the daybreak. He has appointed the night for resting, and the sun and the moon for calculating. Such is the measuring of the Almighty, the All-Knowing. (6:96), Allah said, وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حساب سے اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] چاند اور سورج میں نظم کی بنا پر انسانوں کو پہنچنے والے فائدے :۔ سورج اور چاند کا ایک مقررہ رفتار کے مطابق چلنا۔ پھر اس میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر نہ ہونا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ سورج سے دن رات ادل بدل کر آتے رہتے ہیں اور موسموں میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نمازوں کے اوقات کا تعلق بھی سورج سے ہے۔ فصلوں کے پکنے کا انحصار بھی سورج سے ہے۔ چاند سے ہمیں رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے۔ ہم مہینوں اور سالوں کا حساب رکھ سکتے ہیں اور یہی حقیقی اور فطری تقویم ہے۔ اسی لیے رمضان کے روزے، حج، عیدیں اور دوسری قابل شمار مدتوں مثلاً مدت حمل، مدت رضاعت و عدت وغیرہ کا تعلق چاند سے ہوتا ہے۔ پھر سورج اور زمین کے درمیان ایسا مناسب فاصلہ رکھا گیا ہے۔ کہ اس میں کمی بیشی سے اس زمین پر انسان اور دوسرے سب جانداروں کی زندگی ہی ناممکن ہے۔ اور سب فائدے اسی صورت میں حاصل ہورہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الجثہ کروں کو ایسے طبعی قوانین میں جکڑ رکھا ہے جس سے وہ ادھر ادھر ہو ہی نہیں سکتے اور اپنے مقرر مداروں پر مقررہ رفتار سے ہمہ وقت محو گردش رہتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ :” حسبان “ ” حسب یحسب “ کا مصدر ہے ، جس میں ” الف نون “ زیادہ کردیا گیا ہے ، جس سے معنی میں اضافہ ہوگیا ہے ، جیسے ” طغیان “ ” رجحان “ اور ” کفران “ وغیرہ میں ہے۔ یعنی سورج اور چاند نہایت محکم اور باریک حساب کے ساتھ چل رہے ہیں ، آسمان کے نیچے ثوابت و سیار ستاروں کا کوئی شمار نہیں ، جن میں سے بعض سورج اور چاند سے بھی ہزاروں گنا بڑے ہیں ۔ ان کی پیدائش اور گردش میں اللہ تعالیٰ کی بےحساب حکمتوں کا بھی کچھ شمار نہیں ، مگر خاص طور پر سورج اور چاند کا ذکر اس لیے فرمایا کہ نمایاں نظر آنے کی وجہ سے زمین کے رہنے والوں کے معاملات کا ان دونوں کے ساتھ زیادہ تعلق ہے۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں :’ ’ سورج اور چاند کا ایک مقرر رفتار کے مطابق چلنا ، پھر اس میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر نہ ہونا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ سورج سے دن رات ادل بدل کر آتے رہتے ہیں اور موسموں میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نمازوں کے اوقات کا تعلق بھی سورج سے ہے، فیصلوں کے پکنے کا انحصار بھی سورج سے ہے۔ چاند سے ہمیں رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے، ہم مہینوں اور سالوں کا حساب رکھ سکتے ہیں اور یہی حقیقی اور فطری تقویم ( کیلنڈر) ہے۔ اسی لیے رمضان کے روزے ، حج ، عیدین اور دوسری قابل شمار مدتوں ، مثلاً مدت ِ حمل ، مدت ِ رضاعت و عدت وغیرہ کا تعلق چاند سے ہوتا ہے۔ پھر سورج اور زمین کے درمیان ایسا مناسب فاصلہ رکھا گیا ہے کہ اس میں کمی بیشی سے اس زمین پر انسان اور دوسرے سب جانداروں کی زندگی ہی ناممکن ہے اور سب فائدے اسی صورت میں حاصل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الجثہ کروں کو ایسے طبعی قوانین میں جکڑ رکھا ہے جس سے وہ ادھر ادھر ہو ہی نہیں سکتے اور اپنے مقرر مداروں پر مقررہ رفتار سے ہمہ وقت محو گردش رہتے ہیں “۔ ( تیسیر القرآن ) مزید دیکھئے سورة ٔ انعام (٩٦) سورة ٔ بنی اسرائیل (١٢)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Allah&s Signs الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ‌ بِحُسْبَانٍ (The sun and the moon are [ bound ] by a [ fixed ] calculation...55:5) This verse draws attention to two of the celestial bodies from among the bounties of Allah. They are especially mentioned presumably because the entire system of this world depends on the movement of these bodies in their orbits in perfect succession, according to precise calculation that is never delayed nor disturbed. The word حُسْبَانٍ husban with dammah [=u ] on the first letter is, according to some lexicologists, used in the sense of hisab, the infinitive, meaning &to calculate&, like ghufran [ to forgive ], 3 subhan [ to declare purity ], قرآن Qur&an [ to recite or read ]. Other lexicologists feel that husban is the plural of hisab. The meaning of the verse, according to the former lexicologists, would be: The two bodies, on which depends man&s entire life, run on fixed courses. They are subject to certain laws and they perform regularly, punctually and unerringly their allocated tasks - alternation of night and day, change of seasons and determination of years and months. If we go by the latter lexicologists& interpretation that husban is the plural of hisab, then it will refer to the fact that each of the sun and the moon has its own calculated orbits. The entire solar system is proceeding on the basis of different calculations, and each one of them is so firm and accurate that no deviation has ever occurred, since millions of years, even for a second. This age is regarded as an age of ascension for science. The marvelous new inventions of the scientific age have caused wonders even for the philosophers. However, there is a clear difference between human inventions and Divine creation, which every discerning person can observe. Human inventions are subject to a series of continuous breakdown and damage, which require to be serviced, repaired, overhauled or refurbished. A machine, no matter how strong or sophisticated, needs to be repaired or at least serviced after a while. If this is not done in time, it will remain useless. The huge Divine creation, on the other hand, needs no repairs, no service nor refurbishing at any time. Neither the solar system overtakes the lunar movement, nor does the lunar movement outstrip the solar system. The sun and the moon and other celestial bodies, each float and move in its own orbit.

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ ، انسان کے لئے حق تعالیٰ نے جو نعمتیں زمین و آسمان میں پیدا فرمائی ہیں اس آیت میں علویات میں سے شمس و قمر کا ذکر خصوصیت سے شاید اس لئے کیا ہے کہ عالم دنیا کا سارا نظام کار ان دونوں سیاروں کی حرکات اور ان کی شعاعوں سے وابستہ ہے اور لفظ حسبان بضم الحاء بعض حضرات نے فرمایا کہ حساب کے معنے میں مصدر ہے، جیسے غفران، سبحان، قرآن، اور بعض نے فرمایا کہ حساب کی جمع ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ شمس و قمر کی حرکات جن پر انسانی زندگی کے تمام کاروبار موقوف ہیں، رات دن کا اختلاف، موسموں کی تبدیلی، سال اور مہینوں کی تعیین، ان کی تمام حرکات اور دوروں کا نظام محکم ایک خاص حساب اور اندازے کے مطابق چل رہا ہے، اور اگر حسبان کو حساب کی جمع قرار دیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ ان میں سے ہر ایک کے دورہ کا الگ الگ حساب ہے، مختلف قسم کے حسابوں پر یہ نظام شمسی اور قمری چل رہا ہے اور حساب بھی ایسا محکم و مضبوط کہ لاکھوں سال سے اس میں ایک منٹ، ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا۔ یہ زمانہ سائنس کی معراج کا زمانہ کہا جاتا ہے اور اس کی حیرت انگیز نئی نئی ایجادوں نے عقلاء کو حیران کر رکھا ہے، لیکن انسانی مصنوعات اور ربانی تخلیقات کا کھلا ہوا فرق ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ انسانی مصنوعات میں بگاڑ اور سنوار کا سلسلہ ایک لازمی امر ہے، مشین کوئی کتنی ہی مضبوط و مستحکم ہو کچھ عرصہ کے بعد اس کو مرمت کی اور کم ازکم گریس وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت تک کے لئے وہ مشین معطل رہتی ہے، حق تعالیٰ کی جاری کی ہوئی یہ عظیم الشان مخلوقات نہ کبھی مرمت کی محتاج ہے نہ کبھی ان کی رفتار میں کوئی فرق آتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ۝ ٥ ۠ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ، وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] ، أي : رقیبا يحاسبهم عليه، وقوله : ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام/ 52] ، فنحو قوله : عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة/ 105] ، ونحوه : وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء/ 112- 113] ، وقیل معناه : ما من کفایتهم عليك، بل اللہ يكفيهم وإياك، من قوله : عَطاءً حِساباً [ النبأ/ 36] ، أي : کافیا، من قولهم : حسبي كذا، وقیل : أراد منه عملهم، فسمّاه بالحساب الذي هو منتهى الأعمال . وقیل : احتسب ابْناً له، أي : اعتدّ به عند اللہ الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام/ 52] ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت : ۔ عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة/ 105] اپنی جانوں کی حفاظت کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔ اور آیت : ۔ وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء/ 112- 113] مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں ان کا حساب ( اعمال ) میرے پروردگار کے ذمے ہے ۔ کے مفہہوم کے مطابق ہے بعض نے آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کو کافی ہونا تمہارا کام نہیں ہے ۔ بلکہ تیرے اور ان کے لئے اللہ ہی کافی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ عَطاءً حِساباً [ النبأ/ 36] میں حساب بمعنی کافی ہے اور یہ کے محاورہ سے لیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ۔ } ” سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔ “ سورج اور چاند کی گردش ایک قطعی اور مربوط نظام کا حصہ ہے۔ ان کی گردش سے ہی دن رات بنتے ہیں اور دنوں ‘ مہینوں اور سالوں کا حساب ممکن ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 That is, "It is a powerful law and unalterable system that binds the great planets together. Man is able to calculate and measure time, days, dates, and crops and seasons only because no change takes place in the rule that Has been laid down for the rising and setting of the sun and of its passing through different stages. The innumerable creatures found on the earth are staying alive only because the sun and the moon have been accurately and precisely placed at particular distances from the earth and any increase or decrease in this distance is made in the right measure, in a particular order; otherwise if their distance from the earth increased or decreased haphazardly, no one, could possibly survive here. Likewise, the perfect relationship and harmony that has been established between the movements of the moon round the earth and the sun, has made the moon a universal calendar, which announces the lunar date every night to the whole world with perfect regularity.

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :4 یعنی ایک زبردست قانون اور ایک اٹل ضابطہ ہے جس سے یہ عظیم الشان سیارے بندھے ہوئے ہیں ۔ انسان وقت اور دن اور تاریخوں اور فصلوں اور موسموں کا حساب اسی وجہ سے کر رہا ہے کہ سورج کے طلوع و غروب اور مختلف منزلوں سے اس کے گزرنے کا جو قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے اس میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا ۔ زمین پر بے حد و حساب مخلوق زندہ ہی اس وجہ سے ہے کہ سورج اور چاند کو ٹھیک ٹھیک حساب کر کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے اور اس فاصلے میں کمی و بیشی صحیح ناپ تول سے ایک خاص ترتیب کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ورنہ زمین سے ان کا فاصلہ کسی حساب کے بغیر بڑھ یا گھٹ جائے تو یہاں کسی کا جینا ہی ممکن نہ رہے ۔ اسی طرح زمین کے گرد چاند اور سورج کے درمیان حرکات میں ایسا مکمل تناسب قائم کیا گیا ہے کہ چاند ایک عالمگیر جنتری بن کر رہ گیا ہے جو پوری باقاعدگی کے ساتھ ہر رات ساری دنیا کو قمری تاریخ بتا دیتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:5) الشمس والقمر بحسبان : ای الشمس والقمر یجریان بحسبان۔ الشمس والقمر مبتدا۔ یجریان خبر (محذوف) بحسبان جار مجرور مل کر متعلق خبر۔ حسبان (باب نصر) مصدر ہے بمعنی حساب لگانا۔ شمار کرنا ۔ جیسے طغیان ، رجحان، غفران، کفران، مطلب یہ کہ سورج اور چاند ایک (سوچے سمجھے) حساب کے مطابق (چل رہے ہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ایک خاص حساب اور باضابطہ نظام ہے جس میں یہ دونوں عظیم الشان سیارے جکڑے ہوئے ہیں چناچہ ایک خاص وقت میں طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور ایک معین راستہ پر چلتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسان اس قابل ہوا ہے کہ وقتوں، دنوں تاریخوں اور مومنوں کا حساب رکھ سکے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة الرحمن میں مرکزی مضمون ” اللہ “ کی قدرتوں اور بڑی بڑی نعمتوں کا بیان ہے، ان میں شمس وقمر بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا ہے اور انہیں آپس میں اس طرح منضبط اور منسلک کیا ہے کہ سورج اپنی ڈیوٹی دے رہا ہے اور چاند اپنے کام پر لگا ہوا ہے، نہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ چاند سورج کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ (یٰس : ٣٨ تا ٤٠) یہ ایسا مضبوط نظام ہے جس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا اور فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ دن کو طویل کردے تو کون ہے جو رات کو لے آئے اور اگر وہ رات کو طول دے دے تو کون ہے جو سورج طلوع کرسکے ؟ (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّہَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) (القصص : ٧١ تا ٧٣) ” ان سے پوچھو کہ کیا تم نے غور کیا کہ اگر اللہ تم پر قیامت تک دن چڑھائے رکھے۔ تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے رات لائے گا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو کیا تم دیکھتے نہیں یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن کو اپنے رب کا فضل تلاش کرو اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ “ چاند کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ” لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرما دیجئے کہ اس سے اوقات (عبادت) اور حج کے ایام لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں۔ “ (البقرہ : ١٨٩) النجم کے مفسرین نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ النجم سے مراد ستارہ ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ النجم کا یہاں معنٰی بیل دار پودا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ شمس وقمر اور نجم وشجر سب اپنے رب کی تسبیح پڑھتے اور اس کی تابعداری کرتے ہیں۔ شمس و قمر نہ صرف اپنے مقررہ حساب کے مطابق چل رہے ہیں بلکہ شمس و قمر اور نجم و شجر اپنے رب کو سجدہ بھی کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے سجدے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے، نہ صرف اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہیں بلکہ اپنے انداز میں اس کی حمد وثناء بھی بیان کرتے ہیں۔ (الحج : ١٨) (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَ وَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَا اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہُ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْش) (رواہ البخاری : باب وکان عرشہ علی الماء ) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت چاہے لیکن اس کو اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چناچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے ہے۔ “ مسائل ١۔ سورج اور چاند ایک مقرر کردہ نظام کے مطابق چل رہے ہیں اور قیامت تک چلتے رہیں گے۔ ٢۔ شمس وقمر اور نجم و شجر اپنے رب کو سجدہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے : ١۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ ” اللہ “ کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٢۔ ہر چیز اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے۔ (الحدید : ١) ٣۔ ہر چیز اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٤۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل : ٤٨) ٥۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل : ٤٩) ٦۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن : ٦) ٧۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم : ٦٢) ٨۔ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٩۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ (الحج : ٧٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس کائنات کی نمائش گاہ میں دست قدرت کے بنائے ہوئے دو اور عجوبے۔ الشمس والقمر بحسبان (55:5) (سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں) شمس وقمر کی بناوٹ ان کی حرکت اور ہم آہنگی کو دیکھ کر انسان حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عظیم نظام ہے اور منظم کی عظمت پر دال ہے اور اس نظام کے اندر گہرے حقائق پوشیدہ ہیں اور اس سے نکلنے والے نتائج دور رس ہیں۔ سورج اجرام فلکی میں سے کوئی بہت بڑا کرہ نہیں ہے۔ اس فضا نے کائنات کے اندر جس کے حدود کا تعین انسان نہیں کرسکا ، کئی ملین ستارے ہیں جن میں سے بہت سے سورج سے بڑے ہیں اور زیادہ حرارت والے ہیں۔ زیادہ تیز روشنی والے ہیں۔ بعض تو بیس گناہ بڑے اور زیادہ گرم ہیں اور جن کی روشنی سورج کی روشنی سے پچاس گنا تیز ہے۔ شعری یمانی سورج سے بیس گناہ بھاری اور اس کی روشنی سورج کی روشنی سے پچاس گنا زیادہ ہے۔ سماک رائح سورج کے حجم سے اسی گنا بڑا حجم رکھتا ہے اور اس کی روشنی آٹھ ہزار گنا زیادہ تیز ہے۔ سہیل کا حجم سورج سے دو ہزار پانچ صد مرتبہ بڑا ہے۔ اسی طرح اور ستارے اور سیارے۔ لیکن ہمارے لئے سورج ہی زیادہ اہم ہے یعنی ہم زمین کے باشندوں کے لئے کیونکہ یہ زمین اور اس کی یہ حالت اور انسان کی زندگی سورج کی حرارت کی مرہون منت ہے اور اس میں سورج کی جاذبیت کو بھی بڑا دخل ہے۔ اس طرح چاند جو اس زمین کا ایک چھوٹا سا سیارچہ ہے لیکن اسے بھی اس زمین کی زندگی میں اہمیت حاصل ہے۔ سمندروں کے اندر مددجزر اسی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ سورج کا حجم ، اس کا درجہ حرارت ، ہم سے اس کا بعد ، اس کا اپنے مدار میں چکر لگانا ، اس طرح چاند کا حجم ، اس کی ہم سے دوری اور اپنے مدار میں گردش یہ سب امور نہایت ہی باریک حساب اور پیمانوں سے بنائے ہوئے ہیں اور زمین کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بمقابلہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کے۔ شمس وقمر کے بعض حسابات ہم یہاں درج کرتے ہیں کہ زمین کے حوالے سے ان کے ان حسابات میں ذرا بھی فرق آئے تو دوررس نتائج نکلیں۔ سورج زمین سے 5 لاکھ ٢٩ میل دور ہے۔ اگر یہ اس سے قریب تر ہوتا تو زمین جل جاتی اور تمام پانی بخارات میں بدل جاتا اور بخارات فضا میں بلند ہوجاتے اور اگر یہ ذرا اور دور ہوتا تو تمام چیزیں منجمد ہوجائیں۔ ہم تک سورج کی جو حرارت پہنچتی ہے ، وہ اس کی حرارت کے دو ملین حصوں میں سے ایک حصہ پہنچتی ہے اور ہماری موجودہ زندگی کے لئے یہی معمولی حرارت کافی ہے۔ اگر شعری اپنی موجودہ ضخامت اور حرارت کے ساتھ سورج کی جگہ ہوتا تو پورا کرہ ارض جل کر راکھ ہوجاتا اور پانی بخارات بن کر فضا آسمانی میں بکھر جاتا۔ اسی طرح چاند کا حجم اور ہم سے بعد ایک حساب سے رکھا گیا ہے۔ اگر یہ اس سے ذرا بھی بڑا ہوتا تو سمندر کے اندر اس قدر طوفان آتے کہ زمین بار بار ڈوبتی رہتی۔ اسی طرح اگر یہ ہم سے قریب ہوجاتا یعنی جہاں ہے تو بھی زمین پر طوفان مچا دیتا لیکن جہاں اللہ نے اسے رکھ چھوڑا ہے اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ سورج اور چاند کی جاذبیت زمین کے لئے ایک مقدار کے ساتھ متعین ہے اور ان کی رفتار کو بھی ایک نہایت ہی مضبوط حساب سے رکھا گیا ہے اور ہمارا یہ پورا کہکشاں اور مجموعہ شمسی بحساب بیس ہزار میل فی گھنٹہ ایک ہی سمت میں چل رہا ہے اور اس راہ میں وہ کسی دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرایا اور اس رفتار کے کئی ملین سال ہوگئے ہیں اور فضائے کائنات ختم نہیں ہوئی۔ اس وسیع فضائے آسمانی کے اندر کوئی ستارہ اپنے مدار سے ایک بال برابر بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا اور ان کے درمیان جو توازن اور ہم آہنگی رکھی گئی ہے ، اپنے حجم کے لحاظ سے یا حرکت کے لحاظ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ سچ فرمایا ذات باری نے : الشمس والقمر بحسبان (55:5) (تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں) سابقہ اشارہ یہ تھا کہ اس کائنات کی تخلیق وتشکیل میں ایک مضبوط حساب رکھا ہوا ہے اور یہ اشارہ اسی طرف ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کی ذات کے ساتھ مربوط ہے۔ یہ کہ یہ باری تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق چلتی ہے اور اس کی مطیع فرمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کائنات پوری طرح اللہ کی مطیع فرمان ہے جس طرح بندہ اور غلام مطیع ہوتا ہے اور اس کے لئے خالق نے جو ضوابط رکھے ہیں ، ان کو تسلیم کرتی ہے۔ ستارے اور درخت اس بندگی اور اطاعت کا نمونہ ہیں۔ بعض نے ستارے کا یہ مفہوم لیا ہے کہ اس سے وہ ستارہ مراد ہے جو آسمان میں ہے جبکہ بعض نے شجر سے مراد وہ گھاس لی ہے جو نال پر کھڑی نہ ہو۔ مراد جو بھی ہو ، بہرحال آیت کا مفہوم وہی ہے کہ تمام چیزوں کی اطاعت اور بندگی کا رخ اللہ کی طرف ہے۔ غرض یہ کائنات ایک ایسی مخلوق ہے جس کی ایک روح اور اسی روح کی شکلیں اور مظاہر اور درجے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی چیز میں کیسی روح ہے اور کسی میں کسی دوسری نوعیت کی روح در حقیقت روح کائنات ایک ہی ہے۔ قلب بشری نے روح کائنات کا ادراک بہت پہلے کرلیا تھا اور یہ کہ یہ پوری کائنات اپنی اس روح کے اعتبار سے خالق کی طرف متوجہ ہے۔ ہر شخص کو بذریعہ الہام لدنی اس حقیقت کا ادراک کرایا گیا تھا لیکن جب انسان نے اس روح کو اپنے حواص سے معلوم کرنے کیسعی کی تو اس حقیقت ، اس الہامی حقیقت کو غبار آلود کردیا گیا اور یہ انسانی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ جب بھی اس حقیقت کو عقل کے پائے چوبیں سے معلوم کرنے کی سعی کی گئی یہ بھاگ گئی۔ حال ہی میں انسان نے کائنات کی تخلیق میں علامات وحدت کا ایک حصہ تلاش کرلیا ہے لیکن موجودہ مادیت زدہ انسانیت روح کائنات تک نہیں پہنچ سکی جو ایک زندہ روح ہے اور اس تک روحانی انداز ہی میں پہنچنا چاہئے اور پہنچا جاسکتا ہے۔ سائنس دان اپنے کام کا آغاز اس سے کرتے ہیں کہ ذرہ تخلیق کی پہلی اکائی ہے اور وہ صرف شعاع یا نور سے مرکب ہے اور یہ کہ حرکت اصول کائنات ہے اور کائنات کے تمام اجسام اور افراد کے درمیان مابہ الاشتراک حرکت ہے۔ سوال بلکہ سوالات یہ ہیں کہ یہ کائنات حرکت کرکے جا کہاں رہی ہے۔ یہ تو کائنات کی صفت ہوئی اور خاصیت ہوئی۔ قرآن کریم یہ اطلاع دیتا ہے کہ یہ کائنات اپنے خالق کی طرف رخ کئے ہوئے ہے اور یہی حقیقی حرکت ہے۔ ظاہری حرکت دراصل روح کائنات کی حرکت کی ایک تعبیر ہے اور قرآن کریم اس روح کائنات کی حرکت کی تعبیر ایسے الفاظ میں کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چاند و سورج ایک حساب سے چلتے ہیں : ﴿ اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۪٠٠٥﴾ (چاند اور سورج کے لیے جو رفتاروں کے مدار مقرر فرما دیئے ہیں انہیں کے مطابق چلتے ہیں) اپنی رفتار میں آزاد نہیں ہیں، جیسے چاہیں چلیں جدھر کو چاہیں چلیں اور جب چاہیں چلیں اور جب چاہیں رک جائیں۔ یہ ان کے اختیار سے باہر ہے۔ سورة یٰسین میں فرمایا : ﴿وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِؕ٠٠٣٨ وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ ٠٠٣٩ لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ١ؕ وَ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ ٠٠٤٠﴾ (اور آفتاب اپنے ٹھکانہ کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس کا جو زبردست علم والا ہے اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ ایسا رہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور دونوں ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ’[ الشمس والقمر۔ الایۃ “ یہ توحید کی تیسری عقلی دلیل ہے۔ جو اشیاء اس کی قدرت کاملہ اور صنعت غریبہ پر دلیل ہیں ان کو اسی ترتیب سے ذکر فرمایا پہلے اوپر والی چیزیں۔ ” بحسبان “ کا متعلق محذوف ہے۔ ای یجریان بحسبان (روح) سورج اور چاند ایک حساب اور مقرر اندازے کے مطابق چل رہے ہیں ان کی رفتار معین، ان کا راستہ متعین اور ان کی مسافت معلوم جسے انہوں نے ایک مدت متعینہ سال یا مہینے میں طے کرنا ہے۔ اس کے بعد پھر نیچے والی چیزوں کا ذکر فرمایا۔ ” والنجم والشجر یسجدان “ النجم سے وہ نباتات مراد ہے جو زمین سے نکل کر زمین کی سطح پر ہی پھیل جاتی ہے اور تنے پر نہیں اٹھتی یعنی بیل اور الشجر وہ نباتات ہے جو تنے پر اٹھتی اور قد آور ہوجاتی ہے۔ یعنی درخت یا پودا (مدارک، روح، بحر) ۔ یعنی تمام اقسام نبات بھی اللہ کے سامنے سر بسجود اور اس کے حکم کی مطیع و منقاد ہیں سجود نبات کامل انقیاد اور کلی طور پر زیر تصرف ہونے سے کنایہ ہے یعنی زمین پر جس قدر سبزہ اور روئیدگی ہے سب اللہ کے تکوینی احکام کی پابند ہے ینقاد ان اللہ فیما یردی بھما طبعا انقیاد الساجدی من المکلفین طوعا (بیضاوی) لما ذکر تعالیٰ ما انعم بہ من منفعۃ الشمس والقمر وکان ذلک من الایات العلویۃ ذکر فی مقابلتہما من الاثار السفلیۃ النجم والشجر (بحر ج 8 ص 189) ۔ اوپر سورج چاند رواں دواں ہیں اور نیچے جڑی بوٹیاں اور درخت پیدا کردئیے اور ان میں سورچ چاند سے اثر قبول کرنے کی استعداد رکھ دی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) سورج اور چاند مقررہ حساب کے ساتھ چلتے ہیں سورج اور چاند کا ایک حساب ہے۔ یعنی مقررہ حساب سے اپنے برجوں اور اپنی منازل میں چلتے ہیں اور ان کے ساتھ بیشمار منافع مخلوق کے وابستہ ہیں۔